اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )25%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155097 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

۱

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

تالیف: محمد رے شہری

۲

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

۳

مقدمہ

الحمد ﷲ رب العالمین والصلاة علیٰ عبده المصطفیٰ محمد وآله الطاهرین و خیارصحابته اجمعین

ہم کتاب ''علم و حکمت قرآن و حدیث کی روشنی میں ' کے مقدمہ میں اشارہ کر چکے ہیں کہ اس کتاب کے مباحث کی تکمیل کے لئے کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں '' کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور یہ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب ہے جو خدا کے فضل سے پہلی کتاب کی اشاعت کے تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شائع ہو رہی ہے ۔

یہ کتاب آیات و روایات کی مدد سے معرفت کے موضوع پر نئے نکات پیش کرتی ہے امید ہے کہ ارباب علم و حکمت کے نزدیک مقبولیت کا درجہ حاصل کر ے گی ۔

اس بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس کتاب کا پہلا حصہ حجۃ الاسلام جناب شیخ رضا برنجکار کے تعاون سے اور دوسرا حصہ حجۃ الاسلام جناب عبد الھادی مسعودی کی مدد سے مکمل ہوا۔لہذاہم ان دونوں اور ان تمام حضرات کا شکر یہ ادا کرتے ہیںکہ جنہوںنے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے ، صحیح روایات ڈھونڈ نے اور اس سے متعلق دیگر امور میں ہمارا تعاون کیا ہے،اور خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ خدا انہیں آثار اہلبیت کو مزید نشر کرنے کی توفیق عطا کرے اور جزائے خیر سے نوازے۔

آخر میں اختصار کے ساتھ اپنی تحقیق کا اسلوب بیان کرتے ہیں:

1۔ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک موضوع سے مربوط شیعی اور سنی روایات کو جدید وسائل تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے جامع ترین ، موثق ترین اور قدیم ترین مصادر سے اخذ کیا جائے۔

۴

2۔ کوشش کی گئی ہے کہ درج ذیل حالات کے علاوہ تکرار روایات سے اجتناب کیا جائے:

الف: روایت کے مصادر مختلف ہوں اور روایات میں واضح فرق ہو۔

ب: الفاظ اور اصطلاحات کے اختلاف میں کوئی خاص نکتہ مخفی ہو۔

ج: شیعہ اور سنی روایات کے الفاظ میں اختلاف ہو۔

د: متن روایت ایک سطر سے زیادہ نہ ہو لیکن دو بابوں سے مربوط ہو۔

3۔ اور جہاں ایک موضوع سے متعلق چند نصوص ہیں جن میں سے ایک نبی (ص) سے منقول ہو اور باقی ائمہ٪ سے تو اس صورت میں حدیث نبی (ص)کو متن میں اور بقیہ معصومین کی روایات کو حاشہ پر ذکر کیاہے ۔

4۔ہر موضوع سے متعلق آیات کے ذکر کے بعد معصومین(ع) کی روایات کو رسول خدا(ص) سے امام زمانہ (عج) تک بالترتیب نقل کیا جائیگا۔ مگر ان روایات کو جو آیات کی تفسیر کے لئے وارد ہوئی ہیں تمام روایات پر مقدم کیا گیا ہے اور بعض حالات میں مذکورہ ترتیب کا لحاظ نہیں کیا گیا ہے ۔

5۔ روایات کے شروع میں صرف معصوم (ص) کا نام ذکر کیا جائیگا لیکن اگر راوی نے فعلِ معلوم کو نقل کیا ہے یا ان سے مکالمہ کیا ہے یا راوی نے متن حدیث میں کوئی ایسی بات ذکر کی ہے جو معصوم (ع) سے مروی نہیںہے اس میں معصوم کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

6۔ حاشیہ پر متعدد روایات کے مصادر کواعتبارکے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے ۔

۵

7۔ اگر بنیادی منابع تک دسترسی ہو تو حدیث بلا واسطہ انہیں منابع سے نقل کی جاتی ہے ''بہار الانوار'' اور ''کنزالعمال'' اور اس لحاظ سے کہ یہ دونوں احادیث کا جامع منبع ہیں لہذا منابع کے آخر میں انکا بھی ذکر کر دیا گیا ہے ۔

8۔ منابع کے ذکر کے بعد کہیں پر بعض دوسرے منابع کی طرف ''ملاحظہ کریں'' کے ذریعہ اشارہ کیا ہے ان موارد میں نقل شدہ متن اس متن سے جسکا حوالہ دیا گیا ہے کافی مختلف ہے ۔

9 ۔ اس کتاب میں دوسرے ابواب کا حوالہ اس وقت دیا گیا ہے جہاں روایات میں مناسبت ہے ۔

10۔ کتاب کا مقدمہ اور بعض فصول و ابواب کے آخر میں بیان ہونے والے توضیحات و نتائج اس کتاب یا اس باب کی روایات کا ایک کلی جائزہ ہے اور بعض روایات میں جو دشواریاں ہیں انہیں حل کیا گیا ہے ۔

11۔ اہمترین نکتہ یہ ہے کہ ہم نے حتی الامکان ہر باب میں معصوم سے صادر ہونے والی حدیث کی توثیق کےلئے عقلی و نقلی قرائن کا سہارا لیا ہے ۔

محمد رے شہری

8 صفر 1419ق ھ

۶

پیش لفظ

تفکر و تعقل اسلام کا ستون ہے اور عقائد و اخلاق اور اعمال میں اس کا مرکز ہے لیکن یہ آسمانی شریعت انسان کو اس بات کی ا جازت نہیں دیتی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو تسلیم کرے جس کو عقل صحیح نہیں سمجھتی اور نہ ہی ان صفات سے متصف ہونے کا اذن دیتی ہے جس کو عقل برا جانتی ہے۔ اور نہ ان اعمال کو بجالانے کا حق دیتی ہے کہ جن کو عقل اچھا نہیںسمجھتی ہے ۔

لہذا آیات قرآن ، احادیث رسول اور احادیث اہلبیت(ع) غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد ہیں یہی تمام چیزیں بنیاد ہیں اور دوسری چیزوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ قرآن کریم میں کلمہ علم اور اس کے مشتقات 779 بار، ذکر 274 بار، عقل 49 بار ، فقہ 20 بار ، فکر 18 بار، خرد 61 بار اور تدبر 4 بار آیا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عقل انسان کی بنیاد، اسکی قدر و قیمت کا معیار، درجات کمال اور اعمال کے پر کھنے کی کسوٹی ، میزان جزا اور خداکی حجتِ باطنی ہے ۔

عقل انسان کے لئے گرانقدر ہدیہئ الٰہی ، اسلام کی پہلی بنیاد ، زندگی کا اساسی نقطہ اور انسان کا بہترین زیور ہے ۔

عقل بے بہا ثروت ، بہترین دوست و راہنمااور اہل ایمان کا بہترین مرکز ہے اسلام کے نقطئہ نظر سے علم عقل کا محتاج ہے لہذا علم عقل کے بغیر مضر ہے ۔ چنانچہ جسکا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو جاتا ہے اس کےلئے وبال جان ہو جاتا ہے ۔

۷

مختصر یہ کہ اسلام کی نظر میں مادی و معنوی ارتقائ، زندگانی ئدنیا و آخرت کی تعمیر، بلند انسانی سماج تک رسائی اور انسانیت کی اعلیٰ غرض و غایت کی تحقیق صحیح فکر کرنے سے ہی ممکن ہے اور انسان کی تمام مشکلات غلط فکر اور جہل کا نتیجہ ہے لہذا دنیا میں قیامت کے بعد باطل عقائد کے حامل افراد حساب کے وقت اپنے برے اعمال اور برے اخلاق کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہوںگے تو کہیں گے :

وقالوا لوکنا نسمع اونعقل ما کنا فی اصحاب السعیر، فاعترفوا بذنبهم فسحقا لاصحاب السعیر

اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے؛ تو انہوںنے خود اپنے گناہ کا اقرار کر لیا تو اب جہنم والوںکے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے ۔

عقل کے لغوی معنی

لغت میں عقل کے معنی منع کرنا، باز رکھنا، روکنا، اور حبس کرنے کے ہیں۔ جیسے اونٹ کو رسی سے باندھنا تاکہ کہیں جانہ سکے ، انسان کے اندر ایک قوت ہوتی ہے جسے عقل کہا جاتا ہے جو اسے فکری جہالت سے بچاتی ہے اور عملی لغزش سے باز رکھتی ہے لہذا رسول خدا)ص( فرماتے ہیں:

العقل عقال من الجهل

عقل جہالت سے باز رکھتی ہے ۔

۸

عقل اسلامی روایات میں

محدث کبیر شیخ حر عاملیؒ بابِ ''وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجہل'' کے آخر میں معانی عقل کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

علماء کے کلام میں عقل کئی معنی میں استعمال ہوئی ہے احادیث میں جستجو کے بعد عقل کے تین معنی دستیاب ہوتے ہیں:

1۔ وہ قوت ہے کہ جس سے اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک، ان دونوں میں امتیاز اور تمام امورکے اسباب کی معرفت وغیرہ حاصل کی جائے اور یہی شرعی تکلیف کا معیار ہے ۔

2۔ ایسی حالت و ملکہ کہ جو خیر و منافع کے انتخاب اور برائی و نقصانات سے اجتناب کی دعوت دیتا ہے ۔

3۔ تعقل علم کے معنی میں ہے کیوںکہ یہ جہل کے مقابل میں آتا ہے نہ کہ جنون کے اور اس موضوع کی تمام احادیث میں عقل دوسرے اور تیسرے معنی میں زیادہ استعمال ہوئی ہے ۔واللہ اعلم۔

جن موارد میں کلمئہ عقل اور اس کے مترادف کلمات اسلامی نصوص میں استعمال ہوئے ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ کبھی انسان کے سرچشمئہ ادراکات اور کبھی اس کے ادراکات سے حاصل شدہ نتیجہ میں استعمال ہوتا ہے اورکبھی دونوں مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

الف: عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ

1۔ تمام معارفِ انسانی کا سرچشمہ

جن احادیث جن میں حقیقتِ عقل کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے یا نور کو وجود عقل کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے یا عقل کو الہی ہدیہ اور انسان کی اصل قرار دیا گیا ہے ،وہ انہیں معنی کیطرف اشارہ کرتی ہیں۔

۹

ان احادیث کے مطابق انسان اپنے وجود میں ایک نورانی طاقت رکھتا ہے جو اسکی روح کی حیات ہے اگر یہ طاقت نشو ونما پائے اور سنور جائے تو انسان اسکی روشنی میں وجود کے حقائق کا ادراک، محسوس وغیر محسوس حقائق میں تمیز، حق و باطل میں امتیاز، خیر و شر اور اچھے و برے میں فرق قائم کر سکتا ہے ۔

اگر اس نورانی طاقت اور باطنی شعور کی تقویت کی جائے تو انسان کسبی ادراکات سے بلند ہو کر سوچے گا یہاں تک کہ تمام غیب کو غیبی بصیرت سے دیکھیگا اورہ رغیب اس کے لئے شہود ہو جائیگا۔ اسلامی نصوص میں اس رتبئہ عقل کو یقین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

2۔ فکر کا سرچشمہ

اسلامی متون میں عقل کو فکر و نظر کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔ ان موارد میں عقل ہوشیاری، فہم اور حفظ کے معنی میں استعمال ہوئی ہے جس کا مرکز دماغ ہے ۔

وہ آیات و احادیث جن میں انسان کو تعقل اور غور و فکر کی طرف ابھارا گیا ہے اسی طرح وہ احادیث جن میں عقل تجربی اور عقل تعلمی کو فطری و موہوبی عقل کے ساتھ بیان کیا ہے یہ ایسے نمونے ہیںجن میں لفظ عقل منبعِ فکر میں استعمال ہوا ہے ۔

3۔الہام کا سرچشمہ

اخلاقی وجدان ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کے باطن میں اخلاقی فضائل کی طرف دعوت اور رذائل سے روکتا ہے بعبارت دیگر اخلاقی فضائل کی طرف فطری کشش اور رذائل کی طرف سے فطری نفرت کا احساس ہے ۔

اگر انسان خود کو تمام عقائد و سنن اور مذہبی و اجتماعی آداب سے جدا فرض کرکے مفہوم عدل و ظلم، خیر و شر، صدق و کذب، وفا ئے عہد اور عہد شکنی کے بارے میں غور کریگا تو اسکی فطرت یہ فیصلہ کریگی کہ عدل، خیر ، صدق اور وفائے عہد اچھی چیز ہے جبکہ ظلم ، شر ، جھوٹ اور عہد شکنی بری بات ہے ۔

۱۰

فضائل کی طرف میلان اور رذائل کی طرف سے نفرت کے احساس کو قرآن نے الہی الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها وتقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا۔

یہ احساس اور یہ الہام انسان کےلئے خدا کی معرفت کا سنگ بنیاد ہے اسکا سرچشمہ یعنی نہفتہ احساس جو انسان کے اندر اخلاقی اقدار کا شعور پیدا کرتا ہے اسی منبع اسلام کو اسلامی متون میں عقل کہا گیا ہے اور تمام اخلاقی فضائل کوعقل کا لشکر اور تمام رذائل کو جہالت کا لشکر کہا گیا ہے ۔

نکتہ

بعض فلسفہ کی کتابوں میں اما م علی (ع) سے عقل کی تفسیر کے بارے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کی تطبیق فلسفہ میں معانی عقل میں سے کسی ایک معنی پر کی جاتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے :

قال السائل: یا مولای وما العقل؟ قالں: العقل جوهر درّاک، محیط بالاشیاء من جمیع جهاتها عارف بالشی قبل کونه فهو علة الموجودات ونهایة المطالب

سائل نے کہا: مولا! عقل کیاہے؟ فرمایا: عقل درک کرنے والا جوہر ہے جو حقائق پر تمام جہات سے محیط ہے۔ اشیاء کو انکی خلقت سے قبل پہچان لیتا ہے یہ جوہر سبب موجودات اور امیدوں کی انتہا ہے ۔

حدیث کے مصادر میں تلاشِ بسیار کے باوجود مذکورہ حدیث کا کوئی مدرک نہیں مل سکا۔

۱۱

ب: عقل کا استعمال اورنتیجہ ادراکات

حقائق کی شناخت

لفظ عقل مدرِک کے ادراکات کے شعور میں تو استعمال ہوتا ہی ہے۔ مزید بر آن اسلامی متون میں عقلی مدرکات اور مبدا و معاد سے متعلق حقائق کی معرفت میں استعمال ہوتا ہے ۔

اور اسکی بہترین مثال وہ احادیث ہیںجو عقل کو انبیاء کا ہم پلہ اور خدا کی باطنی حجت قرار دیتی ہیں اسی طرح وہ احادیث جو عقل کو تہذیب وتربیت کے قابل سمجھتی ہیں اور اسی کو فضائلِ انسان کا معیار قرار دیتی ہیں کہ جس کے ذریعہ اعمال کی سزا و جزا دی جائیگی۔ یا عقل کو ''فطری''، ''تجربی''، ''مطبوع'' اور''مسموع'' میں تقسیم کرتی ہیں۔ عقل سے مراد شناخت و آگاہی ہے۔

عقل کے مطابق عمل

کبھی لفظ عقل کا استعمال قوت عاقلہ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ عقل کی تعریب کے بارے میں رسول خدا)ص( سے مروی ہے'' العمل بطاعة اﷲ و ان العمال بطاعة اﷲ هم العقلاء'' عقل خدا کے احکام کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں یقینا عاقل وہ لوگ ہیں جو خدا کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں۔

یا حضرت علی (ع) سے مروی ہے:'' العقل ان تقول ما تعرف و تعمل بما تنطق به'' عقل یہ ہے کہ جس کے بارے میں جانتے ہو وہ کہو اور جو کچھ کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

لفظ جہل کا استعمال بھی لفظ عقل کے استعمال کی مانند طبیعت جہل کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ دعا میں وارد ہو اہے'' وکل جہل عملتہ...''اور ہر جہالت کو انجام دیا......

۱۲

عقل کی حیات

عقل روح کی حیات ہے لیکن اسلامی نصوص کے مطابق اسکی بھی موت و حیات ہوتی ہے ، انسان کا مادی و معنوی تکامل اسی کی حیات کا رہینِ منت ہے ۔ بشر کی حیاتِ عقلی کا اصلی راز قوت عاقلہ (جو کہ اخلاقی وجدان ہے ) کا زندہ ہونا ہے الہی انبیاء کی بعثت کے اغراض میں سے ایک اساسی غرض یہ بھی ہے۔

حضرت علی -نے اپنے اس جملہ ''هو یثیر والهم وفائن العقول'' (اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں) کے ذریعہ بعثت انبیاء کے فلسفہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اسرار کائنات کو کشف کرنے کےلئے فکر کو زندہ کرنا انسان کےلئے ممکن ہے ؛ لیکن کمال مطلق کی معرفت کےلئے عقل کو زندہ کرنا اور اعلیٰ مقصد انسانیت پر چلنے کےلئے منصوبہ سازی صرف خدا کے انبیاء ہی کےلئے ممکن ہے۔

قرآن و حدیث میں جو کچھ عقل و جہل اور عقل کے صفات و خصائص اور اس کے آثار و احکام کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ سب ہی عقل کے اسی معنی سے مخصوص ہے ۔

جب انسان انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں حیات عقلی کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اس میں ایسی نورانیت و معرفت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں نہ فقط یہ کہ عقل خطا سے دو چار نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کےلئے مدد گار بھی ہے ۔

چنانچہ علی - فرماتے ہیں:

ایسے شخص نے اپنی عقل کو زندہ رکھا ہے ، اور اپنے نفس کو مردہ بنا دیا تھا۔ اسکا جسم باریک ہو گیا ہے اور اس کا بھاری بھرکم جسد ہلکا ہو گیا ہے اس کے لئے بہترین ضو فشاں نور ہدایت چمک اٹھا ہے اور اس نے راستے کو واضح کر کے اسی پر چلا دیا ہے ۔ تمام در وازوں نے اسے سلامتی کے دروازہ اور ہمیشگی کے گھر تک پہنچا دیا ہے اور اس کے قدم طمانینتِ بدن کے ساتھ امن و راحت کی منزل میں ثابت ہو گئے ہیں کہ اس نے اپنے دل کو استعمال کیا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیا ہے ۔

۱۳

بنا بر ایں اور حقیقی علم و حکمت کی اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہم نے کتاب'' علم و حکمت قرآن و حدیث کی رونشی میں'' بیان کی ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نصوص نے انسان کے وجود میں باطنی نورانی قوت کو بیان کرنے کےلئے تین اصطلاحیں ، علم، حکمت اور عقل پیش کی ہیںاور یہ نورانی قوت، انسان کو مادی و معنوی تکامل کی طرف ہدایت کرتی ہے لہذا اسکو نور علم سے اور چونکہ اس قوت میں استحکام پایا جاتا ہے اور خطا کا امکان نہیں ہوتا لہذا حقیقی حکمت سے اور یہی قوت انسان کو نیک اعمال کے انتخاب پر ابھارتی ہے اور اسے فکری و عملی لغزشوں سے باز رکھتی ہے لہذا اسے عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ علم و حکمت اور عقل کے سرچشمے، اسباب آثار اور آفات و موانع کی تحقیق سے یہ مدعا اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے۔

عقل نظری اور عقل عملی

عقل نظری و عقل عملی کے سلسلہ میں دو نظریہ موجود ہیں:

پہلا نظریہ یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے ، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے چشمہئ ادراک کو عقل نظری کہتے ہیں؛ جیسے حقائقِ وجودکا ادراک اور اگرکسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سر چشمہ ادراک کو عقل عملی کہتے ہیں؛ جیسے عدل کے حسن، ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور اور بیتابی کے مذموم ہونے کی معرفت وغیرہ....اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے اور اس نظریہ کی بناء پر عقل عملی ، ادراک کا سر چشمہ ہے نہ کہ تحریک کا۔

۱۴

دوسرا نظریہ ، یہ ہے کہ عقل عملی و عقل نظری میں بنیادی فرق ہے ، یعنی ان دونوں کے سرچشمہئ ادراک میں فرق ہے ، عقل نظری، سر چشمہ ادراک ہے چاہے ادراک کا مقصد معرفت ہو یا عمل؛ اور عقل عملی عمل پر ابھارے کا سر چشمہ ہے نہ کہ ادراک کا۔عقل عملی کا فریضہ، عقل نظری کے مدرکات کا جاری کرنا ہے ۔

سب سے پہلے جس نے اس نظریہ کو مشہور کے مقابل میں اختیار کیا ہے وہ ابن سینا ہیں ان کے بعد صاحب محاکمات قطب الدین رازی اور آخر میں صاحب جامع السعادات محقق نراقی ہیں۔

پہلا نظریہ، لفظ عقل کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے اور اس سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ عقل عملی کی مبدا ادراک و تحریک سے تفسیر کی جائے کیونکہ جو شعور اخلاقی اور عملی اقدار کو مقصد قرار دیتا ہے وہ مبدا ادراک بھی اور عین اسی وقت مبدا تحریک بھی ہے اور یہ قوت ادراک وہی چیز ہے کہ جس کو پہلے وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جا چکا ہے ۔ اور نصوص اسلامی میںجسے عقل فطری کا نام دیا گیا ہے ، اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔

۱۵

عقل فطری اور عقل تجربی

اسلامی نصوص میں عقل کی عملی و نظری تقسیم کے بجائے دوسری بھی تقسیم ہے اور وہ عقل فطری اور عقل تجربی یا عقل مطبوع اور عقل مسموع ہے ، امام علی - فرماتے ہیں:

العقل عقلان: عقل الطبع و عقل التجربہ، و کلاھما یؤدی المنفعۃ۔

عقل کی دو قسمیںہیں: فطری اور تجربی اور یہ دونوں منفعت بخش ہیں۔

نیز فرماتے ہیں:

رأیت العقل عقلین

فمطبوع و مسموع

ولا ینفع مسموع

اذا لم یک مطبوع

کما تنفع الشمس

و ضوء العین ممنوع

میں نے عقل کی دو قسمیں دیکھیں۔ فطری اور اکتسابی، اگر عقل فطری نہ ہو تو عقل اکتسابی نفع بخش نہیں ہو سکتی، جیسا کہ آنکھ میں روشنی نہ ہو تو سورج کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

ملحوظ خاطر رہے کہ علم کی بھی یہی تقسیم آپ سے منقول ہے:

العلم علمان: مطبوع و مسموع ولا ینفع المسموع اذا لم یکن المطبوع

۱۶

علم کی دو قسمیں ہیں: فطری اور اکتسابی ، اگر فطری علم نہ ہو تو اکتسابی علم فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ فطری عقل و علم کیا ہیں اور اکتسابی عقل و علم میں کیا فرق ہے ؟ اور فطری عقل و علم نہ ہونے کی صورت میں عقل تجربی اور علم اکتسابی فائدہ کیوں نہیں پہنچا سکتے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر فطری عقل و علم سے مقصود ایسے معارف ہیںکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکی فطرت میں ودیعت کیا ہے تاکہ اپنی راہ کمال پا سکیںاور اپنی غرض خلقت کی انتہا کو پہنچ سکیں۔ قرآن نے اس فطری معارف کو فسق و فجور اور تقویٰ کے الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها و تقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا ہے۔

اسی کو دور حاضر میں وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

عقل فطری یا وجدان اخلاقی ادراک کا سر چشمہ اور تحریک عمل کا منبع بھی ہے۔

اور اگر اسے انبیاء کی تعلیمات کی بنیاد پر زندہ کیا جائے اور رشد دیا جائے تو انسان وہ تمام معارف جو کسب و تجربہ کے راستوں سے حاصل کرتا ہے ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے اور اسے انسانیت کی پاکیزہ زندگی میسر آجائےگی۔اگر عقل فطری خواہشات نفسانی کی پیروی اور شیطانی وسوسوں کے سبب مردہ ہو جائے تو انسان کو کوئی بھی معرفت اسکی مطلوب ومقصود زندگی تک نہیںپہنچا سکتی اور نہ ہی اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے؛جیسا کہ امیر المومنین (ع) کے حسین کلام میں موجود ہے کہ: عقل فطری کی مثال آنکھ کی سی ہے اور عقل تجربی کی مثال سورج کی سی ہے ، جیسا کہ سورج کی روشنی نابینا کو پھسلنے سے نہیں روک سکتی اسی طرح عقل تجربی بھی پھسلنے اور انحطاط سے ان لوگوں کو نہیں روک سکتی کہ جنکی عقل فطری اور وجدان اخلاقی مردہ ہو چکے ہیں۔

۱۷

عاقل و عالم کا فرق

ہم کتاب'' علم و حکمت ، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے پیش گفتار میں وضاحت کر چکے ہیں کہ لفظ علم اسلامی نصوص میں دو معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ، ایک جوہر و حقیقت علم اور دوسرے سطحی و ظاہری علم، پہلے معنیٰ میں عقل اور علم میں تلازم پایا جاتا ہے ، جیسا کہ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں:

العقل و العلم مقروناِ فی قرن لا یفترقان ولا یتباینان

عقل اور علم دونوں ایک ساتھ ہیںجو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں۔

اس بنیاد پر عالم و عاقل مینکوئی فرق نہیں ہے ۔ عاقل ہی عالم ہے اور عالم ہی عاقل ہے نیز ارشاد پروردگار ہے :

تلک الامثال نضربها للناس وما یعقلها الا العالمون

یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے؛ عاقل اور عالم میں فرق ہے ، علم کو عقل کی ضرورت ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کوئی عالم ہو لیکن عاقل نہ ہو۔ اگر علم ، عقل کے ساتھ ہو تو عالم اور کائنات دونوںکےلئے مفید ہے اور اگر علم ، عقل کے بغیر ہو تو نہ فقط یہ کہ مفید نہیںہے بلکہ مضر اور خطرناک ہے۔

۱۸

عقل کے بغیر علم کا خطرہ

امام علی (ع) کا ارشاد ہے العقل لم یجن علیٰ صاحبہ قط و العلم من غیر عقل یجنی علیٰ صاحبہ'' عقل، صاحب عقل کو کبھی تکلیف نہیں پہنچاتی لیکن عقل کے بغیر علم، صاحب علم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔

دورحاضر میں علم کافی ترقی کر چکا ہے لیکن عقل کم ہو گئی ہے ، آج کا معاشرہ مولائے کائنات کے اس قول کا مصداق بنا ہوا ہے :

من زاد علمه علیٰ عقله کان وبالا علیه

جس شخص کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو تا ہے وہ اس کےلئے وبال ہو جاتا ہے ۔

نیز اس شعر کا مصداق ہے ۔

اذا کنت ذاعلم و لم تک عاقلا

فانت کذی نعل لیس له رجل

اگر تم عالم ہو اور عاقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس نعلین تو ہے لیکن پیر نہیں ہے۔

آج علم ، عقل سے جدا ہونے کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ کو مادی و معنوی تکامل اور آرام و آسائش عطا کرنے کے بجائے انسان کے لئے بد امنی، اضطراب، فساد اور مادی و معنوی انحطاط کا باعث ہوا ہے ۔

آج کی دنیا میں علم، عیش طلب افراد، مستکبرین اور بے عقلوں کے لئے سیاسی ، اقتصادی اور مادی لذتوں کے حصول کا وسیلہ بنا ہو ا ہے کہ اس اسی سے دوسرے زمانوں سے زیادہ لوگوں کو انحراف و پستی کی طرف لے جارہے ہےں۔

۱۹

جب تک عقل کے ساتھ علم نہ ہو علم صحیح معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا اور انسانی معاشرہ کو آرام و سکون نصیب نہیں ہو سکتا، جیسا کہ امام علی (ع) کا ارشاد ہے :

افضل ما منّ اﷲ سبحانه به علیٰ عباده علم وعقل وملک وعدل

بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم، عقل ، بادشاہت اور عدل ہے ۔

مختصر یہ کہ دور حاضر میں علم دوسرے زمانوں سے زیادہ عقل کا محتاج ہے اور کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں''جو آپ کے ہاتھوں میں ہے،اسکی ضرورت فرہنگی، اجتماعی اور سیاسی لحاظ سے دوسرے زمانوں سے کہیں زیادہ ہے ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اٹھارواںسبق

نبوت عامہ (چوتھی فصل )

عصمت انبیاء

انبیاء کی سب سے اہم خاصیت ا ن کا معصوم ہو نا ہے۔

عصمت؛ لغت میں روکنے، حفاظت کرنے یاغیر اخلا قی چیزوں سے دور رہنے کے معنی میں ہے اور عقیدہ کی بحث میں جب انبیاء کی عصمت کی با ت آتی ہے تو اس کے معنی ان کا گناہو ں سے دور رہنا اور خطا ونسیان سے پاک رہنا ہے ۔اسی لئے انبیاء وائمہ کرام نہ ہی کبھی گناہ کرتے ہیںاو رنہ ہی کبھی تصور گناہ ۔

سوال۔ انبیاء کا معصوم ہونا اور خطاونسیان سے محفوظ ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

جو اب ۱۔ بعثت انبیاء کا مقصد ہدایت بشریت ہے او ریہ بات مسلّما ت میں سے ہے کہ تربیت میں مربی کاعمل اس کے قول سے زیادہ موثر ہو تا ہے، لہٰذا اگرتربیت کرنے والا خو د گناہوں سے آلودہ ہوگا تودوسروں کو کس طرح سے منع کرے گا ۔؟

۲۔ انبیاء در حقیقت مربی بشریت ہیں لہٰذا ان کی ذات لوگوں کے لئے قابل قبول او ربھروسہ مند ہو نا چاہئے ۔ سید مرتضی علم الہدی کے بقول اگر ہم کو کسی شخص کے بارے میں شائبہ بھی ہے یقین نہیں ہے کہ وہ گناہ بھی کرتا ہے یا نہیں؟ توکبھی بھی اس کی باتوں کودل سے قبول نہیں کریں گے ۔لہٰذا انبیاء کا خطاونسیان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ خطا اوربھول چوک بے اعتمادی کاسبب بنتا ہے اور ان(انبیاء ) کو قابل اعتماد ہونا چاہیئے ۔

۱۲۱

فلسفہ عصمت

یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان گناہو ں سے معصوم (محفوظ ) ہو یہاں تک کہ تصور گناہ بھی نہ کرے؟۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ جب کسی چیز کے با رے میں ہم یقین کر لیں تواس کے برخلا ف کبھی عمل کر ہی نہیں سکتے، کیا کوئی عقلمنداور سلیم الطبع شخص آگ یا گندگی کوکھا نے کی سونچ سکتا ہے ؟کیا کو ئی صاحب شعور آگ کے گڑھے میں کودنے کوتیار ہو گا ؟ کیا کوئی صحیح الدماغ جام زہر خو شی خو شی نوش کرے گا ؟

ان سارے سوالا ت کے جو اب میں آپ کہیں گے ، ہرگز نہیں عاقل شخص کبھی ایسا کر ہی نہیں سکتا، یہاں تک کہ اس کی فکر بھی یا تمنابھی نہیں کرے گا اور اگر کوئی ایسا کرتاہے توکسی مرض میں مبتلا ہے ۔

نتیجہ یہ نکلا: ہر عاقل انسان ایسے کاموں کے مقابل دوری یادوسرے لفظوں میں کہا جا ئے کہ ایک عصمت کامالک ہے ؛ اوراگر آپ سے سوال کیاجائے کہ کیوں انسان ایسے کاموں کے مقابل میں معصوم ہے تو کہیں گے کہ چونکہ اس کے عیب ونقصان کاعلم ویقین اس کو ہو گیا ہے ۔ اور یہ جانتا ہے کہ اس کے ارتکاب کے بعد فنا ونابودی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔

اسی طرح اگر انسان گنا ہ اوراس کے نقصانات سے باخبر ہو کر یقین تک پہنچ جا ئے تو عقل کی طاقت سے شہوت پر غالب ہو کر کبھی گناہ میں مبتلا نہیں ہو سکتا یہا ں تک کہ اس کا خیال بھی ذہن میں نہیں لا ئے گا ۔

جو شخص خدا اور اس کی عدالت پر یقین رکھتا ہے کہ پوری کائنا ت پیش پروردگار ہے او روہ اس پر حاضر وناظر ہے تو ایسے شخص کے لئے گنا ہ اورفعل حرام میں مبتلاہونا ، آگ میں کو دنے ، اور جام زہر پینے کی مانند ہے لہٰذا کبھی بھی اس کے قریب نہیں جاتا اور ہمیشہ دور رہتا ہے ۔

۱۲۲

پیامبران الٰہی اس یقین کے ساتھ جو گناہ کے آثار ونتائج کے بارے میں رکھتے ہیں نہ صرف یہ کہ گناہ بلکہ تصور گناہ کے بابت بھی معصوم ہو تے ہیں۔ آثار عمل کو دیکھنے ،نیکیوں کی جانب دھیان دینے اور گناہوں سے پرہیز کے لئے بہتر ہے کہ مولا ئے کا ئنا ت کی اس حدیث میں غور وفکر کرے :''مَن أَیقن أَنّه یفارق الأحباب ویسکن التراب ویواجه الحساب ویستغنی عمّا خلف ویفتقر اِلیٰ ما قدّم کان حریاً بقصرالأمل وطول العمل ''جس شخص کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ حتمی طور سے اپنے دوستوں سے جدا ہورہا ہے اورمٹی کو اپناگھر بنارہا ہے اور حساب کے لئے جا رہا ہے اور کئے ہوئے سے بے نیاز ہے اور جو بھیج چکا ہے اس کا محتاج ہے تو یقینااس کی آرزوئیں کم اور عمل طولانی ہوجائے گا۔( ۱ )

انبیاء اور ائمہ کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی

عصمت ائمہ کے بارے میں علما ء علم کلام کی جا نب سے بہت سارے مطالب بیان کئے گئے ہیں اور جس بات کو سب مانتے ہیں وہ یہ کہ عصمت کی طاقت ائمہ اور انبیاء میں اجباری نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پاکیزگی نقص پر مجبور ہو ں بلکہ تمام لوگوں کی طرح گناہ کر نے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن چونکہ وہ ایک طرف گنا ہ کے نقصانا ت ومفاسد کو بہ خوبی جانتے ہیں نیز ان کی معرفت اور شناخت خدا کے حوالے سے بہت زیادہ ہے یعنی وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خد اکے حضورمیں سمجھتے ہیں اسی لئے اپنے ارادہ واختیار سے گناہ اور برائی کو نہ کرنے پر پوری طرح قادر ہیں اور کبھی اس کے قریب نہیںجاتے۔

انبیاء وائمہ کی عصمت ا ن کے اختیار وارادہ کا نتیجہ ہے او ران کی کاوشوں اورزحمات کا ثمرہ ہے جو انھوں نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ۔

چونکہ خدا وند تعالیٰ ان کی خلقت سے قبل جا نتا تھا کہ یہ فدائی اور ایثار کے پیکرہیں اسی لئے ان کی ابتدائی زندگی سے انھیں اپنے لطف وکرم کے سائے میں رکھا اور بے راہ روی سے محفوظ رکھا ۔علوم خاص وعام نیز عنایت خاص سے نوازا لہٰذا اس رخ سے کوئی محل اعتراض نہیں کہ انبیاء وائمہ ایک قسم کی جسمانی اور روحانی خصوصیت

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۷۳ ،ص ۱۶۷

۱۲۳

کے مالک ہیں،کیونکہ اس خصوصیت کی وجہ خود ان کا کرداراور عمل ہے ،یہ ایک طرح کا انعام ہے جو اللہ نے انھیں عمل سے پہلے عطاکیاہے ۔

نتیجہ :خدا وند عالم اس علم کے ذریعہ جو انسانوں کے مستقبل کے سلسلہ میں رکھتا ہے وہ جا نتا ہے کہ ان کے درمیان بعض افراد خاص اہمیت کے حامل ہیں ( اور یہ ایساعلم ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے اور اس کا تحقق یقینی ہے ) لہٰذا انہیں معاشرہ کی ہدایت اور رہبری کی وجہ سے اپنی عنایت خاص سے نوازا ۔الٰہی نمایندوںکے لئے ان عنایتوں کا ہونا ضروری ہے ۔

امام محمد باقرں نے فرمایا :اِذا عَلم اللّه حُسن نیّة من أحدٍ اکتنفه بالعصمة ( ۱) خدا وند عالم جب کسی کی حسن نیت سے مطلع ہو جا تا ہے تو اسے عصمت کے ذریعہ محفوظ کردیتا ہے ۔

معصومین کا فلسفہ امتیاز

عن أَبیِ عبداللّه: أَن اللَّه أوحیٰ اِلیٰ موسیٰ فقال یا موسیٰ اِنّی أطلعت اِلیٰ خلقیِ اطلاعة فلم أجد فی خلقی اشدّ تواضعاً لی منک فمن ثمَّ خصصتک بوحییِ وکلا میِ مِن بَین خَلق ( ۲ )

امام صادق فرماتے ہیں : خدانے جناب موسی پر وحی کی کہ اے موسی! ہم نے تمام انسانوں کو دیکھا ان میں سے تمہارے تواضع کواوروںسے زیادہ

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۷۸، ص ،۱۸۸

(۲) وسائل الشیعہ جلد ۴، ص، ۱۰۷۵

۱۲۴

پایا ،اسی وجہ سے تمہیں اپنے کلام اور وحی کے لئے چنا او رسب میں سے تم کو منتخب کیا ۔

قال علی :عَلیٰ قَدر النّیة تکو ن من اللّه العطیّة ( ۱ )

امیر المو منین نے فرمایا :خدا کا لطف وکرم نیتوں کے مطابق ہے قرآن نے سورہ عنکبوت کی آخری آیة میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے( وَالَّذِینَ جَاهدُوا فِینَا لنَهدِینَّهُم سُبُلنا واِنَّ اللّهَ لمَعَ المُحسِنیِنَ ) ( ۲ )

او رجن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا یقینا ہم ان کو اپنے راستوں کی جانب ہدایت کریں گے بیشک خدا افراد صالح کے ساتھ ہے ۔

امام صادق اور ایک مادیت پر ست کا مناظرہ

ایک مادیت پرست انسان نے امام صادق سے سوال کیا: اللہ نے بعض انسانو ں کو شریف اور نیک خصلت او ربعض کوبری خصلت کے ساتھ کیوں خلق کیا؟۔

امام نے فرمایا: شریف وہ شخص ہے جو خدا کی اطاعت کرے اور پست وہ ہے جواس کی نافرمانی کرے اس نے پوچھا کہ کیا لوگ ذاتی طور پر ایک دوسرے سے برتر نہیں ہیں ؟۔

آپ نے فرمایا :نہیں صرف برتری کا معیار تقوی ہے ، اس نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ کی نظر میں تمام اولاد آدم ایک جیسی ہیں اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔

____________________

(۱) غرر الحکم

(۲)سورہ عنکبوت آیة:۶۹

۱۲۵

میں نے ایسا ہی پایا کہ سب کی خلقت مٹی سے ہے سبھی کے ماںباپ آدم وحوا ہیں وحدہ لا شریک خدا نے ان کو خلق کیاہے اور سب خد اکے بندے ہیںالبتہ خدانے آدم کی بعض اولادوںکو منتخب کیا او ر ان کی خلقت کو طاہر بنایا اور ان کے جسموں کوپاک کیا اور ان کو صلب پدر اور ارحام مادر کے حوالے سے بھی نجاست سے دور رکھا اور انھیں کے درمیان سے نبیوں کا انتخاب کیا اور وہ جناب آدم کی بہترین اور افضل ترین اولا د ہیں اور اس امتیازو فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ خدا جانتاتھاکہ وہ اس کے اطاعت گذار بندو ں میں سے ہیں اور کسی کو اس کا شریک نہیں قرار دیں گے، گویا بلند مرتبہ ہو نے کا اصل راز، ان کے اعمال اور ان کی اطاعت ہے۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۰،ص ۱۷۰

۱۲۶

سوالات

۱۔یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان گناہ حتی تصور گنا ہ سے بھی معصوم ہو ؟

۲۔ ائمہ اور انبیاء کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی ؟

۳۔ ائمہ کی فضیلت کا فلسفہ امام صادق کی نظرمیں کیا ہے ؟

۱۲۷

انیسواںسبق

نبوت عامہ (پانچویں فصل )

کیا قرآن نے انبیا ء کو گناہ گار بتایا ہے ؟

عصمت کی بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذنب وعصیا ن اور اپنے اوپر ظلم ،جیسی لفظیں جو بعض انبیا ء کے سلسلہ میں آئیں ہیں اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کی وضا حت کے لئے کچھ نکا ت کی جانب توجہ ضروری ہے ۔

۱۔ عصمت انبیاء کا مطلب جیسا کہ بیا ن کیا جا چکا ہے یہ ہے کہ انبیاء حرام کام یا گناہ نہیں کر تے ،لیکن وہ کا م جس کاچھوڑنا بہتر لیکن انجام دینا حرام نہیں ہے گذشتہ انبیاء سے ممکن اور جائز ہے اور یہ فعل ا ن کی عصمت کے منا فی نہیں ہے۔ (یہی ترک اولیٰ ہے )

۲۔ سب سے اہم بات کلما ت قرآن کے صحیح معنوں پر توجہ کرنا ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہو اہے لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عربی لغت میں کلمات قرآن کے کیا معنی ہیں ؟لیکن افسوس کی بات ہے کہ بسا اوقات ا س جانب غور نہ کرنے کے باعث قرآن کی آیتوں کے غلط معنی بیا ن کئے جاتے ہیں ۔

۳۔اہل بیت عصمت وطہارت کی قرآنی تفاسیر کا بغور مطالعہ کیاجائے اس میں غور وخوض کیا جائے کیونکہ وہی حقیقی مفسر قرآن ہیں ہم یہا ں پرا ن آیتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان آیتوں میں انبیاء کو گنہگار بتایا گیا ہے تاکہ اعتراض ختم ہو جا ئے (وعَصَیٰ آدمَ ربّہ فغویٰ)بعض نے اس آیة کا ترجمہ یو ں کیا ہے ،آدم نے اپنے رب کی معصیت کی او روہ گمراہ ہو گئے ۔ جبکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ، آدم نے رب کا اتباع نہیں کیا لہٰذا محروم ہو گئے، مرحوم طبرسی اس آیت کے ذیل میں مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ آدم نے اپنے رب کی مخالفت کی لہٰذا ثواب سے محروم رہے ۔

۱۲۸

یہاں معصیت سے مراد حکم الٰہی کی مخالفت ہے چاہے وہ حکم واجب ہو یا مستحب ،محدث قمی سفینة البحار میں لفط (عصم ) کے معنی علامہ مجلسی سے نقل کرتے ہیں '' ان ترک المُستحب وفعل المکروہ قد سُم ذنبا'' مستحب کو ترک کرنا اور فعل مکروہ کو انجام دینا کبھی کبھی گناہ ،ذنب ،اور عصیان کے معنی میں آتاہے ۔گذشتہ موضوع کو ثابت کرنے کے لئے لغت کی طرف رجوع کریں گے المنجد ( جوکہ ایک مشہو ر لغت ہے ) میں ہے کہ (عصیان ) اتباع نہ کرنے اور پیروی نہ کرنے کے معنی میں ہے ۔اسی طرح اغوی کے معنی (خاب ) یعنی محروم ہونے اور نقصان اٹھا نے کے ہیں اگر آدم وحوا کے قصہ کو دیکھا جائے توپتہ چلے گا کہ عصیان (عصی ) سے مراد حرام کام کرنا یاواجب کوچھوڑنا نہیں ہے ۔

آدم کا عصیان کیا تھا ؟

قرآن اس واقعہ کو یوں نقل کرتاہے کہ ہم نے آدم سے کہا کہ شیطان تمہا را اور تمہاری اہلیہ کا دشمن ہے لہٰذا کہیں وہ تمہیں جنت سے باہر نہ کرادے اور تم زحمت وتکلیف میں پڑجا ئو پھر شیطان نے آدم کو بہکا یا اور انھو ںنے اس درخت کا پھل کھا لیا ،نتیجہ میں جنت کے لبا س اتار لئے گئے کیو نکہ آدم کو اس درخت کا پھل کھانے سے منع کیاگیا تھا اور انھوں نے نافرمانی کی لہٰذا بہشتی نعمتوں

۱۲۹

سے محروم ہوگئے۔( ۱ )

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ جنت کاپھل کھا نے سے روکنا صرف نہی ارشادی تھا اور درخت کاپھل نہ کھانا ہمیشہ جنت میں رہنے کی شرط تھی لہٰذا مذکورہ آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ آدم کافعل گناہ نہیں تھا بلکہ اس کا نقصان جنت سے نکا لا جانااور دنیوی زندگی کی سختیاں تھیں ، اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر آدم کافعل گناہ نہیں تھا پھر توبہ کرنا (جیسا کہ اگلی آیتوں میں ذکر ہے ) کیا معنی رکھتا ہے ۔

جو اب میں کہیں گے کہ ہر چند (درخت کاپھل کھا نا) گناہ نہیں تھا لیکن چونکہ حضرت آدم نے نہی ارشادی کی مخالفت کی لہٰذا ان کا مقام خدا کے نزدیک کم ہوگیا اور آدم نے دوبارہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے توبہ کی اورخدا نے ان کی توبہ قبول کرلی۔

مامون نے جب جناب آدم کی معصیت کے بارے میں پوچھا تو امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا : ولم یک ذلک بذنب کبیر یستحق بہ دخول

____________________

(۱) سورہ طہ آیة: ۱۱۶ تا ۱۲۱

۱۳۰

النّار واِن کان من الصغائر الموهوبة التی تجوز علیٰ الأنبیاء قبلَ نزول الوحیِ علیهم ( ۱ ) جو کام آدم نے انجام دیا وہ گناہ کبیرہ نہیں تھا جس کے باعث جہنم کے مستحق ہوجائیں بلکہ ایک معمولی سا ترک اولی تھا جو معاف ہو گیا اور انبیاء نزول وحی سے قبل ایسے کام کرسکتے ہیں۔

ظلم کیا ہے اور غفران کے کیا معنی ہیں ؟

(قالَ رَبِّ اِنِّیِ ظَلَمتُ نَفس فاغفِرلِی )( ۲ ) خدا یا میں نے اپنے نفس کی خاطر مصیبت مول لی، لہٰذا معاف کردے ان مقامات میں سے ایک یہ بھی ہے جہا ں اس با ت کا گمان کیاگیا ہے کہ قرآن نے انبیاء پر گنا ہ کاالزام لگا یا ہے یہ آیت جنا ب موسی کے واقعہ سے مربوط ہے جب قبطی (فرعون کے ساتھی ) کو قتل کر دیا تھا تو کہا ،رَبِّ ِانِّی ظَلَمتُ نَفسیِ المنجد نے لکھا ہے کہ (الظلم وضع الشیء فی غیر محله )ظلم یعنی کسی شی ٔ کو ایسی جگہ قرار دینا جو اس کا مقام نہ ہو (کسی فعل کاغیر مناسب وقت پر انجام دینا ) اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ عمل صحیح ہو او ر بے محل انجام پائے یا عمل غلط اور حرام ہو لہٰذا ہر ظلم حرام نہیں ہے ۔

المنجد میں غفر کے معنی لکھے ہیں ،غَفَر الشیٔ غطّاه وستره ) غفر اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی شی ٔ چھپا ئی ہواو رمخفی کی گئی ہواس لئے اس کے معنی یو ں ہوں گے موسی نے کہا ،اے پرور دگا ر !میں نے فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کر

____________________

(۱) تفسیر برہان ج۳، ص ۴۶

(۲)سورہ قصص آیة: ۱۶

۱۳۱

کے بیجا فعل انجام دیا گوکہ ہمارے لئے اس کا قتل جائز تھا لیکن ابھی اس کاوقت نہیں تھا لہٰذا (فاغفرلی) اے خدا ہمارے اس کام پر پردہ ڈال دے تاکہ میرے دشمن میری گرفتاری پر کامیا ب نہ ہو سکیں ۔تو ایسی صورت میں گناہ ،ظلم یا حرام کام کی نسبت موسی کی جانب نہیں دی گئی ہے ۔

مامون نے مذکورہ آیت او رظلم کے معنی کے سلسلہ میں پوچھا تو امام رضاں نے فرمایا:اِنّی وضَعتُ نفسیِ فی غیر موضعها بدخول هذه المدینة فَاغفرلیِ أیِ أستّرلیِ من أعدائک لئلا یظفروابی فیقتلونی ۔ موسیٰ نے خد ا سے عرض کی ،میں نے اس شہر میں داخل ہو کر (اور فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کرکے ) بے محل کام انجام دیا لہٰذا (فاغفرلی) مجھے اپنے دشمنو ں کی نگا ہو ں سے مخفی کردے مبادا ہم کو گرفتار کر کے قتل کردیں ۔

نتیجہ: ظلم اور غفران کے معنی کلی ہیں نہ کہ وہ خاص معنی جو ان الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں لہٰذا یہ آیة بھی عصمت کے منا فی نہیں ہے ۔

سوالا ت

۱۔قران نے انبیاء پر گناہ کی تہمت نہیں لگا ئی اس کو سمجھنے کے لئے کن نکات کیجانب توجہ ضروری ہے ؟

۲۔ عصی آدم ربہ فغوی سے کیا مراد ہے ؟

۳۔ ظلمت نفسی فاغفرلی کا کیا مطلب ہے ؟

۱۳۲

بیسواں سبق

نبو ت عامہ (چھٹی فصل )

سورہ فتح میں ذنب سے کیا مراد ہے ؟

( اِنَّا فَتحَنا لَک فَتحاً مُبیناً لِیَغفَرلَک اللّهَ مَا تَقدَّمَ مِن ذَنبِک وَمَا تأخَّرَ ) ( ۱ ) بیشک ہم نے آپ کوکھلی ہو ئی فتح عطا کی تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کر دے ۔

یہ انہیں مقامات میں سے ہے جہاں یہ خیال کیاجاتا ہے کہ خدا نے رسول اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو گنہگا ر گردانا ہے اور پھر معاف کردیاہے ۔

یہاں بھی '' ذنب''''غفران'' کے صحیح معنی کی طرف دھیان نہیں دیا گیا ہے قابل افسو س مقام ہے کہ اصلی معنی سے غفلت برتی گئی ہے ۔

عربی لغات نے ''ذنب '' کے اصلی معنی اور مفہو م کلی سے مراد پیچھا کرنے والا اور آثار لیا ہے ،یعنی نتیجہ اور اس کا رد عمل مراد ہے المنجد میں ''ذَنبَ ذَنباً تبعه فلم یُفارق أثره'' ذنب کہتے ہیں اس عمل کے نتیجہ او ر آثار کو جواس سے الگ نہیں ہوتا

____________________

(۱) سورہ فتح آیة: ۱

۱۳۳

اور گناہ کو ذنب اس لئے کہاجاتا ہے چونکہ گناہ نامناسب عمل اور اس کے آثار و نتیجہ کی بنا پر وجودمیں آتاہے ۔

اس معنی کے ذریعہ جو غفران کے لئے پہلے بیان کئے گئے ہیں اس آیة کا مفہوم واضح ہو جا تا ہے مزید وضاحت کے لئے اس حدیث کی جانب توجہ فرمائیں ۔

امام رضا ںنے مذکو رہ آیة کی توضیح میں فرمایا: مشرکین مکہ کی نظر میں پیغمبر سے بڑا کوئی گنہگار نہیں تھا چونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خاندان والوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی تھی ، اس وقت ان کے پاس ۳۶۰ بت تھے اور وہ انھیں کی پرستش کرتے تھے، جب نبی نے ان کو وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دی تویہ بات ان کو سخت نا گوار گذری اور کہنے لگے کیا ان تمام خدائوں کو ایک خدا قرار دے سکتے ہیں ،یہ تعجب کی بات ہے ہم نے اب تک ایسی بات نہیں سنی تھی لہٰذا یہا ں سے چلو او راپنے بتوں کی عبادت پر قائم رہو ۔

جب خدانے اپنے رسول کے ذریعہ مکہ فتح کیا تو ان سے فرمایا ؛( اِنَّا فَتحَنا لَکَٔ فَتحَاً ) بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہو ئی فتح عطاکی تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے جو مشرکین آپ پر وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دینے کی بنا پر عائد کرتے ہیں چونکہ فتح مکہ کے بعد کافی لوگ مسلمان ہوگئے اوربعض بھاگ نکلے اورجوبچ گئے تھے ان کی ہمت نہیں تھی کی خدا کی وحدانیت کے خلاف لب کھول سکیں مکہ کے لوگ جوگناہ اور ذنب کا الزام لگا رہے تھ

۱۳۴

ے وہ پیغمبر اسلام کی فتح اور ان پر غلبہ نے چھپا دیا اورسب ساکت ہوگئے۔( ۱ )

انبیاء او رتاریخ

قرآن کی رو سے انسانی تاریخ اور وحی ونبوت کی تاریخ ایک ہے اور جس وقت سے انسان کی تخلیق ہوئی اسی وقت سے وحی بھی اس کی ارتقاء وسعادت کی خاطر موجود رہی ہے( واِنَّ مِنْ أُمةٍ اِلَّاخَلَا فِیها نَذِیرُ ) ( ۲ ) اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو ۔

مولا ئے کا ئنات نے فرمایا: ولم یخل اللّہ سبحانہ خلقہ من نَبیِّ مُرسل أوکتاب مُنزل أوحجّة لازمةُ اومحجّة قائمة( ۳ ) خدانے کبھی بھی انسان کو تنہا نہیں چھو ڑا پیغمبر یاآسمانی کتاب ،واضح دلیل یا صراط مستقیم کوئی نہ کوئی ضرور تھا ۔

مولا نے خطبہ ۹۳ میں فرمایا ۔کُلّما مضیٰ منهم سلف قام منهم بدین اللّه خلف حتیٰ أفضت کرامة اللّه سبحانه تعالیٰ اِلیٰ محمد صلی اللّه علیه وآله وسلم ۔''جب کبھی کسی پیغمبر کی رسالت تمام ہوتی تھی اور اس دنیا سے کوچ کرتاتھا دوسرا نبی خدا کے دین کوبیان کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو تا تھا اوریہ سنت الٰہی اسی طرح چلتی رہی یہاں تک لطف خدا وندی پیغمبر اسلام کے شامل حال ہوئی''۔

انبیاء کی تعداد

عن أبی جعفر قال :قال رسول اللّٰه کان عدد جمیع الأنبیاء

____________________

(۱) تفسیر برہان ج، ۴ ص ۱۹۳

(۲) سورہ فاطر آیة :۲۴

(۳) نہج البلا غہ خطبہ ۱

۱۳۵

مائة الف نبیِّ وأربعة وعشرون ألف نبیِّ خمسة منهم أولوا العزم: نوح و ابراهیم وموسیٰ وعیسیٰ ومحمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''

امام باقر سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کی کل انبیاء کی تعداد ایک لاکھ جو بیس ہزار ہے اور ان میں سے پانچ اولوالعزم ہیں ۔نوح ،ابراہیم موسی ، عیسی ، اورمحمد عربی ۔اسی مضمون کی دوسری حدیث بحار کی گیا رہویں جلد میں بھی ہے( ۱ )

قرآنی رو سے تمام انبیاء پر ایما ن لانا ضروری اور لازم ہے ۔

( قُولُوا آمَنّا باللّهِ وَمَا أُنزِلَ اِلَینَا وَمَا أُنزِلَ اِلیٰ ِابراهیمَ وَاِسمَاعیلَ واِسحٰقَ ویَعقُوبَ وَالأسباطِ وَمَا أوتِی مُوسیٰ وعیسیٰ و مَا أوتِی النبیُّون من رَبِّهم لا نُفرِقُ بَینَ أحِدٍ مِنهُم وَنَحنُ لَهُ مُسلِمُون ) ( ۲ )

اور مسلمانو ں تم ان سے کہدو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے ہماری طرف بھیجا ہے اور جو ابراہیم ،اسماعیل واسحاق ویعقوب اور اولا د یعقوب کی طرف نازل کیاہے اور جو موسی ،عیسیٰ اور دیگر انبیاء کو پر وردگار کی جانب سے دیا گیا ہے، ان سب پر ایما ن لے آئے ہیں، ہم پیغمبروں میں تفریق نہیں کرتے اور ہم خدا کے سچے مسلمان ہیں۔

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۱

(۲) بقرہ آیة: ۱۳۶

۱۳۶

سوالات

۱۔ سورہ فتح کی پہلی آیة میں ذنب اور غفران سے کیا مراد ہے۔ ؟

۲۔ پیغمبروں کی تعداد او ر اوالعزم رسولو ں کے نام بتائیں ۔؟

۱۳۷

اکیسواں سبق

نبوت خاصہ (پہلی فصل )

نبوت خاصہ اور بعثت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

چودہ سو سال پہلے ۱۰ ۶ ھ میں جب شرک وبت پرستی نے پوری دنیا کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا او رمظلوم افراد ظالم حکمرانوں کے شکنجو ں میں بے بسی سے ہاتھ پیر ماررہے تھے اور سبھی لوگ ناامید ی کے سائے میں زندگی گذار رہے تھے ایک شریف خاندان سے شرافت و طہارت کا ایک پیکر اٹھاجس نے مظلو موں کی حمایت کی ،عدالت وآزادی کا نعرہ بلند کیا ،اسیروں کے زنجیروں کی گرہوں کو کھولا، علم وتربیت کی جانب لوگو ں کو دعوت دی ،اپنی رسالت کی بنیاد فرمان ووحی الٰہی کو قرار دیتے ہو ئے خود کو خاتم الا نبیاء کے نام سے پہنچوایا ۔

وہ محمد بن عبد اللہ خاندان بنی ہاشم کا چشم و چراغ ہا ں وہی قبیلہ بنی ہاشم جو شجاعت، شہا مت ،سخاوت ،طہارت ،اصالت میں تمام قبائل عرب میں مشہور تھا وہ ہمالیائی عظم واستقلا ل کا پیکر جس کی لیاقت اور روحی کمال کی حد درجہ بلندی کی پوری دنیا کے مورخو ں چاہے دوست ہو ں یا دشمن سب نے گواہی دی ہے اعلا ن رسالت سے قبل ان کی چالیس سالہ زندگی سب کے سامنے آئینہ کی طرح شفاف و بے داغ تھی، اس نامساعد حالات اور جزیرة العرب کی تاریکیوں کے باوجود پیغمبر اسلا م کی فضیلت کا ہر باب زبان زد خاص وعام تھا، لوگوں کے نزدیک اس قدر بھروسہ مند تھے کے سب آپ کو محمد امین کے نام سے جانتے تھے ،خدا کا کروروں سلام ان پر اور ان کی آل پاک پر ۔

۱۳۸

رسالت پیغمبر پر دلیلیں

انبیاء کی شناخت کے لئے جتنے اصول وقوانین بتائے گئے ہیں، سب آنحضرت کی رسالت پر مدلل ثبوت ہیں (یعنی معجزہ ،گذشتہ نبی کی پیشین گو ئی ،شواہد قرآئن ) تاریخ ،قرائن وشواہد رسول کی رسالت کے ،او ربعثت پر گواہ ہے ۔

گذشتہ انبیاء کے صحیفے پیغمبر اسلا م کی بعثت کی بشارت دے چکے ہیں ، لیکن پیغمبر کے معجزات دوطرح کے ہیں ۔

پہلی قسم ان معجزات کی ہے جوکسی خاص شخص یا گروہ کی درخواست پر آنحضرت نے خد اسے طلب کیا اور وہ معجزہ آپ کے ہاتھوں رونما ہوا جیسے درخت اورسنگریزوں کا سلام کرنا دریائی جانور کاآپ کی رسالت کی گواہی دینا شق القمر( چاند کے دوٹکڑے کرنا ) مردوں کو زندہ کرنا ،غیب کی خبر دینا ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ چار ہزار چار سو چالیس معجزے رسول اکرم کے تھے جن میں سے صرف تین ہزار معجزوں کاذکر ملتاہے ۔

قرآن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دائمی معجزہ

دوسری قسم : قرآن رسول اکرم کاابدی معجزہ ہے جو ہر زمانے اورہر جگہ کے لئے قیامت تک معجزہ ہے ،رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبیاء کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ ان سب کی رسالت محدود تھی وہ کسی خاص گروہ یا محدود امت کے لئے مبعوث ہو ئے تھے ،بعض محدود ومکان اور محدود زمانے میں تھے اگر ان میں سے بعض مکانی لحاظ سے محدود نہیں تھے توا ن کی رسالت ایک زمانے تک محدود تھی اور وہ دائمی رسالت کے دعویدار بھی نہیں تھے ،اسی لئے ان کے معجزے بھی فصلی اور وقتی تھے، لیکن چونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت ابدی اور عالمی ہے اس لئے ان کے عصری اور وقتی معجزے کے علاوہ دائمی معجزہ (قرآن )بھی ہے جو ہمیشہ کے لئے ہے اور ہمیشہ ان کی رسالت پر گواہ ہے۔

۱۳۹

نتیجہ : قرآن کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ:

۱۔ اس نے زمان ومکان کی سرحدوں کی ختم کردیا او رقیامت تک معجزہ ہے ۔

۲۔ قرآن روحانی معجزہ ہے یعنی دوسرے معجزے اعضاء بد ن کو قانع کرتے ہیں لیکن قرآن ایک بولتا ہوامعجزہ ہے جوڈیڑھ ہزار سال سے اپنے مخالفو ں کوجواب کی دعوت دیتا آرہاہے اورکہہ رہا ہے اگرتم سے ممکن ہوتومجھ جیسا سورہ لاکر بتاؤ اور چودہ سوسال اس چیلنج کو گذر رہے ہیں مگر آج تک کوئی اس کو جواب نہ لا سکا اورنہ ہی صبح قیامت تک لاس کے گا ۔

( قُلْ لَئِن اجتَمَعَتِ النسُ والجِنُّ علیٰ أَن یَأتوا بِمثلِ هذا القُرآن لایأتُونَ بِمِثلِه وَلَوکَانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهِیراً ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان وجنات اس بات پر متفق ہوجا ئیں کہ اس قرآن کامثل لے آئیں توبھی نہیں لا سکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پنا ہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔

دوسرے مقام پر ان کے مقابلہ کی ناکامی کو چیلنچ کرتے ہو ئے فرمایا :اگر یہ دعوی میں سچے ہیں توان سے کہہ دیجئے اس کے جیسے دس سورہ تم بھی لے آئو( ۲ ) تیسرے مقام پہ ارشاد ہو ا( واِنْ کُنتُم فِی رَیبٍ مِمَّا نَزَّلنَا علیٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورةٍ مِن مِثلهِ وَ ادعُوا شُهدائَ کُم مِن دُونِ اللّهِ اِن کُنتُم صَادِقیِن ) ( ۳ )

''اگرتمہیں اس کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آئو اور اللہ کے سوا جتنے تمہا رے مدد گار ہیں سب کوبلا لو اگر تم اپنے دعوی او رخیال میں سچے ہو'' ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ وہ ایک سورے کابھی جواب لانے سے عاجز ہیں ۔

یہ بالکل واضح اور روشن سی بات ہے کہ اگر اس وقت کے فصحاء اور بلغا ء قرآن کے ایک بھی سورہ کا جواب لانے کی صلا حیت رکھتے ہوتے تو پھر پیغمبر اورمسلمانوں کے خلا ف اتنی جنگیں نہ لڑتے بلکہ اسی سورہ کے ذریعہ اسلا م کے مقابلہ میں آتے

____________________

(۱) سورہ اسراء آیة: ۸۸

(۲)سورہ بقرہ آیة :۲۳

(۳) سورہ ھو د آیة:۱۳

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303