شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں33%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81023 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حاتم کی بیٹی کے ساتھ اس سلوک کا یہ اثر ہوا کہ اپنے قبیلے میں واپس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے بھائی '' عدی بن حاتم'' کو تیار کیا کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لے آئے، عدی اپنی بہن کے سمجھانے پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچا اور اسلام قبول کرلیا اور پھر صدر اسلام کے نمایاں مسلمانوں، حضرت علیعليه‌السلام کے جان نثاروں اور ان کے پیروکاروںمیں شامل ہوگیا(۱)

بافضیلت اسیر

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا کہ :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کچھ اسیر لائے گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک کے علاوہ سارے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم دیدیا اس شخص نے کہا : کہ ان لوگوں میں سے صرف مجھ کو آپ نے کیوں آزاد کردیا ؟پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : '' مجھ کو جبرئیل نے خدا کی طرف سے خبردی کہ تیرے اندر پانچ خصلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جن کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست رکھتاہے ۱_ اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے بارے میں تیرے اندر بہت زیادہ غیرت ہے ۲_ سخاوت ۳_ حسن اخلاق ۴_ راست گوئی ۵_ شجاعت '' یہ سنتے ہی وہ شخص مسلمان ہوگیا کیسا بہتر اسلام'' _(۲)

___________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج۴ ص ۲۲۷_

۲) بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۰۸_

۴۱

نیک اقدار کو زندہ کرنا اور وجود میں لانا

اسلام سے پہلے عرب کا معاشرہ قومی تعصب اور جاہلی افکار کا شکار تھا، مادی اقدار جیسے دولت،نسل ، زبان، ، رنگ ، قومیت یہ ساری چیزیں برتری کا معیار شمار کی جاتی رہیں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کی وجہ سے یہ قدریں بدل گئیں اور معنوی فضاءل کے احیاء کا زمانہ آگیا ، قرآن نے متعدد آیتوں میں تقوی، جہاد، شہاد، ہجرت اور علم کو معیار فضیلت قرار دیا ہے _

( الذین آمنوا و هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله باموالهم و انفسهم اعظم درجة عندالله و اولءک هم الفائزون ) (۱)

جو لوگ ایمان لائے، وطن سے ہجرت کی اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کیا وہ خدا کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہیں اور وہی کامیاب ہیں_

( ان اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۲)

تم میں جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے وہی خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز ہے_

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ انسان ساز مکتب کے مبلغ ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت اسلامی کے اسوہ کے عنوان سے ایسے اخلاقی فضاءل اور معنوی قدر و قیمت رکھنے والوں کی بہت عزت کرتے تھے اور جو لوگ ایمان ، ہجرت اور جہاد میں زیادہ سابقہ رکھتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک وہ مخصوص احترام کے مالک تھے_

___________________

۱) سورہ توبہ ۲۰_

۲) حجرات ۱۳_

۴۲

رخصت اور استقبال

مشرکین کی ایذاء رسانی کی بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر جائیں جب '' جعفر بن ابی طالب'' حبشہ کی طرف روانہ ہوئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑی دور تک ان کے ساتھ ساتھ گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائی_ اور جب چند سال بعد وہ اس سرزمین سے واپس پلٹے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بارہ قدم تک ان کے استقبال کیلئے آگے بڑھے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور چونکہ ان کی حبشہ سے واپسی فتح خیبر کے بعد ہوئی تھی اسلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ' ' نہیں معلوم کہ میں فتح خیبر کیلئے خوشی مناوں یا جعفر کے واپس آجانے کی خوشی مناوں ''(۱)

انصار کی دلجوئی

فتح مکہ کے بعد کفار سے مسلمانوں کی ایک جنگ ہوئی جس کا نام'' حنین'' تھا اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ملی تھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ حنین کے بعد مال غنیمت تقسیم کرتے وقت مہاجر و انصار میں سے کچھ لوگوں کو کچھ کم حصہ دیا اور مؤلفة القلوبکوکہ جوا بھی نئے مسلمان تھے زیادہ حصہ دیا ، انصار میں سے بعض نوجوان ناراض ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچازاد بھائیوں اور اپنے عزیزوں کو زیادہ چاہتے ہیں اسلئے ان کو زیادہ مال دے رہے ہیں حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے مشرکین کا خون ٹپک رہاہے اور ہمارے ہاتھوں

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۲۳۹_

۴۳

سے سخت کام آسان ہورہے ہیں _ ایک روایت کے مطابق '' سعد بن عبادہ'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور بولے جو بخشش و عنایت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قباءل عرب اور قریش پرکئے ہیں ، انصار کے اوپر وہ عنایت نہیں ہوئی ہیں اسلئے انصاراس بات پر ناراض ہیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، خیمہ لگایا گیا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' فقط انصار خیمہ میںآئیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود علیعليه‌السلام کے ساتھ تشریف فرماہوئے، جب انصار جمع ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' میں تم لوگوں سے کیا سن رہاہوں کیا یہ باتیں تمہارے لئے مناسب ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا کہ یہ باتیں ناتجربہ کار نوجوانوں نے کہی ہیں انصار کے بزرگوں نے یہ باتیں نہیں کہی ہیں ، پھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان نعمتوں کو شمار کرایا جو خداوند عالم نے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود کے سایہ میں ان کو عطا کی تھیں اس پر انصار نے گریہ کیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہا تھوں اور پیروں کو بوسہ دے کر کہا : ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کو دوست رکھتے ہیں مال کو دوست نہیں رکھتے ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دنیا سے چلے جانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جدائی سے ڈرتے ہیں، نہ کہ کم سرمایہ سے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''زمانہ جاہلیت سے ابھی قریش کا فاصلہ کم ہے ، مقتولین کی مصیبت برداشت کئے ہوئے ابھی تھوڑی دن گذرے ہیں میں نے چاہا کہ ان کی مصیبت ختم کردوں اور ان کے دلوں میں ایمان بھردوں اے انصار کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور گوسفند لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اپنے گھر واپس جاو بیشک انصار ہمارے راز کے امین ہیں ، اگر تمام لوگ ایک راستے سے جائیں اور انصار دوسرے راستے سے گذریں تو میں اس راستے سے جاؤں گا جس سے انصار جارہے ہیں_ اسلئے کہ انصار

۴۴

ہمارے اندرونی اور ہمارے جسم سے لپٹے ہوئے لباس ہیں اور دوسرے افراد ظاہری لباس کی حیثیت رکھتے ہیں_(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی عزت و تکریم کی اور چونکہ انہوں نے اسلام کیلئے گذشتہ زمانہ میں جد و جہد کی تھی اور اسلام کی نشر و اشاعت کے راستہ میں فداکاری کا ثبوت دیا تھا اس بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنے سے قریب سمجھا اور اس طرح ان کی دلجوئی کی_

جانبازوں کا بدرقہ اور استقبال

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والی جنگ '' موتہ'' میں لشکر بھیجتے وقت رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشکر تیار کرلینے کے بعد لشکر کے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر بدرقہ کیلئے مدینہ سے ایک فرسخ تک تشریف لے گئے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہران کے ساتھ ادا کی اور لشکر کا سپہ سالار معین فرمایا، سپاہیوں کیلئے دعا کی اس کے بعد '' ثنیة الوداع'' نامی جگہ تک جو مکہ کے قریب ہے ان کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے لئے جنگی احکام صادر فرمائے _(۲)

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح پاکر واپس پلٹے تو اس موقع پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو فتح

___________________

۱) ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۳۲ ، ۱۳۴_

۲) السیرة الحلی ج۳ ص ۶۸_

۴۵

کی خبر دی اور مدینہ والوں کے ساتھ مدینہ سے تین میل دور جاکر ان کا استقبال کیا ، جب علیعليه‌السلام نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو گھوڑے سے اتر پڑے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گھوڑے سے اتر پڑے علیعليه‌السلام کی پیشانی کو بوسہ دیا ان کے چہرہ سے گردو غبار صاف کیا اور فرمایا: الحمدللہ یا علی الذین شد بک ازری و قوی بک ظہری ، اے علی خدا کی حمد ہے کہ اس نے تمہارے ذریعہ سے ہماری کمر مضبوط کی اور تمہارے وسیلہ سے اس نے دشمنوںپر ہمیں قوت بخشی اور مدد کی_(۱)

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فتح خیبر کی خبر دی گئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت خوش ہوئے اور حضرت علی کے استقبال کو آگے بڑھے ان کو گلے سے لگایا پیشانی کا بوسہ دیا اور فرمایا'' خدا تم سے راضی ہے تمہاری کوشش اور جد و جہد کی خبریں ہم تک پہونچیں ، میں بھی تم سے راضی ہوں '' علیعليه‌السلام کی آنکھیں بھر آئیںپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' اے علی یہ خوشی کے آنسوں ہیں یا غم کے '' ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا خوشی کے اور میں کیوں نہ خوش ہوں کہ آپ مجھ سے راضی ہیں ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' صرف میں ہی تم سے راضی نہیں ہوں بلکہ خدا، ملاءکہ ،جبرئیل اور میکائیل سب تم سے راضی ہیں_(۲)

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۳۵۷)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۲۸۹)_

۴۶

جہاد میں پیشقدمی کرنیوالوں کا اکرام

مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی وہ ' جنگ بدر '' تھی جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کی تھی وہ '' اہل بدر''کے عنوان سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے نزدیک خصوصیت کے حامل تھے_

حضرت پیغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمعہ کے دن '' صفہ'' پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ کم تھی ( رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار میں سے '' اہل بدر'' کی تکریم کررہے تھے) اسی حال میں اہل بدر میں سے کچھ لوگ منجملہ ان کے ثابت ابن قیس بزم میں وارد ہوئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روبرو کھڑے ہوکر فرمایا: السلام علیک ایہا النبی و رحمة اللہ و برکاتہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اس کے بعد ثابت نے مسلمانوں کو سلام کیا مسلمانوں نے بھی جواب سلام دیا وہ اسی طرح کھڑے رہے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جمع ہونے والی بھیڑ کی طرف دیکھتے رہے لیکن ان کو کسی نے جگہ نہیں دی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ بات بہت گراں گذری آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے مہاجرین و انصار میں سے چند افراد سے کہ جو اہل بدر میں سے نہیں تھے کہا : فلاں فلاں تم اٹھو پھر اہل بدر میں سے جتنے لوگ وہاں موجود تھے اتنے ہی دوسرے افراد کو اٹھاکر اہل بدر'' کو بٹھایا یہ بات ان لوگوں کو بری لگی جن کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اٹھایا تھا ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دکھائی دینے لگے ، منافقین میں سے کچھ لوگوں نے مسلمانوں سے کہا کہ کیا تم یہ

۴۷

تصور کرتے ہو کہ تمہارا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عدالت سے کام لیتاہے ، اگر ایسا ہے تو پھر اس جگہ انہوں نے عدالت سے کیوں نہیں کام لیا ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی جگہ سے کیوں اٹھا دیا جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب رہیں ؟ اور ان افراد کو ان کی جگہ پر کیوں بٹھا دیا جو بعد میں آئے تھے؟ اس وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی :

( یا ایها الذین آمنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوایفسح الله لکم و اذا قیل انشزوا فانشزوا ) (۱)

اے اہل ایمان جب تم سے کہا جائے کہ اپنی اپنی مجلس میں ایک دوسرے کیلئے جگہ کشادہ کردو تو خدا کا حکم سنو اور جگہ چھوڑ دو تا کہ خدا تہارے (مکان و منزلت) میں وسعت دے اور جب یہ کہا جائے کہ اپنی جگہ سے اٹھ جا و تب بھی حکم خدا کی اطاعت کرو(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اہل بدر کا احترام کرنا اسلامی معاشرہ میں بلند معنوی قدروں کی احیاء اور راہ خدا میں جہاد کے سلسلہ میں پیش قدمی کرنیوالوں کے بلند مقام کا پتہ دیتاہے اسی وجہ سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کے مطابق صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان '' اہل بدر'' خاص احترام اور امتیاز کے حامل تھے_

___________________

۱) (مجادلہ ۱۱)_

۲) ( بحار ج۱۷ ص ۲۴)_

۴۸

شہدا ء اور ان کے خاندان کا اکرام

سنہ ۸ ھ میں جنگ '' موتہ'' میں لشکر اسلام کی سپہ سالاری کرتے ہوئے '' جعفر ابن ابی طالب'' نے گھمسان کی جنگ میں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا میں دے دیئے اور زخموں سے چور ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بلند مرتبہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

''ان الله ابدل جعفرابیدیه جناحین یطیر بهما فی الجنة حیث شاء ''

خداوند عالم نے جعفر کو ان کے دونوںبازوں کے بدلے دو پر عنایت کئے ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں ان کے سہارے پرواز کرتے چلے جاتے ہیں _

اسی جنگ کے بعد جب لشکراسلام مدینہ واپس آیا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ساتھ ان کے استقبال کو تشریف لے گئے ، ترانہ پڑھنے والے بچوں کا ایک گروہ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرکب پر سوار چلے جارہے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : بچوں کو بھی سوار کرلو اور جعفر کے بچوں کو مجھے دیدو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ' ' عبداللہ بن جعفر '' کو جن کے باپ شہید ہوچکے تھے اپنی سواری پر اپنے آگے بٹھایا_

عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا: اے عبداللہ میں تم کو تعزیت و مبارکباد پیش کرتاہوں کہ تمہارے والد ملاءکہ کے ساتھ آسمان میں پرواز کررہے ہیں _

___________________

۱) (السیرة الحلبیة ج۲ ص ۶۸)_

۴۹

امام جعفر صادقعليه‌السلام نقل کرتے ہیں کہ جعفر ابن ابی طالب کی شہادت کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے بیٹے اور بیوی '' اسماء بنت عمیس'' کے پاس پہونچے، اسماء بیان فرماتی ہیں کہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے گھر میں وارد ہوئے تو اسوقت میں آٹا گوندھ رہی تھی حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمہارے بچے کہاں ہیں؟ میں اپنے تینوں بیٹوں'' عبداللہ'' ، ''محمد'' اور ''عون'' کو لے آئی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور سینہ سے لگایا آپ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہمارے ماں باپ فدا ہوجائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے بچوں کے ساتھ یتیموں کا سا سلوک کیوں کررہے ہیں کیا جعفر شہید ہوگئے ہیں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گریہ میں اضافہ ہوگیا ارشاد فرمایا: خدا جعفر پر اپنی رحمت نازل کرے یہ سنتے ہی صدائے نالہ وشیون بلند ہوئی بنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' فاطمہعليه‌السلام '' نے ہمارے رونے کی آواز سنی تو انہوں نے بھی گریہ فرمایا ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر سے باہر نکلے حالت یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے آنسووں پر قابو نہیں پارہے تھے اور یہ فرمایا کہ :'' گریہ کرنے والے جعفر پر گریہ کریں''_

اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: '' جعفر کے اہل و عیال کیلئے کھانا تیار کرو اور ان کے پاس لے جاؤ اسلئے کہ وہ لوگ آہ و فغان میں مشغول سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح

___________________

۱) (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۸۹) _

۵۰

بات سنت قرار پائی خود عبداللہ بن جعفر کے قول کے مطابق '' وہ لوگ تین دن تک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر مہمان رہے _

ہمارے معاشرہ میں آج جو رواج ہے وہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برعکس ہے ہم آج دیکھتے ہیں کہ مصیبت زدہ کنبہ کے اقرباء اور رشتہ دار چند دنوں تک عزادار کے گھر مہمان رہتے ہیں ، جبکہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زندہ کرنا کرنا ہمارا فریضہ ہے_

ایمان یا دولت

تاریخ میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پیغمبروں کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے اور کان دھرنے والے زیادہ تر محروم اور مصیبت زدہ افراد ہی ہوتے تھے دولت مندوں اور مستکبرین نے خدا کے پیغمبروں سے ہمیشہ مقابلہ کیا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتے رہے اگر انھوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ظاہراً ایمان قبول کرلیا تو اسی برتری کے جذبہ کی بناپر دوسروں سے زیادہ امتیاز کے طلبگار رہے اشراف و قباءل عرب کے رئیسوں کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے اورفقیر اور محروم مومنین سے مساوی سلوک کیا کرتے تھے بلکہ غلاموں اور ستائے ہوئے محروم افراد پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیادہ توجہ فرماتے تھے اسلئے کہ ان کے پاس خالص ایمان تھا اور راہ اسلام میں دوسروں سے زیادہ یہ افراد فداکاری کا مظاہرہ کرتے تھے_

۵۱

ایک دن، سلمان، بلال، عمار اور غلاموں اور نادار مسلمانوں کی ایک جماعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھی بزرگان قریش اور نئے مسلمان ہونے والوں میں سے چند افراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاش ناداورں اور غلاموں کی اس جماعت کو آپ الگ ہی رکھتے یا ان کو اور ہم لوگوں کو ایک ہی نشست میں جگہ نہ دیتے آخر اس میں حرج ہی کیا ہے جب ہم یہاں سے چلے جاتے تب یہ لوگ آتے ، اس لئے کہ دور و نزدیک کے اشراف عرب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے ہیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہم کو اور ان لوگوں کو ایک ہی نشست میں دیکھیں_

فرشتہ وحی ان کے جواب میں آیت لے کر نازل ہوا :

( و لا تطرد الذین یدعون ربهم بالغداوة و العشی یریدون وجهه ما علیک من حسابهم منشئ و مامن حسابک علیهم من شئ فتطردهم فتکون من الظالمین ) (۱)

جو لوگ صبح و شام خدا کو پکارتے ہیں اور جنکا مقصود خدا ہے ان کو اپنے پاس سے نہ ہٹاؤ اسلئے کہ نہ تو آپ کے ذمہ ان کا حساب اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے لہذا تم اگر ان خداپرستوں کو اپنے پاس سے بھگادو گے تو ظالمین میں سے ہوجاؤ گے(۲)

___________________

۱) (انعام ۲۵) _

۲) ( ناسخ التواریخ ج۴ ص ۸۳)_

۵۲

اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء مؤمنین پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عنایت اور زیادہ ہوگئی _

ثروت مند شرفاء یا غریب مؤمن

سہل بن سعد سے منقول ہے کہ ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گذرا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے سوال کیا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا کہ وہ شرفاء میں سے ہے کسی شاءستہ انسان کے یہاں یہ پیغام عقد دے تو لوگ اسکو لڑکی دے دیں گے ، اگر کسی کی سفارش کردے تو لوگ اسے قبول کریں گے ، اگر یہ کوئی بات کہے تو لوگ اسکو سنیں گے ، حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاموش ہوگئے تھوڑی دیر بعد ایک غریب مسلمان کا ادھر سے گذرہوا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا بہتر یہی ہے کہ اگر یہ لڑکی مانگے تو لوگ اسکو لڑکی نہ دیں ، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اسکی سفارش نہیں سنی جائے، اگر یہ کوئی بات کہے تو اس پر کان نہیں دھرے جائیں گے _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' یہ اس مالدار شخص اور اسی جیسی بھری ہوئی دنیا سے تنہا بہتر ہے_(۱)

___________________

۱) (پیامبر رحمت صدر بلاغی ص ۶۱)_

۵۳

خلاصہ درس

۱)امت اسلام کی رہبری اور الہی پیغام پہونچانے کا منصب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد تھا اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مختلف طبقات کے افراد و اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان لوگوں کے ساتھ آپکا کردار ساز سلوک توحید کی طرف دعوت کا سبب تھا_

۲)صاحبان فضیلت و کرامت کے ساتھ چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں رسول اکرم اچھے اخلاق اور احترام سے پیش آتے تھے_

۳)جن لوگوں کو اسلام میں سبقت حاصل ہے اوراسلام کی نشرو اشاعت میں جاں نثاری اور کوشش کی ہے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کا احترام کیا اور ان کو اپنے سے بہت نزدیک جانا_

۴) اسلامی معاشرہ میں معنویت کی اعلی قدروں کے احیاء کیلئے پیش قدمی کرنیوالوں اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں '' اہل بدر'' کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عزت سے پیش آتے اور ان لوگوں کیلئے خاص امتیاز و احترام کے قاءل رہے_

۵) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دولت مندوں سے زیادہ غریب مؤمنین پر لطف و عنایت کی اس لئے کہ یہ خالص ایمان کے حامل تھے اور اسلام کی راہ میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جاں نثاری کا ثبوت دیتے تھے_

)مؤلفة القلوب ایک وسیع المعنی لفظ ہے جو کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کیلئے بھی بولا جاتاہے اور ان کفار کیلئے بھی جن کو اسلام کی طرف بلانا مقصود ہو تا کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی ترغیب دی جائے _(۱)

___________________

۱)جواہر الکلام ج۱ ص ۳۴۱ طبع_

۵۴

سوالات :

۱_ مقصد بعثت کے سلسلہ میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول پیش کیجئے؟

۲_ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک اور برتاو کا معاشرہ پر کیا اثر پڑا؟ ایک مثال کے ذریعہ اختصار سے لکھئے؟

۳_مجاہدین '' فی سبیل اللہ '' کے ساتھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا ؟ اس کے دو نمونے پیش کیجئے؟

۴_ شہداء کے گھر والوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا سلوک کرتے تھے تحریر فرمایئےاور یہ بھی بیان کیجئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس عمل کو اپنی سنت قرا ردیا ہے ؟

۵_ امیروں کے مقابل غریبوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کو بیان کرتے ہوئے ایک مثال پیش کیجئے_

۵۵

چوتھا سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانیاں)

محبت اور مہربانی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وہ اخلاقی اصول تھا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاشرتی معاملات میں ظاہر ہوتا تھا_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رحم و عطوفت کا داءرہ اتنا وسیع تھا کہ تمام لوگوں کو اس سے فیض پہنچتارہتا تھا گھر کے نزدیک ترین افرادسے لے کر اصحاب باوفا تک نیز بچے' یتیم ' گناہگار' گمراہ اور دشمنوں کے قیدی افراد تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحمت کے سایہ میں آجاتے تھے یہ رحمت الہی کا پرتو تھاجو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود مقدس میں تجلی کیے ہوئے تھا_

( فبما رحمة من الله لنت لهم ) (۱)

رحمت خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مہربان بنادیا _

گھر والوں سے محبت و مہربانی

جب گھر کا ماحول پیار و محبت اور لطف و عطوفت سے سرشار ہوتاہے تو وہ مستحکم ہوکر

___________________

۱) (آل عمران ۱۵۹/) _

۵۶

بافضیلت نسل کے ارتقاء کا مرکز بن جاتاہے_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر محبت و مہربانی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ' گھر کے اندر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ہاتھوں سے کپڑے سیتے ' دروازہ کھولتے بھیڑ اور اونٹنی کا دودھ دوہتے جب کبھی آ پکا خادم تھک جاتا تو خودہی جو یاگیہوں سے آٹا تیار کرلیتے' رات کو سوتے وقت وضو کا پانی اپنے پاس رکھ کر سوتے' گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام خود انجام دیتے اور اپنے خاندان کی مشکلوں میں ان کی مدد کرتے(۱)

اسی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''خیر کم خیر کم لاهله و انا خیرکم لاهلی (۲) یا 'خیارکم ' خیر کم لنساءه و انا خیر لکم لنسائی'' (۳)

یعنی تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں یا یہ کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں_

خدمتکار کے ساتھ مہربانی

اپنے ماتحت افراد اور خدمتگاروں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا محبت آمیز سلوک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانی کا

___________________

۱) (سنن النبی ص ۷۳)_

۲) (مکارم الاخلاقی ص ۲۱۶)_

۳) (محجة البیضاء ج۳ ص۹۸)_

۵۷

ایک دوسرا رخ ہے ''انس بن مالک'' کہتے ہیں کہ : '' میںنے دس سال تک حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے کلمہ '' اف'' تک نہیں فرمایا_ اور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا _ انس کہتے ہیں کہ :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شربت سے افطار فرماتے تھے اور سحر میں دوسرا شربت نوش فرماتے تھے اور کبھی تو ایسا ہوتا کہ افطار اور سحر کیلئے ایک مشروب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی وہ مشروب یا تو دودھ ہوتا تھا یا پھرپانی میں بھیگی ہوئی روٹی ' ایک رات میں نے مشروب تیار کرلیا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ اصحاب میں سے کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کردی ہوگی' یہ سوچ کر میں وہ مشروب پی گیا' تھوڑی دیر کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ :حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے افطار کرلیا؟کیا کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی تھی ؟ انھوں نے کہا : نہیں ' اس رات میں صبح تک غم و اندوہ میں ایسا مبتلا رہا کہ خدا ہی جانتا ہے اسلئے کہ ہر آن میں مجھے یہ کھٹکا لگا رہا کہ کہیں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ مشروب مانگ نہ لیں اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مانگ لیں گے تو میں کہاں سے لاوں گا یہاں تک کہ صبح ہوگئی حضرت نے روزہ رکھ لیا لیکن اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مشروب کے بارے میں مجھ سے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور اسکا کبھی کوئی ذکر نہیں فرمایا:(۱)

___________________

۱) (منتھی الامال ج ص۱۸ ،مطبوعہ کتابفروشی علمیہ اسلامیہ)_

۵۸

امام زین العابدینعليه‌السلام کا خادم

امام زین العابدینعليه‌السلام نے اپنے غلام کو دو مرتبہ آواز دی لیکن اس نے جواب نہیںدیا،تیسری بار امامعليه‌السلام نے فرمایا: کیا تم میری آواز نہیں سن رہے ہو؟اس نے کہا کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا: پھر جواب کیوں نہیں دیتے؟ اس نے کہا کہ چوں کہ کوئی خوف نہیں تھا اسلئے میں نے اپنے کو محفوظ سمجھا، امام نے فرمایا: ''خدا کی حمد ہے کہ میرے غلام اور نوکر مجھ کو ایسا سمجھتے ہیں اور اپنے کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنے دل میں میری طرف سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے''(۱)

اصحاب سے محبت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملت اسلامیہ کے قاءد ہونے کے ناتے توحید پر ایمان لانے والوں اور رسالت کے پروانوں پر خلوص و محبت کی خاص بارش کیا کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے حالات معلوم کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے اور ان اگر تین دن گزرے میں کسی ایک صحابی کو نہ دیکھتے تو اسکے حالات معلوم کرتے اور اگر یہ خبر ملتی تھی کہ کوئی سفر میں گیا ہوا ہے تو اس کے لئے دعا کرتے تھے اور اگر وہ وطن میں ہوتو ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے_ اگر وہ بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کرتے تھے(۲)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۴۶ ص ۵۶)_

۲) (سنن النبی ص ۵۱)_

۵۹

جابر پر مہربانی

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ : میں انیس جنگوںمیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا ، ایک جنگ میں جاتے وقت میرااونٹ تھک کر بیٹھ گیا،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، کمزور افراد کو قافلہ تک پہونچاتے اور ان کے لئے دعا فرماتے تھے،حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے نزدیک آئے اور پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا میں جابر ہوں میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوجائیں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا میرا اونٹ تھک گیا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمھارے پاس عصا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عصا لے کر اونٹ کی پیٹھ پر مارا اور اٹھاکر چلتا کردیا پھر مجھ سے فرمایا : سوار ہوجاؤ جب میں سوار ہوا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعجاز سے میرا اونٹ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ سے آگے چل رہا تھا، اس رات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۲۵ مرتبہ میرے لئے استغفار فرمایا(۱)

بچوں اور یتیموں پر مہربانی

بچہ پاک فطرت اور شفاف دل کا مالک ہوتاہے اس کے دل میں ہر طرح کے بیج کے پھولنے پھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے بچہ پر لطف و مہربانی اور اسکی صحیح تربیت اس کے اخلاقی نمو اوراندرونی استعداد کے پھلنے پھولنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہ بات ان یتیموں

___________________

۱) (حیواة القلوب ج۲ ص ۱۲۷)

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ہمیں تعجب تو آلوسی جیسے مشہور مفسّر کی بات پر ہے، وہ کہتے ہیں کہ پاؤں پر مسح کے بارے میں صرف ایک روایت ہے جو شیعوں کے لیے ثبوت بن گئی ہے(۱)

۱_عن عليّ ابن ابی طالب (ع) قال: کنتُ أری أن باطنَ القَدَمَین أحقّ بالمسح من ظاهر هما حتيّ رأیتُ رسولُ الله (ص) یمسح ظاهرَهُما:

'' امیرالمؤمنین علی _ فرماتے ہیں کہ میں خیال کرتا تھا کہ پاؤں کے تلولے ان کی پُشت کی نسبت مسح کرنے کے زیادہ سزاوار ہیں یہانتک کہ میں نے رسولخدا(ص) کو دیکھا کہ پاؤں کی پشت پر مسح کرتے ہیں''(۲)

۲_عن ابی مطر قال: بینما نحن جلوس مع علی _ فی المسجد، جاء رجلٌ إلی عليّ ّ _ و

قال: أرنی وضوء رسول الله (ص) فدعا قنبر فقال أتیتنی بکوز من مائ، فغسل یده و وجههه ثلاثاً فأدخَل بعض أصابعة فی فیه و استنشق ثلاثاً و غسل ذارعیه ثلاثاً و مسحَ رأسه واحدة ____ و رجلیه إلی الکعبین'' (۳)

____________________

۱) روح المعانی ، جلد ۶، ۸۷_

۲) مسند احمد جلد ۱ ص ۱۲۴_

۳) کنز العمال، جلد ۹، ص ۴۴۸_

۱۶۱

ابی مطر کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضرت علی (ع) کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور آپ(ع) کی خدمت میں عرض کرنے لگا کہ مجھے رسولخدا(ص) جیسا وضو کرکے دکھا یئےآپ(ع) نے قنبر کو آواز دی اور فرمایا کہ پانی کا ایک برتن لے آؤ، اس کے بعد آپ(ع) نے ہاتھ اور منہ کو تین مرتبہ دھویا _ انگلی کے ذریعے دانت صاف کیے اور تین مرتبہ استنشاق کیا ( ناک میں پانی ڈالا) اور پھر ( چہرے ) اور ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا اور ایک مرتبہ سر کا مسح اور ایک مرتبہ اُبھری ہوئی جگہ تک پاؤں کا مسح کیا''

اگرچہ دونوں حدیثیں امیرالمؤمنین علی _ کے توسط سے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہوئی ہیں لیکن دو مختلف واقعات کو حکایت کرتی ہیں _ اور ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ رسولخدا(ص) وضو کے دوران پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے_

۳: عن بسربن سعید قال: أتی عثمان المقاعد فدعا بوضوء فتمضض و استنشق ، ثم غسل وجهه ثلاثاً و یدیه ثلاثاً ثلاثاً ثم مسح برأسه و رجلیه ثلاثاً ثلاثاً ، ثم قال : رأیتُ رسول الله هکذا توضّأ، یا هؤلائ أکذلک ؟ قالوا: نعم لنفر من أصحاب رسول الله (ص) عنده:(۱)

بسر بن سعید نقل کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بیٹھک میں ( جہاں لوگ مل بیٹھتے ہیں) آئے اور وضو کے لیے پانی مانگا اور کلّی کی اور ناک میں پانی ڈالا، اس کے بعد

____________________

۱) مسند احمد، جلد ۱ ، ص ۶۷_

۱۶۲

چہرے کو تین مرتبہ دھویا اور دونوں ہاتھوں کو بھی تین تین مرتبہ دھویا اور سر اور پاؤں کا تین مرتبہ مسح کیا، اس کے بعد کہنے لگے میں نے پیغمبر اکرم(ص) کو دیکھا ہے کہ اس طرح وضو فرماتے تھے ( اس کے بعد حاضرین محفل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جواصحاب رسول تھے ) اے لوگو کیا اسی طرح ہے ؟ سب نے کہا جی ہاں''

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف حضرت عثمان بلکہ دیگر اصحاب بھی صراحت کے ساتھ گواہی دیتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) وضو کے وقت پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے ( اگرچہ اس روایت میں سر اور پاؤں کا مسح تین مرتبہ ذکر کیا گیا ہے _ممکن ہے بعض اصحاب کی نظر میں یہ مستحب ہو یا راوی کا اشتباہ ہو)

۴:عن رفاعة بن رافع أنه، سمع رسول الله (ص) یقول: أنّه لا تتمّ صلوة لأجد حتی یسبغ الوضوئ، کما أمره الله عز وجلّ یغسل وجهه و یدیه إلی المرفقین و یمسح برأسه و رجلیه إلی الکعبین;

رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے رسولخدا(ص) سے سُنا فرما رہے تھے تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک اس طرح وضو نہ کرے جسطرح اللہ تعالی نے حکم دیا ہے: کہ چہرے کو اور ہاتھوں کوکہنیوں تک دھوئے اور سرکا اور پاؤں کا اُبھری ہوئی جگہ تک مسح کرے ''(۱)

____________________

۱) سنن ابن ماجہ ، جلد ۱ ، ص ۱۵۶_

۱۶۳

۵:عن ابی مالک الاشعری أنّه قال لقومه : اجتمعوا اصلّی بکم صلوة رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم فلمّا اجتمعوا قال : هل فیکم أحد من غیرکم؟ قالوا لا الّا ابن أخت لنا، قال : ابن أخت القوم منهم ، فدعا بجفنة فیها ماء فتوضّا و مضمض و استنشق و غسل وجهه ثلاثاً و ذراعیه ثلاثا ثلاثاً و مسح برأسه و ظهر قدمیه ثم صلّی بهم ،(۱)

ابومالک اشعری سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ جمع ہو جاؤ تا کہ میں تمہارے سامنے رسولخدا(ص) جیسی نماز پڑھوں_ جب سب جمع ہوگئے تو انہوں نے پوچھا تمہارے درمیان کوئی غیر تو نہیں ہے؟ سب نے کہا نہیں صرف ایک ہمارا بھانجا ہے ( کہ ہماری اس بہن کی شادی دوسرے قبیلے میں ہوئی تھی) کہنے لگے ، کوئی بات نہیں _بھانجا بھی قبیلہ کا فرد ہوتا ہے ( اس عبادت سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور کی حکومت کی طرف سے _ بعض سیاسی مسائل کی وجہ سے _ رسولخدا(ص) کی نماز یا وضو کی وضاحت کرنا ممنوع تھا) اس کے بعد انہوں نے پانی کا برتن مانگا اور اس طرح

وضو کیا_ کلّی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے کو تین مرتبہ دھویا اسی طرح ہاتھوں اور بازوؤں کو تین مرتبہ دھویا اس کے بعدسرکا اور پاؤں کی پشت کا مسح کیا اس کے بعد اپنے قبیلہ کے ساتھ نماز پڑھی''_

____________________

۱) مسند احمد، جلد ۵ ، ص ۳۴۲_

۱۶۴

مندرجہ بالا نقل ہونے والی روایات، اُن روایات کا مختصر سا حصہ ہیں جو اہلسنت کی معروف کتب میں مشہور راویوں کے توسط سے نقل ہوئی ہیں_ لہذا جو لوگ کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی روایت نقل نہیں ہوئی یا صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے وہ ناآگاہ اور متعصّب قسم کے لوگ ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ شاید حقائق سے چشم پوشی کرنے یا ان کا انکار کرنے کی وجہ سے انہیں ختم کیا جاسکتا ہے_

یہ وہی لوگ ہیں جو سورہ مائدہ کی آیت کے مسح کے وجوب پر دلالت کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حتی کہ کہتے ہیں کہ یہ آیت صراحت کے ساتھ پاؤں دھونے پر دلالت کرتی ہے جس کی وضاحت سابقہ صفحات پر گذر چکی ہے_

مخالف روایات:

ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے ہیں کہ سابقہ روایات کے مقابلے میں دو قسم کی دوسری روایات بھی اہلسنت کی معروف کتب میں نقل ہوئی ہیں_

ان میں سے ایک گروہ وہ روایات ہیں جو کہتی ہیں کہ رسولخدا(ص) وضو کے وقت پاؤں دھوتے تھے_ اور دوسرا گروہ ان روایات کا ہے جو کہتی ہیں کہ آپ(ص) وضو کے وقت نہ پاؤں کو دھوتے تھے اور نہ مسح کرتے تھے بلکہ جوتوں پر مسح کرتے تھے

ایسے وقت میں ہمیں علم اصول کے مسلّم قاعدہ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ایک مسئلہ کے بارے میں روایات کے دو گروہ آپس میں متضاد اور متعارض ہوں تو سب سے پہلے دلالت کے لحاظ سے جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یعنی ان روایات کی اس طرح تفسیر کرنی چاہیے کہ تضاد ختم ہوجائے اور روایات آپس میں جمع ہوجائیں ( البتہ یہ تفسیر اور جمع ،عرفی فہم

۱۶۵

کے معیاروں کے مطابق ہونی چاہیے)_

اور اگر یہ جمع دلالی ممکن نہ ہو تو پھر روایات کی قرآن مجید کے ساتھ تطبیق کرنا چاہیے_ یعنی دیکھنا چاہیے کہ کونسی روایت قرآن مجید کے مطابق ہے اسے اخذ کرنا چاہیے اور دوسری روایت کو ترک کرنا چاہیے_ یہ ایسا قانون ہے جو معتبر ادلّہ کے ذریعے ثابت ہے_

اب اس قاعدہ کے مطابق ان دو قسم کی( مسح اور دھونے والی ) روایات کے درمیان جمع یوں کیا جاسکتا ہے کہ رسولخدا(ص) وضو کے دوران مسح والے حکم پر عمل کرتے تھے اور بعد میں نظافت کے لیے کبھی پاؤں کودھولیا کرتے تھے اور یہ دھونا وضوکا حصّہ نہیں تھا_ بعض راوی جو اس منظر کا مشاہدہ کر رہے ہوتے تھے خیال کرتے کہ یہ پاؤں دھونا، وضو کا جزء ہے_

اتفاق سے شیعوں میں بھی بہت سے افراد اکثر یہی کام کرتے ہیں یعنی وضو میں مسح والے فریضےپر عمل کرنے کے بعد صفائی کی خاطر اپنے دونوں پاؤں کو اچھی طرح دھولیتے ہیں_

اور اس زمانے میں اس کام کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی تھی کیونکہ گرمی کی وجہ سے کھلے جوتے پہنے جاتے تھے نہ کہ بند جوتے، اور کھلے جوتے میں پاؤں جلدی آلودہ ہوتے ہیں_

بہرحال پاؤں کا مسح ایک واجبی فریضہ تھا جو عام طور پر دھوئے جانے والے پاؤں سے جُدا تھا_

یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ بعض فقہاء کو نص ّ کے مقابلہ میں اجتہاد نے اُکسایا ہوکہ مسح کے مقابلے میں پاؤں دھونے کا فتوی دیں کیونکہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ پاؤں کی آلودگی صرف دھونے سے ہی دور ہوسکتی ہے_ اس لیے انہوں نے سورہ مائدہ کے ظہور کو ترک کردیا جو واضح طور پر مسح کا حکم دیتا ہے جیسا کہ علمائے اہلسنت کے بعض کلمات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہتر یہ ہے کہ آلودگی کو دور کرنے کیلئے پاؤں کو دھولیا جائے اور مسح کافی نہیں ہے_

۱۶۶

سہل اور آسان شریعت:

یقیناً اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو روئے زمین کے تمام علاقوں اور تمام زمانوں کے لیئے ہے_ اس کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر آسان اور سہل شریعت ہے _ ذرا سوچئے دن رات میں پانچ مرتبہ پاؤں کو دھونا، دنیا کے مختلف علاقوں میں کتنی مشکلات ایجاد کریگا_ اس سختی کی وجہ سے ممکن ہے بعض لوگ وضو اور نماز سے بیزار ہوجائیں_

اور یہ نص ّ کے مقابلے میں اجتہاد اور مسح کی روایات کو چھوڑنے کا نتیجہ ہے_

یہ احتمال بھی منتفی نہیں ہے کہ پاؤں دھونے کی بعض احادیث (نہ ساری احادیث ) بنواميّہ کے دور میں کہ جب احادیث گھڑنے کا بازار گرم تھا اور معاویہ جعلی احادیث گھڑنے کے لیے بہت سی رقم خرچ کرتا تھا، جعل کی گئی ہوں_ کیونکہ سب لوگ جانتے تھے کہ حضرت علی (ع) ، وضو میں پاؤں کے مسح کے قائل ہیں اور معاویہ کا اصرار تھا کہ ہرچیزمیں علی (ع) کی مخالفت کی جائے اور برعکس عمل کیا جائے_ مندرجہ ذیل دو احادیث پر غور کیجئے_

۱_ صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے کہ معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو حکم دیا کہ امیرالمومنین علی (ع) پر سب و شتم کرے اور لعنت کرے( کیونکہ سعد بن ابی وقاص سختی کے ساتھ اس کام سے پرہیز کرتے تھے) سعد نے کہا میں نے رسولخدا(ص) کی زبان سے تین فضیلتیں علی (ع) کے بارے میں ایسی سنی ہیں جنہیں میں کبھی نہیں بُھلا سکتا ہوں ، اے کاش اُن میں سے ایک فضیلت میرے لیے بھی ہوتی تو میں اسے عظیم ثروت پر ترجیح دیتا_ اس کے بعد انہوں نے جنگ تبوک کا واقعہ اور ''اما ترضی أن تکون لی بمنزلة هارون من موسی '' کا جملہ نقل کیا_ اسی طرح جنگ خیبر کاواقعہ اور حضرت علی (ع) کی شان میں رسولخدا(ص) کا مشہور جملہ جو آپ(ص) نے حضرت علی (ع) کے بارے

۱۶۷

میں فرمایا تھااور واقعہ مباہلہ کونقل کیا_(۱)

اس حدیث سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ معاویہ ، امیرالمؤمنین علی _ کی مخالفت پر کتنا اصرار کرتا تھا_

۲: بہت سی روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں دو گروہوں نے جعل حدیث کا سلسلہ شروع کیا تھا_

ایک گروہ_ بظاہر صالح اور زاہد ( مگر سادہ لوح) افراد پر مشتمل تھا جو قصد قربت کے ساتھ احادیث گھڑتا تھا_ ان میں سے بعض ایسے دیندار لوگ تھے جو لوگوں میں تلاوت قرآن کی رغبت ایجاد کرنے کے لیے اس کی سورتوں کے فضائل کے بارے میں عجیب و غریب احادیث بناتے تھے اور پیغمبر اکرم(ص) کی طرف نسبت دیتے تھے اور مقام افسوس یہ ہے کہ ان کی تعداد بھی کم نہیں تھی

اہلسنت کے معروف عالم جناب قرطبی اپنی کتاب تذکار کے ( ص ۱۵۵) پر لکھتے ہیں: کہ ان احادیث کا کوئی اعتبار نہیں جنہیں جھوٹی احادیث گھڑنے والوں نے قرآن مجید کی سورتوں کے فضائل کے بارے میں جعل کیا ہے_ کیونکہ یہ کام ایک بڑی جماعت نے قرآن کی سورتوں کے فضائل میں بلکہ تمام اعمال کے بارے میں انجام دیا ہے انہوں نے قصد قربت کے ساتھ احادیث گھڑی ہیں _وہ خیال کرتے تھے کہ اس انداز میں لوگوں کو نیک اعمال کی طرف دعوت دیتے ہیں ( وہ لوگ جھوٹ کو جو کہ ایک بدترین گناہ ہے زہد و فقاہت کے ساتھ بالکل مُنافی نہیں سمجھتے تھے)

____________________

۱) صحیح مسلم ، جلد ۷، ص ۱۲۰_

۱۶۸

یہی دانشمند ( قرطبی) اپنی کتاب کے بعد والے صفحہ پر خود '' حاکم'' سے اور بعض شیوخ محدّثین سے نقل کرتے ہیں کہ ایک زاہد نے اپنی طرف سے قربة الی اللہ قرآن مجید اور اس کی سورتوں کے فضائل کے بارے میں احادیث جعل کیں جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ کام تم نے کیوں کیا ہے؟ تو کہنے لگے میں نے دیکھا ہے کہ لوگ قرآن مجید کی طرف کم توجہ کرتے ہیں انہیں رغبت دلانے کے لیئے میں نے یہ کام کیا ہے_ اور جب ان کو کہا گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے خود فرمایا ہے کہ ''من کذّب عليّ فلیتبوء مقعده من النّار '' جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے_ تو جواب میں کہنے لگے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے کہ '' من کذب عليّ ...'' جس نے میرے خلاف جھوٹ بولا_ اور میں نے تو آپ(ص) کے فائدے میں جھوٹ بولا ہے

اس قسم کی احادیث نقل کرنے میں قرطبی تنہا نہیں ہیں بلکہ اہلسنت کے بعض دیگر علماء نے بھی انہیں نقل کیا ہے ( مزید وضاحت کے لیے کتاب '' الغدیر'' کی پانچویں جلد میں ''کذّابین اور وضّاعین'' کی بحث کیطرف رجوع کیجئے) _

دوسرا گروہ: ان لوگوں کا تھا جو بھاری رقم لے کر معاویہ اور بنو امیہ کے حق اور امیرالمؤمنین(ع) کی مذمت میں احادیث گھڑتے تھے_ ان میں سے ایک سمرة ابن جندب تھا جس نے چار لاکھ درہم معاویہ سے لیے اور یہ حدیث امیرالمؤمنین (ع) کی مذمت اور انکے قاتل کی شان میں گھڑی اور کہا کہ یہ آیت شریفہ''( و من الناس من یشری نفسه ، ابتغاء مرضات الله ) ''(۱) علی (ع) کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے_

____________________

۱) سورہ بقرة آیت ۲۰۷_

۱۶۹

اور یہ آیت ''و من الناس من يُعجبک قوله فی الحیاة الدنیا ...''(۱) علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے_(۲)

نعوذ بالله من هذه الاکاذیب_

اس بناء پر تعجب نہیں ہے کہ علی _ کی مخالفت میں کچھ روایات وضو میں پاؤں دھونے کے لیئے جعل کردی گئی ہوں_

جوتوں پر مسح، عقل و شرع کے ترازو میں :

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ جو لوگ پاؤں پر مسح کے مسئلہ کی شدّت کے ساتھ نفی کرتے ہیں اور پاؤں دھونے کو واجب سمجھتے ہیں_ وہی لوگ اجازت دیتے ہیں کہ وضو میں جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے اور دلیل کے طورپر پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہونے والی بعض روایات کو پیش کرتے ہیں حالانکہ اہلبیت کے توسط سے نقل ہونے والی احادیث عموماً اس بات کی نفی کرتی ہیں اور خود اہلسنت کے واسطہ سے نقل ہونے والی متعدد معتبر احادیث صریحاً اس کے خلاف ہیں_

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ احادیث اہل بیت (ع)کی پیروی کرتے ہوئے شیعہ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جوتوں پر مسح کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے_ لیکن بہت سے اہلسنت فقہاء نے اس کام کو سفر اور حضر میں بطور مطلق جائز قرار دیا ہے اگرچہ بعض علماء نے اسےضرورت کے مقامات میں منحصر کیا ہے_

____________________

۱) سورة بقرة آیة ۲۰۴_

۲)ابن ابی الحدید معتزلی طبق نقل منتهی المقال شرح حال ''سمرة '' _

۱۷۰

یہاں پر چند سوالات سامنے آتے ہیں ، من جملہ:

۱_ پاؤں پر مسح کرنا تو جائز نہیںتھا کسی طرح جوتوں پر مسح کرنا جائز ہوگیا ہے حالانکہ جب پاؤں دھونے کی بات آتی تھی تو دلیل یہی تھی کہ پاؤں چونکہ آلودہ ہوتے ہیں اس لیے انہیں دھونا بہتر اور مسح کرنا کافی نہیں ہے_

کیا آلودہ جوتوں پر مسح کر لینا پاؤں دھونے کا قائم مقام بن سکتا ہے_

جبکہ بہت سے علماء اہلسنت اس بات کے قائل ہیں کہ پاؤں دھونے اور جوتوں پر مسح کرنے میں اختیار ہے_

۲: کیوں علماء نے قرآن مجید کے ظہور کو ترک کردیا ہے جس میں سر اور پاؤں کے مسح کا حکم تھا اور جوتوں پر مسح کو ترجیح دی ہے؟

۳: کیوں علمائے اہلسنت، روایات اہلبیت(ع) سے چشم پوشی کرتے ہیں جس میں بالاتفاق جوتوں پر مسح کرنے سے منع کیا گیا ہے _ اور پیغمبر اکرم(ص) نے اہلبیت (ع) کو ہی قرآن مجید کے ساتھ باعث نجات شمار کیا ہے؟

۴: درست ہے (برادران کی کتب میں )بعض روایات نقل ہوئی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جوتوں پر مسح کیا ہے لیکن اس کے مقابلے میں دیگر معتبر ورایات بھی موجود ہیں جن میں ذکر کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے_ روایات کے تعارض اور تضاد کے وقت کیوں علمائے اہلسنت قرآن مجید کی طرف رجوع نہیں کرتے اور روایات کے اختلاف کے حل کیلئے اسے حاکم قرار دیتے ہوئے اسے اپنا مرجع قرار نہیں دیتے ہیں_

اس مسئلہ میں ہم جتنا زیادہ غور و فکر کرتے ہیں ہمارے تعجب میں اضافہ ہوتا ہے_

۱۷۱

کتاب '' الفقہ علی المذاہب الاربعہ'' میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ضرورت اور اضطرار کے وقت جوتوں پر مسح کرنا واجب اور بغیر ضرورت کے جائز ہے اگرچہ پاؤں کا دھونا افضل ہے_

اس کے بعد '' حنابلہ'' سے نقل کیا گیا ہے کہ جوتوں پر مسح کرنا اُن کو باہر نکالنے اور پاؤںدھونے سے افضل ہے_ کیونکہ اس میں رخصت کا اخذ کرنا اور نعمت کا شکر بجا لانا ہے_ امام ابوحنیفہ کے بعض پیروکاروں نے بھی اس بات کی تائید کی ہے_(۱)

اس کے بعد اسی کتاب میں دعوی کیا گیا ہے کہ جوتوں پر مسح کرنا بہت سی روایات کے ذریعہ ثابت ہے جو تواتر کے قریب ہیں_(۲)

قابل توجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں جوتوں کے بارے میں مفصّل بحث کی گئی ہے کہ ایسے جوتوں کی شرائط کیا ہیں، مسح کی مقدار کیا ہے، مسح کی مدت کتنی ہے ( یعنی کتنے دن تک لگاتار جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے) جوتوں پر مسح کرنے کے مستحبّات ، مکروہات اور مُبطلات کیا ہیں_ اس طرح اگر ایک جوتے پر دوسرا جوتا پہنا ہو اس کا کیا حکم ہے، جوتے کی جنس کیا ہونی چاہیے کیا ضروری ہے کہ جوتا حتماً چمڑے کا ہو یا اگر چمڑے کے علاوہ کسی اور چیز سے بنایا گیا ہو تو کافی ہے_

اسی طرح شگاف دار جوتوں اور بے شگاف جوتوں کا کیا حکم ہے؟ الغرض اس کتاب میں بہتمفصّل گفتگو انہی جوتوں کے بارے میں کی گئی ہے_(۳)

____________________

۱) الفقہ علی المذاہب الاربعہ، جلد ۱ ، ص ۱۳۵_

۲) ایضاً، ص ۱۳۶_

۳) ایضاً، از ص ۱۳۵ تا ص ۱۴۷_

۱۷۲

۵: علماء اہلسنت کیوں جوتے پر مسح والی روایات کو ضرورت ، سفر اور جنگ کے موارد اور جہاں جوتوں کا اتارنا ممکن نہیں یا بہت ہی مشکل ہے، حمل نہیں کرتے یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب نہیں ہے اور صرف پہلے ہی سےقضاوت کرلینا اس سادہ سے مسئلہ میں شور و غل کا باعث بنا ہے _

میں نے خود جدّہ ائیر پورٹ پر مشاہدہ کیا کہ برادران اہلسنت میں سے ایک آدمی وضو کے لیے آیا اس نے وضو کے دوران اچھی طرح اپنے پاؤں کو دھویا_ اس کے بعد دوسرا شخص آیا اس نے ہاتھ ، منہ دھونے کے بعد جوتوں پر ہاتھ پھیر لیا اور نماز کے لیے چلا گیا میں حیرت میں ڈوب گیا اور سوچنے لگا کہ کیا ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) جیسے حکیم کی طرف سے ایسا حکم دیا گیا ہو جس کی توجیہ ممکن نہیں ہے_

ان سوالات کے بعد ضروری ہے کہ ہم اس مسئلہ کے اصلی مدارک کی تلاش میں جائیں_ اور روایات کے درمیان سے اس فتوی کے اصلی نکتہ اور اسی طرح ایک عقلی راہ حل کو تلاش کریں_

روایات چند اقسام پر مشتمل ہیں:

الف) جو روایات اہلبیتکے منابع میں نقل ہوئی ہیں وہ عام طور پر بلکہ بالاتفاق جوتے پر مسح کرنے سے منع کرتی ہیں_ مثال کے طور پر :

۱_ شیخ طوسی نے ابوالورد سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر _ کی خدمت میں عرض کیا کہ ابوظبیان نقل کرتا ہے کہ میں نے حضرت علی _ کو دیکھا کہ انہوں نے پانی پھینک دیا اور جوتوں پر مسح کرلیا_ آپ(ع) نے فرمایا ابوظبیان جھوٹ بولتا ہے_

۱۷۳

'' أما بلغکم قول عليّ (ع) فیکم : سبق الکتابُ الخُفّین؟ فقلتُ : هل فیهما رُخصةٌ؟ فقال إلا من عَدُوّ تقيّةً اُو ثُلج: تخاف علی رجلیک'' (۱)

کیا تم نے نہیں سُناہے کہ علی _ نے فرمایا ہے کتاب خدا ( سورة مائدہ کی آیت جو پاؤں کے مسح کا حکم دیتی ہے) جوتوں پر مسح کرنے والے حکم پر مقدم ہے میں نے عرض کی کیا جوتوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی رخصت ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ دشمن کے خوف سے تقيّہ کرنا مقصود ہو یا برف باری کی وجہ سے تمہارے پاؤں کو خطرہ ہو_

اس حدیث سے چند نکات کا استفادہ ہوتا ہے_

اولاً: حالانکہ اہلسنت کی روایات میں مشہور یہ ہے کہ حضر ت علی (ع) جوتے پر مسح کو جائز نہیں سمجھتے تھے_ پھر کس طرح ابوظبیان و غیرہ نے جرا ت کی ہے کہ آپ(ع) کی طرف جھوٹی نسبت دیں، کیا یہ کوئی سازش تھی؟ اس سوال کا جواب ہم بعد میں دیں گے_

ثانیاً: حضرت علی (ع) نے راستہ دکھایا ہے وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید ہر چیز پر مقدم ہے، کوئی چیز قرآن مجید پر مقدم نہیں ہوسکتی ہے_ اگر کوئی روایت ظاہری طور پر قرآن مجید کے خلاف ہو تو اس کی توجیہ و تفسیر کرنی چاہیے_

بالخصوص اگر کوئی روایت سورة مائدہ ( وہ سورة جس میں وضو کا حکم بیان ہوا ہے) کے خلاف ہو کہ اس کی کوئی بھی آیت نسخ نہیں ہوئی ہے_

____________________

۱)تہذیب الاحکام، جلد ۱، حدیث ۱۰۹۲_

۱۷۴

ثالثاً: امام محمد باقر _ نے بھی رہنمائی کی ہے کہ اگر جوتوں پر مسح کے بارے میں کوئی روایت وارد ہوئی ہو تو اسے ضرورت و اضطرار ، جیسے شدید سردی کہ جسکی وجہ سے پاؤں کو خطرہ ہو، پر حمل کیا جائیگا_

۲: مرحوم شیخ صدوق نے '' من لا یحضرہ الفقیہ'' میں ایک حدیث میں امیرالمؤمنین (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا :

'' إنّا اهلُ بیت: لا نمسح علی الخفّین فمن کان من شیعتنا فلیقتد بنا وليَستنَّ بُسنتنا'' (۱)

کہ ہم خاندان اہلبیت جوتے پر مسح نہیں کرتے ہیں پس جو بھی ہمارا پیروکار ہے ہماری اقتداکرے اور ہماری سنت کے مطابق عمل کرے_

۳: ایک حدیث میں امام جعفر صادق _ سے عجیب تعبیر نقل ہوئی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

'' مَن مَسح علی الخفّین فقد خالف الله و رؤسولَه و کتابَهُ و وضوئه لم یتمّ و صلاتُه غیرُ مُجزیة'' (۲)

جس نے جوتے پر مسح کیا، اس نے خدا، رسول(ص) اور قرآن مجید کی مخالفت کی، اس کا وضو درست نہیں ہے اور اس کی نماز کفایت کرنے والی نہیں _

حضرت علی _ سے جو روایت جوتوں پر مسح کی ممنوعيّت کے بارے میں نقل ہوئی ہے،

____________________

۱) من لا یحضرہ الفقیہ ، جلد ۴، ص ۴۱۵_

۲) وسائل الشیعہ ، جلد ۱، ص ۲۷۹_

۱۷۵

ہمیں جناب فخر رازی کی اُس بات کی یاد دلاتی ہے جو انہوں نے بسم اللہ کے جہر و اخفاء والے مسئلہ میں بیان کی ہے_ بسم اللہ کے بارے میں کچھ لوگ قائل تھے کہ اس کا آہستہ پڑھنا واجب ہے جبکہ حضرت علی _ بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا ضروری سمجھتے تھے تو اس پر جناب فخر رازی کہتے ہیں کہ:

'' من اتخذّ عليّا إماماً لدینه قد استمسک بالعروة الوثقی فی دینه و نفسه'' (۱)

جس نے دین میں حضرت علی (ع) کو اپنا پیشوا بنایا تو وہ اپنے دین اور نفس میں عروة وثقی (مضبوط سہارے) سے متمسک ہوگیا ہے _

لیکن اس کے باوجود ہم دیگر روایات کو بھی ذکر کر دیتے ہیں تا کہ کسی کو اعتراض نہ رہے

ب) جو روایات جوتوں پر مسح کرنے کی اجازت دیتی ہیں دو قسم کی ہیں:

قسم اول : وہ روایات ہیںجو مطلق طور پر اس مسح کی اجازت دیتی ہیں جیسے سعد بن ابی وقاص کی مرفوعہ حدیث جو انہوں نے رسولخدا(ص) سے جوتوں پر مسح کے بارے میں نقل کی ہے کہ''أنه لا یأس بالوضوء علی الخفّین'' (۲)

ایک دوسری حدیث میں کہ جو بیہقی کی نقل کے مطابق صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حذیفہ سے منقول ہے_ یوں آیا ہے کہ:

'' مشی رسول الله إلی سباطة قوم فبال قائماً ثم

____________________

۱)تفسیر کبیر فخر رازی جلد۱، ص ۲۰۷_

۲)السنن الکبری ، جلد ۱، ص ۲۶۹_

۱۷۶

دعا بمائ: فجئتُه بماء فتوضّأ و مسح علی خُفّیه'' (۱)

انتہائی معذرت اور شرمندگی کے ساتھ مجبوراً اس حدیث کا ترجمہ کر رہے ہیں ''رسولخدا(ص) ایک قوم کے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ گئے اور کھڑے ہوکر پیشاب کیا_ اس کے بعد پانی مانگا، میں ( حذیفہ) ان کے لیے پانی لیکر گیا_ آپ(ص) نے وضو کیا اور جوتوں پر مسح کیا''

ہمیں اطمینان ہے کہ یہ حدیث جعلی ہے اور بعض منافقین کی طرف سے رسولخدا(ص) کے تقدس کو داغدار کرنے کے لیے جعل کی گئی ہے_ اور اس کے بعد صحیح بخاری اور صحیح مسلم جیسی کتب میں ( مصنفین کی سادگی کی وجہ سے) شامل ہوگئی ہے_

جو شخص تھوڑی سی بھی شخصيّت کا مالک ہو، کیا اس قسم کا کام کرتا ہے کہ جس کے بہت سے نامطلوب لوازم ہوں؟ مقام افسوس ہے کہ صحاح ستّہ میں اس قسم کی روایات نقل کی گئی ہیں اور آج تک علماء ان روایات سے استدلال کرتے ہیں_

بہرحال ان روایات اور اس قسم کی دوسری روایات میں جوتوں پر مسح کو بغیر کسی قید و شرط کے ذکر کیا گیا ہے_

قسم دوم:

ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جوتوں پر مسح ( اگر جائز ہے) تو صرف ضرورت کےمقامات کے ساتھمخصوصہے_ جیسے مقدام بن شریح کی روایت جو انہوں نے حضرت عائشےہ سے نقل کی ہے_ وہ کہتا ہے میں نے حضرت عائشےہ سے جوتوں پر مسح کے بارے میں

____________________

۱) ایضاً ، ص ۲۷۰_

۱۷۷

سوال کیا ، انہوں نے کہا حضرت علی _ کے پاس جاؤ وہ سفر میں رسولخدا(ص) کے ہمراہ جاتے تھے میں انکی خدمت میں آیا اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا

''کنّا إذا سافرنا مع رسول الله (ص) یأمرنا بالمسح علی خفافنا'' (۱)

جب ہم رسولخدا(ص) کے ہمراہ سفر پر جاتے تھے تو آپ(ص) ہمیں جوتوں پر مسح کرنے کا دستور دیتے تھے''

اس تعبیر سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جوتوں پر مسح کرنے کا مسئلہ ضرورت کے موارد کے ساتھ مربوط تھا_ اس لیئے فرمایا ہے کہ رسولخدا(ص) سفر میں یوں دستور دیتے تھے_اور اس قسم کی دیگر روایات_

اہلسنت کے معروف منابع میں ذکر ہونے والی تمام روایات میں ( پہلے سے کی جانے والی قضاوت سے چشم پوشی کرتے ہوئے) غور فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ :

اولا: علم اصول کے مشہور قاعدہ ( قاعدہ جمع یعنی مطلق کو مقید کے ذریعے تقیید لگائی جائے) کے مطابق ان روایات کو جو بغیر قید و شرط کے جوتوں پر مسح کوجائز قرار دیتی ہیں، موارد ضرورت و اضطرار پر حمل کیا جائے جیسے سفر یا میدان جنگ میں یا اس قسم کے دیگرمقامات میں _ اور دلچسپ یہ ہے کہ سنن بیہقی میں ایک مفصّل باب جوتوں پر مسح کرنے کی مدت کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اور چند روایات کے ذریعے اس مدت کو سفر میں تین دن اور حضر وغیرہ میں ایک دن، بیان کیا گیا ہے_(۱)

____________________

۱) ایضاً ، ص ۲۷۲_

۲) السنن الکبری ، جلد ۱ ، ص ۲۷۵، ۲۷۶_

۱۷۸

کیا یہ ساری روایات ، اس حقیقت کیلئے روشن دلیل نہیں ہیں کہ جوتوں پر مسح کے بارے میں جو کچھ روایات میں بیان کیا گیا ہے وہ ضرورت اور اضطرار کے حالات کے ساتھ مخصوص ہے_ اور عام حالات میں جوتے نہ اتارنے اور پاؤں پر مسح نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے_

اور یہ جو بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ اجازت امت سے عُسر و حرج کو دور کرنے کیلئے ہے _ یہ بات قابل قبول نہیں ہے_ کیونکہ عام جوتوں کے اتارنے میں ذرہ بھر زحمت نہیں ہے_

ثانیاً: اہلبیت اور اہلسنت کے معروف منابع میں حضرت علی (ع) سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں کہ وہ فرماتے تھے یہ مسح سورہ مائدہ کی چھٹی آیت کے نزول سے پہلے تھا_اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر اجازت تھی بھی تو آیت کے نزول سے پہلے تھی_ آیت کے نزول کے بعد حتی جنگ اور سفر میں بھی جوتوں پر مسح جائز نہیں تھا_ کیونکہ جوتے نہ اتار سکنے کی صورت میں اصحاب تیمّم کرتے تھے، چونکہ تیمّم کا حکم بھی بطور کلی اس آیت کے ذیل میں آیا ہے_

ثالثاً: اگر بعض اصحاب نے پیغمبر اکرم(ص) کو حضر میں جوتوں پر مسح کرتے دیکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے جوتوں پر شگاف تھا جس میں سے پاؤں پر مسح کرنا ممکن تھا_

مشہور شیعہ محدّث مرحوم صدوق اپنی شہرہ آفاق کتاب '' من لا یحضرہ الفقیہ'' میں لکھتے ہیں کہ : نجاشی نے پیغمبر اکرم(ص) کو جوتے ہدیہ میں دیے تھے جنکے اوپر شگاف تھا، پیغمبر اکرم(ص) نے ایک مرتبہ جوتے پہنے ہوئے اپنے پاؤں پر مسح کیا، بعض ناظرین نے گمان کیا کہ آپ(ص) نے جوتوں پر مسح کیا ہے_(۱)

معروف محدث جناب بیہقی نے اپنی کتاب '' السنن الکبری '' میں ایک باب''باب الخفّ

____________________

۱) من لا یحضرہ الفقیہ، جلد ۱، ص ۴۸_

۱۷۹

الذی مسح علیه رسول الله(ص) '' ( وہ مخصوص جوتے جن پر رسولخدا(ص) نے مسح کیا) کے عنوان سے ذکر کیا ہے_ اس باب کی بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر مہاجرین اور انصار کے جوتے بھی اسی طرح اوپر سے کھلے تھے''و کانت کذلک خفاف المہاجرین و الأنصار مخرقة مشققة''(۱)

اس بناء پر قوی احتمال ہے کہ وہ اصحاب بھی اپنے پاؤں پر مسح کرتے ہوں_ اس بحث کے تعجّب آور مراحل میں سے ایک یہ ہے کہ جن راویوں نے جوتوں پر مسح والی روایات کو نقل کیا ہے انہیں کبھی کبھار رسولخدا(ص) کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا تھا_ لیکن حضرت علی (ع) کہ جو ہمیشہ آنحضرت(ص) کی خدمت میں موجود رہتے تھے; اہلسنت کی مشہور ورایات کے مطابق; اس مسح کے مخالف تھے_

اس سے زیادہ تعجب آور یہ ہے کہ حضرت عائشےہ کہ جو اکثر اوقات آنحضرت(ص) کے ہمراہ تھیں، فرماتی ہیں :

'' لئن تقطع قدمایی أحبّ إليّ من أن أمسح علی الخفّین'' (۱)

اگر میرے دونوں پاؤں کٹ جائیں یہ میرے لیئےس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اپنے جوتوں پر مسح کروں''

____________________

۱) السنن الکبری ، جلد ۱، ص ۲۸۳_

۲) مبسوط سرخسی ، جلد ۱، ص ۹۸_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232