شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں25%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81041 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جب حضورؐ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابو لہب نے آپ کی تقریر سے پہلے یہ کہہ کر مجمع کو بھڑکا دیا کہ ان کی تقریر مت سنو یہ جادوگر ہیں ، تم نے ابھی ابھی دیکھا ہے کہ انھوں نے تھوڑے کھانے کو جادو کے ذریعہ زیادہ کر دیا ہے اگر تقریر سنوگے تو یہ جادو کے ذریعہ تم کو تمہارے مذہب سے منحرف کر دیںگے۔ مجمع یہ سن کر اٹھا اور چلا گیا۔ رسول کریمؐ نے پھر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج کر دوسرے دن کے لئے سب کو بلوایا اور کھانے کا بھی انتظام کیا۔ دوسرے دن بھی سب لوگ آئے اور نبیؐ کی برکت سے تھوڑا کھانا بہت ہو گیا۔ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی بچ رہا۔ آج ابو لہب نے پھر تقریر میں روکاوٹ ڈالنا چاہی تو جناب ابو طالب علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور ابو لہب کو سختی کے ساتھ ڈانٹا اور رسولؐ کریم سے عرض کی کہ اے میرے سردار آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہوں کہئے۔ رسولؐ نے اسلام پیش کیا۔ خدا کی توحید کا پیغام سنایا ، اپنی نبوت کا اعلان کیا اور اس کے بعد فرمایا۔

"جو شخص ہدایت کے کام میں میری مدد کرےگا میں اُسے اپنا بھائی ، وصی اور وزیر مقرر کروںگا۔ وہ میرے بعد میرا خلیفہ اور جانشین ہوگا اس کی اطاعت لوگوں پر میری طرف سے واجب ہوگی۔ "

نبیؐ کی آواز پر کسی نے آواز نہ دی صرف دس سال کے کمسن علیؐ نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ " میں مدد کا وعدہ کرتا ہوں "۔ رسولؐ اسلام نے حضرت علی علیہ السلام کی پشت پر ہاتھ رکھ کر آپ کو مجمع کے سامنے کیا اور یہ اعلان فرمایا کہ۔ انھوں نے میری مدد کا وعدہ کیا ، لہذا یہ میرے بھائی وصی اور وزیر ہیں۔ میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہیں میں ان کو اپنی طرف سے حاکم مقرر کرتا ہوں۔ انکی اطاعت تم سب پر واجب ہے۔ ابو لہب نے جل کر جناب ابو طالب علیہ السلام کو طعنہ دیا۔

۲۱

" محمدؐ تم کو بیٹے کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں" ۔

جناب ابو طالب علیہ السلام نے جواب دیا کہ

" میرا بھتیجا جو بات بھی کہتا ہے وہ بہرحال خیر ہے "۔

اس واقعہ کا نام دعوت ذوالعشیرہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے زندگی بھر اپنی جان اور مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی اور آپ کے بعد آپ کی پاک نسل یعنی گیارہ اماموںؐ نے دین کی مدد میں اپنی پاکیزہ زندگیاں صرف کیں۔ حضرت امیرؐ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور رسول اللہؐ نے بھی اپنے وعدہ کا ایفا فرمایا۔ حضرت علی علیہ السلام کو اور ان کے بعد ان کی نسل کے گیارہ اماموںؐ کو اپنا نائب ، جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔

یہ کہنا کہ حضورؐ انتقال کے وقت کسی کو خلیفہ بنا کر نہیں گئے بلکہ امت کو خلیفہ بنانے کا حق دے گئے غلط ہے اور رسول عظیمؐ کی پاک اور بے داغ سیرت پر وعدہ خلافی کا الزام بھی ہے۔ کوئی سچا مسلمان اپنے نبیؐ پر وعدہ خلافی کا الزام لگانا پسند نہیں کرےگا۔ لہذا رسولؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بلا فصل خلیفہ ماننا ہر سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے۔

دوسری دلیل ۔

رسالتمابؐ نے اپنے انتقال سے دو مہینے دس دن پہلے اٹھارہ ذی الحجہ ۱۰ ھ؁ کو غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا مفصل اور مکمل اعلان فرمایا۔ آپ اس وقت آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپسی تشریف لا رہے تھے آپ کے ساتھ سوا لاکھ حاجیوں کا مجمع تھا۔ جلتی دوپہر میں قافلہ کو روک کر جمع کیا ۔ کجاوون کا ممبر بنوایا اور بحکم خدا حضرت علی علیہ السلام کو لیکر ممبر پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے کیونکہ خدا کی طرف سے رسولؐ السلام پر ۔ آیہ تبلیغ نازل ہوئی تھی۔

۲۲

"اے رسولؐ اس بات کا اعلان کر دو جس کے اعلان کا ہم تم کو حکم دے چکے ہیں۔ اگر یہ اعلان نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ خدا دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے"۔

اس حکم کے بعد حضورؐ نے مجمع کے سامنے ایک طولانی تقریر فرمائی جس کے آخر میں ہر مسلمان سے پوچھا کہ تم اپنی جان اور مال کے مالک ہو یا میں تمہاری جان اور مال کا مالک ہوں۔

اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ تم لوگ اپنے کو اپنا حاکم سمجھتے ہو یا مجھے اپنا حاکم سمجھتے ہو۔

سب نے کہا۔ حضورؐ ! آپ ہمارے حاکم اور ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔" نبیؐ نے اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بازو پکڑ کر پورے جسم سے اٹھا لیا اور فرمایا۔

"جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؐ مولا ہیں۔ جس کا میں حاکم ہوں یہ علی بھی اس کے حاکم ہیں "۔

۲۳

پھر آپ نے خدا سے دعا فرمائی۔ کہ تو اسے دوست رکھ جو علیؐ سے محبت کرے اور علیؐ کے ہر دشمن کو اپنا دشمن قرار دے۔ ممبر سے اتر کر سب مسلمانوں کو حکم دیا کہ جاکر علیؐ کی بیعت کرو اور ان کو مومنوں کا حاکم کہہ کر سلام کرو۔ سب نے حکم رسولؐ کی تعمیل کی حضرت عمر نے خصوصی مبارکباد دی کہ کہ آج آپ میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے حاکم مقرر ہو گئے۔ اس واقعہ کو واقعہ غدیر کہتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد خدا نے آئیہ اکمال نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے۔

"آج کے دن کافر تمہارے دین سے مایوس ہو گیا اب تم ان سے نہ ڈرنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا۔ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا تم پر نعمتیں تمام کر دیں اور اسلام کو تمہارے لئے بہ حیثیت دین کے پسند کر لیا۔"

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نبیؐ نے اپنی عمر کے خر تک حضرت علی علیہ السلام ٍ کو اپنا جانشین رکھا اور جو حضرت علی علیہ السلام کو نبیؐ کا خلیفہ بلا فصل مانےگا خدا اسی کو دوست رکھےگا۔ جو خلافت بلا فصل مولا علیؐ کا قائل ہوگا اسی کا دین کامل ہوگا خدا کی نعمتیں اسی کو ملیںگی اور خدا اسی کے اسلام کو قبول کرےگا۔

سوالات :

۱ ۔آئیہ تبلیغ اور آئیہ اکمال میں خدا نے کیا کہا ہے ؟

۲ ۔ واقعہ ذوالعشیرہ کیا ہے ؟

۳ ۔ واقعہ غدیر پر سے خلافت ثابت کرو ؟

۴ ۔ حضرت علیؐ کو شیعہ اور سنی کس فرق کے ساتھ خلیفہ مانتے ہیں ؟

۲۴

گیارہواں سبق

بارہویں امامؐ

بارہویں امام علیہ السلام زندہ ہیں۔ پردہ غیبت میں ہیں۔ جب حکم خدا ہوگا اس وقت کعبہ کے پاس ظہور فرمائیںگے اور ظلم سے بھری ہوئی زمین کو عدل سے بھر دیںگے۔

بحمد اللہ آپ کی عمر ساڑھے گیارہ سو سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور خدا وند عالم جب تک چاہےگا زندہ رکھےگا۔ حضرتؐ کی طولانی عمر پر تعجب نہ ہونا چاہئے ۔جناب نوحؐ کو خدا نے تقریباً دو ہزار سال کی عمر عطا فرمائی۔ جناب خضرؐ ، جناب الیاسؐ ، جناب اوریسؐ اور جناب عیسیؐ اب تک زندہ ہیں۔ جو شخص آپ کی طولانی عمر پر شک کرتا ہے وہ در اصل خدا کی قدرت پر شک کرتا ہے۔ خدا کی قدرت کے آگے نہ کوئی چیز مشکل ہے نہ قابل تعجب۔

اصحاب کہف ہزاروں سال سے غار میں سو رہے ہیں اور خدا کی قدرت سے زندہ ہیں۔جو خدا پہاڑ سے جناب صالحؐ نبی کے لئے آناً فاناً معہ بچہ کے اونٹنی پیدا کر سکتا ہے۔ جناب موسیٰؐ کے عصا کو اژدھا اور اژدھا کو عصا بنا سکتا ہے۔ جناب عیسیؐ کو بغیر باپ کے پیدا کر سکتا ہے۔ لاکھوں من آگ میں جناب ابراہیمؐ کو بچا سکتا ہے۔وہ خدا سینکڑوں کیا ہزاروں سال کی عمر امام علیہ السلام کو کیوں نہیں دے سکتا اور ان کو دشمنوں سے کیوں محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔

بارہویں امام علیہ السلام کے وجود پر بہت سای دلیلیں ہیں جن میں سے چند آسان دلیلیں لکھی جاتی ہیں۔

۲۵

دلیل ۱

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ وَ لِکُلِّ قَومٍ ھَادٍ یعنی ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہونا ضروری ہے۔

نبیؐ کریم کا ارشاد ہے "مَن مَّاتَ وَ لَم یَعرِف اِمَامَ زمَانِهِ فَقَدمَاتَ مِیتَةً جَا هِلِیَّةً یعنی جو شخص اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو اور مر جائے تو اس کی موت ہوتی ہے "۔ معلوم ہوا کہ ہر زمانہ میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے لہذا اس زمانہ میں بھی ایک ہادی اور امام ہونا چاہئے اور وہ ہمارے بارہویں امام علیہ السلام ہیں۔

دلیل ۲

قرآن مجید میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ صادقین کی پیروی کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ ان دونوں حکموں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ایک صادق اور صاحب امر ہونا چاہئے ہمارے بارہویں امامؐ کے علاوہ کسی کے لئے صادق اور صاحب امر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔

دلیل ۳ ۔

پیغمبرؐ اسلام کا ارشاد ہے "لَا یَذَالُ هٰذَ الَّذِّنُ قَاءِماً ایلی اِثنَا عَشَرَ خَلِفَةً مِّن قُرَیشٍ فَاذَا هَلَکُو مَاجَتِ الاَرضُ بِاَهلِهَا یعنی یہ دین اس وقت تک قائم رہےگا جب تک میرے بارہ خلیفہ پورے نہ ہو جائیں جو سب کے سب قریش ہوں گے ان بارہ خلیفہ کے ختم ہونے کے بعد زمین معہ اپنی تمام آبادیوں کے تباہ ہو جائےگی۔

اہلسنت کے مشہور عالم ملا علی متقی نے اپنی کتاب کنز العمال میں اس حدیث کو لھا ہے۔ اگر بارہ امام ختم ہو گئے ہوتے تو نہ یہ دنیا باقی ہوتی اور نہ دین۔ دونوں کا باقی رہنا دلیل ہے کہ بارہویں امام علیہ السلام زندہ ہیں جن کے دم سے دین اور دنیا دونوں قائم ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ امامؐ زمانہ کی عمر اس وقت کیا ہے ؟ کچھ ایسے لوگوں کے نام بتاؤ جو امامؐ زمانہ کے پہلے سے اب تک زندہ ہیں ؟

۲ ۔ کس کی طولانی عمر پر تعجب کیوں نہ کرنا چاہئے ثبوت میں کوئی واقعہ پیش کرو ؟

۲۶

بارہواں سبق

نوابِ اربعہ

جب امام حسن عسکری علیہ السلام کا انتقال ہوا تو ہمارے امامؐ زمانہ کی عمر چار پانچ برس کی تھی لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ آپ کو کسی صورت سے زندہ نہ رہنے دیا جائے ، آپ حکم خدا سے لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گئے اور تقریباً ۷۰ برس تک اس غیبت صغریٰ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس زمانہ میں آپ کے کچھ مخصوص اصحاب تھے جن کو آپ نے اپنا پتہ دیا تھا انھیں سے ملاقات کرتے تھے اور انھیں کے ذریعہ اپنے شیعوں تک اپنے پیغام بھیجا کرتے تھے۔ انھیں اصحاب کو نواب اربعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ چار حضرات تھے اور چاروں کی قبریں بغداد میں ہیں جہاں لوگ برابر ان کی زیارت کے لئے جاتے رہتے ہیں۔ ان میں سے پہلے نائب جناب عثمان بن سعید تھے جو امام کی طعف سے مال کے وکیل تھے اور خمس کا سہم امام آپ ہی کو دیا جاتا تھا۔ دوسرے نائب آپ ہی کے فرزند محمد بن عثمان تھے جنھیں حضرت امام زمانہؐ نے ان کے باپ کے مرنے پر تعزیت کا خط لکھا تھا اور اس میں ان کے نائب ہونے کا ذکر فرمایا تھا۔ تیسرے نائب جناب حسین بن روح تھےجن کے ذریعہ اے آج بھی ۱۵/ شعبان کی صبح کو امامؐ کی خدمت میں عریضے بھیجے جاتے ہیں۔ آپ کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ بغداد کا رہنے والا ایک شخص بخارا گیا ہوا تھا جب وہاں سے آنے لگا تو وہاں کے ایک آدمی نے سونے کے دس پتھر یہ کہہ کردئے کہ انھیں حسین بن روح کے حوالہ کر دینا ، یہ شخص لے کر چلا تو راستے میں ایک پتھر گم ہو گیا۔

۲۷

بغداد میں آ کر سامان دیکھا تو اس کے گم ہو جانے کا پتہ چلا فوراً اسی قسم کا ایک پتھر بازار سے خرید کر سب کو جناب حسین بن روح کی خدمت میں لایا۔ آپ نے ان میں سے نو لئے اور ایک واپس کر دیا اس نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کیوں واپس کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ پتھر جو تجھ سے گر گیا تھا وہ میرے پاس پہونچ گیا ہے اور یہ تو نے بازار سے خریدا ہے۔ آپ کے بعد چوتھے نائب علی ابن محمد سمری مقرر ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ آپ کا انتقال ۱۵/ شعبان ۳۲۹ ھ؁ کو ہوا جس کے بعد امام نے یہ اعلان کر دیا کہ اب غیبت کبریٰ کا آغاز ہو رہا ہے اس میں جو نئے مسائل پیش آئیں۔ ان میں فقاء کی طرف رجوع کیا جائےگا۔ ان کا حکم ہمارا حکم ہوگا اور ہمارا حکم خدا کا حکم ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نواب اربعہ کے نام بتاؤ ؟

۲ ۔ نواب اربعہ میں سے کسی کا کوئی واقعہ بتاؤ ؟

۳ ۔ نواب اربعہ کے زمانہ کی مدد بتاؤ ؟

۴ ۔ ان کے بعد ہمارا کیا فریضہ ہے ؟

۲۸

تیرھواں سبق

قیامت

قیامت کا دوسرا نام معاد ہے۔ قیامت وہ دن ہے جب انسان دوبرہ زندہ کئے جائیں گے تاکہ ان کے اچھے بڑے کاموں کا حساب لیا جائے اور اعمال کے مطابق ان کو جنت یا دوزخ میں جگہ دی جائے۔

مردوں کے زندہ کرنے پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ جو خدا اپنی قدرت سے بغیر کسی چیز کے سب کچھ پیدا کر سکتا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جناب ابراہیمؐ ایک دریا کے کنارے سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک مردار ہے جس کا آدھا حصہ دریا کے باہر ہے اور آدھا دریا کے اندر۔ آپ کو یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا اور آپ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی۔ پروردگار مجھے یہ دیکھا دے کہ ایسے مردوں کو کیسے زندہ کرےگا۔ حکم خدا ہوا ابراہیمؐ ! چار پرندوں کو پکڑ لو اور انھیں اپنے سے مانوس بناؤ اس کے بعد انھیں ذبح کر کے ان کے ٹکڑے الگ الگ پہاڑوں پر رکھ دو اور سب کی منقار (چونچ) اپنے ہاتھ میں رکھو۔ اس کے بعد سب کو الگ الگ آواز دو۔ یہ سارے ٹکڑے دوڑ کر تمہارے پاس آ جائےںگے۔

۲۹

جناب ابراہیمؐ نے ایسا ہی کیا اور آپ نے جو آواز دی تو ہر جانور کے ٹکڑے آنے لگے۔ آپ نے ہر ایک کی چونچ اس کے جسم میں لگا دی اور ہر جانور پرواز کر گیا۔

اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا وند عالم مرنے کے بعد بلکہ قیمہ قیمہ ہونے کے بعد بھی زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسکی طاقت میں شک کرنا قرآن کریم پر ایمان نہ لانے اور خدا اور رسولؐ کی بات کا انکار کرنے کے برابر ہے۔

سوالات :

۱ ۔ معاد سے کیا مراد ہے ؟

۲ ۔ مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر تعجب کیوں نہ کرنا چاہئے ؟

۳ ۔ کیسے پتہ چلا کہ اللہ مردوں کو ریزہ ریزہ کرنے کے بعد بھی زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟

۳۰

چودھواں سبق

برزخ

ہر انسان کے مرنے سے قیامت تک کے درمیانی فاصلے کا نام برزخ ہے۔ جس کی موت جس قدر قیامت سے قریب ہوگی اس کا برزخ اتنا ہی مختصر ہوگا اور جس قدر دور ہوگی اسی قدر برزخ بھی طولانی ہوگا۔

برزخ کی ضرورت اس لئے ہے کہ انسان اس دنیا میں دو قسم کے عمل انجام دیتا ہے ایک ظاہری عمل جسے کردار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ایک باطنی عمل جسے اعتقاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قیامت کا دن کردار کے مکمل حساب کے لئے معین ہے اور روح کے اعمال یعنی عقائد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ جسم کے روح سے الگ ہونے کے بعد ایک جگہ مقرر کر دی جائے جہاں روح کو اس کے عقائد کا اچھا یا بڑا بدلہ دیا جا سکے بس اسی عالم کا نام برزخ ہے۔ برزخ میں ہر شخص کو اس کے عقائد کے اعتبار سے اچھی یا بڑی جگہ دی جاتی ہے۔

برزخ میں روحیں اپنے جسم کے بجائے ایک دوسرے جسم میں رہتی ہیں جس طرح ہم جب بستر پر سوتے ہوتے ہیں اور خواب میں کسی جگہ جاتے ہیں کھاتے پیتے اور دوڑتے بھاگتے ہیں۔ خواب میں ہم کو جو اپنا جسم نظر آتا ہے برزخ خدا ہر انسان کو اسی سے ملتا جلتا ایک جسم دےگا جس کو جسم مثالی کہتے ہیں۔

حدیثوں میں آیا ہے کہ عالم برزخ میں مومنین کی روحیں وادی السلام میں رہتی ہیں اور کافروں ، منافقون اور اہلبیتؐ کے دشمنوں کی روحیں وادی برہوت میں رہتی ہیں۔

۳۱

مرنے کے بعد انبیاء ، ائمہ اور نابالغ ، کم عقل اور دیوانے لوگوں کے علاوہ فشار قبر بھی ہوتا ہے۔ جمعہ کی رات یا دن کو مرنے والا یا جوار ائمہؐ میں دفن ہونے والا فشار قبر سے محفوظ ہوتا ہے۔ فشار کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے سرکشی کرنے والوں یا اپنے اہل و عیال یا مومنین سے سختی کرنے والوں کو زمین دباتی ہے۔

قیامت کے دن گناہگار مومنین کی شفاعت معصومین فرمائیںگے۔ لیکن برزخ میں کوئی شفاعت نہ ہوگی لہذا برزخ کے لئے ہر مومن کو خود اپنے اوپر بھروسہ کرنا پڑےگا۔ مرنے والے کے اعزا و احباب کا فریضہ ہے کہ وہ مرنے والے کے واجبات کو ادا کریں اسکے ذمہ جو حقوق خدا یا بندوں کے باقی ہوں انھیں بھی ادا کریں ، اسکے علاوہ ایصال ثواب کے لئے اعمال خیر بھی کریں تاکہ مومن کا برزخ آسانی سے گزر جائے۔

جو خدا کچھ نہ ہونے پر ساری دنیا کو پیدا کر سکتا ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے اور دنیا کے ختم ہونے کے بعد اسے دوبارہ پیدا بھی کر سکتا ہے۔

وہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ جن مرنے والوں کی لاشیں زمین پر پڑی رہتی ہیں یا جلا دی جاتی ہیں یا دریا میں ڈال دی جاتی ہیں یا جن لاشوں کو چیل کوے یا درندے کھا جاتے ہیں ان سب کی روحوں کو بھی برزخ میں رکھے اگر چہ ان کی تکلیف یا راحت ہم کو نظر نہیں آتی۔

۳۲

ایک بار ایک کافر کی کھوپڑی ایک شخص نے پانچویں امامؐ کے سامنے پیش کی اور پوچھا کہ یہ کھوپڑی ٹھنڈی ہے اس کو عذاب کہاں دیا جا رہا ہے۔ امامؐ نے چقماق کے پتھر منگائے اور پوچھنے والے سے کہا کہ دیکھو یہ ٹھنڈے ہیں یا نہیں اُسنے چھو کر کہا کہ ٹھنڈے ہیں۔ امامؐ نے فرمایا کہ ان کو ایک دوسرے سے رگڑو۔ رگڑتے ہی پتھر سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ امامؐ نے فرمایا جو خدا اس ٹھنڈے پتھر کے اندر آگ رکھ سکتا ہے وہ اس ٹھنڈی کھوپڑی کو بھی آگ کی سزا دے سکتا ہے۔ وہ شخص جواب سن کر امامؐ کو دعا دیتا ہوا چلا گیا۔

سوالات :

۱ ۔ برزخ کیوں رکھا گیا ؟

۲ ۔ برزخ میں جسم کیسا ہوتا ہے اسکی مثال دو ؟

۳ ۔ برزخ میں مومن و غیر مومن کی روحیں کہاں رہتی ہیں ؟

۴ ۔ برزخ میں مرنے والے کو آرام پہونچانے کے طریقے کیا ہیں ؟

۵ ۔ فشار قبر کیا ہے ؟ کن کو نہیں ہوتا اور کہاں نہیں ہوتا ؟

۳۳

پندرہواں سبق

عمل اور حساب

اللہ نے بندوں کو عمل کا موقع صرف دنیا میں دیا ہے۔ آخرت میں کسی کو عمل کا موقع نہیں ملےگا۔ جو لوگ اس دنیا میں نماز روزہ نہیں کرتے۔ زکوۃ خمس نہیں نکالتے۔ حج نہیں کرتے سور مر جاتے ہیں۔ وہ آخرت میں بہت پچھتائیں گے اور سوا افسوس کرنے کے کچھ ان کے ہاتھ نہیں لگےگا۔ آخرت صرف جزا اور سزا کی جگہ ہے عمل کی جگہ نہیں ہے۔ عمل کرنے کے لئے صرف دنیا ہے۔ یہاں جزا اور سزا نہیں ملتی۔ اگر دنیا میں اچھے کامو٘ کی جزا اور بڑے کاموں کی سزا مل جاتی ہوتی تو نبی ، امام اور اللہ کے نیک بندے مصیبتوں میں نہ رہتے اور نہ نمرود ، فرعون ، یزید جیسے برے لوگ راحت و آرام میں رہتے۔

خیرات کرنے سے بلائیں ضرور دور ہوتی ہیں لیکن خیرات کا ثواب آخرت میں ملےگا۔ اسی طرح گناہوں سے بلائیں نازل ہوتی ہیں مگر گناہوں کی سزا آخرت میں ملنے والی ہے۔

اللہ نے دو دو ملک ہر انسان پر معین کئے ہیں جو اس کے ہر کام کو لکھتے رہتے ہیں۔ حساب کے دن ملائکہ کے لکھے ہوئے اعمال نامے انسان کو دئے جائیں گے جس کے بعد کوئی شخص اپنے گناہوں سے انکار نہ کر سکےگا۔ اعمال نامہ کے علاوہ ہمارے ہاتھ ، پیر ، آنکھ ، کان سب اعضا بھی ہمارے ان تمام گناہوں کی گواہی دیںگے جو گناہ ہم نے ان اعضا سے کئے ہوںگے۔

اللہ نے جنت یا دوزخ میں جگہ دینے سے پہلے حساب کتاب اسلئے رکھا ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اعراض نہ کر سکے۔ اگر خدا پیدا کرتے ہی ہر انسان کو جنت یا دوزخ میں بھیج دیتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ بغیر گناہ کے دوزخ میں کیوں ڈالا اور بغیر عبادت کے جنت میں جگہ کیوں دی۔ اعمال کے بعد کوئی شخص خدا پر اعتراض نہ کر سکےگا۔

سوالات :

۱ ۔ خیرات کا فائدہ کیا ہے اس کی جزا کہاں ملےگی ؟

۲ ۔ عمل کے لئے کون سی جگہ مخصوص ہے اور جزا و سزا کہاں ملےگی ؟

۳۴

فروع دین

سولہواں سبق

میت کے احکام

موت کا وقت

جو لوگ مرنے والے کے پاس موجود ہوں ان پر واجب ہے کہ مرنے والے کو اس طرح چت لٹا دیں کہ اس کا منہ اور پیر کے دونوں تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ یہ حکم ہر مرنے والے کے لئے ہے چاہے مرنے والا مر دہو یا عورت۔ بچہ ہو یا جوان یا بوڑھا۔

غسل مسّ میت

آدمی کی میت چھونے سے غسل واجب ہوتا ہے اسی طرح اگر آدمی کی میت کا کوئی ٹکڑا چھو لے تب بھی غسل واجب ہو جائےگا۔ ٹکڑا چاہے زندگی میں کاٹا گیا ہو یا مرنے کے بعد کاٹا گیا ہو۔ شرط یہ ہے کہ اس میں ہڈی ہو مگر غسل اسی وقت واجب ہوگا جب میت یا اس کے ٹکڑے کو ٹھنڈا ہونے کے بعد اور غسل دینے سے پہلے چھوا جائے۔

جسم کے جن حصوں میں جان نہیں ہوتی جیسے بال ۔ دانت وغیر ان کے چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔ لیکن ناخن کے چھونے سے غسل واجب ہے۔

غسل میت

ہر مسلمان کے مردہ کو غسل دینا واجب ہے اگر میت کا صرف سینہ یا ہڈی ملے ایسا ٹکڑا ملے جس میں سینہ کی یا کوئی دوسری ہڈی لگی ہو تب بھی اس کو غسل دینا واجب ہے۔ اس بچہ کا غسل بھی واجب ہے جس کا اسقاط ہو گیا ہو مگر شرط یہ ہے کہ حمل چار مہینہ یا اس سے زیادہ کا ہو۔ میت کو پہلے بیری کی پانی سے پھر کافور کے پانی سے پھر خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔

۳۵

غسل کی ترکیب

غسل سے پہلے میت کے سارے جسم کو نجاست اور میل سے صاف کرے پھر میت کو پاک کرنے کے بعد بیری کی تھوڑی سی پتی چھل کر پانی میں ملائے اور نیت کرے کہ اس میت کو غسل دیتا ہوں آب سدر سے واجب قربتہً الی اللہ۔ اس کے بعد اسی پانی سے پہلے میت کے سر و گردن کو دھوئے، پھر ذرا کروٹ کر کے اسی کے داہنے حصہ بدن کو گردن سے پیر کی انگلیوں تک، پھر اسی طرح بائیں جانب کو اچھی طرح دھوئے۔ اس کے بعد دوسرے خالص پانی میں تھوڑا کافور ملا کر پھر نیت کرے کہ غسل میت دیتا ہوں آب کافور سے واجب قربتہً الی اللہ اور اس پانی سے بھی اسی طرح غسل دے۔ اس کے بعد خالص پانی سے اسی طرح غسل دے۔ جسم کے ہر حصے کو دھونے میں تھوڑا سا بڑھا کر دھوئے۔

طریقہ حنوط

مردے کو غسل دینے کے بعد اس کے ساتوں مقامات سجدہ یعنی دونوں پیر کے انگوٹھے ، دونوں گھٹنے اور پیشانی اور دونوں ہتھیلیوں پر کافور ملنا واجب ہے بشرط یہ کہ مرنے والا شہید نہ ہو اور حالت احرام میں نہ ہو۔

کفن

میت مرد کی ہو یا عورت کی ، تین کپڑے دینا واجب ہے۔ پیراہن ، لنگی ، چادر مگر مرد کی میت کو علاوہ ان واجبی کپڑوں کے ایک ران پیچ ، ایک عمامہ اور ایک چادر دینا مستحب ہے۔ عورت کی میت کو ایک ران پینچ ، مقنعہ اور سینہ بند اور اوڑھنی اور ایک چادر دینا مستحب ہے۔

بردیمانی دینا دونوں کے لئے مستحب ہے۔

تصریح

مرد کو مرد اور عورت کو عورت غسل دے اور کفن پہنائے عورت اپنے شوہر کو اور مرد اپنی زوجہ کو غسل و کفن دے سکتا ہے۔

۳۶

کفن

پہلے چادر بچھائیں اس کے اوپر پیراہن گریبان کو پھاڑ کر آدھا بچھائیں اور آدھا سر کی جانب نکلا رہنے دیں ، پھر نصف چادر سے نیچے پیر کی جانب لنگی بچھا دیں اور اس پر ران پینچ رکھ دیں جس کا ایک سرا جو کمر سے متصل رہےگا طول میں پھاڑ دیں تاکہ کمر میں بندھ جائے۔ پھر ان کپڑوں پر میت کو لٹا کر ران پینچ کا سرز جو پھٹا ہوا ہے پہلے کمر میں اس طرح بنادھیں کہ گرہ ناف پر پڑے۔ اس کے بعد شرمگاہ پر میت کے اچھی طرح روئی رکھ کر دوسرا سرا اس ران پینچ کا اس بندھی ہوئی گرہ سے اس طرح نکالیں کہ مشل لنگوٹ کے ہو جائے اور روئی نہ گرنے پائے۔ اس کے بعد دونوں پیروں کو ملاکر لنگی سے لپیٹ دیں ، اس کے بعد پیراہن جو سر کی جانب نکلا ہے پہنا دیں۔ اگر عمامہ ہے تو سر پر باند کر دونوں سرے اس کے سینے پر دال دیں اور تین یعنی بیر یا خرمے یا بیر کی دو تازہ شاخیں لے کر ان پر شہادتین لکھ کر اس پر روئی لپیٹ کر ایک داہنی جانب جسم سے ملا کر ہنسلی سے بغل کے نیچے کمر تک اور دوسری بائیں جانب پیراہن کے اوپر ہنسلی کے پاس رکھیں اس کے بعد چادر دونوں طرف سے لپیٹ کر پیر ، کمر اور سر کے پاس باندھیں تاکہ علیحدہ نہ ہو جائے۔

عورت کے مردے کو پہلے ران پینچ اور لنگی اس کے بعد سینہ بند پہنا کر پیراہن پہنائیں اور مقنعہ کے بعد اوڑھنی اس کے بعد چادر لپیٹیں۔

۳۷

نماز میت

چھ سال یا اس سے زیادہ عمر والے مسلمان خورد و بزرگ کی نماز جنازہ واجب ہے خواہ وہ شیعہ ہو یا غیر شیعہ ، عادل ہو یا فاسق ، غلام ہو یا آزاد ، مرد ہو یا عورت ، یہاں تک کہ خود کشی کر کے مر جانے والے کی بھی نماز میت واجب ہے، اس نماز کے واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے بھی نماز نہ پڑھی تو تمام باخبر مسلمان گنہگار سمجھے جائےیںگے اور ایک شخص بھی پڑھ دےگا تو سب سے ساقط ہو جائےگی۔

یہ نماز فرادی بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے بھی۔ لیکن جماعت کی صورت میں امام جماعت کو عادل ہونا چاہئے دوسرے تمام مومین کو بھی امام کی طرح دعائیں پڑھنا چاہئے یہاں خاموش کھڑا ہونے والا بیکار شمار ہوگا بلکہ اس کی موجودگی دوسرے مامومین کے لئے حائل بن کر ان کی نماز بھی خراب کر سکتی ہے اگر ان کا اتصال امام تک ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ سے ہو۔

اس نماز کے حسب ذیل شرائط ہیں :

۱ ۔ میت سامنے موجود ہو۔

۲ ۔ نماز گزار روبقبلہ ہو۔

۳ ۔ میت کا سر نمازی کے داہنی طرف ہو۔

۴ ۔ نمازی میت کے کسی حصے کے سامنے ہو اگر نماز جماعت سے نہ ہو رہی ہو۔ اکثر مقامات پر بہت سے افراد ایک ساتھ کھڑے ہو کر بلانیت جماعت نماز پڑھ لیتے ہیں ایسے میں صرف انھیں کی نماز صحیح ہوگی جو میت کے پاس ہیں باقی داہنے بائیں یا دوسری تیسری صف والوں کی نماز باطل ہے۔

۳۸

۵ ۔ نماز غسل و کفن کے بعد ہو۔

۶ ۔ ولی کی اجازت سے ہو۔

۷ ۔ نمازی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔

نماز میت میں طہارت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر میت بغیر نماز کے دفن ہو گئی ہے تو نماز اس کی قبر پر پڑھی جائےگی جب تک کہ اس کا بدن زیر لحد پاش پاش نہ ہو جائے۔

ترکیب نماز میت

اس نماز کی ترکیب یہ ہے کہ پہلے نیت کرے نماز میت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ پھر تکبیر کہہ کے پڑھےاَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ الله وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله پھر تکبیر کہے اور صلوات پڑھےاَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدِوَّ اَلِ مُحَمَّد پھر تکبیر کہہ کر یہ دعا پڑھےاَللَّهُمَّ اغفِر لِلمُومِنِینَ وَالمُومِنَاتِ پھر تکبیر کہے اور یہ دعا پڑھےاَلَّلهُمَّ اغفِر لهَنَا پھر تکبیر کہہ کر نماز ختم کر دے اگر میت نابالغ کی ہے تو یہ دعا پڑھےاَلَّلهُمَّ اجعَلُهُ لِاَبَویهِ وَلَنَا سَلَفاًدَّ فَرَطاً وَّ اَجرا

ایک جنازہ پر دو مرتبہ نماز مکروہ ہے لیکن اگر میت کسی بزرگ کی ہے تو کائی حرج نہیں ہے۔

کاندھا دینے کا طریقہ

جنازہ اٹھانے والوں کا رُخ میت کے سر کی جانب ہونا چاہئے۔ ایک آدمی میت کے داہنے شانے اور دوسرا آدمی اس کے داہنے پیر کو اپنے کاندھے پر اٹھائے۔ اسی طرح ایک آدمی میت کے بائیں شانے اور دوسرا میت کے بائیں پیر کو اپنے اپنے کاندھے پر اٹھائے۔ چند قدم کے جانے کے بعد جو آدمی میت کے داہنے شانے کو اٹھائے ہو میت کے داہنے پیر کی جگہ آ جائے اور وہاں کا آدمی بائیں پیر کی جگی اور وہاں کا آدمی میت کے بائیں شانے کی جگہ اور وہاں کا آدمی میت کے پائنتی سے ہو کر اس کے داہنے شانے کی جگہ چلا جائے۔ اسی طرح برابر کاندھا بدلتے ہوئے قبر تک لیجائیں۔

۳۹

طریقہ دفن

میت کو دفن میں اس طرح چھپانا واجب ہے کہ درندوں اور بدبو پھیلنے سے محفوظ رہے اور قبر کو قد آدم یا گلے تک گہرا کھودنا اور اس میں قبلہ کی جانب ایک لحد بیٹھنے کے قابل بنانا مستحب ہے۔

دفن میں مندرجہ ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا چاہئے :

۱ ۔ میت کو یکایک قبر میں نہ اتارنا چاہئے بلکہ مرد کی میت کو دو جگہ رکھ کر تیسری بار قبر کی پائنتی رکھیں اور اس کے بعد سر آگے کر کے اتاریں۔

۲ ۔ عورت کی میت کو تیسری بار قبر کے پہلو میں قبلہ کی طرف رکھ کر چوتھی بار پہلو کی طرف سے اس طرح اتاریں کہ سر نیچا نہ ہو۔ جو شخص قبر میں اترے اس کا ننگے سر ننگے پاؤں رہنا اور کپڑوں کی تمام گرہوں کو کھول دینا مستحب ہے اور میت کو قبر میں داہنی کروٹ کر کے قبلہ رخ لٹا دیں اس کے بعد میت کے بندے کفن کھول دیں تاکہ میت کا منھ کھلا رہے اور داہنا رخسارہ میت کا زمین پر پہنچ جائے اور نیچے ذرا سی مٹی رکھ کر سر کو کچھ بلند کر دیں اور خود قبر میں ایک طرف کھڑا ہو تاکہ میت اس کے دونوں پیروں کے درمیان نہ ہو جائے اور سورہ حمد و سورہ قل اعوذبرب الفلق اور قل ہو اللہ اور آیتہ الکرسی اور اعوذباللہ من الشیطان الرجیم پڑھتا رہے اور قبر سے باہر نکلنے سے پہلے میت کو تلقین پڑھائے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

عبادات میں سجدہ کی اہمیت:

اسلام کی نظر میں سجدہ، اللہ تعالی کی سب سے اہم یا اہم ترین عبادات میں سے ایک ہے_ اور جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے، کہ انسان سجدہ کی حالت میں دیگر تمام حالات کی نسبت سب سے زیادہ اللہ تعالی کے نزدیک ہوتا ہے_ تمام بزرگان دین بالخصوص رسو ل اکرم(ص) اور اہلبیت بہت طولانی سجدے کیا کرتے تھے_ خدا کی بارگاہ میں طولانی سجدے انسان کی روح اور جان کی نشو ونما کرتے ہیں_ اور یہ اس لم یزل کی بارگاہ میں خضوع اور عبودیت کی سب سے بڑی علامت شمار ہوتے ہیں_ اسی لیے نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے بجالانے کا حکم دیا گیا ہے_

اسی طرح سجدہ شکر اور قرآن مجید کی تلاوت کے دوران مستحب اور واجب سجدے بھی اسی سجدہ کا واضح ترین مصداق شمار ہوتے ہیں_

انسان سجدہ کی حالت میں سوائے خدا کے ہر چیز کو بھول جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے بہت نزدیک پاتا ہے اور گویا وہ اپنے آپ کو بساط قرب پر پاتا ہے_

یہی وجہ ہے کہ سیرو سلوک و عرفان کے اساتید اور اخلاق کے معلم حضرات ،سجدہ کے مسئلہ پر انتہائی تاکید فرماتے ہیں_

۱۲۱

مذکورہ بالا مطالب اس مشہور حدیث پر ایک روشن دلیل ہیں کہ انسان کا کوئی عمل بھی شیطان کو اتنا پریشان نہیں کرتا جتنا سجدہ اسے پریشان کرتا ہے_

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ '' جناب ختمی مرتبت نے اپنے ایک صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اگرچاہتے ہو کہ قیامت کے دن میرے ساتھ محشور ہو تو خداوند قہار کے حضور طولانی سجدے انجام دیا کرو''

و اذا اَرَدتَ ا ن یحشُرَک الله معی يَومَ القیامة فأطل السّجودَ بین يَدَی الله الواحد القهّار'' (۱)

غیر خدا کے لیے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے:

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس واحد و یکتا پروردگار کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ سجدہ انتہائی عاجزی اور خضوع کی علامت اور پرستش کا روشن مصداق ہے اور پرستش و عبوديّت صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے_

قرآن مجید کی اس آیت ''( وللّه يَسجُد مَن فی السموات و الارض'' ) (۲) میں کلمہ '' اللہ '' کو مقدم کیا گیا ہے اور یہ تقدیم حصر پر دلالت کر رہی ہے یعنی زمین اور آسمان کی ہر چیز صرف اور صرف اللہ تعالی کو سجدہ کرتی ہے

اسی طرح سورہ اعراف کی ۲۰۶ نمبر آیت( '' و له یسجدون'' ) بھی اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ سجدہ صرف اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے_

____________________

۱) سفینة البحار ، مادہ سجدہ_

۲) سورة رعد، آیہ ۱۵_

۱۲۲

حقیقت میں سجدہ خضوع کا آخری درجہ ہے اور یہ درجہ خداوند عالم کے ساتھ مخصوص ہے_ لہذا کسی اور شخص یا چیز کے لیے سجدہ کرنا گویا خداوند عالم کے برابر قرار دینا ہے اور یہ درست نہیں ہے_

ہمارے نزدیک توحید کے معانی میں سے ایک معنی '' توحید در عبادت'' ہے یعنی پرستش اور عبادت صرف اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کے بغیر توحید کامل نہیں ہوتی ہے_

دوسرے الفاظ میں : غیر خدا کی عبادت کرنا شرک کی ایک قسم ہے اور سجدہ عبادت شمار ہوتا ہے_ اس لیے غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_

اور جو سجدہ ملائکہ نے حضرت آدم کو کیا تھا ( اور اسکا قرآن مجید میں کئی مقامات پر تذکرہ ہے ) مفسرین کے بقول یا تو یہ حضرت آدم(ع) کی تعظیم ، تکریم اور احترام کا سجدہ تھا نہ عبادت کا سجدہ، بلکہ اسی سجدہ سے ملائکہ کی مراد یہ تھی کہ چونکہ یہ سجدہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہے لہذا اس ذات حق کی عبودیت ہے _ اور یا یہ شکر خدا کا سجدہ تھا_اسی طرح جو سجدہ حضرت یعقوب(ع) اورانکے بیوی بچّوں نے حضرت یوسف _ کے لیے کیا تھا اور اسے قرآن مجید نے ''خرَّ و له سُجَّداً'' اور سب انکے سامنے سجدہ میں گر پڑے'' کے الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے_ یہ بھی اللہ تعالی کے سامنے سجدہ شکر تھا_ یا ایک قسم کی تعظیم، تکریم اور احترام کے معنی میں سجدہ تھا_

اور قابل توجہ یہ ہے کہ '' وسائل الشیعہ'' کہ جو ہماری کتب حدیث کاایک مصدرشمار ہوتی ہے، میں سجدہ نماز کے ابواب میں ایک مکمل باب ''عدم جواز السجود بغیر الله '' کے عنوان سے ذکر ہوا ہے اور اس میں پیغمبر اکرم(ص) اور آئمہ معصومینسے سات احادیث نقل کی گئی ہیں کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_(۱)

____________________

۱)وسائل الشیعہ، جلد ۴، ص ۹۸۴_

۱۲۳

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرما لیجئے کیونکہ آئندہ اسی گفتگو سے ہم نتیجہ اخذ کریںگے_

کس چیز پر سجدہ کرنا چاہیے:

مکتب اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زمین کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ نہیں ہوسکتا ہے، ہاں البتہ جو چیزیں زمین سے اُگتی ہیں اور کھانے و پہننے کے کام نہیں آتیں جیسے درختوں کے پتے اور لکڑی و غیرہ اسی طرح حصیر و بوریا و غیرہ_ ان پر سجدہ کیا جاسکتا ہے_ جبکہ علماء اہلسنت عام طور پر معتقد ہیں کہ ہر چیز پر سجدہ کیا جاسکتا ہے_ ہاںان میں سے صرف بعض علماء نے لباس کی آستین اور عمامہ وپگڑی کے گوشے کو مستثنی کیا ہے کہ اُن پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_

اس مسئلہ میں مکتب اہلبیت(ع) والوں کی دلیل، رسولخدا(ص) اور آئمہ اطہار(ع) سے نقل ہونے والی احادیث اور اصحاب کا عمل ہے_ ان محکم ادلّہ کی وجہ سے وہ اس عقیدہ پر اصرار کرتے ہیں اور اس لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی(ص) میں اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ قالین و غیرہ پر سجدہ نہ کریں بلکہ پتھر پر سجدہ کریں اور کبھی حصیر اور مصلی و غیرہ اپنے ساتھ لاتے ہیں اور ا س پر سجدہ کرتے ہیں_

ایران، عراق اور دیگر شیعہ نشین ممالک کی تمام مساجد میں چونکہ قالین بچھے ہوئے ہیں، اس لیے خاک سے ''سجدہ گاہ'' بنا کر اسے قالین پر رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں تاکہ پیشانی کو کہ جو تمام اعضاء میں اشرف و افضل ہے اللہ تعالی کے حضور، خاک پر رکھا جاسکے_ اور اس ذات احديّت کی بارگاہ میں انتہائی تواضع و انکساری کا مظاہرہ کیا جاسکے_ کبھی یہ '' سجدہ گاہ''

۱۲۴

شہداء کی تربت سے بنائی جاتی ہے تا کہ راہ خدا میں ان کی جانثاری کی یاد تازہ ہو اور نماز میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_اور پھر شہدائے کربلا کی تربت کو دوسری ہر قسم کی خاک پر ترجیح دی جاتی ہے لیکن شیعہ ہمیشہ اس تربت یا دوسری خاک کے پابند نہیں ہیں بلکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے مساجد کے صحنوں میں لگے ہوئے پتھروں ( جیسے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے صحن والے سنگ مرمر) پر بھی با آسانی سجدہ کر لیتے ہیں ( غور کیجئے)

بہرحال مکتب اہلبیت(ع) کے پاس زمین پر سجدہ کے وجوب کے بارے میں بہت سی ادلّہ ہیں من جملہ پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث ، صحابہ کی سیرت جو آئندہ بحث میں بیان ہوگی اور آئمہ اطہار سے نقل ہونے والی روایات کہ جنہیں ہم عنقریب نقل کریں گے_

ہمیں تعجب یہ ہے کہ بعض اہلسنت برادران ہمارے اس فتوی کے مقابلے میں کیوں اسقدر شدید ردّعمل کا مظاہرہ کرتے ہیںاور کبھی اسے بدعت سے تعبیر کرتے ہیں حتی بعض اوقات اسے کفر اور بُت پرستی شمار کرتے ہیں_

اگر ہم خود ان کی اپنی کتابوں سے ثابت کردیں کہ رسولخدا(ص) اور انکے اصحاب، زمین پر سجدہ کرتے تھے تو کیا پھر بھی یہ عمل بدعت ہوگا؟

اگر ہم ثابت کردیں کہ آنحضرت(ص) کے بعض اصحاب جیسے جناب جابر ابن عبداللہ انصاری وغیرہ جب شدید گرمی کی وجہ سے پتھر اور ریت گرم ہوجاتی تھی تو وہ کچھ مقدار ریت کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تبدیل کرتے تھے تا کہ کچھ ٹھنڈی ہوجائے اور اس پر سجدہ کیا جاسکے''(۱) تو کیا اس صورت میں جناب جابر ابن عبداللہ کو بت پرست یا بدعت گزار شمار کریں گے؟

____________________

۱) مسند احمد ، ج ۳، ص ۳۲۷و سنن بیہقی جلد ۱ص ۲۳۹_

۱۲۵

پس جو شخص حصیر پر سجدہ کرتا ہے یا ترجیح دیتا ہے کہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی(ص) کے فرش پر سجدہ کرے تو کیا وہ حصیر کی پرستش کرتا ہے یا مسجد کے فرش کی پوجا کرتا ہے؟

کیا ضروری نہیں ہے کہ یہ برادران اس موضوع پر مشتمل ہماری ہزاروں فقہی کتابوں میں سے کم از کم ایک کتاب کا مطالعہ کریں تا کہ انہیں پتہ چل جائے کہ ان ناروا نسبتوں میں ذرّہ برابر بھی حقیقت کی جھلک نہیں ہے؟

آیا کسی پر بدعت یا کفر و بت پرستی کی تہمت لگنا،کم گناہ ہے اور قیامت کے دن اللہ تعالی اسے آسانی سے معاف کردیگا؟

اس بات کو جاننے کے لیے کہ کیوں شیعہ زمین پر سجدہ کرتے ہیں، امام صادق _ کی اس حدیث کی طرف توجہ کافی ہے_ ہشام بن حکم نے کہ جو امام کے خصوصی اصحاب میں سے تھے سوال کیا، کہ کس چیز پر سجدہ کیا جاسکتا ہے اور کسی چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا''السجود لا یجوز الا علی الارض او ما انبتت الارض الا ما أکل اَو لبس'' کسی چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے مگر صرف زمین پر یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہیں اور کھانے اور پہننے کے کام نہیں آتیں ہشام کہتا ہے میں نے عرض کی آپ(ع) پر قربان ہوجاؤں اس کی حکمت کیا ہے ؟

آپ(ع) نے فرمایا:''لانّ السّجُودَ هُو الخضوع للّه عزّوجل فلا ینبغی أن یکونَ علی ما يُؤكَلُ و يُلبس لانّ أَبناء الدُّنیا عَبید ما یا کلون و یلبسون و الساجدُ فی سُجوده فی عبادة الله فلا ینبغی أن يَضَعَ جَبهَتَهُ فی سُجوده علی معبود أبناء الدُّنیا الذین اغتَرُّ وا بغرورها'' کیونکہ سجدہ اللہ تعالی کے سامنے خضوع اور انکساری ہے اس لیے مناسب نہیں ہے کہ انسان کھانے اور پہننے کی چیزوں پر سجدہ کرے_

۱۲۶

کیونکہ دنیا پرست لوگ کھانے اور پہننے والی چیزوںکے بندے ہوتے ہیں_ جبکہ وہ شخص جو سجدہ کر رہا ہے سجدہ کی حالت میں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہے پس مناسب نہیں ہے کہ انسان اپنی پیشانی کو سجدہ کی حالت میں ایسی چیزوں پر رکھے جو دنیا پرستوں کے معبود ہیںاور انکی زرق و برق کے وہ فریفتہ ہیں_

اس کے بعد امام _ نے اضافہ فرمایا: ''و السّجودُعلی الارض أفضلُ لانّه أبلغ للتواضع و الخُضوع للّه عزوجل ''کہ زمین پر سجدہ کرنا افضل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے حضور بہتر طور پرخضوع وتواضع اور انکساری کی علامت ہے_(۱)

۴_ مسئلہ کی ادلّہ:

اب ہم اس مسئلہ کی ادلّہ بیان کرتے ہیں _سب سے پہلے رسول اکرم(ص) کے کلام سے شروع کرتے ہیں:

الف) زمین پر سجدہ کے سلسلہ میں معروف حدیث نبوی:

اس حدیث کو شیعہ و اہل سنت نے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا''جُعلت لی الارضُ مسجداً و طهوراً'' کہ زمین میرے لیے محل سجدہ اور طہارت ( تیمم) قرار دی گئی ہے''(۲)

بعض علماء نے یہ خیال کیا ہے کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ پوری روئے زمین اللہ کی عبادت کا مقام ہے_ پس عبادت کا انجام دینا کسی معيّن مقام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جیسا کہ یہود

____________________

۱) علل الشرائع، جلد ۲، ص ۳۴۱_

۲) صحیح بخاری جلد ۱، ص ۹۱و سنن بیہقی، جلد ۲_ ص ۴۳۳ (ا ور بہت سی دوسروی کتابوں میں یہ حدیث نقل ہوئی ہے)_

۱۲۷

و نصاری گمان کرتے تھے کہ عبادت کو حتماً کلیساؤں اور عبادت خانوں میں انجام دینا چاہیے''_

لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفسیر حدیث کے حقیقی معنی کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرما یا'' زمین طہور بھی ہے اور مسجد بھی'' اور ہم جانتے ہیں کہ جو چیز طہور ہے اور جس پر تیمّم کیا جاسکتا ہے وہ زمین کی خاک اور پتھر ہیں پس سجدہ گاہ کو بھی وہی خاک اور پتھر ہونا چاہیے_

اگر پیغمبر اکرم(ص) اس معنی کو بیان کرنا چاہتے کہ جسکا بعض اہلسنت کے علماء نے استفادہ کیا ہے تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ ''جُعلت لی الارض مسجداً و ترابُها طهوراً'' پوری سرزمین کو میرے لیے مسجد قرار دیا گیا اور اس کی خاک کو طہارت یعنی تیمم کا وسیلہ قرار دیا گیاہے'' لیکن آپ(ص) نے یوں نہیں فرمایا_ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں مسجد سے مراد جائے سجدہ ہے لہذا سجدہ گاہ کو بھی اسی چیز سے ہونا چاہیے جس پر تیمم ہوسکتا ہے_

پس اگر شیعہ زمین پر سجدہ کرنے کے پابند اور قالین و غیرہ پر سجدہ کو جائز نہیں سمجھتے تو یہ کوئی غلط کام نہیں کرتے بلکہ رسولخدا(ص) کے دستور پر عمل کرتے ہیں_

ب) سیرت پیغمبر(ص) :

متعدّد روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) بھی زمین پر سجدہ کرتے تھے، کپڑے یا قالین و غیرہ پر سجدہ نہیں کرتے تھے_

ابوہریرہ کی ایک حدیث میں یوں نقل ہوا ہے وہ کہتا ہے ''سجد رسول الله (ص) فی یوم مطیر حتی أنّی لانظر الی أثر ذلک فی جبهته و ارنبته'' میں نے رسولخدا(ص) کو ایک

۱۲۸

بارانی دن زمین پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا _ سجدہ کے آثار آپ کی پیشانی اور ناک پر نمایاں تھے_(۱)

اگر سجدہ کپڑے یا دری و غیرہ پر جائز ہوتا تو ضرورت نہیں تھی کہ آنحضرت(ص) بارش کے دن بھی زمین پر سجدہ کریں_

حضرت عائشےہ نیز فرماتی ہیں ''ما رأیتُ رسول الله متقیاً وجهه بشیئ''میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آنحضرت(ص) ( سجدہ کے وقت ) اپنی پیشانی کسی چیز سے ڈھانپ لیتے ہوں''(۲)

ابن حجر اسی حدیث کیتشریح میں کہتے ہیں: کہ یہ حدیث اس بات کیطرف اشارہ ہے کہ سجدہ میں اصل یہ ہے کہ پیشانی زمین پر لگے لیکن اگر قدرت نہ ہو تو پھر یہ واجب نہیں ہے_(۳)

ایک دوسری روایت میں جناب میمونہ ( رسول اکرم(ص) کی ایک دوسری زوجہ) سے یوں نقل ہوا ہے کہ ''و رسول الله یصّلی علی الخُمرة فیسجد'' پیغمبر اکرم حصیر (چٹائی) پر نماز پڑھتے اور اس پرسجدہ کرتے تھے_

اہلسنت کی معروف کتب میں متعدّد روایات نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) '' خمرہ'' پر نماز پڑھتے تھے ( خُمرہ اس چھوٹے سے مصلی یا حصیر کو کہتے ہیں جو کجھور کے پتوں سے بنایا جاتا تھا)تعجب یہ ہے کہ اگر شیعہ اسی طرح عمل کریں اور نماز پڑھتے وقت کوئی مصلی بچھالیں تو ان پر بعض متعصب لوگوں کی طرف سے بدعت کی تہمت لگائی جاتی ہے_ اور غصے کے ساتھ انہیں

____________________

۱) مجمع الزوائد، جلد ۲، ص ۱۲۶_ ۲) مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد ۱ ، ص ۳۹۷_

۳) فتح الباری ، جلد۱، ص ۴۰۴_

۱۲۹

دیکھا جاتا ہے_

حالانکہ یہ احادیث بتاتی ہیں کہ یہ کام پیغمبر اکرم(ص) کی سنت ہے_

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ سنّت کو بدعت شمار کیا جائے

مجھے نہیں بھولتا کہ ایک مرتبہ حج کے موقع پر مدینہ میں ، میں مسجد نبوی(ص) میں ایک چھوٹی سی چٹائی پر نماز پڑھنا چاہتا تھا تو ایک متعصّب وہابی عالم دینآیا اور اس نے بڑے غصّے کے ساتھ چٹائی اٹھاکر کونے میں پھینک دی گویا وہ بھی اس سنت کو بدعت سمجھتا تھا_

ج) صحابہ اور تابعین کی سیرت

اس بحث میں دلچسپ موضوع یہ ہے کہ اگر ہم اصحاب اور انکے بعد آنے وال-ے افراد (یعنی تابعین) کے حالات کا غور سے مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے وہ بھی زمین پر سجدہ کرتے تھے مثال کے طور پر:

۱_ جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں''کنتُ اُصلّی مع النّبی الظهر فآخذ قبضة من الحصی فاجعلها فی کفّی ثُم احولها الی الکفّ الاُخری حتی تبرد ثم اضعها لجبینی حتی اسجد علیها من شّدة الحرّ''میں پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ نماز ظہر پڑھتا تھا_ شدید گرمی کی وجہ سے کچھ سنگریزے ہاتھ میں لے لیتا تھا اور انہیں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تبدیل کرتا رہتا تھا تا کہ وہ کچھ ٹھنڈے ہوجائیں اور ان پر سجدہ کرسکوں یہ کام گرمی کی شدت کی وجہ سے تھا''(۱)

____________________

۱) مسند احمد ، جلد ۳، ص ۳۲۷ ، سنن بیہقی ، جلد۱ ، ص ۴۳۹_

۱۳۰

اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب پیغمبر(ص) زمین پر سجدہ کرنے کے پابند تھے، حتی کہ شدید گرمی میں بھی اس کا م کے لیے راہ حل تلاش کرتے تھے_ اگر یہ کام ضروری نہ ہوتا تو اتنی زحمت کی ضرورت نہیں تھی_

۲_ انس بن مالک کہتے ہیں ''كُنّا مع رسول الله (ص) فی شدّة الحرّ فیأخذأحدنا الحصباء فی یده فإذا برد وضعه و سجّد علیه '' ہم شدید گرمی میں رسولخدا(ص) کے ساتھ تھے ہم میں سے بعض لوگ کچھ سنگریزے ہاتھ میں لے لیتے تھے تا کہ ٹھنڈے ہوجائیں پھر انہیں زمین پر رکھ کر اُن کے اوپر سجدہ کرتے تھے_(۱)

یہ تعبیر یہی بتاتی ہے کہ یہ کام اصحاب کے درمیان رائج تھا_

۳_ ابوعبیدہ نقل کرتے ہیں ''انّ ابن مسعود لا یسجد _ أو قال لا یصلّی _ الا علی الارض'' کہ جناب عبداللہ ابن مسعود صرف زمین پر سجدہ کرتے تھے یا یوں کہا کہ صرف زمین پر نماز پڑھتے تھے_(۲)

اگر زمین سے قالین یا دری و غیرہ مراد ہوتی تو کہنے کی ضرورت نہیں تھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ زمین سے وہی خاک: ریت اور سنگریزے و غیرہ مراد ہیں_

۴_ عبداللہ ابن مسعود کے ایک دوست مسروق بن اجدع کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ'' کان لا یرخص فی السجود علی غیر الارض حتی فی السفینة وکان یحمل فی السفینة شیئاً یسجدعلیه'' وہ سوائے زمین کے کسی شے پر سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے حتی اگر کشتی میں سوار ہونا ہوتا تو کوئی چیز اپنے ساتھ کشتی میں رکھ لیتے تھے جس

____________________

۱) السنن الکبری بیہقی ، جلد ۲، ص ۱۰۶_

۲) مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد ۱، ص ۳۹۷_

۱۳۱

پر سجدہ کرتے''(۱)

۵_ جناب علی ابن عبداللہ ابن عباس نے '' رزین '' کو خط میں لکھا''ابعث اليّ بلوح من أحجار المروة علیه اسجُد'' کہ مروہ کے پتھروں میں سے ایک صاف سا پتھر میرے لیے بھیجنا تا کہ میں اس پر سجدہ کرسکوں''(۲)

۶_ کتاب فتح الباری ( شرح صحیح بخاری) میں نقل ہوا ہے کہ ''کان عمر ابن عبدالعزیز لا یکتفی بالخمرة بل یضع علیها التراب و یسجد علیه'' عمر ابن عبدالعزیز نماز کے لیے صرف چٹائی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر مٹی رکھ لیتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے_(۳)

ان تمام روایات سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟ کیا یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ اصحاب اور انکے بعد آنے والے افراد کی ( ابتدائی صدیوں میں ) یہی سیرت تھی کہ زمین پر یعنی خاک ، پتھر، ریت اور سنگریزوں و غیرہ پر سجدہ کرتے تھے_

اگر آج ہمارے زمانے میں کچھ مسلمان اس سنت کو زندہ رکھنا چاہیں تو کیا اسے بدعت کے عنوان سے یاد کیا جائے؟

کیا فقہائے اہلسنت کو نہیں چاہیے کہ قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس سنّت نبوی (ص) کو زندہ کریں، وہی کام جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں انتہائی خضوع، انکساری اور عاجزی سے حکایت کرتا ہے اور سجدہ کی حقیقت کے ساتھ زیادہ سازگار ہے_ ( ایسے دن کی امید کے ساتھ)_

____________________

۱) طبقات الکبری ، ابن سعد، جلد ۶، ص ۵۳_

۲) اخبار مكّہ ازرقی، جلد ۲ ،ص ۱۵۱_

۳) فتح الباری ، جلد ۱ ، ص ۴۱۰_

۱۳۲

۷

جمع بین صلاتین

۱۳۳

بیان مسئلہ:

نماز، خالق اور مخلوق کے درمیان ایک اہم ترین رابطہ اور تربيّت کے ایک اعلی ترین لائحہ عمل کا نام ہے_ نماز خودسازی اور تزکیہ نفوس کا ایک بہترین وسیلہ اور فحشاء و منکر سے روکنے والے عمل کا نام ہے_ نماز قرب الہی کا بہترین ذریعہ ہے_

اور با جماعت نماز مسلمانوں کی قوّت و قدرت اور انکی صفوف میں وحدت کا مظہر اور اسلامی معاشرے کے لیے با افتخار زندگی کا باعث ہے_

نماز اصولی طور پر دن رات میں پانچ مرتبہ انجام دی جاتی ہے جس سے انسان کے دل و جان ہمیشہ فیض الہی کے چشمہ زلال سے دُھلتے رہتے ہیں_

نماز کو رسول خدا(ص) نے اپنی آنکھوں کا نور قرار دیا اور اس کے لیے ''قرةُ عینی فی الصلاة ''(۱) ارشاد فرمایا اور اسے مؤمن کی معراج شمار کرتے ہوئے_''الصلوة معراج المؤمن'' (۲) کی صدا بلند کی اور اسے متّقین کے لیئے قرب الہی کے وسیلہ کے عنوان سے

____________________

۱) مکارم الاخلاق ، ص ۴۶۱_

۲) اگرچہ یہ جملہ کتب احادیث میں نہیں ملا لیکن اسقدر مشہور ہے کہ علامہ مجلسی نے اپنے بیانات کے دوران اس جملہ سے استشہاد فرمایا ہے ( بحار الانوار ، جلد ۷۹ ص ۲۴۸، ۳۰۳)_

۱۳۴

متعارف کرایا''الصلاة قربان کلی تقّی'' (۱)

اس مقام پر موضوع سخن یہ ہے کہ کیا پانچ نمازوں کا پانچ اوقات میں علیحدہ علیحدہ انجام دینا ایک واجبی حکم ہے؟ اور اس کے بغیر نماز باطل ہوجاتی ہے ( جسطرح وقت سے پہلے نماز پڑھ لینا ،اس کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے ) یا اسے تین وقتوں میں انجام دیا جاسکتا ہے؟

( یعنی ظہر و عصر کی نماز اور مغرب و عشاء کی نماز کو جمع کر کے ادا کیا جائے) علمائے شیعہ _ مکتب اہلبیت(ع) کی پیروی کرتے ہوئے _ عموماً اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ پانچ نمازوں کو تین وقتوں میں انجام دینا جائز ہے اگرچہ افضل و بہتر یہ ہے کہ نماز پنچگانہ کو پانچ وقتوں میں انجام دیا جائے_

لیکن علمائے اہلسنت کی اکثریت _ سوائے چند ایک کے _ اس بات کی قائل ہے کہ نماز پنچگانہ کو علیحدہ علیحدہ پانچ اوقات میں انجام دینا واجب ہے ( صرف عرفہ کے دن میدان عرفات میں ظہر و عصر کی نماز وں کو اکٹھا پڑھا جاسکتا ہے اور عید قربان کی رات مشعر الحرام میں مغرب و عشاء والی نماز کواکٹھا بجالایا جاسکتا ہے البتہ بہت سے علماء نے سفر اور بارش کے اوقات میں کہ جب نماز جماعت کے لیے مسجد میں رفت وآمد مشکل ہو دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کی اجازت دی ہے)_

شیعہ فقہاء کی نظر میں _ جیسا کہ بیان ہوا _ نماز پنچگانہ کے جدا جدا پڑھنے کی فضیلت پر تاکید کے ساتھ _ نمازوں کو تین اوقات میں بجالانے کی اجازت اور ترخیص کو ایک عطیہ الہی شمار کیا جاتا ہے جسے امر نماز میں سہولت اور لوگوں کے لیے وسعت کی خاطر پیش کیا گیا ہے_

____________________

۱) کافی جلد ۳، ص ۲۶۵ ، حدیث ۲۶_

۱۳۵

اور اس اجازت کو روح اسلام کے ساتھ سازگار سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسلام ایک ''شریعة سمحة و سہلة'' (آسان و سہل) ہے_

تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نماز کے لیے پانچ وقتوں پر علیحدہ علیحدہ تاکید کبھی اس بات کا سبب بنتی ہے کہ اصل نماز بالکل فراموش ہوجائے اور بعض لوگ نماز کو ترک کردیں_

اسلامی معاشروں میں پانچ اوقات پر اصرار کے آثار:

اسلام نے کیوں عرفہکے دن ظہر و عصر کی نماز اور مشعر الحرام میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے؟

کیوں بہت سے اہلسنت فقہائ، روایات نبوی(ص) کی روشنی میں سفر کے دوران اور بارش کے اوقات میں دو نمازوں کے اکٹھا پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں؟ یقیناً امت کی سہولت کی خاطر یہ احکام نازل ہوئے ہیں_

یہ تسہیل تقاضا کرتی ہے کہ دیگر مشکلات میں بھی چاہے سابقہ زمانے میں ہوں یا اس دور میں _ نماز کے جمع کرنے کی اجازت دینی چاہیے_

ہمارے زمانے میں لوگوں کی زندگی تبدیل ہوچکی ہے_ کارخانوں میں بہت سے مزدوروں، دفتروں میں بہت سے ملازمین اور کلاسوں میں بہت سے طالب علموں کو پانچ وقت نماز کی فرصت نہیں ملتی ہے یعنی انکے لیےکام کرنا کافی دشوار اور پیچیدہ ہوجاتا ہے_

پس ان روایات کے مطابق جو پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہوئی ہیں اور آئمہ طاہرین نے ان پر تاکید کی ہے اگر لوگوں کو دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو اس اعتبار سے

۱۳۶

انکے کام میں سہولت حاصل ہوگی_ اور نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ جائیگی_

اگر ایسا نہ کیا جائے تو ترک نماز میں اضافہ ہوگا اور تارک صلوة لوگوں کی تعداد بڑھتی جائیگی شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہلسنت کے جوان نماز کو چھوڑ تے ہیں اور اہل تشیع میں تارکین نماز کی تعداد بہت کم ہے_

انصاف یہ ہے کہ'' بُعثتُ الی الشریعة السمحة السهلة'' (۱) اور رسولخدا(ص) سے نقل ہونے والی متعدد روایات کی روشنی میں لوگوں کو تین اوقات میں نماز پڑھنے کی اجازت دینی چاہیے اسی طرح فرادی نماز کی بھی اجازت دینی چاہیے تا کہ زندگی کی مشکلات، ترک نماز کا موجب نہ بنے _ اگرچہ اسلام میں پانچ وقت نماز کی فضیلت پر تاکید ہوئی ہے اور وہ بھی جماعت کے ساتھ_

دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کے جواز پر روایات:

اہلسنت کی معروف کتب جیسے صحیح مسلم ، صحیح بخاری ، سنن ترمذی ، مؤطّاء مالک، مسند احمد، سنن نسائی، مصنف عبدالرّزاق اور دیگر مشہور کتابوں میں تقریباً تیس ۳۰ روایات نقل کی گئی ہیں جن میں بغیر سفر اور مطر ( بارش) کے، بغیر خوف اور ضرر کے ، نماز ظہر و عصر یا نماز مغرب و عشاء کے اکٹھا پڑھنے کو نقل کیا گیا ہے_ ان میں سے اکثر روایات کو ان پانچ مشہور اصحاب نے نقل کیا ہے_

۱_ ابن عباس، ۲، جابر ابن عبداللہ انصاری، ۳_ ابو ايّوب انصاری ، ۴_ عبداللہ ابن عمر ، ۵_ ابوہریرہ ، ان میں سے بعض کو ہم قارئین محترم کے لیئے نقل کرتے ہیں_

____________________

۱)مُجھے ایک سہل اور آسان شریعت کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے ( ترجمہ)_

۱۳۷

۱_ ابوزبیر نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ '' صلّی رسول اللہ(ص) الظہر و العصر جمیعاً بالمدینة فی غیر خوف و لا سفر'' رسولخدا(ص) نے مدنیةمیں بغیر کسی خوف اور سفر کے نماز ظہر او ر عصر کو اکٹھا انجام دیا_

ابو الزبیرکہتے ہیں میں نے سعید ابن جبیر سے پوچھا کہ پیغمبراکرم(ص) نے ایسا کیوں کیا؟ تو وہ کہنے لگے کہ یہی سوال میں نے ابن عباس سے کیا تھا تو انہوں نے جواب میں کہا تھا ''أراد أن لا يَحرجَ أحداً من أمّته '' آنحضرت(ص) کا مقصد یہ تھا کہ میری امت کا کوئی مسلمان بھی زحمت میں نہ پڑے''(۱)

۲_ایک اور حدیث میں ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے ''جَمع رسول اللّه بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء فی المدینة فی غیر خوف و لا مطر'' ''پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکٹھا انجام دیا''_

حدیث کے ذیل میں آیا ہے کہ جب ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) کا اس جمع بین صلاتین سے کیا مقصد تھا تو انہوں نے جواب میں کہا''أراد أن لا یحرج'' آنحضرت(ص) کا یہ مقصد تھا کہ کوئی مسلمان بھی زحمت و مشقت سے دوچار نہ ہو_(۲)

۳_ عبداللہ ابن شقیق کہتے ہیں:

' ' خطبنا ابن عباس یوماً بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس یقولون الصلاة، الصلاة قال فجائه، رجل من بنی تمیم لا

____________________

۱) صحیح مسلم، جلد ۲،ص ۱۵۱_

۲) صحیح مسلم، جلد ۲،ص ۱۵۲_

۱۳۸

یفتر و لا یتنی: الصلوة ، الصلوة فقال ابن عباس أتعلّمنی بالسّنّة لا اَمّ لک ثمّ قال: رایت رسول الله جمع بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء قال عبدالله بن شقیق: فحاک فی صدری من ذلک شیء فأتیتُ ابا هریره فسألته ، فصّدق مقالتَه'' (۱)

کہ ایک دن ابن عباس نے نماز عصر کے بعد خطبہ پڑھنا شروع کیا یہاںتک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہوگئے ، لوگوں نے نماز، نماز کی آوازیں لگانا شروع کردیں_ ایسے میں بنو تمیم قبیلہ کا ایک آدمی آیا وہ مسلسل نماز، نماز کی صدائیں بلند کر رہا تھا اس پر ابن عباس نے کہا ، تو مجھے سنت رسول(ص) سکھانا چاہتا ہے اے بے حسب و نسب میں نے دیکھا ہے کہ رسولخدا(ص) نے نماز ظہر و عصر کو ،اسی طرح نماز مغرب و عشاء کو اکٹھا پڑھا ہے عبداللہ بن شقیق کہتا ہے میرے دل میں شک سا پیدا ہوگیا، میں ابوہریرہ کے پاس آیا اور اُن سے یہی بات دریافت کی انہوں نے ابن عباس کے کلام کی تصدیق کی_

۴_ جابر ابن زیدلکھتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا کہ : ''صلّی النّبی(ص) سبعاً جمیعاً و ثمانیاً جمیعاً'' پیغمبر اکرم(ص) نے سات رکعتیں اور آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھیں'' (مغرب اور عشاء کی نماز اسی طرح ظہر اور عصر کی نماز کے اکٹھا پڑھنے کی طرف اشارہ ہے)(۲)

____________________

۱) سابقہ مدرک_

۲) صحیح بخاری ، جلد ۱، ص ۱۴۰ ( باب وقت المغرب)_

۱۳۹

۵_ سعید بن جُبیر، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ:

'' جَمع رسولُ الله (صلی الله علیه و آله و سلم ) بین الظهر و العصر و بین المغرب و العشاء بالمدینة من غیر خوف و لا مطرً قال: فقیل لأبن عباس : ما أراد بذلک؟ قال أراد أن لا یحرج أمتّه'' (۱)

'' پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں بغیر دشمن کے خوف اور بارش کے ، ظہر و عصر کی نماز، اسی طرح مغرب و عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آنحضرت(ص) کا اس کام سے کیا مقصدتھا؟ تو انہوں نے کہا آپ(ص) چاہتے تھے کہ انکی امت مشقّت میں نہ پڑے''

۶_ امام احمد ابن حنبل نے بھی اسی کے مشابہ حدیث اپنی کتاب مسند میں ابن عباس سے نقل کی ہے_(۲)

۷_ امام مالک نے اپنی کتاب '' مؤطا'' میں مدینہ کا تذکرہ کیے بغیر ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے:

'' صلَّ رسولُ الله (ص) الظهر و العصر جمیعاً و المغرب و العشاء جمیعاً فی غیر خوف و لا مطر'' (۳)

____________________

۱) سنن ترمذی ، جلد ۱۲۱ حدیث ۱۸۷_

۲) مسند احمد، جلد ۱ ، ص ۲۲۳_

۳) مؤطا مالک، جلد ۱ ، ص ۱۴۴_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232