شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں16%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80852 / ڈاؤنلوڈ: 4431
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اپنے کاموں کا نتیجہ پاتے ہیں _ سعیدہ بیٹی ہم آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اچھے کام کرنے والے لوگ بہشت میں جائیں گے اور بہت راحت و آرام کی زندگی بسرکریں گے _ اور گنہکار جہنم میں جائیں گے _ اور عذاب اور سختی میں رہیں گے _

آخرت کی نعمتیں اور لذتیں دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں ان میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہوگا _ اہل بہشت ہمیشہ اللہ تعالی کی خاص توجہ اور محبت کا مرکز رہتے ہیں _ خدا انہیںہمیشہ تازہ نعمتوں سے نوازتا ہے اہل بہشت اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوتے ہیں اور ان نعمتوں اور محبت سے خوش و خرم رہتے ہیں _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ سعیدہ کس چیز کو بے فائدہ اور بے نتیجہ سمجھتی تھی او رکیوں؟

۲_ اس کی ماں نے اسے کیا جواب دیا؟

۳_ کیا ہم مرجانے سے فنا ہوجاتے ہیں اگر مرنے سے ہم فنا ہوجاتے ہوں تو پھر ہمارے کاموں اور کوششوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟

۴_ اپنے کاموں کا پورا نتیجہ کس دنیا میں دیکھیں گے ؟

۵_ نیک لوگ آخرت میں کیسے رہیں گے اور گناہ کار کیسے رہیں گے ؟

۶_ '' دنیا آخرت کی کھیتی ہے '' سے کیا مراد ہے ؟

۴۱

چھٹا سبق

آخرت میں بہتر مستقبل

اس جہان کے علاوہ ایک جہان اور ہے جسے جہان آخرت کہا جاتا ہے _ خدانے ہمیں جہان آخرت کے لئے پیدا کیا ہے _ جب ہم مرتے ہیں تو فنا نہیں بلکہ اس جہان سے جہان آخرت کی طرف چلے جاتی ہیں ہم صرف کھا نے پینے سونے کے لئے اس جہاں میں نہیں آئے بلکہ ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تا کہ خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کریں _ اچھے اور مناسب کام انجام دیں تا کہ کامل ہوجائیں اور جہان آخرت میں اللہ کی ان نعمتوں سے جو اللہ نے ہمارے لئے پیدا کی ہیں _ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں _

جو کام بھی ہم اس دنیا انجام دیتے ہیں اس کا نتیجہ آخرت میں دیکھیں گے _

اگر ہم نے خدا کی عبادت کی اور نیک کام کرنے والے قرار پائے تو ہمارا مستقبل روشن ہو گا اور بہترین زندگی شروع کرینگے اور اگر ہم نے خدا کے فرمان کی پیروی نہ کی اور برے کام انجام دیئے تو آخرت میں بدبخت قرار پائیں گے اور اپنے کئے کی سزاپائیں گے اور سختی اور عذاب میں زندگی بسر کریں گے

۴۲

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ اس جہاں میں ہمارا فرض کیا ہے _ کامل بنے کے لئے ہمیں کیا کام انجام دینے چاہیئے ؟

۲_ اللہ کی بڑی اور اعلی نعمتیں کس جہان میں ہیں ؟

۳_ روشن مستقبل کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۴_ آخرت میں سخت عذاب کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۵_ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کون سے کام اچھے اور مناسب ہیں اور کوں لوگ ہمیں اچھے اور مناسب کاموں کی تعلیم دیتے ہیں ؟

۴۳

تیسرا حصّہ

نبوت

۴۴

پہلا سبق

اللہ نے پیغمبڑ بھیجے ہیں

خدا چونکہ بندوں پر مہربان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بند ے اس دنیا میں اچھی اور آرام دہ زندگی بسر کریں اور آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں وہ دستور جوان کی دنیا اور آخرت کے لئے فائدہ مند ہیں _ پیغمبروں کے ذریعہ ان تک پہنچا ئے چونکہ پیغمبروں کی شخصیت عظیم ہوتی ہے اسی لئے خدا نے انہیں لوگوں کی رہنمائی کیلئےچنا_ پیغمبر لوگوں کو نیک کام اور خدائے مہربان کی پرستش کی طرف راہنمائی کرتے تھے _ پیغمبر ظالموں کے دشمن تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان مساوات و برابری قائم کریں _

سوالات

۱_ خدانے کیوں لوگوں کے لئے پیغمبر بھیجا ہے ؟

۲_ پیغمبر خدا سے کیا چیز لیکرآئے؟

۳_ پیغمبر کیا کرتے تھے؟

۴_ پیغمبر کس قسم کے لوگ ہوتے تھے؟

۵_ اگر ہم پیغمبروں کے دستور کے مطابق عمل کریں تو کیا ہوگا؟

۴۵

دوسرا سبق

انسانوں کے معلّم

پیغمبرانسانوں کے معلّم ہوتے ہیں _ ابتداء آفرینش سے لوگوں کے ساتھ _ اور ہمیشہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوشاں رہے _ وہ بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی اور زندگی کے اچھے اصولوں کی تعلیم دیتے رہے _ مہربان خدا اور اس کی نعمتوں کو لوگوں کو بتلاتے تھے اور آخرت اور اس جہاں کی عمدہ نعمتوں کا تذکرہ لوگوں سے کرتے رہے _ پیغمبر ایک ہمدرد اور مخلص استاد کے مانند ہوتے تھے جو انسانوں کی تربیت کرتے تھے_ اللہ کی پرستش کا راستہ انہیں بتلاتے تھے پیغمبر نیکی اور اچھائی کا منبع تھے وہ نیک اور برے اخلاق کی وضاحت کرتے تھے_ مدد اور مہربانی خیرخواہی اور انسان دوستی کی ان میں ترویج کرتے تھے تمام انسانوں میں پہلے دور کے انسان بے لوث اور سادہ لوح تھے پیغمبروں نے ان کی رہنمائی کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زحمت اور تکلیفیں برداشت کیں پیغمبروں کی محنت و کوشش اور رہنمائی کے نتیجے میں انسانوں نے بتدریج ترقی کی اور اچھے اخلاق سے واقف ہوئے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ زندگی کے اصول اور بہتر زندگی بسر کرنے کا درس انسانوں کو کس نے دیا ؟

۴۶

۲_ پیغمبر لوگوں کون سے تعلیم دیتے تھے؟

۳_ پیغمبروں نے کن لوگوں کے لئے سب سے زیادہ محنت اور کوشش کی ؟

۴_ پیغمبروں نے کس قسم کے لوگوں کے درمیان کن چیزوں کا رواج دیا ؟

۴۷

تیسرا سبق

خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کا کیا دین تھا اور وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے_ انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی تعلیم کو فراموش کردیا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس دنیا میں کس طرح زندگی گذار کر آخرت میں سعادت مند ہوسکتے ہیں وہ صحیح قانون اور نظم و ضبط سے ناواقف تھے اور خدا کی پرستش کے طریقے نہیں جانتے تھے _ چونکہ خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے اسلئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی پیغمبری کے لئے منتخب فرمایا تا کہ لوگوں کو نیکی اور اللہ تعالی کی عبادت کی طرف راہنمائی فرمائیں

خدا کو علم تھا کہ لوگ تشخیص نہیں کر سکتے کہ کون سے کام آخرت کے لئے فائدہ مند اور کون سے کام نقصان دہ ہیں _ خدا جانتا تھا کہ لوگوں کے لئے راہنما اور استاد ضروری ہے اسی لئے جناب ابراہیم علیہ السلام کو چنا اور انہیں عبادت اور خدا پرستی کے طریقہ بتائے _ خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلاتا تھا کہ کون سے کام لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتر ہیں اور کون سے کام مضر ہیں _

حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے پیغام اور احکام کو لوگوں تک پہنچاتے اور ان کی رہنمائی فرماتے تھے _

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے پیغمبر اور لوگوں کے استاد اور معلّم تھے _

۴۸

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ پیغمبروں کو کون منتخب کرتا ہے ؟

۲_ پہلے انسانوں کا کردار کیا تھا؟

۳_ کون سے حضرات زندگی کا بہتر راستہ بتاتے ہیں؟

۴_ کیا لوگ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے کام آخرت کے لئے بہتر اور کون سے مضر ہیں ؟

۵_ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کو کیا تعلیم دیتے تھے ؟

۶_ حضرت ابراہیم (ع) کا پیغام اور احکام کس کی طرف سے تھے؟

۴۹

چوتھا سبق

لوگوں کا رہبر اور استاد

پیغمبر لوگوں کا رہبر اور استاد ہوتا ہے _ رہبری کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے _ اسے جانتا ہے _ دین کے تمام احکام جانتا ہے _ اچھے اور برے سب کاموں سے واقف ہوتا ہے _ وہ جانتا ہے کہ کون سے احکام آخرت کی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور کون سے کام آخرت کی بدبختی کا سبب بنتے ہیں _ پیغمبر خدا کو بہتر جانتا ہے _ آخرت اور بہشت اور جہنم سے آگاہ ہوتا ہے _ اچھے اور برے اخلاق سے پوری طرح با خبر ہوتا ہے _ علم اور دانش میں تمام لوگوں کا سردار ہوتا ہے اس کے اس مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچانتا _ خداوند عالم تمام علوم پیغمبر کو عنایت فرما دیتا ہے تا کہ وہ لوگو۱ں کی اچھے طریقے سے رہبری کر سکے _چونکہ پیغمبررہبر کامل اور لوگوں کا معلم اور استاد ہوتا ہے _ اسلئے اسے دنیا اور آخرت کی سعادت کا علم ہونا چاہیے تا کہ سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ لوگوں کا رہبر اور استاد کون ہے اور ان کو کون سی چیزیں بتلاتا ہے ؟

۵۰

۲_ پیغمبر کا علم کیسا ہوتا ہے کیا کوئی علم میں اس کا ہم مرتبہ ہوسکتا ہے؟

۳_ پیغمبر کا علوم سے کون نواز تا ہے ؟

۴_ رہبر کامل کون ہوتا ہے؟

۵۱

پانچوان سبق

پیغمبر لوگوں کے رہبر ہوتے ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام پیغمبران خدا انسان تھے _ اور اانہیں میں زندگی گذار تے تھے خدا کے حکم اور راہنمائی مطابق لوگوں کی سعادت اور ترقی میں کوشاں رہتے تھے _ پیغمبر ابتدائے آفرینش سے لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے اور انہیں زندگی بہترین را ستے بتا تے تھے _ خدا شناسی آخرت اور اچھے کاموں کے بارے میں لوگوں سے گفتگو کرتے تھے _ بے دینی اور ظلم کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے تھے اور مظلوموں کی حمایت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان محبت اور مساوات کو بر قرار رکھیں پیغمبروں نے ہزاروں سال کوشش کی کہ عبادت کے طریقے خدا شناسی اور اچھی زندگی بسر کرنا لوگوں پر واضح کریں _آج پیغمبروں اور ان کے پیرو کاروں کی محنت اور مشقت سے استفادہ کررہے ہیں _ اس لئے ان کے شکر گزار ہیں اور ان پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں ;

... ...اللہ کے تمام پیغمبروں پر ہمارا سلام

... اللہ کے بڑ ے پیغمبر جناب ابراہیم پر ہمارا سلام

... جناب ابراہیم کے پیرو کاروں پر ہمارا سلام

۵۲

چھٹا سبق

اولوا لعزم پیغمبر

اللہ تعالی نے لوگوں کی راہنمائی کے لئے بہت زیادہ پیغمبر بھیجے ہیں کہ ان میں سب سے بڑ ے پیغمبر پانچ ہیں

____ حضرت نوح علیہ السلام

____ حضرت ابراہیم علیہ السلام

____ حضرت موسی علیہ السلام

____ حضرت عیسی علیہ السلام

____ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جناب موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتا ہے اور جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کہا جاتا ہے اور جناب محمڈ کے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے

تمام پیغمبر خدا کی طرف سے آئے ہیں اور ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں

لیکن تمام پیغمبروں سے بزرگ و برتر آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی (ص) ہیں آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا _

۵۳

سوالات

۱_ بڑے پیغمبرکتنے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں ؟

۲_ یہودی کسے کہا جاتا ہے ؟

۳_ مسیحی یا عیسائی کسے کہا جاتا ہے ؟

۴_ جناب محمد مصطفی (ص) کے ماننے والوں کو کیا کہا جاتا ہے ؟

۵_ سب سے بڑ ے اور بہتر اللہ کے پیغمبروں کون ہیں ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ تمام پیغمبر ... آئے ہیں اور ہم ان ... کرتے ہیں

۲_ لیکن جناب محمد مصطفی (ص) تمام پیغمبروں سے ... و ...ہیں

۳_ آپ کے بعد نہیں آئے گا

۵۴

ساتواں سبق

حضرت محمد مصطفے (ص) کا بچپن

جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد جناب عبد اللہ علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ جناب آمنہ تھیں _ بچین ہی سے آپ نیک اور صحیح انسان تھے دستر خوان پر با ادب بیھٹتے تھے_ اپنی غذا کھا تے اور دوسرے بچوں کے ہاتھ سے ان غذا نہیں چھینتے تھے _ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے _ بچوں کو آزار نہ دیتے تھے بلکہ ان سے اچھا سلوک اور محبت کرتے تھے _ ہر روز زنبیل خرما سے پر کر کے بچوں کے در میان تقسیم کرتے تھے _

سوالات

۱_ جناب محمد مصطفی کس شہر میں پیدا ہوئے ؟

۲_ غذا کھا تے وقت کیا کہتے تھے اور کس طرح بیٹھتے تھے ؟

۳_ دوسرے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے ؟

۴_ تمہارا دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟

۵۵

آٹھواں سبق

آخری نبی حضرت محمد مصطفے (ص)

آپ کے والد کا نام جناب عبداللہ اور والدہ کانام آمنہ تھا _ عام الفیل میں سترہ ربیع الاوّل کو مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کی پیدائشے سے قبل ہی آپ کے والد جناب عبداللہ کا انتقال ہو گیا _ جناب آمنہ نے آپکی چھ سال تک پرورش کی _ جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا _ والدہ کے فوت ہونے کے بعد آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی _ جناب عبد المطلب آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ پر بہت مہربان تھے پیغمبر اسلام کے مستقبل کا آپ کو علم تھا عیسائی اور یہودی علماء سے آپ نے سن رکھا تھا کہ مکہّ سے ایک پیغمبر مبعوث ہو گا _ جناب عبد المطلب عربوں کے سردار تھے _ کعبہ کے نزدیک آپ کے لئے مخصوص جگہ تھی کہ جس پراور کوئی نہیں بیٹھ سکتا تھا _ صرف پیغمبر اسلام اس مخصوص جگہ پراپنے دادا کے پہلو میں بیٹھا کرتے تھے _ اگر آپ کو وہاں بیٹھنے سے کبھی کوئی منع کرتا تو جناب عبد المطلب فرماتے کہ میرے بیٹے کو آنے دو _ بخدا اس کے چہرے پر بزرگی کے آثار موجود ہیں _ میں دیکھ رہاہوں کہ ایک دن محمڈ تم سب کا سردار ہو گا _ جناب عبدالمطلب پیغمبر اسلام کو اپنے نزدیک بٹھا تے اور اپنے دست شفقت کو آپ کے سر پر پھیر تے تھے چونکہ حضوڑ کے مستقبل سے آگاہ تھے اسلئے انہیں کے ساتھ غذا تناول کرتے تھے اور اپنے سے کبھی آپ کو جدا نہیں کرتے تھے _

۵۶

پیغمبر اسلام کا بچپن

پیغمبر اسلام بچپنے میں بھی با ادب تھے _ آپ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام فرما تے ہیں کہ محمڈ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے اور غذا کے بعد الحمدللہ فرماتے _ میں نے محمڈ کونہ تو جھوٹ بولتے دیکھا اور نہ ہی برا اور نارو ا کام کرتے دیکھا _ آپ(ص) او نچی آواز سے نہیں ہنستے تھے بلکہ مسکراتے تھے _

جواب دیجئے

۱_ پیغمبر اسلام (ص) کس سال اور کس مہینہ اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کی والدہ آور آپ کے والدکا کیا نام تھا ؟

۳_ جناب عبدالمطلب کا پیغمبر اسلام (ص) سے کیارشتہ تھا اور آپ کے متعلق وہ کیا فرما تے تھے ؟

۴_ یہودی اور عیسائی علماء کیا کہا کرتے تھے؟

۵_ بچپن میں آپ (ص) کا کردار کیسا تھا اور آپ کے متعلق آپ کے چچا کیا فرمایا کرتے تھے ؟

۵۷

نواں سبق

پیغمبر (ص) کا بچوّں کے ساتھ سلوک

پیغمبر(ص) اسلام بچّوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ان کو سلام کرتے تھے _ آپ(ص) مسلمانوں سے کہتے تھے کہ بچوں کا احترام کیا کرو اور ان سے محبت کیا کرو اور جو بچوں سے محبت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے _

ایک مسلمان کہتا ہے کہ میں نے رسول (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ گھر تک گیا تو میں نے دیکھا کہ بچے گروہ در گروہ آپ کا استقبال کرنے کے لئے دوڑ کر آرہے تھے _ آپ نے انہیں پیار کیا اور اپنا دست مبارک ان کے سر اور چہرے پرپھیرا

سوالات:

۱_ پیغمبر اسلام(ص) کے والد کا نام کیا تھا؟

۲_ آپ کی والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ بچوں کو کیوں سلام کیا کرتے تھے؟

۴_ اپنے اصحاب سے بچوں کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۵_ بچّے کیوں آپ(ص) کے استقبال کیلئے دوڑ پڑتے تھے؟

۶_ کیا تم اپنے دوستوں کو سلام کرتے ہو؟

۵۸

دسواں سبق

امین

ایک زمانے میں مکہ کے لوگ خانہ کعبہ کو از سر نو بنارہے تھے _ تمام لوگ خانہ کعبہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے _ جب کعبہ کی دیوار ایک خاص اونچائی تک پہنچی کہ جہان حجر اسود رکھا جانا تھا'' حجر اسود ایک محترم پتھر ہے'' مكّہ کے سرداروں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اس پتھر کو صرف وہی اس کی بناپر رکھے اوراس کام سے اپنے آپ اور اپنے قبیلے کی سربلندی کا موجب بنے _ اسی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوا _ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ صرف میں حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کروں گا ان کا اختلاف بہت بڑھ گیا تھا اور ایک خطرناک موڑ تک پہنچ گیا تھا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے _ جنگ کے لئے تیار بھی ہوچکے تھے اسے اثناء میں ایک دانا اور خیرخواہ آدمی نے کہا _ لوگو جنگ اوراختلاف سے بچو کیونکہ جنگ شہر اور گھروں کو ویران کردیتی ہے _ اور اختلاف لوگوں کو متفرق اور بدبخت کردیتا ہے _ جہالت سے کام نہ لو اور کوئی معقول حل تلاش کرو_ مكّہ کے سردار کہنے لگے کیا کریں _ اس دانا آدمی نے کہا تم اپنے درمیان میں سے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرلو جو تمہارے اختلاف کو دور کردے _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے یہ مفید مشورہ ہے _ لیکن ہر قبیلہ کہتا تھا کہ وہ قاضی ہم میں سے ہو _ پھر بھی اختلاف اور نزاع برطرف نہ ہوا _ اسی خیرخواہ اور دانا آدمی نے کہا _ جب تم قاضی کے انتخاب میں بھی اتفاق نہیں کرپائے تو سب سے پہلا شخص جو

۵۹

اس مسجد کے دروازے سے اندر آئے اسے قاضی مان لو _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے تمام کی آنکھیں مسجد کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں اور دل دھڑک رہے تھے کہ کون پہلے اس مسجد سے اندر آتا ہے اور فیصلہ کس قبیلے کے حق میں ہوتا ہے ؟ ایک جوان اندر داخل ہوا _ سب میں خوشی کی امید دوڑگئی اور سب نے بیک زبان کہا بہت اچھا ہو کہ محمد (ص) ہی آیا ہے _ محمد (ص) امین محمد(ص) امین _ منصف اور صحیح فیصلہ دینے والا ہے اس کا فیصلہ ہم سب کو قبول ہے حضرت محمد (ص) وارد ہوئے انہوں نے اپنے اختلاف کی کہانی انہیں سنائی: آپ نے تھوڑا ساتامل کیا پھر فرمایا کہ اس کام میں تمام مكّہ کے سرداروں کو شریک ہونا چاہیے لوگوں نے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اور کس طرح _ حضرت نے فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار یہاں حاضر ہو تمام سردار آپ کے پاس آئے _ آنحضرت (ص) نے اپنی عبا بچھائی پھر آپ نے فرمایا تمام سردار عبا کے کناروں کو پکڑیں اور حجر اسود کو لے چلیں _ تمام سردار نے حجر اسود اٹھایا اور اسے اسکی مخصوص جگہ تک لے آئے اس وقت آپ نے حجر اسود کو اٹھایا اور اسے اس کی جگہ نصب کردیا_ مكّہ کے تمام لوگ آپ کی اس حکمت عملی سے راضی اور خوش ہوگئے _ آپ کے اس فیصلے پر شاباش اور آفرین کہنے لگے _

ہمارے پیغمبر(ص) اس وقت جوان تھے اور ابھی اعلان رسالت نہیں فرمایا تھا لیکن اس قدر امین اور صحیح کام انجام دیتے تھے کہ آپ کا نام محمد(ص) امین پڑچکا تھا _

لوگ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور قیمتی چیزیں آپ کے پاس امانت رکھتے تھے اور آپ ان کے امانتوں کی حفاظت کرتے تھے آپ صحیح و سالم انہیں واپس لوٹا دیتے تھے _ سبھی لوگ اپنے اختلاف دور کرنے میں آپ کی طرف

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اَولیائے الہی سے توسّل

۲۰۱

''توسّل'' قرآنی آیات اور عقل کے آئینہ میں :

بارگاہ الہی میں اولیائے الہی سے توسّل کے ذریعہ مادّی اور معنوی مشکلات حل کرانے کا مسئلہ، وہابیوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان ایک اہم ترین اور متنازعہ مسئلہ ہے_ وہابی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ نیک اعمال کے ذریعے توسّل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ اسے ایک قسم کا شرک سمجھتے ہیں_ جبکہ دنیا کے دوسرے مسلمان اس توسّل کو ( جس کے مفہوم کی ہم وضاحت کریں گے ) جائز سمجھتے ہیں_

وہابیوں کا گمان یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات اس توسّل سے منع کرتی ہیں اور اسے شرک قرار دیتی ہیں _ من جملہ یہ آیت کریمہ

'' ما نعبد هم الّا لیقرّبُونا الی الله زُلفی '' (۱)

یہ آیت فرشتوں کی مانندمعبودوں کے بارے میں ہے کہ جن کے لیے مشرکین کہتے تھے '' کہ ہم اس لیے ان کی پوجا کرتے ہیں تا کہ یہ ہمیں خدا کے نزدیک کریں'' اور اس بات کو

____________________

۱) سورة زمر آیة ۳_

۲۰۲

قرآن مجید نے شرکقرار دیا ہے _ ایک اور آیت میں یوں ارشاد ربُ العزّت ہے '' فلا تدعوا مع اللہ ا حداً'' خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو''(۱)

ایک دوسری روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے ''والّذین يَدعُونَ من دُونه لا یستجیبون لهم بشیئ :،'' جو غیر خدا کوپکارتے ہیں ، وہ انکی کوئی حاجت پوری نہیں کرسکتے ہیں''(۲)

وہابیوں کا توہّم اور خیال یہ ہے کہ یہ آیات اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کرنے کی نفی کر رہی ہیں_

اس کے علاوہ وہ ایک اور بات بھی کرتے ہیں وہ یہ کہ بالفرض اگر بعض روایات کی روشنی میں پیغمبر اکرم(ص) کی زندگی میں اُن سے توسّل جائز ہو لیکن وفات کے بعد ان سے توسّل کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے_

یہ وہابیوں کے دعووں کا خلاصہ تھا لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ اسی قسم کی بے دلیل باتوںکی خاطر وہابیوں نے بہت سے مسلمانوں پر شرک اورکفر کی تہمتیں لگائیں اور ان کے خون بہانے کو مباح قرار دیا ہے ، اسی طرح انکے مال کو مباح جانا ہے _ اسی بہانے بہت سا خون بہایا گیا اور بہت سا مال غارت کیا گیا ہے _

اس وقت جبکہ ہم انکے عقیدہ کو سمجھ چکے ہیں بہتر ہے کہ اصل مسئلہ کی طرف لوٹ کر اسی توسّل کے مسئلہ کو بنیادی طور پر حل کریں_

____________________

۱) سورہ جن ، آیة ۱۸_

۲) سورة رعد، آیہ ۱۴_

۲۰۳

سب سے پہلے ہم '' توسل'' کو لغت، آیات اور روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں: سب میں '' توسّل'' وسیلہ کے انتخاب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور وسیلہ اس چیز کو کہاجاتا ہے جو انسان کوکسی دوسرے سے قریب کرے

لغت کی مشہور کتاب '' لسان العرب'' میں توسّل کو یوں بیان کیا گیا ہے _

''وصَّل الی الله وسیلةً اذا عَمل عملاً تقرب الیه والوسیلة ما یتقرّب به الی الغیر; خدا کی طرف توسّل کرنا اور وسیلہ منتخب کرنا یہ ہے کہ انسان ایسا عمل انجام دے جس سے اسے خدا کا قرب نصیب ہو ، اور وسیلہ اس چیز کے معنی میں ہے جس کے ذریعے انسان دوسری چیز سے نزدیک ہوتا ہے ''

مصباح اللغة میں بھی یوں ہی بیان کیا گیا ہے : ''الوسیلة ما یتقرّب به الی الشیء و الجمع الوسائل'' وسیلہ اس شے کوکہتے ہیں جس کے ذریعے، انسان دوسری شے یا شخص کے نزدیک ہوتا ہے اور وسیلہ کی جمع ''وسائل '' ہے_

مقاییس اللغة میں یوں بیان کیا گیا ہے : ''الوسیلة الرغبة و الطلب'' وسیلة رغبت اور طلب کے معنی میں ہے'' _

ان لغت کی کتب کے مطابق، وسیلہ، تقرب حاصل کرنے کے معنی میں بھی ہے اور اس چیز کے معنی بھی ہے جس کے ذریعے انسان دوسری شے کا قرب حاصل کرتا ہے _ اور یہ ایک وسیع مفہوم ہے

اب ہم قرآن مجید کی آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں_

قرآن مجید میں وسیلہ کی اصطلاح دو آیات میں استعمال ہوئی ہے_

۲۰۴

۱_ سورہ مائدہ کی ۳۵ویں آیت میں یوں ارشاد ہے :

'' یا ايّها الّذین آمنو اتقوا الله و ابتغوا الیه الوسیلة و جاهدُوا فی سبیله لعلکم تفلحون''

اس آیت میں تمام اہل ایمان کو مخاطب قرار دیاگیا ہے اورتین دستور بیان کیے گئے ہیں _

اوّل تقوی کا حکم، دوّم، وسیلہ منتخب کرنے کا حکم ، وہ وسیلہ جو ہمیں خدا سے نزدیک کرے_ سوّم : راہ خدا میں جہاد کرنے کا حکم، ان مجموعہ صفات ( تقوی ، توسّل اور جہاد) کانتیجہ وہی چیز ہے جسے آیت کے آخر میں بیان کیاگیا ہے: '' لعلکم تفلحون'' یعنی یہ صفات تمہاری فلاح اور رستگاری کا باعث ہیں''

۲_ سورة اسرا کی آیت ۵۷ میں وسیلہ کا تذکرہ کیاگیا ہے _ آیت ۵۷ کے معنی کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے آیت ۵۶ کامطالعہ کرنا چاہیے جس میں یوں ارشاد ہے

''قل ادعوا الّذین زَعمتم من دُونه فَلا یملکونَ کشفَ الضُرّ عنکم و لا تحویلاً''

اے پیغمبر: کہہ دیجئے کہ خدا کے علاوہ تم جنہیں پکارتے ہو اور انہیں اپنا معبود تصوّر کرتے ہو انہیں پکار کر دیکھ لوکہ وہ تمہاری مشکل کوحل کریں، وہ تمہاری کوئی مشکل حل نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی تبدیلی لاسکتے ہیں''

( ''قُل ادعوا الّذین' ) ' والے جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں معبودوں سے مراد بت یا اس قسم کی کوئی اور چیزنہیں ہے ، کیونکہ کلمہ الذین صاحب شعور اور صاحب عقل افراد کے

۲۰۵

لیے استعمال کیاجاتا ہے_ لہذا اس آیت میں وہ فرشتے مراد ہیں جنہیں لوگ پوجتے تھے یا حضرت عیسی مراد ہیں کہ ایک گروہ معبود کے عنوان سے انکی پرستش کرتا تھا_ یہ آیت بیان کررہی ہے کہ نہ فرشتے اور نہ ہی حضرت عیسی (ع) تمہاری مشکل کو حل کرسکتے ہیں _

بعد والی آیت میں یوں ارشاد ہے ''( اولئک الّذین يَدعُون یبتغون الی ربّهم الوسیلة ) ; خود یہ لوگ ( فرشتے اور حضرت عیسی (ع) وہ ہیں جو خداوند کی بارگاہ میں وسیلہ کے ذریعہ تقرب حاصل کرتے ہیں وہ وسیلہ کہ ایہم اقرب جو سب سے زیادہ نزدیک ہو '' و یرجون رحمة'';اور اللہ تعالی کی رحمت کی امید رکھتے ہیں'' '' و یخافون عذابہ '' اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ '' انّ عذاب ربک کان محذوراً ; تیرے پروردگار کاعذاب ایسا ہے جس سے سب ڈرتے ہیں''_

وہابیوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں ( کاشف الضر) سمجھا جائے یعنی انہیں مستقل طور پر مشکلات کا حل کرنے والا سمجھا جائے اور قضائے حاجات اور دفع کر بات کا سرچشمہ سمجھا جائے حالانکہ توسّل کا یہ معنی نہیں ہے _

جن آیات کو وہابیوں نے پیش کیا ہے وہ عبادت کے بارے میں بیان کرتی ہیں _ حالانکہ کوئی بھی اولیائے الہی کی عبادت نہیں کرتا ہے _

ہم جس وقت پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ توسّل کرتے ہیں کیا انکی عبادت کرتے ہیں؟ کیا ہم پیغمبر اکرم(ص) کو اللہ تعالی کے علاوہ مستقل طور پر مؤثر اور کاشف ضر سمجھتے ہیں؟

جس توسّل کی طرف قرآن مجید نے دعوت دی ہے وہ یہ ہے کہ اس وسیلہ کے ذریعے خدا

۲۰۶

کے نزدیک ہوں، یعنی یہ ذوات مقدّسہ، بارگاہ خدا میں شفاعت کرتی ہیں_ وہ چیز جو ہم نے شفاعت کے بارے میں بیان کی ہے_

در حقیقت توسّل کی واقعيّت اور شفاعت کی واقعيّت ایک ہی ہے_ بہت سی آیات شفاعت کو ثابت کرتی ہیں اور دو آیات توسل کو بیان کرتی ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ سورة مائدہ کی ۵۷ نمبر آیت '' ایہم اقرب'' کے ذریعے توسّل کو بیان کرتی ہے یعنی فرشتے اور حضرت عیسی (ع) بھی اپنے لیے وسیلہ منتخب کرتے ہیں وہ وسیلہ جو زیادہ نزدیک ہے ''ہم'' جمع کی ضمیر ہے جو صاحب عقول کے لیے استعمال کیجاتی ہے_ یعنی اولیائے الہی اور صالحین کے ساتھ توسّل کرتے ہیں، ان صالحین میں سے ہر ایک خدا کے نزدیک تر ہیں_

بہرحال سب سے پہلے واضح ہونا چاہیے کہ اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کیا ہے؟

کیا یہ توسّل ان کی عبادت اور پوجا کرنا ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے_

کیا انہیں مستقل طور پر مؤثر جاننا ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے_ کیا انہیںمستقل طور پر قاضی الحاجات اورکاشف الکربات جاننا ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ذوات مقدّسہ اس شخص کے لیے جس نے انکے ساتھ توسّل کیا ہے خداوندعالم کی بارگاہ میں شفاعت اور سفارش کرتی ہیں_ اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ میں کسی بڑی شخصيّت کے گھر جانا چاہتا ہوں وہ مجھے نہیں جانتا ہے ، میں ایک ایسے شخص کوواسطہ بناتا ہوں کہ جو مجھے بھی جانتا ہے اور اس کے اس شخصیت کے ساتھ بھی تعلقات ہیں_ اسے کہتاہوں کے آپ میرے ساتھ چلیں اور اس شخصیت کے ساتھ میرا تعارف کرادیں اور سفارش کردیں_ یہ کام نہ تو عبادت ہے اور نہ ہی تاثیر میں اسے مستقل سمجھنا ہے_

۲۰۷

یہاں مناسب یہ کہ ہم '' ابن علوی'' کا کلام نقل کریں جو انہوں نے اپنی مشہور کتاب ''مفہوم یجب ان تصحّح'' میں بیان کیا ہے_ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے توسّل کی حقیقت کے سمجھنے میں غلطی کی ہے_ اس لیے ہم (اپنی نظر کے مطابق) توسّل کا صحیح مفہوم پیش کرتے ہیں_ اور اسے بیان کرنے سے پہلے محترم قاری کی توجہ چند نکات کی طرف مبذول کراتے ہیں_

۱_ توسّل دعا کا ایک انداز ہے اور حقیقت میں اللہ تبارک و تعالی کی طرف توجّہ کرنے کا ایک دروازہ ہے، پس ہدف اور اصلی مقصد اللہ تعالی ہے، اور جس شخصيّت کے ساتھ آپ توسّل کر رہے ہیں وہ واسطہ اور تقرب بہ خدا کا وسیلہ ہے، اگر کوئی توسّل میں اس کے علاوہ کوئی عقیدہ رکھتا ہوتو وہ مشرک ہے_

۲_ جو انسان کسی شخصيّت کے وسیلہ سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے حقیقت میں یہ انسان کا اسی شخصيّت کے ساتھ اظہار محبّت ہے اوروہ اس شخصیت کے بارے میں اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں مقرّب ہے اور بالفرض اگر مسئلہ الٹ ثابت ہوجائے تو وہی انسان اس شخصيّت سے مکمل طور پر دوری اختیار کرلیتا ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے لگتا ہے_ تو ہمیں یہاں تک معیار کا علم ہوگیا ہے کہ توسّل کا معیار خداوند کے نزدیک اس شخصيّت کا مقربّ ہونا ہے_

۳_ اگر توسّل کرنے والا انسان اس بات کا عقیدہ رکھتا ہو کہ ( متوسّلٌ بہ) جس شخصيّت کے ساتھ اس نے توسّل کیا ہے، وہ ذاتی اور مستقل طور پر نفع ونقصان پہنچانے میں اللہ تعالی کی طرح ہے، تو ایسا انسان مشرک ہے _

۲۰۸

۴_ توسّل کوئی واجب یا ضروری چیز نہیںہے اور نہ ہی یہ دعا قبول ہونے کا منحصر راستہ ہے، اہم چیز دعا ہے اور خداوند کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے جس صورت میں بھی ہو_ جیسا کہ خود خداوند نے ارشاد فرمایا ہے کہ( ''واذا سا لک عبادی عنّی فانّی قریبٌ'' ) (۱)

''ابن علوی مالکی'' اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد، توسّل کے بارے میں اہلسنت کے علما، فقہاء اور متکلمین کے نظریات بیان کرتا ہے_ اور کہتا ہے کہ اعمال صالحہ کے ذریعے توسّل الی اللہ کی مشروعيّت ( جواز) کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے یعنی انسان نیک اعمال کے وسیلہ سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرے، یہ اختلافی مسئلہ نہیں ہے_ مثلاً کوئی روزہ رکھتا ہے، نماز پڑھتا ہے، قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے، صدقہ دیتا ہے اور ان اعمال کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے_ یہ چیز مسلّماً صحیح ہے_

اس قسم کے توسّل کو حتی کہ سلفیوں نے بھی قبول کیا ہے _ من جملہ ''جناب ابن تیميّہ نے اپنی مختلف کتب میں بالخصوص اپنی کتاب'' القاعدة الجلیلة فی التوسّل و الوسیلة'' میں اس قسم کے توسّل کو قبول کیا ہے_

ابن تیميّہ نے اس قسم کے توسّل یعنی نیک اعمال کے ذریعے توسّل کے جواز کے بارے میں تصریح کی ہے_ پس اختلاف کہاں ہے؟

کیا اختلاف ، اعمال صالحہ کے علاوہ توسّل کے بارے میں ہے؟ مثلاً اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کیا جائے اور یوں کہا جائے :اللّهم انّی اتوسّل الیک بنبیک محمّد(ص) ;

____________________

۱) سورہ بقرة آیہ ۱۸۶ (ترجمہ )جب میرے بندے مجھ سے سوال کرتے ہیں تو میں قریب ہوں'' _

۲۰۹

بارالہا میں تیری بارگاہ میں تقرب کے لیے تیرے نبی محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کو وسیلہ بناتا ہوں_ اس کے بعد ابن علوی اضافہ کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ اس معنی میں اختلاف اور وہابیوں کا اولیائے الہیسے توسّل کا انکار کرناحقیقت میں صرف ظاہری اور لفظی اختلاف ہے، واقعی اورحقیقی اختلاف نہیں ہے_

باالفاظ دیگر صرف لفظوں کا نزاع ہے_کیونکہ اولیائے الہی کے ساتھ توسّل حقیقت میں انکے نیک اعمال کے ساتھ توسّل ہے اور یہ ایک جائز امر ہے_

پس اگر مخالفین بھی انصاف اور بصیرت کی نگاہ سے دیکھیں تو انکے لیے مطلب واضح اور اعتراض ختم ہوجائیگا، اسطرح فتنہ خاموش جائیگا_ اورمسلمانوں پر مشرک اور ضلالت کی تہمت لگانے کی نوبت نہیں آئیگی_

اس کے بعد موصوف اس مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جوانسان بھی اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کرتا ہے اس لیے ہے کہ وہ ان سے محبّت کرتاہے_

اور کیوں اس کے ساتھ محبت کرتا ہے؟ اس لیے کہ اس انسان کا عقیدہ ہے کہ وہ شخص اللہ کا نیک بندہ ہے، یا اس لیئےہ وہ شخص اللہ کے ساتھ محبت کرتا تھا_ یا اللہ تعالی اس کے ساتھ محبّت کرتا ہے_ یا یہ کہ انسان اس وسیلہ کو پسند کرتا ہے اور اس کے ساتھ محبت کرتا ہے_ جب ہم ان تمام امور میں غور و فکر کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان سب کے باطن میں عمل پوشیدہ ہے یعنی حقیقت میں یہ خدا کی بارگاہ میں نیک اعمال کے ذریعے توسّل ہے_ اور یہ وہی چیز ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے_(۱)

____________________

۱) کتاب مفاہیم یجب ان تصحّح ص ۱۱۶، ۱۱۷_

۲۱۰

البتہ ہم بعد میں بیان کریں گے کہ اولیائے الہی کے ساتھ توسّل اگر چہ انکی شان اور مقام کی خاطر ہو نہ انکے نیک اعمال کی خاطر اس اعتبار سے کہ یہ ذوات مقدسہ خداوند کی بارگاہ میں آبرومند ، عزیز اور سربلند ہیں یا کسی بھی خاطر یہ توسّل ہو، تو جب تک انہیں تاثیر میں مستقل نہ سمجھیں بلکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں انہیں شفیع سمجھیں تو ایسا توسّل نہ کفر ہے اور نہ خلاف شرع_

قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر اس قسم کے توسّل کی طرف اشارہ کیا گیاہے شرک تو تب ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کو اللہ تعالی کے مقابلے میں مستقل طور پر مؤثر سمجھیں_ وہابیوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اس آیت ''( ما نعبدهم الّا لیقرّبونا الی الله زلفی'' ) (۱) میں ''عبادت اور ''شفاعت'' کو آپس میں مخلوط کردیا ہے_ اور یہ گمان کیا ہے کہ شفاعت بھی شرک ہے_ حالانکہ ان واسطوں کی عبادت کرنا شرک ہے نہ انکی شفاعت اور انکے ساتھ توسل کرنا شرک ہے _ (غور کیجیئے

توسل، اسلامی احادیث کی روشنی میں :

آیات توسّل ،کے اطلاق کے علاوہ ،جوہر اس توسل کو جو اسلام کے صحیح اعتقادی اصولوں کے خلاف نہ ہو، جائز بلکہ مطلوب قرار دیتی ہیں، ہمارے پاس توسل کے بارے میں بہت سی روایات بھی ہیں جو متواتر یاتواتر کے نزدیک ہیں _

ان میں سے بہت سی روایات خود پیغمبر اکرم(ص) کی ذ ات کے ساتھ توسّل سے مربوط ہیں_ کہ وہ توسل کبھی آپ(ص) کی ولادت سے پہلے کبھی ولادت کے بعد، آپ کی حیات میں یا آپ(ص) کی رحلت کے بعد، کیا گیاہے_

____________________

۱) سورہ زمر، آیت ۳_

۲۱۱

البتہ کچھ روایات پیغمبر اکرم(ص) کے علاوہ دیگر دینی شخصیات سے توسّل کے ساتھ مربوط ہیں_

ان میں سے بعض روایات ،در خواست اور دعا کی صورت ،بعض بارگاہ الہی میں شفاعت کے تقاضا کی صورت میں ہیں، بعض میں اللہ تعالی کو پیغمبر اکرم(ص) کے مقام کا واسطہ دیاگیا ہے_ خلاصہ یہ کہ توسّل کی تمام اقسام ان روایات میں دیکھنے کو ملتی ہیں_ اور اس انداز میں ہیں کہ بہانے تلاش کرنے والے تمام وہابیوں پر راستہ بند کردیتی ہیں_

اب ان روایات کے چند نمونوں کو ملاحظہ فرمایئے

۱_ پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت سے پہلے حضرت آدم(ع) کا آپ(ص) سے توسّل کرنا

''حاکم'' نے ''مستدرک'' اور دیگر محدثین نے اپنی کتب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا: کہ جس وقت حضرت آدم (ع) سے خطا سرزد ہوئی تو آپ (ع) نے اللہ سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا: '' یا ربّ اسئلک بحقّ محمّد: لمّا غفرت لی'' پروردگارا میں تجھے حضرت محمد(ص) کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے'' اللہ تعالی نے فرمایا کہ تو نے محمد(ص) کو کہاں سے پہچانا حالانکہ ابھی میں نے اسے خلق نہیں کیا ہے ؟

حضرت آدم (ع) نے عرض کی: پروردگارا اس معرفت کا سبب یہ ہے کہ جب تو نے مجھے اپنی قدرت سے خلق کیا اور مجھ میں روح پھونکی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو یہ جملہ عرش کے پائے پر لکھا ہوا تھا: '' لا الہ الّا الله محمّد رسول الله '' اس عبارت سے میں سمجھ گیا کہ یہ جو محمّد کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے وہ تمام مخلوقات میں سے تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اللہ تعالی نے فرمایا: اے آدم تو نے سچ کہا''انه لاحب الخلق الَّی'' وہ

۲۱۲

میرے نزدیک تمام مخلوقات سے زیادہ محبوب ہے:

''''ادعونی بحقّه فقدغفرت لک'' (۱)

اس کے حق کا واسطہ دے کر مجھے سے مانگ میں تجھے معاف کردونگا''

دوسری حدیث حضرت ابوطالب کے توسّل کے ساتھ مربوط ہے جو انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے بچپن کے زمانے میں آپ(ص) کے ساتھ کیا_ حدیث کا خلاصہ یوں ہے کہ جسے ''ابن عساکر'' نے ''فتح الباری'' میں نقل کیا ہے:

کہ ایک مرتبہ مکہ میں خشک سالی ہوگئی، تمام قریش جمع ہوکر حضرت ابوطالب(ع) کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ سارے کھیت خشک ہوچکے ہیں، قحط نے ہر جگہ تباہی مچا رکھی ہے_ آؤ خداوند کے حضور چلیں اور بارش کے لیے دعا کریں_

حضرت ابوطالب(ع) ساتھ چلے اور انکے ساتھ ایک بچہ بھی تھا ( بچے سے مراد پیغمبر اکرم(ص) ہیں جو ابھی طفوليّت کا زمانہ گزار رہے تھے ) اس بچے کا چہرہ آفتاب کی طرح درخشاں تھا_ جناب ابوطالب(ع) نے اس بچے کو گود میں لیا ہواتھا _ اسی حالت میں اپنی کمر کو خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگایا اور اس بچے سے توسل کیا; اسی وقت آسمان پر بادل اُمڈ آئے اور ایسی بارش برسی کہ جس کے نتیجے میں خشک بیابان سرسبز ہوگئے_ اس وقت جناب ابوطالب(ع) نے پیغمبر(ص) کی شان میں ایک شعر کہا جویوں ہے_

____________________

۱) حاکم نے مستدرک ، جلد ۲ ص ۶۱۵ پر اورحافظ سیوطی نے ''الخصائص النبويّة'' میں اسے نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے اور بیہقی نے اسے ''دلائل النبوة'' میں نقل کیا ہے کہ عام طور پر اس کتاب میں وہ ضعیف روایت نقل نہیں کرتے ہیں اور قسطلانی اور زرقانی نے مذاہب اللدنيّہ میں اس حدیث کونقل کیا اور صحیح قرار دیا ہے اور دیگر علماء نے بھی اسے نقل کیا ہے _ مزید توضیح کے لیئےتاب '' مفاہیم یجب ان تصحّح ص ۱۲۱ اور اسکے بعد رجوع فرمائیں''_

۲۱۳

''و ابیض یستسقی الغمام بوجهه

ثمال الیتامی عصمة للا رامل ''(۱)

کہ پیغمبر اکرم(ص) کے نورانی چہرے کے صدقے یہ بادل برس رہے ہیں_ یہ بچہ یتیموں کا ملجا اور بیوہ عورتوں کی پناہ گاہ بنے گا ''

ایک نابینا مرد نے پیغمبر اکرم(ص) کی ذ ات سے توسّل کیا_ وہ آپ(ص) کی نبوّت کے زمانے میں آپکی خدمت میں پہنچا، توسّل کر کے شفا پالی اور اسکی آنکھیں واپس لوٹ آئیں

یہ روایت صحیح ترمذی، اسی طرح سنن ابن ماجہ ، مسند احمد اوردیگر کتب میں نقل ہوئی ہے(۱) اس سے پتہ چلتا ہے کہ سند کے اعتبار سے حدیث محکم ہے_ بہرحال حدیث یوں ہے_

''کہ ایک نابینا آدمی آنحضرت(ص) کی خدمت میں پہنچا اورعرض کرنے لگا:

اے رسول(ص) خدا اللہ تعالی سے دُعا کیجئے کہ وہ مجھے شفا دے اور میری آنکھوں کی بینائی مجھے لوٹا دے _

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: اگر تو کہتا ہے تو میں تیرے لیے دعا کرنے کو تیار ہوں اور اگر صبر کرتا ہے تو یہ صبر تیرے لیئے بہتر ہے( اور شاید تیری مصلحت اسی حالت میں ہو) لیکن اس بوڑھے آدمی نے اپنی حاجت پر اصرار کیا_ تو اس پر پیغمبر اکرم(ص) نے اس بوڑھے آدمی کو حکم دیا کہ مکمل اور اَچھے اندازمیں وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو ، نماز کے بعد یہ دعا پڑھو:

'' اللّهم انّی اسئلک و ا توجّه الیک بنبیک محمّد (ص)

نبّی الرّحمة یا محمّد (ص) انّی اتوجّه بک الی

____________________

۱) فتح الباری، جلد ۲ ص ۴۹۴ و اسی طرح سیرہ حلبی، جلد ۱ ص ۱۱۶_

۲۱۴

ربّی فی حاجتی لتُقضی ، اللّهم شَفعّه، فيَّ'' (۱)

بار الہا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں تیرے نبی محمد مصطفی(ص) کے واسطے کہ جو نبی رحمت ہیں_ اے محمد(ص) میں آپ(ص) کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف اپنی حاجت طلب کرنے چلا ہوں تا کہ میری حاجت پوری ہوجائے اور اے اللہ انہیں میرا شفیع قرار دے_

وہ نابینا آدمی چلاتا کہ وضو کرے، نماز پڑھے اور پیغمبر اکرم(ص) کی تعلیم دی ہوئی دعاپڑھے_ اس حدیث کا راوی عثمان بن عمیر کہتا ہے کہ ہم بہت سے افراد اسی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں کررہے تھے_ کچھ دیر بعد وہی بوڑھا آدمی مجلس میں داخل ہوا اس حال میں کہ اس کی آنکھیں بینا ہوچکی تھیں اور نابینائی کا کوئی اثر اس پر باقی نہیں تھا _

دلچسپ یہ ہے کہ بہت سے اہلسنت کے اکابر نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے_ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے _ ابن ماجہ نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے_ رفاعی نے بھی کہا ہے کہ بلاشک و شبہہ یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے _(۲)

پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد اُن سے توسل''

اہلسنت کے معروف عالم دین '' دارمی'' نے اپنی مشہور کتاب ''سنن دارمی'' میں ایک

____________________

۱) صحیح ترمذی ، ص ۱۱۹، حدیث ۳۵۷۸، اور سنن ابن ماجہ، جلد ۱، ص ۴۴۱، حدیث ۱۳۸۵ ، ومسند احمد، جلد ۴، ص ۱۳۸_

۲) مزید وضاحت کے لیے آپ کتاب مجموعة الرسائل و المسائل ، جلد ۱ ص ۱۸ طبع بیروت ، کیطرف رجوع فرمائیں_ ابن تیميّہ کی عین عبارت یہ ہے ''ان النسائی و الترمذی رویا حدیثاً صحیحاً ان النّبی علّم رجلاً ان یدعو فیسال الله ثم یخاطب النبی فیوسّل به ثم یسال الله قبول شفاعته''

۲۱۵

باب اس عنوان سے قرار دیاہے کہ ''باب ماحکم الله تعالی نبيّه (ص) بعد موته'' ( یہ باب اس کرامت اور احترام کے بارے میں ہے جو اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) کے ساتھ مختص کیا ہے ان کی رحلت کے بعد) اس باب میں وہ یوں رقمطراز ہیں_

'' ایک مرتبہ مدینہ میں شدید قحط پڑ گیا_ بعض لوگ حضرت عائشےہ کی خدمت میں گئے اور ان سے چارہ جوئی کے لیے کہا_ حضرت عائشےہ نے فرمایا جاؤ پیغمبر اکرم(ص) کی قبر پر چلے جاؤ_ اور قبر والے کمرے کی چھت میں سوارخ کرو، اس انداز میں کہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتیجہ کی انتظار کرو_ لوگ گئے انہوں نے اسی انداز میں سوراخ کیا کہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اسقدر بارش برسی کہ کچھ ہی عرصہ میں بیابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے _(۱)

''پیغمبر اکرم(ص) کے چچا حضرت عباس سے توسل'':

امام بخاری نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ میں قحط تھا تو حضرت عمر ابن خطاب نے اللہ تعالی کو حضرت عباس بن عبدالمطلب کا واسطہ دیتے ہوئے باران رحمت طلب کی انکی دعا کی عبارت یہ تھی ''اللّهم انّاکنّا نتوسّل الیک بنبيّنا و تسقینا و انّا نتوسّل الیک بعمّ نبيّنا فاسقنا'' بارالہا ہم اپنے پیغمبر (ص) کے ساتھ توسل کرتے تھے تو توہم پر باران رحمت نازل فرماتا تھا_ آج ہم تجھے اپنے نبی(ص) کے چچا کاواسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ ہم پر باران رحمت نازل فرما''

راوی کہتا ہے، اس دعا کے بعد فراوان بارش نازل ہوئی(۲)

____________________

۱) سنن دارمی، جلد ۱ ص ۴۳_

۲) صحیح بخاری، جلد ۲ ص ۱۶، باب صلاة الاستسقائ_

۲۱۶

۶_ ابن حجر مكّی نےصواعق محرقہ میں امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ امام شافعی ہمیشہ اہلبیت(ع) رسول(ص) کے ساتھ توسّل کرتے تھے انہوں نے یہ مشہور شعر، ان سے نقل کیا ہے:

آل النّبی ذریعتی

و هم الیه وسیلتی

ا َرجوا بهم ا عطی غداً

بید الیمین صحیفتی

رسولخدا(ص) کاخاندان میرا وسیلہ ہیں، خداوند کی بارگاہ میں وہی میرے تقرب کا ذریعہ ہیں _ میں امید کرتا ہوں کہ کل قیامت کے دن انکی برکت سے میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں تھمایا جائے

اس حدیث کو ''رفاعی'' نے اپنی کتاب ''کتاب التوصل الی حقیقة التوسّل'' میں بیان کیا ہے(۱)

اسی مصنف نے کہ جو توسّل کے بارے میں بہت سخت عقیدہ رکھتا ہے_ اہلسنت کے مختلف منابع سے ۲۶ احادیث توسّل کے بارے میں نقل کی ہیں اگر چہ اس کی کوشش یہی رہی ہے کہ بعض احادیث کے بارے میں خدشہ ظاہر کرے لیکن احادیث تواتر کی حد تک یاتواتر کے قریب ہیں اور اہلسنت کی مشہور کتب میں نقل کی گئی ہیں_لہذا ان احادیث پر اتنی جلدی اعتراض نہیں کیا جاسکتا ہے _ اور ہم نے تو یہاں پر اس باب سے صرف چند احادیث کا تذکرہ کیا ہے ورنہ اس بارے میں احادیث بہت زیادہ ہیں _

____________________

۱)التوصل إلی حقیقة التوسّل ، ص ۳۲۹_

۲۱۷

چند قابل توجّہ نکات

۱_ وہابیوں کے بہانے:

متعصّب وہابی اپنے ہدف کو ثابت کرنے کیلئے، یعنی ان مسلمانوں پر فسق اور کفر کی تہمت لگانے کے لیے کہ جو اولیاء کے سا تھ توسّل کرتے ہیں، مندرجہ بالا آیات اور روایات کے مقابلے میں کہ جو مختلف شکلوں میں توسّل کوجائز قراردیتی ہیں بہانے بناتے ہیں اور یہ بہانہ جوئی ایسے ہی ہے جیسے بچے بہانے بناتے ہیں

کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان صالحین اور بزرگان کی ذات سے توسّل کرنا حرام ہے، ان کے مقام کے ساتھ توسّل کرنا حرام نہیں ہے_ اسی طرح انکی دعا اور شفاعت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے صرف انکی ذات کے ساتھ توسّل کرنا حرام ہے_

کبھی کہتے ہیں کہ انکی زندگی میں توسّل کرنا تو جائز ہے لیکن وفات کے بعد توسّل کرنا جائز نہیں ہے_ چونکہ جب وہ اس دنیا سے منتقل ہوجاتے ہیں توان کا ہمارے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے_ قرآن مجید فرماتا ہے ''انّک لا تُسمع الموتی '' اے پیغمبر آپ(ص) مردوں تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتے ہیں ''(۱) یعنی آپ(ص) کا رابطہ انکے ساتھ منقطع ہوچکا ہے_

لیکن اس قسم کی بہانہ تراشیاں واقعاً شرمناک ہیں کیونکہ :

اوّلاً: قرآن مجید نے ایک عامّ حکم بیان کیا ہے ہم اس آیت کے عموم یا اطلاق کے ساتھ تمسک کرتے ہوئے توسّل کی ان تمام اقسام کو جائز سمجھتے ہیں جو '' توحید عبادی'' اور توحید افعالی'' کے ساتھ منافی نہ ہوں_

____________________

۱) سورة نمل آیة ۸۰_

۲۱۸

قرآن مجید میں ہے '' وابتغوا الیہ الوسیلہ'' جیسا کہ بیان کیا ہے وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جو خدا کے تقرّب کا ذریعہ بنے_ پس جو شے بھی آپ کو خدا کے قریب کرنے کا وسیلہ بن سکتی ہے آپ اسے انتخاب کرسکتے ہیں_ چاہے وہ پیغمبر(ص) کی دعا ہو یا شفاعت، مقام پیغمبر(ص) ہو یا ذات پیغمبر(ص) کہ وہ اللہ تعالی کی بندگی، اطاعت، عبودیت اور دیگر صفات حسنہ کی وجہ سے اس کی بارگاہ میں محبوب و مقرّب ہے_

اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ ان امور کے ذریعے بارگاہ خدا میں تقرّب حاصل کرو_ پس وسیلہ کو صرف انسان کے اپنے نیک اعمال میں منحصر کرنے پر کوئی دلیل نہیں ہے جس کا وہابی دعوی کرتے ہیں_

وسیلہ کی جو اقسام ہم نے بیان کی ہیں نہ تو یہ توحید در عبادت میں رخنہ پیدا کرتی ہیں کیونکہ ہم صرف خدا کی عبادت کرتے ہیں نہ پیغمبر اکرم(ص) کی اور نہ ہی توحید افعالی میں خدشہ ایجاد کرتی ہیں، کیونکہ صرف اللہ تعالی نفع و نقصان کا مالک ہے، اس کے علاوہ جس کسی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ہے اور اسی کے واسطہ سے ہے _

آیات میں اس قسم کے عموم کے بعد اب کس چیز کا انتظار ہے؟

یہ بہانہ تراشی تو ایسے ہے جیسے قرآن مجید فرماتا ہے''فاقرء وا ما تیسَّر من القرآن'' جتنا قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہو کرو ''(۱) اب ا گر کوئی بہانہ بنائے اور شک کرے کہ کھڑے ہوکر قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ لیٹ کر تلاوت کرنا کیسے ہے؟ آیت کا عموم کہہ رہا ہے تلاوت قرآن کی تمام اقسام جائز ہیں_ تلاوت سفر میں ہو یا حضر میں _ وضو کے ساتھ ہو یا بغیر وضو کے اس وقت تک جائز ہے جب تک کوئی دلیل اس عموم کے خلاف قائم نہ ہوجائے _

۲۱۹

قرآن مجید کے عمومات اور اطلاقات اس وقت تک قابل عمل ہیں، جب تک کوئی مانع اور رکاوٹ در پیش نہ آئے_ توسّل والی آیات بھی عام ہیں اور آیات قرآن کے عموم پر عمل کیاجاسکتا ہے جب تک کوئی مانع نہ ہو_ پس ہم بھی ان عمومات پر عمل کریں گے اور یہ بہانے تراشیاں قبول نہیں کریںگے_

ثانیاً: توسّل کے مسئلہ میں بیان ہونے والی روایات کہ جن میں سے بعض کو ہم نے اوپرپیش کیا ہے اس قدر متنوّع ہیں کہ توسّل کی تمام اقسام کی اجازت دیتی ہیں_ خود پیغمبر اکرم(ص) کی ذات کے ساتھ توسّل جیسے نابینا والے واقعہ میں بیان ہوا_ پیغمبر اکرم(ص) کی قبر مبارک کے ساتھ توسّل جیسا کہ بعض واقعات میں بیان ہوا_ اسی طرح پیغمبر کی دعا سے توسّل، انکی شفاعت سے توسّل جیسا کہ دیگر واقعات میں بھی بیان کیاگیا ہے _ ان متنوّع اور مختلف روایات کی روشنی میں بہانہ تراشیوں کی کوئی گنجائشے باقی نہیں رہتی ہے_

ثالثاً: پیغمبر اکرم(ص) کی ذات سے توسل سے کیا مراد ہے؟ ہماری نظر میں کیوں پیغمبر اکرم(ص) کی ذات کااحترام ہے اور ہم انہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں شفیع بناتے ہیں؟ یہ اس لیے کہ پیغمبر اکرم(ص) اطاعت اور عبوديّت کی اعلی ترین منزل پر فائز تھے_ پس حقیقت میں پیغمبر(ص) کی ذات کے سا تھ توسّل انکی اطاعات، عبادات اور افعال حسنہ کے ساتھ توسّل ہے او ریہ وہی چیز ہے جسے متعصب وہابی بھی جائزقرار دیتے ہیں_ کیونکہ وہ بھی قائل ہیں کہ طاعات کے ساتھ توسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے_

پس صرف الفاظ کا جھگڑا ہے _

تعجّب کی بات تو یہ ہے کہ بعض وہابی پیغمبر اکرم(ص) کی برزخی زندگی کا انکار کرتے ہیں اور انکی وفات کو (معاذ اللہ )کفار کی وفات جیسا سمجھتے ہیں _ حالانکہ قرآن مجید شہداء کے لیے حیات

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232