شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں16%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81049 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

خان ے م یں ان کی کوئی نہ کوئ ی جلد او رنسخہ موجود ہے ۔

چنانچہ اگر فقہ ک ی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسائل کامطالعہ ک یجئے تو آپ دیکھیں گے ک ہ علاو ہ اس ک ے ک ہ کوئ ی شرک کاطریقہ موجود نہیں ہے ،احکام ب ھی مہ مل اور ب ے قاعد ہ ن ہیں ہیں بلکہ فق ہ جعفر ی کے باطن س ے توح ید کا لب لباب ظاہ ر و آشکار ہے ۔

شرح لمعہ اور شرائع الاسلام سار ے کتب خانو ں م یں موجود ہیں ان کامطالعہ ک یجیے تو اسی باب نذر میں نیز جملہ فق ہ ائ ے ش یعہ کے عمل یہ رسالوں م یں ملے گا ۔ نذر چونک ہ خدا ک ے لئ ے کس ی عمل کو اپنے اوپر لازم کرن ے ک ی وجہ س ے ابواب عبادت م یں سے ا یک باب ہے ل ہ ذا اس ک ے لئ ے حت می طور پر دو شرطوں کا لحاظ رک ھ نا ضرور ی ہے ۔ ک یونکہ اگر ان دونوں م یں سے کوئ ی مفقود ہ وگ ی تو نذر منعقد نہ ہ وگ ی ،اول:- نیت متصل بہ عمل ، اور دوسر ی :- صیغہ چاہے و ہ جس زبان م یں ہ و ۔

جب مسلمان یہ سمجھ ل ے گا ک ہ اس ک ی نذر بغیر ان دو شرطوں ک ے صح یح نہ ہ وگ ی تو کوشش کرے گا ک ہ پ ہ ل ے ان دونو ں کامطلب اور نوع یت سمجھ ل ے اس ک ے بعد نذر کر ے جس وقت کس ی فقیہ سے سوال کر ے گا یا کوئی رسالہ پ ڑھے گا تو اس کو معلوم ہ وگا ک ہ اولا سار ی عبادتوں م یں بالخصوص نذر میں نیت اللہ ک ے بار ے م یں اور اللہ ک ی خوشنودی حاصل کرنے ک ے لئ ے ہ ونا چا ہ ئ یے لہ ذا غ یر خدا کے لئ ے ن یت کا سوال یہ ختم ہ و جاتا ہے ۔

دوسری شرط جو پہ ل ی شرط کا تتمہ ہے اور اس کو مضبوط کرن ے وال ی ہے ، یہ ہے ک ہ نذر کن ے وال ے کو نذر ک ے وقت ص یغہ پڑھ نا لازم ی ہے اور ص یغہ میں جب تک خدا کا نا م نہ ہ و ص یغہ جاری نہیں ہ وتا ،مثلا روز ے ک ی نذر کرنا چاہ تا ہے ۔ تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اصوم"

یا شراب ترک کرنا چاہ تا ہے تو ک ہے "لل ہ عل یّ ان اترک شرب الخمر" اور اسی طریقے سے دوسر ی نذریں ہیں۔

اگر فارسی یا اردو وغیرہ بولنے وال ے ک ے لئ ے عرب ی صیغہ جاری کرنا آسان نہ ہ و تو ہ ر قوم والا اپن ی زبان میں صیغہ جاری کر سکتا ہے اس شرط س ے ک ہ ا س ک ے معن ی مذکورہ ص یغہ سے مطابق ہ و ں ، اور اگر ن یت میں غیر خدا ہ و یا کسی اور زندہ یا مردہ کو خدا ک ے نا م ک ے سات ھ شامل کر لے ۔ چ ہ ل ہے پ یغمبر یا امام یا امام زادے ہی کا نام ہ و تو قطعا و ہ نذر باطل ہے اور اگر عمدا جان بوج ھ کر ا یسا کرے تو مشرک ہے ک یونکہ مذکورہ آ یت میں کھ لا ہ و ا ارشاد ہے "ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا" البت ہ ا ہ ل علم پر لازم ہے ک ہ نا واقف لوگو ں کو سمج ھ ا ئ یں کہ ن ذر قطعا خدا کے نام پر اور خدا ہی کے لئ ے ہ ونا چا ہیئے ،چنانچہ واعظ ین اور مبلغین برابر اپنا فرض انجام دیتے رہ ت ے ہیں ۔ اور ش یعہ فقہ ا عموما ب یان کیا کرتے ہیں کہ نذر ہ ر زند ہ یا مردہ ک ے لئ ے چا ہے و ہ پ یغمبر یا امام ہی ہ و باطل ہے اور اگر سمج ھ ک ے عمدا ا یسا کرے ت و مشرک ہے ۔

۸۱

نذر صرف خدا کے لئ ے کر یں اس کے مصرف ک ے تع ین میں اختیار ہے ۔ مثلا نذر کر ے ک ہ خدا ک ے لئ ے کوئ ی گوسفند فلاں مکان یا عبادت خانے یا بقعہ امام وغ یرہ میں لے جا کر قربان ی کرے گا ۔یا کوئی رقم یا لباس خدا کے لئ ے فلا ں س یّد یا عالم یا یتیم یا فقیر کو دے گا تو کوئ ی حرج ن ہی ں ہے ،ل یکن اگر پیغمبر یا امام یا امام زادہ یا عالم یا یتیم یا محتاج وغیرہ کے لئ ے نذر کر ے تو حتما باطل ہے اور علم وقصد ک ے سات ھ قطعا شرک ہے ۔ ہ ر رسول ،فق یہ ،عالم، واعظ اور مبلغ کا فرض لکھ نا اور ب یان کرنا ہے "وما علی الرسول الا البلاغ" یعنی پیامبر پر سوا مکمل طریقے سے پ ہ نچا د ینے کے اور کوئ ی ذمہ دار ی نہیں ہے ۔ سور ہ نور آ یت 54۔

اور لوگوں کا فرض سننا اور عمل کرنا ہے اگر کوئ ی شخص یا اشخاص احکام دین کے س یکھ ن ے اور سکھ ان ے ک ی کوشش نہ کر یں اور ہ دا یات کے مطابق اپن ے مذ ہ ب ی فرائض پر عمل نہ کر یں تو ان کے اصل عق یدے اور اصول وقواعد میں کوئی نقص نہیں پیدا ہ وتا ۔

میرا خیال ہے ک ہ اس ی قدر جواب سے حق یقت ظاہ ر ہ وگئ ی ہ وگ ی اور اس کے بعد آپ حضرات ش یعوں کو مشرک کہہ کر عوام کو غلط ف ہ م ی میں مبتلا نہ کر یں گے ۔

شرک خفی

بہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ پ ہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں اور مطلب پورا کریں ۔ دوسر ی قسم شرک خفی و پوشیدہ ہے اور و ہ شرک در اعمال اور طاعات وعبادات میں رہ ا ہے اس قسم ک ے شرک اور شرک در عبادت ک ے درم یان جس کو ہ م ن ے شرک جل ی میں شمار کیا ہے فرق یہ ہے ک ہ بند ہ سرک عب ادت میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیتا ہے اور مقام عبادت م یں اس کی پر ستش کرتا ہے ،مثلا اگر نماز یمں غیر خدا کو مد نظر رکھے جیسے شیاطین کے ب ہ کان ے س ے مقام ولا یت کی صورت نگاہ م یں لائے یا کسی مرشد کو مر کز توجہ بنائ ے تو قطعا و ہ عمل باطل اور شرک خف ی ہے ، عبادت میں سوا ذات وحدہ لاشر یک کے انسان ک ے ذ ہ ن وفکر م یں اور کسی کو دخل نہ ہ ونا چا ہیئے ورنہ شرک جل ی میں داخل ہ وجاتا ہے ۔

حضرت رسول خدا(ص) سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا "یقول الله تعالی من عمل عملا صالحا اشرک فیه غیری فهو له کله وانا منه برئ وانا اغنی الاعنیاء عن الشرک" یعنی خدائے تعال ی فرماتا ہے ک ہ جو شخص کوئ ی نیک عمل کرے اور اس م یں میرے غیر کو شریک کرلے تو سارا عمل اس ی کے لئ ے ہے اور م یں اس (عمل یا عامل) سے ب یزار ہ و ں اور م یں تمام اغنیا سے ز یادہ شک سے غن ی ہ و ں۔

۸۲

ن یز روایت میں ہے ک ہ ارشاد فرما یا جو شخص نماز پڑھے یا روزہ رک ھے یا حج کرے اور اس کا نظر یہ یہ ہ و ک ہ لوگ اس عمل پر اس ک ی مدح کریں "فقد اشرک فی عملہ "تو یقینا اس نے ا س عمل میں خدا کے لئ ے شر یک قرار دیا۔

نیز کاشف اسرار حقائق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ک ہ "لو ان عبدا عمل عملا یطلب به رحمة الله والدار الآخرة ثم ادخل فیه رضا احد من الناس کان مشرکا" (یعنی اگر کوئی بندہ رحمت خدا اور جزائ ے آخرت ک ی طلب میں کوئی عمل کرے اور اس م یں کسی انسان کی رضامندی کو شامل کرے تو و ہ عامل مشرک ہ و جائ ے گا) ۔

شرک خفی کا دامن بہ ت وس یع ہے ک یونکہ کسی عمل میں غیر خدا کی طرف ایک مختصر سی توجہ ب ھی مشرک بنا دیتی ہے ۔

شرک در اسباب

اس شرک کی قسموں م یں سے ا یک شرک در اسباب ہے ج یسا کہ اکثر لوگ صرف اسباب اور خلق پر ام ید وخوف کی نظر رکھ ت ے ہیں ، یہ بھی شرک ہے ل یکن شرک در اسباب سے مراد یہ ہے ک ہ اسباب ہی میں اثر سمجھے مثلا آفتاب اش یا کی تربیت میں اثر انداز ہ وتا ہے اگر اس اثر کو ب غیر مؤثر حقیقی کی طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے خود آفتاب کی جانب سے سمج ھیں تو شرک ہے اور اگر اس کا مؤثر حک یم مطلق کو اور آفتاب کو فیض رسانی کا ذریعہ جانیں تو ہ رگز شرک ن ہیں ہے ،بلک ہ یہ تو ایک طرح کی عبادت ہے ک یونکہ حق کی نشانیوں پر توجہ کرنا خود حق ک ی طرف توجہ کرنے کا پ یش خیمہ ہے ؛ج یسا کہ قرآن مج ید کی بہ ت س ی آیتوں میں اس امر کی جانب اشارہ موجود ہے ک ہ آ یات الہی پر غور کرو اس لئے ک ہ فکر ونظر خود خدائ ے تعال ی کی طرف توجہ کا مقدم ہ ہے ۔

اسی طرح اسباب میں سے ہ ر سبب ک ی طرف جیسے تاجر کی تجارت کی طرف ،کاشتکار کی زراعت کی طرف ،باغبان کی باغبانی کی طرف ،پیشہ ور کی پیشہ ور کی طرف اور منتظم کی اپنے انتظام ک ی طرف یہ ا ں تک کہ کس ی قسم کا کام کرنے وال ے ک ی اپنے شغل اور عمل ک ی طرف مستقل اور خاص توجہ مشرک بناد یتی ہے اور اگر سبب و اسباب پر اس ک ی نظر اس نیت سے ہ و ک ہ "لا مؤثر ف ی الوجود الا اللہ " یعنی اثر دینے والا سوا خدا کے کوئ ی اور نہیں ہے تو کوئ ی قباحت نہیں ہے اور شرک ن ہ ہ وگا ۔

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں

اس مختص تمھید کے بعد جس س ے مطلب واضح ہ وگ یا ہے اور ہ م اصول شرک اور اس ک ے معان ی وآثار بیان کرچکے ہیں ، اب اجازت دیجئے کہ اپن ے ب یانات سے نت یجہ نکالیں اور دیکھیں کہ ہ م ن ے شرک جل ی و خفی کے جو طر یقے بیان

۸۳

کئے ہیں ان میں سے کس ک ے ماتحت آپ ش یعوں کو مشرک کہ ت ے ہیں ۔ آ یا کہ ا ں اور کس پ ڑھے لک ھے یا جاہ ل ش یعہ سے آپ ن ے سنا ہے ک ہ و ہ خدائ ے تعال ی کی ذات وصفات اور افعال میں کسی شریک کا قائل ہ و؟ یا پروردگار کی عبادت میں کسی دوسرے معبود کو پ یش نظر رکھ تا ہ و ؟ یا شیعوں کی کونسی کتب اور اخبار واحادیث میں دیکھ ا ہے ک ہ اصول وفروع اور عقائد ک ے بار ے م یں ان بزرگان دین اور ائمہ طا ہ ر ین سے کوئ ی ایسی بات یا حکم منقول ہ و جو شرک ک ے ان طر یقوں سے ملتا ہ و جو م یں نے عرض ک یئے ؟۔

اب رہ ا شرک خف ی اور اس کے اقسام ج یسے لوگوں کو دک ھ ان ے اور ان کو متاثر کرن ے ک ے لئ ے کوئ ی عمل کریں یا اسباب سے ربط او ر ام ید قائم کریں تو یہ بات تنہ ا ش یعوں سے مخصوص ن ہیں ہے بلک ہ ش یعہ اور سنی سبھی عالم اجسام میں گرفتار ہیں اور بہ ت س ے عقل ومعرف ت ،تزکیہ نفس اور کامل توجہ ن ہ ہ ون ے ک ی وجہ س ے کب ھی کبھی شیطان کے وسوسو ں م یں مبتلا ہ و کر ر یائی عمل کرتے ہیں ،یا سرتا پا اسباب میں محو ہ وجات ے ہیں اور حق کی اطاعت سے ہٹ کر اطاعت ش یطان کرنے لگت ے ہیں اور جیسا عرض کیا جاچکا ہے اگر چ ہ یہ طرز عمل شرک ک ے مف ہ وم م یں آجاتا ہے ل یکن شرک مغفور ہے اور یقینا معانی اور چشم پوشی کے قابل ہے ک یونکہ تھ و ڑی روحانی توجہ س ے اس ک ی تلافی ہ وجات ی ہے ۔ پ ھ ر آپ کس پ ہ لو س ے ش یعوں کو مشرک سمجھ ت ے ہیں ؟ اور عوام کو دھ وک ے م یں ڈ الت ے ہیں ،جیسا کہ ف ی الحال آپ نے اشار ہ ک یا ہے ۔

حافظ:- آپ کی ساری باتیں صحیح ہیں لیکن میں نے عرض ک یا کہ اگر آپ غور فرمائ یے تو خود تصدیق کیجئے گا کہ امامو ں س ے حاجت طلب کرنا اور ان کا وس یلہ اختیار کرنا شرک ہے چونک ہ ہ م ک و انسانی واسطے ک ی ضرورت نہیں ہے ل ہ ذا جب ب ھی خدا کی طرف توجہ کر یں گے نت یجہ حاصل ہ وجائ ے گا ۔

خیرطلب :- بڑے تعجب کا مقام ہے ک ہ آپ کا ا یسا منصف اور ہ وش یار عالم کیونکر بغیر تحقیق کے اپن ے اسلاف ک ی عادتوں ک ے ز یر اثر رہ کر ا یسے بیان دیتا ہے ،غالبا آپ سور ہے ت ھے یا میری گزارشوں ک ی طرف کوئی توجہ ن ہیں تھی کہ ان مقدمات کو ذکر کرن ے کا اور مطالب ک ی تشریح کردینے کے بعد ب ھی آپ یہ بات دہ را ر ہے ہیں کہ امامو ں س ے حاجت چا ہ نا شرک ہے ۔

جناب محترم! کیا مطلقا مخلوقات سے حاجت طلب کرنا شرک ہے ؟ اگر ایسا ہے تو سارا عالم مشرک ہے اور کب ھی کوئی موحد مل نہیں سکتا ۔ اگر خلق س ے حاجت چا ہ نا اور ان س ے مدد ک ی خواہ ش کرنا شرک ہے تو انب یاء کس لئے خلائق س ے امداد مانگت ے ت ھے ؟ ب ہ تر ہ و گا ک ہ آپ ح ضرات کسی قدر قرآن مجید کی آیتوں پر بھی غورفرمائیں تاکہ حق یقت واضح ہ وجائ ے ۔

۸۴

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا

ضرورت ہے ک ہ سور ہ نمبر27(نمل)ک ی آیات نمبر 38 تا 40 پر توجہ فرمائ یے جن میں ارشاد ہے " قَالَ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ٭ قَالَ عِفْريتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ٭ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرّاً عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ٭ "( یعنی جناب سلیمان نے حاضر ین مجلس سے ک ہ ا ک ہ تم م یں سے کون شخص بلق یس کا تخت میرے پاس لائے گا ، قبل اس ک ے ک ہ و ہ لوگ م یرے سامنے اطاعت گزار بن ک ے آئ یں ؟ جنا ت میں سے ا یک دیو بولا کہ م یں اس کا تخت لے آن ے پر ا یسا قادر اور امین ہ و ں ک ہ آپ ک ے دربار س ے ا ٹھ ن ے س ے پ ہ ل ے ہی لا کر حاضر کردوں گا ، اس شخص ن ے جس کو ت ھ و ڑ ا سا علم کتاب معلوم ت ھ ا ( یعنی آصف بن برخیا جو اسم اعظم جانتے ت ھے ) ک ہ ا ک ہ م یں آپ کی پلک جھ پکن ے سے قبل اس کو یہ ا ں لے آؤ ں گا ۔ جب سل یمان نے و ہ تخت اپن ے پاس د یکھ ا تو کہ ا ۔ یہ طاقت میرے پروردگار کے فضل س ے ہے ۔۔ ال ی آخر) بدیہی چیز ہے ک ہ بلق یس کا اتنا بڑ ا تخت اتن ی طویل مسافت سے پلک ج ھ پکن ے س ے قبل سل یمان کے پاس ل ے آنا عاجز مخلوق کا کام ن ہیں ہے اور مسلّم ہے ک ہ ا یک خلاف عادت امر ہے ل یکن حضرت سلیمان نے یہ سمجھ ت ے ہ وئ ے ب ھی کہ یہ کام خدائی قدرت چاہ تا ہے تخت منگوان ے ک ی درخواست خدا سے ن ہیں کی بلکہ ا یک عاجز مخلوق سے حاجت روائ ی اور امداد کی خواہ ش ک ی اور اہ ل دربار س ے فرمائش ک ی کہ و ہ ع ظیم الشان تخت میرے لئے منگوادو، ل ہ ذا خود جناب سل یمان کا عاجز بندوں س ے یہ تقاضا کرنا کہ تم م یں سے کون اپن ی خدا داد قوت سے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور تخت بلق یس کو اس کے آن ے س ے پ ہ ل ے م یرے سامنے حاضر کرسکتا ہے ؟ اس بات کا ثبوت ہے ک ہ مخلوق س ے مطلق حاج ت چاہ نا شرک ن ہیں ہے ۔ خدا ن ے دن یا کو عالم اسباب قرار دیا ہے ۔ شرک ب ھی ایک قلبی امر ہے اگر اس شخص کو جس س ے حاجت طلب کر رہ ا ہے خدا یا خدا کا شریک نہ سمج ھے تو اس س ے مدد ل ینے میں کبھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگو ں م یں رواج ہے ک ہ ہ م یشہ زید ،عمر وبکر کے درواز ے پر جاکر بغ یر خدا کا نام زبان پر جاری کئے ہ وئ ے امداد کا تقاضا کرت ے ہیں ۔

چنانچہ اگر کوئی مریض طبیب اورڈ اک ٹ ر ک ے درواز ے پر جاکر ک ہے ک ہ ڈ اک ٹ ر صاحب م یری فریاد کو پہ نچئ ے ،ب یماری مجھ کو مار ے ڈ الت ی ہے تو ک یا یہ مریض مشرک ہے ؟ ۔

اگر کوئی دریا میں ڈ وبن ے والا ہ و فر یاد کرے ک ہ لوگو م یری مدد کو پہ نچو اور مج ھ کو بچاؤ اور خدا کا نام ن ہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

۸۵

اگر کسی ظالم نے کس ی بے گنا ہ مظلوم کا پ یچھ ا کیا اور اس نے وز یر اعظم کے در پر جا ک ے ک ہ ا جناب وز یر صاحب میری فریاد رسی کیجئے ۔ م یں آپ کا دامن نہ چ ھ و ڑ و ں گا ک یونکہ مجھ کو سوا آپ ک ے اور کس ی سے ام ید نہیں جو مجھ کو اس ظالم ک ے پنج ے س ے چ ھٹ کارا دلائ ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟ ۔

اگر کسی کے گ ھ ر کوئ ی چور جان یا مان یا عزت کے قصد س ے داخل ہ وا اور و ہ کو ٹھے پر چ ڑھ ک ے اپن ے پ ڑ وس یوں کو مدد کے لئ ے پکار ے اور رسما ک ہے ک ہ لوگو م یری مدد کو دوڑ و اور اس چور س ے بچاؤ ل یکن اس وقت خدا کا نا بالکل نہ ل ے تو ک یا وہ مشرک ہے ؟

قطعا جواب نفی میں ہ وگا اور کوئ ی عقلمند آدمی ایسے کو مشرک نہیں کہے گا بلک ہ جو لوگ مشرک ک ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا پھ ر ان ک ی کوئی غرض ہے ۔

محترم حضرات ! انصاف کیجئے اور غلط فہ م ی نہ پ ھیلائے ، بالعموم سارے ش یعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئ ی شخص آل محمد کو خدا سمجھے یا ان کو خدائی ذات وصفات او رافعال میں شریک جانے تو و ہ قطع ی مشرک ہے ۔ اور ہ م لوگ اس س ے ب ے ب یزاری اختیار کرتے ہیں ۔ اگر آ پ نے مص یبتوں میں شیعوں کو" یا علی ادرکنی " یا حسین ادرکنی" کہ ت ے ہ وئ ے سنا ہے تو اس ک ے معن ی یہ نہیں ہیں کہ " یا علی اللہ ادرکن ی" یا حسین اللہ ادرکن ی" بلکہ دن یا چونکہ دار اسباب ہے ک یونکہ "ابی الله ان یجری الامور الا باسبابها" یعنی اللہ ن ے امور کو ب غیر ان کے اسباب نافذ کرن ے س ے انکار ک یا ہے (مترجم)۔ ل ہ ذا ش یعہ اس خاندان جلیل کو وسیلہ اور اسباب نجات سمجھ ت ے ہیں اور انہیں حضرات کے ذر یعے سے خدا تک رسائ ی کی کوشش کرتے ہیں ۔

حافظ:- مستقل طور پر خدا ہی سے ک یوں حاجت طلب نہیں کرتے ک ہ وس یلہ اور واسطہ ک ے پ یچھے دوڑ ر ہے ہیں ؟

خیر طلب :-طلب حاجات اور رنج وغم کے دف یعہ میں ہ مار ی مستقل توجہ پروردگار ہی کی یکتاذات سے مخصوص ہے ل یکن قرآن مجید جو ایک محکم آسمانی کتاب ہے ہ م کو ہ دا یت کررہ ا ہے ک ہ خدا ک ی جلیل بارگاہ م یں وسیلے کے سات ھ حاضر ہ ونا چا ہ ئ یے چنا نچہ سور ہ نمبر 5 (مائد ہ )آ یت نمبر36 میں ارشاد ہ وتا ہے "یا ایهاالذین آمنوا اتقوالله وابتغوه الیه الوسیلة" (یعنی اے ا یمان والو خدا سےڈ رو اور اس ک ی بارگاہ م یں پہ نچن ے ک ے لئ ے (اول یائے حق کا) وسیلہ اختیار کرو (تاکہ مطلب برآئ ے ) ۔

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں

ہ م شیعہ اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کو امور کے حل وعقد م یں قادر مطلق نہیں سمجھ ت ے بلک ہ ان حضرات کو خط ک ے صالح بند ے اور ف یض خداوندی کاواسطہ جانت ے ہیں اور اس جلیل القدر خاندان کے سات ھ ہ مارا توسل رسول الل ہ

۸۶

ک ے حکم س ے ہے ۔

حافظ:- کس مقام پر رسول اکرم (ص) نے ان س ے توسل اخت یار کرنے کا حکم د یا ہے اور ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ واسط ے س ے مراد آل محمد (ص) ہیں ؟ ۔

خیرطلب :-بکثرت حدیثوں میں حکم دیا ہے ک ہ خطرات اور م ہ لکو ں س ے نجات حاصل کرن ے ک ے لئ ے م یری عزت اور اہ ل ب یت سے متوسل ہ و ۔

حافظ:- یا یہ ممکن ہے ؟ اگر ا یسی حدیثیں آپ کی نظر میں ہیں تو ہ مار ے سامن ے ب ھی بیان فرما دیجیئے۔

خیرطلب :-آپ نے جو یہ فرمایا کہ ک ہ ا ں س ے معلوم ہ و ا ک ہ وس یلے سے مراد عترت اور ا ہ ل ب یت پیغمبر (ع) ہیں ؟ تو آپ کے اکابر علماء ج یسے حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی "نزول القرآن فی علی " میں حافظ ابو بکر شیرازی "ما نزل من القرآن فی علی "میں اور امام احمد ثعلبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ آ یہ شریفہ میں وسیلہ سے مراد عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ع)ہیں ۔ چنانچ ہ علماء م یں سے شرح ن ہ ج البلاغ ہ جلد چ ہ ارم صفح ہ 79 م یں حضرت صدیقہ کبری فاطمہ ز ہ را سلام الل ہ عل یھ ا کا وہ خطب ہ نقل ک یا ہے جو جناب معصوم ہ ن ے قض یہ فدک کے سلسل ے م یں مہ اجر ین انصار کے سامن ے ارشاد فرما یا تھ ا چنانچ ہ خطب ے ک ے شروع ہی میں ان مظلومہ ن ے مندرج ہ ذ یل عبارت کے سات ھ اس آ یت کے معن ی کی طرف اشارہ فرما یا ہے "واحمدالل ہ الذ ی بعظمتہ ونور ہ یبتغی من فی السموات والارض الیہ الوسیلۃ ونحن وسیلتہ فی خلقہ "( یعنی میں حمد کرتی ہ و ں اس خدا ک ی جس کی عظمت اور نور کی وجہ س ے آسمانو ں اور زم ینوں کے ر ہ ن ے وال ے اس ک ی طرف وسیلہ تلاش کر تے ہیں ، اور ہ م ہیں اس کا وسیلہ مخلوقات کے اندر ۔

حدیث ثقلین

عترت رسول اور اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک و توسل اور ان ک ی پیروی کے جواز پر مضبوط دل یلوں میں سے ا یک حدیث ثقلین بھی ہے جو فر یقین کے نزد یک صحیح اسناد کے سات ھ توا تر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) س ے ارشاد فرمایا "ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی" (یعنی اگر ان کے سات ھ تمسک رک ھ و گ ے تو م یرے بعد ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ) ۔

حافظ:- میرا خیا ل ہے ک ہ آپ ن ے د ھ وکا ک ھ ا یا ہے جو اس حد یث کو صحیح الاسناد اور متواتر کہہ د یا ہے ۔ اس لئ ے ک ہ یہ مقصد ہ مار ے اکابر علماء ک ے نزد یک غیر معلوم ہے اور اس بات پر دل یل یہ ہے ک ہ ہ مار ے ش یخ بزرگ اور مذہ ب

۸۷

سنت وجماعت ک ے قبل ہ وکعب ہ محمد بن اسماع یل بخاری نے اپن ی معتبر صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد تمام کتابو ں س ے ز یادہ صحیح ہے اس کا ذکر ن ہیں کیا ہے ۔

خیر طلب :-اول تو یہ کہ م یں نے د ھ وکا ن ہیں کھ ا یا ہے بلک ہ اس حد یث مبارک کا صحیح اور معتبر ہ و نا آپ ک ے علماء ک ے نزد یک مسلم ہے یہ ا ں تک کہ ابن حجر مک ی نے اتن ے سخت تعصب ک ے بعد اس ک ی صحت کا اعتراف کیا ہے ۔ ضرورت ہے ک ہ اپن ے ذ ہ ن کو روشن کرن ے ک ے لئ ے صواعق محرق ہ فصل دوم با ب 11 ذیل آیہ چہ ارم صفح ہ 89-90 ک ی طرف رجوع کیجئے جہ ا ں و ہ ترمذ ی ،امام احمد بن جنبل ،طبرانی ،اور مسلم سے روا یتیں نقل کرنے ک ے بعد ک ہ ت ے ہیں "اعلم ان لحدیث التمسک با الثقلین طرقا کثیرۃ و وردت من نیف و عشرین صحابیا "(یعنی جان لو کہ ثقل ین (عترت رسول اور قرآن مجید)سے تمسک کرن ے ک ی حدیث بہ ت طر یقوں سے مرو ی ہے یہ بیس سے ز یادہ اصحاب رسول (ص)سے نقل ہ وئ ی ہے ) ۔

پھ ر کہ ت ے ہیں کہ حد یث کے طرق م یں تھ و ڑ ا سا اختلاف ہے کس ی میں کہ ت ے ہیں کہ حج ۃ الوداع میں عرفات کے اندر ، کس ی میں مرض الموت کے عالم م یں مدینے کے اندر جب حجر ہ صحاب ہ س ے ب ھ را ہ وا ت ھ ا کس ی ،میں ملتا ہے غد یر خم کے اندر اور کس ی میں درج ہے ک ہ طائف س ے وا پسی کے بعد کا ذکر ہے اس ک ے بعد خود ہی تبصرہ کرت ے ہ وئ ے ک ہ ت ے ہیں کہ ان اختلافات م یں کوئی منافات نہیں ہے اور بلکل ممکن ہے ک ہ رسول اکرم (ص)نے قرآن کر یم اور عترت طاہ ر ہ ک ی عظمت وشان ثابت کرنے ک ے لئ ے ان سار ے مقامات پر بار بار اس حد یث کو ارشاد فرمایا ہ و ۔

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے

دوسرے آپ نے یہ فرمایا ہے ک ہ بخار ی کا اپنی صحیح میں نقل نہ کرنا اس حد یث کے صح یح نہ ہ ون ے ک ی دلیل ہے تو آپ کا یہ بیان بہ ت س ی وجہ و ں س ے قابل رد اور علماء ک ے نزد یک لائق نفرت ہے ک یونکہ یہ حدیث مبارک اگرچہ بخار ی نے اپن ی صحیح میں درج نہیں کی ہے ،ل یکن آپ کے اکابر علماءن ے بالعموم اس کو نقل ک یا ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ مسر مسلم بن حجاج اور سار ے ارباب صحاح ست ہ نس اپن ی معتبر کتابوں م یں تفصیل کے سات ھ ذکر ک یا ہے ۔

یا تو آپ حضرات کوچاہیئے کہ تمام صحاح اور اپن ے علماء ک ی معتبر کتابوں کو د ھ و کر دور پ ھینک دیجیئے اور اپنے سار ے عقائد کو صرف بخار ی تک محدود رکھیئے یا اگر دوسرے علماء ک ی عدالت اور علم ودانش کے معترف م یں جواپنے دور ا ہ ل سنت ک ے درم یان علم وفہ م او ر تقو ی میں ممتاز ت ھے خصوصا صحاح ست ہ ک ے مؤلف ین تو آپ کا فرض ہ وگا ک ہ اگر کس ی خبر کو اپنی مصلحتوں ک ی بنا پر بخاری نے ن ہیں لکھ ا ہے اور دوسرو ں ن ے نقل ک یا ہے تو اس کو قبول فرمائ یے ۔

۸۸

حافظ:- مصلحت کوئی بھی نہیں تھی صرف امام بخاری محتاط بہ ت ز یادہ تھے اور نقل اخبار م یں بہ ت جانچ پ ڑ تال کرت ے ت ھے چنانچ ہ جس روا یت کو سند یا عبارت کے لحاظ س ے مشکوک اور عقل ک یخلاف پایا اس کو نقل نہیں کیا ۔

خیر طلب :- قاعدہ "حب الشیء یعمی ویصم"(یعنی کسی چیز کی محبت آدمی کو اندھ ا اور ب ہ را بناد یتی ہے )ک ے مطابق اس مقام پر حضرات ا ہ ل سنت کو غلط ف ہ م ی ہ وئ ی ہے ک یوں کہ آپ ان ک ے بار ے م یں غلو رکھ ت ے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ امام بخار ی بہ ت بار یک بین تھے او ر جو روا یت انہ و ں ن ے اپن ی صحیح میں درج کی ہے و ہ انت ہ ائ ی معتبر اور وحی کی منزل کے مانند ہے حالانک ہ ا یسا ہے ن ہیں ، بخاری کے سلسل ہ اسناد م یں بکثرت مردود ،منفور کذاب اور جعال اشخاص موجو د ہیں۔

حافظ:- آپ کایہ بیان مردود ومنفور ہے اس لئ ے ک ہ آپ ن ے بخار ی کے مرتب ہ علم ودانش ک ی توہین کی ہے ( یعنی سارے ا ہ ل سنت وجماعت ک ی اہ انت ک ی ہے )-

خیرطلب :-اگر علمی تنقید اہ انت ہے تو آپ ک ے تمام ب ڑے ب ڑے علماء جن ہ و ں ن ے روا یات کی گہ ر ی تحقیق کی ہے اور آپ ک ی معتبر صحاح کی بلکہ مخصوص طور پر صح یح بخاری اور صحیح مسلم کی بہ ت س ی روایتوں کو ان کے سلسل ہ اسناد م یں مردود ،کذاب اور جعال شخص کے موجو د ہ ون ے ک ی وجہ س ے رد کرد یا ہے ، سب س ے مرتب ہ علم ودانش ک ی تو ہین کرنے وال ے اور مردود ت ھے۔

بہ تر ہ وگا آپ حضرات کتب اخبار م یں ذرا دقت نظر سے کام ل یں اور مطالعے ک ے وقت غلو ک ی نگاہ س ے ن ہ د یکھیں کہ چ ونکہ یہ بخاری یا مسلم ہیں لہ ذا جو کچ ھ نقل کرد یا ہے ہ ر ح یثیت سے صح یح اور یقینی ہے ۔

ضروری ہے ک ہ آپ ک ے و ہ علماء جو صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کے بار ے م یں غلو کا عقیدہ رکھ ت ے ہیں پہ ل ے ان کتابو ں ک ی طرف رجوع فرما ئیں جو اخبار کی جرح وتعدیل میں لکھی گئی ہیں تا کہ امام بخار ی کی قدر منزلت اور نقل احادیث میں ان کی گہ ر ی تحقیق کی حقیقت معلوم ہ وجائ ے ۔ اگر آپ "اللئا ل ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ" ،سیوطی "میزان الاعتدال" تلخیص المستدرک ذہ ب ی" تذکرۃ الموضوعات ابن جوزی " تاریخ بغدادمؤلفہ ابو بکر احمد ابن عل ی خطیب بغداد اور علم رجال میں اپنے دوسر ے بزرگ علماء ک ی ساری کتابیں پ ڑھیں تو پھ ر مج ھ پر اعتراض ن ہ کر یں اور یہ فرمائیں کہ تم ن ے حضرت بخار ی کی اہ انت ک ی ہے

۸۹

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں

آخر میں نے کون س ی بات عرض کی کہ آپ اس قدر غ ھہ م یں بھ ر گئ ے ؟م یری گذارش تو صرف یہی تھی کہ آپ ک ی صحاح یہ ا ں تک کہ صح یحین ،بخاری ومسلم میں بھی مردود اور کذاب رجال سے ب ھی روایات اور احادیث مروی ہیں۔ اگر آپ کتب رجال کو پ یش نظر رکھ ت ے ہ وئ ے صح یح بخاری کی روایتوں کا غور سے مطالع ہ فرمائ یں تو نظر آجائے گا ک ہ ان ہ و ں ن ے بکثرت جعّال ،وضّاع اور مردود رجال س ے خبر یں نقل کی ہیں جیسے ابو ہ ر یرہ کذّاب ،عکرمہ خارج ی،محمد بن عبد سمر قندی محمد بن بیان ، ابراہیم بن مہ د ی ابلی بنوس بن احمد واسطی ،محمد بن خالد حنبلی،محمد بن محمد یمانی،عبد اللہ بن واقد حرّان ی ابوداؤد سلیمان بن عمر کذّاب ،عمران بن حطّان اور ان کے علاو ہ دوسر ے مردود راو ی جن کی پوری فہ رست پ یش کرنے کا ن ہ وقت ہے ن ہ سب م یرے حافظہ م یں محفوظ ہے اگر آپ رجال ک ی کتابیں ملاحظہ فرمائ یں تو حقیقت امر ظاہ ر ہ وجائ ے گ ی کہ حضرت بخار ی ویسے نہیں ہیں جیسے آپ کی نگاہ و ں م یں پھ ر ر ہے ہیں ،یعنی غیر معمولی طور پر تحقیق اور احتیاط سے کام ن ہیں لیتے تھے بلک ہ نقل اخبار م یں اشخاص کے صرف ظا ہ ر ی حالات پر توجہ رک ھ ت ے ت ھے ۔ہ مار ی اصطلاح میں اپنی جگہ پر ب ہ ت خوش ف ہ م اور خوش عق یدہ تھے اور جس شخص سے ب ھی کوئی ایسی روایت سن لی جو بظاہ ر ٹھیک ہ و اس ک ی درج کر لیا۔

اس مطلب پر خود آپ کے علماء ک ی کتب رجالیہ گواہ ہیں جن میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ کرچکا ہ و ں ک ہ ان ہ و ں ن ے موضوع اور مردود روا یات کی چھ ان ٹ ک ے الگ کرد یا ہے اور بخار ی و مسلم کے سلسلہ روا یات میں محققانہ وقت نظر س ے کام ل یتے ہ وئ ے ان م یں سے ب ہ تو ں کا پرد ہ فاش کردیا ہے تاک ہ ہ مار ی اور آپ کی توجہ مبذول ہ و اور ان کتابو ں پر نظر رک ھ ت ے ہ وئ ے آج رات کو یہ نہ فرمائ یے کہ حد یث ثقلین اور عترت طاہ ر ہ ہے تمسک کو بخار ی نے اپن ی احتیاط کی وجہ س ے نقل ن ہیں کیا ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ ا یک محقق اور محتاط عالم غیرمؤثق ،کذّاب او ر وضّاع روایوں سے ا یسی فرضی روایتیں نقل کرے جو ا ہ ل علم اور ارباب عقل ودانش ک ے نزد یک مضحکہ بن ک ے ر ہ جائ یں کیاکلیم اللہ کا ملک الموت ک ے من ہ پر طمانچ ہ مارک ے ان کو اندھ ا بنا د ینا یا آپ کا پا برہ ن ہ بغ یر ساتر عورتین کے بن ی اسرائیل کے درم یان دوڑ نا جس ک ا تذکرہ م یں نے پ ہ ل ے کرچکا ہ و ں ،خرافات اور مو ہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟

کیا قیامت کے روز خدا ک ی رویت یا اس کے زخم ی پاؤں یا اپنی پنڈ ل ی کھ ولن ے ک ی حدیثیں جو انہ و ں ن ے صح یح کے اندر نقل ک ی ہیں اور ان میں سے بعض ک ی طرف میں اشارہ ب ھی کر چکا ہ و ں کفر یات میں سے ن ہیں ہیں۔ ؟

۹۰

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت

کیا یہ بخاری کی سخت علمی اور عملی احتیاط ہی کا نتیجہ ہے ک ہ اپن ی صحیح جلد دوم "باب اللہ و با الحراب "صفحہ 120 م یں اسی طرح مسلم جلد اول "باب الرخصۃ فی اللعب الذی ما معصیۃ فیہ فی ایام السعید" میں ابو ہ ر یرہ سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ ع ید کے روز کچ ھ حبش ی سیّاح مسجد رسول (ص) میں جمع ہ وئ ے ت ھے اور ناچ کود ک ے فن س ے لوگو ں کو خوش کر ر ہے ت ھے رسو ل الل ہ (ص) ن ے عائش ہ س ے فرما یا کیا تم بھی دیکھ نا چاہ ت ی ہ و؟ ان ہ و ں ن ے عرض ک یا ہ ا ں یا رسول اللہ (ص) ۔ حضرت ن ے ان کو اپن ی پیٹھ پر اس طریقہ سے سوال ک یا کہ ان ہ و ں ن ے اپنا سر آن حضرت (ص)کے کاند ھے ک ے اوپ ر سے نکالا اور چ ہ ر ہ آپ ک ے چ ہ ر ہ مبارک پر رک ھ ل یا۔ آنحضرت(ص) عائش ہ کو محفوظ کرن ے ک ے لئ ے ان لوگو ں کو ترغ یب دے ر ہے ت ھے ک ہ اس س ے ب ہ تر نا چ دک ھ ائ یں ،یہ ا ں تک عائشہ ت ھ ک گئ یں تو ان کو زمین پر اتار دیا ۔

خدا کے لئ ے انصاف ک یجئے کہ اگر آپ حضرات م یں سے کس ی کی طرف ایسی بات منسوب کی جائے تو ک یا آپ ناراض نہ ہ و ں گ ے اور اس کو اپن ی توہین نہ سمج ھیں گے ؟ اگر کوئ ی جناب حافظ صاحب سے ک ہے ک ہ مج ھ س ے ا یک راوی نے ب یان کیا ہے ک ہ کل شب م یں جب حافظ صاحب کے مکان ک ی پشت پر بازی گروں کا ا یک دستہ سازندگ ی او ربازیگری میں مشغول تھ ا تو میں نے د یکھ ا جلیل القدر عالم جناب حافظ صاحب اپنی بیوی کو پیٹھ پر اٹھ ائ ے تماش ہ د یکھ ار ہے تھے بلک ہ باز یگروں سے یہ بھی کہہ ر ہے ت ھے ک ہ خوب ناچ ے جاؤ تاک ہ م یری بیوی اور لطف اندوز ہ و ۔ تو للل ہ سچ ک ہ ئ یے گا کہ یہ بات سن کر حافظ صاحب متاثر اور شرمندہ تو ن ہ ہ و ں گ ے ؟ اور اس کو ا یک مخلص خادم ہ ون ے ک ے بعد اگر کس ی شخص سے ا یسی خبر سنوں چا ہے و ہ بظا ہ ر معتبر ہی ہ و تو ک یا میرے لئے اس کونقل کرنا مناسب ہے ؟ اور اگر م یں بیان کردوں تو عقلمند لوگ یہ نہ سمج ھیں گے ک ہ فلاں جاہ ل ن ے ا یک بات کہ د ی تو آپ نے ہ وش یار ہ وکر ک یوں اس کو نقل کیا؟۔

اب ذرا بخاری کی روایتوں پر فیصلہ دیجئے کہ اگر و ہ واقع ی محقق اور اخبار کی چھ ان ب ین کرنے وال ے ت ھے تو فرض ک یجئے ایسی روایت انہ و ں سن ی تھی تو کیا مناسب تھ ا ک ہ اس کو اپن ی کتاب میں نقل بھی کریں اور پھ ر مولو ی صاحبان اس کتاب کو "اصح الکتب بعد القرآن "بتائیں ؟

لیکن حدیث ثقلین کو جس میں رسول اللہ (ص) اپن ی امت کو حکم دے ر ہے ہیں کہ م یرے بعد قرآن مجید اور میرے اہ ل ب یت طاہ ر ین علیھ م السلام سے تمسک کرو، نقل ن ہ کر یں (کیونکہ عترت کا نام بیچ میں ہے ) البتہ فرض ی گھڑی ہ وئ ی روایتیں جن کی پو ری تفصیل کا وقت نہیں اپنی کتابوں ک ے ابواب م یں درج کریں۔

۹۱

ہ ا ں ایک پہ لو س ے م یں ضرور آپ کی تصدیق کرتا ہ و ں ک ہ علماء ا ہ ل سنت ک ے درم یان بخاری صاحب یقینا اس حیثیت سے ب ہ ت محتاط ت ھے ک ہ جس روا یت میں یہ نظر آیا کہ عنوان امامت و ولا یت کے لحاظ س ے ولا یت علی ابن ابی طالب علیھ ما السلام او ر حرمت اہ لب یت طاہ ر ین علیھ م السلام کے ثبوت م یں کوئی راہ نکل ر ہی ہے تو احت یاطا اس کو نقل نہیں کیا کہ ا یسا نہ ہ و کس ی روز عقلمندوں ک ے ہ ات ھ کا حرب ہ بن جائ ے اور و ہ حق و حق یقت کو ظاہ ر کرد یں ۔ چنانچ ہ جب ہ م صحاح ک ی جلدوں کا صح یح بخاری سے مقابل ہ کرت ے ہیں تو اس نتیجے تک پہ نچت ے ہیں ۔ کہ اس روشن موضوع پر کوئی روایت چاہے و ہ متواتر ،ضرور ی اور قرآن وآیات الہی کی تائید سے مضبوط ہی ہ و ان ہ و ں ن ے نقل ن ہیں کی ہے ج یسے آیات مبارکہ "یا ایها الرّسول بلغ ما انزل الیک من ربّک " ، "انما ولیکم الله و رسو له و الذین آمنو الذین یقیمون الصلواة و یوتون الزکا ة و هم راکعون"،"و انذر عشیرتک الاقربین" وغ یرہ کی شان میں بکثرت حدیثیں ،حدیث ولایت یوم الغدیر ، حدیث انذار ، حدیث مواخات ، حدیث، حدیث سفینہ ،حدیث با ب الحطہ اور دوسر ی حدیثیں جو اہ لب یت طہ ارت عل یھ م السلام کی حرمت وولایت کے اثبات س ے نسب ت رکھ ت ی تھیں انہ و ں ن ے احت یاطا نقل نہیں کیں ۔ ل یکن ہ ر و ہ حد یث جو انبیاء کرام او ر با لخصوص حضرت خاتم الا نبیاء (ص) کے وجود اقدس اور آنحضرت (ص) ک ی عترت طاہ ر ہ ک ے مقامات ومدارج عال یہ کی اہ انت کا کوئ ی پہ لو رک ھ ت ی تھی وہ (چا ہے کس ی جعّال ،کذّاب اور وضّاع ہی سے م نقول ہ و)بغ یر احتیاط کے نقل کرد ی جن میں بعض کی طرف اشارہ ہ و چکا ہے ۔

حدیث ثقلین کے اسناد

اب میں مجبور ہ و ں ک ہ آپ ک ی بعض کتابوں ک ی طرف اشارہ کرو ں تاک ہ آپ ب ھی جان لیں کہ حد یث مبارکہ ثقل ین کو اگر بخاری صاحب نے درج ن ہیں کیا ہے تو آپ ک ے دوسر ے اکابر وموثق ین علماء یہ ا ں تک کہ بخار ی کے ہ م پل ہ (ج یسا کہ آپ ب ھی مانتے ہیں )مسلم بن حجاج نے ب ھی نقل کیا ہے ۔

مسلم بن حجاج نے "صح یح مسلم"جلد ہ فتم صفح ہ 122 م یں ،ترمذی نے " صح یح " میں ، ابو داؤد نے "سنن "جزء دوم صفح ہ 207 م یں نسائی نے " خصائص "صفح ہ 30 م یں ، امام احمد بن جنبل نے "مسند "جلد سوم صفح ہ 14-17 وجلد پنجم صفح ہ 182-189 م یں ،حاکم نے مستدرک"جلد سوم صفح ہ 109 -148 میں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیا " جلد اول صفحہ 355 م یں ،سبط ابن جوزی نے تذکر ۃ صفحہ 186 م یں ، ابن اثیر جوزی نے اسد الغاب ہ جلد دوم صفح ہ 12 وجلد سوم صفح ہ 147 م یں حمیدی نے جمع ب ین الصحیصین میں ، رزین نس "جمع بین الصحاح الستہ "م یں ، طبرانی نے "کبیر" میں ،ذہ ب ی نے " تلخیص مستدرک" میں ، ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" میں محمد ابن طلحہ شافع ی نے "مطالب السئول" م یں ، خطیب خوارزمی نے " مناقب" م یں سلیمان بلخی

۹۲

حنفی نے " ینابیع المودۃ"باب 4 میں ، میر سید علی ہ مدان ی نے "مود ۃ القربی " کی مودۃ دوم میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلاغ ۃ " میں ، شبلنجی نے " نور الابصار" صفح ہ 99 م یں ،نورالدین بن صباغ مالکی نے " فصول الم ہ م ہ "صفح ہ 25م یں ، حموینی نے فرائد السبط ین میں ،امام ثعلبی نے "مناقب "م یں ، محمد بن یوسف کنجی شافعی نے "کفا یت الطالب"باب اول بیان صحت خطبہ غد یر خم وضمن باب 62صفحہ 130 م یں ، محمد بن سعد کاتب نے " طبقات" جلد چ ہ ارم صفح ہ 8 م یں ، فخر الدین رازی نے " تفس یر کبیر "جلد سوم ضمن آیہ اعتصام صفحہ 18 م یں ابن کثیر دمشقی نے " تفس یر" جلد چہ ارم ضمن آ یہ مودت صفحہ 113 م یں ،ابن عبد ربہ ن ے "عقد الفر ید" جلد دوم صفحہ 158 ،346 میں ، ابن ابی الحدید نے " شرح ن ہ ج البلا غ ہ " جزء ششم صفح ہ 130 ،سل یمان حنفی نے ینابیع المودۃ صفحات115،95،34،32،31،30،29،25،18، 230،199،126، میں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ ،ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ صفحات 136،99،90،87،75، م یں مختلف عبارتوں ک ے سات ھ اور آپ کے دوسرے اکابر علماء ن ے جن ک ے سار ے اقوال کرنا اس مختصر جلس ہ م یں دشوار ہے الفاظ وعبارات ک ے مختصر اختلاف ک ے سات ھ اس حد یث مبارک کو جو نقل اقوال خاصہ وعام ہ ہے تواتر ک ی حد تک پہ نچ ی ہ وئ ی ہے رسول اکرم(ص) س ے نقل ک یا ہے ک ہ آپ(ص) ن ے فرما یا "انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهلبیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض من توسل(تمسک) بهما فقد نجی ومن تخلف عنها فقد هلک ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا " ( یعنی بہ تحق یق میں تمہ ار ے درم یان دو گرانقدر چیزیں چھ و ڑ ر ہ ا ہ و ں ،الل ہ ک ی کتاب(قرآن مجید) اور میری عترت و اہ ل بیت یہ دونوں آپس م یں ایک دوسرے س ے جدا ن ہ ہ و ں گ ے یہ ا ں تک کہ حوض کوثر ک ے کنار ے م یرے پاس پہ نچ جائ یں جو شخص ان دونوں س ے توسل وتمسک رک ھے گا و ہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جو شخص ان دونو ں س ے من ہ مو ڑے گا تو و ہ یقینا ہ لاک شد ہ ہے جب تک ان دونو ں س ے تمسک کروگ ے ہ رگز کبھی گمراہ ن ہ ہ و ں گ ے ) ۔

یہ ہ مار ی ایک محکم دلیل ہے ک ہ ہ م رسو ل (ص)ک ے حکم س ے قرآن کر یم اور اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص) سے تمسک وتوسل رک ھ ن ے پر مجبور ہیں۔

شیخ:- اس حدیث کو صالح بن موسی بن عبداللہ بن اسحق بن طلح ہ بن عبدالل ہ القرش ی التیمی،الطلحی نے اپن ی سند کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ ۔ "انی قد خلفت فیکم ثنتین کتاب الله و سنتی الی آخر"

خیر طلب :- آپ نے پ ھ ر ا یک طرفہ ا یک بدکار ،متروک ، ضعیف اور ارباب جرح وتعدیل ، جیسے ذہ ب ی ،یحیی ،امام نسائی ،بخاری ،اور ابن عبد ربہ وغ یرہ کے نزد یک مردود فرد سے حد یث نقل کرکے وقت ضائع ک یا ۔

جناب من!

کیا آپ ہی کے اکابر علماء س ے اس قدر معتبر روا یتوں کا نقل کرنا آپ کے لئ ے کاف ی نہیں ہ وا جو آپ اپن ے نقاد

۹۳

علماء ک ے نزد یک ایسی ناقابل قبول حدیث کا سہ ارا ڈھ ون ڈھ ا ؟ حالانک ہ فر یقین (سنی ،شیعہ)کا اس پر اتفاق ہے ک ہ رسول اکرم ن ے کتاب الل ہ و عترت ی فرمایا ہے ن ہ کہ سنت ی کیونکہ کتاب وسنت دونوں اپن ے لئ ے شارح چا ہ ت ی ہیں۔ اور جب سنت خود شارح ک ی محتاج ہے تو قرآن ک ی پوری شارح نہیں بن سکتی لہ ذا عد یل قرآن ،عترت اور اہ ل ب یت ہیں جو قرآن کی تفسیر کرنے وال ے بھی ہیں اور سنت رسول(ص)ظاہ ر کرن ے وال ے ب ھی ۔

حدیث سفینہ

اہ ل بیت رسول (ص) کے توسل پر ہ مار ی دلیلوں میں سے معتبر حد یث سفینہ بھی ہے جس کو آپ ک ے ب ہ ت ب ڑے ب ڑے علماء ن ے تقر یبا تواتر کی حد تک نقل کیا ہے ۔ جس قدر م یرے پیش نظر ہے آپ ک ے سو100 نفر س ے ز یادہ اکابر علماء نے اپن ی کتابوں م یں درج کیا ہے ،مثلا مسلم بن حجاج نے اپن ی "صحیح "میں ، امام احمد بن حنبل نے "مسند" م یں ،حافظ ابو نعیم اصفہ ان ی نے "حل یۃ الاولیاء" میں ، ابن عبد البر نے " است یعاب" میں ، ابو بکر خطیب بغدادی نے " تار یخ بغداد" میں ، محمد ابن طلحہ شافع ی نے " مطالب السئول" م یں ، ابن اثیر نے "ن ہ ا یہ" میں ، سبط ابن جوزی نے " تذکر ہ "م یں ، ابن صباغ مالکی نے "فصول الم ہ م ہ " م یں ،علامہ نورالد ین سمہ ود ی نے "تار یخ المدینہ" میں ، سید مومن شبلنجی نے "نور الابصار"م یں ، امام فخر الدین رازی نے "تفس یر مفا تیح الغیب"میں ، جلال الدین سیوطی نے "در المنثور "م یں امام ثعلبی نے "تفس یر کشف البیان" میں ، طبرانی نے "اوسط"م یں ،حاکم نے " مستدرک " م یں جلد سوم صفحہ 151 م یں ،سلیمان بلخی حنفی نے " ینابیع المودۃ" باب 4 میں ،میر سید علی ہ مدان ی نے "مودت القرب ی " مودت دوم میں ، ابن حجر مکی نے " صواعق محرق ہ " ذ یل آیت ہ شتم م یں ۔ طبر ی نے اپن ی "تفسیر اور تاریخ"میں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے "کفا یت المطالب "باب 233 اور آپ کے دوسر ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے ک ہ حضرت خاتم الانب یاء نے فرما یا " انما مثل اہ لب یتی کمثل سفینۃ نوح من رکب نجی ومن تخلف عنھ ا ھ لک"( یعنی سوا اس کے ن ہیں ہے ک ہ تم ہ ار ے درم یان میرے اہ ل ب یت کی مثال کشتی نوح کے مثل ہے ک ہ جو شخص پر سوار ہ و ا اس ن ے نجات پائ ی ۔ اور جس شخص ن ے اس س ے روگردان ی کی ہ لاک ہ وگ یا)۔

نیز امام محمد بن ادریس شافعی نے اپن ے اشعار م یں اس حدیث کی صحت کی طرف اشارہ ک یا ہے ۔ چنانچ ہ علام ہ فاضل عج یلی نے "ذخ یرۃ المال میں ان کو اسطرح سے نقل ک یا ہے ۔

ولمّا رایت النّاس قد ذهبت بهم ------ مذاهب هم فی ابحر الغیّ والجهل

رکبت علی اسم الله فی سفن النجاة ------ وهم اهل بیت المصطفی خاتم الرّسل

وامسکت حبل الله وهو ولاؤهم ------ کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

اذا افترقت فی الدین سبعون فرقة ------ وینفا علی ما جاء فی اصح النقل

ولم یک ناج منهم غیر فرقة ------ فقل لی بها یا ذا الرجائة ولعقل

۹۴

انی الفرقة الهلاک آل محمد ------ ام الفرقة اللاتی نجت منهم لی قل

فان قلت فی النّاجین فالقول واحد ------ وان قلت فی الهلاک حفت عن العدل

اذا کان مولی القوم منهم فاننی ------ رضیت بهم لا زال فی ظلّهم ظلّ

رضیت علیا لی اماما و نسله ------ وانت من الباقین فی اوسع الحل (1)

اگر آپ ان کھ ل ے ہ و ئ ے اور و ہ ب ھی اہ ل سنت و جماعت ک ے پ یشوائے بزرگ امام شافعی کے اشعار پر پور ی توجہ فرمائ یں تو دیکھیں گے ک ہ و ہ ک یونک کر اس کا اقرار کر رہے ہیں کہ اس س ے سف ینے کی سواری اور اس پاک خاندان سے تمسک اور تو سل ذر یعہ نجات ہے ک یونکہ امت مرحومہ ک ے ب ہ تر فرقو ں م یں سے ناج ی فرقہ صرف و ہی ہے جو آل محمد (ع) ک ے دامن س ے متمسک اور متوسل ہے اور ادربس چنانچ ہ ش یعہ خود رسول اللہ (ص) ک ے حسب الحکم خدا کی طرف اسی خاندان جلیل کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ایک بات اور یاد آگئی کہ اگر آپ کے قول کے مطابق انسان واسط ے اور وس یلے کا محتاج نہیں ہے اور بارگا ہ خداوند ی میں اگر وسیلے کے سات ھ فر یاد و استغاثہ بلند کر ے تو گن ہ گار اور مشرک ہ وگا ۔ تو پ ھ ر خل یفہ عمر الخطاب کس لئے احت یاج اور اضطرار کے موقع پر واسط ے ک ے سات ھ خدا ک ی طرف رجوع کرتے ت ھے ا ور اس طرح استغاثہ کر ک ے کام یابی حاصل کرتے ت ھے ؟

حافظ:- ہ رگز خل یفہ عمر رضی اللہ عن ہ ن ے واسط ے ک ے سات ھ کوئ ی عمل انجام نہیں دیا اور یہ پہ لا موقع ہے جب م یں ایسے الفاظ سن رہ ا ہ و ں گزارش ہے ک ہ اس کا مجمل ب یان فرمائیے ۔

خیرطلب:- خلیفہ احتیاج کے مواقع پر بار بار ا ہ ل ب یت رسالت (ع) اور آنحضرت کی عترت طاہ ر ہ کا وس یلہ ڈھ ون ڈ ھ ت ے ر ہ ت ے ت ھے اور ان ہیں کے توسل س ے خدا ک ی طرف رجوع کرکے مطلب حاصل کرت ے ت ھے وقت کا لحاظ رکھ ت ے ہ وئ ے صرف دو موقع ے نمون ے ک ے طور پر پ یش کرتا ہ و ں ۔

(پہ لا)ابن حجر مک ی ،صواعق محرقہ م یں آیۃ نمبر14 کے بعد تار یخ دمشق سے نقل کرت ے ہیں کہ سن ہ 17 ہ جر ی میں دعائے بارش ک ے لئ ے لوگ کئ ی مرتبہ نکل ے ل یکن کوئی نتیجہ نہیں ہ و ا سب ب ہ ت متاثر اور پر یشان ہ وئ ے تو عمر ابن الخطاب ن ے ک ہ ا ک ہ اب م یں کل ضرور بالضرور اس شخص کے وس یلے سے طلب باران کرو ں گا جس ک ے واسط ے س ے حتم ی

--------------

(1):- (جب میں نے لوگوں کو جہل گمراہی کے دریا میں غرق دیکھا تو خدا کے نام پر نجات کی کشتیوں میں بیٹھا جو خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی کے اہل بیت ہیں ۔میں نے جہل خدا سے تمسک کیا جو اسی خاندان کی دوستی ہے جیسا کہ ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس حبل سے متمسک رہیں ۔جس وقت دین کے اندر ستر سے زیادہ فرقے پیدا ہوگئے جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر آیا ہے اور ان میں سواایک کے کوئی ناجی نہیں ہے تو مجھے سے کہو کہ اے صاحب عقل ودانش ! کہ آیا خاندان رسالت اور آل محمد علیھم السلام کسی فرقہ میں سے ہیں؟یا نجات کی پانے والے حق فرقے کے افراد ہیں؟اگر یہ کہو کہ فرقہ ناجیہ میں ہیں تو ہمارا اور تمہارا قول ایک ہے اور اگر کہو کہ باطل ہونے والے فرقوں کے ساتھ ہیں تو تم صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ۔ اگر قوم کا سردار ان حضرات(ع) میں سے ہو تو میں بخوشی ان کی اطاعت کے لئے آمادہ ہو رہا ہوں ۔ان کا سایہ ہمیشہ سروں پر قائم ہے ۔میں علی اور ان کی اولاد علیھم السلام کی امامت پر راضی ہوں ۔ جو حق پر ہے اور تم باطل فرقوں میں رہو اس روز تک جب حقیقت ظاہر ہو جائے )

۹۵

طور پر خدا ہ م کو پان ی دے گا ۔ دوسر ے دن صبح کو خل یفہ عمر آن حضرت صلعم کے چچا عباس ک ے پاس گئ ے اور ک ہ ا "اخرج بنا حت ی نستسقی اللہ بک " (ہ مار ے سات ھ با ہ ر چلو تا ک ہ ہ م بارگا ہ ال ہی میں تمہ ار ے وس یلے سے پان ی طلب کریں۔

جناب عباس نے فرما یا تھ و ڑی دیر بیٹھ جاؤ تاکہ م یں وسیلہ مہیا کر لوں ،پ ھ ر کس ی کو بھیج کر بنی ہ اشم کو اطلاع د ی کہ اور پاک لباس پ ہ ن ک ے خوشبو لگا ک ے اس صورت س ے با ہ ر آئ ے ک ہ عل ی علیہ السلام عباس کے آگ ے امام حسن عل یہ السلام داہ ن ی طرف، امام حسین علیہ السلام بائیں طرف اور دوسرے بن ی ہ اشم پ یچھے پیچھے تھے اس وقت فرما یا کہ ا ے عمر کس ی اور شخص کو ہ مار ے سات ھ شامل ن ہ کر ۔ چنانچ ہ اس ی حالت سے مصل ے تک پ ہ نچ ے اور جناب عباس ن ے مناجات ک ے لئ ے ہ ات ھ کو بلند کر ک ے عرض ک یا ۔ پروردگار ا ! تو ن ے ہ م کم خلق فرما یا اور جو کچھ ہ م عمل کرت ے ہیں تو اس سے واقف ہے پ ھ ر عرض ک یا کہ "الل ھ م کما تفضلت عل ینا فی اولہ فتفضل عل ینا فی آخرہ " ( یعنی پر وردگار جس طرح تو نے ابتدا م یں ہ م پر فضل ک یا ہے اس ی طرح آخر میں ہ مار ے اوپر تفضل فرما)جابر ک ہ ت ے ہیں ان کی دعا تمام نہ ہ وئ ی تھی کہ بادل آنا شروع ہ وئ ے اور پان ی برسنے لگا ۔ اب ھی ہ م لوگ گ ھ رو ں تک ن ہیں پہ نچ ے ت ھے ک ہ بارش س ے ب ھیگ گئے ۔

نیز بخاری سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ قحط ک ے زمان ہ م یں عمر ابن خطاب عباس ابن عبد المطلب کے وس یلے سے بارگا ہ خداوند ی میں پانی کے لئ ے دعا کر ر ہے ت ھے اور ک ہ ت ے ت ھے "الل ھ م انا نتوسل ال یک بعم نبینا فاسقنا فیسقون" یعنی خداوندا ہ م ت یری طرف عم رسول (ص) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ہ م کو سیراب کردے ،چنانچ ہ ان لوگو ں پر نزول بارا ں ہ وا )

(دوسرا)ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہ ج البلاغ ہ (مطبوع ہ مصر) جلد دوم صفح ہ 256 م یں نقل کرتے ہیں کہ خل یفہ عمر جناب عباس عم رسول(ص) کے ہ مرا ہ استسقاء ک ے لئ ے گئ ے اور اس طرح دعا ک ی "اللھ م انا نتقرب ال یک بعم نبیک وبقیۃ آبا ئہ وکبر رجال ہ فاحفظ الل ھ م نب یک فی عمہ فقد ولونا ب ہ ال یک مستشفعین ومستغفرین "(یعنی خداندا ! ہ م ت یری طرف وسیلہ ڈھ ون ڈ ت ے ہیں تیرے پیغمبر کے چچا اور ان ک ے آباء اور بزرگ مردو ں م یں سے باق ی ماندہ ک ے ذر یعے سے ، پس اپن ے پ یغمبر کی منزل ان کے چچا ک ے بار ے م یں محفوظ رکھ ک یونکہ ہ م ن ے ان ک ی وجہ سے تیری طرف ہ دا یت پائی تاکہ شفاعت طلب کر یں اور اسغفار کریں۔

۹۶

حضرات اہ ل سنت اور پ یروان خلیفہ عمر کے حالات تو اس مش ہ ور مثل ک ے مطابق ہیں کہ "کاس ہ گرم تر از آش " " یعنی شوربے س ے ز یادہ پیالہ گرم " کیونکہ خلیفہ عمر دعا اور احتیاج واضطرار کے وقت عترت و ا ہ ل ب یت رسول(ص) کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور ان کے وس یلے سے بارگاہ ال ہی میں طلب حاجت کرتے ت ھے تو ان پر کوئ ی اعتراض نہیں ۔ ل یکن جس وقت ہ م ش یعہ اس برگزیدہ خاندان کو شفیع بناتے اور ان کا توسل اخت یار کرتے ہیں تو ہ م کو سخت اعتراض ک ے سات ھ کافر ومشرک ک ہ ا جاتا ہے ۔ اگر آل محمد (ص)اور عترت طا ہ ر ہ کو خدا ک ی طرف شفیع قرار دینا شرک ہے تو آپ ہی کے علماء ک ی روایتوں کے مطابق خل یفہ عمر ابن خطاب قطعا سب سے پ ہ ل ے مشرک ٹھہ رت ے ہیں اور اگر خلیفہ کا وہ عمل شرک ن ہیں تھ ا بلک ہ ب ہ تر ین کام تھ ا ۔ (ک یونکہ خلیفہ نے اس کاانتخاب ک یا تھ ا)تو یقینا شیعوں کے اعمال اور آل محمد عل یھ م السلام سے ان کا توسل ہ رگز شرک ن ہیں ہ و سکتا ۔

لہ ذا آپ حضرات کو چاہیے کہ قطع ی طور پر اپنی یہ باتیں چھ و ڑیں بلکہ استغفار کر یں (کیونکہ بے لوث اور موحد ش یعوں کی طرف ایسی غلط نسبت دی ہے )تاک ہ غضب ال ہی کے مستحق ن ہ بن یں اس لئے ک ہ جب خل یفہ عمربزرگان صحابہ ک ی ہ مرا ہی میں بھی چا ہے جس قدر دعا کر یں لیکن بغیر اہ ل ب یت رسول کے وس یلے کے کوئ ی نتیجہ برآمد نہ ہ وا تو آپ ک یونکر امید رکھ ت ے ہیں کہ ہ م بغ یر واسطے اور س ہ ار ے ک ے دعا کرک ے کام یاب ہ و جائ یں گے ۔

پس آل محمد سلام اللہ عل یھ م اجمعین عہ د رسول (ص) س ے ل ے کر ہ مار ے موجود ہ زمان ے تک ہ ر دور م یں خدا کی طرف بندوں ک ے وس یلے تھے اور ہیں اور ہ م لوگ ب ھی حاجت روائی میں ان کی خود مختاری کے قائل ن ہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے ک ہ ان کو خدا ک ے صالح بند ے برحق امام او ر درگاہ خدا م یں مقرب سمجھ ت ے ہیں لہ ذا اپن ے اور خدا ک ے درم یان واسطہ قرار د یتے ہیں۔

اس مقصد پر سب سے ب ڑی دلیل ہ مار ی دعاوؤں ک ی کتابیں ہیں کیونکہ ائمہ معصوم ین علیھم السلام سے تمام ماثور ہ اور دعاوؤ ں م یں ہ م جو کچ ھ م یں نے عرض ک یا ہے اس ک ے علاو ہ کوئ ی اور ہ دا یت ہی نہیں دی گئی ہے اور ہ م ن ے ب ھی اس طریقے کے خلاف ن ہ کوئ ی عمل کیا ہے ا ور نہ کر یں گے ۔

حافظ :- آپ کے یہ بیانات ہ مار ی سنی ہ و ی باتوں ک ے خلاف ہیں ۔

خیر طلب :- اپنی سنی ہ وئ ی باتوں کو چ ھ و ڑیئے اور مشاہ دات کا ذکر ک یجیئے ۔ ک یا آپ نے ہ مار ے ب ڑے علماء ک ی کچھ معتبر کتب ادع یہ کا مطالعہ ک یا ہے ؟

حافظ :- نہیں مجھ کو موقع ن ہیں ملا ۔

خیر طلب:-مناسب یہ تھ ا ک ہ پ ہ ل ے آپ اس قسم ک ی کتابیں ملاحظہ فرما ل یتے اس کے بعد اعتراض فرماتے اس وقت دعا وز یارت کی دو کتابیں میرے ہ مرا ہ ہیں ۔ ا یک علامہ مجلس ی علیہ الرحمہ ک ی تالیف ، زاد المعاد ،اور

۹۷

دوسری "ہ د یۃ الزائرین " مؤلفہ فاضل محدّث وعال م متبحر آقائی حاج شیخ عباس قمی دامت برکاتہ یہ مطالعے ک ے لئ ے حاضر ہیں (میں نے دونو ں جلد یں مولوی صاحبان کی خدمت میں پیش کریں ۔ اور ان ہ و ں ن ے د یکھ نا شروع کیا ،ادعیہ توسل کو پڑھ ا اور غور ک یا لیکن کسی مقام پر خاندان رسالت کے لئ ے خود مختار ی کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہ ر جگ ہ ان کو واسط ہ ک ہ ا گ یا ہے اس وقت مولو ی سید عبد الحیی نے دعائ ے تو سل کو جو علام ہ مجلس ی علیہ الرحمہ ن ے بسلسل ہ محمد ابن بابو یہ قمی علیہ الرحمہ ائم ہ طا ہ ر ین سلام اللہ عل یھ م اجمعین نے نقل ک ی ہے نمون ے ک ے طور پر آخر تک پ ڑھی جس کا شروع یہ ہے ۔

دعائے توسل

اللهم انّی اسئلک و اتوجه الیک بنبیک نبی الرحمة محمد صلی الله علیه وآله یا ابا القاسم یا رسول الله یا امام الرحمة یا سیدنا ومولانا انّا توجهنا و استشفعنا وتوسلنا بک الی الله وقد مناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عند الله اشفع لنا عند الله ٭ یا ابا الحسن یا امیر المومنین یا علی ابن ابی طالب یا حجة الله علی خلقه یا سیدنا و مولانا انّا توجهنا واستشفعنا و توسلنا بک الی الله وقدمناک بین یدی حاجاتنا یا وجیها عندالله اشفع لنا عند الله

جس نوعیت سے ام یر المومنین علیہ السلام کو خطاب کیا گیا ہے اس ک ے بعد اس ی طرح سے کل ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام کے لئ ے ب ھی ہے اور خطاب م یں ان کو یا حجۃ اللہ عل ی خلقہ ک ہ ا جاتا ہے یعنی اے حجت خدا خلق خدا پر ۔۔۔۔ آخر دعا تک ائم ہ طا ہ ر ین میں سے ا یک ایک کا نام لے کر توسل اخت یار کیا گیا ہے اور اس طر یقے سے مخاطب ک یا گیا ہے ک ہ ا ے ہ مار ے س ید مولا ہ م آپ ک ے وس یلے سے خدا ک ی طرف توجہ وتوسل اور طلب شفاعت کرت ے ہیں ،اے خدائ ے تعال ی کے نزد یک صاحب عزت بارگاہ ال ہی میں ہ مار ی سفارش فرمائیے ۔یہ ا ں تک کہ آخر دع امیں سارے خاندان رسالت کو مخاطب کرک ے ک ہ ا ہے ۔

"یا ساداتی وموالی انی توجهت بکم ائمتی وعدتی لیوم فقری وحاجتی الی الله وتوسلت بکم الی الله واستشفعت بکم الی الله فاشفعوا لی عندالله و استنقذونی من ذنوبی عند الله فانّکم وسیلتی الی الله وبحبکم وبقربکم ارجو نجاة من الله فکونوا عند الله رجائی یا ساداتی یا اولیاء الله"

جس وقت وہ حضرات یہ دعائیں پڑھ ر ہے ت ھے بعض م ہ ذب اور محترم سن ی حضرات ہ ات ھ مارت ے ت ھے

۹۸

اور باربار ک ہ ت ے ت ھے "لا ال ہ الا الل ہ سبحان الل ہ " کس طرح س ے غلط ف ہ م ی پھیلاتے ہیں۔

(میں نے ک ہ ا)م یں آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ۔ ان دعاو ؤ ں ک ی عبارتوں م یں کس مقام پر شرک کے آثار پائ ے جات ے ہیں ؟کیاہ ر جگہ خدائ ے تعال ی کامقدس نام موجود نہیں ہے ؟ ہ م ن ے دعا ک ی کون سی عبارت میں ان حضرات کو باری تعالی کا شریک قراردیا ہے ؟ آخر کس ل ئے آپ ہ م لوگو ں پر ت ہ مت لگات ے ہیں کس وجہ س ے موحد مسلمانو ں کو غال ی اور مشرک کہ ت ے ہیں ؟ کس غرض سے مسلمانو ں ک ے دلو ں م یں بغض وعداوت کا بیج بوتے ہیں ؟کس مقصد سے ناواقف لوگو ں ک ی نظر میں حقیقت کو مشتبہ بنات ے ہیں ؟تاکہ و ہ اپن ے د ینی ایمانی بھ ا یئوں کو کافر سمجھیں ۔ آپ ک ے کتن ے ناواقف اور متعصب عوام ب یچارے شیعوں کو اسی خیال سے قتل کرت ے ہیں کہ ہ م ا یک کافر کو قتل کیا لہ ذا جتن ی ہ وگئ ے ا یسے امور کا مظلمہ آپ ہی جیسے علماء کی گردنوں پر ہے ۔

بات یہ ہے ک ہ ش یعہ علماء او رمبلغین زہ ر ن ہیں پھیلاتے ۔ ش یعہ اور سنی کے درم یان عداوت کا بیج نہیں بوتے اور قتل نفس کو گنا ہ عظ یم سمجھ ت ے ہیں ،ہ م ش یعہ اور سنی کے درم یان ما بہ اختلاف مسائل کو علم ومنطق ک ی روشنی مین بیان کرکے ان کو حق یقت مذہ ب س ے با خبر کرتے ہیں لیکن گفتگو کے ضمن م یں ان کو یہ بھی سمجھ ا د یتے ہین کہ سن ی ہ مار ے مسلمان ب ھ ائ ی ہیں لہ ذا ش یعہ جماعت کو ان کی طرف کینے اوردشمنی کی نظر سے ن ہ د یکھ نا چاہیئے بلکہ برادران ہ طر یقے سے آپس م یں متحد رہ نا چا ہیئے تاکہ ہ م سب مل کر لا الہ الا الل ہ کاپرچم بلند کر یں۔

لیکن اس کے برعکس متعصب سنّ ی علماء کے طرز عمل س ے ہ م کو افسوس ہ وتا ہے ک ہ ابو حن یفہ ،مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد ابن حنبل کے پ یروؤں کو باوجود یکہ ان کے درم یان کثیر اصولی اور فروعی اختلافات ہیں ہ ر مقام پر آزاد ی دیتے ہیں اور مسلمان بھ ائ ی کہ ت ے ہیں لیکن علی ابن ابی طالب اور امام صادق آل محمد علیھ ما السلام جو عترت و اہ ل ب یت رسالت ہیں ،ان کے پ یروؤں کو غالی ،مشرک اور کافر نامزد کرتے ہیں اور ان کی آزادی سلب کرتے ہیں تاکہ سن ی ممالک کے اندر ان ک ی جان ومال محفوظ نہ ر ہے ،کتن ے ز یادہ ہیں کہ ا یسے صاحبان علم وتقوی شیعہ جو سنی علماء کے فتو ے س ے ش ہید کئے گئ ے ل یکن اس کے برعکس ا یسا عمل شیعہ علماء کی طرف سے ک یا بلکہ عوام ش یعہ کی جانب سے ب ھی جن سے اس کا انجام پانا ز یادہ سہ ل ہے کس ی جاہ ل سن ی کے لئ ے ب ھی صادر نہیں ہ وا ہے آپ ک ے علماء بالعموم ش یعوں پر لعنت کرتے ہیں لیکن شیعہ علماء کی کسی کتاب میں یہ نہیں دیکھ ا گیا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ا ہ ل تسنن لعن ھ م الل ہ لک ھ ا ہ و ۔

حافظ:- آپ زیادتی کر رہے ہیں ،کون سا صاحب علم وتقوی شیعہ ہ مار ے علماء ک ے فتو ے س ے قتل ہ وا ہے ک ہ

۹۹

آپ بلا وج ہ جو ش دلا ر ہے ہیں ؟اور کس نے ہ مار ے علماء م یں سے ش یعوں پر لعنت کی ہے ۔

خیرطلب :- اگر آپ کے علماء اور عوام کے حرکات تفص یل سے ب یان کرنا چاہ و ں تو ا یک نشست نہیں بلکہ کئ ی مہینے درکار ہ و ں گ ے ل یکن نمونے اور اثبات ک ے لئ ے ان ک ے بعض اعمال اور اطوار ک ی طرف جو تاریخ کے صفات پر نقش ہیں کئے د یتا ہ و ں تاک ہ آپ کو معلوم ہ وجائ ے ک ہ جوش نہیں دلاتا ہ و ں بلک ہ حق یقت پیش کرتا ہ و ں ۔

اگر آپ بڑے ب ڑے متعصب علماء ک ی کتابیں غور سے مطالع ہ ک یجئے تو لعنت کے مواقع خود ہی نظر آجائیں گے نمون ے ک ے طور پر تفس یر امام فخر الدین رازی کی جلدیں ملاحظہ فرمائ یے کہ جس جگ ہ ان کو موقع ہ ات ھ آ یا ہے ج یسے" آیت ولایت و اکمال الدین" وغیرہ کے ذ یل میں مکرر ومکرر لکھ ت ے ہیں۔

"و اما الرافضة لعنهم الله هؤلاء الرافضة لعنهم ----اما قول الروافض لعنهم الله " ل یکن کسی شیعہ عالم کے قلم س ے عام بردران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے بلک ہ خاص صورت م یں بھی ان کے لئ ے ا یسی عبارتیں نہیں نکلی ہیں۔

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت

شیعہ ارباب علم کے سات ھ آپ ک ے علماء ک ی دردناک بدسلوکیوں میں سے ا یک وہ عج یب وغریب فتوی ہے جو ا یک بہ ت ب ڑے ش یعہ فقیہ کے واسط ے شام ک ے دوب ڑے قاض یوں (برہ ان الد ین مالکی و عباد بن الجماعۃ الشافعی) کی طرف سے صادر ہ وا ت ھ ا و ہ بزرگ فق یہ جو زہ د وورع ،تقوی اور علم وتفقہ م یں سارے ا ہ ل زمان ہ ک ے سردار ت ھے ۔ ابواب فق ہ پر احاط ہ رک ھ ن ے م یں اپنے دور ک ے اندر جواب ن ہیں رکھ ت ے ت ھے ان ک ی فقہی مہ ارت کا ا یک نمونہ کتاب لمع ہ ہے جو (بغ یر اس کے ک ہ سوا "مختصر نافع" ک ے اور کوئ ی فقہی کتاب آپ کے پاس موجود ر ہی ہ و) صر ف سات روز کے اندر تصنیف فرمائی اور حنفی ، مالکی ،شافعی اور جنبلی چاروں مذ ہ ب ک ے علماء ان ک ے حلق ہ تلامذ ہ م یں داخل ہ و کر ف یض علم سے س یراب ہ وت ے ت ھے جناب ابو عبدالل ہ محمد بن جمال الد ین مکو عاملی رحمۃ اللہ عل یہ تھے۔

باوجودیکہ سنیوں کی سخت گیری کی وجہ س ے آپ ز یادہ تر تقیہ میں رہ ت ے ت ھے ۔ اور با الاعلان تش یع کا اظہ ار ن ہیں فرماتے ت ھے ل یکن پھ ر ب ھی شام کے ب ڑے قاض ی "عباد بن الجماعۃ" نے ا یسے عالم ربانی سے حسد کابرتاؤ کرت ے ہ وئ ے وال ی شام (بید مر) کے پاس ان ک ی چغلی کھ ا ئی اور رفض و تشیع کا الزام لگا کر اس فقیہ عالم کوگرفتارکروایا ۔ ا یک سال تک قید خانہ م یں سخت تکلیفیں دینے کے بعد 9 یا 19 جمادی الاولی سنہ 786 م یں انہیں دو بڑے سن ی قاضیوں (ابن الجماعۃ وبرہ ان الد ین )کے فتو ے س ے پ ہ ل ے آپ کو تلوار س ے قتل ک یا پھ ر آپ کا جسم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اَولیائے الہی سے توسّل

۲۰۱

''توسّل'' قرآنی آیات اور عقل کے آئینہ میں :

بارگاہ الہی میں اولیائے الہی سے توسّل کے ذریعہ مادّی اور معنوی مشکلات حل کرانے کا مسئلہ، وہابیوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان ایک اہم ترین اور متنازعہ مسئلہ ہے_ وہابی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ نیک اعمال کے ذریعے توسّل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ اسے ایک قسم کا شرک سمجھتے ہیں_ جبکہ دنیا کے دوسرے مسلمان اس توسّل کو ( جس کے مفہوم کی ہم وضاحت کریں گے ) جائز سمجھتے ہیں_

وہابیوں کا گمان یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات اس توسّل سے منع کرتی ہیں اور اسے شرک قرار دیتی ہیں _ من جملہ یہ آیت کریمہ

'' ما نعبد هم الّا لیقرّبُونا الی الله زُلفی '' (۱)

یہ آیت فرشتوں کی مانندمعبودوں کے بارے میں ہے کہ جن کے لیے مشرکین کہتے تھے '' کہ ہم اس لیے ان کی پوجا کرتے ہیں تا کہ یہ ہمیں خدا کے نزدیک کریں'' اور اس بات کو

____________________

۱) سورة زمر آیة ۳_

۲۰۲

قرآن مجید نے شرکقرار دیا ہے _ ایک اور آیت میں یوں ارشاد ربُ العزّت ہے '' فلا تدعوا مع اللہ ا حداً'' خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو''(۱)

ایک دوسری روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے ''والّذین يَدعُونَ من دُونه لا یستجیبون لهم بشیئ :،'' جو غیر خدا کوپکارتے ہیں ، وہ انکی کوئی حاجت پوری نہیں کرسکتے ہیں''(۲)

وہابیوں کا توہّم اور خیال یہ ہے کہ یہ آیات اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کرنے کی نفی کر رہی ہیں_

اس کے علاوہ وہ ایک اور بات بھی کرتے ہیں وہ یہ کہ بالفرض اگر بعض روایات کی روشنی میں پیغمبر اکرم(ص) کی زندگی میں اُن سے توسّل جائز ہو لیکن وفات کے بعد ان سے توسّل کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے_

یہ وہابیوں کے دعووں کا خلاصہ تھا لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ اسی قسم کی بے دلیل باتوںکی خاطر وہابیوں نے بہت سے مسلمانوں پر شرک اورکفر کی تہمتیں لگائیں اور ان کے خون بہانے کو مباح قرار دیا ہے ، اسی طرح انکے مال کو مباح جانا ہے _ اسی بہانے بہت سا خون بہایا گیا اور بہت سا مال غارت کیا گیا ہے _

اس وقت جبکہ ہم انکے عقیدہ کو سمجھ چکے ہیں بہتر ہے کہ اصل مسئلہ کی طرف لوٹ کر اسی توسّل کے مسئلہ کو بنیادی طور پر حل کریں_

____________________

۱) سورہ جن ، آیة ۱۸_

۲) سورة رعد، آیہ ۱۴_

۲۰۳

سب سے پہلے ہم '' توسل'' کو لغت، آیات اور روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں: سب میں '' توسّل'' وسیلہ کے انتخاب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور وسیلہ اس چیز کو کہاجاتا ہے جو انسان کوکسی دوسرے سے قریب کرے

لغت کی مشہور کتاب '' لسان العرب'' میں توسّل کو یوں بیان کیا گیا ہے _

''وصَّل الی الله وسیلةً اذا عَمل عملاً تقرب الیه والوسیلة ما یتقرّب به الی الغیر; خدا کی طرف توسّل کرنا اور وسیلہ منتخب کرنا یہ ہے کہ انسان ایسا عمل انجام دے جس سے اسے خدا کا قرب نصیب ہو ، اور وسیلہ اس چیز کے معنی میں ہے جس کے ذریعے انسان دوسری چیز سے نزدیک ہوتا ہے ''

مصباح اللغة میں بھی یوں ہی بیان کیا گیا ہے : ''الوسیلة ما یتقرّب به الی الشیء و الجمع الوسائل'' وسیلہ اس شے کوکہتے ہیں جس کے ذریعے، انسان دوسری شے یا شخص کے نزدیک ہوتا ہے اور وسیلہ کی جمع ''وسائل '' ہے_

مقاییس اللغة میں یوں بیان کیا گیا ہے : ''الوسیلة الرغبة و الطلب'' وسیلة رغبت اور طلب کے معنی میں ہے'' _

ان لغت کی کتب کے مطابق، وسیلہ، تقرب حاصل کرنے کے معنی میں بھی ہے اور اس چیز کے معنی بھی ہے جس کے ذریعے انسان دوسری شے کا قرب حاصل کرتا ہے _ اور یہ ایک وسیع مفہوم ہے

اب ہم قرآن مجید کی آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں_

قرآن مجید میں وسیلہ کی اصطلاح دو آیات میں استعمال ہوئی ہے_

۲۰۴

۱_ سورہ مائدہ کی ۳۵ویں آیت میں یوں ارشاد ہے :

'' یا ايّها الّذین آمنو اتقوا الله و ابتغوا الیه الوسیلة و جاهدُوا فی سبیله لعلکم تفلحون''

اس آیت میں تمام اہل ایمان کو مخاطب قرار دیاگیا ہے اورتین دستور بیان کیے گئے ہیں _

اوّل تقوی کا حکم، دوّم، وسیلہ منتخب کرنے کا حکم ، وہ وسیلہ جو ہمیں خدا سے نزدیک کرے_ سوّم : راہ خدا میں جہاد کرنے کا حکم، ان مجموعہ صفات ( تقوی ، توسّل اور جہاد) کانتیجہ وہی چیز ہے جسے آیت کے آخر میں بیان کیاگیا ہے: '' لعلکم تفلحون'' یعنی یہ صفات تمہاری فلاح اور رستگاری کا باعث ہیں''

۲_ سورة اسرا کی آیت ۵۷ میں وسیلہ کا تذکرہ کیاگیا ہے _ آیت ۵۷ کے معنی کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے آیت ۵۶ کامطالعہ کرنا چاہیے جس میں یوں ارشاد ہے

''قل ادعوا الّذین زَعمتم من دُونه فَلا یملکونَ کشفَ الضُرّ عنکم و لا تحویلاً''

اے پیغمبر: کہہ دیجئے کہ خدا کے علاوہ تم جنہیں پکارتے ہو اور انہیں اپنا معبود تصوّر کرتے ہو انہیں پکار کر دیکھ لوکہ وہ تمہاری مشکل کوحل کریں، وہ تمہاری کوئی مشکل حل نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی تبدیلی لاسکتے ہیں''

( ''قُل ادعوا الّذین' ) ' والے جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں معبودوں سے مراد بت یا اس قسم کی کوئی اور چیزنہیں ہے ، کیونکہ کلمہ الذین صاحب شعور اور صاحب عقل افراد کے

۲۰۵

لیے استعمال کیاجاتا ہے_ لہذا اس آیت میں وہ فرشتے مراد ہیں جنہیں لوگ پوجتے تھے یا حضرت عیسی مراد ہیں کہ ایک گروہ معبود کے عنوان سے انکی پرستش کرتا تھا_ یہ آیت بیان کررہی ہے کہ نہ فرشتے اور نہ ہی حضرت عیسی (ع) تمہاری مشکل کو حل کرسکتے ہیں _

بعد والی آیت میں یوں ارشاد ہے ''( اولئک الّذین يَدعُون یبتغون الی ربّهم الوسیلة ) ; خود یہ لوگ ( فرشتے اور حضرت عیسی (ع) وہ ہیں جو خداوند کی بارگاہ میں وسیلہ کے ذریعہ تقرب حاصل کرتے ہیں وہ وسیلہ کہ ایہم اقرب جو سب سے زیادہ نزدیک ہو '' و یرجون رحمة'';اور اللہ تعالی کی رحمت کی امید رکھتے ہیں'' '' و یخافون عذابہ '' اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ '' انّ عذاب ربک کان محذوراً ; تیرے پروردگار کاعذاب ایسا ہے جس سے سب ڈرتے ہیں''_

وہابیوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں ( کاشف الضر) سمجھا جائے یعنی انہیں مستقل طور پر مشکلات کا حل کرنے والا سمجھا جائے اور قضائے حاجات اور دفع کر بات کا سرچشمہ سمجھا جائے حالانکہ توسّل کا یہ معنی نہیں ہے _

جن آیات کو وہابیوں نے پیش کیا ہے وہ عبادت کے بارے میں بیان کرتی ہیں _ حالانکہ کوئی بھی اولیائے الہی کی عبادت نہیں کرتا ہے _

ہم جس وقت پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ توسّل کرتے ہیں کیا انکی عبادت کرتے ہیں؟ کیا ہم پیغمبر اکرم(ص) کو اللہ تعالی کے علاوہ مستقل طور پر مؤثر اور کاشف ضر سمجھتے ہیں؟

جس توسّل کی طرف قرآن مجید نے دعوت دی ہے وہ یہ ہے کہ اس وسیلہ کے ذریعے خدا

۲۰۶

کے نزدیک ہوں، یعنی یہ ذوات مقدّسہ، بارگاہ خدا میں شفاعت کرتی ہیں_ وہ چیز جو ہم نے شفاعت کے بارے میں بیان کی ہے_

در حقیقت توسّل کی واقعيّت اور شفاعت کی واقعيّت ایک ہی ہے_ بہت سی آیات شفاعت کو ثابت کرتی ہیں اور دو آیات توسل کو بیان کرتی ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ سورة مائدہ کی ۵۷ نمبر آیت '' ایہم اقرب'' کے ذریعے توسّل کو بیان کرتی ہے یعنی فرشتے اور حضرت عیسی (ع) بھی اپنے لیے وسیلہ منتخب کرتے ہیں وہ وسیلہ جو زیادہ نزدیک ہے ''ہم'' جمع کی ضمیر ہے جو صاحب عقول کے لیے استعمال کیجاتی ہے_ یعنی اولیائے الہی اور صالحین کے ساتھ توسّل کرتے ہیں، ان صالحین میں سے ہر ایک خدا کے نزدیک تر ہیں_

بہرحال سب سے پہلے واضح ہونا چاہیے کہ اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کیا ہے؟

کیا یہ توسّل ان کی عبادت اور پوجا کرنا ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے_

کیا انہیں مستقل طور پر مؤثر جاننا ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے_ کیا انہیںمستقل طور پر قاضی الحاجات اورکاشف الکربات جاننا ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ذوات مقدّسہ اس شخص کے لیے جس نے انکے ساتھ توسّل کیا ہے خداوندعالم کی بارگاہ میں شفاعت اور سفارش کرتی ہیں_ اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ میں کسی بڑی شخصيّت کے گھر جانا چاہتا ہوں وہ مجھے نہیں جانتا ہے ، میں ایک ایسے شخص کوواسطہ بناتا ہوں کہ جو مجھے بھی جانتا ہے اور اس کے اس شخصیت کے ساتھ بھی تعلقات ہیں_ اسے کہتاہوں کے آپ میرے ساتھ چلیں اور اس شخصیت کے ساتھ میرا تعارف کرادیں اور سفارش کردیں_ یہ کام نہ تو عبادت ہے اور نہ ہی تاثیر میں اسے مستقل سمجھنا ہے_

۲۰۷

یہاں مناسب یہ کہ ہم '' ابن علوی'' کا کلام نقل کریں جو انہوں نے اپنی مشہور کتاب ''مفہوم یجب ان تصحّح'' میں بیان کیا ہے_ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے توسّل کی حقیقت کے سمجھنے میں غلطی کی ہے_ اس لیے ہم (اپنی نظر کے مطابق) توسّل کا صحیح مفہوم پیش کرتے ہیں_ اور اسے بیان کرنے سے پہلے محترم قاری کی توجہ چند نکات کی طرف مبذول کراتے ہیں_

۱_ توسّل دعا کا ایک انداز ہے اور حقیقت میں اللہ تبارک و تعالی کی طرف توجّہ کرنے کا ایک دروازہ ہے، پس ہدف اور اصلی مقصد اللہ تعالی ہے، اور جس شخصيّت کے ساتھ آپ توسّل کر رہے ہیں وہ واسطہ اور تقرب بہ خدا کا وسیلہ ہے، اگر کوئی توسّل میں اس کے علاوہ کوئی عقیدہ رکھتا ہوتو وہ مشرک ہے_

۲_ جو انسان کسی شخصيّت کے وسیلہ سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے حقیقت میں یہ انسان کا اسی شخصيّت کے ساتھ اظہار محبّت ہے اوروہ اس شخصیت کے بارے میں اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں مقرّب ہے اور بالفرض اگر مسئلہ الٹ ثابت ہوجائے تو وہی انسان اس شخصيّت سے مکمل طور پر دوری اختیار کرلیتا ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے لگتا ہے_ تو ہمیں یہاں تک معیار کا علم ہوگیا ہے کہ توسّل کا معیار خداوند کے نزدیک اس شخصيّت کا مقربّ ہونا ہے_

۳_ اگر توسّل کرنے والا انسان اس بات کا عقیدہ رکھتا ہو کہ ( متوسّلٌ بہ) جس شخصيّت کے ساتھ اس نے توسّل کیا ہے، وہ ذاتی اور مستقل طور پر نفع ونقصان پہنچانے میں اللہ تعالی کی طرح ہے، تو ایسا انسان مشرک ہے _

۲۰۸

۴_ توسّل کوئی واجب یا ضروری چیز نہیںہے اور نہ ہی یہ دعا قبول ہونے کا منحصر راستہ ہے، اہم چیز دعا ہے اور خداوند کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے جس صورت میں بھی ہو_ جیسا کہ خود خداوند نے ارشاد فرمایا ہے کہ( ''واذا سا لک عبادی عنّی فانّی قریبٌ'' ) (۱)

''ابن علوی مالکی'' اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد، توسّل کے بارے میں اہلسنت کے علما، فقہاء اور متکلمین کے نظریات بیان کرتا ہے_ اور کہتا ہے کہ اعمال صالحہ کے ذریعے توسّل الی اللہ کی مشروعيّت ( جواز) کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے یعنی انسان نیک اعمال کے وسیلہ سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرے، یہ اختلافی مسئلہ نہیں ہے_ مثلاً کوئی روزہ رکھتا ہے، نماز پڑھتا ہے، قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے، صدقہ دیتا ہے اور ان اعمال کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے_ یہ چیز مسلّماً صحیح ہے_

اس قسم کے توسّل کو حتی کہ سلفیوں نے بھی قبول کیا ہے _ من جملہ ''جناب ابن تیميّہ نے اپنی مختلف کتب میں بالخصوص اپنی کتاب'' القاعدة الجلیلة فی التوسّل و الوسیلة'' میں اس قسم کے توسّل کو قبول کیا ہے_

ابن تیميّہ نے اس قسم کے توسّل یعنی نیک اعمال کے ذریعے توسّل کے جواز کے بارے میں تصریح کی ہے_ پس اختلاف کہاں ہے؟

کیا اختلاف ، اعمال صالحہ کے علاوہ توسّل کے بارے میں ہے؟ مثلاً اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کیا جائے اور یوں کہا جائے :اللّهم انّی اتوسّل الیک بنبیک محمّد(ص) ;

____________________

۱) سورہ بقرة آیہ ۱۸۶ (ترجمہ )جب میرے بندے مجھ سے سوال کرتے ہیں تو میں قریب ہوں'' _

۲۰۹

بارالہا میں تیری بارگاہ میں تقرب کے لیے تیرے نبی محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کو وسیلہ بناتا ہوں_ اس کے بعد ابن علوی اضافہ کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ اس معنی میں اختلاف اور وہابیوں کا اولیائے الہیسے توسّل کا انکار کرناحقیقت میں صرف ظاہری اور لفظی اختلاف ہے، واقعی اورحقیقی اختلاف نہیں ہے_

باالفاظ دیگر صرف لفظوں کا نزاع ہے_کیونکہ اولیائے الہی کے ساتھ توسّل حقیقت میں انکے نیک اعمال کے ساتھ توسّل ہے اور یہ ایک جائز امر ہے_

پس اگر مخالفین بھی انصاف اور بصیرت کی نگاہ سے دیکھیں تو انکے لیے مطلب واضح اور اعتراض ختم ہوجائیگا، اسطرح فتنہ خاموش جائیگا_ اورمسلمانوں پر مشرک اور ضلالت کی تہمت لگانے کی نوبت نہیں آئیگی_

اس کے بعد موصوف اس مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جوانسان بھی اولیائے الہی کے ساتھ توسّل کرتا ہے اس لیے ہے کہ وہ ان سے محبّت کرتاہے_

اور کیوں اس کے ساتھ محبت کرتا ہے؟ اس لیے کہ اس انسان کا عقیدہ ہے کہ وہ شخص اللہ کا نیک بندہ ہے، یا اس لیئےہ وہ شخص اللہ کے ساتھ محبت کرتا تھا_ یا اللہ تعالی اس کے ساتھ محبّت کرتا ہے_ یا یہ کہ انسان اس وسیلہ کو پسند کرتا ہے اور اس کے ساتھ محبت کرتا ہے_ جب ہم ان تمام امور میں غور و فکر کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان سب کے باطن میں عمل پوشیدہ ہے یعنی حقیقت میں یہ خدا کی بارگاہ میں نیک اعمال کے ذریعے توسّل ہے_ اور یہ وہی چیز ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے_(۱)

____________________

۱) کتاب مفاہیم یجب ان تصحّح ص ۱۱۶، ۱۱۷_

۲۱۰

البتہ ہم بعد میں بیان کریں گے کہ اولیائے الہی کے ساتھ توسّل اگر چہ انکی شان اور مقام کی خاطر ہو نہ انکے نیک اعمال کی خاطر اس اعتبار سے کہ یہ ذوات مقدسہ خداوند کی بارگاہ میں آبرومند ، عزیز اور سربلند ہیں یا کسی بھی خاطر یہ توسّل ہو، تو جب تک انہیں تاثیر میں مستقل نہ سمجھیں بلکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں انہیں شفیع سمجھیں تو ایسا توسّل نہ کفر ہے اور نہ خلاف شرع_

قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر اس قسم کے توسّل کی طرف اشارہ کیا گیاہے شرک تو تب ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کو اللہ تعالی کے مقابلے میں مستقل طور پر مؤثر سمجھیں_ وہابیوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اس آیت ''( ما نعبدهم الّا لیقرّبونا الی الله زلفی'' ) (۱) میں ''عبادت اور ''شفاعت'' کو آپس میں مخلوط کردیا ہے_ اور یہ گمان کیا ہے کہ شفاعت بھی شرک ہے_ حالانکہ ان واسطوں کی عبادت کرنا شرک ہے نہ انکی شفاعت اور انکے ساتھ توسل کرنا شرک ہے _ (غور کیجیئے

توسل، اسلامی احادیث کی روشنی میں :

آیات توسّل ،کے اطلاق کے علاوہ ،جوہر اس توسل کو جو اسلام کے صحیح اعتقادی اصولوں کے خلاف نہ ہو، جائز بلکہ مطلوب قرار دیتی ہیں، ہمارے پاس توسل کے بارے میں بہت سی روایات بھی ہیں جو متواتر یاتواتر کے نزدیک ہیں _

ان میں سے بہت سی روایات خود پیغمبر اکرم(ص) کی ذ ات کے ساتھ توسّل سے مربوط ہیں_ کہ وہ توسل کبھی آپ(ص) کی ولادت سے پہلے کبھی ولادت کے بعد، آپ کی حیات میں یا آپ(ص) کی رحلت کے بعد، کیا گیاہے_

____________________

۱) سورہ زمر، آیت ۳_

۲۱۱

البتہ کچھ روایات پیغمبر اکرم(ص) کے علاوہ دیگر دینی شخصیات سے توسّل کے ساتھ مربوط ہیں_

ان میں سے بعض روایات ،در خواست اور دعا کی صورت ،بعض بارگاہ الہی میں شفاعت کے تقاضا کی صورت میں ہیں، بعض میں اللہ تعالی کو پیغمبر اکرم(ص) کے مقام کا واسطہ دیاگیا ہے_ خلاصہ یہ کہ توسّل کی تمام اقسام ان روایات میں دیکھنے کو ملتی ہیں_ اور اس انداز میں ہیں کہ بہانے تلاش کرنے والے تمام وہابیوں پر راستہ بند کردیتی ہیں_

اب ان روایات کے چند نمونوں کو ملاحظہ فرمایئے

۱_ پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت سے پہلے حضرت آدم(ع) کا آپ(ص) سے توسّل کرنا

''حاکم'' نے ''مستدرک'' اور دیگر محدثین نے اپنی کتب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا: کہ جس وقت حضرت آدم (ع) سے خطا سرزد ہوئی تو آپ (ع) نے اللہ سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا: '' یا ربّ اسئلک بحقّ محمّد: لمّا غفرت لی'' پروردگارا میں تجھے حضرت محمد(ص) کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے'' اللہ تعالی نے فرمایا کہ تو نے محمد(ص) کو کہاں سے پہچانا حالانکہ ابھی میں نے اسے خلق نہیں کیا ہے ؟

حضرت آدم (ع) نے عرض کی: پروردگارا اس معرفت کا سبب یہ ہے کہ جب تو نے مجھے اپنی قدرت سے خلق کیا اور مجھ میں روح پھونکی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو یہ جملہ عرش کے پائے پر لکھا ہوا تھا: '' لا الہ الّا الله محمّد رسول الله '' اس عبارت سے میں سمجھ گیا کہ یہ جو محمّد کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے وہ تمام مخلوقات میں سے تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اللہ تعالی نے فرمایا: اے آدم تو نے سچ کہا''انه لاحب الخلق الَّی'' وہ

۲۱۲

میرے نزدیک تمام مخلوقات سے زیادہ محبوب ہے:

''''ادعونی بحقّه فقدغفرت لک'' (۱)

اس کے حق کا واسطہ دے کر مجھے سے مانگ میں تجھے معاف کردونگا''

دوسری حدیث حضرت ابوطالب کے توسّل کے ساتھ مربوط ہے جو انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے بچپن کے زمانے میں آپ(ص) کے ساتھ کیا_ حدیث کا خلاصہ یوں ہے کہ جسے ''ابن عساکر'' نے ''فتح الباری'' میں نقل کیا ہے:

کہ ایک مرتبہ مکہ میں خشک سالی ہوگئی، تمام قریش جمع ہوکر حضرت ابوطالب(ع) کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ سارے کھیت خشک ہوچکے ہیں، قحط نے ہر جگہ تباہی مچا رکھی ہے_ آؤ خداوند کے حضور چلیں اور بارش کے لیے دعا کریں_

حضرت ابوطالب(ع) ساتھ چلے اور انکے ساتھ ایک بچہ بھی تھا ( بچے سے مراد پیغمبر اکرم(ص) ہیں جو ابھی طفوليّت کا زمانہ گزار رہے تھے ) اس بچے کا چہرہ آفتاب کی طرح درخشاں تھا_ جناب ابوطالب(ع) نے اس بچے کو گود میں لیا ہواتھا _ اسی حالت میں اپنی کمر کو خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لگایا اور اس بچے سے توسل کیا; اسی وقت آسمان پر بادل اُمڈ آئے اور ایسی بارش برسی کہ جس کے نتیجے میں خشک بیابان سرسبز ہوگئے_ اس وقت جناب ابوطالب(ع) نے پیغمبر(ص) کی شان میں ایک شعر کہا جویوں ہے_

____________________

۱) حاکم نے مستدرک ، جلد ۲ ص ۶۱۵ پر اورحافظ سیوطی نے ''الخصائص النبويّة'' میں اسے نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے اور بیہقی نے اسے ''دلائل النبوة'' میں نقل کیا ہے کہ عام طور پر اس کتاب میں وہ ضعیف روایت نقل نہیں کرتے ہیں اور قسطلانی اور زرقانی نے مذاہب اللدنيّہ میں اس حدیث کونقل کیا اور صحیح قرار دیا ہے اور دیگر علماء نے بھی اسے نقل کیا ہے _ مزید توضیح کے لیئےتاب '' مفاہیم یجب ان تصحّح ص ۱۲۱ اور اسکے بعد رجوع فرمائیں''_

۲۱۳

''و ابیض یستسقی الغمام بوجهه

ثمال الیتامی عصمة للا رامل ''(۱)

کہ پیغمبر اکرم(ص) کے نورانی چہرے کے صدقے یہ بادل برس رہے ہیں_ یہ بچہ یتیموں کا ملجا اور بیوہ عورتوں کی پناہ گاہ بنے گا ''

ایک نابینا مرد نے پیغمبر اکرم(ص) کی ذ ات سے توسّل کیا_ وہ آپ(ص) کی نبوّت کے زمانے میں آپکی خدمت میں پہنچا، توسّل کر کے شفا پالی اور اسکی آنکھیں واپس لوٹ آئیں

یہ روایت صحیح ترمذی، اسی طرح سنن ابن ماجہ ، مسند احمد اوردیگر کتب میں نقل ہوئی ہے(۱) اس سے پتہ چلتا ہے کہ سند کے اعتبار سے حدیث محکم ہے_ بہرحال حدیث یوں ہے_

''کہ ایک نابینا آدمی آنحضرت(ص) کی خدمت میں پہنچا اورعرض کرنے لگا:

اے رسول(ص) خدا اللہ تعالی سے دُعا کیجئے کہ وہ مجھے شفا دے اور میری آنکھوں کی بینائی مجھے لوٹا دے _

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: اگر تو کہتا ہے تو میں تیرے لیے دعا کرنے کو تیار ہوں اور اگر صبر کرتا ہے تو یہ صبر تیرے لیئے بہتر ہے( اور شاید تیری مصلحت اسی حالت میں ہو) لیکن اس بوڑھے آدمی نے اپنی حاجت پر اصرار کیا_ تو اس پر پیغمبر اکرم(ص) نے اس بوڑھے آدمی کو حکم دیا کہ مکمل اور اَچھے اندازمیں وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو ، نماز کے بعد یہ دعا پڑھو:

'' اللّهم انّی اسئلک و ا توجّه الیک بنبیک محمّد (ص)

نبّی الرّحمة یا محمّد (ص) انّی اتوجّه بک الی

____________________

۱) فتح الباری، جلد ۲ ص ۴۹۴ و اسی طرح سیرہ حلبی، جلد ۱ ص ۱۱۶_

۲۱۴

ربّی فی حاجتی لتُقضی ، اللّهم شَفعّه، فيَّ'' (۱)

بار الہا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں تیرے نبی محمد مصطفی(ص) کے واسطے کہ جو نبی رحمت ہیں_ اے محمد(ص) میں آپ(ص) کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف اپنی حاجت طلب کرنے چلا ہوں تا کہ میری حاجت پوری ہوجائے اور اے اللہ انہیں میرا شفیع قرار دے_

وہ نابینا آدمی چلاتا کہ وضو کرے، نماز پڑھے اور پیغمبر اکرم(ص) کی تعلیم دی ہوئی دعاپڑھے_ اس حدیث کا راوی عثمان بن عمیر کہتا ہے کہ ہم بہت سے افراد اسی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں کررہے تھے_ کچھ دیر بعد وہی بوڑھا آدمی مجلس میں داخل ہوا اس حال میں کہ اس کی آنکھیں بینا ہوچکی تھیں اور نابینائی کا کوئی اثر اس پر باقی نہیں تھا _

دلچسپ یہ ہے کہ بہت سے اہلسنت کے اکابر نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے_ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے _ ابن ماجہ نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے_ رفاعی نے بھی کہا ہے کہ بلاشک و شبہہ یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے _(۲)

پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد اُن سے توسل''

اہلسنت کے معروف عالم دین '' دارمی'' نے اپنی مشہور کتاب ''سنن دارمی'' میں ایک

____________________

۱) صحیح ترمذی ، ص ۱۱۹، حدیث ۳۵۷۸، اور سنن ابن ماجہ، جلد ۱، ص ۴۴۱، حدیث ۱۳۸۵ ، ومسند احمد، جلد ۴، ص ۱۳۸_

۲) مزید وضاحت کے لیے آپ کتاب مجموعة الرسائل و المسائل ، جلد ۱ ص ۱۸ طبع بیروت ، کیطرف رجوع فرمائیں_ ابن تیميّہ کی عین عبارت یہ ہے ''ان النسائی و الترمذی رویا حدیثاً صحیحاً ان النّبی علّم رجلاً ان یدعو فیسال الله ثم یخاطب النبی فیوسّل به ثم یسال الله قبول شفاعته''

۲۱۵

باب اس عنوان سے قرار دیاہے کہ ''باب ماحکم الله تعالی نبيّه (ص) بعد موته'' ( یہ باب اس کرامت اور احترام کے بارے میں ہے جو اللہ تعالی نے پیغمبر(ص) کے ساتھ مختص کیا ہے ان کی رحلت کے بعد) اس باب میں وہ یوں رقمطراز ہیں_

'' ایک مرتبہ مدینہ میں شدید قحط پڑ گیا_ بعض لوگ حضرت عائشےہ کی خدمت میں گئے اور ان سے چارہ جوئی کے لیے کہا_ حضرت عائشےہ نے فرمایا جاؤ پیغمبر اکرم(ص) کی قبر پر چلے جاؤ_ اور قبر والے کمرے کی چھت میں سوارخ کرو، اس انداز میں کہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتیجہ کی انتظار کرو_ لوگ گئے انہوں نے اسی انداز میں سوراخ کیا کہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اسقدر بارش برسی کہ کچھ ہی عرصہ میں بیابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے _(۱)

''پیغمبر اکرم(ص) کے چچا حضرت عباس سے توسل'':

امام بخاری نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ میں قحط تھا تو حضرت عمر ابن خطاب نے اللہ تعالی کو حضرت عباس بن عبدالمطلب کا واسطہ دیتے ہوئے باران رحمت طلب کی انکی دعا کی عبارت یہ تھی ''اللّهم انّاکنّا نتوسّل الیک بنبيّنا و تسقینا و انّا نتوسّل الیک بعمّ نبيّنا فاسقنا'' بارالہا ہم اپنے پیغمبر (ص) کے ساتھ توسل کرتے تھے تو توہم پر باران رحمت نازل فرماتا تھا_ آج ہم تجھے اپنے نبی(ص) کے چچا کاواسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ ہم پر باران رحمت نازل فرما''

راوی کہتا ہے، اس دعا کے بعد فراوان بارش نازل ہوئی(۲)

____________________

۱) سنن دارمی، جلد ۱ ص ۴۳_

۲) صحیح بخاری، جلد ۲ ص ۱۶، باب صلاة الاستسقائ_

۲۱۶

۶_ ابن حجر مكّی نےصواعق محرقہ میں امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ امام شافعی ہمیشہ اہلبیت(ع) رسول(ص) کے ساتھ توسّل کرتے تھے انہوں نے یہ مشہور شعر، ان سے نقل کیا ہے:

آل النّبی ذریعتی

و هم الیه وسیلتی

ا َرجوا بهم ا عطی غداً

بید الیمین صحیفتی

رسولخدا(ص) کاخاندان میرا وسیلہ ہیں، خداوند کی بارگاہ میں وہی میرے تقرب کا ذریعہ ہیں _ میں امید کرتا ہوں کہ کل قیامت کے دن انکی برکت سے میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں تھمایا جائے

اس حدیث کو ''رفاعی'' نے اپنی کتاب ''کتاب التوصل الی حقیقة التوسّل'' میں بیان کیا ہے(۱)

اسی مصنف نے کہ جو توسّل کے بارے میں بہت سخت عقیدہ رکھتا ہے_ اہلسنت کے مختلف منابع سے ۲۶ احادیث توسّل کے بارے میں نقل کی ہیں اگر چہ اس کی کوشش یہی رہی ہے کہ بعض احادیث کے بارے میں خدشہ ظاہر کرے لیکن احادیث تواتر کی حد تک یاتواتر کے قریب ہیں اور اہلسنت کی مشہور کتب میں نقل کی گئی ہیں_لہذا ان احادیث پر اتنی جلدی اعتراض نہیں کیا جاسکتا ہے _ اور ہم نے تو یہاں پر اس باب سے صرف چند احادیث کا تذکرہ کیا ہے ورنہ اس بارے میں احادیث بہت زیادہ ہیں _

____________________

۱)التوصل إلی حقیقة التوسّل ، ص ۳۲۹_

۲۱۷

چند قابل توجّہ نکات

۱_ وہابیوں کے بہانے:

متعصّب وہابی اپنے ہدف کو ثابت کرنے کیلئے، یعنی ان مسلمانوں پر فسق اور کفر کی تہمت لگانے کے لیے کہ جو اولیاء کے سا تھ توسّل کرتے ہیں، مندرجہ بالا آیات اور روایات کے مقابلے میں کہ جو مختلف شکلوں میں توسّل کوجائز قراردیتی ہیں بہانے بناتے ہیں اور یہ بہانہ جوئی ایسے ہی ہے جیسے بچے بہانے بناتے ہیں

کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان صالحین اور بزرگان کی ذات سے توسّل کرنا حرام ہے، ان کے مقام کے ساتھ توسّل کرنا حرام نہیں ہے_ اسی طرح انکی دعا اور شفاعت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے صرف انکی ذات کے ساتھ توسّل کرنا حرام ہے_

کبھی کہتے ہیں کہ انکی زندگی میں توسّل کرنا تو جائز ہے لیکن وفات کے بعد توسّل کرنا جائز نہیں ہے_ چونکہ جب وہ اس دنیا سے منتقل ہوجاتے ہیں توان کا ہمارے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے_ قرآن مجید فرماتا ہے ''انّک لا تُسمع الموتی '' اے پیغمبر آپ(ص) مردوں تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتے ہیں ''(۱) یعنی آپ(ص) کا رابطہ انکے ساتھ منقطع ہوچکا ہے_

لیکن اس قسم کی بہانہ تراشیاں واقعاً شرمناک ہیں کیونکہ :

اوّلاً: قرآن مجید نے ایک عامّ حکم بیان کیا ہے ہم اس آیت کے عموم یا اطلاق کے ساتھ تمسک کرتے ہوئے توسّل کی ان تمام اقسام کو جائز سمجھتے ہیں جو '' توحید عبادی'' اور توحید افعالی'' کے ساتھ منافی نہ ہوں_

____________________

۱) سورة نمل آیة ۸۰_

۲۱۸

قرآن مجید میں ہے '' وابتغوا الیہ الوسیلہ'' جیسا کہ بیان کیا ہے وسیلہ اس چیز کو کہتے ہیں جو خدا کے تقرّب کا ذریعہ بنے_ پس جو شے بھی آپ کو خدا کے قریب کرنے کا وسیلہ بن سکتی ہے آپ اسے انتخاب کرسکتے ہیں_ چاہے وہ پیغمبر(ص) کی دعا ہو یا شفاعت، مقام پیغمبر(ص) ہو یا ذات پیغمبر(ص) کہ وہ اللہ تعالی کی بندگی، اطاعت، عبودیت اور دیگر صفات حسنہ کی وجہ سے اس کی بارگاہ میں محبوب و مقرّب ہے_

اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ ان امور کے ذریعے بارگاہ خدا میں تقرّب حاصل کرو_ پس وسیلہ کو صرف انسان کے اپنے نیک اعمال میں منحصر کرنے پر کوئی دلیل نہیں ہے جس کا وہابی دعوی کرتے ہیں_

وسیلہ کی جو اقسام ہم نے بیان کی ہیں نہ تو یہ توحید در عبادت میں رخنہ پیدا کرتی ہیں کیونکہ ہم صرف خدا کی عبادت کرتے ہیں نہ پیغمبر اکرم(ص) کی اور نہ ہی توحید افعالی میں خدشہ ایجاد کرتی ہیں، کیونکہ صرف اللہ تعالی نفع و نقصان کا مالک ہے، اس کے علاوہ جس کسی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ہے اور اسی کے واسطہ سے ہے _

آیات میں اس قسم کے عموم کے بعد اب کس چیز کا انتظار ہے؟

یہ بہانہ تراشی تو ایسے ہے جیسے قرآن مجید فرماتا ہے''فاقرء وا ما تیسَّر من القرآن'' جتنا قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہو کرو ''(۱) اب ا گر کوئی بہانہ بنائے اور شک کرے کہ کھڑے ہوکر قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ لیٹ کر تلاوت کرنا کیسے ہے؟ آیت کا عموم کہہ رہا ہے تلاوت قرآن کی تمام اقسام جائز ہیں_ تلاوت سفر میں ہو یا حضر میں _ وضو کے ساتھ ہو یا بغیر وضو کے اس وقت تک جائز ہے جب تک کوئی دلیل اس عموم کے خلاف قائم نہ ہوجائے _

۲۱۹

قرآن مجید کے عمومات اور اطلاقات اس وقت تک قابل عمل ہیں، جب تک کوئی مانع اور رکاوٹ در پیش نہ آئے_ توسّل والی آیات بھی عام ہیں اور آیات قرآن کے عموم پر عمل کیاجاسکتا ہے جب تک کوئی مانع نہ ہو_ پس ہم بھی ان عمومات پر عمل کریں گے اور یہ بہانے تراشیاں قبول نہیں کریںگے_

ثانیاً: توسّل کے مسئلہ میں بیان ہونے والی روایات کہ جن میں سے بعض کو ہم نے اوپرپیش کیا ہے اس قدر متنوّع ہیں کہ توسّل کی تمام اقسام کی اجازت دیتی ہیں_ خود پیغمبر اکرم(ص) کی ذات کے ساتھ توسّل جیسے نابینا والے واقعہ میں بیان ہوا_ پیغمبر اکرم(ص) کی قبر مبارک کے ساتھ توسّل جیسا کہ بعض واقعات میں بیان ہوا_ اسی طرح پیغمبر کی دعا سے توسّل، انکی شفاعت سے توسّل جیسا کہ دیگر واقعات میں بھی بیان کیاگیا ہے _ ان متنوّع اور مختلف روایات کی روشنی میں بہانہ تراشیوں کی کوئی گنجائشے باقی نہیں رہتی ہے_

ثالثاً: پیغمبر اکرم(ص) کی ذات سے توسل سے کیا مراد ہے؟ ہماری نظر میں کیوں پیغمبر اکرم(ص) کی ذات کااحترام ہے اور ہم انہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں شفیع بناتے ہیں؟ یہ اس لیے کہ پیغمبر اکرم(ص) اطاعت اور عبوديّت کی اعلی ترین منزل پر فائز تھے_ پس حقیقت میں پیغمبر(ص) کی ذات کے سا تھ توسّل انکی اطاعات، عبادات اور افعال حسنہ کے ساتھ توسّل ہے او ریہ وہی چیز ہے جسے متعصب وہابی بھی جائزقرار دیتے ہیں_ کیونکہ وہ بھی قائل ہیں کہ طاعات کے ساتھ توسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے_

پس صرف الفاظ کا جھگڑا ہے _

تعجّب کی بات تو یہ ہے کہ بعض وہابی پیغمبر اکرم(ص) کی برزخی زندگی کا انکار کرتے ہیں اور انکی وفات کو (معاذ اللہ )کفار کی وفات جیسا سمجھتے ہیں _ حالانکہ قرآن مجید شہداء کے لیے حیات

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232