اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155143 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اٹھارواںسبق

نبوت عامہ (چوتھی فصل )

عصمت انبیاء

انبیاء کی سب سے اہم خاصیت ا ن کا معصوم ہو نا ہے۔

عصمت؛ لغت میں روکنے، حفاظت کرنے یاغیر اخلا قی چیزوں سے دور رہنے کے معنی میں ہے اور عقیدہ کی بحث میں جب انبیاء کی عصمت کی با ت آتی ہے تو اس کے معنی ان کا گناہو ں سے دور رہنا اور خطا ونسیان سے پاک رہنا ہے ۔اسی لئے انبیاء وائمہ کرام نہ ہی کبھی گناہ کرتے ہیںاو رنہ ہی کبھی تصور گناہ ۔

سوال۔ انبیاء کا معصوم ہونا اور خطاونسیان سے محفوظ ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

جو اب ۱۔ بعثت انبیاء کا مقصد ہدایت بشریت ہے او ریہ بات مسلّما ت میں سے ہے کہ تربیت میں مربی کاعمل اس کے قول سے زیادہ موثر ہو تا ہے، لہٰذا اگرتربیت کرنے والا خو د گناہوں سے آلودہ ہوگا تودوسروں کو کس طرح سے منع کرے گا ۔؟

۲۔ انبیاء در حقیقت مربی بشریت ہیں لہٰذا ان کی ذات لوگوں کے لئے قابل قبول او ربھروسہ مند ہو نا چاہئے ۔ سید مرتضی علم الہدی کے بقول اگر ہم کو کسی شخص کے بارے میں شائبہ بھی ہے یقین نہیں ہے کہ وہ گناہ بھی کرتا ہے یا نہیں؟ توکبھی بھی اس کی باتوں کودل سے قبول نہیں کریں گے ۔لہٰذا انبیاء کا خطاونسیان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ خطا اوربھول چوک بے اعتمادی کاسبب بنتا ہے اور ان(انبیاء ) کو قابل اعتماد ہونا چاہیئے ۔

۱۲۱

فلسفہ عصمت

یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان گناہو ں سے معصوم (محفوظ ) ہو یہاں تک کہ تصور گناہ بھی نہ کرے؟۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ جب کسی چیز کے با رے میں ہم یقین کر لیں تواس کے برخلا ف کبھی عمل کر ہی نہیں سکتے، کیا کوئی عقلمنداور سلیم الطبع شخص آگ یا گندگی کوکھا نے کی سونچ سکتا ہے ؟کیا کو ئی صاحب شعور آگ کے گڑھے میں کودنے کوتیار ہو گا ؟ کیا کوئی صحیح الدماغ جام زہر خو شی خو شی نوش کرے گا ؟

ان سارے سوالا ت کے جو اب میں آپ کہیں گے ، ہرگز نہیں عاقل شخص کبھی ایسا کر ہی نہیں سکتا، یہاں تک کہ اس کی فکر بھی یا تمنابھی نہیں کرے گا اور اگر کوئی ایسا کرتاہے توکسی مرض میں مبتلا ہے ۔

نتیجہ یہ نکلا: ہر عاقل انسان ایسے کاموں کے مقابل دوری یادوسرے لفظوں میں کہا جا ئے کہ ایک عصمت کامالک ہے ؛ اوراگر آپ سے سوال کیاجائے کہ کیوں انسان ایسے کاموں کے مقابل میں معصوم ہے تو کہیں گے کہ چونکہ اس کے عیب ونقصان کاعلم ویقین اس کو ہو گیا ہے ۔ اور یہ جانتا ہے کہ اس کے ارتکاب کے بعد فنا ونابودی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔

اسی طرح اگر انسان گنا ہ اوراس کے نقصانات سے باخبر ہو کر یقین تک پہنچ جا ئے تو عقل کی طاقت سے شہوت پر غالب ہو کر کبھی گناہ میں مبتلا نہیں ہو سکتا یہا ں تک کہ اس کا خیال بھی ذہن میں نہیں لا ئے گا ۔

جو شخص خدا اور اس کی عدالت پر یقین رکھتا ہے کہ پوری کائنا ت پیش پروردگار ہے او روہ اس پر حاضر وناظر ہے تو ایسے شخص کے لئے گنا ہ اورفعل حرام میں مبتلاہونا ، آگ میں کو دنے ، اور جام زہر پینے کی مانند ہے لہٰذا کبھی بھی اس کے قریب نہیں جاتا اور ہمیشہ دور رہتا ہے ۔

۱۲۲

پیامبران الٰہی اس یقین کے ساتھ جو گناہ کے آثار ونتائج کے بارے میں رکھتے ہیں نہ صرف یہ کہ گناہ بلکہ تصور گناہ کے بابت بھی معصوم ہو تے ہیں۔ آثار عمل کو دیکھنے ،نیکیوں کی جانب دھیان دینے اور گناہوں سے پرہیز کے لئے بہتر ہے کہ مولا ئے کا ئنا ت کی اس حدیث میں غور وفکر کرے :''مَن أَیقن أَنّه یفارق الأحباب ویسکن التراب ویواجه الحساب ویستغنی عمّا خلف ویفتقر اِلیٰ ما قدّم کان حریاً بقصرالأمل وطول العمل ''جس شخص کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ حتمی طور سے اپنے دوستوں سے جدا ہورہا ہے اورمٹی کو اپناگھر بنارہا ہے اور حساب کے لئے جا رہا ہے اور کئے ہوئے سے بے نیاز ہے اور جو بھیج چکا ہے اس کا محتاج ہے تو یقینااس کی آرزوئیں کم اور عمل طولانی ہوجائے گا۔( ۱ )

انبیاء اور ائمہ کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی

عصمت ائمہ کے بارے میں علما ء علم کلام کی جا نب سے بہت سارے مطالب بیان کئے گئے ہیں اور جس بات کو سب مانتے ہیں وہ یہ کہ عصمت کی طاقت ائمہ اور انبیاء میں اجباری نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پاکیزگی نقص پر مجبور ہو ں بلکہ تمام لوگوں کی طرح گناہ کر نے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن چونکہ وہ ایک طرف گنا ہ کے نقصانا ت ومفاسد کو بہ خوبی جانتے ہیں نیز ان کی معرفت اور شناخت خدا کے حوالے سے بہت زیادہ ہے یعنی وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خد اکے حضورمیں سمجھتے ہیں اسی لئے اپنے ارادہ واختیار سے گناہ اور برائی کو نہ کرنے پر پوری طرح قادر ہیں اور کبھی اس کے قریب نہیںجاتے۔

انبیاء وائمہ کی عصمت ا ن کے اختیار وارادہ کا نتیجہ ہے او ران کی کاوشوں اورزحمات کا ثمرہ ہے جو انھوں نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ۔

چونکہ خدا وند تعالیٰ ان کی خلقت سے قبل جا نتا تھا کہ یہ فدائی اور ایثار کے پیکرہیں اسی لئے ان کی ابتدائی زندگی سے انھیں اپنے لطف وکرم کے سائے میں رکھا اور بے راہ روی سے محفوظ رکھا ۔علوم خاص وعام نیز عنایت خاص سے نوازا لہٰذا اس رخ سے کوئی محل اعتراض نہیں کہ انبیاء وائمہ ایک قسم کی جسمانی اور روحانی خصوصیت

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۷۳ ،ص ۱۶۷

۱۲۳

کے مالک ہیں،کیونکہ اس خصوصیت کی وجہ خود ان کا کرداراور عمل ہے ،یہ ایک طرح کا انعام ہے جو اللہ نے انھیں عمل سے پہلے عطاکیاہے ۔

نتیجہ :خدا وند عالم اس علم کے ذریعہ جو انسانوں کے مستقبل کے سلسلہ میں رکھتا ہے وہ جا نتا ہے کہ ان کے درمیان بعض افراد خاص اہمیت کے حامل ہیں ( اور یہ ایساعلم ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے اور اس کا تحقق یقینی ہے ) لہٰذا انہیں معاشرہ کی ہدایت اور رہبری کی وجہ سے اپنی عنایت خاص سے نوازا ۔الٰہی نمایندوںکے لئے ان عنایتوں کا ہونا ضروری ہے ۔

امام محمد باقرں نے فرمایا :اِذا عَلم اللّه حُسن نیّة من أحدٍ اکتنفه بالعصمة ( ۱) خدا وند عالم جب کسی کی حسن نیت سے مطلع ہو جا تا ہے تو اسے عصمت کے ذریعہ محفوظ کردیتا ہے ۔

معصومین کا فلسفہ امتیاز

عن أَبیِ عبداللّه: أَن اللَّه أوحیٰ اِلیٰ موسیٰ فقال یا موسیٰ اِنّی أطلعت اِلیٰ خلقیِ اطلاعة فلم أجد فی خلقی اشدّ تواضعاً لی منک فمن ثمَّ خصصتک بوحییِ وکلا میِ مِن بَین خَلق ( ۲ )

امام صادق فرماتے ہیں : خدانے جناب موسی پر وحی کی کہ اے موسی! ہم نے تمام انسانوں کو دیکھا ان میں سے تمہارے تواضع کواوروںسے زیادہ

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۷۸، ص ،۱۸۸

(۲) وسائل الشیعہ جلد ۴، ص، ۱۰۷۵

۱۲۴

پایا ،اسی وجہ سے تمہیں اپنے کلام اور وحی کے لئے چنا او رسب میں سے تم کو منتخب کیا ۔

قال علی :عَلیٰ قَدر النّیة تکو ن من اللّه العطیّة ( ۱ )

امیر المو منین نے فرمایا :خدا کا لطف وکرم نیتوں کے مطابق ہے قرآن نے سورہ عنکبوت کی آخری آیة میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے( وَالَّذِینَ جَاهدُوا فِینَا لنَهدِینَّهُم سُبُلنا واِنَّ اللّهَ لمَعَ المُحسِنیِنَ ) ( ۲ )

او رجن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا یقینا ہم ان کو اپنے راستوں کی جانب ہدایت کریں گے بیشک خدا افراد صالح کے ساتھ ہے ۔

امام صادق اور ایک مادیت پر ست کا مناظرہ

ایک مادیت پرست انسان نے امام صادق سے سوال کیا: اللہ نے بعض انسانو ں کو شریف اور نیک خصلت او ربعض کوبری خصلت کے ساتھ کیوں خلق کیا؟۔

امام نے فرمایا: شریف وہ شخص ہے جو خدا کی اطاعت کرے اور پست وہ ہے جواس کی نافرمانی کرے اس نے پوچھا کہ کیا لوگ ذاتی طور پر ایک دوسرے سے برتر نہیں ہیں ؟۔

آپ نے فرمایا :نہیں صرف برتری کا معیار تقوی ہے ، اس نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ کی نظر میں تمام اولاد آدم ایک جیسی ہیں اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔

____________________

(۱) غرر الحکم

(۲)سورہ عنکبوت آیة:۶۹

۱۲۵

میں نے ایسا ہی پایا کہ سب کی خلقت مٹی سے ہے سبھی کے ماںباپ آدم وحوا ہیں وحدہ لا شریک خدا نے ان کو خلق کیاہے اور سب خد اکے بندے ہیںالبتہ خدانے آدم کی بعض اولادوںکو منتخب کیا او ر ان کی خلقت کو طاہر بنایا اور ان کے جسموں کوپاک کیا اور ان کو صلب پدر اور ارحام مادر کے حوالے سے بھی نجاست سے دور رکھا اور انھیں کے درمیان سے نبیوں کا انتخاب کیا اور وہ جناب آدم کی بہترین اور افضل ترین اولا د ہیں اور اس امتیازو فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ خدا جانتاتھاکہ وہ اس کے اطاعت گذار بندو ں میں سے ہیں اور کسی کو اس کا شریک نہیں قرار دیں گے، گویا بلند مرتبہ ہو نے کا اصل راز، ان کے اعمال اور ان کی اطاعت ہے۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۰،ص ۱۷۰

۱۲۶

سوالات

۱۔یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان گناہ حتی تصور گنا ہ سے بھی معصوم ہو ؟

۲۔ ائمہ اور انبیاء کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی ؟

۳۔ ائمہ کی فضیلت کا فلسفہ امام صادق کی نظرمیں کیا ہے ؟

۱۲۷

انیسواںسبق

نبوت عامہ (پانچویں فصل )

کیا قرآن نے انبیا ء کو گناہ گار بتایا ہے ؟

عصمت کی بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذنب وعصیا ن اور اپنے اوپر ظلم ،جیسی لفظیں جو بعض انبیا ء کے سلسلہ میں آئیں ہیں اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کی وضا حت کے لئے کچھ نکا ت کی جانب توجہ ضروری ہے ۔

۱۔ عصمت انبیاء کا مطلب جیسا کہ بیا ن کیا جا چکا ہے یہ ہے کہ انبیاء حرام کام یا گناہ نہیں کر تے ،لیکن وہ کا م جس کاچھوڑنا بہتر لیکن انجام دینا حرام نہیں ہے گذشتہ انبیاء سے ممکن اور جائز ہے اور یہ فعل ا ن کی عصمت کے منا فی نہیں ہے۔ (یہی ترک اولیٰ ہے )

۲۔ سب سے اہم بات کلما ت قرآن کے صحیح معنوں پر توجہ کرنا ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہو اہے لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عربی لغت میں کلمات قرآن کے کیا معنی ہیں ؟لیکن افسوس کی بات ہے کہ بسا اوقات ا س جانب غور نہ کرنے کے باعث قرآن کی آیتوں کے غلط معنی بیا ن کئے جاتے ہیں ۔

۳۔اہل بیت عصمت وطہارت کی قرآنی تفاسیر کا بغور مطالعہ کیاجائے اس میں غور وخوض کیا جائے کیونکہ وہی حقیقی مفسر قرآن ہیں ہم یہا ں پرا ن آیتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان آیتوں میں انبیاء کو گنہگار بتایا گیا ہے تاکہ اعتراض ختم ہو جا ئے (وعَصَیٰ آدمَ ربّہ فغویٰ)بعض نے اس آیة کا ترجمہ یو ں کیا ہے ،آدم نے اپنے رب کی معصیت کی او روہ گمراہ ہو گئے ۔ جبکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ، آدم نے رب کا اتباع نہیں کیا لہٰذا محروم ہو گئے، مرحوم طبرسی اس آیت کے ذیل میں مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ آدم نے اپنے رب کی مخالفت کی لہٰذا ثواب سے محروم رہے ۔

۱۲۸

یہاں معصیت سے مراد حکم الٰہی کی مخالفت ہے چاہے وہ حکم واجب ہو یا مستحب ،محدث قمی سفینة البحار میں لفط (عصم ) کے معنی علامہ مجلسی سے نقل کرتے ہیں '' ان ترک المُستحب وفعل المکروہ قد سُم ذنبا'' مستحب کو ترک کرنا اور فعل مکروہ کو انجام دینا کبھی کبھی گناہ ،ذنب ،اور عصیان کے معنی میں آتاہے ۔گذشتہ موضوع کو ثابت کرنے کے لئے لغت کی طرف رجوع کریں گے المنجد ( جوکہ ایک مشہو ر لغت ہے ) میں ہے کہ (عصیان ) اتباع نہ کرنے اور پیروی نہ کرنے کے معنی میں ہے ۔اسی طرح اغوی کے معنی (خاب ) یعنی محروم ہونے اور نقصان اٹھا نے کے ہیں اگر آدم وحوا کے قصہ کو دیکھا جائے توپتہ چلے گا کہ عصیان (عصی ) سے مراد حرام کام کرنا یاواجب کوچھوڑنا نہیں ہے ۔

آدم کا عصیان کیا تھا ؟

قرآن اس واقعہ کو یوں نقل کرتاہے کہ ہم نے آدم سے کہا کہ شیطان تمہا را اور تمہاری اہلیہ کا دشمن ہے لہٰذا کہیں وہ تمہیں جنت سے باہر نہ کرادے اور تم زحمت وتکلیف میں پڑجا ئو پھر شیطان نے آدم کو بہکا یا اور انھو ںنے اس درخت کا پھل کھا لیا ،نتیجہ میں جنت کے لبا س اتار لئے گئے کیو نکہ آدم کو اس درخت کا پھل کھانے سے منع کیاگیا تھا اور انھوں نے نافرمانی کی لہٰذا بہشتی نعمتوں

۱۲۹

سے محروم ہوگئے۔( ۱ )

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ جنت کاپھل کھا نے سے روکنا صرف نہی ارشادی تھا اور درخت کاپھل نہ کھانا ہمیشہ جنت میں رہنے کی شرط تھی لہٰذا مذکورہ آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ آدم کافعل گناہ نہیں تھا بلکہ اس کا نقصان جنت سے نکا لا جانااور دنیوی زندگی کی سختیاں تھیں ، اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر آدم کافعل گناہ نہیں تھا پھر توبہ کرنا (جیسا کہ اگلی آیتوں میں ذکر ہے ) کیا معنی رکھتا ہے ۔

جو اب میں کہیں گے کہ ہر چند (درخت کاپھل کھا نا) گناہ نہیں تھا لیکن چونکہ حضرت آدم نے نہی ارشادی کی مخالفت کی لہٰذا ان کا مقام خدا کے نزدیک کم ہوگیا اور آدم نے دوبارہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے توبہ کی اورخدا نے ان کی توبہ قبول کرلی۔

مامون نے جب جناب آدم کی معصیت کے بارے میں پوچھا تو امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا : ولم یک ذلک بذنب کبیر یستحق بہ دخول

____________________

(۱) سورہ طہ آیة: ۱۱۶ تا ۱۲۱

۱۳۰

النّار واِن کان من الصغائر الموهوبة التی تجوز علیٰ الأنبیاء قبلَ نزول الوحیِ علیهم ( ۱ ) جو کام آدم نے انجام دیا وہ گناہ کبیرہ نہیں تھا جس کے باعث جہنم کے مستحق ہوجائیں بلکہ ایک معمولی سا ترک اولی تھا جو معاف ہو گیا اور انبیاء نزول وحی سے قبل ایسے کام کرسکتے ہیں۔

ظلم کیا ہے اور غفران کے کیا معنی ہیں ؟

(قالَ رَبِّ اِنِّیِ ظَلَمتُ نَفس فاغفِرلِی )( ۲ ) خدا یا میں نے اپنے نفس کی خاطر مصیبت مول لی، لہٰذا معاف کردے ان مقامات میں سے ایک یہ بھی ہے جہا ں اس با ت کا گمان کیاگیا ہے کہ قرآن نے انبیاء پر گنا ہ کاالزام لگا یا ہے یہ آیت جنا ب موسی کے واقعہ سے مربوط ہے جب قبطی (فرعون کے ساتھی ) کو قتل کر دیا تھا تو کہا ،رَبِّ ِانِّی ظَلَمتُ نَفسیِ المنجد نے لکھا ہے کہ (الظلم وضع الشیء فی غیر محله )ظلم یعنی کسی شی ٔ کو ایسی جگہ قرار دینا جو اس کا مقام نہ ہو (کسی فعل کاغیر مناسب وقت پر انجام دینا ) اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ عمل صحیح ہو او ر بے محل انجام پائے یا عمل غلط اور حرام ہو لہٰذا ہر ظلم حرام نہیں ہے ۔

المنجد میں غفر کے معنی لکھے ہیں ،غَفَر الشیٔ غطّاه وستره ) غفر اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی شی ٔ چھپا ئی ہواو رمخفی کی گئی ہواس لئے اس کے معنی یو ں ہوں گے موسی نے کہا ،اے پرور دگا ر !میں نے فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کر

____________________

(۱) تفسیر برہان ج۳، ص ۴۶

(۲)سورہ قصص آیة: ۱۶

۱۳۱

کے بیجا فعل انجام دیا گوکہ ہمارے لئے اس کا قتل جائز تھا لیکن ابھی اس کاوقت نہیں تھا لہٰذا (فاغفرلی) اے خدا ہمارے اس کام پر پردہ ڈال دے تاکہ میرے دشمن میری گرفتاری پر کامیا ب نہ ہو سکیں ۔تو ایسی صورت میں گناہ ،ظلم یا حرام کام کی نسبت موسی کی جانب نہیں دی گئی ہے ۔

مامون نے مذکورہ آیت او رظلم کے معنی کے سلسلہ میں پوچھا تو امام رضاں نے فرمایا:اِنّی وضَعتُ نفسیِ فی غیر موضعها بدخول هذه المدینة فَاغفرلیِ أیِ أستّرلیِ من أعدائک لئلا یظفروابی فیقتلونی ۔ موسیٰ نے خد ا سے عرض کی ،میں نے اس شہر میں داخل ہو کر (اور فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کرکے ) بے محل کام انجام دیا لہٰذا (فاغفرلی) مجھے اپنے دشمنو ں کی نگا ہو ں سے مخفی کردے مبادا ہم کو گرفتار کر کے قتل کردیں ۔

نتیجہ: ظلم اور غفران کے معنی کلی ہیں نہ کہ وہ خاص معنی جو ان الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں لہٰذا یہ آیة بھی عصمت کے منا فی نہیں ہے ۔

سوالا ت

۱۔قران نے انبیاء پر گناہ کی تہمت نہیں لگا ئی اس کو سمجھنے کے لئے کن نکات کیجانب توجہ ضروری ہے ؟

۲۔ عصی آدم ربہ فغوی سے کیا مراد ہے ؟

۳۔ ظلمت نفسی فاغفرلی کا کیا مطلب ہے ؟

۱۳۲

بیسواں سبق

نبو ت عامہ (چھٹی فصل )

سورہ فتح میں ذنب سے کیا مراد ہے ؟

( اِنَّا فَتحَنا لَک فَتحاً مُبیناً لِیَغفَرلَک اللّهَ مَا تَقدَّمَ مِن ذَنبِک وَمَا تأخَّرَ ) ( ۱ ) بیشک ہم نے آپ کوکھلی ہو ئی فتح عطا کی تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کر دے ۔

یہ انہیں مقامات میں سے ہے جہاں یہ خیال کیاجاتا ہے کہ خدا نے رسول اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو گنہگا ر گردانا ہے اور پھر معاف کردیاہے ۔

یہاں بھی '' ذنب''''غفران'' کے صحیح معنی کی طرف دھیان نہیں دیا گیا ہے قابل افسو س مقام ہے کہ اصلی معنی سے غفلت برتی گئی ہے ۔

عربی لغات نے ''ذنب '' کے اصلی معنی اور مفہو م کلی سے مراد پیچھا کرنے والا اور آثار لیا ہے ،یعنی نتیجہ اور اس کا رد عمل مراد ہے المنجد میں ''ذَنبَ ذَنباً تبعه فلم یُفارق أثره'' ذنب کہتے ہیں اس عمل کے نتیجہ او ر آثار کو جواس سے الگ نہیں ہوتا

____________________

(۱) سورہ فتح آیة: ۱

۱۳۳

اور گناہ کو ذنب اس لئے کہاجاتا ہے چونکہ گناہ نامناسب عمل اور اس کے آثار و نتیجہ کی بنا پر وجودمیں آتاہے ۔

اس معنی کے ذریعہ جو غفران کے لئے پہلے بیان کئے گئے ہیں اس آیة کا مفہوم واضح ہو جا تا ہے مزید وضاحت کے لئے اس حدیث کی جانب توجہ فرمائیں ۔

امام رضا ںنے مذکو رہ آیة کی توضیح میں فرمایا: مشرکین مکہ کی نظر میں پیغمبر سے بڑا کوئی گنہگار نہیں تھا چونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خاندان والوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی تھی ، اس وقت ان کے پاس ۳۶۰ بت تھے اور وہ انھیں کی پرستش کرتے تھے، جب نبی نے ان کو وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دی تویہ بات ان کو سخت نا گوار گذری اور کہنے لگے کیا ان تمام خدائوں کو ایک خدا قرار دے سکتے ہیں ،یہ تعجب کی بات ہے ہم نے اب تک ایسی بات نہیں سنی تھی لہٰذا یہا ں سے چلو او راپنے بتوں کی عبادت پر قائم رہو ۔

جب خدانے اپنے رسول کے ذریعہ مکہ فتح کیا تو ان سے فرمایا ؛( اِنَّا فَتحَنا لَکَٔ فَتحَاً ) بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہو ئی فتح عطاکی تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے جو مشرکین آپ پر وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دینے کی بنا پر عائد کرتے ہیں چونکہ فتح مکہ کے بعد کافی لوگ مسلمان ہوگئے اوربعض بھاگ نکلے اورجوبچ گئے تھے ان کی ہمت نہیں تھی کی خدا کی وحدانیت کے خلاف لب کھول سکیں مکہ کے لوگ جوگناہ اور ذنب کا الزام لگا رہے تھ

۱۳۴

ے وہ پیغمبر اسلام کی فتح اور ان پر غلبہ نے چھپا دیا اورسب ساکت ہوگئے۔( ۱ )

انبیاء او رتاریخ

قرآن کی رو سے انسانی تاریخ اور وحی ونبوت کی تاریخ ایک ہے اور جس وقت سے انسان کی تخلیق ہوئی اسی وقت سے وحی بھی اس کی ارتقاء وسعادت کی خاطر موجود رہی ہے( واِنَّ مِنْ أُمةٍ اِلَّاخَلَا فِیها نَذِیرُ ) ( ۲ ) اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو ۔

مولا ئے کا ئنات نے فرمایا: ولم یخل اللّہ سبحانہ خلقہ من نَبیِّ مُرسل أوکتاب مُنزل أوحجّة لازمةُ اومحجّة قائمة( ۳ ) خدانے کبھی بھی انسان کو تنہا نہیں چھو ڑا پیغمبر یاآسمانی کتاب ،واضح دلیل یا صراط مستقیم کوئی نہ کوئی ضرور تھا ۔

مولا نے خطبہ ۹۳ میں فرمایا ۔کُلّما مضیٰ منهم سلف قام منهم بدین اللّه خلف حتیٰ أفضت کرامة اللّه سبحانه تعالیٰ اِلیٰ محمد صلی اللّه علیه وآله وسلم ۔''جب کبھی کسی پیغمبر کی رسالت تمام ہوتی تھی اور اس دنیا سے کوچ کرتاتھا دوسرا نبی خدا کے دین کوبیان کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو تا تھا اوریہ سنت الٰہی اسی طرح چلتی رہی یہاں تک لطف خدا وندی پیغمبر اسلام کے شامل حال ہوئی''۔

انبیاء کی تعداد

عن أبی جعفر قال :قال رسول اللّٰه کان عدد جمیع الأنبیاء

____________________

(۱) تفسیر برہان ج، ۴ ص ۱۹۳

(۲) سورہ فاطر آیة :۲۴

(۳) نہج البلا غہ خطبہ ۱

۱۳۵

مائة الف نبیِّ وأربعة وعشرون ألف نبیِّ خمسة منهم أولوا العزم: نوح و ابراهیم وموسیٰ وعیسیٰ ومحمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''

امام باقر سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کی کل انبیاء کی تعداد ایک لاکھ جو بیس ہزار ہے اور ان میں سے پانچ اولوالعزم ہیں ۔نوح ،ابراہیم موسی ، عیسی ، اورمحمد عربی ۔اسی مضمون کی دوسری حدیث بحار کی گیا رہویں جلد میں بھی ہے( ۱ )

قرآنی رو سے تمام انبیاء پر ایما ن لانا ضروری اور لازم ہے ۔

( قُولُوا آمَنّا باللّهِ وَمَا أُنزِلَ اِلَینَا وَمَا أُنزِلَ اِلیٰ ِابراهیمَ وَاِسمَاعیلَ واِسحٰقَ ویَعقُوبَ وَالأسباطِ وَمَا أوتِی مُوسیٰ وعیسیٰ و مَا أوتِی النبیُّون من رَبِّهم لا نُفرِقُ بَینَ أحِدٍ مِنهُم وَنَحنُ لَهُ مُسلِمُون ) ( ۲ )

اور مسلمانو ں تم ان سے کہدو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے ہماری طرف بھیجا ہے اور جو ابراہیم ،اسماعیل واسحاق ویعقوب اور اولا د یعقوب کی طرف نازل کیاہے اور جو موسی ،عیسیٰ اور دیگر انبیاء کو پر وردگار کی جانب سے دیا گیا ہے، ان سب پر ایما ن لے آئے ہیں، ہم پیغمبروں میں تفریق نہیں کرتے اور ہم خدا کے سچے مسلمان ہیں۔

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۱

(۲) بقرہ آیة: ۱۳۶

۱۳۶

سوالات

۱۔ سورہ فتح کی پہلی آیة میں ذنب اور غفران سے کیا مراد ہے۔ ؟

۲۔ پیغمبروں کی تعداد او ر اوالعزم رسولو ں کے نام بتائیں ۔؟

۱۳۷

اکیسواں سبق

نبوت خاصہ (پہلی فصل )

نبوت خاصہ اور بعثت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

چودہ سو سال پہلے ۱۰ ۶ ھ میں جب شرک وبت پرستی نے پوری دنیا کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا او رمظلوم افراد ظالم حکمرانوں کے شکنجو ں میں بے بسی سے ہاتھ پیر ماررہے تھے اور سبھی لوگ ناامید ی کے سائے میں زندگی گذار رہے تھے ایک شریف خاندان سے شرافت و طہارت کا ایک پیکر اٹھاجس نے مظلو موں کی حمایت کی ،عدالت وآزادی کا نعرہ بلند کیا ،اسیروں کے زنجیروں کی گرہوں کو کھولا، علم وتربیت کی جانب لوگو ں کو دعوت دی ،اپنی رسالت کی بنیاد فرمان ووحی الٰہی کو قرار دیتے ہو ئے خود کو خاتم الا نبیاء کے نام سے پہنچوایا ۔

وہ محمد بن عبد اللہ خاندان بنی ہاشم کا چشم و چراغ ہا ں وہی قبیلہ بنی ہاشم جو شجاعت، شہا مت ،سخاوت ،طہارت ،اصالت میں تمام قبائل عرب میں مشہور تھا وہ ہمالیائی عظم واستقلا ل کا پیکر جس کی لیاقت اور روحی کمال کی حد درجہ بلندی کی پوری دنیا کے مورخو ں چاہے دوست ہو ں یا دشمن سب نے گواہی دی ہے اعلا ن رسالت سے قبل ان کی چالیس سالہ زندگی سب کے سامنے آئینہ کی طرح شفاف و بے داغ تھی، اس نامساعد حالات اور جزیرة العرب کی تاریکیوں کے باوجود پیغمبر اسلا م کی فضیلت کا ہر باب زبان زد خاص وعام تھا، لوگوں کے نزدیک اس قدر بھروسہ مند تھے کے سب آپ کو محمد امین کے نام سے جانتے تھے ،خدا کا کروروں سلام ان پر اور ان کی آل پاک پر ۔

۱۳۸

رسالت پیغمبر پر دلیلیں

انبیاء کی شناخت کے لئے جتنے اصول وقوانین بتائے گئے ہیں، سب آنحضرت کی رسالت پر مدلل ثبوت ہیں (یعنی معجزہ ،گذشتہ نبی کی پیشین گو ئی ،شواہد قرآئن ) تاریخ ،قرائن وشواہد رسول کی رسالت کے ،او ربعثت پر گواہ ہے ۔

گذشتہ انبیاء کے صحیفے پیغمبر اسلا م کی بعثت کی بشارت دے چکے ہیں ، لیکن پیغمبر کے معجزات دوطرح کے ہیں ۔

پہلی قسم ان معجزات کی ہے جوکسی خاص شخص یا گروہ کی درخواست پر آنحضرت نے خد اسے طلب کیا اور وہ معجزہ آپ کے ہاتھوں رونما ہوا جیسے درخت اورسنگریزوں کا سلام کرنا دریائی جانور کاآپ کی رسالت کی گواہی دینا شق القمر( چاند کے دوٹکڑے کرنا ) مردوں کو زندہ کرنا ،غیب کی خبر دینا ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ چار ہزار چار سو چالیس معجزے رسول اکرم کے تھے جن میں سے صرف تین ہزار معجزوں کاذکر ملتاہے ۔

قرآن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دائمی معجزہ

دوسری قسم : قرآن رسول اکرم کاابدی معجزہ ہے جو ہر زمانے اورہر جگہ کے لئے قیامت تک معجزہ ہے ،رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبیاء کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ ان سب کی رسالت محدود تھی وہ کسی خاص گروہ یا محدود امت کے لئے مبعوث ہو ئے تھے ،بعض محدود ومکان اور محدود زمانے میں تھے اگر ان میں سے بعض مکانی لحاظ سے محدود نہیں تھے توا ن کی رسالت ایک زمانے تک محدود تھی اور وہ دائمی رسالت کے دعویدار بھی نہیں تھے ،اسی لئے ان کے معجزے بھی فصلی اور وقتی تھے، لیکن چونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت ابدی اور عالمی ہے اس لئے ان کے عصری اور وقتی معجزے کے علاوہ دائمی معجزہ (قرآن )بھی ہے جو ہمیشہ کے لئے ہے اور ہمیشہ ان کی رسالت پر گواہ ہے۔

۱۳۹

نتیجہ : قرآن کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ:

۱۔ اس نے زمان ومکان کی سرحدوں کی ختم کردیا او رقیامت تک معجزہ ہے ۔

۲۔ قرآن روحانی معجزہ ہے یعنی دوسرے معجزے اعضاء بد ن کو قانع کرتے ہیں لیکن قرآن ایک بولتا ہوامعجزہ ہے جوڈیڑھ ہزار سال سے اپنے مخالفو ں کوجواب کی دعوت دیتا آرہاہے اورکہہ رہا ہے اگرتم سے ممکن ہوتومجھ جیسا سورہ لاکر بتاؤ اور چودہ سوسال اس چیلنج کو گذر رہے ہیں مگر آج تک کوئی اس کو جواب نہ لا سکا اورنہ ہی صبح قیامت تک لاس کے گا ۔

( قُلْ لَئِن اجتَمَعَتِ النسُ والجِنُّ علیٰ أَن یَأتوا بِمثلِ هذا القُرآن لایأتُونَ بِمِثلِه وَلَوکَانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهِیراً ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان وجنات اس بات پر متفق ہوجا ئیں کہ اس قرآن کامثل لے آئیں توبھی نہیں لا سکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پنا ہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔

دوسرے مقام پر ان کے مقابلہ کی ناکامی کو چیلنچ کرتے ہو ئے فرمایا :اگر یہ دعوی میں سچے ہیں توان سے کہہ دیجئے اس کے جیسے دس سورہ تم بھی لے آئو( ۲ ) تیسرے مقام پہ ارشاد ہو ا( واِنْ کُنتُم فِی رَیبٍ مِمَّا نَزَّلنَا علیٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورةٍ مِن مِثلهِ وَ ادعُوا شُهدائَ کُم مِن دُونِ اللّهِ اِن کُنتُم صَادِقیِن ) ( ۳ )

''اگرتمہیں اس کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آئو اور اللہ کے سوا جتنے تمہا رے مدد گار ہیں سب کوبلا لو اگر تم اپنے دعوی او رخیال میں سچے ہو'' ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ وہ ایک سورے کابھی جواب لانے سے عاجز ہیں ۔

یہ بالکل واضح اور روشن سی بات ہے کہ اگر اس وقت کے فصحاء اور بلغا ء قرآن کے ایک بھی سورہ کا جواب لانے کی صلا حیت رکھتے ہوتے تو پھر پیغمبر اورمسلمانوں کے خلا ف اتنی جنگیں نہ لڑتے بلکہ اسی سورہ کے ذریعہ اسلا م کے مقابلہ میں آتے

____________________

(۱) سورہ اسراء آیة: ۸۸

(۲)سورہ بقرہ آیة :۲۳

(۳) سورہ ھو د آیة:۱۳

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

1140۔ امام علی (ع): میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں، انہیں خدا نے مشہور دین کےساتھ بھیجا...یہ بعثت اسوقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمانِ دین ٹوٹ چکی تھی، یقین کے ستون ہل گئے تھے، اصول میں شدید اختلاف تھا، اور امور میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے، ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام، رحمن کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہو گیا تھا، اسکے ستون گرگئے تھے اور آثارناقابل شناخت ہوگئے تھے، راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں، لو گ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموںپر وارد ہو رہے تھے۔انہیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اسکے علم سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوںنے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا، اورخود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے، یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے، پروردگار نے انہیں اس گھر( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسایہ، جنکی نیندیں بیداری تھیں اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سرزمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا۔

1141۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں اور حضرت محمد(ص) اسکے بندہ اور رسول ہیں، اس کے منتخب و مصطفیٰ ہیں، انکے فضل کا کوئی مقابلہ نہیںکر سکتا ہے، اور نہ انکے فقدان کی تلافی، انکی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی، جہالت کے غلبہ اور بدسرشتی و بد اخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال اور صاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے، رسولوں سے خالی دور میں زندگی گذار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے، منور اور روشن ہو گئے۔

1142۔ امام علی (ع):(خدا وند متعال) نے آنحضرؐت کو مبعوث کیا اور اے گروہ عرب ! تم بدترین حالت میں تھے، تم میں سے بعض کتوں کو اپنی غذا بناتے تھے، اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے ،دوستوں کو غارت کرتے تھے اور جب پلٹے تھے تو دوسرے انہیں غارت کر چکے ہوتے تھے، تم لوگ حنظل و اندرائن کے دانے ، خون اور مردار کھاتے تھے، تمہاری بود و باش نا ہموار پتھروں اور گمراہ کرنے والے بتوں کے درمیان تھی، تم بد ذائقہ کھانا کھاتے اور بد مزہ پانی پیتے تھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے اور ایک دوسرے کو اسیر کرتے تھے۔

۲۰۱

1143۔ امام علی (ع): یہ آپکے اس خط کا ایک حصہ ہے جو آپ نے محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد اپنے بعض اصحاب کو لکھا تھا۔ یقینا اللہ نے آنحضرؐت کو عالمین کےلئے عذاب الہی سے ڈرانے والا، تنزیل کا امانتدار اور اس امت کا گواہ بنا کر اسوقت بھیجا ہے، جب تم گروہ عرب ،بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے، نا ہموار پتھروں، زہریلے سانپوں اور خار مغیلاںکے درمیان بود و باش رکھتے تھے بد مزہ پانی پیتے اور بدذائقہ کھانا کھاتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور اپنے قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے کھاتے تھے، تمہارے راستے پر خطر تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے( اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے) اور ان میں سے اکثر کا خدا پر ایمان شرک سے مخلوط تھا۔

1144۔ امام علی (ع): نے ۔گذشتہ امتوں سے عبرت و نصیحت اور مغرور و گنہگار سے بچنے کے متعلق فرمایا: اب تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق و اسرائیل(یعقوب) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کسقدر ملتے ہوئے اور کیفیات کسقدر یکساںہیں، دیکھو انکے انتشار و افتراق کے دور میں انکا کیا عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ انکے ارباب بن گئے تھے، اور انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے نکال کر خار دار جھاڑیوں اور آندھیوں کی بے روک گذر گاہوں اورمعیشت کی دشوار گذار منزلوں تک پہنچ کر اس عالم میں چھوڑ دیاتھا کہ وہ فقیر و نادار، اونٹوں کی پشت پر چلنے والے اور بالوں کے خیموں میں قیام کرنے والے ہو گئے تھے، گھر بار کے اعتبار سے تمام قوموں سے زیادہ ذلیل اور جگہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ خشک سالیوں کا شکار تھے، نہ ان کی آواز تھی جنکی پناہ لیکر اپنا تحفظ کر سکیں اور نہ کوئی الفت کا سایہ تھا جس کی طاقت پر بھروسہ کر سکیں ، حالات مضطرب، طاقتیں منتشر، کثرت میں انتشار، بلائیں سخت، جہالت کا دور دورہ، زندہ در گور بیٹیاں، پتھر پر ستش کے قابل، رشتہ داریاں ٹوٹی ہوئی اور چاروں طرف سے حملوں کی یلغار۔

۲۰۲

اس کے بعد دیکھو کہ پروردگار نے ان پر کس قدر احسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا ، جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنا یا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا اور اس کے نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال و پر پھلا دئےے اور راحتوں کے دریا بہا دئےے، شریعت نے انہیں اپنی برکتوں کے بیش قیمت فوائد میں لپیٹ لیا، وہ نعمتوں میں غرق ہو گئے اور زندگی کی شادابیوں میںمزے اڑانے لگے، ایک مضبوط حاکم کے زیر سایہ حالات ساز گار ہوگئے اور حالات نے غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دلوا دی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پر دنیا و دین کی سعادتیں انکی طرف جھک پڑیں، و ہ عالمین کے حکام ہو گئے اور اطراف زمین کے بادشاہ شمار ہونے لگے جو کل انکے امور کے مالک تھے آج وہ انکے امور کے مالک ہو گئے اور اپنے احکام ان پر نافذ کرنے لگے جو کل اپنے احکام ان پر نافذ کر رہے تھے کہ اب نہ انکا دم خم نکالا جا سکتا تھا اور نہ انکا زور ہی توڑا جا سکتا تھا دیکھو تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے چھڑا لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔

1145۔ : فاطمۃ ؑ: نے۔ وفات پیغمبر کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: تم لوگ آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے، پینے والوںکے لئے پانی ملا دودھ کا گھونٹ ، حریص کی فرصت اور اس شخص کے مانند تھے جو گھر میں داخل ہو اور صرف آگ لینے تک ٹھہرے، اور دوسروں کے پیروں تلے کچلے جا رہے تھے ، گدلا پانی پیتے تھے اور گوسفند کی کھال تمہاری غذائیں تھیں، ذلیل و پست تھے، اورخوف لا حق رہتا تھا کہ کہیں لوگ اطراف سے تمہیں اچک نہ لے جائیں ۔ پس اللہ نے تمہیں میرے باپ محمد(ص)کے ذریعہ نجات بخشی۔

۲۰۳

1146۔ اما م ہادی ؑ: نے۔ اپنے خطبہ میں فرمایا: حمد اس اللہ کے لئے ہے جو ہر موجود سے آگاہ ہے قبل اس کے کہ اسکی مخلوق میں سے کسی کا اسکی گردن پر قرض ہو... اور بیشک محمد(ص) اس کے بندہ اس کے برگزیدہ رسول اور پسندیدہ دوست ہیں اور ہدایت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ہیں۔ اور انہیں رسولوں سے خالی عہد، امتوں کے اختلاف ، راستوں کے انقطاع، حکمت کی بوسیدگی اور نشانات ہدایت و شواہد کے محو ہونے کے زمانہ میں بھیجا ہے ۔ انہوںنے رسالت پروردگار کو پہنچایا۔ اور اس کے حکم کو واضح کیا۔ اور ان پر جوفریضہ تھا اس کو انجام دیا اور جب وفات پائی تو محمود و پسندیدہ تھے۔

جاہلیت کے متعلق کچھ باتیں

قرآن نے ظہور اسلام سے پہلے والے زمانہ کو جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ اس وقت علم کے بجائے جہالت، حق کے بجائے ہر چیز میں خلاف حق اور احمقانہ رائے کا دور دورہ تھا قرآن نے ان کی خصوصایت کو اس طرح بیان کیا ہے:

(یظنون باﷲ غیر الحق ظن الجاهلیة)

وہ لوگ خدا کے متعلق خلاف حق جاہلیت جیسے خیالات رکھتے تھے۔

اور فرمایا(افحکم الجاهلیة یبغون)

کیایہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں فرمایا:( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبهم الحمیة حمیة الجالیة)

یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی۔

نیز فرماتا ہے:(ولا تبر جن تبرج الجاهلیة الاولیٰ)

اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو۔

۲۰۴

اس وقت عرب معاشرہ کے جنوب میں حبشہ کہ جہاں کے باشندوں کا مذہب نصرانی تھا، اور مغرب میں حکومتِ روم تھی کہ جسکا مذہب نصرانی تھاشمال میں ایران جسکا مذہب مجوسی تھا اور دوسرے اطراف میں ہندوستان اور مصر ایسے بت پرست ممالک واقع تھے۔

خود عرب کے درمیان یہودیوں کے چند گروہ آباد تھے، خود عرب بت پرست تھے، اکثرلوگ قبیلوں میں زندگی بسر کرتے تھے یہ تمام چیزیں اس چیز کی باعث ہوئیں کہ ایک بے بنیادبادیہ نشیں معاشرہ وجود میں آجائے کہ جو یہود و نصاریٰ اور مجوس کے آداب و رسوم سے مخلوط ہو، لوگ جہالت و نادانی اور مکمل بے خبری میں زندگی بسر کر رہے تھے۔خدا انکے بارے میں اس طرح فرمایا:

(ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اﷲ ان یتبعون الا الظن و ان هم الا یخرصون)

اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے اور یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

یہ صحرا نورد قبائل بہت پست زندگی گذارتے تھے؛ مسلسل جنگ و غارت گری ، لوٹ مار ایک دوسرے کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے، ان میں کسی طرح کا امن و امان ، امانتداری اور صلح و آشتی نہ تھی، اسی کی چودھراہٹ و حکمرانی ہوتی جو ان میں نہایت سرکش و قدرتمند ہوتا تھا۔

ان کے درمیان مردوںکی فضیلت خونریزی، جاہلیت کی ضد، کبر و غرور، ظالموں کا اتباع، مظلوموں کا حق پامال کرنا، آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی، نفسہ نفسی، جوا کھیلنا شرابخوری، زنا کاری، مردار و خون اور کھجوروںکا بیج کھانا، تھی۔

لیکن ان کی عورتیں انسانی حقوق سے محروم تھیں، وہ خود مختار اور صاحب ارادہ نہیں ہوتی تھیں انہیں اپنے کسی کام میںکوئی اختیار نہیںہوتا تھا، یہاں تک کہ وراثت کی بھی مالک نہیںہوتی تھیں اور مرد بغیر کسی قید و بند کے ان سے شادیا ںکرتے تھے جیسا کہ بعض یہودی اور بت پرستوںکی عاد ت تھی۔ در عین حال عورتیں بھی خود کو آراستہ اور بناؤ سنگار کرکے جس کوچاہتی تھیں اپنے پاس بلا لیتی تھیں، زنا و بے حیائی ان میں عام تھی یہاں تک کہ شادی شدہ عورتیں بھی زنا کا ارتکاب کرتی تھیں اور بسا اوقات عریاں حج کے لئے آتی تھیں۔

۲۰۵

لیکن ان کی اولاد باپ سے منسوب ہوتی تھی، لیکن بچپن میں وراثت سے محروم ہوتی تھی، صرف بڑی اولاد کو میراث کے تصرف کا حق ہوتا تھا، منجملہ ان کی میراث متوفیٰ کی بیوہ ہوتی تھی، بطور کلی لڑکیاں چاہے چھو ٹی ہوں یا بڑی اور چھوٹے لڑکے میراث کا حق نہیں رکھتے تھے، مگر جب کوئی شخص مرتا اور کوئی کمسن بچہ چھوڑ کر جاتا تو سر غنہ قسم کے افراد زبردستی اس کے اموال کے سر پرست بن کر اس کے اموال کو کھاجاتے تھے، اور اگر یہ یتیم بچی ہوتی تو اس کے ساتھ شادی کرتے اور اس کے اموال کوچٹ کر جانے کے بعد اس کو طلاق دیکرنکال دیتے تھے اس صورت میں اس بچی کے پاس نہ مال ہوتا تھا کہ جس سے زندگی گذار سکے اور نہ ہی کوئی اس سے شادی کے لئے تیار ہوتا تھا کہ اس کے اخراجات کا ذمہ دار بنے۔

ان کے درمیان یتیموں کامال غصب کرنا عظیم ترین حادثہ تھا، تا ہم وہ ہمیشہ جنگ و جدال اور غارت گری میں مبتلا رہا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں قتل و خونریزی زیادہ ہوتی تھی لہذا بے سر پرست یتیموںکے حادثات اور رونما ہوتے تھے۔

ان کی اولاد کی عظیم بدبختی و شقاوت کا سبب یہ تھا کہ وہ بنجر اور نا ہموار زمینوں میں آباد تھے جو بہت جلد قحط کا شکار ہو جایا کرتی تھیں، لہذا فقر و ناداری کے خوف سے وہ اپنے بیٹوں کو قتل اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، ان کے لئے سب سے زیادہ ناگوار اور دردناک خبر ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تھی۔

اگرچہ جزیرہ نما عرب کے اطراف میں کچھ بادشاہ حکومت کرتے تھے اور یہ عرب والے انہیں بادشاہوں میں سے اپنے سے قریب اور طاقتور بادشاہ کی زیر حمایت زندگی گذارتے تھے ۔ جیسے ایران شمال کی سمت میں ، روم مغرب کی سمت میںاور حبشہ مشرق کے اطراف میں آباد تھے مگر یہ کہ مرکزی شہر جیسے مکہ ، یثرت اور طائف وغیرہ ایسی کیفیت میں تھے کہ جو جمہوریت کے مثل تھے لیکن جمہوری نہیں تھے اور قبائل صحراؤں میں اور کبھی کبھار شہروں میں زندگی گذارتے تھے اور رؤساء اور بزرگان قبیلہ کے ذریعہ ان کی کفالت ہوتی تھی اور کبھی یہ کیفیت بادشاہی حکومت میں تبدیل ہو جاتی تھی۔

۲۰۶

یہ عجیب ہرج و مرج ان میں سے ہر گروہ میں ایک خاص صورت میں نمایاںتھا، اورجزیرہ نما عرب کی سرزمین کے ہر گوشے کا ہر گروہ عجیب و غریب آداب و رسوم اور باطل عقائد کا پابند تھا، اس سے قطع نظر وہ سب کے سب تعلیم و تعلم کے فقدان کی بلاء میں مبتلا تھے حتیٰ کہ شہر بھی چہ برسد عشائر و قبائل ۔

جو میں نے ان کے تمام حالات و کردار اور عادات و رسومات بیان کئے ہیں یہ ایسے امور ہیں جنہیں قرآن کی آیات اور ان ارشادات سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جن میں ان کا ذکر موجود ہے ۔

لہذاجوآیات پہلے مکہ میں پھر اسلام کے ظہور کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں کہ جن میں ان کے خصوصیات کا تجزیہ کیا گیا ہے، اسی طرح جن آیات میں ان کی شدید و معمولی سر زنش کی گئی ہے ان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ان مطالب کی سب سے بڑی سند ہے جو ہم نے بیان کئے ہیں نہایت مختصرجملہ جو ان تمام امور کو بخوبی ثابت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے اس زمانہ کو دور جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، فقط یہی مختصر سی تعبیر ان تمام معانی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، یہ تھی اس زمانہ میں عرب کی حالت۔

۲۰۷

6/2

دین جاہلیت

الف : غیر اللہ کی عبادت

قرآن

(اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر ایسے خدا بنالئے ہیں جو کسی بھی شی کے خالق نہیںہیں بلکہ خود ہی مخلوق ہیں اور خود اپنے بھی کسی نقصان یا نفع کے مالک نہیںہیں اور نہ انکے اختیار میں موت و حیات یا حشر و نشر ہی ہے)

ب: خدا کے لئے بیٹا قرار دینا

(اور ان لوگوں کو ڈراؤ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو اپنا فرزند بنا یا :اس سلسلہ میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ انکے باپ دادا کو یہ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے کہ یہ جھوٹ کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے)

(اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں جبکہ وہ پاک ہے اور یہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب انہیں کےلئے ہیں)

(کیا یہ تمہارے رب نے تم لوگوں کےلئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو)

(یا خدا کے لئے لڑکیاں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں)

(کیا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا ہے اور منات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے، تو کیاتمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاں ہیں یہ انتہائی ناانصافی کی تقسیم ہے)

۲۰۸

حدیث

1147۔ رسول خدا(ص): خدا نے فرمایا: فرزند آدم نے میری تکذیب کی، جبکہ اسکو یہ حق نہیں تھا اور مجھ کو گالی دی حالانکہ اس کےلئے یہ مناسب نہیں تھا، لیکن میری تکذیب اس لئے کی تھی کہ اسکا گمان تھا کہ وہ جسطرح دنیا میں ہے میں اسے اسی طرح نہیں پلٹا سکتا ہوں؛ اور اسکا مجھے گالی دینا اس لئے تھا کہ اس نے میرے لئے بیٹا قرار دیا۔ میں اس چیز سے منزہ ہوں کہ میرے لئے زوجہ اور بیٹا ہو۔

1148۔ مجاہد: کہ کفار قریش کہتے تھے: ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں بڑی پریوںکی بیٹیاں ہیں۔

1149۔ ابن عباس:نے اس آیت (اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں) کی تفسیر میںفرمایا:وہ لوگ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے تھے ، اور تم اس بات کو پسند کرتاتے ہو کہ میرے(خدا) یہاں لڑکیاں ہوں لیکن اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اسی لئے دور جاہلیت میں جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی تو اسے ذلت و حقارت کے ساتھ باقی رکھتے تھے یا زندہ در گور کر دیتے تھے۔

ج: جنات کو خداکا شریک قرار دینا

( اور انہوں نے جنات کو خداکا شریک بنایا حالانکہ خدا نے انہیںپیدا کیا ہے پھر اس کےلئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کر دی ہیں، جبکہ وہ بے نیاز اور انکے بیان کر دہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے )

(اور جس دن خدا سب کو جمع کریگا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہیں پر ایمان رکھتی تھی)

۲۰۹

د: خدا اور جنات کا رشتہ

(اور انہوںنے خدا و جنات کے درمیان بھی رشتہ قرار دے دیا حالانکہ جنات کو معلوم ہے کہ انہیں بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائےگا)

ھ: بعض چوپایوں کو حرام قرار دینا

(آپ کہہ دیجئے کہ خدا نے تمہارے لئے رزق نازل کیاتو تم نے اس میں بھی حلال و حرام بنانا شروع کر دیا تو کیا خدا نے تمہیں اسکی اجازت دی ہے یا تم خدا پر افتراء کر رہے ہو)

(لہذا اب تم اللہ کے دئےے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اسکی عبادت کرنے والے ہو تو اسکی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو اس نے تمہارے لئے صرف مردار، خون ، سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اسے حرام کر دیا ہے اور اس میں بھی اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہو جائے اور نہ بغاوت کرے ، نہ حد سے تجاوز کرے تو خدا بہت بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اسکی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر جھوٹا بہتان باندھنے والے ہو جاؤ گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے )

( اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی اچھوتی ہے اسے ان کے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیں جنکے بارے میں وہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیںجنکو ؟ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طرف دے رکھی ہے ، عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا اور کہتے ہیں کہ ان چوپایوں کے پیٹ میںجو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں پر حرام ہیں ہاں، اگر مردار ہوں تو سب شریک ہوں گے، عنقریب خدا ان بیانات کا بدلہ دیگا کہ وہ صاحب حکمت بھی ہے اور سب کا جاننے والا بھی ہے )

۲۱۰

( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا یہ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں)

1150۔ امام صادق(ع): جب اونٹنی بچہ دیتی ہے پھر اس کا بچہ بھی بچہ دے دے تو اس ناقہ کو بحیرہ کہتے ہیں۔

1151۔ امام صادق(ع): نے خدا کے اس قول( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا)کے بارے میں فرمایا: دور جاہلیت کے لوگ اس اونٹنی کو جو جوڑواں بچہ دیتی تھی وصیلہ کہتے تھے لہذا اس کا ذبح کرنااور کھانا ناجائز سمجھتے تھے، اور اگر دس بچے پیدا ہو جاتے تھے تو اس اونٹنی کو سائبہ کہتے تھے اس پر سواری کرنا اور اس کے کھانے کو حلال نہیں سمجھتے تھے اور حام وہ نرجانور ہے (جس کے ذریعہ مادہ کو حاملہ کراتے تھے) وہ اسے بھی حلال نہیںسمجھتے تھے، پھر خدا نے آیت نازل کی کہ ان میں سے کسی کو حرام نہیںکیا ہے ۔

وضاحت

اسلام سے قبل عرب کی بدترین جاہلیت کی بدولت ان کے رؤسا اور بزرگان کے استفادہ کے لئے زمین ہموار تھی اور دور جاہلیت کے سرکش و ظالم افراد رسولوں سے خالی دور میں دینی اور اجتماعی آداب و رسومات کے نام پر لوگوں کے پاکیزہ احساسات سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے اور اپنے منافع کے لئے کچھ بدعات و خرافت ایجاد کررکھی تھیں، ان میں کا ایک کہ جس کو تاریخ عمروبن لحی کے نام سے جانتی ہے اس نے اس وقت عرب کی اہمترین ثروت یعنی اونٹ کو اپنے اختیار میں لیا اور اس کے لئے کچھ احکام بنا کر مقدس رسم کی صورت میںپیش کیا۔

۲۱۱

اس بدعت کے نتیجہ میں ان کی در آمد اونٹ کی چار قسموں ، بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، اورحام ، میں منحصرہو گئی تھی اور تفسیروں میں کم و بیش اختلاف کے ساتھ اس سلسلہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ اور تمام تفسیروں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ ان چاروں اونٹوں کے لئے خود ساختہ احترام کے قائل تھے کہ دودھ، گوشت، اون، ا ن پر سواری کو اکثر کے لئے حرام اور بعض کے لئے منجملہ متولی اور بتوں کے خدمت گذاروںکے لئے حلال سمجھتے تھے۔

یہ بدعت ، عورتوںکے متعلق عرب کے حقارت آمیز نظریہ سے مل کر عورتوںکے لئے اس حکم کے مزید سخت ہونے کا باعث ہوئی؛ وہ یہ کہ عورتیں ان مذکورہ اونٹوں کا گوشت صرف مرنے کے بعد ہی کھا سکتی تھیں۔

اس کے علاوہ اس خیالی حرمت کے نتیجہ میں بتوںکے متولیوں اور خادموں کے لئے چراگاہوں ، پانی کے چشموں اور جزیرۃ العرب کے نایاب کنوؤں سے استفادہ کر ناجائز و مباح تھا۔ نیز اس چیز کابھی باعث ہوئی کہ وہ شکریہ کے طور پر یا اپنی حاجات کے پوری ہونے پر پتھر کے بتوں اور ان کے متولیوںکی خدمت میں نذرانہ پیش کریں۔

قرآن مجید مذکورہ چار آیات کے ذریعہ جاہلیت کے بدعات و خرافات سے برسرپیکار ہوا یعنی بت پرستوں ، اور ان کے خود ساختہ رسومات اور دعووں کو محض افتراء سے تعبیر کیا ہے ، متولیوں ،بت پرستوں، اور بت گروںکو بے نقاب کر دیا اور اعلان کیا کہ چوپایوں کا حرام یا حلا ل قرار دیناصرف خدائے سبحان کے اختیار میں ہے ، اور اس نے ان چار طرح کے حیوانات کو عرب کے عقیدئہ جاہلیت کے بر خلاف حرام نہیںجانا ہے ، فقط مردار اور وہ تمام چیزیں جو بتوں اور غیر خدا سے مربوط ہیں انہیں حرام قرار دیا ہے ۔

۲۱۲

و:خدا اور اصنام کے درمیان کھیتی اور چوپایوں کی تقسیم

قرآن

(اور ان لوگوں نے خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی میں اور جانوروںمیں اسکا حصہ بھی لگایا ہے اور یہ اعلان کیاہے کہ یہ انکے خیال کے مطابق خدا کےلئے ہے اور یہ ہمارے شریکوںکےلئے ہے ، اسکے بعد جو شرکاء کا حصہ ہے وہ خدا تک نہیں جاسکتا اور جو خدا کا حصہ ہے وہ انکے شریکوں تک پہنچ سکتاہے کس قدر بدترین فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں)

(اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی اچھوتی ہے اسے انکے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیںجنکے بارے میںوہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیں جنکو ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طر ف دے رکھی ہے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا)

( اور یہ ہمارے دئےے ہوئے رزق میں سے ان کا بھی حصہ قرار دیتے ہیں جنہیں جانتے بھی نہیں ہیں تو عنقریب تم سے تمہارے افتراء کے بارے میںبھی سوال کیا جائیگا)

۲۱۳

وضاحت

عقیدئہ جاہلیت (کہ بتوں کو خدا کا شرکاء قرار دیتے تھے) نے عرب کو اس چیز پر ابھارا کہ وہ اپنے خداؤں اور بتوںکےلئے بتکدہ بنائیں اور ان کے خدمت گذاروں اور متولیوں کے لئے معاش فراہم کریں، انہیں اپنی زندگی ، رزق اور مملکت میں شریک بنائیں اور اپنی عمدہ روت(زراعت و چوپائے) ان کے درمیان تقسیم کریں اور خدا کے حصہ کے ساتھ ان کا بھی حصہ قرار دیں۔ خدا کے حصہ کو عمومی مصارف جیسے مہمانوںکو کھانا کھلانے اور فقراء و مساکین کی مدد کرنے میں خرچ کرتے اور بتوںکے حصہ کو ان کے خدمت گذاروں کو عنایت کرتے تھے۔جب کبھی زراعت پر کوئی آفت آتی یا کم پیدوار ہوتی یا ان کا حصہ خدا کے حصہ سے مخلوط ہو جاتا تو یہ حریص و لالچی خدمت گذار اپنے مفاد کی خاطر دھوکا دھڑی سے کام لیتے اور کہتے (خدا بے نیازہے) لہذا وہ اپنا پورا حصہ بغیر کسی کم و کاست کے لے لےتے تھے اور اپنے حصوں کی کمی کا جبران خدا کے حصہ سے کرتے تھے اور کبھی بھی خدا کے حصہ کا جبران بتوں کے حصہ سے نہیں کرتے تھے محصول میںیہ کمی وزیادتی کبھی کبھار ان کی پہلے کی فریبکاریوںکی بنا پر ہوتی تھی؛ اور وہ یہ کہ جب سینچائی کے وقت خد اکے حصہ کے کھیتوں سے پانی بتوں کے کھیتوں میں جانے لگتا تھا تو وہ اس کو روکتے نہیں تھے، لیکن اس کے بر خلاف خداکے کھیتوں میں بتوںکے کھیتوں سے پانی نہیں جانے دیتے تھے۔ اسی طرح یہ فرسودہ رسم چوپایوںمیں بھی تقسیم و شراکت کے اعتبار سے بر قرار تھی کہ جس کی طرف گذشتہ فصل میں اشارہ ہو چکاہے ۔ملاحظہ کریں:تفسیر مجمع المبیان : 4/571، تفسیر قمی: 1/217، تفسیر طبری : 5، جزء 8/40 تفسیر در منثور:3،362، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام:6 /193

۲۱۴

ز: عریاں طواف

1152۔ امام صادق(ع): زمانہ جاہلیت میں عرب کے گروہ تھے : حل اور حمس۔ حمس قریش تھے۔ اور حل تمام عرب تھے حل میں سے کوئی فرد ایسی نہیںتھی جو حمس کی پناہ میں نہ ہوتی اور جو حمس کی پناہ میں نہیں ہوتا تھا وہ عریاں طواف کرتاتھا۔

رسول خدا(ص) عیاض بن حمار مجاشعی کو پناہ دیتے تھے ، عیاض عظیم المرتبت انسان تھا اور جاہلیت میں اہل عکاظ کا قاضی تھا، وہ جب بھی مکہ وارد ہوتا ، اپنے گناہ آلود لباس کو اتار دیتا اور چونکہ پیغمبر کا لباس پاک و پاکیزہ ہوتا تھا لہذآنحضرت کا لباس پہن کرطواف کرتا تھا، اور طواف کے بعد آپکا لباس واپس دے دیتا تھا۔جب پیغمبرؐ مبعوث برسالت ہوئے تو عیاض آپ کے لئے ایک ہدیہ لیکر آیا، لیکن نبیؐ نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا: اے عیاض! اگر مسلمان ہو جاؤگے تو تمہارا ہدیہ قبول کرونگا؛ یقینا خدا مشرکوں کی داد و دہش کو میرے لئے پسند نہیںکرتا، پھر اس کے بعد عیاض نے اسلام قبول کیا اور اس کا اسلام قابل تحسین ہوا۔ اور رسول خدا کے لئے ہدیہ لیکر آیا اور آپ نے اس کو قبول فرمایا۔

1153۔ امام صادق(ع): عرب کے درمیان یہ رائج تھا کہ جو بھی مکہ میں وارد ہوتا اور اپنے لباس میں طواف کرتااس کے لئے جائز نہ تھاکہ وہ اپنے لباس کو باقی رکھتا اور اسے دو بارہ پہنتا بلکہ وہ اسے صدقہ دے دیا کرتاتھا۔

؛ لہذا جب وہ لوگ مکہ میں داخل ہوتے تھے تو عاریتاً کسی سے لباس لیکر طواف کرتے پھر واپس کر دیتے تھے، اگر عاریتاً لباس نہیںملتا تھا تو کرایہ پر لیتے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتا اور ان کے پاس فقط ایک ہی لباس ہوتا تھا تو وہ برہنہ طواف کرتے تھے۔

لہذا عرب کی ایک حسین و جمیل عورت وارد مکہ ہوئی لیکن عاریت اور کرایہ پر کوئی لباس نہ مل سکا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اگر تونے اپنے اس لباس میں طواف کیا تو اس کو تجھے صدقہ دینا ہوگا، عورت نے کہا: کیونکر صدقہ دوں گی جبکہ میرے پاس اس کے علاوہ دوسرا لبا س نہیںہے؟!

۲۱۵

لہذا اس نے برہنہ طواف کرنا شروع کر دیا اور لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے اس نے ایک ہاتھ آگے اور دوسرا ہاتھ پیچھے رکھا اور اس طرح رجز خوانی کی :

'' آج شرمگاہ کا کچھ حصہ یا تما م حصہ ظاہر ہے ، اور جو ظاہرہے اس کو جائز نہیں جانتی''

پھر طواف کے بعد کچھ لوگوں نے اس کے پاس شادی کے لئے پیغا م بھیجا لیکن اس نے کہا میں شادی شدہ ہوں۔

ح: قیامت کا انکار

قرآن

( اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیاتو کیا تمہارے سامنے ہماری آیات کی تلاوت نہیںہو رہی تھی لیکن تم نے اکڑ سے کام لیا اور بیشک تم ایک مجرم قوم تھے اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیںہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیں جانتے ہیںہم اسے ایک خیالی بات سمجھتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں اور ان کے لئے ان کے اعمال کی برائیاں ثابت ہو گئیں اور انہیں اس عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مزا ق اڑا یا کرتے تھے اور ان سے کہا گیا کہ ہم تمہیں آج اسی طرح نظر انداز کریں گے جس طرح تم نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیاتھاا ور تم سب کا انجام جہنم ہے اور تمہارا کوئی مدد گار نہیںہے یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے آیات الہی کا مذاق بنا یا تھا اور تمہیں زندگانی دنیا نے دھوکا میں رکھا تھا توآج یہ لوگ عذاب سے باہر نہیں نکالے جائیں گے اور انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی نہیںدیا جائیگا۔

۲۱۶

جاہلیت کے عقائد پر ایک نظر

زمانہ جاہلیت یعنی وحی اور انبیاء سے خالی دور میں عرب وادی ضلالت و گمراہی میں زندگی بسر کر رہے تھے، حیران و سرگرداں اور مذہبی و فکر ی اختلاف کے شکار تھے، درج ذیل مطالب میں عرب کے فرق و مذاہب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔

1۔ خدا اور قیامت کے معتقد نہیں تھے اور ہستی کو اسی دنیا میں محدود و منحصر خیال کرتے تھے اور کہتے تھے

(و ما هی الاحاتنا الدنیا نموت و نحیٰ و ما یهلکنا الا الدهر)

یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کر دیتا ہے ۔

2۔ قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے:

( و اذا قیل ان وعد الله حق و الساعة لا ریب فیها قلتم ما ندری ما الساعة ان نظن الا ظناً وما نحن بمستیقنین)

اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میںکوئی شک نہیں ہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیںجانتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیںہیں۔ نیز ارشاد ہے

(و ضرب لنا مثلا و نسی خلقه قال من یحیی العظام و هی رمیم قل یحییها الذی انشأها اول مرة)

اور وہ ہمارے لئے مثال بیان کرتاہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیاہے وہی زندہ بھی کریگا ۔

اس آیت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ پہلی خلقت پر اعتقاد رکھتے تھے اور تعبیر حدیث کے مطابق وجود خداکے قائل تھے لیکن:(لا یرجون من الله ثواباً ولا یخافون الله منه عقابا)

خدا کے ثواب کی امید نہیںرکھتے تھے اور نہ ہی اس کے عقاب سے ڈرتے تھے۔

۲۱۷

3۔ وہ کبھی ملائکہ و جنات میں سے اور کبھی اصنام و شیاطین میں سے خدا کا شریک قرار دیتے تھے۔ ان شرکاؤ کبھی اصل خلقت میں دخیل قرار دیتے اور کبھی تدبیر امور میں ؛ یا وہ لوگ خدا کو مادی موجودات سے تشبیہ دیتے اور یا انہیںمادی موجودات میں سے کسی ایک کی پروردگار عالم کے عنوان سے پرستش کرتے تھے؛ وہ مادی موجودات جیسے کواکب یا حیوانات اور یا اشجار ہیں، جزیرۃ العرب میں اس عقیدہ کے معتقد افراد( جو گذشتہ بالا عقیدہ کے معتقد افراد سے کچھ چیزوںمیں شبیہ ہیں) کی اکثریت تھی۔

(وما یؤمن بالله الا وهم مشرکون)

ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے مگر یہ کہ مشرک تھے۔

4۔ جزیرۃ العرب کے بعض مناطق میں اہل کتاب کے دو گروہ یہود و نصاریٰ آباد تھے جس کے ثبوت کے لئے منجملہ آیہ مباہلہ ہے جو نجران کے ان علماء اور نصاریٰ پر دلالت کرتی ہے جو مدینہ کے جنوب میں زندگی گذارتے تھے، نیز صدر اسلام کی عظیم جنگیں بھی اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ جن میں یہودیوںکا اساسی کردار تھا، جیسے جنگ احزاب (خندق) اور اس کے بعد بنی قینقاع اور بنی قریظہ کے ساتھ کشمکش یہاں تک کہ جنگ خیبر دلالت کرتی ہے ۔

5۔ کچھ مجوسی اور صائبہ بھی آباد تھے لیکن قابل اعتنا نہیں تھے۔

6۔ کچھ لوگ دین حنیف ابراہیم کے معتقد تھے جو نہایت اقلیت میں تھے جنکے اسماء حسب ذیل ہیں:

1۔ ابو طالب (رسول اکرم (ص) کے چچا)

2۔ ابو قیس صرمہ بن ابی انس

3۔ ارباب بن راب

4۔ اسعد ابوبکر حمیری

۲۱۸

5۔ امیہ بن ابی صلت

6۔ بحیرائے راہب

7۔ خالد بن سنان عبسی

8۔ زہیر بن ابی سلمی

9۔ زید بن عمرو بن نفیل عبد العزیٰ

10۔ سوید بن عامر مصطلقی

11۔ سیف بن ذی یزن

12۔ عامر بن ضرب عدوانی

13۔ عبد الطا نجہ بن ثعلب بن وبرۃ بن قضاعہ

14۔ عبد اللہ قضاعی

15۔ عبد اللہ (رسول اکرم ؐکے والد محترم)

16۔ عبد المطلب (رسول اکرمؐ کے دادا)

17۔ عبید بن ابرص اسدی

18۔ علاف بن شہاب تمیمی

19۔ عمیر بن جندب جہنی

20۔ کعب بن لو ئی بن غالب

21۔ ملتمس بن امیہ کنانی

22۔ وکیع بن زہیر ایادی

۲۱۹

6/3

دور جاہلیت کے اوصاف

قرآن

( یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی )

(کیا تم نے اسکو دیکھا ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے ، وہی ہے جو یتیم کو جھڑکتا ہے ، اور کسی کو مسکین کے کھلانے کےلئے تیار نہیں کرتا ہے)

حدیث

1154۔ رسول خدا(ص): جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تعصب ہوگا، خدا اس کو روز قیامت زمانہ جاہلیت کے عربوں کے ساتھ محشور کریگا۔

1155۔ رسول خدا(ص): جو شخص پرچم گمراہی کے نیچے جنگ کرے اور تعصب کی بنا پر غضبناک ہو یا تعصب کی دعوت دے یا کسی عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت پر ہوگا۔

1156۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے غرور جاہلیت اور انکے آباء و اجداد کے سبب تکبر کو دور کیا، تم سب کی نسبت آدم و حوا سے ایسی ہے جیسے ترازو کے دو پلڑے، بیشک تم میں سب سے زیادہ مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، لہذا جو تمہارے پاس شادی کا پیغام لیکر آئے اگر تم اسکی دینداری و امانتداری سے راضی ہو تو اس کے ساتھ شادی کر دو۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303