شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 66657
ڈاؤنلوڈ: 2953

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66657 / ڈاؤنلوڈ: 2953
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

ہمیں تعجب تو آلوسی جیسے مشہور مفسّر کی بات پر ہے، وہ کہتے ہیں کہ پاؤں پر مسح کے بارے میں صرف ایک روایت ہے جو شیعوں کے لیے ثبوت بن گئی ہے(۱)

۱_عن عليّ ابن ابی طالب (ع) قال: کنتُ أری أن باطنَ القَدَمَین أحقّ بالمسح من ظاهر هما حتيّ رأیتُ رسولُ الله (ص) یمسح ظاهرَهُما:

'' امیرالمؤمنین علی _ فرماتے ہیں کہ میں خیال کرتا تھا کہ پاؤں کے تلولے ان کی پُشت کی نسبت مسح کرنے کے زیادہ سزاوار ہیں یہانتک کہ میں نے رسولخدا(ص) کو دیکھا کہ پاؤں کی پشت پر مسح کرتے ہیں''(۲)

۲_عن ابی مطر قال: بینما نحن جلوس مع علی _ فی المسجد، جاء رجلٌ إلی عليّ ّ _ و

قال: أرنی وضوء رسول الله (ص) فدعا قنبر فقال أتیتنی بکوز من مائ، فغسل یده و وجههه ثلاثاً فأدخَل بعض أصابعة فی فیه و استنشق ثلاثاً و غسل ذارعیه ثلاثاً و مسحَ رأسه واحدة ____ و رجلیه إلی الکعبین'' (۳)

____________________

۱) روح المعانی ، جلد ۶، ۸۷_

۲) مسند احمد جلد ۱ ص ۱۲۴_

۳) کنز العمال، جلد ۹، ص ۴۴۸_

۱۶۱

ابی مطر کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضرت علی (ع) کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور آپ(ع) کی خدمت میں عرض کرنے لگا کہ مجھے رسولخدا(ص) جیسا وضو کرکے دکھا یئےآپ(ع) نے قنبر کو آواز دی اور فرمایا کہ پانی کا ایک برتن لے آؤ، اس کے بعد آپ(ع) نے ہاتھ اور منہ کو تین مرتبہ دھویا _ انگلی کے ذریعے دانت صاف کیے اور تین مرتبہ استنشاق کیا ( ناک میں پانی ڈالا) اور پھر ( چہرے ) اور ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا اور ایک مرتبہ سر کا مسح اور ایک مرتبہ اُبھری ہوئی جگہ تک پاؤں کا مسح کیا''

اگرچہ دونوں حدیثیں امیرالمؤمنین علی _ کے توسط سے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہوئی ہیں لیکن دو مختلف واقعات کو حکایت کرتی ہیں _ اور ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ رسولخدا(ص) وضو کے دوران پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے_

۳: عن بسربن سعید قال: أتی عثمان المقاعد فدعا بوضوء فتمضض و استنشق ، ثم غسل وجهه ثلاثاً و یدیه ثلاثاً ثلاثاً ثم مسح برأسه و رجلیه ثلاثاً ثلاثاً ، ثم قال : رأیتُ رسول الله هکذا توضّأ، یا هؤلائ أکذلک ؟ قالوا: نعم لنفر من أصحاب رسول الله (ص) عنده:(۱)

بسر بن سعید نقل کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بیٹھک میں ( جہاں لوگ مل بیٹھتے ہیں) آئے اور وضو کے لیے پانی مانگا اور کلّی کی اور ناک میں پانی ڈالا، اس کے بعد

____________________

۱) مسند احمد، جلد ۱ ، ص ۶۷_

۱۶۲

چہرے کو تین مرتبہ دھویا اور دونوں ہاتھوں کو بھی تین تین مرتبہ دھویا اور سر اور پاؤں کا تین مرتبہ مسح کیا، اس کے بعد کہنے لگے میں نے پیغمبر اکرم(ص) کو دیکھا ہے کہ اس طرح وضو فرماتے تھے ( اس کے بعد حاضرین محفل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جواصحاب رسول تھے ) اے لوگو کیا اسی طرح ہے ؟ سب نے کہا جی ہاں''

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف حضرت عثمان بلکہ دیگر اصحاب بھی صراحت کے ساتھ گواہی دیتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) وضو کے وقت پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے ( اگرچہ اس روایت میں سر اور پاؤں کا مسح تین مرتبہ ذکر کیا گیا ہے _ممکن ہے بعض اصحاب کی نظر میں یہ مستحب ہو یا راوی کا اشتباہ ہو)

۴:عن رفاعة بن رافع أنه، سمع رسول الله (ص) یقول: أنّه لا تتمّ صلوة لأجد حتی یسبغ الوضوئ، کما أمره الله عز وجلّ یغسل وجهه و یدیه إلی المرفقین و یمسح برأسه و رجلیه إلی الکعبین;

رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے رسولخدا(ص) سے سُنا فرما رہے تھے تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک اس طرح وضو نہ کرے جسطرح اللہ تعالی نے حکم دیا ہے: کہ چہرے کو اور ہاتھوں کوکہنیوں تک دھوئے اور سرکا اور پاؤں کا اُبھری ہوئی جگہ تک مسح کرے ''(۱)

____________________

۱) سنن ابن ماجہ ، جلد ۱ ، ص ۱۵۶_

۱۶۳

۵:عن ابی مالک الاشعری أنّه قال لقومه : اجتمعوا اصلّی بکم صلوة رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم فلمّا اجتمعوا قال : هل فیکم أحد من غیرکم؟ قالوا لا الّا ابن أخت لنا، قال : ابن أخت القوم منهم ، فدعا بجفنة فیها ماء فتوضّا و مضمض و استنشق و غسل وجهه ثلاثاً و ذراعیه ثلاثا ثلاثاً و مسح برأسه و ظهر قدمیه ثم صلّی بهم ،(۱)

ابومالک اشعری سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ جمع ہو جاؤ تا کہ میں تمہارے سامنے رسولخدا(ص) جیسی نماز پڑھوں_ جب سب جمع ہوگئے تو انہوں نے پوچھا تمہارے درمیان کوئی غیر تو نہیں ہے؟ سب نے کہا نہیں صرف ایک ہمارا بھانجا ہے ( کہ ہماری اس بہن کی شادی دوسرے قبیلے میں ہوئی تھی) کہنے لگے ، کوئی بات نہیں _بھانجا بھی قبیلہ کا فرد ہوتا ہے ( اس عبادت سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور کی حکومت کی طرف سے _ بعض سیاسی مسائل کی وجہ سے _ رسولخدا(ص) کی نماز یا وضو کی وضاحت کرنا ممنوع تھا) اس کے بعد انہوں نے پانی کا برتن مانگا اور اس طرح

وضو کیا_ کلّی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے کو تین مرتبہ دھویا اسی طرح ہاتھوں اور بازوؤں کو تین مرتبہ دھویا اس کے بعدسرکا اور پاؤں کی پشت کا مسح کیا اس کے بعد اپنے قبیلہ کے ساتھ نماز پڑھی''_

____________________

۱) مسند احمد، جلد ۵ ، ص ۳۴۲_

۱۶۴

مندرجہ بالا نقل ہونے والی روایات، اُن روایات کا مختصر سا حصہ ہیں جو اہلسنت کی معروف کتب میں مشہور راویوں کے توسط سے نقل ہوئی ہیں_ لہذا جو لوگ کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی روایت نقل نہیں ہوئی یا صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے وہ ناآگاہ اور متعصّب قسم کے لوگ ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ شاید حقائق سے چشم پوشی کرنے یا ان کا انکار کرنے کی وجہ سے انہیں ختم کیا جاسکتا ہے_

یہ وہی لوگ ہیں جو سورہ مائدہ کی آیت کے مسح کے وجوب پر دلالت کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حتی کہ کہتے ہیں کہ یہ آیت صراحت کے ساتھ پاؤں دھونے پر دلالت کرتی ہے جس کی وضاحت سابقہ صفحات پر گذر چکی ہے_

مخالف روایات:

ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے ہیں کہ سابقہ روایات کے مقابلے میں دو قسم کی دوسری روایات بھی اہلسنت کی معروف کتب میں نقل ہوئی ہیں_

ان میں سے ایک گروہ وہ روایات ہیں جو کہتی ہیں کہ رسولخدا(ص) وضو کے وقت پاؤں دھوتے تھے_ اور دوسرا گروہ ان روایات کا ہے جو کہتی ہیں کہ آپ(ص) وضو کے وقت نہ پاؤں کو دھوتے تھے اور نہ مسح کرتے تھے بلکہ جوتوں پر مسح کرتے تھے

ایسے وقت میں ہمیں علم اصول کے مسلّم قاعدہ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ایک مسئلہ کے بارے میں روایات کے دو گروہ آپس میں متضاد اور متعارض ہوں تو سب سے پہلے دلالت کے لحاظ سے جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یعنی ان روایات کی اس طرح تفسیر کرنی چاہیے کہ تضاد ختم ہوجائے اور روایات آپس میں جمع ہوجائیں ( البتہ یہ تفسیر اور جمع ،عرفی فہم

۱۶۵

کے معیاروں کے مطابق ہونی چاہیے)_

اور اگر یہ جمع دلالی ممکن نہ ہو تو پھر روایات کی قرآن مجید کے ساتھ تطبیق کرنا چاہیے_ یعنی دیکھنا چاہیے کہ کونسی روایت قرآن مجید کے مطابق ہے اسے اخذ کرنا چاہیے اور دوسری روایت کو ترک کرنا چاہیے_ یہ ایسا قانون ہے جو معتبر ادلّہ کے ذریعے ثابت ہے_

اب اس قاعدہ کے مطابق ان دو قسم کی( مسح اور دھونے والی ) روایات کے درمیان جمع یوں کیا جاسکتا ہے کہ رسولخدا(ص) وضو کے دوران مسح والے حکم پر عمل کرتے تھے اور بعد میں نظافت کے لیے کبھی پاؤں کودھولیا کرتے تھے اور یہ دھونا وضوکا حصّہ نہیں تھا_ بعض راوی جو اس منظر کا مشاہدہ کر رہے ہوتے تھے خیال کرتے کہ یہ پاؤں دھونا، وضو کا جزء ہے_

اتفاق سے شیعوں میں بھی بہت سے افراد اکثر یہی کام کرتے ہیں یعنی وضو میں مسح والے فریضےپر عمل کرنے کے بعد صفائی کی خاطر اپنے دونوں پاؤں کو اچھی طرح دھولیتے ہیں_

اور اس زمانے میں اس کام کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی تھی کیونکہ گرمی کی وجہ سے کھلے جوتے پہنے جاتے تھے نہ کہ بند جوتے، اور کھلے جوتے میں پاؤں جلدی آلودہ ہوتے ہیں_

بہرحال پاؤں کا مسح ایک واجبی فریضہ تھا جو عام طور پر دھوئے جانے والے پاؤں سے جُدا تھا_

یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ بعض فقہاء کو نص ّ کے مقابلہ میں اجتہاد نے اُکسایا ہوکہ مسح کے مقابلے میں پاؤں دھونے کا فتوی دیں کیونکہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ پاؤں کی آلودگی صرف دھونے سے ہی دور ہوسکتی ہے_ اس لیے انہوں نے سورہ مائدہ کے ظہور کو ترک کردیا جو واضح طور پر مسح کا حکم دیتا ہے جیسا کہ علمائے اہلسنت کے بعض کلمات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہتر یہ ہے کہ آلودگی کو دور کرنے کیلئے پاؤں کو دھولیا جائے اور مسح کافی نہیں ہے_

۱۶۶

سہل اور آسان شریعت:

یقیناً اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو روئے زمین کے تمام علاقوں اور تمام زمانوں کے لیئے ہے_ اس کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر آسان اور سہل شریعت ہے _ ذرا سوچئے دن رات میں پانچ مرتبہ پاؤں کو دھونا، دنیا کے مختلف علاقوں میں کتنی مشکلات ایجاد کریگا_ اس سختی کی وجہ سے ممکن ہے بعض لوگ وضو اور نماز سے بیزار ہوجائیں_

اور یہ نص ّ کے مقابلے میں اجتہاد اور مسح کی روایات کو چھوڑنے کا نتیجہ ہے_

یہ احتمال بھی منتفی نہیں ہے کہ پاؤں دھونے کی بعض احادیث (نہ ساری احادیث ) بنواميّہ کے دور میں کہ جب احادیث گھڑنے کا بازار گرم تھا اور معاویہ جعلی احادیث گھڑنے کے لیے بہت سی رقم خرچ کرتا تھا، جعل کی گئی ہوں_ کیونکہ سب لوگ جانتے تھے کہ حضرت علی (ع) ، وضو میں پاؤں کے مسح کے قائل ہیں اور معاویہ کا اصرار تھا کہ ہرچیزمیں علی (ع) کی مخالفت کی جائے اور برعکس عمل کیا جائے_ مندرجہ ذیل دو احادیث پر غور کیجئے_

۱_ صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے کہ معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو حکم دیا کہ امیرالمومنین علی (ع) پر سب و شتم کرے اور لعنت کرے( کیونکہ سعد بن ابی وقاص سختی کے ساتھ اس کام سے پرہیز کرتے تھے) سعد نے کہا میں نے رسولخدا(ص) کی زبان سے تین فضیلتیں علی (ع) کے بارے میں ایسی سنی ہیں جنہیں میں کبھی نہیں بُھلا سکتا ہوں ، اے کاش اُن میں سے ایک فضیلت میرے لیے بھی ہوتی تو میں اسے عظیم ثروت پر ترجیح دیتا_ اس کے بعد انہوں نے جنگ تبوک کا واقعہ اور ''اما ترضی أن تکون لی بمنزلة هارون من موسی '' کا جملہ نقل کیا_ اسی طرح جنگ خیبر کاواقعہ اور حضرت علی (ع) کی شان میں رسولخدا(ص) کا مشہور جملہ جو آپ(ص) نے حضرت علی (ع) کے بارے

۱۶۷

میں فرمایا تھااور واقعہ مباہلہ کونقل کیا_(۱)

اس حدیث سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ معاویہ ، امیرالمؤمنین علی _ کی مخالفت پر کتنا اصرار کرتا تھا_

۲: بہت سی روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں دو گروہوں نے جعل حدیث کا سلسلہ شروع کیا تھا_

ایک گروہ_ بظاہر صالح اور زاہد ( مگر سادہ لوح) افراد پر مشتمل تھا جو قصد قربت کے ساتھ احادیث گھڑتا تھا_ ان میں سے بعض ایسے دیندار لوگ تھے جو لوگوں میں تلاوت قرآن کی رغبت ایجاد کرنے کے لیے اس کی سورتوں کے فضائل کے بارے میں عجیب و غریب احادیث بناتے تھے اور پیغمبر اکرم(ص) کی طرف نسبت دیتے تھے اور مقام افسوس یہ ہے کہ ان کی تعداد بھی کم نہیں تھی

اہلسنت کے معروف عالم جناب قرطبی اپنی کتاب تذکار کے ( ص ۱۵۵) پر لکھتے ہیں: کہ ان احادیث کا کوئی اعتبار نہیں جنہیں جھوٹی احادیث گھڑنے والوں نے قرآن مجید کی سورتوں کے فضائل کے بارے میں جعل کیا ہے_ کیونکہ یہ کام ایک بڑی جماعت نے قرآن کی سورتوں کے فضائل میں بلکہ تمام اعمال کے بارے میں انجام دیا ہے انہوں نے قصد قربت کے ساتھ احادیث گھڑی ہیں _وہ خیال کرتے تھے کہ اس انداز میں لوگوں کو نیک اعمال کی طرف دعوت دیتے ہیں ( وہ لوگ جھوٹ کو جو کہ ایک بدترین گناہ ہے زہد و فقاہت کے ساتھ بالکل مُنافی نہیں سمجھتے تھے)

____________________

۱) صحیح مسلم ، جلد ۷، ص ۱۲۰_

۱۶۸

یہی دانشمند ( قرطبی) اپنی کتاب کے بعد والے صفحہ پر خود '' حاکم'' سے اور بعض شیوخ محدّثین سے نقل کرتے ہیں کہ ایک زاہد نے اپنی طرف سے قربة الی اللہ قرآن مجید اور اس کی سورتوں کے فضائل کے بارے میں احادیث جعل کیں جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ کام تم نے کیوں کیا ہے؟ تو کہنے لگے میں نے دیکھا ہے کہ لوگ قرآن مجید کی طرف کم توجہ کرتے ہیں انہیں رغبت دلانے کے لیئے میں نے یہ کام کیا ہے_ اور جب ان کو کہا گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے خود فرمایا ہے کہ ''من کذّب عليّ فلیتبوء مقعده من النّار '' جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے_ تو جواب میں کہنے لگے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے کہ '' من کذب عليّ ...'' جس نے میرے خلاف جھوٹ بولا_ اور میں نے تو آپ(ص) کے فائدے میں جھوٹ بولا ہے

اس قسم کی احادیث نقل کرنے میں قرطبی تنہا نہیں ہیں بلکہ اہلسنت کے بعض دیگر علماء نے بھی انہیں نقل کیا ہے ( مزید وضاحت کے لیے کتاب '' الغدیر'' کی پانچویں جلد میں ''کذّابین اور وضّاعین'' کی بحث کیطرف رجوع کیجئے) _

دوسرا گروہ: ان لوگوں کا تھا جو بھاری رقم لے کر معاویہ اور بنو امیہ کے حق اور امیرالمؤمنین(ع) کی مذمت میں احادیث گھڑتے تھے_ ان میں سے ایک سمرة ابن جندب تھا جس نے چار لاکھ درہم معاویہ سے لیے اور یہ حدیث امیرالمؤمنین (ع) کی مذمت اور انکے قاتل کی شان میں گھڑی اور کہا کہ یہ آیت شریفہ''( و من الناس من یشری نفسه ، ابتغاء مرضات الله ) ''(۱) علی (ع) کے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے_

____________________

۱) سورہ بقرة آیت ۲۰۷_

۱۶۹

اور یہ آیت ''و من الناس من يُعجبک قوله فی الحیاة الدنیا ...''(۱) علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے_(۲)

نعوذ بالله من هذه الاکاذیب_

اس بناء پر تعجب نہیں ہے کہ علی _ کی مخالفت میں کچھ روایات وضو میں پاؤں دھونے کے لیئے جعل کردی گئی ہوں_

جوتوں پر مسح، عقل و شرع کے ترازو میں :

جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ جو لوگ پاؤں پر مسح کے مسئلہ کی شدّت کے ساتھ نفی کرتے ہیں اور پاؤں دھونے کو واجب سمجھتے ہیں_ وہی لوگ اجازت دیتے ہیں کہ وضو میں جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے اور دلیل کے طورپر پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہونے والی بعض روایات کو پیش کرتے ہیں حالانکہ اہلبیت کے توسط سے نقل ہونے والی احادیث عموماً اس بات کی نفی کرتی ہیں اور خود اہلسنت کے واسطہ سے نقل ہونے والی متعدد معتبر احادیث صریحاً اس کے خلاف ہیں_

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ احادیث اہل بیت (ع)کی پیروی کرتے ہوئے شیعہ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جوتوں پر مسح کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے_ لیکن بہت سے اہلسنت فقہاء نے اس کام کو سفر اور حضر میں بطور مطلق جائز قرار دیا ہے اگرچہ بعض علماء نے اسےضرورت کے مقامات میں منحصر کیا ہے_

____________________

۱) سورة بقرة آیة ۲۰۴_

۲)ابن ابی الحدید معتزلی طبق نقل منتهی المقال شرح حال ''سمرة '' _

۱۷۰

یہاں پر چند سوالات سامنے آتے ہیں ، من جملہ:

۱_ پاؤں پر مسح کرنا تو جائز نہیںتھا کسی طرح جوتوں پر مسح کرنا جائز ہوگیا ہے حالانکہ جب پاؤں دھونے کی بات آتی تھی تو دلیل یہی تھی کہ پاؤں چونکہ آلودہ ہوتے ہیں اس لیے انہیں دھونا بہتر اور مسح کرنا کافی نہیں ہے_

کیا آلودہ جوتوں پر مسح کر لینا پاؤں دھونے کا قائم مقام بن سکتا ہے_

جبکہ بہت سے علماء اہلسنت اس بات کے قائل ہیں کہ پاؤں دھونے اور جوتوں پر مسح کرنے میں اختیار ہے_

۲: کیوں علماء نے قرآن مجید کے ظہور کو ترک کردیا ہے جس میں سر اور پاؤں کے مسح کا حکم تھا اور جوتوں پر مسح کو ترجیح دی ہے؟

۳: کیوں علمائے اہلسنت، روایات اہلبیت(ع) سے چشم پوشی کرتے ہیں جس میں بالاتفاق جوتوں پر مسح کرنے سے منع کیا گیا ہے _ اور پیغمبر اکرم(ص) نے اہلبیت (ع) کو ہی قرآن مجید کے ساتھ باعث نجات شمار کیا ہے؟

۴: درست ہے (برادران کی کتب میں )بعض روایات نقل ہوئی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جوتوں پر مسح کیا ہے لیکن اس کے مقابلے میں دیگر معتبر ورایات بھی موجود ہیں جن میں ذکر کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے_ روایات کے تعارض اور تضاد کے وقت کیوں علمائے اہلسنت قرآن مجید کی طرف رجوع نہیں کرتے اور روایات کے اختلاف کے حل کیلئے اسے حاکم قرار دیتے ہوئے اسے اپنا مرجع قرار نہیں دیتے ہیں_

اس مسئلہ میں ہم جتنا زیادہ غور و فکر کرتے ہیں ہمارے تعجب میں اضافہ ہوتا ہے_

۱۷۱

کتاب '' الفقہ علی المذاہب الاربعہ'' میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ضرورت اور اضطرار کے وقت جوتوں پر مسح کرنا واجب اور بغیر ضرورت کے جائز ہے اگرچہ پاؤں کا دھونا افضل ہے_

اس کے بعد '' حنابلہ'' سے نقل کیا گیا ہے کہ جوتوں پر مسح کرنا اُن کو باہر نکالنے اور پاؤںدھونے سے افضل ہے_ کیونکہ اس میں رخصت کا اخذ کرنا اور نعمت کا شکر بجا لانا ہے_ امام ابوحنیفہ کے بعض پیروکاروں نے بھی اس بات کی تائید کی ہے_(۱)

اس کے بعد اسی کتاب میں دعوی کیا گیا ہے کہ جوتوں پر مسح کرنا بہت سی روایات کے ذریعہ ثابت ہے جو تواتر کے قریب ہیں_(۲)

قابل توجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں جوتوں کے بارے میں مفصّل بحث کی گئی ہے کہ ایسے جوتوں کی شرائط کیا ہیں، مسح کی مقدار کیا ہے، مسح کی مدت کتنی ہے ( یعنی کتنے دن تک لگاتار جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے) جوتوں پر مسح کرنے کے مستحبّات ، مکروہات اور مُبطلات کیا ہیں_ اس طرح اگر ایک جوتے پر دوسرا جوتا پہنا ہو اس کا کیا حکم ہے، جوتے کی جنس کیا ہونی چاہیے کیا ضروری ہے کہ جوتا حتماً چمڑے کا ہو یا اگر چمڑے کے علاوہ کسی اور چیز سے بنایا گیا ہو تو کافی ہے_

اسی طرح شگاف دار جوتوں اور بے شگاف جوتوں کا کیا حکم ہے؟ الغرض اس کتاب میں بہتمفصّل گفتگو انہی جوتوں کے بارے میں کی گئی ہے_(۳)

____________________

۱) الفقہ علی المذاہب الاربعہ، جلد ۱ ، ص ۱۳۵_

۲) ایضاً، ص ۱۳۶_

۳) ایضاً، از ص ۱۳۵ تا ص ۱۴۷_

۱۷۲

۵: علماء اہلسنت کیوں جوتے پر مسح والی روایات کو ضرورت ، سفر اور جنگ کے موارد اور جہاں جوتوں کا اتارنا ممکن نہیں یا بہت ہی مشکل ہے، حمل نہیں کرتے یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب نہیں ہے اور صرف پہلے ہی سےقضاوت کرلینا اس سادہ سے مسئلہ میں شور و غل کا باعث بنا ہے _

میں نے خود جدّہ ائیر پورٹ پر مشاہدہ کیا کہ برادران اہلسنت میں سے ایک آدمی وضو کے لیے آیا اس نے وضو کے دوران اچھی طرح اپنے پاؤں کو دھویا_ اس کے بعد دوسرا شخص آیا اس نے ہاتھ ، منہ دھونے کے بعد جوتوں پر ہاتھ پھیر لیا اور نماز کے لیے چلا گیا میں حیرت میں ڈوب گیا اور سوچنے لگا کہ کیا ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) جیسے حکیم کی طرف سے ایسا حکم دیا گیا ہو جس کی توجیہ ممکن نہیں ہے_

ان سوالات کے بعد ضروری ہے کہ ہم اس مسئلہ کے اصلی مدارک کی تلاش میں جائیں_ اور روایات کے درمیان سے اس فتوی کے اصلی نکتہ اور اسی طرح ایک عقلی راہ حل کو تلاش کریں_

روایات چند اقسام پر مشتمل ہیں:

الف) جو روایات اہلبیتکے منابع میں نقل ہوئی ہیں وہ عام طور پر بلکہ بالاتفاق جوتے پر مسح کرنے سے منع کرتی ہیں_ مثال کے طور پر :

۱_ شیخ طوسی نے ابوالورد سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر _ کی خدمت میں عرض کیا کہ ابوظبیان نقل کرتا ہے کہ میں نے حضرت علی _ کو دیکھا کہ انہوں نے پانی پھینک دیا اور جوتوں پر مسح کرلیا_ آپ(ع) نے فرمایا ابوظبیان جھوٹ بولتا ہے_

۱۷۳

'' أما بلغکم قول عليّ (ع) فیکم : سبق الکتابُ الخُفّین؟ فقلتُ : هل فیهما رُخصةٌ؟ فقال إلا من عَدُوّ تقيّةً اُو ثُلج: تخاف علی رجلیک'' (۱)

کیا تم نے نہیں سُناہے کہ علی _ نے فرمایا ہے کتاب خدا ( سورة مائدہ کی آیت جو پاؤں کے مسح کا حکم دیتی ہے) جوتوں پر مسح کرنے والے حکم پر مقدم ہے میں نے عرض کی کیا جوتوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی رخصت ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ دشمن کے خوف سے تقيّہ کرنا مقصود ہو یا برف باری کی وجہ سے تمہارے پاؤں کو خطرہ ہو_

اس حدیث سے چند نکات کا استفادہ ہوتا ہے_

اولاً: حالانکہ اہلسنت کی روایات میں مشہور یہ ہے کہ حضر ت علی (ع) جوتے پر مسح کو جائز نہیں سمجھتے تھے_ پھر کس طرح ابوظبیان و غیرہ نے جرا ت کی ہے کہ آپ(ع) کی طرف جھوٹی نسبت دیں، کیا یہ کوئی سازش تھی؟ اس سوال کا جواب ہم بعد میں دیں گے_

ثانیاً: حضرت علی (ع) نے راستہ دکھایا ہے وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید ہر چیز پر مقدم ہے، کوئی چیز قرآن مجید پر مقدم نہیں ہوسکتی ہے_ اگر کوئی روایت ظاہری طور پر قرآن مجید کے خلاف ہو تو اس کی توجیہ و تفسیر کرنی چاہیے_

بالخصوص اگر کوئی روایت سورة مائدہ ( وہ سورة جس میں وضو کا حکم بیان ہوا ہے) کے خلاف ہو کہ اس کی کوئی بھی آیت نسخ نہیں ہوئی ہے_

____________________

۱)تہذیب الاحکام، جلد ۱، حدیث ۱۰۹۲_

۱۷۴

ثالثاً: امام محمد باقر _ نے بھی رہنمائی کی ہے کہ اگر جوتوں پر مسح کے بارے میں کوئی روایت وارد ہوئی ہو تو اسے ضرورت و اضطرار ، جیسے شدید سردی کہ جسکی وجہ سے پاؤں کو خطرہ ہو، پر حمل کیا جائیگا_

۲: مرحوم شیخ صدوق نے '' من لا یحضرہ الفقیہ'' میں ایک حدیث میں امیرالمؤمنین (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا :

'' إنّا اهلُ بیت: لا نمسح علی الخفّین فمن کان من شیعتنا فلیقتد بنا وليَستنَّ بُسنتنا'' (۱)

کہ ہم خاندان اہلبیت جوتے پر مسح نہیں کرتے ہیں پس جو بھی ہمارا پیروکار ہے ہماری اقتداکرے اور ہماری سنت کے مطابق عمل کرے_

۳: ایک حدیث میں امام جعفر صادق _ سے عجیب تعبیر نقل ہوئی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

'' مَن مَسح علی الخفّین فقد خالف الله و رؤسولَه و کتابَهُ و وضوئه لم یتمّ و صلاتُه غیرُ مُجزیة'' (۲)

جس نے جوتے پر مسح کیا، اس نے خدا، رسول(ص) اور قرآن مجید کی مخالفت کی، اس کا وضو درست نہیں ہے اور اس کی نماز کفایت کرنے والی نہیں _

حضرت علی _ سے جو روایت جوتوں پر مسح کی ممنوعيّت کے بارے میں نقل ہوئی ہے،

____________________

۱) من لا یحضرہ الفقیہ ، جلد ۴، ص ۴۱۵_

۲) وسائل الشیعہ ، جلد ۱، ص ۲۷۹_

۱۷۵

ہمیں جناب فخر رازی کی اُس بات کی یاد دلاتی ہے جو انہوں نے بسم اللہ کے جہر و اخفاء والے مسئلہ میں بیان کی ہے_ بسم اللہ کے بارے میں کچھ لوگ قائل تھے کہ اس کا آہستہ پڑھنا واجب ہے جبکہ حضرت علی _ بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا ضروری سمجھتے تھے تو اس پر جناب فخر رازی کہتے ہیں کہ:

'' من اتخذّ عليّا إماماً لدینه قد استمسک بالعروة الوثقی فی دینه و نفسه'' (۱)

جس نے دین میں حضرت علی (ع) کو اپنا پیشوا بنایا تو وہ اپنے دین اور نفس میں عروة وثقی (مضبوط سہارے) سے متمسک ہوگیا ہے _

لیکن اس کے باوجود ہم دیگر روایات کو بھی ذکر کر دیتے ہیں تا کہ کسی کو اعتراض نہ رہے

ب) جو روایات جوتوں پر مسح کرنے کی اجازت دیتی ہیں دو قسم کی ہیں:

قسم اول : وہ روایات ہیںجو مطلق طور پر اس مسح کی اجازت دیتی ہیں جیسے سعد بن ابی وقاص کی مرفوعہ حدیث جو انہوں نے رسولخدا(ص) سے جوتوں پر مسح کے بارے میں نقل کی ہے کہ''أنه لا یأس بالوضوء علی الخفّین'' (۲)

ایک دوسری حدیث میں کہ جو بیہقی کی نقل کے مطابق صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حذیفہ سے منقول ہے_ یوں آیا ہے کہ:

'' مشی رسول الله إلی سباطة قوم فبال قائماً ثم

____________________

۱)تفسیر کبیر فخر رازی جلد۱، ص ۲۰۷_

۲)السنن الکبری ، جلد ۱، ص ۲۶۹_

۱۷۶

دعا بمائ: فجئتُه بماء فتوضّأ و مسح علی خُفّیه'' (۱)

انتہائی معذرت اور شرمندگی کے ساتھ مجبوراً اس حدیث کا ترجمہ کر رہے ہیں ''رسولخدا(ص) ایک قوم کے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ گئے اور کھڑے ہوکر پیشاب کیا_ اس کے بعد پانی مانگا، میں ( حذیفہ) ان کے لیے پانی لیکر گیا_ آپ(ص) نے وضو کیا اور جوتوں پر مسح کیا''

ہمیں اطمینان ہے کہ یہ حدیث جعلی ہے اور بعض منافقین کی طرف سے رسولخدا(ص) کے تقدس کو داغدار کرنے کے لیے جعل کی گئی ہے_ اور اس کے بعد صحیح بخاری اور صحیح مسلم جیسی کتب میں ( مصنفین کی سادگی کی وجہ سے) شامل ہوگئی ہے_

جو شخص تھوڑی سی بھی شخصيّت کا مالک ہو، کیا اس قسم کا کام کرتا ہے کہ جس کے بہت سے نامطلوب لوازم ہوں؟ مقام افسوس ہے کہ صحاح ستّہ میں اس قسم کی روایات نقل کی گئی ہیں اور آج تک علماء ان روایات سے استدلال کرتے ہیں_

بہرحال ان روایات اور اس قسم کی دوسری روایات میں جوتوں پر مسح کو بغیر کسی قید و شرط کے ذکر کیا گیا ہے_

قسم دوم:

ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جوتوں پر مسح ( اگر جائز ہے) تو صرف ضرورت کےمقامات کے ساتھمخصوصہے_ جیسے مقدام بن شریح کی روایت جو انہوں نے حضرت عائشےہ سے نقل کی ہے_ وہ کہتا ہے میں نے حضرت عائشےہ سے جوتوں پر مسح کے بارے میں

____________________

۱) ایضاً ، ص ۲۷۰_

۱۷۷

سوال کیا ، انہوں نے کہا حضرت علی _ کے پاس جاؤ وہ سفر میں رسولخدا(ص) کے ہمراہ جاتے تھے میں انکی خدمت میں آیا اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا

''کنّا إذا سافرنا مع رسول الله (ص) یأمرنا بالمسح علی خفافنا'' (۱)

جب ہم رسولخدا(ص) کے ہمراہ سفر پر جاتے تھے تو آپ(ص) ہمیں جوتوں پر مسح کرنے کا دستور دیتے تھے''

اس تعبیر سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جوتوں پر مسح کرنے کا مسئلہ ضرورت کے موارد کے ساتھ مربوط تھا_ اس لیئے فرمایا ہے کہ رسولخدا(ص) سفر میں یوں دستور دیتے تھے_اور اس قسم کی دیگر روایات_

اہلسنت کے معروف منابع میں ذکر ہونے والی تمام روایات میں ( پہلے سے کی جانے والی قضاوت سے چشم پوشی کرتے ہوئے) غور فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ :

اولا: علم اصول کے مشہور قاعدہ ( قاعدہ جمع یعنی مطلق کو مقید کے ذریعے تقیید لگائی جائے) کے مطابق ان روایات کو جو بغیر قید و شرط کے جوتوں پر مسح کوجائز قرار دیتی ہیں، موارد ضرورت و اضطرار پر حمل کیا جائے جیسے سفر یا میدان جنگ میں یا اس قسم کے دیگرمقامات میں _ اور دلچسپ یہ ہے کہ سنن بیہقی میں ایک مفصّل باب جوتوں پر مسح کرنے کی مدت کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اور چند روایات کے ذریعے اس مدت کو سفر میں تین دن اور حضر وغیرہ میں ایک دن، بیان کیا گیا ہے_(۱)

____________________

۱) ایضاً ، ص ۲۷۲_

۲) السنن الکبری ، جلد ۱ ، ص ۲۷۵، ۲۷۶_

۱۷۸

کیا یہ ساری روایات ، اس حقیقت کیلئے روشن دلیل نہیں ہیں کہ جوتوں پر مسح کے بارے میں جو کچھ روایات میں بیان کیا گیا ہے وہ ضرورت اور اضطرار کے حالات کے ساتھ مخصوص ہے_ اور عام حالات میں جوتے نہ اتارنے اور پاؤں پر مسح نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے_

اور یہ جو بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ اجازت امت سے عُسر و حرج کو دور کرنے کیلئے ہے _ یہ بات قابل قبول نہیں ہے_ کیونکہ عام جوتوں کے اتارنے میں ذرہ بھر زحمت نہیں ہے_

ثانیاً: اہلبیت اور اہلسنت کے معروف منابع میں حضرت علی (ع) سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں کہ وہ فرماتے تھے یہ مسح سورہ مائدہ کی چھٹی آیت کے نزول سے پہلے تھا_اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر اجازت تھی بھی تو آیت کے نزول سے پہلے تھی_ آیت کے نزول کے بعد حتی جنگ اور سفر میں بھی جوتوں پر مسح جائز نہیں تھا_ کیونکہ جوتے نہ اتار سکنے کی صورت میں اصحاب تیمّم کرتے تھے، چونکہ تیمّم کا حکم بھی بطور کلی اس آیت کے ذیل میں آیا ہے_

ثالثاً: اگر بعض اصحاب نے پیغمبر اکرم(ص) کو حضر میں جوتوں پر مسح کرتے دیکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے جوتوں پر شگاف تھا جس میں سے پاؤں پر مسح کرنا ممکن تھا_

مشہور شیعہ محدّث مرحوم صدوق اپنی شہرہ آفاق کتاب '' من لا یحضرہ الفقیہ'' میں لکھتے ہیں کہ : نجاشی نے پیغمبر اکرم(ص) کو جوتے ہدیہ میں دیے تھے جنکے اوپر شگاف تھا، پیغمبر اکرم(ص) نے ایک مرتبہ جوتے پہنے ہوئے اپنے پاؤں پر مسح کیا، بعض ناظرین نے گمان کیا کہ آپ(ص) نے جوتوں پر مسح کیا ہے_(۱)

معروف محدث جناب بیہقی نے اپنی کتاب '' السنن الکبری '' میں ایک باب''باب الخفّ

____________________

۱) من لا یحضرہ الفقیہ، جلد ۱، ص ۴۸_

۱۷۹

الذی مسح علیه رسول الله(ص) '' ( وہ مخصوص جوتے جن پر رسولخدا(ص) نے مسح کیا) کے عنوان سے ذکر کیا ہے_ اس باب کی بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر مہاجرین اور انصار کے جوتے بھی اسی طرح اوپر سے کھلے تھے''و کانت کذلک خفاف المہاجرین و الأنصار مخرقة مشققة''(۱)

اس بناء پر قوی احتمال ہے کہ وہ اصحاب بھی اپنے پاؤں پر مسح کرتے ہوں_ اس بحث کے تعجّب آور مراحل میں سے ایک یہ ہے کہ جن راویوں نے جوتوں پر مسح والی روایات کو نقل کیا ہے انہیں کبھی کبھار رسولخدا(ص) کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا تھا_ لیکن حضرت علی (ع) کہ جو ہمیشہ آنحضرت(ص) کی خدمت میں موجود رہتے تھے; اہلسنت کی مشہور ورایات کے مطابق; اس مسح کے مخالف تھے_

اس سے زیادہ تعجب آور یہ ہے کہ حضرت عائشےہ کہ جو اکثر اوقات آنحضرت(ص) کے ہمراہ تھیں، فرماتی ہیں :

'' لئن تقطع قدمایی أحبّ إليّ من أن أمسح علی الخفّین'' (۱)

اگر میرے دونوں پاؤں کٹ جائیں یہ میرے لیئےس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اپنے جوتوں پر مسح کروں''

____________________

۱) السنن الکبری ، جلد ۱، ص ۲۸۳_

۲) مبسوط سرخسی ، جلد ۱، ص ۹۸_

۱۸۰