شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں25%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81024 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حاتم کی بیٹی کے ساتھ اس سلوک کا یہ اثر ہوا کہ اپنے قبیلے میں واپس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے بھائی '' عدی بن حاتم'' کو تیار کیا کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لے آئے، عدی اپنی بہن کے سمجھانے پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچا اور اسلام قبول کرلیا اور پھر صدر اسلام کے نمایاں مسلمانوں، حضرت علیعليه‌السلام کے جان نثاروں اور ان کے پیروکاروںمیں شامل ہوگیا(۱)

بافضیلت اسیر

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا کہ :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کچھ اسیر لائے گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک کے علاوہ سارے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم دیدیا اس شخص نے کہا : کہ ان لوگوں میں سے صرف مجھ کو آپ نے کیوں آزاد کردیا ؟پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : '' مجھ کو جبرئیل نے خدا کی طرف سے خبردی کہ تیرے اندر پانچ خصلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جن کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست رکھتاہے ۱_ اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے بارے میں تیرے اندر بہت زیادہ غیرت ہے ۲_ سخاوت ۳_ حسن اخلاق ۴_ راست گوئی ۵_ شجاعت '' یہ سنتے ہی وہ شخص مسلمان ہوگیا کیسا بہتر اسلام'' _(۲)

___________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج۴ ص ۲۲۷_

۲) بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۰۸_

۴۱

نیک اقدار کو زندہ کرنا اور وجود میں لانا

اسلام سے پہلے عرب کا معاشرہ قومی تعصب اور جاہلی افکار کا شکار تھا، مادی اقدار جیسے دولت،نسل ، زبان، ، رنگ ، قومیت یہ ساری چیزیں برتری کا معیار شمار کی جاتی رہیں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کی وجہ سے یہ قدریں بدل گئیں اور معنوی فضاءل کے احیاء کا زمانہ آگیا ، قرآن نے متعدد آیتوں میں تقوی، جہاد، شہاد، ہجرت اور علم کو معیار فضیلت قرار دیا ہے _

( الذین آمنوا و هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله باموالهم و انفسهم اعظم درجة عندالله و اولءک هم الفائزون ) (۱)

جو لوگ ایمان لائے، وطن سے ہجرت کی اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کیا وہ خدا کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہیں اور وہی کامیاب ہیں_

( ان اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۲)

تم میں جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے وہی خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز ہے_

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ انسان ساز مکتب کے مبلغ ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت اسلامی کے اسوہ کے عنوان سے ایسے اخلاقی فضاءل اور معنوی قدر و قیمت رکھنے والوں کی بہت عزت کرتے تھے اور جو لوگ ایمان ، ہجرت اور جہاد میں زیادہ سابقہ رکھتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک وہ مخصوص احترام کے مالک تھے_

___________________

۱) سورہ توبہ ۲۰_

۲) حجرات ۱۳_

۴۲

رخصت اور استقبال

مشرکین کی ایذاء رسانی کی بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر جائیں جب '' جعفر بن ابی طالب'' حبشہ کی طرف روانہ ہوئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑی دور تک ان کے ساتھ ساتھ گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائی_ اور جب چند سال بعد وہ اس سرزمین سے واپس پلٹے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بارہ قدم تک ان کے استقبال کیلئے آگے بڑھے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور چونکہ ان کی حبشہ سے واپسی فتح خیبر کے بعد ہوئی تھی اسلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ' ' نہیں معلوم کہ میں فتح خیبر کیلئے خوشی مناوں یا جعفر کے واپس آجانے کی خوشی مناوں ''(۱)

انصار کی دلجوئی

فتح مکہ کے بعد کفار سے مسلمانوں کی ایک جنگ ہوئی جس کا نام'' حنین'' تھا اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ملی تھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ حنین کے بعد مال غنیمت تقسیم کرتے وقت مہاجر و انصار میں سے کچھ لوگوں کو کچھ کم حصہ دیا اور مؤلفة القلوبکوکہ جوا بھی نئے مسلمان تھے زیادہ حصہ دیا ، انصار میں سے بعض نوجوان ناراض ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچازاد بھائیوں اور اپنے عزیزوں کو زیادہ چاہتے ہیں اسلئے ان کو زیادہ مال دے رہے ہیں حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے مشرکین کا خون ٹپک رہاہے اور ہمارے ہاتھوں

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۲۳۹_

۴۳

سے سخت کام آسان ہورہے ہیں _ ایک روایت کے مطابق '' سعد بن عبادہ'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور بولے جو بخشش و عنایت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قباءل عرب اور قریش پرکئے ہیں ، انصار کے اوپر وہ عنایت نہیں ہوئی ہیں اسلئے انصاراس بات پر ناراض ہیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، خیمہ لگایا گیا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' فقط انصار خیمہ میںآئیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود علیعليه‌السلام کے ساتھ تشریف فرماہوئے، جب انصار جمع ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' میں تم لوگوں سے کیا سن رہاہوں کیا یہ باتیں تمہارے لئے مناسب ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا کہ یہ باتیں ناتجربہ کار نوجوانوں نے کہی ہیں انصار کے بزرگوں نے یہ باتیں نہیں کہی ہیں ، پھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان نعمتوں کو شمار کرایا جو خداوند عالم نے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود کے سایہ میں ان کو عطا کی تھیں اس پر انصار نے گریہ کیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہا تھوں اور پیروں کو بوسہ دے کر کہا : ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کو دوست رکھتے ہیں مال کو دوست نہیں رکھتے ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دنیا سے چلے جانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جدائی سے ڈرتے ہیں، نہ کہ کم سرمایہ سے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''زمانہ جاہلیت سے ابھی قریش کا فاصلہ کم ہے ، مقتولین کی مصیبت برداشت کئے ہوئے ابھی تھوڑی دن گذرے ہیں میں نے چاہا کہ ان کی مصیبت ختم کردوں اور ان کے دلوں میں ایمان بھردوں اے انصار کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور گوسفند لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اپنے گھر واپس جاو بیشک انصار ہمارے راز کے امین ہیں ، اگر تمام لوگ ایک راستے سے جائیں اور انصار دوسرے راستے سے گذریں تو میں اس راستے سے جاؤں گا جس سے انصار جارہے ہیں_ اسلئے کہ انصار

۴۴

ہمارے اندرونی اور ہمارے جسم سے لپٹے ہوئے لباس ہیں اور دوسرے افراد ظاہری لباس کی حیثیت رکھتے ہیں_(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی عزت و تکریم کی اور چونکہ انہوں نے اسلام کیلئے گذشتہ زمانہ میں جد و جہد کی تھی اور اسلام کی نشر و اشاعت کے راستہ میں فداکاری کا ثبوت دیا تھا اس بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنے سے قریب سمجھا اور اس طرح ان کی دلجوئی کی_

جانبازوں کا بدرقہ اور استقبال

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والی جنگ '' موتہ'' میں لشکر بھیجتے وقت رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشکر تیار کرلینے کے بعد لشکر کے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر بدرقہ کیلئے مدینہ سے ایک فرسخ تک تشریف لے گئے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہران کے ساتھ ادا کی اور لشکر کا سپہ سالار معین فرمایا، سپاہیوں کیلئے دعا کی اس کے بعد '' ثنیة الوداع'' نامی جگہ تک جو مکہ کے قریب ہے ان کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے لئے جنگی احکام صادر فرمائے _(۲)

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح پاکر واپس پلٹے تو اس موقع پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو فتح

___________________

۱) ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۳۲ ، ۱۳۴_

۲) السیرة الحلی ج۳ ص ۶۸_

۴۵

کی خبر دی اور مدینہ والوں کے ساتھ مدینہ سے تین میل دور جاکر ان کا استقبال کیا ، جب علیعليه‌السلام نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو گھوڑے سے اتر پڑے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گھوڑے سے اتر پڑے علیعليه‌السلام کی پیشانی کو بوسہ دیا ان کے چہرہ سے گردو غبار صاف کیا اور فرمایا: الحمدللہ یا علی الذین شد بک ازری و قوی بک ظہری ، اے علی خدا کی حمد ہے کہ اس نے تمہارے ذریعہ سے ہماری کمر مضبوط کی اور تمہارے وسیلہ سے اس نے دشمنوںپر ہمیں قوت بخشی اور مدد کی_(۱)

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فتح خیبر کی خبر دی گئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت خوش ہوئے اور حضرت علی کے استقبال کو آگے بڑھے ان کو گلے سے لگایا پیشانی کا بوسہ دیا اور فرمایا'' خدا تم سے راضی ہے تمہاری کوشش اور جد و جہد کی خبریں ہم تک پہونچیں ، میں بھی تم سے راضی ہوں '' علیعليه‌السلام کی آنکھیں بھر آئیںپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' اے علی یہ خوشی کے آنسوں ہیں یا غم کے '' ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا خوشی کے اور میں کیوں نہ خوش ہوں کہ آپ مجھ سے راضی ہیں ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' صرف میں ہی تم سے راضی نہیں ہوں بلکہ خدا، ملاءکہ ،جبرئیل اور میکائیل سب تم سے راضی ہیں_(۲)

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۳۵۷)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۲۸۹)_

۴۶

جہاد میں پیشقدمی کرنیوالوں کا اکرام

مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی وہ ' جنگ بدر '' تھی جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کی تھی وہ '' اہل بدر''کے عنوان سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے نزدیک خصوصیت کے حامل تھے_

حضرت پیغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمعہ کے دن '' صفہ'' پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ کم تھی ( رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار میں سے '' اہل بدر'' کی تکریم کررہے تھے) اسی حال میں اہل بدر میں سے کچھ لوگ منجملہ ان کے ثابت ابن قیس بزم میں وارد ہوئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روبرو کھڑے ہوکر فرمایا: السلام علیک ایہا النبی و رحمة اللہ و برکاتہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اس کے بعد ثابت نے مسلمانوں کو سلام کیا مسلمانوں نے بھی جواب سلام دیا وہ اسی طرح کھڑے رہے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جمع ہونے والی بھیڑ کی طرف دیکھتے رہے لیکن ان کو کسی نے جگہ نہیں دی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ بات بہت گراں گذری آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے مہاجرین و انصار میں سے چند افراد سے کہ جو اہل بدر میں سے نہیں تھے کہا : فلاں فلاں تم اٹھو پھر اہل بدر میں سے جتنے لوگ وہاں موجود تھے اتنے ہی دوسرے افراد کو اٹھاکر اہل بدر'' کو بٹھایا یہ بات ان لوگوں کو بری لگی جن کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اٹھایا تھا ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دکھائی دینے لگے ، منافقین میں سے کچھ لوگوں نے مسلمانوں سے کہا کہ کیا تم یہ

۴۷

تصور کرتے ہو کہ تمہارا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عدالت سے کام لیتاہے ، اگر ایسا ہے تو پھر اس جگہ انہوں نے عدالت سے کیوں نہیں کام لیا ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی جگہ سے کیوں اٹھا دیا جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب رہیں ؟ اور ان افراد کو ان کی جگہ پر کیوں بٹھا دیا جو بعد میں آئے تھے؟ اس وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی :

( یا ایها الذین آمنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوایفسح الله لکم و اذا قیل انشزوا فانشزوا ) (۱)

اے اہل ایمان جب تم سے کہا جائے کہ اپنی اپنی مجلس میں ایک دوسرے کیلئے جگہ کشادہ کردو تو خدا کا حکم سنو اور جگہ چھوڑ دو تا کہ خدا تہارے (مکان و منزلت) میں وسعت دے اور جب یہ کہا جائے کہ اپنی جگہ سے اٹھ جا و تب بھی حکم خدا کی اطاعت کرو(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اہل بدر کا احترام کرنا اسلامی معاشرہ میں بلند معنوی قدروں کی احیاء اور راہ خدا میں جہاد کے سلسلہ میں پیش قدمی کرنیوالوں کے بلند مقام کا پتہ دیتاہے اسی وجہ سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کے مطابق صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان '' اہل بدر'' خاص احترام اور امتیاز کے حامل تھے_

___________________

۱) (مجادلہ ۱۱)_

۲) ( بحار ج۱۷ ص ۲۴)_

۴۸

شہدا ء اور ان کے خاندان کا اکرام

سنہ ۸ ھ میں جنگ '' موتہ'' میں لشکر اسلام کی سپہ سالاری کرتے ہوئے '' جعفر ابن ابی طالب'' نے گھمسان کی جنگ میں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا میں دے دیئے اور زخموں سے چور ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بلند مرتبہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

''ان الله ابدل جعفرابیدیه جناحین یطیر بهما فی الجنة حیث شاء ''

خداوند عالم نے جعفر کو ان کے دونوںبازوں کے بدلے دو پر عنایت کئے ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں ان کے سہارے پرواز کرتے چلے جاتے ہیں _

اسی جنگ کے بعد جب لشکراسلام مدینہ واپس آیا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ساتھ ان کے استقبال کو تشریف لے گئے ، ترانہ پڑھنے والے بچوں کا ایک گروہ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرکب پر سوار چلے جارہے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : بچوں کو بھی سوار کرلو اور جعفر کے بچوں کو مجھے دیدو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ' ' عبداللہ بن جعفر '' کو جن کے باپ شہید ہوچکے تھے اپنی سواری پر اپنے آگے بٹھایا_

عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا: اے عبداللہ میں تم کو تعزیت و مبارکباد پیش کرتاہوں کہ تمہارے والد ملاءکہ کے ساتھ آسمان میں پرواز کررہے ہیں _

___________________

۱) (السیرة الحلبیة ج۲ ص ۶۸)_

۴۹

امام جعفر صادقعليه‌السلام نقل کرتے ہیں کہ جعفر ابن ابی طالب کی شہادت کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے بیٹے اور بیوی '' اسماء بنت عمیس'' کے پاس پہونچے، اسماء بیان فرماتی ہیں کہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے گھر میں وارد ہوئے تو اسوقت میں آٹا گوندھ رہی تھی حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمہارے بچے کہاں ہیں؟ میں اپنے تینوں بیٹوں'' عبداللہ'' ، ''محمد'' اور ''عون'' کو لے آئی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور سینہ سے لگایا آپ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہمارے ماں باپ فدا ہوجائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے بچوں کے ساتھ یتیموں کا سا سلوک کیوں کررہے ہیں کیا جعفر شہید ہوگئے ہیں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گریہ میں اضافہ ہوگیا ارشاد فرمایا: خدا جعفر پر اپنی رحمت نازل کرے یہ سنتے ہی صدائے نالہ وشیون بلند ہوئی بنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' فاطمہعليه‌السلام '' نے ہمارے رونے کی آواز سنی تو انہوں نے بھی گریہ فرمایا ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر سے باہر نکلے حالت یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے آنسووں پر قابو نہیں پارہے تھے اور یہ فرمایا کہ :'' گریہ کرنے والے جعفر پر گریہ کریں''_

اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: '' جعفر کے اہل و عیال کیلئے کھانا تیار کرو اور ان کے پاس لے جاؤ اسلئے کہ وہ لوگ آہ و فغان میں مشغول سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح

___________________

۱) (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۸۹) _

۵۰

بات سنت قرار پائی خود عبداللہ بن جعفر کے قول کے مطابق '' وہ لوگ تین دن تک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر مہمان رہے _

ہمارے معاشرہ میں آج جو رواج ہے وہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برعکس ہے ہم آج دیکھتے ہیں کہ مصیبت زدہ کنبہ کے اقرباء اور رشتہ دار چند دنوں تک عزادار کے گھر مہمان رہتے ہیں ، جبکہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زندہ کرنا کرنا ہمارا فریضہ ہے_

ایمان یا دولت

تاریخ میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پیغمبروں کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے اور کان دھرنے والے زیادہ تر محروم اور مصیبت زدہ افراد ہی ہوتے تھے دولت مندوں اور مستکبرین نے خدا کے پیغمبروں سے ہمیشہ مقابلہ کیا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتے رہے اگر انھوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ظاہراً ایمان قبول کرلیا تو اسی برتری کے جذبہ کی بناپر دوسروں سے زیادہ امتیاز کے طلبگار رہے اشراف و قباءل عرب کے رئیسوں کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے اورفقیر اور محروم مومنین سے مساوی سلوک کیا کرتے تھے بلکہ غلاموں اور ستائے ہوئے محروم افراد پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیادہ توجہ فرماتے تھے اسلئے کہ ان کے پاس خالص ایمان تھا اور راہ اسلام میں دوسروں سے زیادہ یہ افراد فداکاری کا مظاہرہ کرتے تھے_

۵۱

ایک دن، سلمان، بلال، عمار اور غلاموں اور نادار مسلمانوں کی ایک جماعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھی بزرگان قریش اور نئے مسلمان ہونے والوں میں سے چند افراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاش ناداورں اور غلاموں کی اس جماعت کو آپ الگ ہی رکھتے یا ان کو اور ہم لوگوں کو ایک ہی نشست میں جگہ نہ دیتے آخر اس میں حرج ہی کیا ہے جب ہم یہاں سے چلے جاتے تب یہ لوگ آتے ، اس لئے کہ دور و نزدیک کے اشراف عرب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے ہیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہم کو اور ان لوگوں کو ایک ہی نشست میں دیکھیں_

فرشتہ وحی ان کے جواب میں آیت لے کر نازل ہوا :

( و لا تطرد الذین یدعون ربهم بالغداوة و العشی یریدون وجهه ما علیک من حسابهم منشئ و مامن حسابک علیهم من شئ فتطردهم فتکون من الظالمین ) (۱)

جو لوگ صبح و شام خدا کو پکارتے ہیں اور جنکا مقصود خدا ہے ان کو اپنے پاس سے نہ ہٹاؤ اسلئے کہ نہ تو آپ کے ذمہ ان کا حساب اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے لہذا تم اگر ان خداپرستوں کو اپنے پاس سے بھگادو گے تو ظالمین میں سے ہوجاؤ گے(۲)

___________________

۱) (انعام ۲۵) _

۲) ( ناسخ التواریخ ج۴ ص ۸۳)_

۵۲

اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء مؤمنین پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عنایت اور زیادہ ہوگئی _

ثروت مند شرفاء یا غریب مؤمن

سہل بن سعد سے منقول ہے کہ ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گذرا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے سوال کیا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا کہ وہ شرفاء میں سے ہے کسی شاءستہ انسان کے یہاں یہ پیغام عقد دے تو لوگ اسکو لڑکی دے دیں گے ، اگر کسی کی سفارش کردے تو لوگ اسے قبول کریں گے ، اگر یہ کوئی بات کہے تو لوگ اسکو سنیں گے ، حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاموش ہوگئے تھوڑی دیر بعد ایک غریب مسلمان کا ادھر سے گذرہوا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا بہتر یہی ہے کہ اگر یہ لڑکی مانگے تو لوگ اسکو لڑکی نہ دیں ، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اسکی سفارش نہیں سنی جائے، اگر یہ کوئی بات کہے تو اس پر کان نہیں دھرے جائیں گے _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' یہ اس مالدار شخص اور اسی جیسی بھری ہوئی دنیا سے تنہا بہتر ہے_(۱)

___________________

۱) (پیامبر رحمت صدر بلاغی ص ۶۱)_

۵۳

خلاصہ درس

۱)امت اسلام کی رہبری اور الہی پیغام پہونچانے کا منصب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد تھا اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مختلف طبقات کے افراد و اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان لوگوں کے ساتھ آپکا کردار ساز سلوک توحید کی طرف دعوت کا سبب تھا_

۲)صاحبان فضیلت و کرامت کے ساتھ چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں رسول اکرم اچھے اخلاق اور احترام سے پیش آتے تھے_

۳)جن لوگوں کو اسلام میں سبقت حاصل ہے اوراسلام کی نشرو اشاعت میں جاں نثاری اور کوشش کی ہے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کا احترام کیا اور ان کو اپنے سے بہت نزدیک جانا_

۴) اسلامی معاشرہ میں معنویت کی اعلی قدروں کے احیاء کیلئے پیش قدمی کرنیوالوں اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں '' اہل بدر'' کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عزت سے پیش آتے اور ان لوگوں کیلئے خاص امتیاز و احترام کے قاءل رہے_

۵) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دولت مندوں سے زیادہ غریب مؤمنین پر لطف و عنایت کی اس لئے کہ یہ خالص ایمان کے حامل تھے اور اسلام کی راہ میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جاں نثاری کا ثبوت دیتے تھے_

)مؤلفة القلوب ایک وسیع المعنی لفظ ہے جو کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کیلئے بھی بولا جاتاہے اور ان کفار کیلئے بھی جن کو اسلام کی طرف بلانا مقصود ہو تا کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی ترغیب دی جائے _(۱)

___________________

۱)جواہر الکلام ج۱ ص ۳۴۱ طبع_

۵۴

سوالات :

۱_ مقصد بعثت کے سلسلہ میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول پیش کیجئے؟

۲_ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک اور برتاو کا معاشرہ پر کیا اثر پڑا؟ ایک مثال کے ذریعہ اختصار سے لکھئے؟

۳_مجاہدین '' فی سبیل اللہ '' کے ساتھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا ؟ اس کے دو نمونے پیش کیجئے؟

۴_ شہداء کے گھر والوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا سلوک کرتے تھے تحریر فرمایئےاور یہ بھی بیان کیجئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس عمل کو اپنی سنت قرا ردیا ہے ؟

۵_ امیروں کے مقابل غریبوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کو بیان کرتے ہوئے ایک مثال پیش کیجئے_

۵۵

چوتھا سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانیاں)

محبت اور مہربانی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وہ اخلاقی اصول تھا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاشرتی معاملات میں ظاہر ہوتا تھا_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رحم و عطوفت کا داءرہ اتنا وسیع تھا کہ تمام لوگوں کو اس سے فیض پہنچتارہتا تھا گھر کے نزدیک ترین افرادسے لے کر اصحاب باوفا تک نیز بچے' یتیم ' گناہگار' گمراہ اور دشمنوں کے قیدی افراد تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحمت کے سایہ میں آجاتے تھے یہ رحمت الہی کا پرتو تھاجو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود مقدس میں تجلی کیے ہوئے تھا_

( فبما رحمة من الله لنت لهم ) (۱)

رحمت خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مہربان بنادیا _

گھر والوں سے محبت و مہربانی

جب گھر کا ماحول پیار و محبت اور لطف و عطوفت سے سرشار ہوتاہے تو وہ مستحکم ہوکر

___________________

۱) (آل عمران ۱۵۹/) _

۵۶

بافضیلت نسل کے ارتقاء کا مرکز بن جاتاہے_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر محبت و مہربانی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ' گھر کے اندر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ہاتھوں سے کپڑے سیتے ' دروازہ کھولتے بھیڑ اور اونٹنی کا دودھ دوہتے جب کبھی آ پکا خادم تھک جاتا تو خودہی جو یاگیہوں سے آٹا تیار کرلیتے' رات کو سوتے وقت وضو کا پانی اپنے پاس رکھ کر سوتے' گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام خود انجام دیتے اور اپنے خاندان کی مشکلوں میں ان کی مدد کرتے(۱)

اسی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''خیر کم خیر کم لاهله و انا خیرکم لاهلی (۲) یا 'خیارکم ' خیر کم لنساءه و انا خیر لکم لنسائی'' (۳)

یعنی تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں یا یہ کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں_

خدمتکار کے ساتھ مہربانی

اپنے ماتحت افراد اور خدمتگاروں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا محبت آمیز سلوک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانی کا

___________________

۱) (سنن النبی ص ۷۳)_

۲) (مکارم الاخلاقی ص ۲۱۶)_

۳) (محجة البیضاء ج۳ ص۹۸)_

۵۷

ایک دوسرا رخ ہے ''انس بن مالک'' کہتے ہیں کہ : '' میںنے دس سال تک حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے کلمہ '' اف'' تک نہیں فرمایا_ اور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا _ انس کہتے ہیں کہ :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شربت سے افطار فرماتے تھے اور سحر میں دوسرا شربت نوش فرماتے تھے اور کبھی تو ایسا ہوتا کہ افطار اور سحر کیلئے ایک مشروب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی وہ مشروب یا تو دودھ ہوتا تھا یا پھرپانی میں بھیگی ہوئی روٹی ' ایک رات میں نے مشروب تیار کرلیا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ اصحاب میں سے کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کردی ہوگی' یہ سوچ کر میں وہ مشروب پی گیا' تھوڑی دیر کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ :حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے افطار کرلیا؟کیا کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی تھی ؟ انھوں نے کہا : نہیں ' اس رات میں صبح تک غم و اندوہ میں ایسا مبتلا رہا کہ خدا ہی جانتا ہے اسلئے کہ ہر آن میں مجھے یہ کھٹکا لگا رہا کہ کہیں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ مشروب مانگ نہ لیں اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مانگ لیں گے تو میں کہاں سے لاوں گا یہاں تک کہ صبح ہوگئی حضرت نے روزہ رکھ لیا لیکن اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مشروب کے بارے میں مجھ سے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور اسکا کبھی کوئی ذکر نہیں فرمایا:(۱)

___________________

۱) (منتھی الامال ج ص۱۸ ،مطبوعہ کتابفروشی علمیہ اسلامیہ)_

۵۸

امام زین العابدینعليه‌السلام کا خادم

امام زین العابدینعليه‌السلام نے اپنے غلام کو دو مرتبہ آواز دی لیکن اس نے جواب نہیںدیا،تیسری بار امامعليه‌السلام نے فرمایا: کیا تم میری آواز نہیں سن رہے ہو؟اس نے کہا کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا: پھر جواب کیوں نہیں دیتے؟ اس نے کہا کہ چوں کہ کوئی خوف نہیں تھا اسلئے میں نے اپنے کو محفوظ سمجھا، امام نے فرمایا: ''خدا کی حمد ہے کہ میرے غلام اور نوکر مجھ کو ایسا سمجھتے ہیں اور اپنے کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنے دل میں میری طرف سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے''(۱)

اصحاب سے محبت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملت اسلامیہ کے قاءد ہونے کے ناتے توحید پر ایمان لانے والوں اور رسالت کے پروانوں پر خلوص و محبت کی خاص بارش کیا کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے حالات معلوم کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے اور ان اگر تین دن گزرے میں کسی ایک صحابی کو نہ دیکھتے تو اسکے حالات معلوم کرتے اور اگر یہ خبر ملتی تھی کہ کوئی سفر میں گیا ہوا ہے تو اس کے لئے دعا کرتے تھے اور اگر وہ وطن میں ہوتو ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے_ اگر وہ بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کرتے تھے(۲)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۴۶ ص ۵۶)_

۲) (سنن النبی ص ۵۱)_

۵۹

جابر پر مہربانی

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ : میں انیس جنگوںمیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا ، ایک جنگ میں جاتے وقت میرااونٹ تھک کر بیٹھ گیا،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، کمزور افراد کو قافلہ تک پہونچاتے اور ان کے لئے دعا فرماتے تھے،حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے نزدیک آئے اور پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا میں جابر ہوں میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوجائیں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا میرا اونٹ تھک گیا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمھارے پاس عصا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عصا لے کر اونٹ کی پیٹھ پر مارا اور اٹھاکر چلتا کردیا پھر مجھ سے فرمایا : سوار ہوجاؤ جب میں سوار ہوا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعجاز سے میرا اونٹ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ سے آگے چل رہا تھا، اس رات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۲۵ مرتبہ میرے لئے استغفار فرمایا(۱)

بچوں اور یتیموں پر مہربانی

بچہ پاک فطرت اور شفاف دل کا مالک ہوتاہے اس کے دل میں ہر طرح کے بیج کے پھولنے پھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے بچہ پر لطف و مہربانی اور اسکی صحیح تربیت اس کے اخلاقی نمو اوراندرونی استعداد کے پھلنے پھولنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہ بات ان یتیموں

___________________

۱) (حیواة القلوب ج۲ ص ۱۲۷)

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

بحث کا آخری نتیجہ:

۱_ قرآن مجید نے وضو میں اصلی فریضہ پاؤں کے مسح کو قرار دیا ہے ( سورہ مائدہ آیت ۶) اس طرح اہلبیت کی تمام روایات اور انکی اتباع کرنے والے تمام امامیہ فقہاء کا فتوی بھی اسی آیت کے مطابق ہے_

۲: اہلسنت کے فقہاء ،وضومیں اصلی فریضہ غالباً پاؤں دھونے کو قرار دیتے ہیں لیکن ان میں اکثر اجازت دیتے ہیں کہ اختیاری صورت میں جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے البتہ ان میں سے بعض اس مسح کو ضرورت کے موارد میں منحصر کرتے ہیں_

۳: جو روایات اہلسنت کے منابع میں جوتوں پر مسح کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں اس قدرمتضاد و متناقض ہیں کہ ہر محقق کو شک میں ڈال دیتی ہیں_ بعض روایات بغیر کسی قید و شرط کے جوتوں پر مسح کی اجازت دیتی ہیں، بعض کلی طور پر منع کرتی ہیں جبکہ بعض ضرورت کے مواقع کے ساتھ مختص کرتی ہیں اور اس کی مقدار سفر میں تین دن اور حضر میں ایک دن بیان کرتی ہیں_

۴: روایات کے درمیان بہترین جمع کا طریقہ یہ ہے کہ اصلی حکم پاؤں پر مسح کرنا ہے (اور انکے عقیدہ کے مطابق پاؤں دھونا ہے) اور ضرورت و اضطرار کے وقت جیسے جنگ اور دشوار سفر کہ جس میں نعلین کے بجائے بند جوتے (انکی تعبیر کے مطابق خُفّ) پہنتے تھے اور اُن کا اتارنا بہت مشکل تھا جوتوںپر ( مسح جبیرہ کی مثل) مسح کرتے تھے_

۱۸۱

۹

بسم الله سورة الحمد کا جزء ہے

۱۸۲

ایک تعجب آور نکتہ :

جب شیعیان اہلبیت (ع) خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں تو اس وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے جس کا حکم ائمہ اہلبیت(ع) نے دیا ہے وہ اہلسنت برادران کی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہوئے مسجدالحرام اور مسجد النبّی(ص) میں با جماعت نماز کا ثواب حاصل کرتے ہیں_ تو اس وقت سب سے پہلی چیز جو انکی توجہ کو اپنی طرف جلب کرتی ہے یہ ہے کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام جماعت سورة الحمد کی ابتداء میں یا تو بالکل بسم اللہ پڑھتے نہیں ہیں یا اگر پڑھتے ہیں تو آہستہ اور مخفی انداز میں پڑھتے ہیں حتی کہ مغرب و عشاء کی نماز میں جنہیں با آواز بلندپڑھا جاتا ہے _

حالانکہ دوسری طرف وہ اس بات کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن مجید کے تمام نسخوں میں کہ جو اکثر مکہ مکرّمہ سےشائع ہوتے ہیں سورة حمد کی سات آیات ذکر کی گئی ہیں جن میں سے ایک بسم اللہ ہے_ یہ بات سب کے لیے تعجب کا باعث بنتی ہے کہ قرآن مجید کی سب سے اہم ترین آیت '' بسم اللہ'' کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ او رجس وقت لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں اور ہم انکے سامنے اس بارے میں اہلسنت کے مذاہب و روایات کے اختلاف کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے تعجب میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے_

اس مقام پر ضروری ہے کہ پہلے ہم اس مسئلہ میں موجود فتاوی اور اس کے بعد بحث میں وارد ہونے والی مختلف روایات کی طرف رجوع کریں_

۱۸۳

اس مسئلہ میں مجموعی طور پر اہلسنت کے فقہاء تین گروہوں پر مشتمل ہیں_

۱_ بعض علما کہتے ہیں کہ سورہ حمد کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنا چاہیے_

جہری نمازوں میں بلند آواز کے ساتھ پڑھنا چاہیے اور اخفاتی نمازوں میں آہستہ پڑھنا چاہیے_ یہ امام شافعی اور انکی پیروی کرنے والے علما ہیں _

۲_ بعض علما کہتے ہیں کہ بسم اللہ پڑھی چاہیے لیکن ہمیشہ دل میں یعنی آہستہ پڑھنی چاہیے_ یہ حنبلی علماء ( امام احمد ابن حنبل کے پیروکاروں) کا نظریہ ہے_

۳_ ایک گروہ بسم اللہ پڑھنے کو اصلاً ممنوع سمجھتا ہے_ یہ امام مالک کے پیروکار ہیں_ امام ابوحنیفہ کے پیروکاروں کی نظر بھی مالکی مذہب والوں کے قریب ہے_

اہلسنت کے مشہور فقیہ ''ابن قدامہ'' اپنی کتابمغنی میں یوں رقمطراز ہیں:

'' انّ قراء ة بسم الله الرحمن الرّحیم مشروعةً فی اوّل الفاتحة و اوّل کلّ سورة فی قول ا کثر ا هل العلم و قال مالک و الا وزاعی لایقرؤها فی اول الفاتحة و لا تختلف الروایة عن احمد ان الجهر بها غیر مسنون و یروی عن عطاء و طاووس و مجاهد و سعید بن جبیر الجهر بها و هو مذهب الشافعی ...، (۱)

سورہ حمد اور ہردوسری سورت کے آغاز میںبسم الله الرحمن الرحیم کا پڑھنا اکثر

____________________

۱) المغنی ابن قدامہ، جلد ۱ ص ۵۲۱_

۱۸۴

اہلسنت کے نزدیک جائز ہے لیکن مالک اور اوزاعی ( اہلسنت کے فقہائ) نے کہا ہے کہ سورة حمد کی ابتداء میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے ( اور بسم اللہ کے بالجہر پڑھنے کے بارے میں ) جتنی روایات بھی امام احمد بن حنبل سے نقل ہوئی ہیں سب کی سب کہتی ہیں کہ بسم اللہ کو بالجہر( بلند آواز کے ساتھ) پڑھنا سنت نہیں ہے اور عطا، طاووس، مجاہد اور سعید بن جبیر سے روایت نقل ہوئی ہے کہ بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا چاہیے اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے''

اس عبارت میں انکے تینوں اقوال نقل ہوئے ہیں :

تفسیر ''المنیر'' میں وھبہ زحیلی نے یوں لکھا ہے_

''قال المالکيّة و الحنفيّه لیست البسملة بآیة من الفاتحة و لا غیرها الّا من سورة النمل

الّا ا ن الحنفيّة قالوا یقرء المنفرد بسم الله الرحمن الرّحیم مع الفاتحة فی کلّ رکعة: سرّاً

و قال الشافعيّة و الحنابلة البسملة آیة من الفاتحة یجب قرائتها فی الصلوة الّا ا ن الحنابلة قالوا کالحنفيّة یقرؤ بها سرّاً و لایجهر بَها و قال الشافعيّة: یسّرّ فی الصلوة السرّیة و یجهر بها فی الصلاة الجهريّة(۱)

____________________

۱)تفسیر المیز، جلد ۱، ص ۴۶_

۱۸۵

امام مالک اور ابوحنیفہ کے پیروکار کہتے ہیں کہ بسم اللہ سورہ حمد اور قرآن مجید کی دیگر سورتوں کی جزء نہیں ہے صرف سورہ نمل میں ذکر ہونے والی آیت جو بسم اللہ پر مشتمل ہے سورت کا جزء ہے

لیکن امام ابوحنیفہ کے پیروکار کہتے ہیں کہ جو شخص فرادی نماز پڑھ رہا ہے وہ ہر رکعت میں صرف سورہ حمد کے ساتھ آہستہ آواز میں بسم اللہ پڑھے لیکن امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے پیروکار کہتے ہیں:

کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے اور نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے اس فرق کے ساتھ کہ حنبلی کہتے ہیں کہ بسم اللہ کو آہستہ پڑھا جائے، بالجہر پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن شافعی مذہب والے کہتے ہیں کہ اخفاتی نمازوں ( ظہر و عصر کی نماز) میں آہستہ پڑھا جائے اور بالجہر نمازوں ( مغرب، عشا اور صبح کی نماز) میں بلند آواز سے پڑھا جائے ''

ان اقوال میں شافعی مذہب والوں کا قول: شیعہ فقہا کے نظریہ سے نزدیک ہے_ اس فرق کے ساتھ کہ ہمارے علماء تمام نمازوں میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا مستحب سمجھتے ہیں اور سورہ حمد میں بسم اللہ پڑھنے کو متفقہ طور پر واجب سمجھتے ہیں اور دیگر سورتوں میں مشہور و معروف قول بسم اللہ کا جزء سورہ ہونا ہے_

سچ تو یہ ہے کہ ایک غیرجانبدار محقق واقعاً حیرت میں ڈوب جاتاہے_

چونکہ وہ دیکھتاہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے پورے ۲۳ سال اپنی اکثر نمازوں کو جماعت کے ساتھ اور سب کے سامنے پڑھا_ اور سب اصحاب نے آنحضرت(ص) کی نمازوں کو اپنے کانوں

۱۸۶

سے سنا لیکن تھوڑا سا عرصہ گزرنے کے بعد اتنا شدید اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ بسم اللہ کا پڑھنا اصلا ممنوع ہے جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ اسکا پڑھنا واجب ہے، ایک گروہ کہتاہے کہ آہستہ پڑھا جائے جبکہ دوسرا گروہ کہتاہے کہ جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے_

کیا اس عجیب اور ناقابل یقین اختلاف سے اس بات کا اندازہ نہیں ہوتاہے کہ یہ مسئلہ عادی نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ کی پشت پر ایک سیاسی گروہ کا ہاتھ ہے جس نے متضاد احادیث کو جعل کیا اور انہیں رسالتمآب کی طرف نسبت دے دی ہے_

امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک حدیث نقل کی ہے جو اس راز سے پردہ اٹھاتی ہے وہ کہتے ہیں ; مطرف نے '' عمران بن حصین'' سے نقل کیا ہے کہ جب اس نے بصرہ میں حضرت علی (ع) کے پیچھے نماز پڑھی، تو کہا

'' ذکرنا هذا الرجل صلاة کنّا نصلیها مع رسول الله ''

اس مرد نے اپنی نماز کے ذریعے ہمیں رسولخدا(ص) کی اقتداء میں پڑھی ہوئی نمازوں کی یاد دلا دی ہے_(۱)

اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز حتی نماز بھی تبدیل ہوگئی تھی امام شافعی مشہور کتاب''الام'' میں ''وہب بن کیسان'' سے نقل کرتے ہیں کہ '' کل سنن رسول الله (ص) قد غیرّت حتی الصلاة'' پیغمبر اکرم(ص) کی تمام سنتوں حتی نماز کو تبدیل کردیا گیا(۲)

____________________

۱) صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۹۰_

۲) الامّ، جلد ۱ ص ۲۶۹_

۱۸۷

بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنے کے بارے میں احادیث نبوی

اس مسئلہ کے بارے میں اہلسنت کی معروف کتب میں مکمل طور پر مختلف اقسام کی احادیث نقل ہوئی ہیں_ یہی احادیث انکے فتاوی میں اختلاف کا سبب بنی ہے اور عجیب یہ ہے کہکبھی ایک ہی مشخص راوی نے متضاد روایات نقل کی ہیں_ جنکے نمونے آپ آئندہ احادیث میں ملاحظہ فرمائیںگے_

پہلی قسم کی احادیث:

اس قسم میں وہ روایات ہیں جو نہ صرف بسم اللہ کو سورہ حمد کا جزء شمار کرتی ہیں بلکہ بلند آواز میں پڑھنے کو بھی مستحب (یا ضروری) قرار دیتی ہیں اس گروہ میں ہم پانچ مشہور راویوں کی پانچ احادیث پر اکتفاء کرتے ہیں:

۱_ یہ حدیث امیر المؤمنین علی (ع) سے نقل ہوئی ہے _ انکا مقام و منزلت سب پر عیاں ہیں کہ وہ جلوت و خلوت اور سفر وحضر میں رسول خدا(ص) کے ساتھ رہے ہیں_دار قطنی نے اپنی کتاب سنن میں آ پ (ع) سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ

'' کان النبی (ص) یجهر ببسم الله الرحمن الرحیم فی السورتین جمیعاً'' (۱)

پیغمبر اکرم(ص) دو سورتوں (حمد اور بعد والی سورت) میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھتے تھے''

____________________

۱) سنن دار قطنی، جلد ۱ ص۳۰۲، اسی حدیث کو سیوطی نے درّ المنثور میں جلد ۱ ص ۲۲ پر نقل کیا ہے _

۱۸۸

۲_ یہ روایت انس بن مالک سے نقل ہوئی ہے کہ جو پیغمبر اکرم(ص) کے خصوصی خادم اور جوانی سے ہی آپ(ص) کی خدمت میں پہنچ گئے تھے_ حاکم نے مستدرک میں اس روایت کو نقل کیا ہے _ وہ کہتے ہیں :

'' صلّیت خلف النبی و خلف ابی بکر و خلف عمر و خلف عثمان و خلف علی کلَّهم کانوا یجهرون بقرائة بسم الله الرحمن الرحیم'' (۱)

۳ _ حضرت عائشےہ عام طور پر شب و روز پیغمبر اکرم(ص) کے ہمراہ تھیں _دارقطنی کی روایت کے مطابق وہ فرماتی ہیں کہ :

''ان رسول الله (ص) کا ن یجهر ببسم الله الرحمن الرحیم'' (۲)

رسول خدا(ص) بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے''

۴_ اہلسنت کے معروف راوی جناب ابوہریرة کہ جن کی بہت سی روایات کو صحاح ستّہ میں نقل کیا گیا ہے یوں کہتے ہیں'' کان رسول الله صلی الله علیه و آله یجهر ببسم الله الرحمن الرّحیم فی الصلوة'' کہ رسولخدا(ص) نماز میں بسم اللہ الرحمن الرّحیم بلند آواز کے ساتھ پڑھا کرتے تھے_

____________________

۱) مستدرک الصحیحین، جلد ۱ ،ص ۲۳۲، میں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی کے پیچھے نمازیں پڑھیں سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے_مترجم

۲) الدّر المنثور جلد ۱ ص ۲۳_

۱۸۹

یہ حدیث تین معروف کتب '' السنن الکبری''(۱) '' مستدرک حاکم''(۲) اور ''سنن دار قطنی''(۳) میں نقل ہوئی ہے_

۵_ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جبرائیل امین نے بھی پیغمبر اکرم(ص) کو نماز کی تعلیم دیتے وقت بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھا_ دار قطنی کی نقل کے مطابق نعمان بن بشیر یوں کہتے ہیں''اَمَّنی جبرئیل عند الکعبة فجهر ببسم الله الرحمن الر ّحیم'' جبرائیل امین نے خانہ کعبہ کے پاس میری امامت کی ( مجھے نماز پڑھائی) اور بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھا(۴)

دلچسپ یہ ہے کہ بعض معروف علماء نے بسم اللہ بالجہر پڑھنے والی احادیث کو نقل کرنے کے ساتھ یہ تصریح کی ہے کہ ان احادیث کے راوی عام طور پر ثقہ ہیں جیسے حاکم نے مستدرک میں اس بات کی تصریح کی ہے_

یہاں ہمیں اس بات کا اضافہ کرنا چاہیے کہ مکتب اہلبیتکی فقہ و حدیث کی کتب میں بسم اللہ کو سورة حمد کی ایک آیت شمار کیاگیا ہے اور اس بارے میں احادیث تقریباً متواتر ہیں اور اسی طرح بہت سی احادیث میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنے کے بارے میں تصریح کی گئی ہے_

ان روایات کے بارے میں مزید آگاہی کے لیئے کتاب ''وسائل الشیعہ'' میں ''نماز میں قراء ت'' والے ابواب میں سے باب نمبر ۱۱ ،۱۲،۲۱ ،۲۲ کی طرف رجوع کیا جائے_ وہاں دسیوں

____________________

۱) السنن الکبری جلد ۲ ، ص ۴۷_

۲) مستدرک الصحیحین، جلد ۱، ص ۲۰۸_

۳) دار قطنی،جلد ۱ ،ص ۳۰۶ _

۴) سنن دار قطنی، جلد ۱، ص ۳۰۹_

۱۹۰

روایات آئمہ اہلبیت (ع) سے نقل کی گئی ہیں اور دیگر معتبر کتب جیسے کافی، عیون اخبار الرّضا(ع) ، اور مستدرک الوسائل میں ( نماز میں قرائت قرآن کے مربوطہ ابواب میں ) بھی بہت سی روایات ذکر کی گئی ہیں_

حدیث ثقلین کی روشنی میں کہ جسے فریقین نے نقل کیا ہے اور اس میں حکم دیا گیا ہے کہ میرے بعد قرآن مجید اور میرے اہلبیت(ع) کا دامن تھام کر رکھنا تا کہ گمراہی سے بچے رہو_ کیا ہمیں اس قسم کے اختلاف انگیر مسئلہ میں مذہب اہلبیت کی پیروی نہیں کرنا چاہیے (تا کہ گمراہی سے محفوظ رہیں )؟

دوسری قسم کی احادیث:

یہ قسم ان احادیث پرمشتمل ہے جو بسم اللہ کو سورہ حمد کا جزء شمار نہیں کرتیں یا بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھنے سے منع کرتی ہیں_

۱_ یہ حدیث صحیح مسلم میں قتادہ سے نقل ہوئی ہے جس میں انس کہتے ہیں کہ:

'' صلّیت مع رسول الله (ص) و ابی بکر و عمر و عثمان فلم اسمع احداً منهم یقرء بسم الله الرحمن الرّحیم'' (۱)

میں نے رسولخدا (ص) ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی میں نے کسی سے نہیں سنا کہ انہوںنے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرّحیم پڑھی ہو''

____________________

۱)صحیح مسلم، جلد ۲، '' باب حجة من قال لا یجہر بالبسملة'' ص ۱۲_

۱۹۱

توجہ کرنی چاہیےکہ اس حدیث میں حضرت علی (ع) کی قراء ت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے

واقعاً تعجب آور ہے کہ ایک معّین شخص جیسے انس ایک مرتبہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولخدا(ص) ، خلفائے ثلاثہ اور حضرت علی (ع) کے پیچھے نماز پڑھی_ سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے_ دوسری جگہ وہی کہتے ہیں کہ میں نے رسولخدا(ص) اور خلفائے ثلاثہ کے پیچھے نماز پڑھی کسی نے بھی نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھی چہ جائیکہ بلند آواز سے پڑھنا_

کیا ہرصاحب فہم یہاں یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہوتا کہ پہلی حدیث کو بے اثر کرنے کے لیئے جاعلین حدیث نے ( جیسا کہ عنقریب بیان کیا جائیگا) اس دوسری حدیث کوجعل کیا ہے اور اسے انس کی طرف نسبت دی ہے اور چونکہ حضرت علی (ع) کا بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا مشہور ہے اور انکے پیروکار جہاں کہیں بھی ہیں یہی کام کرتے ہیں اس لیے ان کا نام نہیں لیا گیا ہے تاکہ ڈھول کاپول نہ کھل جائے؟

۲_ سنن بیہقی میں عبداللہ بن مغفل سے نقل ہوا ہے، وہ کہتے ہیں:

''سمعنی ا بی و ا نا ا قرا بسم الله الرحمن الرّحیم فقال; ا ی بنيّ محدث؟ صلَّیتُ خلف رسول الله صلی الله علیه و آله و ا بی بکر و عمر و عثمان فلم ا سمع ا حداً منهم جهر بسم الله الرّحمن الرّحیم'' (۱)

____________________

۱) السنن الکبری، جلد ۲ ، ص ۵۲_

۱۹۲

میرے والد نے مجھے نماز میں بسم اللہ پڑھتے سنا توکہنے لگے: کیا بدعت ایجاد کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی ان میں سے کسی کو میں نہیں دیکھا کہ بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھتا ہو'' _

اس حدیث میں بھی حضرت علی _ کی نماز کا تذکرہ نہیں ہوا ہے

۳_ جناب طبرانی کی کتاب'' المعجم الوسیط'' میں ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ :

'' کان رسول الله صلی الله علیه و آله اذا قرء بسم الله الرّحمن الرّحیم هزء منه المشرکون و قالوا محمد یذکرا له الیمامة_ وکان مسیلمة یسمی ''الرّحمن'' فلمّا نزلت هذه الآیة امر رسول الله صلی الله علیه و آله ان لا یجهر بها؟

کہ رسولخدا(ص) جب نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے تو مشرکین تمسخر کرتے تھے_ کیونکہ یمامہ کی سرزمین پر خدائی کا دعوی کرنے والے مسیلمہ کا نام رحمن تھا_ اس لیئے مشرکین کہتے تھے کہ محمد(ص) کی مراد وہی یمامہ کا خدا ہے_ اس وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے حکم دے دیا تھا کہ اس آیت کو بلند آواز سے نہ پڑھا جائے ''

اس حدیث میں جعلی ہونے کے آثار بالکل نمایاں ہیں کیونکہ :

اولّا: رحمن کاکلمہ قرآن مجید میں صرف بسم اللہ الرّحمن الرّحیم میں نہیں آیا ہے بلکہ اور بھی ۵۶ مقامات پر ذکر ہوا ہے_ صرف سورہ مریم میں ہی اس کا سولہ۱۶ مرتبہ تکرار ہوا ہے_ اگر

۱۹۳

یہی وجہ ہے تو قرآن مجید کی دوسری سورتوں کو بھی نہیں پڑھنا چاہیے، کہیں مشرکین مسلمانوں کامذاق نہ اڑائیں _

ثانیاً : مشرکین تو قرآن مجید کی تمام آیات کا تمسخرکرتے تھے جیسا کہ متعدد آیات میں اس بات کا تذکرہ کیاگیاہے من جملہ سورہ نساء کی چالیس نمبر آیت ''اذا سمعتم آیات الله یکفر بها و يُستهزا بها فلا تقعدوا معهم''

مشرکین نماز کے لیے دی جانے والی اذان کا بھی مذاق اڑاتے تھے جیسے سورہ مائدہ کی ۵۸ نمبر آیت میں تذکرہ ہوا ہے''و اذا نادیتم الی الصلوة اتخذوها هُزُواً '' کیا پیغمبر اکرم(ص) نے اذان کے ترک کرنے کا بھی حکم دیا ہے_ یا اذان آہستہ کہنے کا حکم دیا ہے کہ کہیں مشرکین مذاق نہ اڑائیں _

بنیادی طور پر مشرکین خود پیغمبر اکرم(ص) کا استہزاء کرتے تھے جیسا کہ اس آیت میں تذکرہ ہوا ہے''و اذا آک الذین کفروا ان یتّخذونک الّا هُزُواً'' (۱)

اگر یہی دلیل ہے تو خود پیغمبر اکرم(ص) کو لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوجانا چاہیے تھا_

ان سب ادلّہ سے قطع نظر اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو بڑی صراحت کے ساتھ وعدہ دیا تھا کہ آپ(ص) کو استہزا کرنے والون کے شر سے محفوظ رکھے گا'' انّا کفیناک المستهزئین'' (۲)

ثالثاً: مسیلمہ کوئی ایسی شخصیت نہیں تھا جس کو اسقدر اہمیت دی جاتی کہ پیغمبر اکرم(ص) اس کا نام

____________________

۱) سورة انبیاء آیت ۳۶_

۲) سورة حجرات آیت ۹۵_

۱۹۴

رحمن ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کی آیات کو مخفی کرتے یا آہستہ پڑھتے_ خاص طور پر اس بات کیطرف بھی توجہ رہے کہ مسیلمہ کے دعوے ہجرت کے دسویں سال منظر عام پر آئے تھے اوراس وقت اسلام مکمل طور پر قوت اور قدرت پیدا کرچکا تھا_

ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث گھڑنے والے اپنے کام میں مہارت نہیں رکھتے تھے اور نا آگاہ تھے_

۴: ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب '' مصنف'' میں ابن عباس سے نقل کیا ہے '' الجہر ببسم الله الرحمن الرّحیم قرائة الا عراب'' بسم اللہ کو بلند آواز کے ساتھ پڑھنا عرب کے بدّووں کی عادت تھی''(۱)

حالانکہ ایک اور حدیث میں علی ابن زید بن جدعان نے بیان کیا ہے کہ ''عبادلہ'' ( یعنی عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر) تینوں بسم اللہ کوبلند آواز کے ساتھ پڑھتے تھے''(۲)

اس سے بڑھ کر حضرت علی _ بسم اللہ کو ہمیشہ بالجہر پڑھتے تھے_ یہ بات تمام شیعہ و سنی کتب میں مشہور ہے کیا علی _ بیابانی اعراب میں سے تھے؟ کیا ان متضاد احادیث کا وجود انکے سیاسی ہونے کی دلیل نہیں ہے؟

ہاں حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی _ ہمیشہ بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے تھے_ جب امیرالمؤمنین کی شہادت اور امام حسن _ کی مختصر سی خلافت کے بعد معاویہ کے ہاتھ میں حکومت

____________________

۱) مصنف ابن ابی شیبة ، جلد ۲ ص ۸۹_

۲) الدر المنثور ،جلد ۱ ص ۲۱_

۱۹۵

کی باگ ڈور آگئی، تو اس کی پوری کوشش یہ تھی کہ تمام آثار علوی کو عالم اسلام کے صفحہ سے مٹا دے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مسلمانوں میں آپ(ع) کے فکری اور معنوی افکار کا نفوذ اس کی سلطنت کے لیے خطرہ ہے_

اس بات کا منہ بولتا ثبوت اس حدیث میں ملتا ہے جسے حاکم نے مستدرک میں نقل کیا اور معتبر قرار دیا ہے (پیغمبر اکرم(ص) کے خصوصی خادم ) جناب انس بن مالک فرماتے ہیں کہ معاویة مدینہ میں آیا اس نے جہری نماز ( مغرب، عشاء ویا صبح کی نماز) میں سورة الحمد سے پہلے بسم اللہ کو پڑھا لیکن بعد والی سورت میں نہیں پڑھا_ جب نماز ختم کی تو ہر طرف سے مہاجرین و انصار کی ( کہ جو شاید جان بچانے کی خاطر نماز میں شریک ہوئے تھے) صدائیں بلند ہوگئیں '' اسرقت الصلوة ام نسیت؟ '' کہ تو نے نماز میں سے چوری کی ہے یا بھول گیاہے ؟ معاویہ نے بعد والی نماز میں سورہ حمد سے پہلے اور بعد والی سورت سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھی''(۱)

معاویہ گویا اس بات کے ذریعے مہاجرین و انصار کو آزمانا چاہتا تھا کہ یہ لوگ بسم اللہ اور اس کے بالجہر پڑھنے کے سلسلہ میں کتنی توجہ و سنجیدگی رکھتے ہیں_ لیکن اس نے اپنا کام شام اور دیگر علاقوں میں جاری رکھا_

ما بین الدّفتین قرآن ہے:

یقینا جو کچھ قرآن کی دو جلد کے درمیان ہے وہ قرآن مجید کا جزء ہے_ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ بسم اللہ قرآن مجید کا جز نہیں ہے صرف سورتوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے

____________________

۱) مستدرک الصحیحین، جلد ۱ ص ۲۳۳_

۱۹۶

کے لیے ہے_ اوّلاً یہ بات سورہ حمد کے بارے میں صحیح نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ قرآن مجید کے تمام نسخوں میں آیات کے نمبر لگائے گئے ہیں_ بسم اللہ کو سورہ حمد کی آیت شمار کیا گیا ہے_

ثانیاً: یہ سورتوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والا کام کیوں سورہ براء ة میں نہیں کیا گیاہے_ اور اگر جواب میں کہا جائے کہ چونکہ اس سورت کا سابقہ سورہ ( سورة انفال) کے ساتھ رابطہ ہے تو یہ بات کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اتفاقاً سورہ انفال کی آخری آیات اور سورہ براء ة کی ابتدائی آیات کے درمیان کوئی مفہومی رابطہ نہیں ہے_ حالانکہ قرآن مجید میں اور کئی سورتیں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط رکھتی ہیں لیکن بسم اللہ نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے_

حق یہ ہے کہ کہا جائے بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے_ جیسا کہ قرآن مجید کا ظاہر بھی اس بات کی خبر دیتا ہے _ اور اگر سورہ توبہ میں بسم اللہ کو ذکر نہیں کیاگیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے اس سورت کا آغاز پیمان شکن دشمنوں کے ساتھ اعلان جنگ کے ذریعے ہوتا ہے اور اعلان جنگ ، رحمن اور رحیم کے نام کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتا ہے کیونکہ یہ نام رحمت عامّہ اور رحمت خاصہ الہی کی حکایت کرتا ہے _

بحث کا خلاصہ :

۱_ پیغمبر اکرم(ص) سورہ حمد اوردیگر تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھتے تھے( ان کثیر روایات کے مطابق جو آپ(ص) کے نزدیک ترین افراد سے نقل ہوئی ہیں ) اور متعدد روایات کے مطابق آپ(ص) بسم اللہ کو بالجہر پڑھا کرتے تھے_

۲_ سابقہ روایات کے مقابلے میں جو روایات کہتی ہیں کہ بسم اللہ اصلاً قرآن مجید کا جزء

۱۹۷

نہیں ہے یا آنحضرت(ص) ہمیشہ اسے بالاخفات پڑھتے تھے_ مشکوک ہیں بلکہ خود ان روایات میں ایسے قرائن موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ روایات جعلی اور ان کے پیچھے بنو اميّہ کی پر اسرار سیاستیں ہیں _ کیونکہ یہ بات مشہور تھی کہ حضرت علی _ بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے ہیں اور یہ تو معلوم ہے کہ جو کچھ بھی حضرت علی (ع) کی خصوصیت یا علامت شمار ہوتی تھی ( اگر چہ وہ پیغمبر اکرم(ص) سے حاصل کی ہوئی ہوتی تھی) بنو اميّہ اس کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتے تھے یہ موضوع اس شدید اعتراض کے ذریعے آشکار ہو جاتا ہے کہ جو اصحاب نے معاویہ پر کیا _ اور اس کے علاوہ بھی قرائن و شواہد موجود ہیں جنہیں ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے _

۳_ ائمہ ا ہلبیتکا امیرالمؤمنین(ع) ( کہ انہوں نے سالہا سال پیغمبر اکرم(ص) سے بسم اللہ کو بالجہر ادا کرنے کا درس لیا تھا) کی پیروی کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق ہے_ یہاںتک کہ امام جعفر صادق _ فرماتے ہیں :

''اجتمع آلُ محمّد صلی الله علیه و آله علی الجهر ببسم الله الرّحمن الرّحیم '' (۱)

کہ آل محمّد (ص) کا بسم اللہ کے بلند پڑھنے پر اتفاق ہے ''

حداقل اس قسم کے مسائل میں حدیث ثقلین پر عمل کرتے ہوئے روایات اہلبیت (ع) کیطرف توجّہ کرنی چاہیے اور تمام اہلسنت فقہاء کو چاہیے کہ امام شافعی کی طرح حداقل جہری نمازوں میں بسم اللہ کو بالجہر پڑھنا واجب قرار دیں_

۴_ حسن اختتام کے عنوان سے اس بحث کے آخر پر دو باتیں جناب فخررازی صاحب''تفسیر الکبیر'' سے نقل کرتے ہیں :

____________________

۱) مستدرک الوسائل ، جلد ۴ ص ۱۸۹_

۱۹۸

وہ کہتے ہیں کہ:

''انّ عليّا _ کا ن یبالغ فی الجهر بالتسمیة فلما وصلت الدولة الی بنی اميّه بالغوا فی المنع من الجهر سعیاً فی ابطال آثار علّی _ '' (۱)

حضرت علی _ بسم اللہ کے بالجہر پڑھنے پر اصرار کرتے تھے، جب حکومت، بنوامیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے بسم اللہ کے بلند پڑھنے سے منع کرنے پر اصرار کیا تا کہ حضرت علی _ کے آثار کو مٹایا جاسکے''

اہلسنت کے اس عظیم دانشمند کی گواہی کے ذریعے بسم اللہ کے آہستہ پڑھنے یا اس کے حذف کرنے والے مسئلہ کا سیاسی ہونا اور زیادہ آشکار ہوجاتا ہے _اسی کتاب میں ایک اور مقام پر جناب فخررازی، مشہور محدث بیہقی سے اس بات کونقل کرنے کے بعد کہ حضرت عمر ابن خطاب، جناب ابن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سب کے سب بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے اس بات کا اضافہ کرتے ہیں:

'' اَمّا ا نَّ علی ابن ابی طالب کان یجهر بالتسمیة فقد ثبت بالتواتر و من اقتدی فی دینه بعلّی ابن ابی طالب فقد اهتدی، و الدلیل علیه قول رسول الله اللّهم ا در الحق مع علی حیث دار، (۲)

____________________

۱) تفسیر کبیر فخررازی ، جلد ۱، ص ۲۰۶_

۲) ایضاً ص ۲۰۴ و ۲۰۵_

۱۹۹

بہر حال حضرت علی (ع) بسم اللہ کو بالجہر پڑھتے تھے یہ بات تواتر کے ذریعہ ثابت ہے اور جو بھی دین میں حضرت علی (ع) کی پیروی کریگا یقینا ہدایت پاجائیگا_ اس بات کی دلیل رسولخدا(ص) کی یہ حدیث ہے کہ بارالہا حق کو ہمیشہ علی (ع) کے ساتھ رکھ اور حق کو اسی طرف پھیر دے جس طرف علی (ع) رخ کرے''

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232