شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں25%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81035 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حاطب بن ابی بلتعہ کا تھا،اس میں اس نے سرکار دو عالم ؐ کے کچھ امور کے بارے میں مشرکین مکہ کو جاسوسی کی تھی،سرکار ؐ نے حاطب سے پوچھا کہ اے حاطب یہ کیا ہے؟حاطب بولا،سرکار ؐ میرے خلاف فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں،میں قریش کے قریب رہتا تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کے کچھ اعزا ہیں جو مکہ میں ہیں جن کی قرابت کی وجہ سے ان کے اہل و عیال کی حمایت ہوتی ہے،چونکہ میرا کوئی نسبی لگاؤ ان سے نہیں ہے،اس لئے میں نے ان کے لئے جاسوسی کی کہ وہ اسی کا خیال کرکے میرے عزیزوں کی حمایت کریں گے ۔

میں نے کفر کی وجہ سے یہ حرکت نہیں کی اور نہ میں دیں سے مرتد ہوا ہوں،اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کیا ہے حضرت نے فرمایا یہ سچ کہہ رہا ہے،عمر نے کہا یا رسول اللہ ؐ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس گردن اڑادوں،آپ نے فرمایا نہیں یہ غازیان بدر میں سے ہے،اور خداوند عالم اہل بدر کے حال سے واقف ہے،اس نے فرما دیا ہے:جو چاہو کرو میں نے تمھیں معاف کردیا ہے،پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:(اے ایمان لانےوالو!میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ)(1)

مذکورہ حدیث کا پس منظر

میں عرض کرتا ہوں کہ:

1 ۔ آپ نے دیکھا کہ اس حدیث میں عمر کو اس لئے نہیں ڈ انٹا گیا کہ وہ حاطب پر لعن کررہے تھے،یا ان کے عمل کو برا کہہ رہے تھے،حالانکہ موضوع بحث یہی بات ہے(یعنی سابقون اوّلون پر طعن کا جواز یا عدم جواز)عمر صرف اس لئے ڈ انٹے گئے کہ وہ حاطب پر نفاق کا الزام لگا رہے تھے اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کررہے تھے،جب کہ نبی ؐ نے حاطب کا عذر قبول کرلیا تھا اور حاطب نے خود کے بارے میں جو نفاق کی نفی کی تھی اس کی تصدیق کردی تھی،حدیث مذکورہ اسی بات کی تصریح کرتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح مسلم ج: 4 ص: 1941 کتاب فضائل،اہل بدر اور حاطب بن ابی بلتعہ کی داستان

۸۱

قرآن مجید حاطب کے فعل کو غلط ثابت کرتا ہے

اس موقعہ پر خداوند عالم نے حاطب کے اس فعل کو غلط قرار دیا،قرآن مجید میں اس موقعہ پر ارشاد ہوتا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْأَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِيتُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْوَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ..قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ.. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَوَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) (1)

ترجمہ آیت:(اے ایمان دارو!اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی کی تمنا میں(گھر سے)نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،تم ان کے پاس دوستی کا پیغام بھیجتے ہو اور جو دین حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے وہ لوگ انکار کرتے ہیں،وہ لوگ رسول کو اور تم کو اس بات پر(گھر سے)نکالتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہو(اور)تم ہو کہ ان کے پاس چھپ چھپ کے دوستی کا پیغام بھیجتے ہو،حالانکہ تم کچھ بھی چھپا کر یا بالاعلان کرتے ہو میں اس سے خوب واقف ہوں،اور تم میں سے ایسا جو شخص کرے تو وہ سیدھی راہ سے یقیناً بھٹک گیا ہے مسلمانو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ممتحنہ آیت 6،4،1

۸۲

(تمہارے واسطے)تو ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے(قول و فعل کا اچھا نمونہ موجود ہے)کہ انھوں نے جب اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان(بتوں)سے جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو بیزار ہیں ہم تو تمہارے(دین کے)منکر ہیں اور جب تک تم مکمل یکتا خدا پر ایمان نہ لاؤ ہمارے تمہارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی قائم رہےگی ۔ (مسلمانو)ان لوگوں کے(افعال)کا تمہارے واسطے جو خدا اور روز آخرت کی امید رکھتا ہے اچھا نمونہ ہے اور جو(اس)سے منھ موڑے تو خدا بھی یقیناً بےپرواہ(اور)سزاوار حمد ہے)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ خداوند عالم اس قرآن میں جس کی تلاوت صبح و شام کی جاتی ہے علانیہ اس صحابی کو ڈ انٹ رہا ہے اور اس کو برا کہہ رہا ہے!کہ وہ خدا جو کھلے ہوئے قرآن میں کسی کو خود ڈ انٹ رہا ہے اور اس کو برا کہہ رہا ہے تو مسلمانوں کا ڈ انٹنا اور انکار کیوں پسند نہیں کرےگا اور کیوں اس کو برا کہنےوالے سے ناراض ہوگا مگر یہ کہ وہ خود توبہ کرلے تو یہ دوسری بات ہے جو ہماری بحث سے خارج ہے ۔

2 ۔ نبی ؐ جو عمر کو روکا تو برا کہنے سے نہیں روکا تھا،بلکہ عمر اس کو جان سے مارنے کی کوشش کر رہے تھے اور سرکار ؐ کی رائے میں حاطب قتل کا مستحق بہرحال نہیں تھا یا یہ کہ حضور ؐ نے اس کو معاف کردیا تھا نہ یہ کہ اہل بدر کو غلطی کرنے پر انہیں دنیا میں سزا نہیں دی جائےگی،اس بات کا تو کسی نے التزام نہیں کیا ہے ۔

اس کے علاوہ حضور ؐ نے خود ہی مسطح بن اثاثہ پر اِفک کے معاملے میں حد جاری کی ہے(1)

روایتوں میں یہ بات ملتی ہے(مسطح بن اثاثہ حالانکہ اہل بدر میں تھا)دوسرا ثبوت ابھی آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مسند ابی یعلی،ج: 8 ص: 338 ،السنن الکبریٰ،للبیھقی،ج: 8 ص: 250 ،کتاب المرتد،باب شوہردار عورتوں کو زنا سے متہم کرنے کی حد سے متعلق،سبل الاسلام،ج: 4 ص: 15 ،کتاب الحدود حد القذف کے باب میں،تفسیر القرطبی،ج: 12 ص: 201 ۔ 202 ،تفسیر ابن کثیر،ج: 3 ص: 272 ،فتح الباری،ج: 3 ص: 272 ،فتح الباری،ج: 13 ص: 342 ،تحفۃ المحتاج،ج: 2 ص: 480 ،تاریخ الطبری،ج: 2 ص: 114 ،حدیث الافک۔

۸۳

کے دوسرے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے کہ عمربن خطاب نے قدامہ بن مظعون پر حد قائم کی حالانکہ یہ دونوں حضرات اصحاب بدر میں تھے ۔ ( 1)

حدیث،اہل بدر کی قطعی سلامتی اور نجات کی ضمانت نہیں لیتی

3 ۔ حضور کا یہ کہنا ہے:((اللہ اہل بدر کے حالات سے مطلع ہے اس نے کہہ دیا کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کردیا ہے،اس سے قطعی سلامتی کے بجائے صرف سلامتی اور نجات کی امید پیدا ہوتی ہے اور صرف امید اس بات کی مانع نہیں کہ ان کے اعمال کے نتیجے میں ان پر طعن نہ کی جائے،جبکہ ان کے اعمال قابل طعن ہوں،اس لئے کہ اگر کوئی آدمی علانیہ فاسق ہو تو اس پر طعن کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں جب کہ اس کی ہلاکت قطعی نہیں ہے،اس لئے کہ خدا کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور وہ بخشنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔

4 ۔ حدیث کا قطعی نجات پر محمول کرنا ایک تکلف ہے،جو بے بنیاد اور بے دلیل بات ہے،اس کا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتا ہے،اہل سنت کی بات دوسری ہے وہ تو تسلیم کرچکے ہیں کہ سارے صحابہ کو استقامت حاصل تھی اور سارے صحابہ جہنم سے محفوظ ہیں اور ہمارا موضوع بحث بھی یہی ہے اس لئے کہ دعویٰ کبھی دلیل نہیں بن سکتا یہاں پر مقام احتجاج میں اس نظریہ کو پیش کیا جاسکتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تفسیر القرطبی،ج: 6 ص: 297 ،المستدرک علی صحیحن،ج: 3 ص: 466 ،کتاب معرفۃ الصحابۃ قدامہ بن مظعون بن حبیب وہب جمحی سے متعلق بحث میں،المعجم الکبیر،ج: 19 ص: 37 ،جس کا نام قدامہ تھا یعنی قدامہ بن مظعون جمحی بدری،فتح الباری،ج: 7 ص: 306 ،سیر اعلام النبلاءج: 1 ص: 161 ،قدامہ بن مظعون کی سوانح میں،الطبقات الکبریٰ،ج: 3 ص: 401 ،قدامۃ بن مظعون کے سوانح حیات میں،الاصابۃ،ج: 5 ص: 423 ،قدامہ بن مظعون کی سوانح میں،تہذیب الاسماء،ج: 2 ص: 371 ،قدامہ بن مظعون کے سوانح حیات میں،الاستیعاب،ج: 4 ص: 1472 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں،المتقنیٰ فی سردالکنی،ج: 1 ص: 340 ،ابی عباد مسطح بن اثاثہ کی سوانح حیات میں،سیر اعلام النبلاء،ج: 1 ص: 187 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں،مشاہیر علماء الامصار،ص: 12 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں الثقات،ج: 3 ص: 383 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں نیز اس کے علاوہ منابع،

۸۴

اہل بدر کی قطعی سلامتی کا اعلان انھیں گناہ پر ابھارےگا

اولاً ۔ اس نظریہ سے برائی کی چھوٹ ملتی ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ سابقون اوّلون والی آیت کی تفسیر میں جو حدیث لائی گئی اس میں اہل بدر کو کس طرح برائی کے لئے آزادی دی جارہی ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے بخاری شریف کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو ۔ ((بخاری فلاں سے روایت کرتے ہیں کہ ابوعبدالرحمن اور حبان بن عطیہ میں جھگڑا ہوا ابوعبدالرحمٰن نے حبان بن عطبہ سے کہا تمہیں معلوم ہے تمہارے صاحب یعنی علی ؑ کی ہمت خون بہانے میں کیوں بڑھی ہوئی ہے،حبان نے کہا تیرا باپ نہ ہو کیوں؟کہا اس کی وجہ ایک بات ہے جو میں نےن کو کہتے ہوئے سنا ہے،پوچھا گیا بات ہے؟کہا ہو کہہ رہے تھے کہ ہمیں زبیر کو اور ابومرثد کو سرکار نے کسی کام سے بھیجا ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے....عمر نے کہا یا رسول اللہ ؐ اس نے خدا اور خدا کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے،مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں،سرکار ؑ نے کہا سچ کہہ رہے ہو لیکن اس کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ مت بولا کرو،پھر عمر نے اعادہ کیا اور کہا اے رسول ؐ اس نے خدا سے خدا کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے آپ اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں،آپ نے فرمایا کیا وہ بدر والوں میں نہیں ہے؟اور کیا تمہیں معلوم نہیں،اللہ اہل بدر کے حال سے اچھی طرح واقف ہے،تم جو چاہو کرو،میں نے تم پر جنت واجب کردی ہے،یہ سن کے عمر رونے لگے اور ان کی آنکھیں دب ڈ با گئیں،پھر کہا اللہ اور اللہ کے رسول ؐ بہتر جانتے ہیں(1)

ملاحظہ ہو اگر چہ ہم شیعہ اس بات کے قائل ہیں بلکہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کبھی خون ناحق نہیں بہاسکتے اور صفین و نہروان کی جنگ میں شریک ہونا آپ کے اوپر واجب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:6ص:2542،کتاب استتابۃ المرتدین...باب ما جاء فی المتادلین حدیث:6540

۸۵

تھا،جیسا کہ بہت سے علماء نے تصریح کی ہے(1)

اس کے علاوہ آپ نے نبی کے ہمرکاب ہو کر جنگ کا ایک عہد کیا تھا ۔ اور نبی نے آپ کو ناکثین قاسطین اور مارقین(2) سے لڑنے کا حکم دیا تھا لیکن حدیث مذکور عام ذہنوں کا بہرحال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)بہت مناسب ہے کہ ہم یہاں پر وہ عبارت تحریر کریں جسے نصر بن مزاحم نے وقعۃ الصفین میں جنگ کے شعلوں کے بھڑک جانے کے بعد طرفین کی یلغار کے سلسلہ میں روایت کی ہے:وہ کہتے ہیں کہ:شامیوں میں سے ایک شخص باہر آیا جو پکار پکار کے کہہ رہا تھا کہ اے ابوالحسن اے علی کہاں ہو آؤ مجھ سے جنگ کرو حضرت علیؑ وارد میدان ہوئے دونوں صفوں کے درمیان ان کے گھوڑوں کی گردنیں ایک دوسرے سے ٹکرئیں،اس شامی نے آپ سے کہاں کہ:اے علی!آپ نے ہجرت کی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں ؤپ کے سامنے ایک تجویز رکھوں جس میں ان سارے خون خرابے سے بچاؤ اور اس طرح کی جگ و خونریزی سے بچنے کی سبیل مضہر ہے،پھر اس کے بعد آپ کو اختیار ہے،امام نے فرمایا:وہ تجویز کیا ہے؟اس نے کہا آپ عراق واپس چلے جائیں ہم آپ کے لئے عراق کا علاقہ چھوڑ دیتے ہیں اور ہم شام چلے جاتے ہیں اور شام ہمارے قبضہ میں رہے آپ اس سے تعرض نہ کریں،امام نے فرمایا:تم نے شفقت بھری نصیحت کی ہے میں اس کی قدر کرتا ہوں مجھے بھی جنگ و جدال کا شوق نہیں ہے بلکہ اس فکر نے میری راتوں کی نیند چھین لی ہے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ((لم اجد الا القتال او الکفر بما انزل اللہ علی محمد))یا میں ان سے جنگ کروں یا پھر دین محمدی کا منکر ہوجاؤں،اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء سے راضی نہیں ہے کہ روئے زمین پر اس کی معصیت ہو اور چپ بیٹھے رہیں امربالمعروف نہ کریں اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا نہ کریں،بھائی!میں ان سے جگ کو اپنے حق میں کہیں بہتر سمجھتا ہوں اس سے کہ جہنم میں آگ کی زنجیروں میں جکڑدیا جاؤں،وقعۃ الصفین،ص:474،شرح نہج البلاغہ،ج:2ص:208،207،اخبار الطّوال،ص:187۔188،ینابیع المودہ ج:2ص:8۔9،اسد الغابۃ ج:2ص:63،

(2)المستدرک علی صحیحین،ج:3ص:150،کتاب صحابہ کی معرفت اور حضرت امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائدج:5ص:186،کتاب الخلافۃ خلفاء اربعہ کے باب میں،ج:7ص:238،کتاب الفتن،جو دو گروہ کے درمیان صفین میں رونما ہوا ہے اس کے باب میں،مسند ابی یعلی،ج:1ص:379،مسند علی ابن ابی طالبؑ کے بیان میں،مسند البراز،ج:2ص:215،جو علقمہ بن قیس نے علی سے متعلق روایت کی ہے کہ بیان میں،ج:3ص:27،جو علی بن ربیعہ اسدی نے علی بن ابی طالب سے متعلق روایت کی ہے،مسندالشاشی،ج:2ص:342،اس روایت کے ذیل میں جو علقمہ بن قیس نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں کی ہے،المعجم الکبیر،ج:10ص:91،اس روایت کے ذیل میں جو علقمہ بن قیس نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں کی ہے۔

۸۶

انکشاف کرتی ہے،آپ دیکھیں کہ اس حدیث میں صرف یہ امید کی گئی ہے کہ اہل بدر نجات یافتہ ہیں مگر محض اس امید کی بنیاد پر حضرت علی ؑ نے(امام بخاری کے نظریہ کے مطابق یا ابوعبدالرحمٰن کے نظریہ کے مطابق)امت میں کتنا خون بہایا،امیر المومنین ؑ تو ہمارے عقیدہ کے مطابق معصوم ہیں اور آپ اس طرح کی غلطیوں سے اپنی عصمت کی بنا پر بالکل پاک ہیں لیکن آپ دیکھیں کہ اس حدیث کی بنیاد پر عام ذہن کیا سونچ رہا ہے اور اس حدیث کا عام آدمی پر کیا اثر پڑےگا اس لئے کہ عام آدمی بشری کمزوریوں اور انسانی جذبات سے محفوظ تو نہیں ہے خصوصاً جب ان کا نفس یہ کہہ کے انھیں گناہ پر ابھارے کہ تم گناہ و ثواب کی فکر کیوں کرتے ہو؟حضور ؐ نے تو تمہاری سلامتی کی نص وارد کردی ہے ۔

ثانیاً ۔ بعض واقعات کو دیکھیں تو خود اہل بدر کا نظریہ آپ کے نظریہ سےمیل نہیں کھاتا نہ قرآن مجید اس ی تائید کرتا ہے قرآن نے بعض سابقون کے بارے میں دوسرے سابقون کے نظریہ پر اعتراض کیا ہے یہ سب باتیں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہیں جہاں میں نے بتایا تھا کہ قرآن مجید کا صحابہ کے بارےمیں کیا موقف ہے ۔

ثالثاً ۔ مزید بر آں آپ کے اہل بدر والے اس نظریہ سے خود دوسرے صحابہ سے متفق نہیں ہیں آپ تاریخ تو پڑھیں،میں دوسرے سوال کے جواب میں یہ باتیں بھی پیش کرچکا ہوں ۔

اس طرح کی حدیثوں میں گناہ کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے

5 ۔ اگر یہ مان لیا بھی جائے کہ مذکورہ حدیث سے اصحاب بدر کی نجات یقینی ہے تب بھی اس میں گناہان کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے یعنی اسیے گناہ جو مہلک ہیں مثلاً ارتداد،نفاق،حکم خدا کی تردید اور دین میں بدعت و غیرہ،اس لئے کہ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ مندرجہ بالا گناہ کرنے کے باوجود اہل بدر بخش دئے جائیں گے میرا خیال ہے کہ سابقون اوّلون کی بخشش کا یقین اہل سنت کو یا تو اس لئے ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سابقون سے مذکورہ گناہ صادر ہی نہیں ہوئے یا اس لئے کہ اگر انہوں نے ایسے گناہ کئے بھی تو توبہ کرلی لیکن حدیث میں ان دونوں ہی باتوں پر کوئی دلالت موجود نہیں

۸۷

ہے کہ جب انہوں نے گناہ کیا تھا اس وقت بخش دئے گئے تھے یا اس سے قبل کے گناہ بخش دئے گئے ہیں اور جب حدیث کو مہلک گناہوں سے مقید کردیں گے یعنی ذنوب مہلکہ کا غفران اس مغفرت میں شامل نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ کہ ان سے اس طرح کے گناہ ہوئے ہی نہیں یا یہ کہ گناہاں کبیرہ کئے لیکن توبہ کرلی،ان دونوں باتوں کے لئے الگ سے دلیل لانی پڑےگی ۔

قرآن مجید حاطب کی جس طرح تہدید کرتا ہے اس سے سلامت قطعی نہیں سمجھی جاسکتی

6 ۔ خداوند عالم کا یہ کہنا ہے کہ:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (1)

ترجمہ آیت:(جو خدا اور آخرت سے امیدوار ہے اس کی سیرت میں تمہارے لئے قابل پیروی باتیں ہیں اور جو منھ موڑ لیتا ہے تو اللہ بےنیاز اور سزاوار احمد ہے ۔ )

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حاطب اس وقت تک معرض ہلاکت میں ہے جب تک توبہ نہ کرلے،یہ ثابت کرنےکے لئے کہ وہ اللہ اور آخرت کا امیدوار ہے،اسے اسوہ ابراہیمی اور اصحاب ابراہیم ؑ کی پیروی کرنا ضروری ہے اور اس پیروی کا اظہار اس طرح ہوگا کہ وہ کافروں سے اظہار برائت کرے اور ان سے دور رہے،اگر وہ اس سیرت ابراہیمی کی پیروی نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو خدا سے کوئی امید ہے نہ آخرت سے،اس منزل پاس میں جو بھی پہنچ جائے اس کی ہلاکت میں کسی کو اشکال نہٰں ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے(جو منھ موڑےتو اللہ بےنیاز ہے اور سزاوار حمد ہے)اور اس ٹکڑے میں اتنی سخت دھمکی ہے کہ جو کسی پر مخفی نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ ممتحنہ آیت:6

۸۸

جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(1)

ترجمہ آیت:(تمہاری رشتہ داریاں اور تمہاری اولاد تم کو قیامت کے دن کوئی فائدہ نہیں پہنچائےگی،اس دن تو وہی تمہارے درمیان فیصلہ کرےگا اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ۔ )

اس آیت میں حاطب کی تردید اور اس کے قبول عذر سے رفض ظاہر ہورہا ہے،حاطب کا شدت سے انکار کیا جارہا ہے اور تہدید کی جارہی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ اس تہدید و انکار کے بعد بھی اللہ اس کو معاف کرکے اس کی سلامتی کو قطعی قرار دےگا،اس آیت سے امید بھی ظاہر نہیں ہورہی ہے جو معنائے حدیث میں شامل ہے کہ:اگر گناہاں کبیرہ اس سے صادر ہوئے ہیں تو حدیث سے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بخشے جانے کی امید ہے،جب کہ آیت کا اس کا انکار کرتی ہے ۔

7 ۔ چونکہ مذکورہ آیتیں نبی ؐ کی حدیث مذکور کے بعد نازل ہوئیں ہیں لہذا دو میں سے کوئی ایک بات ماننی پڑےگی یا تو نبی کریم ؐ اس گناہ کی اہمیت سے ہی ناواقف تھے جو حاطب کرچکا تھا،جب کہ ایسا ناممکن ہے بہرحال مان لیں کہ نبی ؐ اس گناہ کی اہمیت سے ناواقف تھے اور اللہ نے نبی کریم ؐ کے وہم کو دور کردیا اس آیت کو نازل کرکے یا یہ کہ نبی ؐ عمر کی منھ زوری کو لگام دینا چاہتے تھے اور ان کو روکنا چاہتے تھے،آپ اس کو معاملات نبوت میں مداخلت سے باز رکھنا چاہتے تھے اس لئے کہ اس سے آگے چل کے بہت سے نقصانات دین کو پہنچ سکتے ہیں اس لئے حضور ؐ نے ان کو ڈ انٹا،یعنی حضور ؐ حاطب کے گناہ کی اہمیت سے واقف تھے اور اس کو معرض خطر میں سمجھ رہے تھے اب دو میں سے جو بات آپ کے دل کو لگتی ہو مان لیں ۔

رہا شیعوں کا سوال تو ہم لوگ تو آیات مذکورہ کی صراحت کے بعد ابھی اس حدیث ہی کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ممتحنہ آیت: 3

۸۹

مشکوک سمجھ رہے ہیں ہمیں متن حدیث ہی میں شک ہے دلالت اور سند حدیث میں تو شک و شبہ ہے ہی،کیونکہ اس میں جان بوجھ کے تحریف ہوئی یا غیرارادی طور پر تحریف ہوئی ۔

تھوڑی سی گفتگو حدیث حاطب جیسی حدیثوں کے بارے میں

8 ۔ اس طرح کی دوسری حدیث حاضر کررہا ہوں اس سے بھی اسی حالت کا اظہار ہوتا ہے،ابوہریرہ کہتے ہیں(پھر انصار میں سے ایک آدمی اندھا ہوگیا تو اس نے حضور ؐ کو بلا بھیجا کہ اس کے گھر میں ایک مسجد بنادیں تا کہ وہ وہیں نماز پڑھا کرے،سرکار ؐ اس کے گھر آئے اور اس کی قوم اس کے پاس جمع ہوئی لیکن ان کا ایک آدمی نہیں آیا،جب حضور ؐ نے پوچھا وہ کہاں ہے لوگوں نے اس سوال کے جواب سے چشم پوشی کی لیکن ایک آدمی بولا وہ تو(ایسا ویسا ہوگیا)آپ نے فرمایا کیا وہ اہل بدر میں سے نہیں ہے؟کہاں ہاں اے خدا کے رسول ؐ لیکن وہ اسی ویسی حرکتیں کرتا ہے فرمایا،اللہ بدروالوں کے حال سے بہتر واقف ہے تم کو جو سمجھ میں آئے کرو بیشک میں نے تم کو بخش دیا ہے)(1) مندرجہ بالا حدیث کی سند میں اگر چہ ہلکاپن ہے،لیکن یہ بھی اہل بدر کی قطعی سلامتی پر دلالت نہیں کرتی ۔ جس طرح آیہ کریمہ کے معنی سے اس کو کوئی مناسبت نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ حدیث اس آیت کے قبل صادر ہوئی ہو تو بھی اس پر سابقہ اصول جاری ہوں گے ۔

9 ۔ اسی طرح کی ایک حدیث جابر سے ہے،کہتے ہیں کہ حاطب کا ایک غلام تھا وہ حضور ؐ کی خدمت میں حاطب کی شکایت لے کے آیا،کہنے لگا خدا کے رسول ؐ حاطب ضرور جہنم میں جائےگا،آپ نے فرمایا ہرگز نہیں جھوٹا ہے،وہ جہنم میں نہیں جاسکتا،وہ بدری مجاہدوں میں ہے اور حدیبیہ میں شریک تھا ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح حبّان،ج: 11 ص: 123 ،حدیث شمارہ 4798 ،غزوہ بدر میں جہاد کے وجوب کے باب سے متعلق ایسی خبر کا ذکر کرنا جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو اہل بدر نے بدر کے دن کرتوت کئے ہیں خداوند عالم نے اسے بخش دیا اور طلحہ اور زبیر بھی انہیں میں سے ہیں۔

( 2) صحیح ابن حبان ج: 11 ص: 122 حدیث: 4799 باب فرض جہاد:جنگ بدر:جنگ بدر اور صلح حدیبیہ میں شریک افراد کے داخل جہنم ہونے کے بارے میں انکار کا تذکرہ

۹۰

چونکہ بدر اور حدیبیہ کی فضیلت تمام گناہوں سے بخشش کی سند نہیں دےسکتی،گناہان کبیرہ کی تو بات ہی الگ ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ نبی ؐ برحق اس غفران کو قطعی قرار دیں،اس لئے کہ اس سے اعمال قبیحہ کی طرف ترغیب لازم آئےگی پس ضروری ہے کہ اس حدیث کو اس معنی پر محمول کیا جائے کہ آپ نے حاطب کے غلام کے اس نظریہ کی تردید کی تھی کہ حاطب کا جہنم میں جانا یقینی ہے جب کہ وہ بدر اور حدیبیہ کا شاہد ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ غلام نے جن گناہوں کی شکایت کی تھی وہ قابل بخشش ہوں اور ان کی وجہ سے اس کا جہنمی ہونا یقینی نہ ہو ۔

حکمت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث حاطب کی تاویل کی جائے

ممکن ہے کہ اس طرح کی حدیثون کی اگر سند و متن محکم ہوں تو ایسی تاویل کی جائے جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو،ساتھ ہی کتاب اور سنت میں اسی معنی کا ظہور ہو جیسے یاد دہانی پر تاکید،عذرتراشی سے پرہیز اور خواہ مخواہ دوسروں کو سرزنش کرنے سے روکنا تا کہ نفس کے بہکنے اور نجات کی امید و غیرہ پر ایسا اعتماد نہ ہوجائے کہ جس کی وجہ سے انسان محارم کا مرتکب ہو،حدود الہی کو توڑ دےاور آخرت میں منکر الہی سے بالکل محفوظ دل میں ڈ الی دے یا اسی طرح کے دوسرے گناہوں پہ ابھارے جس سے بچنے کی اللہ نے تاکید کی ہے ۔ ان تاویلوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور ؐ بدر میں جہاد کی اہمیت اور اس کی عظیم فضیلت بیان کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ بدر میں جہاد کی وجہ سےہل بدر کے سابقہ گناہ بخشے جاسکتے ہیں،اس لئے کہ:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ(1)

(ترجمہ آیت:(اچھائیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں) ۔

یا یہ کہ حضور ؐ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمل جاری رکھو چاہے وہ خیر ہو یا شر،تمہارا گذشتہ کردار یعنی جنگ بدر میں شرکت تمہاری سابقہ خطاؤں کی بخشش کے لئے کافی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ہود آیت 114 ،

۹۱

اب اس کے بعد(گناہ چاہے ثواب)جو عمل بھی اختیار کرو تمہارے اختیار میں ہے جیسے حاجیوں کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے(کہ عمل کرتے رہو تمہیں بخش دیا گیا ہے)(1) ابوہریرہ حضور ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو خدا کے لئے حج کرے پس وہ فحش نہ بکے اور فاسق نہ ہو تو وہ گناہوں سے یونہی پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے نکلا ہو ۔(2)

اس بیان سے مقصد یہ ہے کہ ایسی فضیلتوں والا اس بات کا مستحق ہے کہ نبی ؐ اس کی اس طرح کی غلطیوں کو معاف کردیں جس سے مقصد اس کی اصلاح ہے یا یہ بتانا کہ اللہ نے اس کے گناہوں کو بخش دیا ہے نہ کہ اس کی قطعی سلامتی کا اعلان کیا ہے ۔

عمداً یا سہواً حدیثوں سے مغالطے ہوتے ہیں

اصل میں یا تو انسان ان مرتبوں سے لاعلم ہوتا ہے جن کے ماحول میں حدیث صادر ہوئی یا جان بوجھ کے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے،بہرحال جو ہو حدیثوں سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے مثال کے طور پر محمد بن مارد کی حدیث ملاحظہ فرمائیں،اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں معرفت امام حاصل ہوجائے تو پھر جو چاہے کرو،آپ نے فرمایا ہاں میں نے یہ کہا ہے میں نے عرض کیا اس کا مطلب ہے کہ امام کو پہچان لینے کے بعد اس کو اجازت ہے چاہے وہ زنا کرے چاہے چوری کرے یا شراب پیئے،آپ نے فرمایا:(انّا لله و انّا الیه راجعون) خدا کی قسم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:8باب:38شرائط واجبات حج)

(2)صحیح بخاری ج:2ص:553،کتاب الحج،حج مبرور(مقبول)کی فضیلت کے باب میں انھیں الفاظ میں صحیح مسلم،ج:2ص:984،کتاب حج،حج عمرہ اور روز عرفہ کی فضیلت کے باب میں،صحیح بن خزیمۃ،ج:4ص:131،کتاب المناسک حج کی فضیلت کے بیان میں جس میں جنگ و جدال،فسق و فجور اور گناہوں اور خطاؤں کے کفارہ کے باب میں،صحیح بن حبان،ج:9ص:7،کتاب حج،حج و عمرہ کی فضیلت کے باب میں،اللہ کی بخشش گذشتہ گناہوں سے متعلق جو کوئی ایسا حج کرے جس میں جنگ و جدال اور فسق و فجور نہ ہو،مسند ابی الجعد،ص:141شعبہ بن منصور کی باقی حدیث کے ضمن میں نیز اس کے علاوہ بہت سارے مصادر میں۔

۹۲

لوگوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہٰں کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تو عمل کی وجہ سے پکڑے جائیں اور ہمارے شیعوں پر سے اعمال ساقط ہوجائیں میرے کہنے کا مطلب تو یہ تھا کہ جب تم امام کو پہچان لیتے ہو تو اچھا کام چاہے زیادہ کرو چاہے کم،اللہ اسے قبول کرےگا ۔(1)

واقعہ بدر کے علاوہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں سلامت قطعی وارد ہوئی ہے

10 ۔ بہت سے اعمال خیر اور عقائد حقہ ہیں جن کے بارے میں سلمات قطعی وارد ہوئی ہے،ملاحظہ ہو ابوذر غفاری کی حدیث آپ کہتے ہیں حضور ؐ نے فرمایا:کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہے اور اسی کلمہ پر مرجائے مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے کہا چاہے وہ زنا کرے چاہے چوری فرمایا چاہے زنا کرے یا چوری،میں نے کہا چاہے زنا کرے یا چوری فرمایا چاہے زنا کرے یا چوری میں نے پھر پوچھا چاہے زنا کرے یا چوری فرمایا چاہے وہ زنا کرے یا چوری ابوذر کی چاہت کے خلاف(2) اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:1ص:87باب:28باب مقدمہ عبادت حدیث:2

(2)صحیح بخاری ج:5ص:2193کتاب اللباس:باب ثیاب البیض

(3)صحیح بخاری ج:1ص:417،باب اور کتاب دونوں ہی جنازوں سے متعلق ہے،ج:5ص:2312،کتاب الاستیذان،جس نے لبیک اور سعدیک جیسے کلموں کے ذریعہ جواب دیا،ص:2366،کتاب الرقاق(بندگی)سے متعلق،جو اسے پیش کیا گیا وہ اس کا مال ہے کے باب میں،صحیح مسلم،ج:1ص:95۔94،کتاب الایمان اس امت کے افتراق سے متعلق باب الزکاۃ،صدقہ کی ترغیب کے باب میں،سنن الترمذی،ج:5ص:27،کتاب الایمان اس امت کے افتراق سے متعلق باب میں،السنن الکبریٰ،نسائی،ج:6ص:144،ابوذر غفاری کی حدیث میں،مسند ابی عوانہ،ج:1ص:28،کتاب الایمان،ان اعمال اور فرائض کے بیان میں جن میں قول و فعل کے ذریعہ انجام دیا ہے اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوا،نیز اس دلیل کے سلسلے میں صرف اقرار کافی نہیں ہے جب تک دل سے یقین نہ کرے اور خدا کی رضا کا طالب نہ ہو جو چیز حرام کردیتی ہے اور اس کے علاوہ مصادر۔

۹۳

عمر کہتے ہیں کہ سرکار ؑ نے فرمایا،تم میں سے جو بھی وضو کرے اوراشهد ان لا اله الله و اشهد ان محمد عبده و رسوله کہے اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جائیں گے جنت میں چاہے جس دروازے سے داخل ہو ۔(1)

عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے پیغمبر کو یہ کہتے سنا اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو بہترین وضو کرکے ان کو ان کے وقت پر ادا کرے اور کامل رکوع و سجود اور خشوع کے ساتھ ادا کرے،اللہ پر عہد ہے کہ وہ اس بندہ کو بخشےگا اور جو ایسا نہیں کرے اس کا اللہ پر کوئی عہد نہیں چاہے بخشے چاہے سزادے.(2) اسی طرح کی دوسری حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔(3)

ابوہریرہ کہتے ہیں ایک عرب حضور ؐ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا مجھے ایسا عمل بتائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) السنن الکبریٰ،بیھقی،ج: 1 ص: 78 ،کتاب الطہارۃ،وضو کے مستحبات اور واجبات کے بیان میں،باب وضو سے فارغ ہونے کے بعد کیا کہےگا انھیں الفاظ میں صحیح بخاری،ج: 3 ص: 1267 ،کتاب الانبیاء باب قول خداوند(یا اهل الکتاب لا تفعلو فی دینکم و لاتقولوا علی الله الا الحق انّما المسیح بن مریم رسول الله و کلمة القاها الی مریم و روح منه فٰامنوا بالله و رسوله و لاتقولوا ثلاثة...) صحیح مسلم ج: 1 ص: 209 کتاب الطہارۃ وضو کے بعد مستحب ذکر کے باب میں،صحیح ابن خزیمہ،ج 1 ص: 110 ،کتاب الوضو،بغیر ایجاب کے تطہیر اور استحباب کے ابواب میں،باب تحلیل اور نبی کی رسالت کی گواہی کی فضیلت اور عبودیت کے بیان میں نیز وہ چیزیں نہ کہی جاتیں جو نصاریٰ عیسٰ بن مریم کے بارے میں کہتے ہیں،نیز اس کے علاوہ دیگر منابع و ماخذ

( 2) السنن الکبریٰ،بیھقی،ج: 3 ص: 366 ،تارک الصلواۃ کے باب میں،جس کے ذریعہ اس بات پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کفر سے مراد وہ کفر ہے جس سے اس کا خون مباح ہوتا ہے نہ یہ کہ اللہ،رسول پر ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اگر وجوؓ صلاۃ کا منکر نہیں ہے

( 3) سنن ابی داؤدج: 1 ص: 115 ،باب اوقات نماز کی پابندی،مسند احمدج: 5 ص: 317 ،عبادۃ بن صامت کی حدیث،الاحادیث المختارۃ،ج: 8 ص: 320 ،جس کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلۃ الصنابحی،المعجم الاوسط ج: 9 ص: 126 ،باب الھاء،ہاشم کے اسم کے بارے میں،الترغیب و الترھیب،ج: 1 ص: 148 ۔ 157 ۔ 155 ،تعظیم قدر الصلاۃ ج: 2 ص: 953 ،وغیرہ مصادر

۹۴

جس کو کر کے میں جنت میں داخل ہوجاؤں،آپ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو اور اس کی ذات میں کسی کو شریک نہ بنا،واجب نمازیں پڑھتا رہ،فرض زکٰوۃ ادا کرتا رہ،رمضان میں روزے رکھتا رہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہ کہوں گا ۔(1)

دوسری حدیث ابوہریرہ ہی سے ہے کہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے اور مستحب حج کی جزا سوائے جنت کے کچھ نہیں ۔(2)

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا جو حج یا عمرہ کے لئے سفر میں ہو اور مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان چاند دیکھے اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں اور اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے ۔(3)

ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کو ہم ظاہر پر حمل نہیں کرسکتے ورنہ اعمال کی دنیا میں اندھیرا ہوجائےگا اس لئے کہ باقی محرمات و واجبات پر جو دلیلیں اور کتاب و سنت میں جو وعید وارد ہوئی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح بخاری ج: 2 ص: 506 ،کتاب الزکاۃ،باب زکوۃ کا وجوب اسی لفظ میں صحیح مسلم ج: 1 ص: 44 ،کتاب الایمان،اس ایمان کے باب میں جس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوتا ہے نیز مامور بہ سے جو متمسک ہوجائے وہ جنت کا حقدار ہے مسند احمد،ج: 2 ص: 342 ،مسند ابی ہریرہ،جامع العلوم و الحکم،ص: 207 ،الایمان لابن مندۃ،ج: 1 ص: 269 ،اس بات کے ذکر میں نبی کی اصحاب نے بیعت کی اس طرح سے کہ اشہد ان لا الہ الّا اللہ و ان محمداً رسول اللہ کی گواہی دے،الترغیب و الترھیب،ج: 1 ص: 302

( 2) صحیح بخاری ج: 2 ص: 629 ،باب عمرہ،وجوب عمرہ اور اس کی فضیلت کے باب میں اور اسی لفظ میں صحیح مسلم ج: 2 ص: 983 ،کتاب حج،حج و عمرہ اور روز عرفہ کی فضیلت کے باب میں،صحیح ابن خزیمۃ ج: 4 ص: 131 ،کتاب المناسک،حج و عمرہ کے درمیان فرق کے باب میں،السنن الکبری،بیھقی ج: 5 ص: 261 ،کتاب حج،حج و عمرہ کی فضیلت کے باب میں،سنن ابن ماجۃ ج: 2 ص: 964 ،باب فضیلت حج و عمرہ،موطا مالک،ج: 1 ص: 364 ،کتاب حج،جو عمرہ کے لئے آئے اس کے باب میں،مسند احمدج: 3 ص: 447 ،حدیث عامر بن ربیعۃ،

( 3) سنن الدار قطنی،ج: 2 ص: 283 ،کتاب الحج،انھیں الفاظ میں السنن الکبری،بیھقی ج: 5 ص: 30 ،کتاب الحج،جو مسجد اقصی اور مسجدالحرام کے جوار میں اس کی فضیلت کے باب میں،سنن ابی داؤد،ج: 2 ص: 143 ،کتاب مناسک کی ابتداء میں اوقات کے باب میں،المعجم الاوسط ج: 6 ص: 319 ،الترغیب و الترھیب،ج: 2 ص: 121 ،وغیرہ

۹۵

ان حدیثوں سے مطابقت نہٰں کرتیں،ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کی تاویل،کرنی پڑےگی اور استقامت اور حسن خاتمہ کی قید لگانی پڑےگی،اس لئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نجات اور ابدی نعمتوں کے لئے یہ دونوں چیزیں شرط ہیں،تو آپ جیسی بھی ان حدیثوں کی تاویل کریں حدیث بدر کی بھی وہی تاویل کرلیں،(یعنی استقامت اور حسن خاتمہ کو حدیث میں قطعی نجات کے لئے شرط قرار دیں)

حدیث مذکورہ اہل بدر سے مخصوص ہے نہ کی باقی سابقون اوّلون سے

اختتام کلام میں عرض ہے کہ(اگر ہم حدیث مذکورہ کی بنار پر اہل بدر کو مغفور و مامون مان بھی لیں تو)یہ حدیث تو صرف اہل بدر سے مخصوص ہے ان کے لئے جو واقعہ بدر میں نبی ؐ برحق کے ساتھ تھے تو پھر سابقون اوّلون جن کو اہل سنت سابقون اوّلون کہتے ہیں ان کی قطعی نجات اور یقینی سلامت پر یہ دلیل کیسے بن سکتی ہے؟جبکہ سابقون اوّلون کی ایسی حد بندی بھی نہیں کی گئی ہے جو زیادتی اورک می کو قبول نہ کرے،میرا خیال ہے کہ ہماری گفتگو آپ کے سوال کا کافی جواب ہوگی،ہم اللہ سے استمداد،توفیق و تسدید مانگتے ہیں اور وہی سیدھے راستے کا رہبر ہے ۔

۹۶

سوال نمبر ۔ 2

ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ صحابہ کبھی ذاتی بغض کی وجہ سے مجبور ہوجاتے تھے،کبھی کسی مصلحت سے مجبور ہوجاتے تھے اور کبھی ایک دوسرے پر غبطہ کرنے لگتے تھےہ معاملات اس قول کو محال قرار دیتے ہیں کہ صحابہ بشری کمزوریوں سے منزہ تھے اس کہ باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام غلطیوں کے ہوتے ہوئے بھی اللہ ان سے راضی ہے اور یہ رضا صرف زمانہ نبوت تک محدود نہیں ہے بلکہ رضا مطلقاً وارد ہوئی ہے اور اس سے کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں ہے مگر یہ کہ شریعت اس کے لئے کوئی خاص نص پیش کرے ۔

پھر شیعہ حضرات خلافت عمر و ابوبکر و عثمان کے حق میں وہ بھی حضرت علی ؑ ہی کی زندگی میں خلافت پر قبضہ جمانے کے لئے یہ تاویل کیوں نہیں کرتے کہ حضرت علی ؑ کے پہلےوالے خلفا کی حرکتیں بشری تقاضوں اور ان کی ذاتی کمزوریوں کا نتیجہ تھیں جن کا شرعی مواخذہ نہیں کیا جاتا یا یہ کہ مولائے کائنات ؑ اور دوسرے خیلفہ آپس میں مل بیٹھ کے راضی ہوگئے تھے کہ خلافت کس کس کو دی جائےگی،حالانکہ شیعوں کے خیال کے مطابق مستحق ترین فرد مولا علی ؑ تھے ۔

جواب ۔ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل باتیں حاضر ہیں

امر اول ۔ خداوند عالم نے خاص صحابہ کے لئے دو جگہ اپنی رضا کا اظہار کیا ہے،یہ دو آیتوں سے رضا ظاہر ہوتی ہے ۔

۹۷

پہلی آیت تو سابقون اوّلین والی آیت ہے اور وہ لوگ جو ان کے احسان کے ساتھ پیروی کرتے ہیں،اس پر کافی گفتگو ہوچکی ہے اور ہم اعادہ نہیں کریں گے ۔

بیعت رضوان کے بارے میں گفتگو

رضوان الہی کے بارےمیں دوسری آیت حاضر ہے،ارشاد ہوتا ہے:((بیشک اللہ راضی ہوگیا مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے،ان کے دل کے حالات سے اللہ واقف ہوا اور ان پر سکینہ نازل کیا اور فتح قریب سے سرفراز کیا بہت سا مال غنیمت بھی دے دیا اور اللہ عزیز اور حکمت والا ہے))(1) پہلی آیت کے ذیل میں یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اپنی رضا کی خبر اللہ دے تو رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ رضا ہمیشہ باقی رہےگی،یہاں اللہ نے درخت کے نیچے بیعت کرنےوالوں کو اپنے رضا کی خبر دی ہے،لیکن اس کے بعد وہ جو اعمال بھی انجام دیں گےاسی کے حساب سےجزا اور سزا کے مستحق ہوں گے،اس بات کو دو امر کچھ اور مضبوط کرتے ہیں۔

آیہ کریمہ رضا کو مطلق نہیں کرتے بلکہ رضا کا سبب بیان کرتی ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ رضا ان کے لئے مطلقاً وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ رضا کا سبب اور اس کا منشا بیان کیا جارہا ہے،سبب رضا ہے درخت کے نیچے بیعت کرنا اور وہ اس لئے کہ انہوں نے نبیؐ کے طلب بیعت پر لبیک کہی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر وہ نبیؐ کی نافرمانی کریں گےتو ان پر غضب نازل نہیں ہوگا،پھر اس آیت سے رضا کی تائید کیسے سمجھی جائے؟

بعض آیتیں بتاتی ہیں کہ اس بیعت کے عہد کو پورا کرنا سلامتی کی شرط ہے

خداوند عالم نےاسی سورہ میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ بیعت جو رضائے الہی کا سبب ہے،نجات کے لئے کافی نہیں ہے جب تک وفا بعہد کی بیعت نہ کی جائے ملاحظہ ہو:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ فتح آیت: 19،18

۹۸

(إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)(1)

ترجمہ آیت:((بیشک وہ لوگ جو آپ سے بیعت کررہے تھے اصل میں اللہ سے بیعت کررہے تھے،اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر تھا،اس کے بعد بھی اگر کوئی بیعت توڑتا ہے تو خود گھاٹا اٹھائےگاور جو اس عہد بیعت کو وفا کرےگا تو عنقریب اللہ اسے اجر عظیم عنایت فرمائےگا)) ۔

یہ بات صریحی ہے کہ رضا و غضب کی چکی ان کے اعمال کے مدار پر گھوم رہی ہے،اللہ راضی بھی ہوگا،ثواب بھی دےگا،غضب ناک بھی ہوگا اور سزا بھی دےگا معیار اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی ہے اگر وہ وفا کریں گے کامیاب ہوں گے اور اگر کجروی اختیار کریں گےاور بیعت توڑدیں گے تو گھاٹا اٹھائیں گے اور خود کو نقصان پہنچائیں گےٹھیک یہی بات شیعہ بھی صحابہ کے بارے میں کہتے ہیں ۔

لظف یہ ہے کہ اہل حدیث اور مورخین کا کہنا ہے کہ اس دن حضور نے ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ مشرکین سے قتال کریں گے اور جہاد سےبھاگیں گے نہیں(2) ظاہر ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ فتح آیت:10)

(2)صحیح مسلم،ج:3ص:1484۔1485،کتاب الامارۃ(علامت)قتال کے موقع پر لشکر امام کی بیعت کے استحباب کے باب میں نیز بیعت الرضوان درخت کے نیچے،صحیح ابن حبّان ج:10ص:415،حدیث:4551،بیعت ائمہ کے باب میں اور جوان کے لئے مستحب ہے،نیز اس بیعت کے بیان میں جو امام کی آزاد لوگوں کی طرف سے ہو نہ غلاموں کی طرف سے،ج:11ص:231،حدیث4875،باب المواعدۃ(وعدہ کرنا)والمھادنۃ(سکون و وقار کے باب میں نیز اس تعداد کے وصف کے بیان میں جو رسول خداؐ کے ساتھ حدیبیہ کے دن تھے،مسند ابی عوانی،ج:4ص:427۔430،ایسی اخبار کے باب میں اس امیر کی اطاعت کے بیان میں جس کی طاعت کا امام حکم دیتا ہے اور جس نے اس کی اطاعت کی اس نے امام کی اطاعت کی امام کی صفت کے بیان میں،سنن ترمذی،ج:3ص:355،جابر کی مسند میں تفسیر طبری،ج:26ص:86،تفسیر ابن کثیرج:4ص:178،ابن عبدالبراج کی التمھید،ج:12ص:149،السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام،ج:4ص:383،(بیعۃ الرضوان)کے بارے میں نیز اس کے علاوہ مصادر۔

۹۹

کہ اس(لایفروا)سے مراد ہے کہ تمام جنگوں میں نہیں بھاگیں گے نہ کہ صرف صلح حدیبیہ میں،اس لئے خداوند عالم نےآیہ کریمہ میں وفا کی شرط رکھدی ہے،صلح حدیبیہ میں تو جنگ بھی نہیں ہوئی تھی پھر ٹھہرنے اور بھاگنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے،یہ آیتیں اورہ فتح کی ہیں اور سورہ فتح صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے اور اسی وجہ سے غزوہ حنین میں سرکار دو عالم ؐ نے انھیں ان کے فرار پر بیعت رضواں یاد دلائی نبی ؐ لوگوں کو پکار رہے تھے اےسورہ بقرہ والو!اے بیعت شجرہ والو!(1) ظاہر ہے کہ فرار واقع ہوا اور رضا ختم ہوئی،غزوہ خیبر میں ایک جماعت کا فرار ہونا اور غزوہ حنین میں اکثر صحابہ کا فرار بتا رہا ہے کہ انھوں نے بیعت توڑدی اور جب بیعت توڑدی تو رضا بقی نہیں رہی ۔

خدا کی رضا صرف بیعت رضوان والوں سے مخصوص نہیں ہے

اب ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ کہ یہ مان لیا جائے کہ رضا استمرار کے لئے وارد ہوئی ہے اور ہمیشہ باقی رہےگی،جیسا کہ آپ فرماتے ہیں اور میں نے جو عرض کیا اس سے چشم پوشی کی جائے تو پھر میں عرض کروں گا کہ رضا کے لئے خاص اصحاب ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید میں تو عمومی رضا واقع ہوئی ہے خدا ان تمام لوگوں سے اپنی رضا کا اعلان کرتا ہے جو ایمان کی دولت سے مالامال اور اعمال صالحہ سے مزین ہیں ۔

ملاحظہ ہوا ارشاد ہوتا ہے: (لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مصنف ابی شیبہ ج:7ص:417جنگ حنین

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

بحث کا آخری نتیجہ:

۱_ قرآن مجید نے وضو میں اصلی فریضہ پاؤں کے مسح کو قرار دیا ہے ( سورہ مائدہ آیت ۶) اس طرح اہلبیت کی تمام روایات اور انکی اتباع کرنے والے تمام امامیہ فقہاء کا فتوی بھی اسی آیت کے مطابق ہے_

۲: اہلسنت کے فقہاء ،وضومیں اصلی فریضہ غالباً پاؤں دھونے کو قرار دیتے ہیں لیکن ان میں اکثر اجازت دیتے ہیں کہ اختیاری صورت میں جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے البتہ ان میں سے بعض اس مسح کو ضرورت کے موارد میں منحصر کرتے ہیں_

۳: جو روایات اہلسنت کے منابع میں جوتوں پر مسح کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں اس قدرمتضاد و متناقض ہیں کہ ہر محقق کو شک میں ڈال دیتی ہیں_ بعض روایات بغیر کسی قید و شرط کے جوتوں پر مسح کی اجازت دیتی ہیں، بعض کلی طور پر منع کرتی ہیں جبکہ بعض ضرورت کے مواقع کے ساتھ مختص کرتی ہیں اور اس کی مقدار سفر میں تین دن اور حضر میں ایک دن بیان کرتی ہیں_

۴: روایات کے درمیان بہترین جمع کا طریقہ یہ ہے کہ اصلی حکم پاؤں پر مسح کرنا ہے (اور انکے عقیدہ کے مطابق پاؤں دھونا ہے) اور ضرورت و اضطرار کے وقت جیسے جنگ اور دشوار سفر کہ جس میں نعلین کے بجائے بند جوتے (انکی تعبیر کے مطابق خُفّ) پہنتے تھے اور اُن کا اتارنا بہت مشکل تھا جوتوںپر ( مسح جبیرہ کی مثل) مسح کرتے تھے_

۱۸۱

۹

بسم الله سورة الحمد کا جزء ہے

۱۸۲

ایک تعجب آور نکتہ :

جب شیعیان اہلبیت (ع) خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں تو اس وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے جس کا حکم ائمہ اہلبیت(ع) نے دیا ہے وہ اہلسنت برادران کی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہوئے مسجدالحرام اور مسجد النبّی(ص) میں با جماعت نماز کا ثواب حاصل کرتے ہیں_ تو اس وقت سب سے پہلی چیز جو انکی توجہ کو اپنی طرف جلب کرتی ہے یہ ہے کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام جماعت سورة الحمد کی ابتداء میں یا تو بالکل بسم اللہ پڑھتے نہیں ہیں یا اگر پڑھتے ہیں تو آہستہ اور مخفی انداز میں پڑھتے ہیں حتی کہ مغرب و عشاء کی نماز میں جنہیں با آواز بلندپڑھا جاتا ہے _

حالانکہ دوسری طرف وہ اس بات کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن مجید کے تمام نسخوں میں کہ جو اکثر مکہ مکرّمہ سےشائع ہوتے ہیں سورة حمد کی سات آیات ذکر کی گئی ہیں جن میں سے ایک بسم اللہ ہے_ یہ بات سب کے لیے تعجب کا باعث بنتی ہے کہ قرآن مجید کی سب سے اہم ترین آیت '' بسم اللہ'' کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ او رجس وقت لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں اور ہم انکے سامنے اس بارے میں اہلسنت کے مذاہب و روایات کے اختلاف کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے تعجب میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے_

اس مقام پر ضروری ہے کہ پہلے ہم اس مسئلہ میں موجود فتاوی اور اس کے بعد بحث میں وارد ہونے والی مختلف روایات کی طرف رجوع کریں_

۱۸۳

اس مسئلہ میں مجموعی طور پر اہلسنت کے فقہاء تین گروہوں پر مشتمل ہیں_

۱_ بعض علما کہتے ہیں کہ سورہ حمد کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنا چاہیے_

جہری نمازوں میں بلند آواز کے ساتھ پڑھنا چاہیے اور اخفاتی نمازوں میں آہستہ پڑھنا چاہیے_ یہ امام شافعی اور انکی پیروی کرنے والے علما ہیں _

۲_ بعض علما کہتے ہیں کہ بسم اللہ پڑھی چاہیے لیکن ہمیشہ دل میں یعنی آہستہ پڑھنی چاہیے_ یہ حنبلی علماء ( امام احمد ابن حنبل کے پیروکاروں) کا نظریہ ہے_

۳_ ایک گروہ بسم اللہ پڑھنے کو اصلاً ممنوع سمجھتا ہے_ یہ امام مالک کے پیروکار ہیں_ امام ابوحنیفہ کے پیروکاروں کی نظر بھی مالکی مذہب والوں کے قریب ہے_

اہلسنت کے مشہور فقیہ ''ابن قدامہ'' اپنی کتابمغنی میں یوں رقمطراز ہیں:

'' انّ قراء ة بسم الله الرحمن الرّحیم مشروعةً فی اوّل الفاتحة و اوّل کلّ سورة فی قول ا کثر ا هل العلم و قال مالک و الا وزاعی لایقرؤها فی اول الفاتحة و لا تختلف الروایة عن احمد ان الجهر بها غیر مسنون و یروی عن عطاء و طاووس و مجاهد و سعید بن جبیر الجهر بها و هو مذهب الشافعی ...، (۱)

سورہ حمد اور ہردوسری سورت کے آغاز میںبسم الله الرحمن الرحیم کا پڑھنا اکثر

____________________

۱) المغنی ابن قدامہ، جلد ۱ ص ۵۲۱_

۱۸۴

اہلسنت کے نزدیک جائز ہے لیکن مالک اور اوزاعی ( اہلسنت کے فقہائ) نے کہا ہے کہ سورة حمد کی ابتداء میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے ( اور بسم اللہ کے بالجہر پڑھنے کے بارے میں ) جتنی روایات بھی امام احمد بن حنبل سے نقل ہوئی ہیں سب کی سب کہتی ہیں کہ بسم اللہ کو بالجہر( بلند آواز کے ساتھ) پڑھنا سنت نہیں ہے اور عطا، طاووس، مجاہد اور سعید بن جبیر سے روایت نقل ہوئی ہے کہ بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا چاہیے اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے''

اس عبارت میں انکے تینوں اقوال نقل ہوئے ہیں :

تفسیر ''المنیر'' میں وھبہ زحیلی نے یوں لکھا ہے_

''قال المالکيّة و الحنفيّه لیست البسملة بآیة من الفاتحة و لا غیرها الّا من سورة النمل

الّا ا ن الحنفيّة قالوا یقرء المنفرد بسم الله الرحمن الرّحیم مع الفاتحة فی کلّ رکعة: سرّاً

و قال الشافعيّة و الحنابلة البسملة آیة من الفاتحة یجب قرائتها فی الصلوة الّا ا ن الحنابلة قالوا کالحنفيّة یقرؤ بها سرّاً و لایجهر بَها و قال الشافعيّة: یسّرّ فی الصلوة السرّیة و یجهر بها فی الصلاة الجهريّة(۱)

____________________

۱)تفسیر المیز، جلد ۱، ص ۴۶_

۱۸۵

امام مالک اور ابوحنیفہ کے پیروکار کہتے ہیں کہ بسم اللہ سورہ حمد اور قرآن مجید کی دیگر سورتوں کی جزء نہیں ہے صرف سورہ نمل میں ذکر ہونے والی آیت جو بسم اللہ پر مشتمل ہے سورت کا جزء ہے

لیکن امام ابوحنیفہ کے پیروکار کہتے ہیں کہ جو شخص فرادی نماز پڑھ رہا ہے وہ ہر رکعت میں صرف سورہ حمد کے ساتھ آہستہ آواز میں بسم اللہ پڑھے لیکن امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے پیروکار کہتے ہیں:

کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے اور نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے اس فرق کے ساتھ کہ حنبلی کہتے ہیں کہ بسم اللہ کو آہستہ پڑھا جائے، بالجہر پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن شافعی مذہب والے کہتے ہیں کہ اخفاتی نمازوں ( ظہر و عصر کی نماز) میں آہستہ پڑھا جائے اور بالجہر نمازوں ( مغرب، عشا اور صبح کی نماز) میں بلند آواز سے پڑھا جائے ''

ان اقوال میں شافعی مذہب والوں کا قول: شیعہ فقہا کے نظریہ سے نزدیک ہے_ اس فرق کے ساتھ کہ ہمارے علماء تمام نمازوں میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا مستحب سمجھتے ہیں اور سورہ حمد میں بسم اللہ پڑھنے کو متفقہ طور پر واجب سمجھتے ہیں اور دیگر سورتوں میں مشہور و معروف قول بسم اللہ کا جزء سورہ ہونا ہے_

سچ تو یہ ہے کہ ایک غیرجانبدار محقق واقعاً حیرت میں ڈوب جاتاہے_

چونکہ وہ دیکھتاہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے پورے ۲۳ سال اپنی اکثر نمازوں کو جماعت کے ساتھ اور سب کے سامنے پڑھا_ اور سب اصحاب نے آنحضرت(ص) کی نمازوں کو اپنے کانوں

۱۸۶

سے سنا لیکن تھوڑا سا عرصہ گزرنے کے بعد اتنا شدید اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ بسم اللہ کا پڑھنا اصلا ممنوع ہے جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ اسکا پڑھنا واجب ہے، ایک گروہ کہتاہے کہ آہستہ پڑھا جائے جبکہ دوسرا گروہ کہتاہے کہ جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے_

کیا اس عجیب اور ناقابل یقین اختلاف سے اس بات کا اندازہ نہیں ہوتاہے کہ یہ مسئلہ عادی نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ کی پشت پر ایک سیاسی گروہ کا ہاتھ ہے جس نے متضاد احادیث کو جعل کیا اور انہیں رسالتمآب کی طرف نسبت دے دی ہے_

امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک حدیث نقل کی ہے جو اس راز سے پردہ اٹھاتی ہے وہ کہتے ہیں ; مطرف نے '' عمران بن حصین'' سے نقل کیا ہے کہ جب اس نے بصرہ میں حضرت علی (ع) کے پیچھے نماز پڑھی، تو کہا

'' ذکرنا هذا الرجل صلاة کنّا نصلیها مع رسول الله ''

اس مرد نے اپنی نماز کے ذریعے ہمیں رسولخدا(ص) کی اقتداء میں پڑھی ہوئی نمازوں کی یاد دلا دی ہے_(۱)

اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز حتی نماز بھی تبدیل ہوگئی تھی امام شافعی مشہور کتاب''الام'' میں ''وہب بن کیسان'' سے نقل کرتے ہیں کہ '' کل سنن رسول الله (ص) قد غیرّت حتی الصلاة'' پیغمبر اکرم(ص) کی تمام سنتوں حتی نماز کو تبدیل کردیا گیا(۲)

____________________

۱) صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۹۰_

۲) الامّ، جلد ۱ ص ۲۶۹_

۱۸۷

بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے کے بارے میں احادیث نبوی

اس مسئلہ کے بارے میں اہلسنت کی معروف کتب میں مکمل طور پر مختلف اقسام کی احادیث نقل ہوئی ہیں_ یہی احادیث انکے فتاوی میں اختلاف کا سبب بنی ہے اور عجیب یہ ہے کہکبھی ایک ہی مشخص راوی نے متضاد روایات نقل کی ہیں_ جنکے نمونے آپ آئندہ احادیث میں ملاحظہ فرمائیںگے_

پہلی قسم کی احادیث:

اس قسم میں وہ روایات ہیں جو نہ صرف بسم اللہ کو سورہ حمد کا جزء شمار کرتی ہیں بلکہ بلند آواز میں پڑھنے کو بھی مستحب (یا ضروری) قرار دیتی ہیں اس گروہ میں ہم پانچ مشہور راویوں کی پانچ احادیث پر اکتفاء کرتے ہیں:

۱_ یہ حدیث امیر المؤمنین علی (ع) سے نقل ہوئی ہے _ انکا مقام و منزلت سب پر عیاں ہیں کہ وہ جلوت و خلوت اور سفر وحضر میں رسول خدا(ص) کے ساتھ رہے ہیں_دار قطنی نے اپنی کتاب سنن میں آ پ (ع) سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ

'' کان النبی (ص) یجهر ببسم الله الرحمن الرحیم فی السورتین جمیعاً'' (۱)

پیغمبر اکرم(ص) دو سورتوں (حمد اور بعد والی سورت) میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھتے تھے''

____________________

۱) سنن دار قطنی، جلد ۱ ص۳۰۲، اسی حدیث کو سیوطی نے درّ المنثور میں جلد ۱ ص ۲۲ پر نقل کیا ہے _

۱۸۸

۲_ یہ روایت انس بن مالک سے نقل ہوئی ہے کہ جو پیغمبر اکرم(ص) کے خصوصی خادم اور جوانی سے ہی آپ(ص) کی خدمت میں پہنچ گئے تھے_ حاکم نے مستدرک میں اس روایت کو نقل کیا ہے _ وہ کہتے ہیں :

'' صلّیت خلف النبی و خلف ابی بکر و خلف عمر و خلف عثمان و خلف علی کلَّهم کانوا یجهرون بقرائة بسم الله الرحمن الرحیم'' (۱)

۳ _ حضرت عائشےہ عام طور پر شب و روز پیغمبر اکرم(ص) کے ہمراہ تھیں _دارقطنی کی روایت کے مطابق وہ فرماتی ہیں کہ :

''ان رسول الله (ص) کا ن یجهر ببسم الله الرحمن الرحیم'' (۲)

رسول خدا(ص) بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے''

۴_ اہلسنت کے معروف راوی جناب ابوہریرة کہ جن کی بہت سی روایات کو صحاح ستّہ میں نقل کیا گیا ہے یوں کہتے ہیں'' کان رسول الله صلی الله علیه و آله یجهر ببسم الله الرحمن الرّحیم فی الصلوة'' کہ رسولخدا(ص) نماز میں بسم اللہ الرحمن الرّحیم بلند آواز کے ساتھ پڑھا کرتے تھے_

____________________

۱) مستدرک الصحیحین، جلد ۱ ،ص ۲۳۲، میں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی کے پیچھے نمازیں پڑھیں سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے_مترجم

۲) الدّر المنثور جلد ۱ ص ۲۳_

۱۸۹

یہ حدیث تین معروف کتب '' السنن الکبری''(۱) '' مستدرک حاکم''(۲) اور ''سنن دار قطنی''(۳) میں نقل ہوئی ہے_

۵_ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جبرائیل امین نے بھی پیغمبر اکرم(ص) کو نماز کی تعلیم دیتے وقت بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھا_ دار قطنی کی نقل کے مطابق نعمان بن بشیر یوں کہتے ہیں''اَمَّنی جبرئیل عند الکعبة فجهر ببسم الله الرحمن الر ّحیم'' جبرائیل امین نے خانہ کعبہ کے پاس میری امامت کی ( مجھے نماز پڑھائی) اور بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا(۴)

دلچسپ یہ ہے کہ بعض معروف علماء نے بسم اللہ بالجہر پڑھنے والی احادیث کو نقل کرنے کے ساتھ یہ تصریح کی ہے کہ ان احادیث کے راوی عام طور پر ثقہ ہیں جیسے حاکم نے مستدرک میں اس بات کی تصریح کی ہے_

یہاں ہمیں اس بات کا اضافہ کرنا چاہیے کہ مکتب اہلبیتکی فقہ و حدیث کی کتب میں بسم اللہ کو سورة حمد کی ایک آیت شمار کیاگیا ہے اور اس بارے میں احادیث تقریباً متواتر ہیں اور اسی طرح بہت سی احادیث میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنے کے بارے میں تصریح کی گئی ہے_

ان روایات کے بارے میں مزید آگاہی کے لیئے کتاب ''وسائل الشیعہ'' میں ''نماز میں قراء ت'' والے ابواب میں سے باب نمبر ۱۱ ،۱۲،۲۱ ،۲۲ کی طرف رجوع کیا جائے_ وہاں دسیوں

____________________

۱) السنن الکبری جلد ۲ ، ص ۴۷_

۲) مستدرک الصحیحین، جلد ۱، ص ۲۰۸_

۳) دار قطنی،جلد ۱ ،ص ۳۰۶ _

۴) سنن دار قطنی، جلد ۱، ص ۳۰۹_

۱۹۰

روایات آئمہ اہلبیت (ع) سے نقل کی گئی ہیں اور دیگر معتبر کتب جیسے کافی، عیون اخبار الرّضا(ع) ، اور مستدرک الوسائل میں ( نماز میں قرائت قرآن کے مربوطہ ابواب میں ) بھی بہت سی روایات ذکر کی گئی ہیں_

حدیث ثقلین کی روشنی میں کہ جسے فریقین نے نقل کیا ہے اور اس میں حکم دیا گیا ہے کہ میرے بعد قرآن مجید اور میرے اہلبیت(ع) کا دامن تھام کر رکھنا تا کہ گمراہی سے بچے رہو_ کیا ہمیں اس قسم کے اختلاف انگیر مسئلہ میں مذہب اہلبیت کی پیروی نہیں کرنا چاہیے (تا کہ گمراہی سے محفوظ رہیں )؟

دوسری قسم کی احادیث:

یہ قسم ان احادیث پرمشتمل ہے جو بسم اللہ کو سورہ حمد کا جزء شمار نہیں کرتیں یا بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھنے سے منع کرتی ہیں_

۱_ یہ حدیث صحیح مسلم میں قتادہ سے نقل ہوئی ہے جس میں انس کہتے ہیں کہ:

'' صلّیت مع رسول الله (ص) و ابی بکر و عمر و عثمان فلم اسمع احداً منهم یقرء بسم الله الرحمن الرّحیم'' (۱)

میں نے رسولخدا (ص) ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی میں نے کسی سے نہیں سنا کہ انہوںنے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرّحیم پڑھی ہو''

____________________

۱)صحیح مسلم، جلد ۲، '' باب حجة من قال لا یجہر بالبسملة'' ص ۱۲_

۱۹۱

توجہ کرنی چاہیےکہ اس حدیث میں حضرت علی (ع) کی قراء ت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے

واقعاً تعجب آور ہے کہ ایک معّین شخص جیسے انس ایک مرتبہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولخدا(ص) ، خلفائے ثلاثہ اور حضرت علی (ع) کے پیچھے نماز پڑھی_ سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے_ دوسری جگہ وہی کہتے ہیں کہ میں نے رسولخدا(ص) اور خلفائے ثلاثہ کے پیچھے نماز پڑھی کسی نے بھی نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھی چہ جائیکہ بلند آواز سے پڑھنا_

کیا ہرصاحب فہم یہاں یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہوتا کہ پہلی حدیث کو بے اثر کرنے کے لیئے جاعلین حدیث نے ( جیسا کہ عنقریب بیان کیا جائیگا) اس دوسری حدیث کوجعل کیا ہے اور اسے انس کی طرف نسبت دی ہے اور چونکہ حضرت علی (ع) کا بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا مشہور ہے اور انکے پیروکار جہاں کہیں بھی ہیں یہی کام کرتے ہیں اس لیے ان کا نام نہیں لیا گیا ہے تاکہ ڈھول کاپول نہ کھل جائے؟

۲_ سنن بیہقی میں عبداللہ بن مغفل سے نقل ہوا ہے، وہ کہتے ہیں:

''سمعنی ا بی و ا نا ا قرا بسم الله الرحمن الرّحیم فقال; ا ی بنيّ محدث؟ صلَّیتُ خلف رسول الله صلی الله علیه و آله و ا بی بکر و عمر و عثمان فلم ا سمع ا حداً منهم جهر بسم الله الرّحمن الرّحیم'' (۱)

____________________

۱) السنن الکبری، جلد ۲ ، ص ۵۲_

۱۹۲

میرے والد نے مجھے نماز میں بسم اللہ پڑھتے سنا توکہنے لگے: کیا بدعت ایجاد کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی ان میں سے کسی کو میں نہیں دیکھا کہ بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھتا ہو'' _

اس حدیث میں بھی حضرت علی _ کی نماز کا تذکرہ نہیں ہوا ہے

۳_ جناب طبرانی کی کتاب'' المعجم الوسیط'' میں ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ :

'' کان رسول الله صلی الله علیه و آله اذا قرء بسم الله الرّحمن الرّحیم هزء منه المشرکون و قالوا محمد یذکرا له الیمامة_ وکان مسیلمة یسمی ''الرّحمن'' فلمّا نزلت هذه الآیة امر رسول الله صلی الله علیه و آله ان لا یجهر بها؟

کہ رسولخدا(ص) جب نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے تو مشرکین تمسخر کرتے تھے_ کیونکہ یمامہ کی سرزمین پر خدائی کا دعوی کرنے والے مسیلمہ کا نام رحمن تھا_ اس لیئے مشرکین کہتے تھے کہ محمد(ص) کی مراد وہی یمامہ کا خدا ہے_ اس وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے حکم دے دیا تھا کہ اس آیت کو بلند آواز سے نہ پڑھا جائے ''

اس حدیث میں جعلی ہونے کے آثار بالکل نمایاں ہیں کیونکہ :

اولّا: رحمن کاکلمہ قرآن مجید میں صرف بسم اللہ الرّحمن الرّحیم میں نہیں آیا ہے بلکہ اور بھی ۵۶ مقامات پر ذکر ہوا ہے_ صرف سورہ مریم میں ہی اس کا سولہ۱۶ مرتبہ تکرار ہوا ہے_ اگر

۱۹۳

یہی وجہ ہے تو قرآن مجید کی دوسری سورتوں کو بھی نہیں پڑھنا چاہیے، کہیں مشرکین مسلمانوں کامذاق نہ اڑائیں _

ثانیاً : مشرکین تو قرآن مجید کی تمام آیات کا تمسخرکرتے تھے جیسا کہ متعدد آیات میں اس بات کا تذکرہ کیاگیاہے من جملہ سورہ نساء کی چالیس نمبر آیت ''اذا سمعتم آیات الله یکفر بها و يُستهزا بها فلا تقعدوا معهم''

مشرکین نماز کے لیے دی جانے والی اذان کا بھی مذاق اڑاتے تھے جیسے سورہ مائدہ کی ۵۸ نمبر آیت میں تذکرہ ہوا ہے''و اذا نادیتم الی الصلوة اتخذوها هُزُواً '' کیا پیغمبر اکرم(ص) نے اذان کے ترک کرنے کا بھی حکم دیا ہے_ یا اذان آہستہ کہنے کا حکم دیا ہے کہ کہیں مشرکین مذاق نہ اڑائیں _

بنیادی طور پر مشرکین خود پیغمبر اکرم(ص) کا استہزاء کرتے تھے جیسا کہ اس آیت میں تذکرہ ہوا ہے''و اذا آک الذین کفروا ان یتّخذونک الّا هُزُواً'' (۱)

اگر یہی دلیل ہے تو خود پیغمبر اکرم(ص) کو لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوجانا چاہیے تھا_

ان سب ادلّہ سے قطع نظر اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو بڑی صراحت کے ساتھ وعدہ دیا تھا کہ آپ(ص) کو استہزا کرنے والون کے شر سے محفوظ رکھے گا'' انّا کفیناک المستهزئین'' (۲)

ثالثاً: مسیلمہ کوئی ایسی شخصیت نہیں تھا جس کو اسقدر اہمیت دی جاتی کہ پیغمبر اکرم(ص) اس کا نام

____________________

۱) سورة انبیاء آیت ۳۶_

۲) سورة حجرات آیت ۹۵_

۱۹۴

رحمن ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کی آیات کو مخفی کرتے یا آہستہ پڑھتے_ خاص طور پر اس بات کیطرف بھی توجہ رہے کہ مسیلمہ کے دعوے ہجرت کے دسویں سال منظر عام پر آئے تھے اوراس وقت اسلام مکمل طور پر قوت اور قدرت پیدا کرچکا تھا_

ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث گھڑنے والے اپنے کام میں مہارت نہیں رکھتے تھے اور نا آگاہ تھے_

۴: ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب '' مصنف'' میں ابن عباس سے نقل کیا ہے '' الجہر ببسم الله الرحمن الرّحیم قرائة الا عراب'' بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھنا عرب کے بدّووں کی عادت تھی''(۱)

حالانکہ ایک اور حدیث میں علی ابن زید بن جدعان نے بیان کیا ہے کہ ''عبادلہ'' ( یعنی عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر) تینوں بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے''(۲)

اس سے بڑھ کر حضرت علی _ بسم اللہ کو ہمیشہ بالجہر پڑھتے تھے_ یہ بات تمام شیعہ و سنی کتب میں مشہور ہے کیا علی _ بیابانی اعراب میں سے تھے؟ کیا ان متضاد احادیث کا وجود انکے سیاسی ہونے کی دلیل نہیں ہے؟

ہاں حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی _ ہمیشہ بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے تھے_ جب امیرالمؤمنین کی شہادت اور امام حسن _ کی مختصر سی خلافت کے بعد معاویہ کے ہاتھ میں حکومت

____________________

۱) مصنف ابن ابی شیبة ، جلد ۲ ص ۸۹_

۲) الدر المنثور ،جلد ۱ ص ۲۱_

۱۹۵

کی باگ ڈور آگئی، تو اس کی پوری کوشش یہ تھی کہ تمام آثار علوی کو عالم اسلام کے صفحہ سے مٹا دے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مسلمانوں میں آپ(ع) کے فکری اور معنوی افکار کا نفوذ اس کی سلطنت کے لیے خطرہ ہے_

اس بات کا منہ بولتا ثبوت اس حدیث میں ملتا ہے جسے حاکم نے مستدرک میں نقل کیا اور معتبر قرار دیا ہے (پیغمبر اکرم(ص) کے خصوصی خادم ) جناب انس بن مالک فرماتے ہیں کہ معاویة مدینہ میں آیا اس نے جہری نماز ( مغرب، عشاء ویا صبح کی نماز) میں سورة الحمد سے پہلے بسم اللہ کو پڑھا لیکن بعد والی سورت میں نہیں پڑھا_ جب نماز ختم کی تو ہر طرف سے مہاجرین و انصار کی ( کہ جو شاید جان بچانے کی خاطر نماز میں شریک ہوئے تھے) صدائیں بلند ہوگئیں '' اسرقت الصلوة ام نسیت؟ '' کہ تو نے نماز میں سے چوری کی ہے یا بھول گیاہے ؟ معاویہ نے بعد والی نماز میں سورہ حمد سے پہلے اور بعد والی سورت سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھی''(۱)

معاویہ گویا اس بات کے ذریعے مہاجرین و انصار کو آزمانا چاہتا تھا کہ یہ لوگ بسم اللہ اور اس کے بالجہر پڑھنے کے سلسلہ میں کتنی توجہ و سنجیدگی رکھتے ہیں_ لیکن اس نے اپنا کام شام اور دیگر علاقوں میں جاری رکھا_

ما بین الدّفتین قرآن ہے:

یقینا جو کچھ قرآن کی دو جلد کے درمیان ہے وہ قرآن مجید کا جزء ہے_ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ بسم اللہ قرآن مجید کا جز نہیں ہے صرف سورتوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے

____________________

۱) مستدرک الصحیحین، جلد ۱ ص ۲۳۳_

۱۹۶

کے لیے ہے_ اوّلاً یہ بات سورہ حمد کے بارے میں صحیح نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ قرآن مجید کے تمام نسخوں میں آیات کے نمبر لگائے گئے ہیں_ بسم اللہ کو سورہ حمد کی آیت شمار کیا گیا ہے_

ثانیاً: یہ سورتوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والا کام کیوں سورہ براء ة میں نہیں کیا گیاہے_ اور اگر جواب میں کہا جائے کہ چونکہ اس سورت کا سابقہ سورہ ( سورة انفال) کے ساتھ رابطہ ہے تو یہ بات کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اتفاقاً سورہ انفال کی آخری آیات اور سورہ براء ة کی ابتدائی آیات کے درمیان کوئی مفہومی رابطہ نہیں ہے_ حالانکہ قرآن مجید میں اور کئی سورتیں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط رکھتی ہیں لیکن بسم اللہ نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے_

حق یہ ہے کہ کہا جائے بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے_ جیسا کہ قرآن مجید کا ظاہر بھی اس بات کی خبر دیتا ہے _ اور اگر سورہ توبہ میں بسم اللہ کو ذکر نہیں کیاگیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے اس سورت کا آغاز پیمان شکن دشمنوں کے ساتھ اعلان جنگ کے ذریعے ہوتا ہے اور اعلان جنگ ، رحمن اور رحیم کے نام کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتا ہے کیونکہ یہ نام رحمت عامّہ اور رحمت خاصہ الہی کی حکایت کرتا ہے _

بحث کا خلاصہ :

۱_ پیغمبر اکرم(ص) سورہ حمد اوردیگر تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھتے تھے( ان کثیر روایات کے مطابق جو آپ(ص) کے نزدیک ترین افراد سے نقل ہوئی ہیں ) اور متعدد روایات کے مطابق آپ(ص) بسم اللہ کو بالجہر پڑھا کرتے تھے_

۲_ سابقہ روایات کے مقابلے میں جو روایات کہتی ہیں کہ بسم اللہ اصلاً قرآن مجید کا جزء

۱۹۷

نہیں ہے یا آنحضرت(ص) ہمیشہ اسے بالاخفات پڑھتے تھے_ مشکوک ہیں بلکہ خود ان روایات میں ایسے قرائن موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ روایات جعلی اور ان کے پیچھے بنو اميّہ کی پر اسرار سیاستیں ہیں _ کیونکہ یہ بات مشہور تھی کہ حضرت علی _ بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے ہیں اور یہ تو معلوم ہے کہ جو کچھ بھی حضرت علی (ع) کی خصوصیت یا علامت شمار ہوتی تھی ( اگر چہ وہ پیغمبر اکرم(ص) سے حاصل کی ہوئی ہوتی تھی) بنو اميّہ اس کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتے تھے یہ موضوع اس شدید اعتراض کے ذریعے آشکار ہو جاتا ہے کہ جو اصحاب نے معاویہ پر کیا _ اور اس کے علاوہ بھی قرائن و شواہد موجود ہیں جنہیں ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے _

۳_ ائمہ ا ہلبیتکا امیرالمؤمنین(ع) ( کہ انہوں نے سالہا سال پیغمبر اکرم(ص) سے بسم اللہ کو بالجہر ادا کرنے کا درس لیا تھا) کی پیروی کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق ہے_ یہاںتک کہ امام جعفر صادق _ فرماتے ہیں :

''اجتمع آلُ محمّد صلی الله علیه و آله علی الجهر ببسم الله الرّحمن الرّحیم '' (۱)

کہ آل محمّد (ص) کا بسم اللہ کے بلند پڑھنے پر اتفاق ہے ''

حداقل اس قسم کے مسائل میں حدیث ثقلین پر عمل کرتے ہوئے روایات اہلبیت (ع) کیطرف توجّہ کرنی چاہیے اور تمام اہلسنت فقہاء کو چاہیے کہ امام شافعی کی طرح حداقل جہری نمازوں میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا واجب قرار دیں_

۴_ حسن اختتام کے عنوان سے اس بحث کے آخر پر دو باتیں جناب فخررازی صاحب''تفسیر الکبیر'' سے نقل کرتے ہیں :

____________________

۱) مستدرک الوسائل ، جلد ۴ ص ۱۸۹_

۱۹۸

وہ کہتے ہیں کہ:

''انّ عليّا _ کا ن یبالغ فی الجهر بالتسمیة فلما وصلت الدولة الی بنی اميّه بالغوا فی المنع من الجهر سعیاً فی ابطال آثار علّی _ '' (۱)

حضرت علی _ بسم اللہ کے بالجہر پڑھنے پر اصرار کرتے تھے، جب حکومت، بنوامیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے بسم اللہ کے بلند پڑھنے سے منع کرنے پر اصرار کیا تا کہ حضرت علی _ کے آثار کو مٹایا جاسکے''

اہلسنت کے اس عظیم دانشمند کی گواہی کے ذریعے بسم اللہ کے آہستہ پڑھنے یا اس کے حذف کرنے والے مسئلہ کا سیاسی ہونا اور زیادہ آشکار ہوجاتا ہے _اسی کتاب میں ایک اور مقام پر جناب فخررازی، مشہور محدث بیہقی سے اس بات کونقل کرنے کے بعد کہ حضرت عمر ابن خطاب، جناب ابن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے اس بات کا اضافہ کرتے ہیں:

'' اَمّا ا نَّ علی ابن ابی طالب کان یجهر بالتسمیة فقد ثبت بالتواتر و من اقتدی فی دینه بعلّی ابن ابی طالب فقد اهتدی، و الدلیل علیه قول رسول الله اللّهم ا در الحق مع علی حیث دار، (۲)

____________________

۱) تفسیر کبیر فخررازی ، جلد ۱، ص ۲۰۶_

۲) ایضاً ص ۲۰۴ و ۲۰۵_

۱۹۹

بہر حال حضرت علی (ع) بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے تھے یہ بات تواتر کے ذریعہ ثابت ہے اور جو بھی دین میں حضرت علی (ع) کی پیروی کریگا یقینا ہدایت پاجائیگا_ اس بات کی دلیل رسولخدا(ص) کی یہ حدیث ہے کہ بارالہا حق کو ہمیشہ علی (ع) کے ساتھ رکھ اور حق کو اسی طرف پھیر دے جس طرف علی (ع) رخ کرے''

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232