اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )12%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155126 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اٹھارواںسبق

نبوت عامہ (چوتھی فصل )

عصمت انبیاء

انبیاء کی سب سے اہم خاصیت ا ن کا معصوم ہو نا ہے۔

عصمت؛ لغت میں روکنے، حفاظت کرنے یاغیر اخلا قی چیزوں سے دور رہنے کے معنی میں ہے اور عقیدہ کی بحث میں جب انبیاء کی عصمت کی با ت آتی ہے تو اس کے معنی ان کا گناہو ں سے دور رہنا اور خطا ونسیان سے پاک رہنا ہے ۔اسی لئے انبیاء وائمہ کرام نہ ہی کبھی گناہ کرتے ہیںاو رنہ ہی کبھی تصور گناہ ۔

سوال۔ انبیاء کا معصوم ہونا اور خطاونسیان سے محفوظ ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

جو اب ۱۔ بعثت انبیاء کا مقصد ہدایت بشریت ہے او ریہ بات مسلّما ت میں سے ہے کہ تربیت میں مربی کاعمل اس کے قول سے زیادہ موثر ہو تا ہے، لہٰذا اگرتربیت کرنے والا خو د گناہوں سے آلودہ ہوگا تودوسروں کو کس طرح سے منع کرے گا ۔؟

۲۔ انبیاء در حقیقت مربی بشریت ہیں لہٰذا ان کی ذات لوگوں کے لئے قابل قبول او ربھروسہ مند ہو نا چاہئے ۔ سید مرتضی علم الہدی کے بقول اگر ہم کو کسی شخص کے بارے میں شائبہ بھی ہے یقین نہیں ہے کہ وہ گناہ بھی کرتا ہے یا نہیں؟ توکبھی بھی اس کی باتوں کودل سے قبول نہیں کریں گے ۔لہٰذا انبیاء کا خطاونسیان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ خطا اوربھول چوک بے اعتمادی کاسبب بنتا ہے اور ان(انبیاء ) کو قابل اعتماد ہونا چاہیئے ۔

۱۲۱

فلسفہ عصمت

یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان گناہو ں سے معصوم (محفوظ ) ہو یہاں تک کہ تصور گناہ بھی نہ کرے؟۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ جب کسی چیز کے با رے میں ہم یقین کر لیں تواس کے برخلا ف کبھی عمل کر ہی نہیں سکتے، کیا کوئی عقلمنداور سلیم الطبع شخص آگ یا گندگی کوکھا نے کی سونچ سکتا ہے ؟کیا کو ئی صاحب شعور آگ کے گڑھے میں کودنے کوتیار ہو گا ؟ کیا کوئی صحیح الدماغ جام زہر خو شی خو شی نوش کرے گا ؟

ان سارے سوالا ت کے جو اب میں آپ کہیں گے ، ہرگز نہیں عاقل شخص کبھی ایسا کر ہی نہیں سکتا، یہاں تک کہ اس کی فکر بھی یا تمنابھی نہیں کرے گا اور اگر کوئی ایسا کرتاہے توکسی مرض میں مبتلا ہے ۔

نتیجہ یہ نکلا: ہر عاقل انسان ایسے کاموں کے مقابل دوری یادوسرے لفظوں میں کہا جا ئے کہ ایک عصمت کامالک ہے ؛ اوراگر آپ سے سوال کیاجائے کہ کیوں انسان ایسے کاموں کے مقابل میں معصوم ہے تو کہیں گے کہ چونکہ اس کے عیب ونقصان کاعلم ویقین اس کو ہو گیا ہے ۔ اور یہ جانتا ہے کہ اس کے ارتکاب کے بعد فنا ونابودی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔

اسی طرح اگر انسان گنا ہ اوراس کے نقصانات سے باخبر ہو کر یقین تک پہنچ جا ئے تو عقل کی طاقت سے شہوت پر غالب ہو کر کبھی گناہ میں مبتلا نہیں ہو سکتا یہا ں تک کہ اس کا خیال بھی ذہن میں نہیں لا ئے گا ۔

جو شخص خدا اور اس کی عدالت پر یقین رکھتا ہے کہ پوری کائنا ت پیش پروردگار ہے او روہ اس پر حاضر وناظر ہے تو ایسے شخص کے لئے گنا ہ اورفعل حرام میں مبتلاہونا ، آگ میں کو دنے ، اور جام زہر پینے کی مانند ہے لہٰذا کبھی بھی اس کے قریب نہیں جاتا اور ہمیشہ دور رہتا ہے ۔

۱۲۲

پیامبران الٰہی اس یقین کے ساتھ جو گناہ کے آثار ونتائج کے بارے میں رکھتے ہیں نہ صرف یہ کہ گناہ بلکہ تصور گناہ کے بابت بھی معصوم ہو تے ہیں۔ آثار عمل کو دیکھنے ،نیکیوں کی جانب دھیان دینے اور گناہوں سے پرہیز کے لئے بہتر ہے کہ مولا ئے کا ئنا ت کی اس حدیث میں غور وفکر کرے :''مَن أَیقن أَنّه یفارق الأحباب ویسکن التراب ویواجه الحساب ویستغنی عمّا خلف ویفتقر اِلیٰ ما قدّم کان حریاً بقصرالأمل وطول العمل ''جس شخص کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ حتمی طور سے اپنے دوستوں سے جدا ہورہا ہے اورمٹی کو اپناگھر بنارہا ہے اور حساب کے لئے جا رہا ہے اور کئے ہوئے سے بے نیاز ہے اور جو بھیج چکا ہے اس کا محتاج ہے تو یقینااس کی آرزوئیں کم اور عمل طولانی ہوجائے گا۔( ۱ )

انبیاء اور ائمہ کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی

عصمت ائمہ کے بارے میں علما ء علم کلام کی جا نب سے بہت سارے مطالب بیان کئے گئے ہیں اور جس بات کو سب مانتے ہیں وہ یہ کہ عصمت کی طاقت ائمہ اور انبیاء میں اجباری نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پاکیزگی نقص پر مجبور ہو ں بلکہ تمام لوگوں کی طرح گناہ کر نے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن چونکہ وہ ایک طرف گنا ہ کے نقصانا ت ومفاسد کو بہ خوبی جانتے ہیں نیز ان کی معرفت اور شناخت خدا کے حوالے سے بہت زیادہ ہے یعنی وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خد اکے حضورمیں سمجھتے ہیں اسی لئے اپنے ارادہ واختیار سے گناہ اور برائی کو نہ کرنے پر پوری طرح قادر ہیں اور کبھی اس کے قریب نہیںجاتے۔

انبیاء وائمہ کی عصمت ا ن کے اختیار وارادہ کا نتیجہ ہے او ران کی کاوشوں اورزحمات کا ثمرہ ہے جو انھوں نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ۔

چونکہ خدا وند تعالیٰ ان کی خلقت سے قبل جا نتا تھا کہ یہ فدائی اور ایثار کے پیکرہیں اسی لئے ان کی ابتدائی زندگی سے انھیں اپنے لطف وکرم کے سائے میں رکھا اور بے راہ روی سے محفوظ رکھا ۔علوم خاص وعام نیز عنایت خاص سے نوازا لہٰذا اس رخ سے کوئی محل اعتراض نہیں کہ انبیاء وائمہ ایک قسم کی جسمانی اور روحانی خصوصیت

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۷۳ ،ص ۱۶۷

۱۲۳

کے مالک ہیں،کیونکہ اس خصوصیت کی وجہ خود ان کا کرداراور عمل ہے ،یہ ایک طرح کا انعام ہے جو اللہ نے انھیں عمل سے پہلے عطاکیاہے ۔

نتیجہ :خدا وند عالم اس علم کے ذریعہ جو انسانوں کے مستقبل کے سلسلہ میں رکھتا ہے وہ جا نتا ہے کہ ان کے درمیان بعض افراد خاص اہمیت کے حامل ہیں ( اور یہ ایساعلم ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے اور اس کا تحقق یقینی ہے ) لہٰذا انہیں معاشرہ کی ہدایت اور رہبری کی وجہ سے اپنی عنایت خاص سے نوازا ۔الٰہی نمایندوںکے لئے ان عنایتوں کا ہونا ضروری ہے ۔

امام محمد باقرں نے فرمایا :اِذا عَلم اللّه حُسن نیّة من أحدٍ اکتنفه بالعصمة ( ۱) خدا وند عالم جب کسی کی حسن نیت سے مطلع ہو جا تا ہے تو اسے عصمت کے ذریعہ محفوظ کردیتا ہے ۔

معصومین کا فلسفہ امتیاز

عن أَبیِ عبداللّه: أَن اللَّه أوحیٰ اِلیٰ موسیٰ فقال یا موسیٰ اِنّی أطلعت اِلیٰ خلقیِ اطلاعة فلم أجد فی خلقی اشدّ تواضعاً لی منک فمن ثمَّ خصصتک بوحییِ وکلا میِ مِن بَین خَلق ( ۲ )

امام صادق فرماتے ہیں : خدانے جناب موسی پر وحی کی کہ اے موسی! ہم نے تمام انسانوں کو دیکھا ان میں سے تمہارے تواضع کواوروںسے زیادہ

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۷۸، ص ،۱۸۸

(۲) وسائل الشیعہ جلد ۴، ص، ۱۰۷۵

۱۲۴

پایا ،اسی وجہ سے تمہیں اپنے کلام اور وحی کے لئے چنا او رسب میں سے تم کو منتخب کیا ۔

قال علی :عَلیٰ قَدر النّیة تکو ن من اللّه العطیّة ( ۱ )

امیر المو منین نے فرمایا :خدا کا لطف وکرم نیتوں کے مطابق ہے قرآن نے سورہ عنکبوت کی آخری آیة میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے( وَالَّذِینَ جَاهدُوا فِینَا لنَهدِینَّهُم سُبُلنا واِنَّ اللّهَ لمَعَ المُحسِنیِنَ ) ( ۲ )

او رجن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا یقینا ہم ان کو اپنے راستوں کی جانب ہدایت کریں گے بیشک خدا افراد صالح کے ساتھ ہے ۔

امام صادق اور ایک مادیت پر ست کا مناظرہ

ایک مادیت پرست انسان نے امام صادق سے سوال کیا: اللہ نے بعض انسانو ں کو شریف اور نیک خصلت او ربعض کوبری خصلت کے ساتھ کیوں خلق کیا؟۔

امام نے فرمایا: شریف وہ شخص ہے جو خدا کی اطاعت کرے اور پست وہ ہے جواس کی نافرمانی کرے اس نے پوچھا کہ کیا لوگ ذاتی طور پر ایک دوسرے سے برتر نہیں ہیں ؟۔

آپ نے فرمایا :نہیں صرف برتری کا معیار تقوی ہے ، اس نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ کی نظر میں تمام اولاد آدم ایک جیسی ہیں اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔

____________________

(۱) غرر الحکم

(۲)سورہ عنکبوت آیة:۶۹

۱۲۵

میں نے ایسا ہی پایا کہ سب کی خلقت مٹی سے ہے سبھی کے ماںباپ آدم وحوا ہیں وحدہ لا شریک خدا نے ان کو خلق کیاہے اور سب خد اکے بندے ہیںالبتہ خدانے آدم کی بعض اولادوںکو منتخب کیا او ر ان کی خلقت کو طاہر بنایا اور ان کے جسموں کوپاک کیا اور ان کو صلب پدر اور ارحام مادر کے حوالے سے بھی نجاست سے دور رکھا اور انھیں کے درمیان سے نبیوں کا انتخاب کیا اور وہ جناب آدم کی بہترین اور افضل ترین اولا د ہیں اور اس امتیازو فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ خدا جانتاتھاکہ وہ اس کے اطاعت گذار بندو ں میں سے ہیں اور کسی کو اس کا شریک نہیں قرار دیں گے، گویا بلند مرتبہ ہو نے کا اصل راز، ان کے اعمال اور ان کی اطاعت ہے۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۰،ص ۱۷۰

۱۲۶

سوالات

۱۔یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان گناہ حتی تصور گنا ہ سے بھی معصوم ہو ؟

۲۔ ائمہ اور انبیاء کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی ؟

۳۔ ائمہ کی فضیلت کا فلسفہ امام صادق کی نظرمیں کیا ہے ؟

۱۲۷

انیسواںسبق

نبوت عامہ (پانچویں فصل )

کیا قرآن نے انبیا ء کو گناہ گار بتایا ہے ؟

عصمت کی بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذنب وعصیا ن اور اپنے اوپر ظلم ،جیسی لفظیں جو بعض انبیا ء کے سلسلہ میں آئیں ہیں اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کی وضا حت کے لئے کچھ نکا ت کی جانب توجہ ضروری ہے ۔

۱۔ عصمت انبیاء کا مطلب جیسا کہ بیا ن کیا جا چکا ہے یہ ہے کہ انبیاء حرام کام یا گناہ نہیں کر تے ،لیکن وہ کا م جس کاچھوڑنا بہتر لیکن انجام دینا حرام نہیں ہے گذشتہ انبیاء سے ممکن اور جائز ہے اور یہ فعل ا ن کی عصمت کے منا فی نہیں ہے۔ (یہی ترک اولیٰ ہے )

۲۔ سب سے اہم بات کلما ت قرآن کے صحیح معنوں پر توجہ کرنا ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہو اہے لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عربی لغت میں کلمات قرآن کے کیا معنی ہیں ؟لیکن افسوس کی بات ہے کہ بسا اوقات ا س جانب غور نہ کرنے کے باعث قرآن کی آیتوں کے غلط معنی بیا ن کئے جاتے ہیں ۔

۳۔اہل بیت عصمت وطہارت کی قرآنی تفاسیر کا بغور مطالعہ کیاجائے اس میں غور وخوض کیا جائے کیونکہ وہی حقیقی مفسر قرآن ہیں ہم یہا ں پرا ن آیتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان آیتوں میں انبیاء کو گنہگار بتایا گیا ہے تاکہ اعتراض ختم ہو جا ئے (وعَصَیٰ آدمَ ربّہ فغویٰ)بعض نے اس آیة کا ترجمہ یو ں کیا ہے ،آدم نے اپنے رب کی معصیت کی او روہ گمراہ ہو گئے ۔ جبکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ، آدم نے رب کا اتباع نہیں کیا لہٰذا محروم ہو گئے، مرحوم طبرسی اس آیت کے ذیل میں مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ آدم نے اپنے رب کی مخالفت کی لہٰذا ثواب سے محروم رہے ۔

۱۲۸

یہاں معصیت سے مراد حکم الٰہی کی مخالفت ہے چاہے وہ حکم واجب ہو یا مستحب ،محدث قمی سفینة البحار میں لفط (عصم ) کے معنی علامہ مجلسی سے نقل کرتے ہیں '' ان ترک المُستحب وفعل المکروہ قد سُم ذنبا'' مستحب کو ترک کرنا اور فعل مکروہ کو انجام دینا کبھی کبھی گناہ ،ذنب ،اور عصیان کے معنی میں آتاہے ۔گذشتہ موضوع کو ثابت کرنے کے لئے لغت کی طرف رجوع کریں گے المنجد ( جوکہ ایک مشہو ر لغت ہے ) میں ہے کہ (عصیان ) اتباع نہ کرنے اور پیروی نہ کرنے کے معنی میں ہے ۔اسی طرح اغوی کے معنی (خاب ) یعنی محروم ہونے اور نقصان اٹھا نے کے ہیں اگر آدم وحوا کے قصہ کو دیکھا جائے توپتہ چلے گا کہ عصیان (عصی ) سے مراد حرام کام کرنا یاواجب کوچھوڑنا نہیں ہے ۔

آدم کا عصیان کیا تھا ؟

قرآن اس واقعہ کو یوں نقل کرتاہے کہ ہم نے آدم سے کہا کہ شیطان تمہا را اور تمہاری اہلیہ کا دشمن ہے لہٰذا کہیں وہ تمہیں جنت سے باہر نہ کرادے اور تم زحمت وتکلیف میں پڑجا ئو پھر شیطان نے آدم کو بہکا یا اور انھو ںنے اس درخت کا پھل کھا لیا ،نتیجہ میں جنت کے لبا س اتار لئے گئے کیو نکہ آدم کو اس درخت کا پھل کھانے سے منع کیاگیا تھا اور انھوں نے نافرمانی کی لہٰذا بہشتی نعمتوں

۱۲۹

سے محروم ہوگئے۔( ۱ )

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ جنت کاپھل کھا نے سے روکنا صرف نہی ارشادی تھا اور درخت کاپھل نہ کھانا ہمیشہ جنت میں رہنے کی شرط تھی لہٰذا مذکورہ آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ آدم کافعل گناہ نہیں تھا بلکہ اس کا نقصان جنت سے نکا لا جانااور دنیوی زندگی کی سختیاں تھیں ، اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر آدم کافعل گناہ نہیں تھا پھر توبہ کرنا (جیسا کہ اگلی آیتوں میں ذکر ہے ) کیا معنی رکھتا ہے ۔

جو اب میں کہیں گے کہ ہر چند (درخت کاپھل کھا نا) گناہ نہیں تھا لیکن چونکہ حضرت آدم نے نہی ارشادی کی مخالفت کی لہٰذا ان کا مقام خدا کے نزدیک کم ہوگیا اور آدم نے دوبارہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے توبہ کی اورخدا نے ان کی توبہ قبول کرلی۔

مامون نے جب جناب آدم کی معصیت کے بارے میں پوچھا تو امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا : ولم یک ذلک بذنب کبیر یستحق بہ دخول

____________________

(۱) سورہ طہ آیة: ۱۱۶ تا ۱۲۱

۱۳۰

النّار واِن کان من الصغائر الموهوبة التی تجوز علیٰ الأنبیاء قبلَ نزول الوحیِ علیهم ( ۱ ) جو کام آدم نے انجام دیا وہ گناہ کبیرہ نہیں تھا جس کے باعث جہنم کے مستحق ہوجائیں بلکہ ایک معمولی سا ترک اولی تھا جو معاف ہو گیا اور انبیاء نزول وحی سے قبل ایسے کام کرسکتے ہیں۔

ظلم کیا ہے اور غفران کے کیا معنی ہیں ؟

(قالَ رَبِّ اِنِّیِ ظَلَمتُ نَفس فاغفِرلِی )( ۲ ) خدا یا میں نے اپنے نفس کی خاطر مصیبت مول لی، لہٰذا معاف کردے ان مقامات میں سے ایک یہ بھی ہے جہا ں اس با ت کا گمان کیاگیا ہے کہ قرآن نے انبیاء پر گنا ہ کاالزام لگا یا ہے یہ آیت جنا ب موسی کے واقعہ سے مربوط ہے جب قبطی (فرعون کے ساتھی ) کو قتل کر دیا تھا تو کہا ،رَبِّ ِانِّی ظَلَمتُ نَفسیِ المنجد نے لکھا ہے کہ (الظلم وضع الشیء فی غیر محله )ظلم یعنی کسی شی ٔ کو ایسی جگہ قرار دینا جو اس کا مقام نہ ہو (کسی فعل کاغیر مناسب وقت پر انجام دینا ) اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ عمل صحیح ہو او ر بے محل انجام پائے یا عمل غلط اور حرام ہو لہٰذا ہر ظلم حرام نہیں ہے ۔

المنجد میں غفر کے معنی لکھے ہیں ،غَفَر الشیٔ غطّاه وستره ) غفر اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی شی ٔ چھپا ئی ہواو رمخفی کی گئی ہواس لئے اس کے معنی یو ں ہوں گے موسی نے کہا ،اے پرور دگا ر !میں نے فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کر

____________________

(۱) تفسیر برہان ج۳، ص ۴۶

(۲)سورہ قصص آیة: ۱۶

۱۳۱

کے بیجا فعل انجام دیا گوکہ ہمارے لئے اس کا قتل جائز تھا لیکن ابھی اس کاوقت نہیں تھا لہٰذا (فاغفرلی) اے خدا ہمارے اس کام پر پردہ ڈال دے تاکہ میرے دشمن میری گرفتاری پر کامیا ب نہ ہو سکیں ۔تو ایسی صورت میں گناہ ،ظلم یا حرام کام کی نسبت موسی کی جانب نہیں دی گئی ہے ۔

مامون نے مذکورہ آیت او رظلم کے معنی کے سلسلہ میں پوچھا تو امام رضاں نے فرمایا:اِنّی وضَعتُ نفسیِ فی غیر موضعها بدخول هذه المدینة فَاغفرلیِ أیِ أستّرلیِ من أعدائک لئلا یظفروابی فیقتلونی ۔ موسیٰ نے خد ا سے عرض کی ،میں نے اس شہر میں داخل ہو کر (اور فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کرکے ) بے محل کام انجام دیا لہٰذا (فاغفرلی) مجھے اپنے دشمنو ں کی نگا ہو ں سے مخفی کردے مبادا ہم کو گرفتار کر کے قتل کردیں ۔

نتیجہ: ظلم اور غفران کے معنی کلی ہیں نہ کہ وہ خاص معنی جو ان الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں لہٰذا یہ آیة بھی عصمت کے منا فی نہیں ہے ۔

سوالا ت

۱۔قران نے انبیاء پر گناہ کی تہمت نہیں لگا ئی اس کو سمجھنے کے لئے کن نکات کیجانب توجہ ضروری ہے ؟

۲۔ عصی آدم ربہ فغوی سے کیا مراد ہے ؟

۳۔ ظلمت نفسی فاغفرلی کا کیا مطلب ہے ؟

۱۳۲

بیسواں سبق

نبو ت عامہ (چھٹی فصل )

سورہ فتح میں ذنب سے کیا مراد ہے ؟

( اِنَّا فَتحَنا لَک فَتحاً مُبیناً لِیَغفَرلَک اللّهَ مَا تَقدَّمَ مِن ذَنبِک وَمَا تأخَّرَ ) ( ۱ ) بیشک ہم نے آپ کوکھلی ہو ئی فتح عطا کی تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کر دے ۔

یہ انہیں مقامات میں سے ہے جہاں یہ خیال کیاجاتا ہے کہ خدا نے رسول اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو گنہگا ر گردانا ہے اور پھر معاف کردیاہے ۔

یہاں بھی '' ذنب''''غفران'' کے صحیح معنی کی طرف دھیان نہیں دیا گیا ہے قابل افسو س مقام ہے کہ اصلی معنی سے غفلت برتی گئی ہے ۔

عربی لغات نے ''ذنب '' کے اصلی معنی اور مفہو م کلی سے مراد پیچھا کرنے والا اور آثار لیا ہے ،یعنی نتیجہ اور اس کا رد عمل مراد ہے المنجد میں ''ذَنبَ ذَنباً تبعه فلم یُفارق أثره'' ذنب کہتے ہیں اس عمل کے نتیجہ او ر آثار کو جواس سے الگ نہیں ہوتا

____________________

(۱) سورہ فتح آیة: ۱

۱۳۳

اور گناہ کو ذنب اس لئے کہاجاتا ہے چونکہ گناہ نامناسب عمل اور اس کے آثار و نتیجہ کی بنا پر وجودمیں آتاہے ۔

اس معنی کے ذریعہ جو غفران کے لئے پہلے بیان کئے گئے ہیں اس آیة کا مفہوم واضح ہو جا تا ہے مزید وضاحت کے لئے اس حدیث کی جانب توجہ فرمائیں ۔

امام رضا ںنے مذکو رہ آیة کی توضیح میں فرمایا: مشرکین مکہ کی نظر میں پیغمبر سے بڑا کوئی گنہگار نہیں تھا چونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خاندان والوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی تھی ، اس وقت ان کے پاس ۳۶۰ بت تھے اور وہ انھیں کی پرستش کرتے تھے، جب نبی نے ان کو وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دی تویہ بات ان کو سخت نا گوار گذری اور کہنے لگے کیا ان تمام خدائوں کو ایک خدا قرار دے سکتے ہیں ،یہ تعجب کی بات ہے ہم نے اب تک ایسی بات نہیں سنی تھی لہٰذا یہا ں سے چلو او راپنے بتوں کی عبادت پر قائم رہو ۔

جب خدانے اپنے رسول کے ذریعہ مکہ فتح کیا تو ان سے فرمایا ؛( اِنَّا فَتحَنا لَکَٔ فَتحَاً ) بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہو ئی فتح عطاکی تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے جو مشرکین آپ پر وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دینے کی بنا پر عائد کرتے ہیں چونکہ فتح مکہ کے بعد کافی لوگ مسلمان ہوگئے اوربعض بھاگ نکلے اورجوبچ گئے تھے ان کی ہمت نہیں تھی کی خدا کی وحدانیت کے خلاف لب کھول سکیں مکہ کے لوگ جوگناہ اور ذنب کا الزام لگا رہے تھ

۱۳۴

ے وہ پیغمبر اسلام کی فتح اور ان پر غلبہ نے چھپا دیا اورسب ساکت ہوگئے۔( ۱ )

انبیاء او رتاریخ

قرآن کی رو سے انسانی تاریخ اور وحی ونبوت کی تاریخ ایک ہے اور جس وقت سے انسان کی تخلیق ہوئی اسی وقت سے وحی بھی اس کی ارتقاء وسعادت کی خاطر موجود رہی ہے( واِنَّ مِنْ أُمةٍ اِلَّاخَلَا فِیها نَذِیرُ ) ( ۲ ) اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو ۔

مولا ئے کا ئنات نے فرمایا: ولم یخل اللّہ سبحانہ خلقہ من نَبیِّ مُرسل أوکتاب مُنزل أوحجّة لازمةُ اومحجّة قائمة( ۳ ) خدانے کبھی بھی انسان کو تنہا نہیں چھو ڑا پیغمبر یاآسمانی کتاب ،واضح دلیل یا صراط مستقیم کوئی نہ کوئی ضرور تھا ۔

مولا نے خطبہ ۹۳ میں فرمایا ۔کُلّما مضیٰ منهم سلف قام منهم بدین اللّه خلف حتیٰ أفضت کرامة اللّه سبحانه تعالیٰ اِلیٰ محمد صلی اللّه علیه وآله وسلم ۔''جب کبھی کسی پیغمبر کی رسالت تمام ہوتی تھی اور اس دنیا سے کوچ کرتاتھا دوسرا نبی خدا کے دین کوبیان کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو تا تھا اوریہ سنت الٰہی اسی طرح چلتی رہی یہاں تک لطف خدا وندی پیغمبر اسلام کے شامل حال ہوئی''۔

انبیاء کی تعداد

عن أبی جعفر قال :قال رسول اللّٰه کان عدد جمیع الأنبیاء

____________________

(۱) تفسیر برہان ج، ۴ ص ۱۹۳

(۲) سورہ فاطر آیة :۲۴

(۳) نہج البلا غہ خطبہ ۱

۱۳۵

مائة الف نبیِّ وأربعة وعشرون ألف نبیِّ خمسة منهم أولوا العزم: نوح و ابراهیم وموسیٰ وعیسیٰ ومحمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''

امام باقر سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کی کل انبیاء کی تعداد ایک لاکھ جو بیس ہزار ہے اور ان میں سے پانچ اولوالعزم ہیں ۔نوح ،ابراہیم موسی ، عیسی ، اورمحمد عربی ۔اسی مضمون کی دوسری حدیث بحار کی گیا رہویں جلد میں بھی ہے( ۱ )

قرآنی رو سے تمام انبیاء پر ایما ن لانا ضروری اور لازم ہے ۔

( قُولُوا آمَنّا باللّهِ وَمَا أُنزِلَ اِلَینَا وَمَا أُنزِلَ اِلیٰ ِابراهیمَ وَاِسمَاعیلَ واِسحٰقَ ویَعقُوبَ وَالأسباطِ وَمَا أوتِی مُوسیٰ وعیسیٰ و مَا أوتِی النبیُّون من رَبِّهم لا نُفرِقُ بَینَ أحِدٍ مِنهُم وَنَحنُ لَهُ مُسلِمُون ) ( ۲ )

اور مسلمانو ں تم ان سے کہدو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے ہماری طرف بھیجا ہے اور جو ابراہیم ،اسماعیل واسحاق ویعقوب اور اولا د یعقوب کی طرف نازل کیاہے اور جو موسی ،عیسیٰ اور دیگر انبیاء کو پر وردگار کی جانب سے دیا گیا ہے، ان سب پر ایما ن لے آئے ہیں، ہم پیغمبروں میں تفریق نہیں کرتے اور ہم خدا کے سچے مسلمان ہیں۔

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۱

(۲) بقرہ آیة: ۱۳۶

۱۳۶

سوالات

۱۔ سورہ فتح کی پہلی آیة میں ذنب اور غفران سے کیا مراد ہے۔ ؟

۲۔ پیغمبروں کی تعداد او ر اوالعزم رسولو ں کے نام بتائیں ۔؟

۱۳۷

اکیسواں سبق

نبوت خاصہ (پہلی فصل )

نبوت خاصہ اور بعثت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

چودہ سو سال پہلے ۱۰ ۶ ھ میں جب شرک وبت پرستی نے پوری دنیا کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا او رمظلوم افراد ظالم حکمرانوں کے شکنجو ں میں بے بسی سے ہاتھ پیر ماررہے تھے اور سبھی لوگ ناامید ی کے سائے میں زندگی گذار رہے تھے ایک شریف خاندان سے شرافت و طہارت کا ایک پیکر اٹھاجس نے مظلو موں کی حمایت کی ،عدالت وآزادی کا نعرہ بلند کیا ،اسیروں کے زنجیروں کی گرہوں کو کھولا، علم وتربیت کی جانب لوگو ں کو دعوت دی ،اپنی رسالت کی بنیاد فرمان ووحی الٰہی کو قرار دیتے ہو ئے خود کو خاتم الا نبیاء کے نام سے پہنچوایا ۔

وہ محمد بن عبد اللہ خاندان بنی ہاشم کا چشم و چراغ ہا ں وہی قبیلہ بنی ہاشم جو شجاعت، شہا مت ،سخاوت ،طہارت ،اصالت میں تمام قبائل عرب میں مشہور تھا وہ ہمالیائی عظم واستقلا ل کا پیکر جس کی لیاقت اور روحی کمال کی حد درجہ بلندی کی پوری دنیا کے مورخو ں چاہے دوست ہو ں یا دشمن سب نے گواہی دی ہے اعلا ن رسالت سے قبل ان کی چالیس سالہ زندگی سب کے سامنے آئینہ کی طرح شفاف و بے داغ تھی، اس نامساعد حالات اور جزیرة العرب کی تاریکیوں کے باوجود پیغمبر اسلا م کی فضیلت کا ہر باب زبان زد خاص وعام تھا، لوگوں کے نزدیک اس قدر بھروسہ مند تھے کے سب آپ کو محمد امین کے نام سے جانتے تھے ،خدا کا کروروں سلام ان پر اور ان کی آل پاک پر ۔

۱۳۸

رسالت پیغمبر پر دلیلیں

انبیاء کی شناخت کے لئے جتنے اصول وقوانین بتائے گئے ہیں، سب آنحضرت کی رسالت پر مدلل ثبوت ہیں (یعنی معجزہ ،گذشتہ نبی کی پیشین گو ئی ،شواہد قرآئن ) تاریخ ،قرائن وشواہد رسول کی رسالت کے ،او ربعثت پر گواہ ہے ۔

گذشتہ انبیاء کے صحیفے پیغمبر اسلا م کی بعثت کی بشارت دے چکے ہیں ، لیکن پیغمبر کے معجزات دوطرح کے ہیں ۔

پہلی قسم ان معجزات کی ہے جوکسی خاص شخص یا گروہ کی درخواست پر آنحضرت نے خد اسے طلب کیا اور وہ معجزہ آپ کے ہاتھوں رونما ہوا جیسے درخت اورسنگریزوں کا سلام کرنا دریائی جانور کاآپ کی رسالت کی گواہی دینا شق القمر( چاند کے دوٹکڑے کرنا ) مردوں کو زندہ کرنا ،غیب کی خبر دینا ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ چار ہزار چار سو چالیس معجزے رسول اکرم کے تھے جن میں سے صرف تین ہزار معجزوں کاذکر ملتاہے ۔

قرآن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دائمی معجزہ

دوسری قسم : قرآن رسول اکرم کاابدی معجزہ ہے جو ہر زمانے اورہر جگہ کے لئے قیامت تک معجزہ ہے ،رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبیاء کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ ان سب کی رسالت محدود تھی وہ کسی خاص گروہ یا محدود امت کے لئے مبعوث ہو ئے تھے ،بعض محدود ومکان اور محدود زمانے میں تھے اگر ان میں سے بعض مکانی لحاظ سے محدود نہیں تھے توا ن کی رسالت ایک زمانے تک محدود تھی اور وہ دائمی رسالت کے دعویدار بھی نہیں تھے ،اسی لئے ان کے معجزے بھی فصلی اور وقتی تھے، لیکن چونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت ابدی اور عالمی ہے اس لئے ان کے عصری اور وقتی معجزے کے علاوہ دائمی معجزہ (قرآن )بھی ہے جو ہمیشہ کے لئے ہے اور ہمیشہ ان کی رسالت پر گواہ ہے۔

۱۳۹

نتیجہ : قرآن کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ:

۱۔ اس نے زمان ومکان کی سرحدوں کی ختم کردیا او رقیامت تک معجزہ ہے ۔

۲۔ قرآن روحانی معجزہ ہے یعنی دوسرے معجزے اعضاء بد ن کو قانع کرتے ہیں لیکن قرآن ایک بولتا ہوامعجزہ ہے جوڈیڑھ ہزار سال سے اپنے مخالفو ں کوجواب کی دعوت دیتا آرہاہے اورکہہ رہا ہے اگرتم سے ممکن ہوتومجھ جیسا سورہ لاکر بتاؤ اور چودہ سوسال اس چیلنج کو گذر رہے ہیں مگر آج تک کوئی اس کو جواب نہ لا سکا اورنہ ہی صبح قیامت تک لاس کے گا ۔

( قُلْ لَئِن اجتَمَعَتِ النسُ والجِنُّ علیٰ أَن یَأتوا بِمثلِ هذا القُرآن لایأتُونَ بِمِثلِه وَلَوکَانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهِیراً ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان وجنات اس بات پر متفق ہوجا ئیں کہ اس قرآن کامثل لے آئیں توبھی نہیں لا سکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پنا ہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔

دوسرے مقام پر ان کے مقابلہ کی ناکامی کو چیلنچ کرتے ہو ئے فرمایا :اگر یہ دعوی میں سچے ہیں توان سے کہہ دیجئے اس کے جیسے دس سورہ تم بھی لے آئو( ۲ ) تیسرے مقام پہ ارشاد ہو ا( واِنْ کُنتُم فِی رَیبٍ مِمَّا نَزَّلنَا علیٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورةٍ مِن مِثلهِ وَ ادعُوا شُهدائَ کُم مِن دُونِ اللّهِ اِن کُنتُم صَادِقیِن ) ( ۳ )

''اگرتمہیں اس کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آئو اور اللہ کے سوا جتنے تمہا رے مدد گار ہیں سب کوبلا لو اگر تم اپنے دعوی او رخیال میں سچے ہو'' ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ وہ ایک سورے کابھی جواب لانے سے عاجز ہیں ۔

یہ بالکل واضح اور روشن سی بات ہے کہ اگر اس وقت کے فصحاء اور بلغا ء قرآن کے ایک بھی سورہ کا جواب لانے کی صلا حیت رکھتے ہوتے تو پھر پیغمبر اورمسلمانوں کے خلا ف اتنی جنگیں نہ لڑتے بلکہ اسی سورہ کے ذریعہ اسلا م کے مقابلہ میں آتے

____________________

(۱) سورہ اسراء آیة: ۸۸

(۲)سورہ بقرہ آیة :۲۳

(۳) سورہ ھو د آیة:۱۳

۱۴۰

بعثت کے چودہ سوسال گذرنے کے بعد بھی اسلا م کے اربوں جانی دشمن اور لیچڑ قسم کے لوگ نت نئی سازشیں مسلمانوں کے خلا ف کیاکرتے ہیں ۔

اگر ان میں طاقت ہو تی توقرآن کے جیسا سورہ لے آتے اور یقینا اس کے ذریعہ اسلام سے نبر د آزما ہوتے ۔علم بلا غت کے ماہر افراد نے اعتراف کیاہے کہ قرآن کاجواب لا ناناممکن ہے اس کی فصاحت وبلا غت حیرت انگیز ہے اس کے احکام وقوانین مضبوط ،اس کی پیشین گوئیاں اور خبریں یقینی او رصحیح ہیں، بلکہ زمان ومکان وعلم سے پرے ہیں ۔

یہ خو د اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ انسان کا گڑھا ہو ا کلا م نہیں ہے بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔

اعجاز قرآن پر تاریخی ثبو ت

جب قرآن نے ان آیتوں کے ذریعہ لوگو ں کو چیلنج کیا تو اس کے بعد اسلام کے دشمنوں نے تمام عرب کے فصیح وبلیغ افراد سے مددمانگی لیکن پھر بھی مقابلہ میں شکست کاسامنا کرنا پڑا اورتیزی سے عقب نشینی کی۔ ان لوگو ں میں سے جومقابلہ کے لئے بلا ئے گئے تھے ولید بن مغیرہ بھی تھا، اس سے کہا گیا کہ غور وخوض کرکے اپنی رائے پیش کرو ولید نے پیغمبر اسلا م سے درخو است کی کہ کچھ قرآنی آیا ت کی تلاوت کریں رسول نے حم سجدہ کی چند آیتوں کی تلا وت کی ۔ ان آیا ت نے ولید کے اندرکچھ ایسا تغییر وتحول پیدا کیاکہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا اوردشمنو ں کے بیچ جا کر کہنے لگا خداکی قسم محمد سے ایسی بات سنی جونہ انسانوں کے کلام جیسا ہے او رنہ پریوں کے کلام کی مانند ۔

واِنَّ له لحلاوة وأَنَّ علیه لطلاوة واِنَّ أعلاه لمُثمر وأنَّ أسفله لمغدق أَنّه یعلو ولا یُعلیٰ علیه''اس کی باتوں میں عجیب شیرنی ہے اس کا عجیب سحر ابیان لب ولہجہ ہے اس کی بلندی ایک پھل دار درخت کی مانند ہے اس کی جڑیں مضبوط اور مفید ہیں، اس کا کلام سب پر غالب ہے کسی سے مغلو ب نہیں ''یہ باتیں اس بات کا سبب بنی کہ قریش میں یہ چہ میگو ئیاں شروع ہو گئیں کہ ولید محمد کا شیدائی اورمسلمان ہوگیا ہے ۔

۱۴۱

یہ نظریہ مشرکین کے عزائم پر ایک کا ری ضرب تھی لہٰذا اس مسئلہ پرغور و خو ض کرنے کے لئے ابو جہل کا انتخاب کیا گیا وہ بھی ولید کے پاس آیا اور مشرکین مکہ کے درمیان جو خبر گشت کر رہی تھی اس سے ولید کو باخبر کیا اور اس کو ان کی ایک میٹینگ میں بلا یا وہ آیا اورکہنے لگا تم لوگ سوچ رہے ہو کہ محمد مجنون ہیں کیا تم لوگوں نے ان کے اندر کو ئی جنون کے آثار دیکھے ہیں ؟۔

سب نے ایک زبان ہو کر کہا نہیں ، اس نے کہا تم سوچتے ہو وہ جھو ٹے ہیں (معاذاللہ) لیکن یہ بتائو کہ کیا تم لوگوں میں سچے امین کے نام سے مشہور نہیں تھے۔ ؟

بعض قریش کے سرداروں نے کہا کہ محمد کو پھر کس نام سے یاد کریں ؟ ولید کچھ دیر چپ رہا پھر یکا یک بولا اسے جادوگر کہو کیو ں کہ جو بھی اس پر ایمان لے آتا ہے وہ سب چیز سے بے نیاز ہو جا تا ہے مشرکین نے اس ناروا تہمت کو خوب ہوادی تاکہ وہ افراد جوقرآن سے مانوس ہو گئے تھے انھیں پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے الگ کر دیا جائے لیکن ان کی تمام سازشیں نقش بر آب ہو گئیں اور حق وحقیقت کے پیاسے جوق در جوق پیغمبر کی خدمت میں آکر اس آسمانی پیغام اور اس کی دلکش بیان سے سیراب ہونے لگے ۔

جادوگر کا الزام در حقیقت قرآن کے جذّاب اور ہر دل عزیز ہو نے کا ایک اعتراف تھا، انھوں نے اس کشش کو جادو کانام دے دیا جبکہ اس کا جادو سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔

قرآن علوم کا خزانہ ہے ۔ فقہ کی کتا ب نہیں ہے مگر بندوںکے قانون عبادت ،او رسیاسی و معاشرتی جزاوسزا اور اجرای احکام سب اس میں پائے جا تے ہیں فلسفہ کانصاب نہیں مگر فلسفہ کی بہت ساری دلیلیں اس میں ہیں ،علم نجوم کی کتاب نہیں پھر بھی ستارہ شناسی کے بہت ظریف اور باریک نکا ت اس میں پائے جا تے ہیں جس نے دنیا کے تمام مفکروں کو اپنی جانب کھینچ لیاہے۔

علم حیاتیات کا مجموعہ نہیں پھر بھی بہتیری آیات اس حوالے سے موجود ہیں لہٰذ اقرآن معجزہ ہے او ران علوم سے ارفع واعلی ہے ۔

۱۴۲

اگر نزول قرآن کی فضاپر غور کی جائے تو پیغمبر اسلا م اور قرآن کی عظمت میں مزید اضافہ ہوگا ۔

اس ماحول میں جہا ں بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے وہاںایک ایسا شخص اٹھا جس نے نہ دنیا وی مدرسہ میں علم حاصل کیا نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ایسی کتاب لیکر آیا کہ چودہ سوسال بعد بھی علماء او رمفکرین اس کے معنی ومطلب کی تفسیر میں جوجھ رہے ہیں اور ہر زمانے میں اس سے نئے مطالب کا انکشاف ہو تا ہے۔

قرآن نے اس دنیاکو اس طرح تقسیم کیاکہ جوبہت ہی دقیق او رمنظم ہے توحید کو بہ نحو احسن بیان کیازمین وآسمان کی تخلیق کے اسرار ورموز اور انسان کی خلقت اوردن ورات کی خلقت کے راز کو خد اکے وجود کی نشانیاں قرار دیتے ہو ئے مختلف طریقہ سے ذکر کیا ہے کبھی فطری توحید توکبھی استدلال توحید پر بحث کی ہے یہ پوری کائنات خدا کے ہاتھ میں ہے اسے بہت طریقہ سے بیا ن کیاہے جب معاد اور قیامت کی بات آتی ہے تو مشرکین کے تعجب پر فرمایا ہے : کیا جس نے اس زمین وآسمان کو ان عظمتوں کے ساتھ پیدا کیا اس کے لئے یہ ممکن نہیںکہ تم جیسا خلق کردے جی ہاں پیداکرنے والا قادر اور صاحب حکمت ہے اور اس کی طاقت اس حد تک ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اور اسے حکم دے دے ہوجابس وہ فوراً وجود میں آجاتی ہے ۔

۱۴۳

خلاصہ یہ کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے لانے والے (پیغمبر ) اور تفسیر کرنے والے (ائمہ معصومین ) کے علا وہ اس کا مکمل علم کسی کے پاس نہیں اس کے باوجود قرآن ہمیشہ ہم لوگوں کے لئے بھی ایک خاص چاشنی رکھتا ہے چونکہ دلوںکی بہار ہے لہٰذا جتناہی پڑھیں گے اتنا ہی زیادہ لطف اندوز ہوںگے جی ہاں قرآن ہمیشہ نیا ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے چونکہ یہ پیغمبر اسلام کا دائمی معجزہ ہے ۔

حضرت امیر نے قرآن کے بارے میں فرمایا :واِنَّ القرآنَ ظاهره أنیق وباطنه عمیق لا تُفنیٰ عجائبه ولاتنقضیِ غرائبه ( ۱ )

''بیشک قرآن ظاہر میں حسین اورباطن میں عمیق ہے اس کے عجائبات انمٹ ہیں''۔

اس کے غرائب اور اس کی تازگی میں ہمیشگی ہے وہ کبھی کہنہ او رفرسودہ نہ ہوگی ۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۷۵میں آیا ہے (فیه ربیع القلب وینابیع العلم وماللقلب جلا ء غیره )دلوں کی بہار قرآن میں ہے اس میں دل کے لئے علم کے چشمے ہیں اس کے علا وہ کوئی نور موزون نہیں ہے ۔

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیوں قرآن کی ترویج اور اس میں تفحص کے ساتھ ساتھ اس کی تازگی اور بالیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ؟

امام نے فرمایا:''لان الله تبارک و تعالیٰ لم یجعله لزمان دون زمان و لالناس دون ناس فهو فی کل زمان جدید و عند کل قوم

____________________

(۱) نہج البلا غہ خطبہ ۱۸

۱۴۴

غض الی یوم القیٰمة ''

''اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کو کسی خاص زمانہ اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا (بلکہ یہ کتابِ الٰہی تمام زمانے اور تمام انسانوں کے لئے ہے)پس قرآن ہر زمانہ کے لئے جدید اور تمام انسانوں کے لئے قیامت تک زندہ ہے۔''

سوالات

۱۔ خصوصیات قرآن بیان کریں ؟

۲۔ اعجاز قرآن کے سلسلہ میں ولید کا قصہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امیر المومنین نے قرآن کے سلسلہ میں کیا فرمایا ؟

۱۴۵

بائیسواں سبق

نبوت خاصہ (دوسراباب )

خاتمیت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلسلہ رسالت کی آخری کڑی ہیں، نبوت کاسلسلہ ان پر خدا نے ختم کردیااور اسی لئے ان کا لقب بھی خاتم الانبیاء ہے (خاتمِ چاہے زیر ہو یا زبر خاتَم، کسی طرح بھی پڑھا جائے اس کے معنی کسی کام کا اتمام یاختم ہونا ہے، اسی بناپر عربی میں انگوٹھی کوخاتم کہا جاتا ہے چونکہ انگوٹھی اس زمانے میں لوگوں کے دستخط اور مہر کا مقام رکھتی تھی او رجب کہیں خط لکھتے تو اس کے آخر میں اپنی انگوٹھی سے مہر لگا دیتے تھے ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی نبوت کا اختتام بھی ایک اسلامی ضرورت ہے اور اسے ہر مسلمان مانتا ہے کہ اب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اس اصل پر تین دلیل ہے ۔

۱۔ خاتمیت کا لا زم او رضروری ہونا۲۔ قرآن کی آیتیں ۳۔ بہت ساری حدیثیں

۱۔خاتمیت کا ضروری ہو نا:اگر کسی نے اسلا م کو دلیل ومنطق کے ذریعہ مان لیا تو اس نے خاتمیت پیغمبر اسلا م کو بھی قبول کر لیا، اسی لئے مسلمانو ں کا کو ئی فرقہ کسی نئے پیغمبر کے انتظار میں نہیں ہے یعنی خاتمیت مسلمانو ں کی نظر میں ایک حقیقی اورضرور ی چیز ہے ۔

۱۴۶

۲۔قرآن کی آیتیں:( مَاکَانَ مُحمَّدُ أَبَا أحدٍ مِنْ رِجالِکُم وَلکنْ رَسُولَ اللّهِ وخَاتَم النَبِیینَ ) محمد تم مردو ں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں۔( ۱ ) ( وَمَا أَرسَلنَا ک اِلَّا کَافَةً للنَّاسِ ) (اور پیغمبر ہم نے آپ کو تمام لوگو ں کے لئے بھیجا ہے۔( ۲ )

۳۔ احادیث : حدیث منزلت جسے شیعہ وسنی دونو ں نے پیغمبر اسلا م سے نقل کیاہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولا ئے کا ئنات سے مخاطب ہو کر فرمایا :أنَتَ مِنی بِمنزلة هارون من موسیٰ اِلَّا أَنَّه لا نَبیّ بَعدی : ، تم میرے نزدیک ویسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئیگا ۔

معتبر حدیث میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسو ل خدانے فرمایا میری مثال پیغمبروں کے بیچ بالکل ایسی جیسے کو ئی گھربنایا جائے اور اسے خوب اچھی طرح سجا یا جائے مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو اب جو بھی دیکھے گا کہے گا بہت خوبصورت ہے مگر یہ ایک جگہ خالی ہے میں وہی آخری اینٹ ہو ں اور نبو ت مجھ پر ختم ہے۔( ۳ )

اما م صادق نے فرمایا :حلال مُحمَّد حلال أبداً اِلیٰ یوم

____________________

(۱) سورہ احزاب آیة: ۴۰

(۲) سو رہ سبا آیة: ۲۸۔

(۳) نقل از تفسیر مجمع البیا ن مرحو م طبرسی

۱۴۷

القیامة وحرامه حرام أبداً اِلی یوم القیامة ( ۱ ) ''اِنَّ اللّهَ ختم بنبیّکم النبییَّن فلا نَبیَّ بعده أبداً''

امام صادق نے فرمایا : بیشک اللہ نے تمہا رے پیغمبر کے بعد نبو ت کا سلسلہ ختم کردیا ہے اور اب اس کے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا ۔( ۲ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ کے درمیان فرمایا :أناخاتمُ النبییّن والمُرسلینَ والحُجّة علیٰ جمیع المخلوقین أهل السَّمٰوات والأَرضین'' میں آخری نبی اور آخری الٰہی نمایندہ ہو ں اور تمام اہل زمین وآسمان کے لئے آخری حجت ہو ں''۔( ۳ )

مولائے کا ئنا ت نے نہج البلا غہ کے خطبہ ۹۱ میں فرمایا :''حتیٰ تمت نبیّنا مُحمّد حجتّہ وبلغ المقطع عذرہ ونذرہ''ہاں تک کہ خدا نے ہمارے نبی کے ذریعہ حجت کو تمام کردیااور تمام ضروری احکامات کو ان کے لئے بیا ن کر دیا خطبہ ۱۷۳میں پیغمبر اسلام کے صفات کے سلسلہ میں اس طرح فرمایا :''امین وحیہ وخاتم رسلہ وبشیر رحمتہ'' محمد خداکی وحی کے امین اور خاتم الرسل اور رحمت کی بشارت دینے والے ہیں

____________________

(۱) اصو ل کا فی ج۱، ص ۵۸

(۲) اصول کا فی ج۱،ص ۲۶۹

(۳)مستدرک الوسائل ج۳، ص ۲۴۷

۱۴۸

فلسفہ خاتمیت

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ انسانیت ہمیشہ تغییر وتحول سے دوچار ہو تی ہے یہ کیسے ممکن ہے ،ایک ثابت اورناقابل تبدیل قانون پوری انسانیت کے لئے جواب دہ ثابت ہو اور یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاتم النبیین بن جا ئیں

اور دوسرے پیغمبر کی ضرورت نہ پیش آئے !

اس کاجو اب ہم دو طرح سے دیں گے :

۱۔ دین اسلام فطرت سے مکمل ہماہنگی رکھتا ہے اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی :

( فَأَقِم وَجهَکَ للدّینِ حَنیفًا فِطرَتَ اللَّهِ التِی فَطَرالنَّاسَ علیها لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذَلِکَ الدِّین القَیّمُ وَلَکنَّ أَکثَر النّا سِ لایَعلَمُونَ ) آپ اپنے رخ کو دین کی طرف قائم رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانو ں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ۔( ۱ )

جیسے انصاف ، سچائی، ایثار ، درگذر، لطف و کرم ، نیک خصلت ہمیشہ محبوب ہے اور اسی کے مقابل ظلم ، جھوٹ،بے جا اونچ نیچ، بد اخلاقی یہ سب چیزیں ہمیشہ لائق نفرت تھیں اور رہیں گی۔

لہٰذا قوانین اسلام جو کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے ہمیشہ اسرار خلقت کی طرح زندہ ہے۔

۲۔ دین اسلام قرآن و اہلبیت کے سہارے ہے ۔ قرآن لامتناہی مرکز علم سے صادر ہوا ہے اور اہل بیت وحی الٰہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ قرآن و اہل بیت ایک

____________________

(۱)سورہ روم آیت۳۰۔

۱۴۹

دوسرے کے مفسر ہیں ۔ اور رسول اکرم کی حدیث کے مطابق یہ رہبران اسلام ایک دوسرے سے تا قیامت جدا نہیں ہوں گے ۔ لہٰذا اسلام ہمیشہ زندہ ہے ،اور بغیر کسی ردّ و بدل کے ترقی کی راہ پر گامزن اور بشریت کی مشکلات کا حل کرنے والا ہے ۔'' قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا انهما لن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض'' میں تمہارے لئے دو گرانقدر چیزیں قرآن و میری عترت چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہو نگے یہاں تک حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریںگے۔( ۱ )

____________________

(۱)المراجعات؛سید شرف الدین عاملی۔

۱۵۰

سوالات

۱۔قرآن نے اس دنیا کی تقسیم کس طرح کی ہے مختصر بیان کریں ؟

۲ ۔پیغمبر اسلام کے خاتم النبیین ہونے پر دلیل پیش کریں؟

۳۔ چونکہ دنیا میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لہٰذا محمد آخری رسول او ر اسلام آخری دین کیسے ہو سکتاہے ؟

۱۵۱

تیئسواں سبق

امامت

دین اسلام کی چوتھی اصل اور اعتقاد کی چوتھی بنیاد امامت ہے لغت میں امام کے معنی رہبر ا ور پیشوا کے ہیں اور اصطلاح میں پیغمبر اکرم کی وصایت وخلافت اور ائمہ معصومین کی رہبری مراد ہے، امامت شیعوں کی نظرمیں اصول دین میں سے ایک ہے اور امام کا فریضہ شیعوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کے فرائض کی انجام دہی ہے۔

یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعثت کااور ائمہ کے منصوب ہونے کا مقصد ایک ہے اور جو چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ رسول کو مبعوث کرے وہی چیز اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ خد اامام کو بھی معین کرے تاکہ رسول کی ذمہ داریوںکو انجام دے سکے، امام کے بنیادی شرائط میں سے ہے کہ وہ بے پناہ علم رکھتا ہو اور صاحب عصمت ہو نیز خطا ونسیا ن سے دور ہو اور ان شرائط کے ساتھ کسی شخصیت کا پہچاننا وحی کے بغیر ناممکن ہے اسی لئے شیعہ معتقد ہیںکہ منصب امامت بھی ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی طرف سے معین ہو نا چاہئے لہٰذا امامت او رخلافت کی بحث ایک تاریخی گفتگو نہیں ہے بلکہ حکومت اسلامی کی حقیقت او رپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اختتام دنیا تک حکو مت کرنا ہے اور ہماری آئندہ کی زندگی سے مکمل طور پر مربوط ہے، اسی طرح یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعداعتقادی اور فکری مسائل میں لوگ کس کی طرف رجوع کریں ۔

شیعوںکاکہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلا م اور ان کے بعد ان کے گیارہ فرزند ایک کے بعد ایک پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین ہیں، شیعہ او رسنی کے درمیان یہی بنیادی اختلاف ہے ۔

ہمارا اصل مقصد اس بحث میں یہ ہے کہ امامت پر عقلی، تاریخی ،قرآنی اور سنت نبوی سے دلیلیں پیش کریںکیونکہ ہم ا س بات کے معتقد ہیںکہ اسلام حقیقی کانورانی چہرہ مذہب شیعہ میں پایا جاتا ہے اورصرف شیعہ ہیں جو حقیقی اسلا م کو اپنے تمام ترکمالات کے ساتھ پوری دنیا میں پہچنوا سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اس کی حقانیت کو دلیل ومنطق کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے ۔

۱۵۲

امامت کا ہو نا ضروری ہے

امامت عامہ

دلیل لطف : شیعہ معتقد ہیں کہ بندو ں پرخداکا لطف اور اس کی بے پناہ محبت اور حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعد بھی لوگ بغیر رہبر کے نہ رہیں یعنی جو دلیلیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہونے کے لزوم پر دلا لت کر تی ہیں وہی دلیلیںاس بات کی متقاضی ہیں کہ امام کا ہو نابھی ضروری ہے تاکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح دنیا اورآخرت کی سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکیں اوریہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ مہربان خدا بنی نوع انسان کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر کسی ہادی اوررہبر کے چھو ڑدے ۔

مناظرہ ہشام بن حکم

ہشام کا شمار امام جعفر صادق کے شاگردو ںمیں ہے : کہتے ہیں میں جمعہ کوبصرہ گیااور وہاں کی مسجد میں داخل ہوا عمروبن عبید معتزلی (عالم اہل سنت) وہاں بیٹھے تھے اور ان کو لوگ گھیرے میں لئے ہوئے سوال وجواب کر رہے تھے میں بھی ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اورکہا :میں اس شہر کانہیں ہوں کیا اجازت ہے کہ میں بھی سوال کروں ؟کہا جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو: میں نے کہا آپ کے پاس آنکھ ہے ؟ اس نے کہا دیکھ نہیں رہے ہو یہ بھی کوئی سوال ہے۔ ؟

میں نے کہا میرے سوالات کچھ ایسے ہی ہیں کہا اچھا پوچھو ہر چند کہ یہ بیکارہے انہو ں نے کہا جی ہاں آنکھ ہے ،میں نے کہا ان آنکھو ں سے کیا کام لیتے ہیں؟ کہا دیکھنے والی چیزیں دیکھتا ہو ں ا قسام او ررنگ کو مشخص کرتا ہو ں ، میں نے کہا زبان ہے ؟کہا جی ہا ں ، میں نے کہااس سے کیا کرتے ہیں؟ جواب دیا کہ اس سے کھانے کی لذت معلو م کرتاہوں میں نے کہا ناک ہے ؟کہنے لگے جی ہا ں میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ کہا خوشبو سونگھتا ہو ں او راس سے خوشبو اور بدبو میں فرق کرتا ہوں میں نے کہا کان بھی ہے ؟جواب دیا جی ہا ں ،میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ جو اب دیا اس سے مختلف آوازوں کو سنتا ہو ں او ر ایک دوسرے کی تشخیص دیتا ہو ں، میں نے کہا اس کے علا وہ قلب (عقل ) بھی ہے ؟کہا جی ہا ں۔ میں نے پوچھا اس سے کیا کرتے ہیں؟جواب دیا اگر ہما رے اعضاء وجوارح مشکوک ہو جاتے ہیں تواس سے شک کو دور کرتا ہو ں ۔

۱۵۳

قلب اور عقل کاکام اعضا ء وجوارح کو ہدایت کرنا ہے ،ہشام نے کہا:میں نے ان کی بات کی تائید کی کہا بالکل صحیح۔ خدانے عقل کو اعضاء وجوارح کی ہدایت کے لئے خلق کیااے عالم! کیایہ کہنا صحیح ہے کہ خدانے آنکھ کان کو اور دوسرے اعضاء کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑااور مسلمانو ں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر ہادی ورہبر کے چھوڑ دیا تاکہ لوگ شک و شبہ اور اختلا ف کی باعث فنا ہو جائیں کیاکوئی صاحب عقل اس بات کو تسلیم کرے گا ؟!۔

ہدف خلقت

قرآن میں بہت سی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں( هَوَ الَّذِی خَلَق لَکُم مَافِی الأَرضِ جَمِیعاً ) وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کے تمام ذخیرہ کو تم ہی لوگو ں کے لئے پیدا کیا۔( ۱ ) ( سَخَّرَ لَکُمُ اللَّیلَ وَالنَّهارَ والشَّمسَ وَالقَمَر ) ''اور اسی نے تمہارے لئے رات و دن اورآفتاب وماہتاب سب کو مسخر کردیا ''۔( ۲ )

چونکہ انسان کی خاطر یہ دنیا خلق ہوئی ہے اور انسان عبادت اور خدا تک پہونچنے کے لئے خلق ہو اہے تاکہ اپنے حسب لیاقت کمال تک پہونچ سکے، اس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة :۲۹

(۲) سورہ نحل آیة :۱۲

۱۵۴

مقصد کی رسائی کے لئے رہبر کی ضرورت ہے اور نبی اکرم کے بعدامام اس تکامل کا رہبر وہادی ہے ۔

مہربا ن ودرد مند پیغمبر او رمسئلہ امامت :

( لَقَد جَا ئَ کُم رَسُولُ مِن أَنفُسِکُم عَزیزُ عَلَیه مَا عَنِتُم حَرِیصُ عَلَیکُم بِالمُؤمنینَ رَؤُفُ رَحِیمُ ) یقینا تمہا رے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہو تی ہے وہ تمہاری ہدا یت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ۔( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کبھی کسی کا م کے لئے کچھ دن کے واسطے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے چاہے مقصد جنگ ہو یا حج، لوگو ں کی سرپرستی کے لئے کسی نہ کسی کو معین کر جاتے تھے تاکہ ان کی راہنمائی کر سکے آپ شہروں کے لئے حاکم بھیجتے تھے لہٰذا وہ پیغمبر جولوگوں پر اس قدر مہربان ہوکہ بقول قرآن ،اپنی زندگی میں کبھی بھی حتی کہ تھوڑی مدت کے لئے بھی لوگوں کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑا ،تو یہ بات بالکل قابل قبول نہیں کہ وہ اپنے بعد لوگو ں کی رہبری کے لئے امامت و جانشینی کے مسئلہ میں تساہلی وسہل انگا ری سے کام لیں گے اور لوگوں کو سرگردان اور بغیر کسی ذمہ داری کے بے مہار چھوڑ دیںگے ۔عقل وفطرت کہتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پیغمبر جس نے لوگوں کے چھوٹے سے چھو ٹے مسائل چاہے مادی ہو ں یا معنوی سبھی کو بیان کر

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة ۱۲۸

۱۵۵

دیا ہو اور اس نے سب سے اہم مسئلہ یعنی رہبری اور اپنی جانشینی کے تعین میں غفلت سے کام لیا ہو اورواضح طور پر لوگوں سے بیان نہ کیاہو!۔

سوالات

۱۔ امام کا ہو نا ضروری ہے دلیل لطف سے ثابت کریں ؟

۲۔ ہشام بن حکم اور عمروبن عبید کے درمیان مناظرہ کا خلا صہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امام کا ہونا لازم ہے خلقت کے ذریعہ کس طرح استدلال کریں گے ؟

۴۔ سورہ توبہ کی آیة ۱۲۸ کے ذریعہ کس طرح امامت کااستدلا ل کریں گے ؟

۱۵۶

چوبیسواں سبق

عصمت اورعلم امامت نیزامام کی تعیین کاطریقہ

عقل وسنت نیزقرآن کی نظر میں عصمت امامت کے لئے بنیادی شرط ہے اورغیر معصوم کبھی اس عہدہ کا مستحق قرار نہیں پاسکتا، نبوت کی بحث میں جن دلیلوں کا ذکر انبیاء کی عصمت کے لئے لازم ہونے کے طور پر پیش کیا گیاہے ان کو ملاحظہ فرمائیں۔

قرآن اور عصمت اما م

( وَاِذابتلیٰ اِبراهیمَ رَبُّهُ بِکلماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ اِنِّی جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِی قَالَ لَا یَنالُ عَهدیِ الظَّالَمِینَ ) اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراہیم کاامتحان لیا اور انھو ںنے پوراکردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کاامام اورقائد بنا رہے ہیں انھوںنے عرض کیا کہ کیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشاد ہو اکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا ۔( ۱ )

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة: ۱۲۴

۱۵۷

ظالم اور ستمگر کون ہے ؟

اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ اس بلند مقام کاحقدار کو ن ہے او ر کون نہیں ہے یہ دیکھنا پڑے گا کہ قرآن نے کسے ظالم کہا ہے ۔؟

کیونکہ خدانے فرمایاہے :کہ میرا یہ عہدہ ظالمین کو نہیں مل سکتا ۔قرآن نے تین طرح کے لوگو ں کو ظالم شمار کیاہے ۔

۱۔ جولوگ خد ا کا شریک مانیں( یَا بُنََّ لَاتُشرِک باللَّهِ اِنَّ الشِّرکَ لَظُلمُ عَظِیمُ ) لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:بیٹا خبردار کسی کو خد ا کاشریک نہ بنانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔( ۱ )

۲۔ ایک انسان کادوسرے انسان پر ظلم کرنا:( اِنَّما السَّبیلُ عَلیٰ الَّذینَ یَظلِمُونَ النَّاسَ وَیَبغُونَ فِی الأَرضِ بِغَیرِ الحَقِّ أُولئِک لَهُم عَذَابُ ألِیمُ ) الزام ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلا تے ہیں انہیں لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔( ۲ )

۳۔ اپنے نفس پر ظلم کرنا:( فَمِنهُم ظَالمُ لِنَفسِهِ وَمِنهُم مُقتَصِدُ وَمِنهُم سَابِقُ بِالخَیراتِ ) ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خداکی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں ۔( ۳ )

____________________

(۱)سو رہ لقمان آیة: ۱۳

(۲) سورہ شوری آیة: ۴۲

(۳) سورہ فاطر آیة: ۳۲

۱۵۸

انسان کو کمال تک پہنچنے اور سعادت مند ہو نے کے لئے پیدا کیا گیاہے، اب جس نے بھی اس راستہ سے روگردانی کی او رخدا ئی حد کو پار کیا وہ ظالم ہے( وَمَنْ یَتعَدَّ حُدُودَاللَّهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ) جس نے بھی خدا کے حکم سے روگردانی کی، اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔( ۱ )

قرآن میں ان تینوں پر ظلم کااطلاق ہوتاہے لیکن حقیقت میں پہلی اوردوسری قسم کے ظلم کااطلاق بھی اپنے نفس ہی پر ہوتاہے ۔

نتیجہ :چار طرح کے لوگ ہیں

۱۔ جوابتداء زندگی سے لے کر آخر عمر تک گناہ اور معصیت کے مرتکب ہوتے رہے ۔

۲۔ جنہو ںنے ابتداء میں گناہ کیا،لیکن آخری وقت میں توبہ کر لیا اورپھر گناہ نہیں کرتے ۔

۳ کچھ ایسے ہیں جو ابتدا میں گناہ نہیں کرتے لیکن آخری عمر میں گناہ کرتے ہیں۔

۴۔ وہ لوگ جنہوں نے ابتداء سے آخر عمر تک کوئی گناہ نہیں کیا۔

قرآ ن کی رو سے پہلے تین قسم کے لوگ مقام امامت کے ہرگز حقدار نہیں ہوسکتے ،کیو نکہ ظالمین میں سے ہیں اور خدا نے حضرت ابراہیم سے فرمایاکہ ظالم اس

____________________

(۱) سورہ طلا ق آیة: ۱

۱۵۹

عہدہ کا حقدار نہیں بن سکتا، لہٰذا مذکورہ آیة سے یہ نتیجہ نکلاکہ امام او ررہبر کو معصوم ہونا چاہئے اور ہر قسم کے گناہ او رخطا سے پاک ہو اگر ان تمام واضح حدیثوں کو جو رسول اسلام سے امام علی اور گیارہ اماموں کی امامت کے سلسلہ میں ہیں، یکسر نظر اندا ز کر دیا جائے، تب بھی قرآن کی رو سے مسند خلا فت کے دعویدار افراد خلا فت کے مستحق او رپیغمبر کی جانشینی کے قابل بالکل نہیں تھے کیو نکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ظالم کے حقیقی مصداق تھے اور خدا نے فرمایا ہے کہ ظالموں کو یہ عہدہ نہیں مل سکتا اب فیصلہ آپ خو د کریں!

۱۔ وہ لوگ جو ابتداء عمر سے ہی کافر تھے ۔

۲۔ وہ لوگ جنہو ں نے بشریت پر بالخصوص حضرت علی وفاطمہ زہراصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ظلم کیا ۔

۳۔وہ لوگ جنہو ںنے خو د اعتراف کیا کہ میں نے احکام الٰہی کی مخالفت کی اور اپنے نفس پر ظلم کیا ، کیا ایسے لوگ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلیفہ اور جانشین بن سکتے ہیں۔ ؟

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303