شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 67618
ڈاؤنلوڈ: 3065

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 67618 / ڈاؤنلوڈ: 3065
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

'' رسولخدا(ص) نے ظہر و عصر کی نماز کو اسی طرح مغرب و عشاء کی نماز کو اکٹھا پڑھا حالانکہ نہ تو دشمن کا خوف تھا اور نہ ہی بارش کا خطرہ''

۸: '' مصنف عبدالرزاق'' نامی کتاب میں جناب عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا گیا ہے کہ:

'' جَمع لنا رسولُ الله صلَّی الله علیه و آله و سلم مقیماً غیر مسافربین الظهر و العصرفقال رجلٌ لأبن عمر : لم تری النّبی (ص) فعل ذلک؟ قال لأن لا یحرج اُمّته أن جمع رجل'' (۱)

پیغمبر اکرم (ص) نے بغیر سفر کے یعنی قیام کی حالت میں ظہر و عصر کی نمازوں کو اکٹھا پڑھایا، کسی نے ابن عمر سے پوچھا آپ کے خیال کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے یہ کام کیوں کیا؟ اس پرانہوں نے کہا آپ(ص) نے یہ کام اس لیے انجام دیا کہ اگر امت میں سے کوئی ان دو نمازوں کو اکٹھا پڑھ لے توزحمت میں مبتلا نہ ہو( لوگ اس پراعتراض نہ کریں)_

۹_ جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ:

'' جَمع رسولُ الله (ص) بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء فی المدینة للرّخص من غیر خوف: و لا علّة'' (۲)

'' رسولخدا(ص) نے مدینہ میں بغیر دشمن کے خوف اوربغیر کسی عذر کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا تا کہ امت کے لیے اجازت اور رخصت شمار ہو _

____________________

۱) مصنف عبدالرزاق ، جلد ۲ ، ص ۵۵۶_

۲) معانی الآثار، جلد ۱ ، ص ۱۶۱_

۱۴۱

۱۰_ ابوہریرہ نیز نقل کرتے ہیں کہ:

'' جمع رسول الله (صلی الله علیه و آله و سلم ) بین الصلوتین فی المدینة من غیر خوف:'' (۱)

رسولخدا(ص) نے مدینہ میں بغیر دشمن کے خوف کے دو نمازوں کو اکٹھا پڑھا _

۱۱_ عبداللہ بن مسعود بھی نقل کرتے ہیں کہ:

'' جمع رسول الله (ص) بین الاولی و العصر و المغرب و العشاء فقیل له فقال(ص) : صنعته لئلّا تکون أمتی فی حرج'' (۲)

رسولخدا(ص) نے مدینہ میں ظہر و عصر کی نماز، اسی طرح مغرب و عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا_ کسی نے آپ (ص) سے اس کے سبب کے بارے میں سوال کیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ یہ کام میں نے اس لیے کیا ہے تا کہ میری امّت مشقّت میں نہ پڑے_

اسی طرح اور بہت سی احادیث موجود ہیں جو اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں_

یہاںپر دوسوال پیش نظر ہیں:

۱_ مذکورہ احادیث کا نتیجہ :

مذکورہ بالا تقریباً تمام احادیث میں '' کہ جو اہلسنت کی مشہور اور درجہ اول کی کتب میں ذکر ہوئی ہیں اور ان کی سند بعض بزرگ اصحاب تک پہنچتی ہے'' د و نکات پر تاکید کی گئی ہے:

____________________

۱) مسند البزّاز، جلد ۱ ، ص ۲۸۳_

۲) المعجم الکبیر طہرانی، جلد ۱۰، ص ۲۱۹ ، حدیث ۱۰۵۲۵_

۱۴۲

ایک تو یہ کہ رسولخدا(ص) نے دو نمازوں کو اس حال میں اکٹھا انجام دیا کہ کسی قسم کی مشکل جیسے دشمن کا خوف، سفر ، بارش و غیرہ، در پیش نہیں تھی_

اور دوسرے یہ کہ آپ(ص) کا مقصد '' امت کو رخصت دینا'' اور '' عسر و حرج سے نجات دلانا'' تھا_

آیا ان نکات کی روشنی میں سزاوار ہے کہ بعض لوگ اعتراض تراشی کریں اوریوں کہیں کہ یہ اکٹھا پڑھنا اضطراری موارد میں تھا؟ہم کیوں حقائق سے چشم پوشی کریں، اور اپنے خام نظریات کو رسولخدا(ص) کے صریح فرامین پر ترجیح دیں؟

خدا اور اس کے رسول(ص) نے اجازت دی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ امّت کے بعض متعصّب لوگ اجازت نہیں دیتے آخر کیوں ؟

یہ لوگ کیوں نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمان جوان ہر حال میں اور ہر جگہ پر ، اسلامی ممالک کے اندر اور باہر، یونیور سٹیوں، دفتروں اور کارخانوں میں اس اہم ترین اسلامی فریضہ (یعنی یومیہ نمازیوں) پر عمل کریں؟

ہمارا نظریہ ہے کہ اسلام قیامت تک ہر زمان اور ہر مکان کے لیے ہے_

پیغمبر اکرم (ص) یقینا اپنی وسعت نظری کے ذریعہ تمام دنیا کے مسلمانوں اور تمام زمانوں اور صدیوں کے لوگوں کو مدنظر رکھے ہوئے تھے وہ جانتے تھے کہ اگر تمام لوگوں کو پانچ وقت میں نماز پڑھنے پر مقيّد کریں گے تو اس کے نتیجے میں بعض لوگ تارک الصلاة ہوجائیں گے ( جیسا کہ ہم آجکل دیکھ رہے ہیں) اسی لیے انہوں نے اپنی امت پر احسان کیا اور کام کو آسان

۱۴۳

کردیا تا کہ سب لوگ ہر زمان و مکان میں آسانی کے ساتھ روزانہ کی نمازوں کو بجالا سکیں_

قرآن مجید فرماتا ہے:

( '' و مَا جَعَل عَلیكُم فی الدّین من حَرَج:'' ) (۱)

۲_ قرآن مجید اور نماز کے تین اوقات:

اسی مسئلہ میں تعجب کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی دو آیات میں جب نماز کے اوقات کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہاں یومیہ نمازوں کے لیے صرف تین اوقات ذکر کیے گئے ہیں_ تعجب یہ ہے کہ کیوں ان بھائیوں میں سے ایک گروہ پانچ اوقات کے وجوب پر اصرار کرتا ہے_

پانچ اوقات میں نماز کی زیادہ فضیلت کے بارے میں کسی کو انکار نہیں ہے_ ہمیں بھی اگر توفیق الہی شامل حال رہے تو پانچ اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں_

اختلاف صرف ان پانچ اوقات کے وجوب کے بارے میں ہے_

۱_ پہلی آیت سورہ ہود میں ہے:( ''و أقم الصلوة طَرَفی النهار و زلفاً من اللّیل'' ) دن کے دو اطراف میں اور رات کے کچھ حصّے میں نماز ادا کرو ...''(۲)

'' طرفی النہار'' نماز صبح کی طرف جو دن کی ابتداء میں انجام دی جاتی ہے، اور نماز ظہر و عصر کی طرف اشارہ ہے کہ جن کا وقت سورج غروب ہونے تک باقی ہے_ بالفاظ دیگر نماز ظہر و عصر کے وقت کا غروب آفتاب تک باقی رہنا اس آیت سے با آسانی استفادہ ہوتا ہے اور ''زُلفاً من اللیل'' کہ جس میں لفظ '' زُلف'' استعمال ہوا ہے جس کے بارے میں '' مختار

____________________

۱) سورة حج آیت ۷۸_ اور اللہ نے تم پر دین کے مسئلے میں کوئی حرج اور مشقت نہیں رکھی_

۲) سورة ہود آیت ۱۱۴_

۱۴۴

الصحاح'' اور راغب نے کتاب المفردات میں لکھا ہے کہ یہ '' زلفة'' کی جمع ہے اور اسے رات کے ابتدائی حصوں کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے_ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ''زلفاً من اللیل'' مغرب اور عشاء کے وقت کی طرف اشارہ ہے_

بنابراین اگر پیغمبر اکرم (ص) نمازوں کو عام طور پر پانچ وقتوں میں انجام دیتے تھے تووہ یقینا ان پانچ اوقات کی فضیلت کے اعتبار سے تھا کہ جس کے ہم سب معتقد ہیں ہم کیوں قرآن مجید کی آیت کے ظہور سے چشم پوشی کریں اور دوسری تاویلوں کو تلاش کریں؟

۲_ دوسری آیت سورہ اسراء میں ہے; ''( أقم الصلوة لدُلُوک الشمس إلی غَسَق اللیل و قرآن الفجر إنّ قرآن الفجر کانَ مشهوداً ) '' نماز کوزوال آفتاب کے آغاز سے رات کی تاریکی تک ادا کرو اسی طرح قرآن فجر ( نماز صبح) ادا کرو ...''(۱)

'' دلوک'' متمایل ہونے اور جھکنے کے معنی میں آتا ہے_ یہاں نصف النہار سے سورج کے تمایل کی طرف اشارہ ہے یعنی زوال کا وقت_

'' غسق اللیل'' رات کی تاریکی کے معنی میں ہے، بعض نے اسے رات کی ابتداء سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے آدھی رات کے معنی میں اس کی تفسیر کی ہے_ جیسا کہ راغب نے ''مفردات'' میں لکھا ہے کہ '' غسق'' رات کی و تاریکی کی شدّت کے معنی میں ہے اور یہ وہی آدھی رات کے وقت ہوتی ہے _

ان معانی کے مطابق دلوک شمس سے نماز ظہر و عصر کے وقت کی ابتداء کی طرف اشارہ ہے اور غسق اللیل سے نماز مغرب و عشاء کے وقت کی انتہا کی طرف اشارہ ہے اور قرآن فجر سے

____________________

۱) سورة اسرائ، آیت ۷۸_

۱۴۵

نماز صبح کی طرف اشارہ ہے_

جناب فخر رازی نے اس آیت کی بہترین تفسیر بیان کی ہے، وہ یوں رقمطراز ہیں کہ :

''إن فَسّرنا الغسق بظهور اوّل الظلمة_ و حکاه عن ابن عباس و عطا و النضر بن شمیل_ کان الغسق عبارة عن أول المغرب و علی هذا التقدیر یکون المذکور فی الآیة ثلاث اوقات وقت الزّوال ووقت أول المغرب و وقت الفجر، و هذا یقتضی أن یکون الزوال وقتا، للظُهر و العصر فیکون هذا الوقت مشترکاً بین الصلوتین و أن یکون أول المغرب وقتاً للمغرب و العشاء فیکون هذا الوقت مشترکاً ایضاً بین هاتین الصلوتین فهذا یقتضی جواز الجمع بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء مطلقاً'' (۱)

اگر ہم کلمہ غسق کو رات کی تاریکی کے آغاز کے معنی میں تفسیر کریں ( جیسا کہ ابن عباس عطا اور نضر بن شمیل بھی اسی کے قائل ہیں) تو اس وقت غسق سے مغرب کے ابتدائی وقت کی طرف اشارہ ہوگا_ اور اس بناء پر آیت میں تین اوقات ذکر

____________________

۱) تفسیر کبیر فخر رازی ، ج ۲۱، ص ۲۷_

۱۴۶

ہوئے ہیں زوال کا وقت_ غروب کا وقت اور فجر کا وقت_ اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ تین اوقات تقاضا کرتے ہیں کہ زوال نماز ظہر و عصر کا مشترکہ اورغروب نماز مغرب و عشاء کا مشترکہ وقت ہو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نماز ظہر اور عصر کو ،اسی طرح نماز مغرب اور عشاء کو بغیر کسی قید وشرط کے اکٹھا پڑھا جاسکتا ہے''

جناب فخر رازی نے یہاںتک تو بالکل صحیح بات بیان کی تھی اور آیت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھا اور سمجھایا_ لیکن اس کے بعد کہتے ہیں کہ چونکہ ہمارے پاس دلیل موجود ہے کہ دو نمازوں کے درمیان بغیر عذر و سفر کے جمع کرنا جائز نہیں ہے، اس لیئےم آیت کو عذر کی حالت میں محدود کریںگے_(۱)

موصوف کو یاد دہانی کرانی چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ ہمارے پاس آیت کو صرف حال عذر میں محدود کرنے پر دلیل موجود نہیں ہے بلکہ متعدّد روایات موجود ہیں ( جنکی طرف اشارہ ہوچکا ہے ) کہ رسولخدا(ص) نے بغیر عذر اور بغیر سفر کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکٹھا پڑھا تا کہ امّت کو سہولت دی جاسکے اور وہ اس رخصت سے بہرہ مند ہوسکیں_

علاوہ بر این آیت کے اطلاق کو کس طرح انتہائی محدود موارد کے ساتھ مختص کیا جاسکتا ہے حالانکہ علم اصول میں یہ بات مسلّم ہے کہ تخصیص اکثر جائز نہیں ہے_

بہرحال آیت نے بالکل وضاحت کے ساتھ نماز کے جو تین اوقات ذکر کیے ہیں اُن سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے_

سابقہ بیان سے ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں_

____________________

۱) سابقہ مدرک_

۱۴۷

۱_ قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ پانچ نمازوں کی تین اوقات میں بجا آوری کو جائز قرار دیا ہے_

۲_ فریقین کی کتب میں بیان کی جانے والی اسلامی احادیث سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے کئی مرتبہ دو نمازوں کو اکٹھا پڑھا حالانکہ نہ ہی سفر میں تھے اور نہ ہی کوئی اور عذر تھا_ اور اس کام کو انہوں نے مسلمانوں کے لیئے رخصت شمار کیا تا کہ وہ مشقتسے دوچار نہ ہُوں_

۳_ اگرچہ پانچ اوقات میں نماز پڑھنا فضیلت ہے، لیکن اس فضیلت پر اصرار کرنے اور ترخیص کی راہ میں رکاوٹ بننے کی وجہ سے بہت سے لوگ بالخصوص جوان نسل اصل نماز سے فرار کر جاتے ہیں _ اور اس بات کی تمام ذمہ داری ترخیص کے مخالفین کے دوش پر آتی ہے_

کم از کم اہلسنت علماء اتنا قبول کرلیں کہ اس مسئلہ میں انکے جوان بھی مکتب اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کے فتوی پر عمل کرلیں جیسا کہ بزرگ عالم دین شیخ الازہر '' جناب شیخ محمد شلتوت'' نے مذہب جعفریہ کے تمام فتاوی پر عمل کرنے کو جائز قرار دیاہے_

آخر میں پھر ہم دوبارہ تاکید کرتے ہیں _ کہ ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ آج کل دنیا میں بہت سے مزدوروں ، ملازمین ، سکول و کا لجز کے طلاب اور دیگر طبقات کے لوگوں کے لیے پانچ اوقات میں علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنا بہت مشکل کام ہے_ کیا ہمیں نہیں چاہیئے کہ رسولخدا(ص) کی دی گئی اس سہولتسے استفادہ کریں جو آجکل کے معاشرے کو مد نظر رکھتے ہوئے عنایت کی گئی ہے تا کہ نسل جوان اور دیگر لوگ نماز ترک کرنے کے بہانے نہ بنائیں_

کیا '' سنت '' پر اس حد تک اصرار کرنا صحیح ہے کہ جو '' فریضہ'' کے ترک کرنے کا سبب بنے؟

۱۴۸

۸

وضو میں پاؤں کا مسح

۱۴۹

قرآن مجید اور پاؤں کا مسح:

وضو میں پاؤں کا مسح ایک اور ایسا اعتراض ہے جسے اہلسنت کے بعض علماء ، شیعوں پر کرتے ہیں _ چونکہ اُن کی اکثریت پاؤں دھونے کو واجب سمجھتی ہیں اور پاؤں کے مسح کو کافی نہیں سمجھتی _

حالانکہ قرآن مجید نے بالکل واضح الفاظ میں پاؤں کے مسح کا حکم دیا ہے_ اس طرح مکتب اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کا عمل قرآن مجید کے بالکل مطابق ہے_ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم(ص) کی بہت سی احادیث جن کی تعداد تقریباً تیس (۳۰) سے بھی زیادہ ہے پاؤں کے مسح کو بیان کر رہی ہیں_ اور اس کے علاوہ بہت سے اصحاب اور تابعین ( وہ لوگ جو اصحاب کے بعد والے زمانے میں تھے) کا عمل پاؤں کے مسح کے بارے میں موجود ہے نہ پاؤں دھونے کے بارے میں _

لیکن مقام افسوس ہے کہ بعض مخالفین نے ان تمام ادلّہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے، بغیر کسی غور و فکر کے، ہم پر حملہ کرنا شروع کردیا اور تند و تیز الفاظ کے ذریعے، حق و عدالت سے دُوری اختیار کرتے ہوئے اس مذہب حقہ کے پیروکاروں کی سرزنش شروع کردی ہے_ ابن کثیر ، مذہب اہلسنت کے معروف عالم دین اپنی کتاب '' تفسیر القرآن العظیم'' میں کہتے ہیں:

۱۵۰

'' روافض ( ان کا مقصود اہلبیت(ع) کے پیروکار ہیں) نے وضو میں پاؤں دھونے کے مسئلہ میں مخالفت کی ہے اور جہالت و گمراہی کی وجہ سے بغیر کسی دلیل کے مسح کو کافی سمجھ لیا ہے_ حالانکہ قرآن مجید کی آیت سے پاؤں دھونے کا وجوب سمجھا جاتا ہے_ اور رسولخدا(ص) کا عمل بھی آیت کے مطابق تھا_ حقیقت میں اُن کے پاس اپنے نظریہ پر کوئی دلیل نہیں ہے(۱)

بعض دیگر علماء نے بھی اسکی اندھی تقلید کرتے ہوئے اسکی بات کو اخذ کر لیا ہے اور اس مسئلہ پر تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اپنی دلخواہ نسبت شیعوں کی طرف دی ہے_

شاید وہ اپنے تمام مخاطبین کو عوام تصوّر کر رہے تھے اور انہوں نے یہ نہ سوچا کہ ایک دن محققین انکی باتوں پر تنقید کریں گے اور( انہیں باطل ثابت کریں گے )اس طرح انہیں اسلامی تاریخ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا_

اس وقت ہم سب سے پہلے قرآن مجید کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور اس مسئلہ کا فیصلہ دریافت کرتے ہیں_ سورة مائدہ ( کہ جو پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہونے والی سب سے آخری سورت ہے ) کی آیت نمبر ۶ میں یوں ارشاد باری تعالی ہے:

''یا ايّها الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلوة فاغسلوا وُجوهکم و أیدیکم إلی المرافق و اَمسَحُوا برُء وسکم و أرجلکم إلی الکعبین''

اے صاحبان ایمان جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو اور اپنے سر اور پاؤں کا ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرو''

____________________

۱) تفسیر القرآن العظیم، جلد ۲، ص ۵۱۸_

۱۵۱

واضح ہے کہ کلمہ ''ارجلکم'' ( اپنے پاؤں)کا کلمہ '' روسکم'' ( اپنے سر) پر عطف

ہے اور اس وجہ سے دونوں کا مسح کرنا واجب ہے نہ کہ دھونا_ چاہے '' ارجلکم'' کو نصب کے ساتھ پڑھا جائے یا جر کے ساتھ ( غور کیجئے)(۱)

____________________

۱) اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ کلمہ '' ارجلکم'' کے اعراب کے بارے میں دو مشہور قرا تیں ہیں ایک جر کے ساتھ قرا ت کہ جسے بعض مشہور قرّاء جیسے حمزہ ، ابوعمرو، ابن کثیر اور حتی عاصم نے ( ابوبکر کی روایت کے مطابق ) لام کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسری طرف بعض مشہور قرّاء نے اسے نصب کے ساتھ پڑھا ہے اور آجکل قرآن مجید کے تمام رائج نسخوں میں اسی دوسری قرا ت کے مطابق اعراب لگایا گیا ہے_

لیکن دونوں اعراب کے مطابق یقینا معنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے_ کیونکہ اگر زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو بالکل واضح ہے کہ ''ارجلکم'' کا '' رؤس'' پر عطف ہے اس کا معنی یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کا مسح کرو (جسطرح سر کا مسح کرتے ہو)اگر شیعہ اس قرا ت کے مطابق عمل کریں کہ جس کے اور بھی بہت سے طرفدار ہیں تو اس میں کیا عیب ہے؟

اور اس سے بڑھ کر اگر فتح ( زبر) کے ساتھ بھی پڑھا جائے پھر بھی ''ارجلکم ''کا عطف ''برو سکم'' کے محل پر ہوگا اور واضح ہے کہ برؤسکم محل کے اعتبار سے منصوب ہے کیونکہ '' و امسحوا'' کا مفعول ہے _ پس دونوں صورتوں میں آیت کا معنی یہی بنے گا کہ پاؤں کا مسح کرو_

ہاں بعض لوگوں نے یوں خیال کیا ہے کہ اگر ''ارجلکم '' کو فتح ( زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا '' وجوہکم'' پر عطف ہوگایعنی ہاتھ اور منہ کو دھویئےس طرح پاؤں کو دھولیجئے حالانکہ یہ بات ادبیات عرب کے قواعد کے بھی خلاف اور قرآن مجید کی فصاحت کے ساتھ بھی سازگار نہیں ہے_

بہرحال یہ بات ادبیات عرب کے اس لئے خلاف ہے کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے در میان کبھی اجنبی جملہ واقع نہیں ہوتا ہے_ بلکہ ایک معروف اہلسنت عالم کے بقول محال ہے کہ '' ارجلکم '' کا ''وجوہکم'' پر عطف ہو کیونکہ ہرگز فصیح عربی میں ایسا جملہ نہیں بولا جاتا ہے کہ مثلا کوئی کہے '' ضربتُ زیداً و مررتُ ببکر و عمراً'' کہ ''میں نے زید کو مارا اور بکر کے قریب سے گزرا اور عمر کو'' یعنی عمرو کو بھی مارا ( شرح منیة المصلی ص ۱۶)

۱۵۲

بہرحال قرآن مجیدنے پاؤں کے بارے میں مسح کا حکم دیا ہے_

عجیب توجیہات

بعض لوگوں نے جب قرآن مجید کے حکم کو اپنے پہلے سے معین کردہ مفروضہ کے خلاف دیکھا تو توجیہات کرنا شروع کردیں_ ایسی توجیہات کہ جو انسان کو حیران کر دیتی ہیں_ من جملہ:

۱_ یہ آیت سنت پیغمبر (ص) کی وجہ سے اور جو احادیث آپ(ص) سے نقل ہوئی ہیں انکی خاطر منسوخ ہوگئی ہو ابن حزم نے اپنی کتاب '' الاحکام فی اصول الاحکام'' میں لکھا ہے کہ ''چونکہ سنت میں پاؤں دھونے کا حکم آیا ہے اس لیے ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ مسح والا حکم منسوخ ہوگیا ہے''_

جبکہ اولا ً:تمام مفسرین نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ سورہ مائدہ وہ آخری سورہ ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئی ہے اور اس کی کوئی بھی آیت منسوخ نہیں ہوئی ہے_

حتی کہ عام افراد بھی اس قسم کا جملہ نہیں بولتے ہیں چہ جائیکہ قرآن مجید جو فصاحت کا اکمل و اتم نمونہ ہے اس قسم کا جملہ بیان کرے_

پس جس طرح اہلسنت کے بعض محققین نے کہا ہے کہ بلاشک و شبہہ نصب کی صورت میں کلمہ '' ارجلکم'' کا عطف '' بر ء ؤسکم'' کے محل پر ہوگا اور ہرحال میں آیت کا مفہوم یہی بنے گا کہ وضو کرتے وقت سر اور پاؤں کا مسح کرو_

۱۵۳

ثانیاً : جس طرح عنقریب بیان کیا جائیگا کہ جہاں پیغمبر اکرم (ص) سے وضو میں پاؤں دھونے والی روایات نقل ہوئی ہیں اُن کے مقابلے میں آپ(ص) سے ہی متعدد روایات پاؤں کے مسح کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہیں کہ آپ(ص) وضو میں پاؤں کا مسح کیا کرتے تھے_

کس طرح ممکن ہے کہ ہم قرآن مجید کے دستور کو اس قسم کی روایات کے ذریعے نسخ کردیں_

علاوہ بر این ،تعارض روایات کے باب میں ثابت کیا گیا ہے کہ جب بھی روایات کے درمیان تضاد ہو تو قرآن مجید سے ان کی مطابقت کرنی چاہیے ، جو روایات قرآن مجید کے مطابق ہوں انہیں قبول کر لینا چاہیے اور جو قرآن مجید کے مخالف ہوں ان پر عمل نہیں کرنا چاہیے_

۲_ دوسرے کچھ افراد جیسے '' جصاص'' نے '' احکام القرآن'' نامی کتاب میں لکھا ہے کہ ''وضو والی آیت مجمل ہے اور ہم احتیاط پر عمل کرتے ہوئے پاؤں دھو لیتے ہیں تا کہ دھونا بھی صادق آجائے اور مسح بھی''(۱)

حالانکہ سب جانتے ہیں کہ (غَسل) '' دھونا'' اور '' مسح کرنا'' دو مختلف اور متباین مفہوم ہیں اور دھونا ہرگز مسح کو شامل نہیں ہوتا ہے_

لیکن کیاکیا جائے انکی پہلے سےقضاوت انہیں قرآن مجید کے ظہور پر عمل نہیں کرنے دیتی_

____________________

۱) احکام القرآن ، جلد ۲ ، ص ۴۳۴_

۱۵۴

۳_ جناب فخر رازی کہتے ہیں کہ حتی اگر '' جرّ'' کے ساتھ بھی قرا ت کی جائے یعنی ''ارجلکم'' کا '' روؤسکم'' پر عطف کیا جائے تو بالکل واضح طور پر یہ پاؤں کے مسح پر دلالت کرتا ہے، لیکن پھر بھی اس کا مقصد پاؤں کا مسح کرنا نہیں ہوگا، بلکہ پاؤں کے مسح سے مُراد یہ ہوگی کہ پاؤں دھوتے وقت پانی استعمال کرنے میں اسراف نہ کرو''(۱)

حالانکہ اگر آیات قرآن میں اس قسم کے اجتہاد اور تفسیر بالرا ی کا دروازہ كُھل جائے تو پھر ظواہر قرآن پر عمل کرنے کے لیے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی_ اگر ہمیں اجازت ہو کہ ہم ''مسح'' کو '' دھوتے وقت اسراف نہ کرنے'' کے معنی میں لے لیں تو پھر تمام آیات کے ظواہر کی دوسری طرح تفسیر کی جاسکتی ہے_

نص ّ کے مقابلے میں اجتہاد اور تفسیر بالرا ی:

بہت سے قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ جسطرح ہمارے زمانے میں اجتہاد در مقابل نص ایک قبیح اور غیر قابل قبول امر سمجھا جاتا ہے ، اسلام کے ابتدائی زمانے میں اسطرح نہیں تھا_ با الفاظ دیگر جسطرح آج ہم احادیث پیغمبر(ص) اور آیات قرآن کے مقابلے میں تعبّد اور تسلیم محض رکھتے ہیں_ اُس زمانے میں یہ تعبّد اس شدّت و قوت کے ساتھ نہیں تھا_

مثلا جب حضرت عمر نے اپنے معروف جملے میں یوں کہا کہ ''متعتان کانتا محللتان فی زمن النبی(ص) و ا نا أحرمهما و اعاقب علیهما متعة النساء و متعة الحج'' دو

____________________

۱) تفسیر کشّاف ، جلد ۱ ، ص ۶۱۰_

۱۵۵

متعے رسولخدا(ص) کے زمانے میں حلال تھے میں اُن دونوں کو حرام کرتا ہوں اور جو بھی اس حکم کی مخالفت کریگا میں اسے سزا دونگا، ایک متعة النساء اور دوسرا متعہ حج(۱) ( یعنی حج تمتع اپنے خاص احکام کے ساتھ'' تو بہت کم یا اصلاً دیکھنے میں نہیں آیا ہے کہ اصحاب میں سے کسی نے اُن پر تنقید کی ہو اور کہا ہو کہ نص کے مقابلے میں اجتہاد جائز نہیں ہے ( اور وہ بھی اس شدت کے ساتھ ) _

حالانکہ اگر ہمارے زمانے میں کوئی بڑے سے بڑا مسلمان فقیہہ یا دانشمند کہہ دے کہ ''فلان عمل رسولخدا(ص) کے زمانے میں حلال تھا اور میں اسے حرام کر رہا ہوں'' سب اس پر تعجّب کریں گے اور اس کی بات کو فضول اور غیر قابل قبول سمجھیں گے اور جواب میں کہیں گے کہ کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ حرام خدا کو حلال یا حلال خدا کو حرام کر سکے کیونکہ احکام کو منسوخ کرنا یا نص ّکے مقابلے میں اجتہاد کرنا کسی کے لیئے جائز نہیں ہے_

لیکن اسلام کے ابتدائی زمانے میں اسطرح نہیں تھا_ اسی لیے بعض موارد دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جس میں فقہائ، احکام الہی کے مقابلے میں مخالفت کی جرا ت کرتے تھے_

شاید پاؤں پر مسح کے انکار اور اسے دھونے میں تبدیل کرنے کامسئلہ بھی اسی اجتہاد کا شکار ہوا ہوگا_ شاید بعض لوگوں نے سوچا ہوگا کہ پاؤں چونکہ آلودگی کے نزدیک رہتے ہیں بہتر ہے کہ انہیں دھولیا جائے چونکہ ان کے مسح کرنے کا کیا فائدہ ہے؟

بالخصوص اُس زمانے میں تو بعض لوگ ننگے پاؤں رہتے تھے اور بالکل جوتے نہیں پہنتے تھے اسی وجہ سے آداب احترام مہمان میں سے ایک یہ تھا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت اس کے پاؤں دھلواتے تھے

____________________

۱) اس حدیث کے مصادر ،نکاح موقّت کی بحث میں بیان ہوچکے ہیں_

۱۵۶

ہماری اس بات پر گواہ صاحب تفسیر المنارکا کی کلام ہے جسے انہوں آیت وضو کے ذیل میں پاؤں دھونے کے قائل افراد کی توجیہ میں بیان کیا ہے _ وہ کہتے ہیں کہ '' پاؤں پر تر ہاتھ کھینچ دینے سے ، کہ جو اکثر اوقات غبار آلود اور کثیف ہوتے ہیں نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ پاؤں زیادہ کثیف ہوجاتے ہیں اور ہاتھ بھی آلودہ اور کثیف ہو جاتا ہے_

اور اہلسنت کے معروف فقیہ ابن قدامہ ( متوفی ۶۲۰ ھ ق) بعض علماء سے نقل کرتے ہیں کہ پاؤں چونکہ آلودگی کے نزدیک ہیں جبکہ سر اس طرح نہیں ہے لہذا مناسب ہے کہ پاؤں کو دھو لیا جائے اور سر کا مسح کر لیا جائے(۱) اسطرح انہوں نے اپنے اجتہاد اور استحسان کو ظاہر قرآن پر ترجیح دیتے ہوئے مسح کو چھوڑ دیا ہے اور آیت کی غلط توجیہ کردی ہے_

اس گروہ نے شاید اس بات کو بُھلا دیا ہے کہ وضو نظافت اور عبادت دونوں کا مركّب ہے، سر کا مسح کرنا وہ بھی بعض کے فتوی کے مطابق صرف ایک انگلی کے ساتھ ، نظافت کا فائدہ نہیں دیتا ہے اس طرح پاؤں کا مسح بھی_

حقیقت میں سر اور پاؤں کا مسح اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ وضو کرنے والا آدمی سر سے لیکر پاؤں تک اللہ تعالی کا مطیع ہو_ ورنہ نہ تو سر کا مسح نظافت کا موجب بنتا ہے اور نہ ہی پاؤں کا مسح_

بہرحال ہم اللہ تعالی کے فرمان کے تابع ہیں اور ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ اپنی قاصر عقول کے ساتھ احکام الہی میں تبدیلیاں کریں_ جس وقت قرآن مجید نے پیغمبر(ص) پر نازل ہونے والی آخری سو رت میں حکم دے دیا ہے کہ اپنے ہاتھ اور منہ کو دھولو اور سر اور پاؤں کا مسح کرلو تو

____________________

۱)المغنی ابن قدامہ ، جلد ۱ ، ۱۱۷_

۱۵۷

ہمیں اپنی ناقص عقلوں کے ذریعے فلسفہ چینی کر کے اس حکم کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے اور اپنی مخالفتوں کی توجیہ کے لیے کلام خدا کی نامعقول توجیہات نہیں کرنی چاہئیں_

تفسیر بالرا ی اور نص ّکے مقابلے میں اجتہاد دو ایسی عظیم مصیبتیں ہیں جنہوں نے بعض مقامات میں فقہ ا سلامی کے چہرے کو مخدوش کردیا ہے_

جوتوں پر مسح کرنا

واقعاً یہ عجیب بات کہ جس نے ہر غیر جانبدار محقق کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ یہی برادران کہ جو وضو میں پاؤں پر مسح کے جائز نہ ہونے پر اتنا اصرار کرتے ہیں اور پاؤں دھونے کو واجب سمجھتے ہیں _ اکثر وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ پاؤں دھونے کی بجائے جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے وہ بھی مجبوری کے عالم میں نہیں بلکہ اختیار کی حالت میں اور صرف سفر میں نہیں بلکہ حضر میں بھی اور ہر حال میں جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے_

واقعاً انسان اس قسم کے احکام پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ پاؤں کا دھونا واجب تھا اور یا پھر جوتوں کے اوپرسے مسح جائز ہوگیا ہے

البتہ ایک گروہ کہ جو فقہ اہلسنت کی نظر میں اقليّت شمار ہوتے ہیں جوتوں پر مسح کو جائز نہیں سمجھتے ہیں جیسے حضرت علی ابن ابی طالب _ ، جناب ابن عباس اور امام مالک کہ جو اہلسنت کے ایک امام ہیں ( انکے فتوی کے مطابق جوتوں پر مسح جائز نہیں ہے)_

دلچسپ یہ ہے کہ حضرت عائشےہ، کہ اہلسنت برادران جنکے فتاوی اور روایات کے لیے خاص اہمیت کے قائل ہیں، ایک مشہور حدیث میں فرماتی ہیں کہ ''لئن تقطع قدمایی أحبّ إليّ من أن أمسح علی الخفّین''اگر میرے دنوں پاؤں کاٹ دیے جائیں میرےلیے

۱۵۸

اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں ( وضو میں ) جوتوں پر مسح کروں''(۱)

جبکہ وہ دن رات پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ تھیں اور آپ(ص) کا وضو دیکھ چکی تھیں_

بہرحال اگر یہ برادران اہل بیت رسولکی احادیث کی پیروی کرتے کہ جو ظاہر قرآن کے مطابق ہیں تو کبھی بھی پاؤں کے مسح کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہ کرتے_

پیغمبر اکرم(ص) ، نے معتبر اور صحیح حدیث میں فرمایا کہ '' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑکر جا رہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت اور اہلبیت کہ اگر ان دونوں سے تمسک کروگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے_

امام محمد باقر _ فرماتے ہیں کہ تین چیزوں میں ، میں کسی سے تقيّہ نہیں کرتا ہوں ۱_ مسکرات کے نہ پینے میں ( چونکہ بعض فقہاء نبیذ کو جائز سمجھتے تھے) ۲_ جوتوں پر مسح والے مسئلہ میں اور ۳_ حج تمتع میں _ ''ثلاثةٌ لا أتّقی فیهنّ أحداً شُربُ المُسکر و مسحٌ الخُفّین و مُتعة الحجّ'' (۲)

پاؤں پر مسح اور احادیث اسلامی :

امامیہ فقہاء اس بات پر متّفق ہیں کہ وضو میں پاؤں کے مسح کے علاوہ کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے_ اور اس مسئلہ میں اہلبیت کے واسطہ سے منقول روایات بھی بالکل واضح ہیں_

آپ نے امام باقر _ سے نقل کی گئی مذکورہ بالا روایت کو ملاحظہ فرمایا کہ جو بالکل واضح ہے، اسی قسم کی اور بہت سی روایات موجود ہیں_

____________________

۱) مبسوط سرخسی ، جلد ۱، ص ۹۸_

۲) کافی ، جلد ۳، ص ۳۲_

۱۵۹

لیکن جو احادیث اہلسنت کی کتب میں بیان ہوئی ہیں وہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر اختلاف رکھتی ہیں_ دسیوں احادیث پاؤں پر مسح کی طرف اشارہ یا اسے بیان کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) سر کے مسح کے بعد پاؤں پر مسح کرتے تھے، جبکہ بعض دوسری احادیث میں پاؤں دھونے کو پیغمبر (ص) کی طرف نسبت دی گئی ہے_ اور بعض میں جوتوں پر مسح کرنے کی نسبت دی گئی ہے

احادیث کی پہلی قسم کہ جو صرف مسح کا حکم دیتی ہیں اہل سنت کی معروف کتب میں موجود ہیں جیسے:

۱_ صحیح بخاری

۲_ مسند احمد

۳_ سنن ابن ماجہ

۴_ مستدر ک حاکم

۵_ تفسیر طبری

۶_ درّ المنثور

۷_کنزل العمال

و غیرہ کہ ان کتب کا معتبر ہونا اہلسنت کے نزدیک مسلم ہے_

اور ان روایات کے راوی بھی مشہور اصحاب میں سے ہیں_ جیسے:

۱_ امیرالمؤمنین علی (ع)

۲_ جناب ابن عباس

۳_ انس بن مالک ( پیغمبر اکرم(ص) کے مخصوص خادم)

۴_ جناب عثمان بن عفّان

۵_ بسر بن سعید

۶_ رفاعہ

۷_ ابوظبیان و غیرہ

ہم یہاں ان روایات میں سے صرف پانچ کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں_

۱۶۰