شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 66605
ڈاؤنلوڈ: 2951

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66605 / ڈاؤنلوڈ: 2951
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

کہ اسے حکومت کی نگرانی میں میرے پاس بھیج دیا جائے _جب عبداللہ بن مسعود مدینہ میں وارد ہوا تو خلیفہ منبر پر تھے جیسے ہی انکی نظر عبداللہ بن مسعود پر پڑی تو کہنے لگے بُرا جانورداخل ہوگیا ہے ( اور بہت سی گالیاں دیں قلم جنہیں لکھنے سے شرم محسوس کرتا ہے) عبداللہ بن مسعود کہنے لگے میں ایسا نہیں ہوں،میں رسولخدا(ص) کا صحابی ہوں_ جنگ بدر اور بیعت رضوان میں شریک تھا_

حضرت عائشےہ ،عبداللہ کی حمایت کے لیے اٹھیں لیکن حضرت عثمان کا غلام ،عبداللہ کو مسجد سے باہر لے گیا اور انہیں زمین پر پٹخا اور انکی پسلیاں توڑدیں(۱)

۳: بلاذری اپنی اُسی کتاب انساب الاشراف میں نقل کرتے ہیں کہ مدینہ کے بیت المال میں بعض جواہرات اور زیورات تھے حضرت عثمان نے ان میں سے کچھ زیورات اپنے گھروالوں کو بخش دیئےجب لوگوں نے دیکھا تو کھلے عام اعتراض شروغ کردیا اور انکے بارے میں سخت وگھٹیا باتیں کہیں حضرت عثمان کو غصہ آگیا اور وہ منبر پر گئے اور خطبہ کے دوران کہا ہم غنائم میں سے اپنی ضرورت کے مطابق اٹھائیں گے اگرچہ لوگوں کی ناک زمین پر رگڑی جائے

اس پر حضرت علی _ نے کہا کہ '' مسلمان خود تمہارا راستہ روک لیں گے''

جناب عمّار یاسر نے کہا: سب سے پہلے میری ناک زمین پر رگڑی جائے گی

( اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں تنقید سے باز نہیں آؤنگا)

حضرت عثمان کو غصہ آگیا اور کہنے لگے تو نے میری شان میں گستاخی کی ہے_ اس کو گرفتار

____________________

۱) انساب الاشراف، جلد ۶ ص ۱۴۷، تاریخ ابن کثیر، جلد ۷ ص ۱۶۳و ۱۸۳ حوادث سال ۳۲ ( خلاصہ)_

۶۱

کر لو_ لوگوں نے جناب عمّار کو پکڑ لیا اور عثمان کے گھر لے گئے وہاں انہیں اسقدر ماراگیا کہ وہ بے ہوش ہوگئے_ اس کے بعد انہیں جناب ام سلمہ ( زوجہ پیغمبر (ص) کے گھر لایا گیا وہ اس وقت بے ہوشی کے عالم میں تھے یہاںتک کہ انکی ظہر، عصر اور مغرب کی نماز قضاء ہوگئی_ جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے وضو کرکے نماز ادا کی اور کہنے لگے یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہمیں خدا کی خاطر اذیت و آزار پہنچائی جارہی ہے_(۱) ( ان واقعات کی طرف اشارہ تھا جنکا زمانہ جاہلیت میں کفار کیطرف سے انہیں سامنا کرنا پڑا تھا)_

ہم ہرگز مائل نہیں ہیں کہ تاریخ اسلام کے اس قسم کے ناگوار حوادث کو نقل کریں ( ترسم آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است) اگر ہمارے بھائی تمام صحابہ اور انکے تمام کاموں کے تقدّس پر اصرار نہ کرتے تو شاید اتنی مقدارکے نقل کرنے میں بھی مصلحت نہیں تھی_ اب سوال یہ ہے کہ اصحاب رسول(ص) میں سے تین پاکیزہ ترین افراد ( سعد بن معاذ ،عبداللہ ابن مسعود اور عمار یاسر) کو گالیاں دینے اور مارنے پٹینے کی کیا تو جیہ ہوسکتی ہے؟ ایک باعظمت صحابی کو اتنا مارا جائے کے اسکی پسلیاں ٹوٹ جائیں اور دوسرے کو اتنا مارا جائے کہ بے ہوش ہوجائے اور اس کی نمازیں قضاہوجائیں_

کیا یہ تاریخی شواہد کہ جنکے نمونے بہت زیادہ ہیں ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم حقائق سے چشم پوشی کریں اور کہیں کہ تمام اصحاب اچھے اور انکے تمام کام صحیح تھے_ اور ایک سپاہ ''سپاہ صحابہ '' کے نام سے بنادیں اور انکے تمام کاموں کا بلا مشروط دفاع کریں_

کیا کوئی بھی عقلمند اس قسم کے افکار کو پسند کرتا ہے؟

____________________

۱) انساب الاشراف جلد ۶ ص ۱۶۱_

۶۲

اس مقام پر پھر تکرار کرتے ہیں کہ رسولخدا(ص) کے اصحاب میں مؤمن ، صالح اور پارسا افراد بہت سے تھے لیکن کچھ ایسے افراد بھی تھے جنکے کاموں پر تنقید کرنا چاہیے اور انکی تحلیل کرتے ہوئے انہیں عقل کے ترازو پر تولنا چاہیے اور اس کے بعد انکے بارے میں حکم لگانا چاہیے_

۹_ پیغمبر(ص) کے زمانے میں یا اس کے بعد بعض صحابہ پر حدّ کا جاری ہونا

صحاح ستّہ یا برادران اہلسنت کی دیگر معروف کتابوں میں کچھ موارد ایسے دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں بعض اصحاب، رسولخدا(ص) کے زمانے میں یا اس کے بعد ایسے گناہوں کے مرتکب ہوئے جن کی حد وسزا تھی_ لہذا اُن پر حد جاری کی گئی _

کیا اس کے باوجود آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب عادل تھے؟ اور ان سے کوئی غلطی نہیں ہوئی؟ یہ کیسی عدالت ہے کہ ایسا گناہ کیا جائے جس پر حد جاری ہوتی ہو اور ان پرحد جاری ہونے کے بعد بھی عدالت اپنی جگہ محکم باقی رہتی ہے؟

ہم ذیل میں نمونہ کے طور پر چند موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف) ''نعیمان'' صحابی نے شراب پی، پیغمبر اکرم (ص) نے حکم صادر فرمایا اور اسے تازیانے مارے گئے(۱)

ب) ''بنی اسلم '' قبیلہ کے ایک مرد نے زنائے محصّن کیا تھا_ پیغمبر اکرم (ص) کے حکم پر اسے سنگسار کردیا گیا(۲)

____________________

۱)صحیح بخاری ، جلد ۸ ص ۱۳، حدیث نمبر ۶۷۷۵ ، کتاب الحدّ_

۲) صحیح بخاری ، جلد ۸ ص ۲۲ ، حدیث ۶۸۲۰_

۶۳

ج) واقعہ افک میں پیغمبر اکرم (ص) کے حکم پر چند افراد پر حدّ قذف جاری کی گئی تھی(۱)

د) پیغمبر اکرم (ص) کے بعد عبدالرحمن بن عمر اور عقبہ بن حارث بدری نے شراب پی او ر مصر کے امیر عمر ابن عاص نے ان پر حدّ شرعی جاری کی _ اس کے بعد عمر نے دوبارہ اپنے بیٹے کو بلایا اور دوبارہ اس پر حدّ جاری کی(۲)

ہ) ولید بن عقبہ کا واقعہ مشہور ہے کہ اس نے شراب پی اور مستی کے عالَم میں صبح کی نماز چار رکعت پڑھا دی _ اُسے مدینہ حاضر کرکے شراب کی حد اس پر جاری کی گئی_(۳)

ان کے علاوہ اور بہت سے موارد ہیں، مصلحت کی خاطر جن کے ذکر سے اجتناب کیا جا رہا ہے_ اس کے باوجود کیا اب بھی ہم حقائق کے سامنے آنکھیں اور کان بند کرلیں اور کہہ دیں کہ سب اصحاب عادل تھے؟

۱۰_ نادرست توجیہات

۱_ تنزیہ او رہر لحاظ سے تقدّس کے نظریہ کے طرفدار جب متضاد حالات کے انبوہ سے روبرو ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو اس توجیہ کے ساتھ قانع کرتے ہیں کہ سب صحابہ ''مجتہد'' تھے اور ہر ایک نے اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کیا_یقیناً یہ تو ضمیر اوروجدان کو فریب دینا ہے کہ یہ برادران اس قسم کے آشکار اختلافات میں اس بوگس توجیہہ کا سہارا لیں_

____________________

۱) المعجم الکبیر، جلد ۲۳ ص ۱۲۸ و کتب دیگر_

۲) السنن الکبری ، جلد ۸ ص ۳۱۲ اور بہت سی کتب _

۳) صحیح مسلم، جلد ۵ ، ص ۱۲۶ حدیث نمبر ۱۷۰۷_

۶۴

کیا بیت المال کو ہڑپ کرنے کے بارے میں ایک معمولی سی تنقید اور سادہ سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایک مؤمن صحابی کو اتنا مارنا کہ وہ بے ہوش اور اس کی نمازیں قضا ہوجائیں، اجتہاد ہے؟ کیا ایک اور مشہور صحابی کی پسلیاں توڑ دینا صرف اس اعتراض کی خاطر جو اس نے کیاکہ کیوں ایک شرابی ( ولید ) کو کوفہ کا حاکم تعیین کیا گیا ہے، اجتہاد شمار ہوتا ہے؟

اس سے بڑھ کر امام المسلمین کے مقابلے میں کہ جو مقامات الہی کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کے منتخب کردہ اتّفاقی خلیفہ تھے، صرف جاہ طلبی اور حکومت حاصل کرنے کی خاطر جنگ کی آگ بھڑ کانا جس میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہہ جائے، اجتہاد شمار ہوتا ہے؟

اگر یہ موارد اور ان کی مثل ، اجتہاد کی شاخیس شمار ہوتی ہیں تو پھر طول تاریخ میں ہونے والی تمام جنایات کی یہی توجیہ کی جاسکتی ہے_

اس کے علاوہ کیا اجتہاد صرف اصحاب میں منحصر تھا یا کم از کم چند صدیوں بعد بھی امت اسلامی میں کثرت کے ساتھ مجتہد موجود تھے بلکہ بعض علمائے اہلسنت کے اعتراف اور تمام علمائے شیعہ کے مطابق آج بھی تمام آگاہ علماء کے لئے اجتہاد کا دورازہ کھلا ہے؟

جو افراد اس قسم کے بھیانک افعال انجام دیں کیا آپ انکے افعال کی توجیہہ کرنے کو حاضر ہیں؟ یقیناًایسا نہیں ہے_

۲: کبھی کہا جاتا ہے کہ ہمارا فریضہ یہ ہے کہ انکے بارے میں سکوت اختیار کریں_

( '' تلک اُمةٌ قد خَلَت لَهَا ما كَسَبَت و لَكُم ما كَسَبتُم و لَا تُسأَلُونَ عَمّا كَانُوا يَعمَلُون'' ) (۱)

____________________

۱) سورة بقرہ آیت ۱۳۴_

۶۵

وہ ایک اُمّت ہیں جو گزرچکے انکے اعمال انکے لیئےیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیئےاور آپ سے انکے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائیگا_

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ ہماری سرنوشت میں مؤثر نہ ہوتے تو پھر یہ بات اچھی تھی _ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی روایات کو انکے توسط سے دریافت کریں اور انہیں اپنے لیئے نمونہ عمل قرار دیں_ تو کیا اس وقت یہ ہمارا حق نہیں ہے کہ ثقہ اور غیر ثقہ اسی طرح عادل اور فاسق کی شناخت کریں تا کہ اس آیت( '' إن جاء کم فاسقٌ بنبائ: فَتَبَيَّنُوا'' ) اگر فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تحقیق کیجئے ''(۱) پر عمل کرسکیں_

۱۱_ مظلوميّت علی (ع)

جو بھی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرے اس نکتہ کو با آسانی درک کرسکتا ہے کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ حضرت علی _ جو علم و تقوی کا پہاڑ، پیغمبر اکرم (ص) کے نزدیک ترین ساتھی اور اسلام کے سب سے بڑے مدافع تھے، انہیں اسطرح ہتک حرمت، توہین اور سبّ و شتم کا نشانہ بنایاگیا_

انکے دوستوں کو اسطرح دردناک اذیتوں اور مظالم سے دوچار کیا گیا کہ تاریخ میں اسکی نظیر نہیں ملتی_ وہ بھی ان افراد کیطرف سے جو اپنے آپ کو پیغمبر اکرم (ص) کا صحابی شمار کرتے ہیں_

چند نمونے ملاحظہ فرمایئے

الف) لوگوں نے علی ابن جہم خراسانی کو دیکھا کہ اپنے باپ پر لعنت کر رہا ہے جب وجہ

____________________

۱) سورة حجرات آیة ۶_

۶۶

پوچھی گئی تو کہنے لگا: اس لئے لعنت کر رہاہوں کیونکہ اس نے میرا نام علی رکھا ہے_(۱)

ب ) معاویہ نے اپنے تمام کارندوں کو آئین نامہ میں لکھا: جس نے بھی ابوتراب (علی _ ) اور انکے خاندان کی کوئی فضیلت نقل کی وہ ہماری امان سے خارج ہے (اس کی جان و مال مباح ہے ) اس آئین نامہ کے بعد سب خطباء پوری مملکت میں منبر سے علی الاعلان حضرت علی (ع) پر سبّ و شتم کرتے اور اُن سے اظہار بیزاری کرتے تھے_ اس طرح ناروا نسبتیں انکی اور انکے خاندان کی طرف دیتے تھے_(۲)

ج ) بنواميّہ جب بھی سُنتے کہ کسی نو مولود کا نام علی رکھا گیا ہے اسے فوراً قتل کردیتے_ یہ بات سلمة بن شبیب نے ابوعبدالرحمن عقری سے نقل کی ہے_(۳)

د) زمخشری اور سیوطی نقل کرتے ہیں کہ بنو اميّہ کے دور حکومت میں ستّر ہزار سے زیادہ منابر سے سبّ علی (ع) کیا جاتاتھا اور یہ بدعت معاویہ نے ایجاد کی تھی_(۴)

ہ) جس وقت عمر بن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ اس بُری بدعت کو ختم کیا جائے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں امیرالمؤمنین علی _ کو بُرا بھلانہ کہا جائے تو مسجد سے نالہ و فریاد بلند

ہوگئی اور سب عمربن عبدالعزیز کو کہنے لگے '' ترکتَ السُنّة ترکتَ السُنّة'' تونے سنت کو ترک کردیا ہے_ تونے سنّت کو ترک کردیا ہے_(۵)

____________________

۱) لسان المیزان ، جلد ۴ ص ۲۱۰_

۲) النصائح الکافیہ ص ۷۲_

۳) تہذیب الکمال ، جلد ۲۰، ص ۴۲۹ و سیر اعلام النبلاء ، جلد ۵، ص ۱۰۲_

۴) ربیع الابرار ، جلد ۲، ص ۱۸۶ و النصائح الکافیہ، ص ۷۹ عن السیوطی_

۵) النصائح الکافیہ ، ص ۱۱۶ و تہنئة الصدیق المحبوب، تالیف سقاف ص ۵۹_

۶۷

یہ سب اس صورت میں ہے کہ برادران اہلسنت کی معتبر اور صحیح کتب کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ '' مَن سَبَّ عليّاً فَقد سَبّنی و مَن سبّنی فقد سبَّ الله '' جس نے علی (ع) کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے خدا کو گالی دی ''(۱)

۱۲: ایک دلچسپ داستان

حُسن اختتام کے طور پر شاید اس واقعہ کو نقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہ ہو کہ جو خود ہمارے ساتھ مسجد الحرام میں پیش آیا ہے_

ایک دفعہ جب عمرہ پر جانے کا اتفاق ہوا تو ایک رات ہم مغرب و عشاء کی نماز کے درمیان مسجد الحرام میں بیٹھے تھے کہ کچھ علماء حجاز کے ساتھ تمام اصحاب کے تقدّس کے بارے میں ہماری بحث شروع ہوگئی، وہ معمول کے مطابق اعتقاد رکھتے تھے کہ اصحاب پر معمولی سی بھی تنقید نہیں کرنا چاہیے _یایوں کہہ دیجئے کہ پھول سے زیادہ نازک اعتراض بھی ان پر نہیں کرنا چاہئے _ ہم نے اُن کے ایک عالم کو مخاطب کرکے کہا : آپ فرض کیجیئے کہ اس وقت'' جنگ صفین '' کا میدان گرم ہے_ آپ دو صفوں میں سے کس کا انتخاب کریں گے؟ صف علی (ع) کا یا صف معاویہ کا؟

کہنے لگے: یقیناً صف علی (ع) کا انتخاب کروں گا_

میں نے کہا: اگر حضرت علی (ع) آپ کو حکم دیں کہ یہ تلوار لے کر کر معاویہ کو قتل کردیں تو آپ کیا کریں گے؟

____________________

۱)اخرجه الحاکم و صَحَّهُ و ا قرّه الذهبی ( مستدرک الصحیحین ، جلد ۳، ص ۱۲۱)_

۶۸

کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے کہ معاویہ کو قتل کردوں گا لیکن اس پر کبھی بھی تنقید نہیں کرونگا

ہاں یہ ہے غیر منطقی عقائد پر اصرار کرنے کا نتیجہ کہ اس وقت دفاع بھی غیر منطقی ہوتا ہے اور انسان سنگلاخ میں پھنس جاتا ہے_

حق یہ ہے کہ یوں کہیں: قرآن مجید اور تاریخ اسلام کی شہادت کے مطابق، اصحاب پیغمبر اکرم (ص) ایک تقسیم کے مطابق چند گروہوں پر مشتمل تھے_ اصحاب کا ایک گروہ ایسا تھا جو شروع میں پاک، صادق اور صالح تھا اور آخر تک وہ اپنے تقوی پر ثابت قدم رہے_ ''عاشُوا سعداء و ماتوا السعدائ'' انہوں نے سعادت کی زندگی گذاری اور سعادت کی موت پائی_

ایک گروہ ایسا تھا جو آنحضرت(ص) کی زندگی میں تو صالح اور پاک افراد کی صف میں تھے لیکن بعد میں انہوں نے جاہ طلبی اور حبّ دنیا کی خاطر اپنا راستہ تبدیل کر لیا تھا_اور ان کا خاتمہ خیر و سعادت پر نہیں ہوا ( جیسے جمل و صفین کی آگ بھڑ کانے والے)

اور تیسرا گروہ شروع سے ہی منافقوں اور دنیا پرستوں کی صف میں تھا_ اپنے خاص مقاصد کی خاطر وہ مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے جیسے ابوسفیان و غیرہ یہاں پر پہلے گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہم یوں کہیں گے_

( '' ربّنا اغفر لنا و لإخواننا الّذین سَبَقُونَا بالإیمان و لا تجعَل فی قلوبنا غلّاً للّذین آمَنُوا رَبّنا إنّک رَء وفٌ رَّحیم'' ) (۱)

____________________

۱) سورہ حشرآیت ۱۰_

۶۹

۴

بزرگوں کی قبروں کا احترام

۷۰

اجمالی خاکہ

اس مسئلہ میں ہمارے مخاطب صرف شدت پسند وہابی ہیں_کیونکہ اسلام کے بزرگوں کی قبور کی زیارت کو مسلمانوں کے تمام فرقے (سوائے اس چھوٹے سے گروہ کے ) جائز سمجھتے ہیں_ بہرحال بعض وہابی ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم کیوں مذہبی رہنماؤں کی زیارت کے لیے جاتے ہو؟

اور ہمیں '' قبوريّون'' کہہ کر پکارتے ہیں_حالانکہ پوری دنیا میں لوگ اپنے گذشتہ بزرگوں کی آرام گاہوں کی اہمیت کے قائل ہیں اور انکی زیارت کے لیے جاتے ہیں_

مسلمان بھی ہمیشہ اپنے بزرگوں کے مزاروں کی اہمیت کے قائل تھے اور ہیں اور انکی زیارت کے لیے جاتے تھے اور جاتے ہیں_ صرف ایک چھوٹا سا شدت پسند وہابی ٹولہ انکی مخالفت کرتا ہے اور اپنے آپ کو پوری دنیا کے مسلمان ہونے کا دعویدار اور ٹھیکیدار سمجھتا ہے_

البتہ بعض مشہور وہابی علماء نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک کی زیارت کرنا مستحب ہے، لیکن زیارت کی نيّت سے رخت سفر نہیں باندھنا چاہیے _ یعنی مسجد النبی (ص) کی زیارت کے قصد یا اس میں عبادت کی نيّت سے یا عمرہ کی نیت سے مدینہ آئیں اور ضمناً پیغمبر اکرم (ص) کی قبر کی زیارت بھی کرلیں_ لیکن خود زیارت کے قصد سے بار سفر نہیں باندھنا چاہیئے_

'' بن باز'' مشہور وہابی مفتی کہ جو کچھ عرصہ قبل ہی فوت ہوئے ہیں_ الجزیرہ اخبار کے مطابق وہ یہ کہتے تھے'' جو مسجد نبوی(ص) کی زیارت کرے اس کے لیے مستحب ہے کہ روضہ رسول(ص)

۷۱

میں دو رکعت نماز ادا کرے اور پھر آنحضرت(ص) پر سلام کہے اور نیز مستحب ہے کہ جنت البقیع میں جا کر وہاں مدفون شہداء پر سلام کہے''(۱)

اہلسنت کے چاروں ائمہ '' الفقہ علی المذاہب الاربعہ'' کی نقل کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک کی زیارت کو بغیر ان قیود اور شروط کے مستحب سمجھتے ہیں_

اس کتاب میں یوں نقل ہوا ہے'' پیغمبر اکرم (ص) کی قبر کی زیارت اہم ترین مستحبّات میں سے ہے اور اس بارے میں متعدّد احادیث نقل ہوئی ہیں'' اس کے بعد انہوں نے چھ احادیث نقل کی ہیں_(۲)

یہ وہابی ٹولہ اس مسئلہ میں مجموعی طور پر تین نکات میں دنیا کے باقی مسلمانوں کے ساتھ اختلاف رکھتا ہے_

۱_ قبروں پر تعمیر کرنا

۲_ قبور کی زیارت کے لیئے سفر کا سامان باندھنا ( شدّ رحال )

۳_ خواتین کا قبروں پر جانا

انہوں نے بعض روایات کے ذریعے ان تین موارد کی حرمت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان روایات کی یا تو سند درست نہیں یا اس مطلب پر ان کی دلالت مردود ہے ( انشااللہ عنقریب ان روایات کی تشریح بیان کی جائے گئی) ہمارے خیال کے مطابق یہ لو گ اس غلط حرکت کے لیے کچھ اور مقصدرکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ لوگ توحید و شرک والے مسئلہ میں وسوسے میں گرفتار ہیں_ شاید خیال کرتے ہیں کہ قبروں کی زیارت کرنا انکی پوجا کرنے کے مترادف ہے اس لیے انکے علاوہ پوری دنیا کے مسلمان انکے نزدیک مشرک اور ملحد ہیں

____________________

۱) الجزیرہ اخبار شمارہ ۶۸۲۶( ۲۲ ذی القعدہ ۱۴۱۱ ق)_

۲) الفقہ علی المذاہب الاربعہ، جلد ۱ ،ص ۵۹۰_

۷۲

زیارت قبول کی گذشتہ تاریخ:

گذشتہ لوگوں کی قبروں کا احترام ( بالخصوص بزرگ شخصيّات کی قبروں کا احترام ) بہت قدیم زمانے سے چلا آرہاہے_ ہزاروں سال پہلے سے لوگ اپنے مردوں کا احترام کرتے تھے اور انکی قبروں اور بالخصوص بزرگان کی قبروں کی تکریم کرتے تھے_ اس کام کا فلسفہ اور مثبت آثار بہت زیادہ ہیں_

۱_ گذشتہ لوگوں کی تکریم کا سب سے پہلا فائدہ، ان بزرگوں کی حرمت کی حفاظت ہے اور ان کی قدردانی انسانی عزت و شرافت کی علامت ہے_ اسی طرح جوانوںکے لیے ان کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کے لیئےشویق کا باعث بنتی ہے_

۲_ دوسرا فائدہ ان کی خاموش مگر گویا قبروں سے درس عبرت حاصل کرنا اور آئینہ دل سے غفلت کے زنگ کو دور کرکے دنیاوی زرق و برق کے مقابلے میں ہوشیاری اور بیداری پیدا کرنا ہے اور ہوا و ہوس پر قابو پانا ہے_

جیسا کہ امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا کہ مُردے بہترین وعظ و نصیحت کرنے والے ہیں_

۳_ تیسرا فائدہ پسماندگان کی تسلی کا حصول ہے کیونکہ لوگ اپنے عزیزوں کی قبروں پر سکون کا احساس کرتے ہیں_ گویا وہ انکے ساتھ ہمنشین ہیں_ اسطرح قبروں پر جانے سے انکے غم کی شدت میں کمی آجاتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ جو جنازے مفقود الاثر ہوجاتے ہیں انکے وارث انکے لیے ایک قبر کی علامت اور شبیہ بنا لیتے ہیں اور وہاں پرانہیں یاد کرتے ہیں_

۴_ چوتھا فائدہ یہ کہ گذشتہ شخصیات کی قبروں کی تعظیم و تکریم ہر قوم و ملت کی ثقافتی میراث کو زندہ رکھنے کا ایک طریقہ شمار ہوتی ہے اور ہر قوم اپنی قدیمی ثقافت کے ساتھ زندہ رہتی ہے_ پوری دنیا کے مسلمان ایک عظیم اور بے نیاز ثقافت رکھتے ہیں جس کا ایک اہم حصہ

۷۳

شہدائ، علمائے سلف اور سابقہ دانشوروں کی آرامگاہوں کی صورت میں ہے اور بالخصوص بزرگان دین اور روحانی پیشواؤں کے مزاروں میں نہفتہ ہے_ ایسے بزرگوں کی قبور کی یادمنانا اور انکی حفاظت و تکریم اسلام اور سنّت پیغمبر(ص) کی حفاظت کا موجب بنتی ہے_

وہ لوگ کتنے بے سلیقہ ہیں جنہوں نے مکہ ، مدینہ اور بعض دوسرے شہروں میں بزرگان اسلام کے پر افتخار آثار کو محو کر کے اسلامی معاشرے کو عظیم خسارے سے دوچار کردیا ہے_

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نادان اور محدود فکر رکھنے والے سلفیوں نے غیر معقول بہانوں کی آڑ میں یہ کام کرکے پیکر اسلام کی ثقافتی میراث پر ایسی شدید ضربیں لگائی ہیں جنکی تلافی نا ممکن ہے_

کیا یہ عظیم تاریخی آثار صرف اس ٹولے کے ساتھ مخصوص ہیں کہ اسقدر بے رحمی کے ساتھ انہیں نابود کیا جارہا ہے_ کیا ان آثار کی حفاظت و پاسداری پوری دنیا کے اسلام سے آگاہ دانشوروں کی ایک کمیٹی کے ہاتھ میں نہیںہونی چاہیے؟

۵_ پانچواں فائدہ یہ کہ دین کے عظیم پیشواؤں کی قبروں کی زیارت اور بارگاہ الہی میں ان سے شفاعت کا تقاضا کرنا عند اللہ، توبہ اور انابہ کے ہمراہ ہوتا ہے_ اور یہ چیز نفوس کی تربيّت اور اخلاق و ایمان کی پرورش میں انتہائی مؤثر ہے بہت سے گناہوں میں آلودہ لوگ جب انکی بارگاہ ملکوتی میں حاضری دیتے ہیں تو توبہ کر لیتے ہیں اور ہمیشہ کے لیئے ان کی اصلاح ہوجاتی ہے_ اور جو نیک و صالح افراد ہوتے ہیں انکے روحانی ومعنوی مراتب میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے _

قبور کی زیارت کے سلسلہ میں شرک کا توہّم:

کبھی کمزور فکر لوگ ائمہ اطہار کی قبو ر کے زائرین پر '' شرک'' کا لیبل لگادیتے ہیں یقینا اگر

۷۴

وہ زیارت کے مفہوم اور زیارت ناموں میں موجود مواد سے آگاہی رکھتے تو اپنی ان باتوں پر شرمندہ ہوتے_

کوئی بھی عقلمند آدمی پیغمبر اکرم (ص) یا آئمہکی پرستش نہیں کرتا ہے_ بلکہ یہ بات تو انکے ذہن میں خطور بھی نہیں کرتی ہے_ تمام آگاہ مؤمنین احترام اور طلب شفاعت کے لیئےیارت کو جاتے ہیں_

ہم اکثر اوقات زیارت نامہ پڑھنے سے پہلے سو مرتبہ '' اللہ اکبر'' کہتے ہیں اور اسطرح سو مرتبہ توحید کی تاکید کرتے ہیں اورشرک کے ہر قسم کے شبہہ کو اپنے سے دور کرتے ہیں_

معروف زیارت نامہ '' امین اللہ '' میں ہم آئمہ کی قبروں پر جا کر یوں کہتے ہیں:

''أشہَدُ أنّک جَاہَدتَ فی الله حقَّ جہادہ و عَملتَ بکتابہ و اتَّبَعتَ سُنَنَ نبيّہ حتی دَعاک الله إلی جَوارہ''

'' ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے راہ خدا میں جہاد کیا اور جہاد کا حق ادا کردیا_ کتاب خدا پر عمل کیا اور سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کی یہانتک کہ اللہ تعالی نے آپ کو اس جہان سے اپنی جوار رحمت میں بُلالیا_''

کیا اس سے بڑھ کر توحید ہوسکتی ہے؟

اسی طرح مشہور زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم يُوں پڑھتے ہیں کہ:

'' الی الله تدعُون و علیه تَدُلُّون و به تؤمنوُن و لَه تُسلّمُونَ و بأمره تَعمَلُون و إلی سَبیله

۷۵

تَرشُدُونَ''

( ان چھ جملوں میں سب ضمیریں اللہ تبارک و تعالی کی طرف لوٹتی ہیں، زائرین یوں کہتے ہیں)'' کہ آپ آئمہ، اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے اور اس کی طرف راہنمائی کرتے ہیں_ اور آپ اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے سامنے تسلیم ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف ارشاد و ہدایت کرتے ہیں''

ان زیارت ناموں میں ہر جگہ اللہ تعالی اور دعوت توحید کی بات ہے کیا یہ شرک ہے یا ایمان؟ اسی زیارت نامہ میں ایک جگہ یوں کہتے ہیں:

'' مستشفعٌ إلی الله عزّوجل بکم'' میں آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں شفاعت کو طلب کرتا ہوں_

اور اگر بالفرض زیارت ناموں کی بعض تعبیروں میں ابہام بھی ہو تو ان محکمات کیوجہ سے کاملاً روشن ہوجاتا ہے_

کیا شفاعت طلب کرنا توحید ی نظریات کے ساتھ سازگار ہے؟

ایک اور بڑی خطا جس سے وہابی دوچار ہوئے ہیں یہ ہے کہ وہ بارگاہ ربّ العزت میں اولیاء الہی سے شفاعت طلب کرنے کو بتوں سے شفاعت طلب کرنے پر قیاس کرتے ہیں (وہی بُت جو بے جان اور بے عقل و شعور ہیں)

حالانکہ قرآن مجید نے کئی بار بیان کیا ہے کہ انبیاء الہی، اسکی بارگاہ میں گناہگاروں کی شفاعت کرتے تھے_ چند نمونے حاضر خدمت ہیں:

۱_ برادران یوسف نے حضرت یوسف(ع) کی عظمت اور اپنی غلطیوں کو سمجھنے کے بعد حضرت

۷۶

یعقوب(ع) سے شفاعت کا تقاضا کیا اور انہوں نے بھی انہیں مُثبت وعدہ دیا_

( '' قالُوا یا أبَانَا استغفر لنا ذُنوبَنا إنّا كُنّا خَاطئین، قال سَوفَ أستغفرُ لکم رَبّی إنَّه هُو الغفورُ الرّحیم'' ) (۱)

کیا ( معاذ اللہ ) یعقوب مشرک پیغمبر(ص) تھے؟

۲_ قرآن مجید گنہگاروں کو توبہ اور پیغمبر اکرم (ص) سے شفاعت طلب کرنے کی تشویق کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے:

''و لَو انّهم إذ ظَّلَموا أنفسَهُم جَاء وک فاستغفروا الله و استغفر لَهُم الرَّسُولّ لَوَجَدُوا الله تَوّاباً رحیماً''

'' جب بھی وہ اگراپنے آپ پر ( گناہوں کی وجہ سے ) ظلم کرتے اور آپ (ص) کی خدمت میں آتے اور توبہ کرتے اور رسولخدا(ص) بھی انکے لیے استغفار کرتے_ تو وہ اللہ تعالی کو توبہ قبول کرنیوالا اور مہربان پاتے ''(۲)

کیا یہ آیت شرک کی طرف تشویق کر رہی ہے؟

۳_ قرآن مجید منافقین کی مذمّت میں یوں کہتا ہے:

( '' و إذا قیلَ لَهُم تَعَالَوا يَستَغفر لکم رَسُولُ الله لَوَّوا رُئُوسَهُم و رأیتَهُم يَصُدُّونَ وَ هُم مُستَکبرُون'' ) (۳)

____________________

۱) سورة یوسف آیات ۹۷ ، ۹۸_

۲) سورة نساء آیت ۶۴_

۳) سورة منافقون آیت ۵_

۷۷

جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ تا کہ رسولخدا(ص) تمہارے لیئے مغفرت طلب کریں تو وہ (طنزیہ ) سر ہلاتے ہیں اور آپ(ص) نے دیکھا کہ وہ آپکی باتوں سے بے پرواہی برتتے اور تکبّر کرتے ہیں''

کیا قرآن مجید، کفار اور منافقین کو شرک کی طرف دعوت دے رہا ہے؟

۴_ ہم جانتے ہیں کہ قوم لوط بدترین امت تھی لیکن اس کے باوجود حضرت ابراہیم _ شیخ الانبیاء نے انکے بارے میں شفاعت کی ( اور خداوند سے درخواست کی کہ انہیں مزید مہلت دی جائے شاید توبہ کرلیں ) لیکن یہ قوم چونکہ اپنی حد سے بڑھی ہوئی بد اعمالیوں کی وجہ سے شفاعت کی قابلیت کھوچکی تھی _ اس لیے حضرت ابراہیم (ع) کو کہاگیا کہ انکی شفاعت سے صرف نظر کیجئے _

( '' فلمَّا ذهَبَ عن إبراهیمَ الرّوعُ و جَاء تهُ البُشری يُجادلُنا فی قوم لُوط، إنّ إبراهیمَ لَحلیمٌ أواهٌ مُنیبٌ يَا إبراهیمُ أعرض عَن هذا إنَّه قد جَاء أمرُ رَبّک و أنهم آتیهم عذابٌ غَیرُ مَردُود'' ) (۱)

'' جس وقت ابراہیم کا خوف ( اجنبی فرشتوں کی وجہ سے ) ختم ہوگیا اور ( بیٹے کی ولادت کی ) بشارت انہیں مل گئی تو قوم لوط کے بارے میں ہم سے گفتگو کرنے لگے (اور شفاعت کرنے لگے) کیونکہ ابراہیم (ع) بردبار، دلسوز اور توبہ کرنے والے تھے (ہم نے ان سے کہا ) اے ابراہیم(ع) اس (درخواست ) سے صرف نظر کیجئے کیونکہ آپ کے پروردگار کا فرمان پہنچ چکا ہے اور یقینی طور پر ناقابل رفع عذاب انکی طرف آئیگا ''

____________________

۱) سورة ہود آیات ۷۴ تا ۷۶_

۷۸

دلچسب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس شفاعت کے مقابلے میں حضرت ابراہیم (ع) کی عجیب تمجید فرمائی اور کہا '' إنّ ابراہیم لَحلیم اواہُ مُنیبٌ'' لیکن اس مقام پر انہیں تذکر دیا ہے کہ پانی سر سے گذر چکا ہے اور شفاعت کی گنجائشے باقی نہیں رہی ہے_

اولیا ء الہی کی شفاعت اُنکی ظاہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے:

بہانہ تلاش کرنے والے جب ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جن میں صراحت کے ساتھ انبیائے الہی کی شفاعت کی قبولیت کا تذکرہ ہے اور ان آیات کو قبول کرنے کے سواء کوئی چارہ بھی نہیں ہے تو پھر ایک اور بہانہ بناتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ یہ آیات انبیاء کرام کی زندگی کے ساتھ مربوط ہیں_ ان کی وفات کے بعد شفاعت پر کوئی دلیل نہیں ہے اسطرح شرک والی شاخ کو چھوڑ کر دوسری شاخ کو پکڑ تے ہیں_

لیکن اس جگہ یہ سوال سامنے آئیگا کہ کیا پیغمبر اکرم(ص) اپنی رحلت کے بعد خاک میں تبدیل اور مکمل طور پر نابود ہوگئے ہیں یا حیات برزخی رکھتے ہیں؟ ( جسطرح بعض وہابی علماء نے ہمارے سامنے اس بات کا اقرار کیا ہے)

اگر حیات برزخی نہیں رکھتے تو اولاً کیا پیغمبر اکرم (ص) کا مقام شہداء سے کم ہے جنکے بارے میں قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ ''( بل أحیائٌ عند ربّهم يُرزَقُون ) ''(۱)

ثانیاً : تمام مسلمان نماز کے تشہدّمیں آنحضرت(ص) پر سلام بھیجتے ہیں اور یوں کہتے ہیں: ''السلام علیک ايّہا النبيّ ...'' اگر آنحضرت (ص) موجود نہیں ہیں تو کیا یہ کسی خیالی شے کو سلام کیا جاتا ہے؟

____________________

۱) سورہ آل عمران آیت ۱۶۹_

۷۹

ثالثاً: کیا آپ معتقد نہیں ہیں کہ مسجد نبوی میں پیغمبر اکرم (ص) کے مزار کے قریب آہستہ بولنا چاہیے کیونکہ قرآن مجید نے حکم دیا ہے کہ ''( یا ايّها الذین آمنوا لا ترفَعُوا أصواتکم فَوقَ صوت النّبی ) ...''(۱) اور اس آیت کو تحریر کر کے آپ لوگوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی ضریح پر نصب کیا ہوا ہے؟

ہم ان متضاد باتوں کو کیسے قبول کریں

رابعاً: موت نہ فقط زندگی کا اختتام نہیں ہے بلکہ ایک نئی ولادت اور زندگی میں وسعت کا نام ہے_'' الناس نیامٌ فإذا ماتُوا إنتبهوا'' (۲) لوگ غفلت میں ہیں جب مریں گے تو بیدار ہونگے_

خامساً: ایک معتبر حدیث میں جسے اہلسنت کی معتبر کتب میں ذکر کیا گیا ہے_ عبداللہ بن عمر نے رسولخدا(ص) سے یوں نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا''من زارَ قبری وَجَبَت له شفاعتی'' (۳) جس نے میری قبر کی زیارت کی اسکے لیے میری شفاعت یقینی ہوگئی_

ایک اور حدیث میں یہی راوی پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتا ہے'' مَن زَارنی بَعدَ مَوتی فَانّما زارنی فی حیاتی'' (۴) جس نے میری رحلت کے بعد میری زیارت کی وہ ایسا ہی

____________________

۱) سورة حجرات آیت ۲_ اے صاحبان ایمان ،اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کیجئے_

۲) عوالی اللئالی، جلد ۴ ص ۷۳_

۳) دار قطنی مشہور محدث نے اس حدیث کو اپنی کتاب '' سنن'' میں نقل کیا ہے ( جلد ۲ ص ۲۷۸) دلچسپ یہ ہے کہ علامہ امینی نے اسی حدیث کو اہلسنت کی ۴۱ مشہور کتابوں سے نقل کیا ہے ملاحظہ فرمائیں الغدیر ج ۵ ص ۹۳

۴) (سابقہ مدرک) علامہ امینی نے اس حدیث کو ۱۳ کتابوں سے نقل کیا ہے_

۸۰