شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں16%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81053 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

جاوید کا تذکرہ کرتا ہے ''( بل احیائٌ عند ربّهم یرزقون'' ) (۱)

کیا پیغمبر اکرم(ص) کا مقام شہداء کے مقام سے کم ہے، جبکہ آپ سب لوگ اپنی نمازوں میں ان پر درودبھیجتے ہیں_ اگر رسولخدا(ص) وفات کے بعد توسل کرنے والوں کے توسّل کو نہیں سنتے توپھر آپ کا سلام بھیجنا بے فائدہ ہے ( خدا سے پناہ مانگتے ہیں اس اندھے تعصب سے کہ جو انسان کو کہاں سے کہاںتک پہنچادیتا ہے) _

البتہ ان میں سے بعض علماء آنحضرت کی حیات برزخی کے قائل ہیں انہیں اپنے اس نظریہ کے مطابق اپنا اعتراض واپس لے لینا چاہیے_

۲_ ''افراطی اور غالی افراد''

ہم افراط اور تفریط کرنے وا لے دونوں گروہوں کے درمیان میں ہیں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو توسّل کے مسئلہ میں مقصّر ہیں اور اعتراض تراشی کرتے ہیں اور جس توسّل کی قرآن و حدیث نے اجازت دی ہے وہ اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں_ اور گمان کرتے ہیں کہ ان کا یہ نظریہ انکی توحیدکے کمال کا باعث ہے حالانکہ وہ سراسر غلطی پر ہیں_ کیونکہ اولیائے الہی کے ساتھ انکی اطاعت ، عبادت، اعمال اور بارگاہ الہی میں انکے تقرّب کیوجہ سے توسّل کرنا، مسئلہ توحید پر تاکید ہے اور ہر شے کا خدا سے طلب کرنا ہے_

دوسری طرف ایک افراطی گروہ ہے جو توسّل کی آڑ میں غلّو کا راستہ اختیار کرتے ہیں_ ان غالیوں کا خطرہ اور نقصان اس پہلے گروہ سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ بعض اوقات ایسے جملے استعمال کرتے ہیں جو توحید افعالی کے ساتھ سازگار نہیں ہیں_ یا بعض اوقات ایسی باتیں

____________________

۱)سورة آل عمران آیت ۱۶۹_

۲۲۱

کرتے ہیں جو عبادت میں توحید کے ساتھ منافی ہیں_ چونکہ''لامؤثر فی الوجود الّا اللّه'' اس عالم وجود میں مؤثّر واقعی صرف اللہ تعالی کی ذات ہے اور جو کچھ بھی موجود ہے اس کی بدولت ہے_

لہذا جس طرح ہمیں صحیح توسّل کے منکر افراد کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے یا انہیں ارشاد کرنا چاہیے اور غلطیوں سے روکنا چاہیے، اسی طرح افراطی گروہ اور غالیوں کو بھی ارشاد کرنا چاہیے اور انہیں راہ راست کی طرف لوٹانا چاہیے_

در واقع یہ کہا جاسکتا ہے کہ توسّل کے منکرین کی پیدائشے کا ایک سبب توسّل کے قائل افراد میں سے بعض کا افراط اور غلّو ہے جب انہوں نے افراط سے کام لینا شروع کیا تو فطرتی سی بات تھی کہ تفریطی ٹولہ انکے مقابلے میں ایجاد ہوجائیگا_ یہ ایک ایسا قانون ہے جو تمام اعتقادی، اجتماعی اور سیاسی مسائل میں پایا جاتا ہے اور انحرافی گروہ ہمیشہ ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہوتے ہیں اور دونوں گروہ غلط راستے پر ہٹ دھرمی کے ساتھ گامزن رہتے ہیں_

۳: تنہا توسّل کافی نہیں ہے _

لوگوں کو اس بات کی تلقین کرنی چاہیے کہ صرف اولیائے الہی اور صالحین کے ساتھ توسّل پر اکتفانہ کریں_ کیونکہ توسّل تو ہمارے لیئے ایک درس ہے_ وہ اسطرح کہ ذہن میں سوال اٹھتا ہے، کہ ہم ان اولیاء کے ساتھ کیوں توسّل کرتے ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ اس لیے توسّل کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آبرومند ہیں، کیوں آبرومند ہیں؟اپنے نیک اعمال کی وجہ سے آبرومند ہیں پس ہمیں بھی نیک اعمال کی طرف جانا چاہیے_ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ توسّل ہمیں درس دیتا ہے کہ اللہ تعالی کا قرب نیک اعمال کے ذریعے

۲۲۲

حاصل کیا جاسکتا ہے_

اور اولیائے الہی کے ساتھ توسّل بھی انکے نیک اعمال کیوجہ سے ہی کیا جاتا ہے_ وہ اپنے اعمال صالح کیوجہ سے خدا کا قرب حاصل کرچکے ہیں اور ہم توسّل میں ان سے تقاضا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ہاں ہماری بھی شفاعت کریں ، لہذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ جس راستے کو انہوں نے طے کیا ہے ہم بھی اس راستے پر عمل پیرا ہوں_ توسّل کو ایک انسان ساز اور تربیت کرنے والے مکتب میں تبدیل ہونا چاہیے_ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم توسّل پر ہی رک جائیں اور اس کے بلند مقاصد کو فراموش کردیں_ یہ ایک اہم بات تھی جس کی طرف ہم سب کو متوجہ رہنا چاہیے_

۴: امور تکوینی میں توسّل:

ایک اور نکتہ جس کی طرف توجہ ضروری ہے، یہ ہے کہ عالم اسباب کے ساتھ توسّل جسطرح امور تشریعی میں موجود ہے اسی طرح امور تکوینی میں بھی موجود ہے اور ان میں سے کوئی سا توسل بھی توحید کی راہ میں مانع نہیں ہے_ ہم جس وقت اپنے مطلوبہ نتائج تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اپنی عادی زندگی میں اسباب کے پیچھے جاتے ہیں، زمین میں ہل چلاتے ہیں، بیج بوتے ہیں آبیاری کرتے ہیں_ فصل کی حفاظت کرتے ہیں، اور پھر موقع پر فصل کاٹتے ہیں اور اس سے اپنی زندگی میں استفادہ کرتے ہیں کیا یہ اسباب کے ساتھ توسّل کرنا ہمیں اللہ تعالی سے غافل کردیتا ہے؟ کیا اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ زمین سبزہ اگاتی ہے_ اور سورج کانور اور بارش کے حیات بحش قطرے بیج، گل و گیاہ اور پھلوں کی پرورش میں مددگار ثابت ہوتے ہیں_ یا کلّی طور پر عالم اسباب کے وسیلہ ہونے کے بارے میں عقیدہ رکھنا کیا توحید افعالی کے منافی

۲۲۳

ہے؟ یقینا منافی نہیں ہے_ کیونکہ ہم عالم اسباب میں صرف اسباب مہيّا کرتے ہیں اور مسبب الاسباب اللہ تعالی کی ذات کو جانتے ہیں _

پس جس طرح طبیعی اسباب کے ساتھ توسّل کرنا توحید کے ساتھ منافی نہیں ہے اسی طرح عالم تشریع میں انبیائ، اولیاء اور معصومین (ع) کے ساتھ توسّل کرنا اور ان سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں شفاعت کا تقاضا کرنا بھی توحید کے ساتھ منافی نہیں ہے_

البتہ اس عالم تکوین کے بارے میں بھی ایک افراطی گروہ موجود ہے جو اصلاً عالم اسباب کا انکار کرتے ہیں_ وہ گمان کرتے ہیں کہ عالم اسباب پر عقیدہ رکھنا توحید افعالی کے ساتھ منافی ہے_ اسی لیے وہ قائل ہیں کہ آگ نہیں جلاتی ہے بلکہ جس وقت آگ کسی شے کے نزدیک ہوتی ہے تو اللہ تعالی اس شے کو جلاتا ہے، اسی طرح پانی آگ کو نہیں بجھاتا ہے بلکہ جس وقت آگ پر پانی ڈالا جاتا ہے تو اللہ تعالی اس آگ کو بجھادیتا ہے_ یہ لوگ اس انداز میں علّت اور معلول کے درمیان پائے جانے والے تمام واضح اور بدیہی روابط کا انکار کرتے ہیں_

حالانکہ قرآن مجید واضح انداز میں عالم اسباب کو قبول کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم بادلوں کو بھیجتے ہیں اور یہ بادل تشنہ زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اور انکے ذریعے مردہ زمینیں زندہ ہوجاتی ہیں'' فيُحیی به الارض بعد موتها'' (۱)

''يُحیی بہ '' یعنی یہ بارش کے قطرے زمین کو حیات بخشتے ہیں_ اس کے علاوہ بہت سی آیات عالم اسباب کے وسیلہ ہونے کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں لیکن بہرحال یہ اسباب ذاتی طور پر کوئی قدرت نہیں رکھتے ہیں بلکہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ہے_ یہ آثار اللہ تعالی نے انہیں عطا فرمائے ہیں_ جس طرح اسباب طبیعی کے منکر،

____________________

۱) سورة روم آیة ۲۴_

۲۲۴

غافل خطاکار ہیں اسی طرح عالم تشریع میں بھی اسباب کا انکار کرنے والے غلطی پر ہیں_

ہم امید کرتے ہیں کہ گذشتہ سطور کی روشنی میں یہ لوگ تعصّب سے ہاتھ کھینچ لیں اور صحیح راستہ کا انتخاب کرلیں اور اسطرح بے جا تکفیر اور تفسیق کا خاتمہ ہوجائے اورپوری دنیا کے مسلمان آپس میں اتحادّ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دشمنوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جائیں جنہوں نے قرآن، اسلام اور خدا کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہوا ہے_ اور اسطرح اسلامی تعلیمات کو ہر قسم کے شرک ، غلو و زیادتی اور کوتاہی و نقصان سے پاک کر کے پوری دنیا کے سامنے پیش کریں _

والسلام

شعبان ۱۴۲۶ ھ ق

ناصر مکارم شیرازی

۲۲۵

فہرست

مقدمہ: ۵

مقدمہ ۶

یہ راستہ وحدت کی طرف نہیں جاتا ۶

۱ ۱۰

قرآن ھر قسم کی تحریف سے منزہ ہے ۱۰

عدم تحریف قرآن: ۱۱

فریقین کی دو کتابیں: ۱۱

فرقہ و ارانہ دشمنی کی خاطر اسلام کی جڑوں کوکھوکھلانہ کیا جائے _ ۱۵

عدم تحریف پر عقلی اور نقلی دلیلیں : ۱۷

اختتامیہ کلمات: ۲۰

۲ ۲۳

''تقیہ'' قرآن و سنت کے آئینہ میں ۲۳

۱-تقیہ کیا ہے ؟ ۲۴

۲_تقیہ اور نفاق کا فرق: ۲۵

۳_تقیہ عقل کے ترازو میں : ۲۵

۴_تقیہ کتاب الہی میں : ۲۶

۵_تقیہ اسلامی روایات میں : ۲۹

۶_کیا تقیہ صرف کفار کے مقابلے میں ہے؟ ۲۹

۷) حرام تقیہ: ۳۴

۲۲۶

(مصلحت آمیز ) تقيّہ: ۳۵

۳ ۳۷

عدالت صحابہ ۳۷

۱_ دو متضاد عقیدے : ۳۷

۲_تنزیہ کے سلسلہ میں شدّت پسندی: ۳۸

۳_ لا جواب سوالات: ۳۹

کیا یہ بات حقیقت کے خلاف ہے؟ ۴۱

۴: صحابہ کون ہیں؟ ۴۲

۵:''عقیدہ تنزیہ کا اصلی سبب'' ۴۴

۶_ کیا تمام اصحاب بغیر استثناء کے عادل تھے؟: ۴۹

۷_اصحاب پیغمبر(ص) کی اقسام: ۵۷

۱_ پاک و صالح: ۵۷

۲_ مؤمن خطاکار: ۵۷

۳_ گناہگار افراد: ۵۸

۴_ ظاہری مسلمان: ۵۸

۵_ منافقین: ۵۸

۸_تاریخی گواہی: ۵۹

۹_ پیغمبر(ص) کے زمانے میں یا اس کے بعد بعض صحابہ پر حدّ کا جاری ہونا ۶۳

۱۰_ نادرست توجیہات ۶۴

۱۱_ مظلوميّت علی (ع) ۶۶

۲۲۷

۱۲: ایک دلچسپ داستان ۶۸

۴ ۷۰

بزرگوں کی قبروں کا احترام ۷۰

اجمالی خاکہ ۷۱

زیارت قبول کی گذشتہ تاریخ: ۷۳

قبور کی زیارت کے سلسلہ میں شرک کا توہّم: ۷۴

کیا شفاعت طلب کرنا توحید ی نظریات کے ساتھ سازگار ہے؟ ۷۶

کیا ( معاذ اللہ ) یعقوب مشرک پیغمبر(ص) تھے؟ ۷۷

کیا قرآن مجید، کفار اور منافقین کو شرک کی طرف دعوت دے رہا ہے؟ ۷۸

اولیا ء الہی کی شفاعت اُنکی ظاہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے: ۷۹

ہم ان متضاد باتوں کو کیسے قبول کریں ۸۰

خواتین اور قبور کی زیارت ۸۱

'' شدّ رحال'' فقط تین مساجد کے لیے ۸۲

کیا قبور پر عمارت بنانا ممنوع ہے؟ ۸۴

وہابیت کے ہاتھوں ثقافتی میراث کی نابودی ۸۵

بہانے: ۸۷

۱_ قبروں کو مسجد نہیں بنانا چاہیے: ۸۷

۲_ایک اور بہانہ: ۸۹

بزرگان دین کی قبور کی زیارت کے مثبت آثار ۹۱

۳:تبرّک کو چاہنا اور طلب کرناممنوع ہے_ ۹۲

۲۲۸

علمائے اسلام کی اہم ذمہ داری: ۹۳

۵ ۹۵

نکاح موقّت (مُتعہ ) ۹۵

متعہ یا ازدواج موقت ۹۶

ضرورت اور نیاز ۹۶

نکاح مسیار: ۹۸

متعہ کیا ہے؟ ۱۰۰

سوء استفادہ: ۱۰۳

نکاح متعہ، قرآن و سنّت اور اجماع کی روشنی میں : ۱۰۴

کس نے متعہ کو حرام کیا؟ ۱۰۸

الف) خلیفہ اول کے دور میں متعہ کا حلال ہونا: ۱۰۹

ب) اجتہاد در مقابل نصّ: ۱۰۹

حضرت عمر کی مخالفت کا سبب: ۱۱۰

متعہ کی تحریم کے بعد لوگوں کا ردّ عمل: ۱۱۲

بہترین راہ حل ۱۱۶

۶ ۱۲۰

زمین پر سجدہ ۱۲۰

عبادات میں سجدہ کی اہمیت: ۱۲۱

غیر خدا کے لیے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے: ۱۲۲

کس چیز پر سجدہ کرنا چاہیے: ۱۲۴

۲۲۹

۴_ مسئلہ کی ادلّہ: ۱۲۷

الف) زمین پر سجدہ کے سلسلہ میں معروف حدیث نبوی: ۱۲۷

ب) سیرت پیغمبر(ص) : ۱۲۸

ج) صحابہ اور تابعین کی سیرت ۱۳۰

۷ ۱۳۳

جمع بین صلاتین ۱۳۳

بیان مسئلہ: ۱۳۴

اسلامی معاشروں میں پانچ اوقات پر اصرار کے آثار: ۱۳۶

دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کے جواز پر روایات: ۱۳۷

۱_ مذکورہ احادیث کا نتیجہ : ۱۴۲

۲_ قرآن مجید اور نماز کے تین اوقات: ۱۴۴

۸ ۱۴۹

وضو میں پاؤں کا مسح ۱۴۹

قرآن مجید اور پاؤں کا مسح: ۱۵۰

عجیب توجیہات ۱۵۳

نص ّ کے مقابلے میں اجتہاد اور تفسیر بالرا ی: ۱۵۵

جوتوں پر مسح کرنا ۱۵۸

پاؤں پر مسح اور احادیث اسلامی : ۱۵۹

مخالف روایات: ۱۶۵

سہل اور آسان شریعت: ۱۶۷

۲۳۰

جوتوں پر مسح، عقل و شرع کے ترازو میں : ۱۷۰

روایات چند اقسام پر مشتمل ہیں: ۱۷۳

قسم دوم: ۱۷۷

بحث کا آخری نتیجہ: ۱۸۱

۹ ۱۸۲

بسم الله سورة الحمد کا جزء ہے ۱۸۲

ایک تعجب آور نکتہ : ۱۸۳

پہلی قسم کی احادیث: ۱۸۸

دوسری قسم کی احادیث: ۱۹۱

ما بین الدّفتین قرآن ہے: ۱۹۶

بحث کا خلاصہ : ۱۹۷

اَولیائے الہی سے توسّل ۲۰۱

''توسّل'' قرآنی آیات اور عقل کے آئینہ میں : ۲۰۲

توسل، اسلامی احادیث کی روشنی میں : ۲۱۱

۱_ پیغمبر اکرم(ص) کی ولادت سے پہلے حضرت آدم(ع) کا آپ(ص) سے توسّل کرنا ۲۱۲

پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد اُن سے توسل'' ۲۱۵

''پیغمبر اکرم(ص) کے چچا حضرت عباس سے توسل'': ۲۱۶

چند قابل توجّہ نکات ۲۱۸

۱_ وہابیوں کے بہانے: ۲۱۸

۲_ ''افراطی اور غالی افراد'' ۲۲۱

۲۳۱

۳: تنہا توسّل کافی نہیں ہے _ ۲۲۲

۴: امور تکوینی میں توسّل: ۲۲۳

۲۳۲