شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں25%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81043 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

'' رسولخدا(ص) نے ظہر و عصر کی نماز کو اسی طرح مغرب و عشاء کی نماز کو اکٹھا پڑھا حالانکہ نہ تو دشمن کا خوف تھا اور نہ ہی بارش کا خطرہ''

۸: '' مصنف عبدالرزاق'' نامی کتاب میں جناب عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا گیا ہے کہ:

'' جَمع لنا رسولُ الله صلَّی الله علیه و آله و سلم مقیماً غیر مسافربین الظهر و العصرفقال رجلٌ لأبن عمر : لم تری النّبی (ص) فعل ذلک؟ قال لأن لا یحرج اُمّته أن جمع رجل'' (۱)

پیغمبر اکرم (ص) نے بغیر سفر کے یعنی قیام کی حالت میں ظہر و عصر کی نمازوں کو اکٹھا پڑھایا، کسی نے ابن عمر سے پوچھا آپ کے خیال کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے یہ کام کیوں کیا؟ اس پرانہوں نے کہا آپ(ص) نے یہ کام اس لیے انجام دیا کہ اگر امت میں سے کوئی ان دو نمازوں کو اکٹھا پڑھ لے توزحمت میں مبتلا نہ ہو( لوگ اس پراعتراض نہ کریں)_

۹_ جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ:

'' جَمع رسولُ الله (ص) بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء فی المدینة للرّخص من غیر خوف: و لا علّة'' (۲)

'' رسولخدا(ص) نے مدینہ میں بغیر دشمن کے خوف اوربغیر کسی عذر کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا تا کہ امت کے لیے اجازت اور رخصت شمار ہو _

____________________

۱) مصنف عبدالرزاق ، جلد ۲ ، ص ۵۵۶_

۲) معانی الآثار، جلد ۱ ، ص ۱۶۱_

۱۴۱

۱۰_ ابوہریرہ نیز نقل کرتے ہیں کہ:

'' جمع رسول الله (صلی الله علیه و آله و سلم ) بین الصلوتین فی المدینة من غیر خوف:'' (۱)

رسولخدا(ص) نے مدینہ میں بغیر دشمن کے خوف کے دو نمازوں کو اکٹھا پڑھا _

۱۱_ عبداللہ بن مسعود بھی نقل کرتے ہیں کہ:

'' جمع رسول الله (ص) بین الاولی و العصر و المغرب و العشاء فقیل له فقال(ص) : صنعته لئلّا تکون أمتی فی حرج'' (۲)

رسولخدا(ص) نے مدینہ میں ظہر و عصر کی نماز، اسی طرح مغرب و عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا_ کسی نے آپ (ص) سے اس کے سبب کے بارے میں سوال کیا تو آپ(ص) نے فرمایا کہ یہ کام میں نے اس لیے کیا ہے تا کہ میری امّت مشقّت میں نہ پڑے_

اسی طرح اور بہت سی احادیث موجود ہیں جو اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں_

یہاںپر دوسوال پیش نظر ہیں:

۱_ مذکورہ احادیث کا نتیجہ :

مذکورہ بالا تقریباً تمام احادیث میں '' کہ جو اہلسنت کی مشہور اور درجہ اول کی کتب میں ذکر ہوئی ہیں اور ان کی سند بعض بزرگ اصحاب تک پہنچتی ہے'' د و نکات پر تاکید کی گئی ہے:

____________________

۱) مسند البزّاز، جلد ۱ ، ص ۲۸۳_

۲) المعجم الکبیر طہرانی، جلد ۱۰، ص ۲۱۹ ، حدیث ۱۰۵۲۵_

۱۴۲

ایک تو یہ کہ رسولخدا(ص) نے دو نمازوں کو اس حال میں اکٹھا انجام دیا کہ کسی قسم کی مشکل جیسے دشمن کا خوف، سفر ، بارش و غیرہ، در پیش نہیں تھی_

اور دوسرے یہ کہ آپ(ص) کا مقصد '' امت کو رخصت دینا'' اور '' عسر و حرج سے نجات دلانا'' تھا_

آیا ان نکات کی روشنی میں سزاوار ہے کہ بعض لوگ اعتراض تراشی کریں اوریوں کہیں کہ یہ اکٹھا پڑھنا اضطراری موارد میں تھا؟ہم کیوں حقائق سے چشم پوشی کریں، اور اپنے خام نظریات کو رسولخدا(ص) کے صریح فرامین پر ترجیح دیں؟

خدا اور اس کے رسول(ص) نے اجازت دی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ امّت کے بعض متعصّب لوگ اجازت نہیں دیتے آخر کیوں ؟

یہ لوگ کیوں نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمان جوان ہر حال میں اور ہر جگہ پر ، اسلامی ممالک کے اندر اور باہر، یونیور سٹیوں، دفتروں اور کارخانوں میں اس اہم ترین اسلامی فریضہ (یعنی یومیہ نمازیوں) پر عمل کریں؟

ہمارا نظریہ ہے کہ اسلام قیامت تک ہر زمان اور ہر مکان کے لیے ہے_

پیغمبر اکرم (ص) یقینا اپنی وسعت نظری کے ذریعہ تمام دنیا کے مسلمانوں اور تمام زمانوں اور صدیوں کے لوگوں کو مدنظر رکھے ہوئے تھے وہ جانتے تھے کہ اگر تمام لوگوں کو پانچ وقت میں نماز پڑھنے پر مقيّد کریں گے تو اس کے نتیجے میں بعض لوگ تارک الصلاة ہوجائیں گے ( جیسا کہ ہم آجکل دیکھ رہے ہیں) اسی لیے انہوں نے اپنی امت پر احسان کیا اور کام کو آسان

۱۴۳

کردیا تا کہ سب لوگ ہر زمان و مکان میں آسانی کے ساتھ روزانہ کی نمازوں کو بجالا سکیں_

قرآن مجید فرماتا ہے:

( '' و مَا جَعَل عَلیكُم فی الدّین من حَرَج:'' ) (۱)

۲_ قرآن مجید اور نماز کے تین اوقات:

اسی مسئلہ میں تعجب کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی دو آیات میں جب نماز کے اوقات کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہاں یومیہ نمازوں کے لیے صرف تین اوقات ذکر کیے گئے ہیں_ تعجب یہ ہے کہ کیوں ان بھائیوں میں سے ایک گروہ پانچ اوقات کے وجوب پر اصرار کرتا ہے_

پانچ اوقات میں نماز کی زیادہ فضیلت کے بارے میں کسی کو انکار نہیں ہے_ ہمیں بھی اگر توفیق الہی شامل حال رہے تو پانچ اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں_

اختلاف صرف ان پانچ اوقات کے وجوب کے بارے میں ہے_

۱_ پہلی آیت سورہ ہود میں ہے:( ''و أقم الصلوة طَرَفی النهار و زلفاً من اللّیل'' ) دن کے دو اطراف میں اور رات کے کچھ حصّے میں نماز ادا کرو ...''(۲)

'' طرفی النہار'' نماز صبح کی طرف جو دن کی ابتداء میں انجام دی جاتی ہے، اور نماز ظہر و عصر کی طرف اشارہ ہے کہ جن کا وقت سورج غروب ہونے تک باقی ہے_ بالفاظ دیگر نماز ظہر و عصر کے وقت کا غروب آفتاب تک باقی رہنا اس آیت سے با آسانی استفادہ ہوتا ہے اور ''زُلفاً من اللیل'' کہ جس میں لفظ '' زُلف'' استعمال ہوا ہے جس کے بارے میں '' مختار

____________________

۱) سورة حج آیت ۷۸_ اور اللہ نے تم پر دین کے مسئلے میں کوئی حرج اور مشقت نہیں رکھی_

۲) سورة ہود آیت ۱۱۴_

۱۴۴

الصحاح'' اور راغب نے کتاب المفردات میں لکھا ہے کہ یہ '' زلفة'' کی جمع ہے اور اسے رات کے ابتدائی حصوں کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے_ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ''زلفاً من اللیل'' مغرب اور عشاء کے وقت کی طرف اشارہ ہے_

بنابراین اگر پیغمبر اکرم (ص) نمازوں کو عام طور پر پانچ وقتوں میں انجام دیتے تھے تووہ یقینا ان پانچ اوقات کی فضیلت کے اعتبار سے تھا کہ جس کے ہم سب معتقد ہیں ہم کیوں قرآن مجید کی آیت کے ظہور سے چشم پوشی کریں اور دوسری تاویلوں کو تلاش کریں؟

۲_ دوسری آیت سورہ اسراء میں ہے; ''( أقم الصلوة لدُلُوک الشمس إلی غَسَق اللیل و قرآن الفجر إنّ قرآن الفجر کانَ مشهوداً ) '' نماز کوزوال آفتاب کے آغاز سے رات کی تاریکی تک ادا کرو اسی طرح قرآن فجر ( نماز صبح) ادا کرو ...''(۱)

'' دلوک'' متمایل ہونے اور جھکنے کے معنی میں آتا ہے_ یہاں نصف النہار سے سورج کے تمایل کی طرف اشارہ ہے یعنی زوال کا وقت_

'' غسق اللیل'' رات کی تاریکی کے معنی میں ہے، بعض نے اسے رات کی ابتداء سے تعبیر کیا ہے اور بعض نے آدھی رات کے معنی میں اس کی تفسیر کی ہے_ جیسا کہ راغب نے ''مفردات'' میں لکھا ہے کہ '' غسق'' رات کی و تاریکی کی شدّت کے معنی میں ہے اور یہ وہی آدھی رات کے وقت ہوتی ہے _

ان معانی کے مطابق دلوک شمس سے نماز ظہر و عصر کے وقت کی ابتداء کی طرف اشارہ ہے اور غسق اللیل سے نماز مغرب و عشاء کے وقت کی انتہا کی طرف اشارہ ہے اور قرآن فجر سے

____________________

۱) سورة اسرائ، آیت ۷۸_

۱۴۵

نماز صبح کی طرف اشارہ ہے_

جناب فخر رازی نے اس آیت کی بہترین تفسیر بیان کی ہے، وہ یوں رقمطراز ہیں کہ :

''إن فَسّرنا الغسق بظهور اوّل الظلمة_ و حکاه عن ابن عباس و عطا و النضر بن شمیل_ کان الغسق عبارة عن أول المغرب و علی هذا التقدیر یکون المذکور فی الآیة ثلاث اوقات وقت الزّوال ووقت أول المغرب و وقت الفجر، و هذا یقتضی أن یکون الزوال وقتا، للظُهر و العصر فیکون هذا الوقت مشترکاً بین الصلوتین و أن یکون أول المغرب وقتاً للمغرب و العشاء فیکون هذا الوقت مشترکاً ایضاً بین هاتین الصلوتین فهذا یقتضی جواز الجمع بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء مطلقاً'' (۱)

اگر ہم کلمہ غسق کو رات کی تاریکی کے آغاز کے معنی میں تفسیر کریں ( جیسا کہ ابن عباس عطا اور نضر بن شمیل بھی اسی کے قائل ہیں) تو اس وقت غسق سے مغرب کے ابتدائی وقت کی طرف اشارہ ہوگا_ اور اس بناء پر آیت میں تین اوقات ذکر

____________________

۱) تفسیر کبیر فخر رازی ، ج ۲۱، ص ۲۷_

۱۴۶

ہوئے ہیں زوال کا وقت_ غروب کا وقت اور فجر کا وقت_ اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ تین اوقات تقاضا کرتے ہیں کہ زوال نماز ظہر و عصر کا مشترکہ اورغروب نماز مغرب و عشاء کا مشترکہ وقت ہو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نماز ظہر اور عصر کو ،اسی طرح نماز مغرب اور عشاء کو بغیر کسی قید وشرط کے اکٹھا پڑھا جاسکتا ہے''

جناب فخر رازی نے یہاںتک تو بالکل صحیح بات بیان کی تھی اور آیت کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھا اور سمجھایا_ لیکن اس کے بعد کہتے ہیں کہ چونکہ ہمارے پاس دلیل موجود ہے کہ دو نمازوں کے درمیان بغیر عذر و سفر کے جمع کرنا جائز نہیں ہے، اس لیئےم آیت کو عذر کی حالت میں محدود کریںگے_(۱)

موصوف کو یاد دہانی کرانی چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ ہمارے پاس آیت کو صرف حال عذر میں محدود کرنے پر دلیل موجود نہیں ہے بلکہ متعدّد روایات موجود ہیں ( جنکی طرف اشارہ ہوچکا ہے ) کہ رسولخدا(ص) نے بغیر عذر اور بغیر سفر کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکٹھا پڑھا تا کہ امّت کو سہولت دی جاسکے اور وہ اس رخصت سے بہرہ مند ہوسکیں_

علاوہ بر این آیت کے اطلاق کو کس طرح انتہائی محدود موارد کے ساتھ مختص کیا جاسکتا ہے حالانکہ علم اصول میں یہ بات مسلّم ہے کہ تخصیص اکثر جائز نہیں ہے_

بہرحال آیت نے بالکل وضاحت کے ساتھ نماز کے جو تین اوقات ذکر کیے ہیں اُن سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے_

سابقہ بیان سے ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں_

____________________

۱) سابقہ مدرک_

۱۴۷

۱_ قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ پانچ نمازوں کی تین اوقات میں بجا آوری کو جائز قرار دیا ہے_

۲_ فریقین کی کتب میں بیان کی جانے والی اسلامی احادیث سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے کئی مرتبہ دو نمازوں کو اکٹھا پڑھا حالانکہ نہ ہی سفر میں تھے اور نہ ہی کوئی اور عذر تھا_ اور اس کام کو انہوں نے مسلمانوں کے لیئے رخصت شمار کیا تا کہ وہ مشقتسے دوچار نہ ہُوں_

۳_ اگرچہ پانچ اوقات میں نماز پڑھنا فضیلت ہے، لیکن اس فضیلت پر اصرار کرنے اور ترخیص کی راہ میں رکاوٹ بننے کی وجہ سے بہت سے لوگ بالخصوص جوان نسل اصل نماز سے فرار کر جاتے ہیں _ اور اس بات کی تمام ذمہ داری ترخیص کے مخالفین کے دوش پر آتی ہے_

کم از کم اہلسنت علماء اتنا قبول کرلیں کہ اس مسئلہ میں انکے جوان بھی مکتب اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کے فتوی پر عمل کرلیں جیسا کہ بزرگ عالم دین شیخ الازہر '' جناب شیخ محمد شلتوت'' نے مذہب جعفریہ کے تمام فتاوی پر عمل کرنے کو جائز قرار دیاہے_

آخر میں پھر ہم دوبارہ تاکید کرتے ہیں _ کہ ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ آج کل دنیا میں بہت سے مزدوروں ، ملازمین ، سکول و کا لجز کے طلاب اور دیگر طبقات کے لوگوں کے لیے پانچ اوقات میں علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنا بہت مشکل کام ہے_ کیا ہمیں نہیں چاہیئے کہ رسولخدا(ص) کی دی گئی اس سہولتسے استفادہ کریں جو آجکل کے معاشرے کو مد نظر رکھتے ہوئے عنایت کی گئی ہے تا کہ نسل جوان اور دیگر لوگ نماز ترک کرنے کے بہانے نہ بنائیں_

کیا '' سنت '' پر اس حد تک اصرار کرنا صحیح ہے کہ جو '' فریضہ'' کے ترک کرنے کا سبب بنے؟

۱۴۸

۸

وضو میں پاؤں کا مسح

۱۴۹

قرآن مجید اور پاؤں کا مسح:

وضو میں پاؤں کا مسح ایک اور ایسا اعتراض ہے جسے اہلسنت کے بعض علماء ، شیعوں پر کرتے ہیں _ چونکہ اُن کی اکثریت پاؤں دھونے کو واجب سمجھتی ہیں اور پاؤں کے مسح کو کافی نہیں سمجھتی _

حالانکہ قرآن مجید نے بالکل واضح الفاظ میں پاؤں کے مسح کا حکم دیا ہے_ اس طرح مکتب اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کا عمل قرآن مجید کے بالکل مطابق ہے_ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم(ص) کی بہت سی احادیث جن کی تعداد تقریباً تیس (۳۰) سے بھی زیادہ ہے پاؤں کے مسح کو بیان کر رہی ہیں_ اور اس کے علاوہ بہت سے اصحاب اور تابعین ( وہ لوگ جو اصحاب کے بعد والے زمانے میں تھے) کا عمل پاؤں کے مسح کے بارے میں موجود ہے نہ پاؤں دھونے کے بارے میں _

لیکن مقام افسوس ہے کہ بعض مخالفین نے ان تمام ادلّہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے، بغیر کسی غور و فکر کے، ہم پر حملہ کرنا شروع کردیا اور تند و تیز الفاظ کے ذریعے، حق و عدالت سے دُوری اختیار کرتے ہوئے اس مذہب حقہ کے پیروکاروں کی سرزنش شروع کردی ہے_ ابن کثیر ، مذہب اہلسنت کے معروف عالم دین اپنی کتاب '' تفسیر القرآن العظیم'' میں کہتے ہیں:

۱۵۰

'' روافض ( ان کا مقصود اہلبیت(ع) کے پیروکار ہیں) نے وضو میں پاؤں دھونے کے مسئلہ میں مخالفت کی ہے اور جہالت و گمراہی کی وجہ سے بغیر کسی دلیل کے مسح کو کافی سمجھ لیا ہے_ حالانکہ قرآن مجید کی آیت سے پاؤں دھونے کا وجوب سمجھا جاتا ہے_ اور رسولخدا(ص) کا عمل بھی آیت کے مطابق تھا_ حقیقت میں اُن کے پاس اپنے نظریہ پر کوئی دلیل نہیں ہے(۱)

بعض دیگر علماء نے بھی اسکی اندھی تقلید کرتے ہوئے اسکی بات کو اخذ کر لیا ہے اور اس مسئلہ پر تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اپنی دلخواہ نسبت شیعوں کی طرف دی ہے_

شاید وہ اپنے تمام مخاطبین کو عوام تصوّر کر رہے تھے اور انہوں نے یہ نہ سوچا کہ ایک دن محققین انکی باتوں پر تنقید کریں گے اور( انہیں باطل ثابت کریں گے )اس طرح انہیں اسلامی تاریخ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا_

اس وقت ہم سب سے پہلے قرآن مجید کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور اس مسئلہ کا فیصلہ دریافت کرتے ہیں_ سورة مائدہ ( کہ جو پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہونے والی سب سے آخری سورت ہے ) کی آیت نمبر ۶ میں یوں ارشاد باری تعالی ہے:

''یا ايّها الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلوة فاغسلوا وُجوهکم و أیدیکم إلی المرافق و اَمسَحُوا برُء وسکم و أرجلکم إلی الکعبین''

اے صاحبان ایمان جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو اور اپنے سر اور پاؤں کا ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرو''

____________________

۱) تفسیر القرآن العظیم، جلد ۲، ص ۵۱۸_

۱۵۱

واضح ہے کہ کلمہ ''ارجلکم'' ( اپنے پاؤں)کا کلمہ '' روسکم'' ( اپنے سر) پر عطف

ہے اور اس وجہ سے دونوں کا مسح کرنا واجب ہے نہ کہ دھونا_ چاہے '' ارجلکم'' کو نصب کے ساتھ پڑھا جائے یا جر کے ساتھ ( غور کیجئے)(۱)

____________________

۱) اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ کلمہ '' ارجلکم'' کے اعراب کے بارے میں دو مشہور قرا تیں ہیں ایک جر کے ساتھ قرا ت کہ جسے بعض مشہور قرّاء جیسے حمزہ ، ابوعمرو، ابن کثیر اور حتی عاصم نے ( ابوبکر کی روایت کے مطابق ) لام کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسری طرف بعض مشہور قرّاء نے اسے نصب کے ساتھ پڑھا ہے اور آجکل قرآن مجید کے تمام رائج نسخوں میں اسی دوسری قرا ت کے مطابق اعراب لگایا گیا ہے_

لیکن دونوں اعراب کے مطابق یقینا معنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے_ کیونکہ اگر زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو بالکل واضح ہے کہ ''ارجلکم'' کا '' رؤس'' پر عطف ہے اس کا معنی یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کا مسح کرو (جسطرح سر کا مسح کرتے ہو)اگر شیعہ اس قرا ت کے مطابق عمل کریں کہ جس کے اور بھی بہت سے طرفدار ہیں تو اس میں کیا عیب ہے؟

اور اس سے بڑھ کر اگر فتح ( زبر) کے ساتھ بھی پڑھا جائے پھر بھی ''ارجلکم ''کا عطف ''برو سکم'' کے محل پر ہوگا اور واضح ہے کہ برؤسکم محل کے اعتبار سے منصوب ہے کیونکہ '' و امسحوا'' کا مفعول ہے _ پس دونوں صورتوں میں آیت کا معنی یہی بنے گا کہ پاؤں کا مسح کرو_

ہاں بعض لوگوں نے یوں خیال کیا ہے کہ اگر ''ارجلکم '' کو فتح ( زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا '' وجوہکم'' پر عطف ہوگایعنی ہاتھ اور منہ کو دھویئےس طرح پاؤں کو دھولیجئے حالانکہ یہ بات ادبیات عرب کے قواعد کے بھی خلاف اور قرآن مجید کی فصاحت کے ساتھ بھی سازگار نہیں ہے_

بہرحال یہ بات ادبیات عرب کے اس لئے خلاف ہے کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے در میان کبھی اجنبی جملہ واقع نہیں ہوتا ہے_ بلکہ ایک معروف اہلسنت عالم کے بقول محال ہے کہ '' ارجلکم '' کا ''وجوہکم'' پر عطف ہو کیونکہ ہرگز فصیح عربی میں ایسا جملہ نہیں بولا جاتا ہے کہ مثلا کوئی کہے '' ضربتُ زیداً و مررتُ ببکر و عمراً'' کہ ''میں نے زید کو مارا اور بکر کے قریب سے گزرا اور عمر کو'' یعنی عمرو کو بھی مارا ( شرح منیة المصلی ص ۱۶)

۱۵۲

بہرحال قرآن مجیدنے پاؤں کے بارے میں مسح کا حکم دیا ہے_

عجیب توجیہات

بعض لوگوں نے جب قرآن مجید کے حکم کو اپنے پہلے سے معین کردہ مفروضہ کے خلاف دیکھا تو توجیہات کرنا شروع کردیں_ ایسی توجیہات کہ جو انسان کو حیران کر دیتی ہیں_ من جملہ:

۱_ یہ آیت سنت پیغمبر (ص) کی وجہ سے اور جو احادیث آپ(ص) سے نقل ہوئی ہیں انکی خاطر منسوخ ہوگئی ہو ابن حزم نے اپنی کتاب '' الاحکام فی اصول الاحکام'' میں لکھا ہے کہ ''چونکہ سنت میں پاؤں دھونے کا حکم آیا ہے اس لیے ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ مسح والا حکم منسوخ ہوگیا ہے''_

جبکہ اولا ً:تمام مفسرین نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ سورہ مائدہ وہ آخری سورہ ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئی ہے اور اس کی کوئی بھی آیت منسوخ نہیں ہوئی ہے_

حتی کہ عام افراد بھی اس قسم کا جملہ نہیں بولتے ہیں چہ جائیکہ قرآن مجید جو فصاحت کا اکمل و اتم نمونہ ہے اس قسم کا جملہ بیان کرے_

پس جس طرح اہلسنت کے بعض محققین نے کہا ہے کہ بلاشک و شبہہ نصب کی صورت میں کلمہ '' ارجلکم'' کا عطف '' بر ء ؤسکم'' کے محل پر ہوگا اور ہرحال میں آیت کا مفہوم یہی بنے گا کہ وضو کرتے وقت سر اور پاؤں کا مسح کرو_

۱۵۳

ثانیاً : جس طرح عنقریب بیان کیا جائیگا کہ جہاں پیغمبر اکرم (ص) سے وضو میں پاؤں دھونے والی روایات نقل ہوئی ہیں اُن کے مقابلے میں آپ(ص) سے ہی متعدد روایات پاؤں کے مسح کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہیں کہ آپ(ص) وضو میں پاؤں کا مسح کیا کرتے تھے_

کس طرح ممکن ہے کہ ہم قرآن مجید کے دستور کو اس قسم کی روایات کے ذریعے نسخ کردیں_

علاوہ بر این ،تعارض روایات کے باب میں ثابت کیا گیا ہے کہ جب بھی روایات کے درمیان تضاد ہو تو قرآن مجید سے ان کی مطابقت کرنی چاہیے ، جو روایات قرآن مجید کے مطابق ہوں انہیں قبول کر لینا چاہیے اور جو قرآن مجید کے مخالف ہوں ان پر عمل نہیں کرنا چاہیے_

۲_ دوسرے کچھ افراد جیسے '' جصاص'' نے '' احکام القرآن'' نامی کتاب میں لکھا ہے کہ ''وضو والی آیت مجمل ہے اور ہم احتیاط پر عمل کرتے ہوئے پاؤں دھو لیتے ہیں تا کہ دھونا بھی صادق آجائے اور مسح بھی''(۱)

حالانکہ سب جانتے ہیں کہ (غَسل) '' دھونا'' اور '' مسح کرنا'' دو مختلف اور متباین مفہوم ہیں اور دھونا ہرگز مسح کو شامل نہیں ہوتا ہے_

لیکن کیاکیا جائے انکی پہلے سےقضاوت انہیں قرآن مجید کے ظہور پر عمل نہیں کرنے دیتی_

____________________

۱) احکام القرآن ، جلد ۲ ، ص ۴۳۴_

۱۵۴

۳_ جناب فخر رازی کہتے ہیں کہ حتی اگر '' جرّ'' کے ساتھ بھی قرا ت کی جائے یعنی ''ارجلکم'' کا '' روؤسکم'' پر عطف کیا جائے تو بالکل واضح طور پر یہ پاؤں کے مسح پر دلالت کرتا ہے، لیکن پھر بھی اس کا مقصد پاؤں کا مسح کرنا نہیں ہوگا، بلکہ پاؤں کے مسح سے مُراد یہ ہوگی کہ پاؤں دھوتے وقت پانی استعمال کرنے میں اسراف نہ کرو''(۱)

حالانکہ اگر آیات قرآن میں اس قسم کے اجتہاد اور تفسیر بالرا ی کا دروازہ كُھل جائے تو پھر ظواہر قرآن پر عمل کرنے کے لیے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی_ اگر ہمیں اجازت ہو کہ ہم ''مسح'' کو '' دھوتے وقت اسراف نہ کرنے'' کے معنی میں لے لیں تو پھر تمام آیات کے ظواہر کی دوسری طرح تفسیر کی جاسکتی ہے_

نص ّ کے مقابلے میں اجتہاد اور تفسیر بالرا ی:

بہت سے قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ جسطرح ہمارے زمانے میں اجتہاد در مقابل نص ایک قبیح اور غیر قابل قبول امر سمجھا جاتا ہے ، اسلام کے ابتدائی زمانے میں اسطرح نہیں تھا_ با الفاظ دیگر جسطرح آج ہم احادیث پیغمبر(ص) اور آیات قرآن کے مقابلے میں تعبّد اور تسلیم محض رکھتے ہیں_ اُس زمانے میں یہ تعبّد اس شدّت و قوت کے ساتھ نہیں تھا_

مثلا جب حضرت عمر نے اپنے معروف جملے میں یوں کہا کہ ''متعتان کانتا محللتان فی زمن النبی(ص) و ا نا أحرمهما و اعاقب علیهما متعة النساء و متعة الحج'' دو

____________________

۱) تفسیر کشّاف ، جلد ۱ ، ص ۶۱۰_

۱۵۵

متعے رسولخدا(ص) کے زمانے میں حلال تھے میں اُن دونوں کو حرام کرتا ہوں اور جو بھی اس حکم کی مخالفت کریگا میں اسے سزا دونگا، ایک متعة النساء اور دوسرا متعہ حج(۱) ( یعنی حج تمتع اپنے خاص احکام کے ساتھ'' تو بہت کم یا اصلاً دیکھنے میں نہیں آیا ہے کہ اصحاب میں سے کسی نے اُن پر تنقید کی ہو اور کہا ہو کہ نص کے مقابلے میں اجتہاد جائز نہیں ہے ( اور وہ بھی اس شدت کے ساتھ ) _

حالانکہ اگر ہمارے زمانے میں کوئی بڑے سے بڑا مسلمان فقیہہ یا دانشمند کہہ دے کہ ''فلان عمل رسولخدا(ص) کے زمانے میں حلال تھا اور میں اسے حرام کر رہا ہوں'' سب اس پر تعجّب کریں گے اور اس کی بات کو فضول اور غیر قابل قبول سمجھیں گے اور جواب میں کہیں گے کہ کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ حرام خدا کو حلال یا حلال خدا کو حرام کر سکے کیونکہ احکام کو منسوخ کرنا یا نص ّکے مقابلے میں اجتہاد کرنا کسی کے لیئے جائز نہیں ہے_

لیکن اسلام کے ابتدائی زمانے میں اسطرح نہیں تھا_ اسی لیے بعض موارد دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جس میں فقہائ، احکام الہی کے مقابلے میں مخالفت کی جرا ت کرتے تھے_

شاید پاؤں پر مسح کے انکار اور اسے دھونے میں تبدیل کرنے کامسئلہ بھی اسی اجتہاد کا شکار ہوا ہوگا_ شاید بعض لوگوں نے سوچا ہوگا کہ پاؤں چونکہ آلودگی کے نزدیک رہتے ہیں بہتر ہے کہ انہیں دھولیا جائے چونکہ ان کے مسح کرنے کا کیا فائدہ ہے؟

بالخصوص اُس زمانے میں تو بعض لوگ ننگے پاؤں رہتے تھے اور بالکل جوتے نہیں پہنتے تھے اسی وجہ سے آداب احترام مہمان میں سے ایک یہ تھا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت اس کے پاؤں دھلواتے تھے

____________________

۱) اس حدیث کے مصادر ،نکاح موقّت کی بحث میں بیان ہوچکے ہیں_

۱۵۶

ہماری اس بات پر گواہ صاحب تفسیر المنارکا کی کلام ہے جسے انہوں آیت وضو کے ذیل میں پاؤں دھونے کے قائل افراد کی توجیہ میں بیان کیا ہے _ وہ کہتے ہیں کہ '' پاؤں پر تر ہاتھ کھینچ دینے سے ، کہ جو اکثر اوقات غبار آلود اور کثیف ہوتے ہیں نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ پاؤں زیادہ کثیف ہوجاتے ہیں اور ہاتھ بھی آلودہ اور کثیف ہو جاتا ہے_

اور اہلسنت کے معروف فقیہ ابن قدامہ ( متوفی ۶۲۰ ھ ق) بعض علماء سے نقل کرتے ہیں کہ پاؤں چونکہ آلودگی کے نزدیک ہیں جبکہ سر اس طرح نہیں ہے لہذا مناسب ہے کہ پاؤں کو دھو لیا جائے اور سر کا مسح کر لیا جائے(۱) اسطرح انہوں نے اپنے اجتہاد اور استحسان کو ظاہر قرآن پر ترجیح دیتے ہوئے مسح کو چھوڑ دیا ہے اور آیت کی غلط توجیہ کردی ہے_

اس گروہ نے شاید اس بات کو بُھلا دیا ہے کہ وضو نظافت اور عبادت دونوں کا مركّب ہے، سر کا مسح کرنا وہ بھی بعض کے فتوی کے مطابق صرف ایک انگلی کے ساتھ ، نظافت کا فائدہ نہیں دیتا ہے اس طرح پاؤں کا مسح بھی_

حقیقت میں سر اور پاؤں کا مسح اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ وضو کرنے والا آدمی سر سے لیکر پاؤں تک اللہ تعالی کا مطیع ہو_ ورنہ نہ تو سر کا مسح نظافت کا موجب بنتا ہے اور نہ ہی پاؤں کا مسح_

بہرحال ہم اللہ تعالی کے فرمان کے تابع ہیں اور ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ اپنی قاصر عقول کے ساتھ احکام الہی میں تبدیلیاں کریں_ جس وقت قرآن مجید نے پیغمبر(ص) پر نازل ہونے والی آخری سو رت میں حکم دے دیا ہے کہ اپنے ہاتھ اور منہ کو دھولو اور سر اور پاؤں کا مسح کرلو تو

____________________

۱)المغنی ابن قدامہ ، جلد ۱ ، ۱۱۷_

۱۵۷

ہمیں اپنی ناقص عقلوں کے ذریعے فلسفہ چینی کر کے اس حکم کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے اور اپنی مخالفتوں کی توجیہ کے لیے کلام خدا کی نامعقول توجیہات نہیں کرنی چاہئیں_

تفسیر بالرا ی اور نص ّکے مقابلے میں اجتہاد دو ایسی عظیم مصیبتیں ہیں جنہوں نے بعض مقامات میں فقہ ا سلامی کے چہرے کو مخدوش کردیا ہے_

جوتوں پر مسح کرنا

واقعاً یہ عجیب بات کہ جس نے ہر غیر جانبدار محقق کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ یہی برادران کہ جو وضو میں پاؤں پر مسح کے جائز نہ ہونے پر اتنا اصرار کرتے ہیں اور پاؤں دھونے کو واجب سمجھتے ہیں _ اکثر وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ پاؤں دھونے کی بجائے جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے وہ بھی مجبوری کے عالم میں نہیں بلکہ اختیار کی حالت میں اور صرف سفر میں نہیں بلکہ حضر میں بھی اور ہر حال میں جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے_

واقعاً انسان اس قسم کے احکام پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ پاؤں کا دھونا واجب تھا اور یا پھر جوتوں کے اوپرسے مسح جائز ہوگیا ہے

البتہ ایک گروہ کہ جو فقہ اہلسنت کی نظر میں اقليّت شمار ہوتے ہیں جوتوں پر مسح کو جائز نہیں سمجھتے ہیں جیسے حضرت علی ابن ابی طالب _ ، جناب ابن عباس اور امام مالک کہ جو اہلسنت کے ایک امام ہیں ( انکے فتوی کے مطابق جوتوں پر مسح جائز نہیں ہے)_

دلچسپ یہ ہے کہ حضرت عائشےہ، کہ اہلسنت برادران جنکے فتاوی اور روایات کے لیے خاص اہمیت کے قائل ہیں، ایک مشہور حدیث میں فرماتی ہیں کہ ''لئن تقطع قدمایی أحبّ إليّ من أن أمسح علی الخفّین''اگر میرے دنوں پاؤں کاٹ دیے جائیں میرےلیے

۱۵۸

اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں ( وضو میں ) جوتوں پر مسح کروں''(۱)

جبکہ وہ دن رات پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ تھیں اور آپ(ص) کا وضو دیکھ چکی تھیں_

بہرحال اگر یہ برادران اہل بیت رسولکی احادیث کی پیروی کرتے کہ جو ظاہر قرآن کے مطابق ہیں تو کبھی بھی پاؤں کے مسح کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہ کرتے_

پیغمبر اکرم(ص) ، نے معتبر اور صحیح حدیث میں فرمایا کہ '' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑکر جا رہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت اور اہلبیت کہ اگر ان دونوں سے تمسک کروگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے_

امام محمد باقر _ فرماتے ہیں کہ تین چیزوں میں ، میں کسی سے تقيّہ نہیں کرتا ہوں ۱_ مسکرات کے نہ پینے میں ( چونکہ بعض فقہاء نبیذ کو جائز سمجھتے تھے) ۲_ جوتوں پر مسح والے مسئلہ میں اور ۳_ حج تمتع میں _ ''ثلاثةٌ لا أتّقی فیهنّ أحداً شُربُ المُسکر و مسحٌ الخُفّین و مُتعة الحجّ'' (۲)

پاؤں پر مسح اور احادیث اسلامی :

امامیہ فقہاء اس بات پر متّفق ہیں کہ وضو میں پاؤں کے مسح کے علاوہ کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے_ اور اس مسئلہ میں اہلبیت کے واسطہ سے منقول روایات بھی بالکل واضح ہیں_

آپ نے امام باقر _ سے نقل کی گئی مذکورہ بالا روایت کو ملاحظہ فرمایا کہ جو بالکل واضح ہے، اسی قسم کی اور بہت سی روایات موجود ہیں_

____________________

۱) مبسوط سرخسی ، جلد ۱، ص ۹۸_

۲) کافی ، جلد ۳، ص ۳۲_

۱۵۹

لیکن جو احادیث اہلسنت کی کتب میں بیان ہوئی ہیں وہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر اختلاف رکھتی ہیں_ دسیوں احادیث پاؤں پر مسح کی طرف اشارہ یا اسے بیان کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) سر کے مسح کے بعد پاؤں پر مسح کرتے تھے، جبکہ بعض دوسری احادیث میں پاؤں دھونے کو پیغمبر (ص) کی طرف نسبت دی گئی ہے_ اور بعض میں جوتوں پر مسح کرنے کی نسبت دی گئی ہے

احادیث کی پہلی قسم کہ جو صرف مسح کا حکم دیتی ہیں اہل سنت کی معروف کتب میں موجود ہیں جیسے:

۱_ صحیح بخاری

۲_ مسند احمد

۳_ سنن ابن ماجہ

۴_ مستدر ک حاکم

۵_ تفسیر طبری

۶_ درّ المنثور

۷_کنزل العمال

و غیرہ کہ ان کتب کا معتبر ہونا اہلسنت کے نزدیک مسلم ہے_

اور ان روایات کے راوی بھی مشہور اصحاب میں سے ہیں_ جیسے:

۱_ امیرالمؤمنین علی (ع)

۲_ جناب ابن عباس

۳_ انس بن مالک ( پیغمبر اکرم(ص) کے مخصوص خادم)

۴_ جناب عثمان بن عفّان

۵_ بسر بن سعید

۶_ رفاعہ

۷_ ابوظبیان و غیرہ

ہم یہاں ان روایات میں سے صرف پانچ کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232