اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )25%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155096 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

۱

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

تالیف: محمد رے شہری

۲

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

۳

مقدمہ

الحمد ﷲ رب العالمین والصلاة علیٰ عبده المصطفیٰ محمد وآله الطاهرین و خیارصحابته اجمعین

ہم کتاب ''علم و حکمت قرآن و حدیث کی روشنی میں ' کے مقدمہ میں اشارہ کر چکے ہیں کہ اس کتاب کے مباحث کی تکمیل کے لئے کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں '' کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور یہ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب ہے جو خدا کے فضل سے پہلی کتاب کی اشاعت کے تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شائع ہو رہی ہے ۔

یہ کتاب آیات و روایات کی مدد سے معرفت کے موضوع پر نئے نکات پیش کرتی ہے امید ہے کہ ارباب علم و حکمت کے نزدیک مقبولیت کا درجہ حاصل کر ے گی ۔

اس بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس کتاب کا پہلا حصہ حجۃ الاسلام جناب شیخ رضا برنجکار کے تعاون سے اور دوسرا حصہ حجۃ الاسلام جناب عبد الھادی مسعودی کی مدد سے مکمل ہوا۔لہذاہم ان دونوں اور ان تمام حضرات کا شکر یہ ادا کرتے ہیںکہ جنہوںنے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے ، صحیح روایات ڈھونڈ نے اور اس سے متعلق دیگر امور میں ہمارا تعاون کیا ہے،اور خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ خدا انہیں آثار اہلبیت کو مزید نشر کرنے کی توفیق عطا کرے اور جزائے خیر سے نوازے۔

آخر میں اختصار کے ساتھ اپنی تحقیق کا اسلوب بیان کرتے ہیں:

1۔ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک موضوع سے مربوط شیعی اور سنی روایات کو جدید وسائل تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے جامع ترین ، موثق ترین اور قدیم ترین مصادر سے اخذ کیا جائے۔

۴

2۔ کوشش کی گئی ہے کہ درج ذیل حالات کے علاوہ تکرار روایات سے اجتناب کیا جائے:

الف: روایت کے مصادر مختلف ہوں اور روایات میں واضح فرق ہو۔

ب: الفاظ اور اصطلاحات کے اختلاف میں کوئی خاص نکتہ مخفی ہو۔

ج: شیعہ اور سنی روایات کے الفاظ میں اختلاف ہو۔

د: متن روایت ایک سطر سے زیادہ نہ ہو لیکن دو بابوں سے مربوط ہو۔

3۔ اور جہاں ایک موضوع سے متعلق چند نصوص ہیں جن میں سے ایک نبی (ص) سے منقول ہو اور باقی ائمہ٪ سے تو اس صورت میں حدیث نبی (ص)کو متن میں اور بقیہ معصومین کی روایات کو حاشہ پر ذکر کیاہے ۔

4۔ہر موضوع سے متعلق آیات کے ذکر کے بعد معصومین(ع) کی روایات کو رسول خدا(ص) سے امام زمانہ (عج) تک بالترتیب نقل کیا جائیگا۔ مگر ان روایات کو جو آیات کی تفسیر کے لئے وارد ہوئی ہیں تمام روایات پر مقدم کیا گیا ہے اور بعض حالات میں مذکورہ ترتیب کا لحاظ نہیں کیا گیا ہے ۔

5۔ روایات کے شروع میں صرف معصوم (ص) کا نام ذکر کیا جائیگا لیکن اگر راوی نے فعلِ معلوم کو نقل کیا ہے یا ان سے مکالمہ کیا ہے یا راوی نے متن حدیث میں کوئی ایسی بات ذکر کی ہے جو معصوم (ع) سے مروی نہیںہے اس میں معصوم کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

6۔ حاشیہ پر متعدد روایات کے مصادر کواعتبارکے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے ۔

۵

7۔ اگر بنیادی منابع تک دسترسی ہو تو حدیث بلا واسطہ انہیں منابع سے نقل کی جاتی ہے ''بہار الانوار'' اور ''کنزالعمال'' اور اس لحاظ سے کہ یہ دونوں احادیث کا جامع منبع ہیں لہذا منابع کے آخر میں انکا بھی ذکر کر دیا گیا ہے ۔

8۔ منابع کے ذکر کے بعد کہیں پر بعض دوسرے منابع کی طرف ''ملاحظہ کریں'' کے ذریعہ اشارہ کیا ہے ان موارد میں نقل شدہ متن اس متن سے جسکا حوالہ دیا گیا ہے کافی مختلف ہے ۔

9 ۔ اس کتاب میں دوسرے ابواب کا حوالہ اس وقت دیا گیا ہے جہاں روایات میں مناسبت ہے ۔

10۔ کتاب کا مقدمہ اور بعض فصول و ابواب کے آخر میں بیان ہونے والے توضیحات و نتائج اس کتاب یا اس باب کی روایات کا ایک کلی جائزہ ہے اور بعض روایات میں جو دشواریاں ہیں انہیں حل کیا گیا ہے ۔

11۔ اہمترین نکتہ یہ ہے کہ ہم نے حتی الامکان ہر باب میں معصوم سے صادر ہونے والی حدیث کی توثیق کےلئے عقلی و نقلی قرائن کا سہارا لیا ہے ۔

محمد رے شہری

8 صفر 1419ق ھ

۶

پیش لفظ

تفکر و تعقل اسلام کا ستون ہے اور عقائد و اخلاق اور اعمال میں اس کا مرکز ہے لیکن یہ آسمانی شریعت انسان کو اس بات کی ا جازت نہیں دیتی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو تسلیم کرے جس کو عقل صحیح نہیں سمجھتی اور نہ ہی ان صفات سے متصف ہونے کا اذن دیتی ہے جس کو عقل برا جانتی ہے۔ اور نہ ان اعمال کو بجالانے کا حق دیتی ہے کہ جن کو عقل اچھا نہیںسمجھتی ہے ۔

لہذا آیات قرآن ، احادیث رسول اور احادیث اہلبیت(ع) غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد ہیں یہی تمام چیزیں بنیاد ہیں اور دوسری چیزوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ قرآن کریم میں کلمہ علم اور اس کے مشتقات 779 بار، ذکر 274 بار، عقل 49 بار ، فقہ 20 بار ، فکر 18 بار، خرد 61 بار اور تدبر 4 بار آیا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عقل انسان کی بنیاد، اسکی قدر و قیمت کا معیار، درجات کمال اور اعمال کے پر کھنے کی کسوٹی ، میزان جزا اور خداکی حجتِ باطنی ہے ۔

عقل انسان کے لئے گرانقدر ہدیہئ الٰہی ، اسلام کی پہلی بنیاد ، زندگی کا اساسی نقطہ اور انسان کا بہترین زیور ہے ۔

عقل بے بہا ثروت ، بہترین دوست و راہنمااور اہل ایمان کا بہترین مرکز ہے اسلام کے نقطئہ نظر سے علم عقل کا محتاج ہے لہذا علم عقل کے بغیر مضر ہے ۔ چنانچہ جسکا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو جاتا ہے اس کےلئے وبال جان ہو جاتا ہے ۔

۷

مختصر یہ کہ اسلام کی نظر میں مادی و معنوی ارتقائ، زندگانی ئدنیا و آخرت کی تعمیر، بلند انسانی سماج تک رسائی اور انسانیت کی اعلیٰ غرض و غایت کی تحقیق صحیح فکر کرنے سے ہی ممکن ہے اور انسان کی تمام مشکلات غلط فکر اور جہل کا نتیجہ ہے لہذا دنیا میں قیامت کے بعد باطل عقائد کے حامل افراد حساب کے وقت اپنے برے اعمال اور برے اخلاق کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہوںگے تو کہیں گے :

وقالوا لوکنا نسمع اونعقل ما کنا فی اصحاب السعیر، فاعترفوا بذنبهم فسحقا لاصحاب السعیر

اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے؛ تو انہوںنے خود اپنے گناہ کا اقرار کر لیا تو اب جہنم والوںکے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے ۔

عقل کے لغوی معنی

لغت میں عقل کے معنی منع کرنا، باز رکھنا، روکنا، اور حبس کرنے کے ہیں۔ جیسے اونٹ کو رسی سے باندھنا تاکہ کہیں جانہ سکے ، انسان کے اندر ایک قوت ہوتی ہے جسے عقل کہا جاتا ہے جو اسے فکری جہالت سے بچاتی ہے اور عملی لغزش سے باز رکھتی ہے لہذا رسول خدا)ص( فرماتے ہیں:

العقل عقال من الجهل

عقل جہالت سے باز رکھتی ہے ۔

۸

عقل اسلامی روایات میں

محدث کبیر شیخ حر عاملیؒ بابِ ''وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجہل'' کے آخر میں معانی عقل کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

علماء کے کلام میں عقل کئی معنی میں استعمال ہوئی ہے احادیث میں جستجو کے بعد عقل کے تین معنی دستیاب ہوتے ہیں:

1۔ وہ قوت ہے کہ جس سے اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک، ان دونوں میں امتیاز اور تمام امورکے اسباب کی معرفت وغیرہ حاصل کی جائے اور یہی شرعی تکلیف کا معیار ہے ۔

2۔ ایسی حالت و ملکہ کہ جو خیر و منافع کے انتخاب اور برائی و نقصانات سے اجتناب کی دعوت دیتا ہے ۔

3۔ تعقل علم کے معنی میں ہے کیوںکہ یہ جہل کے مقابل میں آتا ہے نہ کہ جنون کے اور اس موضوع کی تمام احادیث میں عقل دوسرے اور تیسرے معنی میں زیادہ استعمال ہوئی ہے ۔واللہ اعلم۔

جن موارد میں کلمئہ عقل اور اس کے مترادف کلمات اسلامی نصوص میں استعمال ہوئے ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ کبھی انسان کے سرچشمئہ ادراکات اور کبھی اس کے ادراکات سے حاصل شدہ نتیجہ میں استعمال ہوتا ہے اورکبھی دونوں مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

الف: عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ

1۔ تمام معارفِ انسانی کا سرچشمہ

جن احادیث جن میں حقیقتِ عقل کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے یا نور کو وجود عقل کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے یا عقل کو الہی ہدیہ اور انسان کی اصل قرار دیا گیا ہے ،وہ انہیں معنی کیطرف اشارہ کرتی ہیں۔

۹

ان احادیث کے مطابق انسان اپنے وجود میں ایک نورانی طاقت رکھتا ہے جو اسکی روح کی حیات ہے اگر یہ طاقت نشو ونما پائے اور سنور جائے تو انسان اسکی روشنی میں وجود کے حقائق کا ادراک، محسوس وغیر محسوس حقائق میں تمیز، حق و باطل میں امتیاز، خیر و شر اور اچھے و برے میں فرق قائم کر سکتا ہے ۔

اگر اس نورانی طاقت اور باطنی شعور کی تقویت کی جائے تو انسان کسبی ادراکات سے بلند ہو کر سوچے گا یہاں تک کہ تمام غیب کو غیبی بصیرت سے دیکھیگا اورہ رغیب اس کے لئے شہود ہو جائیگا۔ اسلامی نصوص میں اس رتبئہ عقل کو یقین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

2۔ فکر کا سرچشمہ

اسلامی متون میں عقل کو فکر و نظر کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔ ان موارد میں عقل ہوشیاری، فہم اور حفظ کے معنی میں استعمال ہوئی ہے جس کا مرکز دماغ ہے ۔

وہ آیات و احادیث جن میں انسان کو تعقل اور غور و فکر کی طرف ابھارا گیا ہے اسی طرح وہ احادیث جن میں عقل تجربی اور عقل تعلمی کو فطری و موہوبی عقل کے ساتھ بیان کیا ہے یہ ایسے نمونے ہیںجن میں لفظ عقل منبعِ فکر میں استعمال ہوا ہے ۔

3۔الہام کا سرچشمہ

اخلاقی وجدان ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کے باطن میں اخلاقی فضائل کی طرف دعوت اور رذائل سے روکتا ہے بعبارت دیگر اخلاقی فضائل کی طرف فطری کشش اور رذائل کی طرف سے فطری نفرت کا احساس ہے ۔

اگر انسان خود کو تمام عقائد و سنن اور مذہبی و اجتماعی آداب سے جدا فرض کرکے مفہوم عدل و ظلم، خیر و شر، صدق و کذب، وفا ئے عہد اور عہد شکنی کے بارے میں غور کریگا تو اسکی فطرت یہ فیصلہ کریگی کہ عدل، خیر ، صدق اور وفائے عہد اچھی چیز ہے جبکہ ظلم ، شر ، جھوٹ اور عہد شکنی بری بات ہے ۔

۱۰

فضائل کی طرف میلان اور رذائل کی طرف سے نفرت کے احساس کو قرآن نے الہی الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها وتقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا۔

یہ احساس اور یہ الہام انسان کےلئے خدا کی معرفت کا سنگ بنیاد ہے اسکا سرچشمہ یعنی نہفتہ احساس جو انسان کے اندر اخلاقی اقدار کا شعور پیدا کرتا ہے اسی منبع اسلام کو اسلامی متون میں عقل کہا گیا ہے اور تمام اخلاقی فضائل کوعقل کا لشکر اور تمام رذائل کو جہالت کا لشکر کہا گیا ہے ۔

نکتہ

بعض فلسفہ کی کتابوں میں اما م علی (ع) سے عقل کی تفسیر کے بارے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کی تطبیق فلسفہ میں معانی عقل میں سے کسی ایک معنی پر کی جاتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے :

قال السائل: یا مولای وما العقل؟ قالں: العقل جوهر درّاک، محیط بالاشیاء من جمیع جهاتها عارف بالشی قبل کونه فهو علة الموجودات ونهایة المطالب

سائل نے کہا: مولا! عقل کیاہے؟ فرمایا: عقل درک کرنے والا جوہر ہے جو حقائق پر تمام جہات سے محیط ہے۔ اشیاء کو انکی خلقت سے قبل پہچان لیتا ہے یہ جوہر سبب موجودات اور امیدوں کی انتہا ہے ۔

حدیث کے مصادر میں تلاشِ بسیار کے باوجود مذکورہ حدیث کا کوئی مدرک نہیں مل سکا۔

۱۱

ب: عقل کا استعمال اورنتیجہ ادراکات

حقائق کی شناخت

لفظ عقل مدرِک کے ادراکات کے شعور میں تو استعمال ہوتا ہی ہے۔ مزید بر آن اسلامی متون میں عقلی مدرکات اور مبدا و معاد سے متعلق حقائق کی معرفت میں استعمال ہوتا ہے ۔

اور اسکی بہترین مثال وہ احادیث ہیںجو عقل کو انبیاء کا ہم پلہ اور خدا کی باطنی حجت قرار دیتی ہیں اسی طرح وہ احادیث جو عقل کو تہذیب وتربیت کے قابل سمجھتی ہیں اور اسی کو فضائلِ انسان کا معیار قرار دیتی ہیں کہ جس کے ذریعہ اعمال کی سزا و جزا دی جائیگی۔ یا عقل کو ''فطری''، ''تجربی''، ''مطبوع'' اور''مسموع'' میں تقسیم کرتی ہیں۔ عقل سے مراد شناخت و آگاہی ہے۔

عقل کے مطابق عمل

کبھی لفظ عقل کا استعمال قوت عاقلہ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ عقل کی تعریب کے بارے میں رسول خدا)ص( سے مروی ہے'' العمل بطاعة اﷲ و ان العمال بطاعة اﷲ هم العقلاء'' عقل خدا کے احکام کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں یقینا عاقل وہ لوگ ہیں جو خدا کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں۔

یا حضرت علی (ع) سے مروی ہے:'' العقل ان تقول ما تعرف و تعمل بما تنطق به'' عقل یہ ہے کہ جس کے بارے میں جانتے ہو وہ کہو اور جو کچھ کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

لفظ جہل کا استعمال بھی لفظ عقل کے استعمال کی مانند طبیعت جہل کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ دعا میں وارد ہو اہے'' وکل جہل عملتہ...''اور ہر جہالت کو انجام دیا......

۱۲

عقل کی حیات

عقل روح کی حیات ہے لیکن اسلامی نصوص کے مطابق اسکی بھی موت و حیات ہوتی ہے ، انسان کا مادی و معنوی تکامل اسی کی حیات کا رہینِ منت ہے ۔ بشر کی حیاتِ عقلی کا اصلی راز قوت عاقلہ (جو کہ اخلاقی وجدان ہے ) کا زندہ ہونا ہے الہی انبیاء کی بعثت کے اغراض میں سے ایک اساسی غرض یہ بھی ہے۔

حضرت علی -نے اپنے اس جملہ ''هو یثیر والهم وفائن العقول'' (اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں) کے ذریعہ بعثت انبیاء کے فلسفہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اسرار کائنات کو کشف کرنے کےلئے فکر کو زندہ کرنا انسان کےلئے ممکن ہے ؛ لیکن کمال مطلق کی معرفت کےلئے عقل کو زندہ کرنا اور اعلیٰ مقصد انسانیت پر چلنے کےلئے منصوبہ سازی صرف خدا کے انبیاء ہی کےلئے ممکن ہے۔

قرآن و حدیث میں جو کچھ عقل و جہل اور عقل کے صفات و خصائص اور اس کے آثار و احکام کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ سب ہی عقل کے اسی معنی سے مخصوص ہے ۔

جب انسان انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں حیات عقلی کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اس میں ایسی نورانیت و معرفت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں نہ فقط یہ کہ عقل خطا سے دو چار نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کےلئے مدد گار بھی ہے ۔

چنانچہ علی - فرماتے ہیں:

ایسے شخص نے اپنی عقل کو زندہ رکھا ہے ، اور اپنے نفس کو مردہ بنا دیا تھا۔ اسکا جسم باریک ہو گیا ہے اور اس کا بھاری بھرکم جسد ہلکا ہو گیا ہے اس کے لئے بہترین ضو فشاں نور ہدایت چمک اٹھا ہے اور اس نے راستے کو واضح کر کے اسی پر چلا دیا ہے ۔ تمام در وازوں نے اسے سلامتی کے دروازہ اور ہمیشگی کے گھر تک پہنچا دیا ہے اور اس کے قدم طمانینتِ بدن کے ساتھ امن و راحت کی منزل میں ثابت ہو گئے ہیں کہ اس نے اپنے دل کو استعمال کیا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیا ہے ۔

۱۳

بنا بر ایں اور حقیقی علم و حکمت کی اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہم نے کتاب'' علم و حکمت قرآن و حدیث کی رونشی میں'' بیان کی ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نصوص نے انسان کے وجود میں باطنی نورانی قوت کو بیان کرنے کےلئے تین اصطلاحیں ، علم، حکمت اور عقل پیش کی ہیںاور یہ نورانی قوت، انسان کو مادی و معنوی تکامل کی طرف ہدایت کرتی ہے لہذا اسکو نور علم سے اور چونکہ اس قوت میں استحکام پایا جاتا ہے اور خطا کا امکان نہیں ہوتا لہذا حقیقی حکمت سے اور یہی قوت انسان کو نیک اعمال کے انتخاب پر ابھارتی ہے اور اسے فکری و عملی لغزشوں سے باز رکھتی ہے لہذا اسے عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ علم و حکمت اور عقل کے سرچشمے، اسباب آثار اور آفات و موانع کی تحقیق سے یہ مدعا اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے۔

عقل نظری اور عقل عملی

عقل نظری و عقل عملی کے سلسلہ میں دو نظریہ موجود ہیں:

پہلا نظریہ یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے ، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے چشمہئ ادراک کو عقل نظری کہتے ہیں؛ جیسے حقائقِ وجودکا ادراک اور اگرکسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سر چشمہ ادراک کو عقل عملی کہتے ہیں؛ جیسے عدل کے حسن، ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور اور بیتابی کے مذموم ہونے کی معرفت وغیرہ....اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے اور اس نظریہ کی بناء پر عقل عملی ، ادراک کا سر چشمہ ہے نہ کہ تحریک کا۔

۱۴

دوسرا نظریہ ، یہ ہے کہ عقل عملی و عقل نظری میں بنیادی فرق ہے ، یعنی ان دونوں کے سرچشمہئ ادراک میں فرق ہے ، عقل نظری، سر چشمہ ادراک ہے چاہے ادراک کا مقصد معرفت ہو یا عمل؛ اور عقل عملی عمل پر ابھارے کا سر چشمہ ہے نہ کہ ادراک کا۔عقل عملی کا فریضہ، عقل نظری کے مدرکات کا جاری کرنا ہے ۔

سب سے پہلے جس نے اس نظریہ کو مشہور کے مقابل میں اختیار کیا ہے وہ ابن سینا ہیں ان کے بعد صاحب محاکمات قطب الدین رازی اور آخر میں صاحب جامع السعادات محقق نراقی ہیں۔

پہلا نظریہ، لفظ عقل کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے اور اس سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ عقل عملی کی مبدا ادراک و تحریک سے تفسیر کی جائے کیونکہ جو شعور اخلاقی اور عملی اقدار کو مقصد قرار دیتا ہے وہ مبدا ادراک بھی اور عین اسی وقت مبدا تحریک بھی ہے اور یہ قوت ادراک وہی چیز ہے کہ جس کو پہلے وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جا چکا ہے ۔ اور نصوص اسلامی میںجسے عقل فطری کا نام دیا گیا ہے ، اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔

۱۵

عقل فطری اور عقل تجربی

اسلامی نصوص میں عقل کی عملی و نظری تقسیم کے بجائے دوسری بھی تقسیم ہے اور وہ عقل فطری اور عقل تجربی یا عقل مطبوع اور عقل مسموع ہے ، امام علی - فرماتے ہیں:

العقل عقلان: عقل الطبع و عقل التجربہ، و کلاھما یؤدی المنفعۃ۔

عقل کی دو قسمیںہیں: فطری اور تجربی اور یہ دونوں منفعت بخش ہیں۔

نیز فرماتے ہیں:

رأیت العقل عقلین

فمطبوع و مسموع

ولا ینفع مسموع

اذا لم یک مطبوع

کما تنفع الشمس

و ضوء العین ممنوع

میں نے عقل کی دو قسمیں دیکھیں۔ فطری اور اکتسابی، اگر عقل فطری نہ ہو تو عقل اکتسابی نفع بخش نہیں ہو سکتی، جیسا کہ آنکھ میں روشنی نہ ہو تو سورج کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

ملحوظ خاطر رہے کہ علم کی بھی یہی تقسیم آپ سے منقول ہے:

العلم علمان: مطبوع و مسموع ولا ینفع المسموع اذا لم یکن المطبوع

۱۶

علم کی دو قسمیں ہیں: فطری اور اکتسابی ، اگر فطری علم نہ ہو تو اکتسابی علم فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ فطری عقل و علم کیا ہیں اور اکتسابی عقل و علم میں کیا فرق ہے ؟ اور فطری عقل و علم نہ ہونے کی صورت میں عقل تجربی اور علم اکتسابی فائدہ کیوں نہیں پہنچا سکتے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر فطری عقل و علم سے مقصود ایسے معارف ہیںکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکی فطرت میں ودیعت کیا ہے تاکہ اپنی راہ کمال پا سکیںاور اپنی غرض خلقت کی انتہا کو پہنچ سکیں۔ قرآن نے اس فطری معارف کو فسق و فجور اور تقویٰ کے الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها و تقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا ہے۔

اسی کو دور حاضر میں وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

عقل فطری یا وجدان اخلاقی ادراک کا سر چشمہ اور تحریک عمل کا منبع بھی ہے۔

اور اگر اسے انبیاء کی تعلیمات کی بنیاد پر زندہ کیا جائے اور رشد دیا جائے تو انسان وہ تمام معارف جو کسب و تجربہ کے راستوں سے حاصل کرتا ہے ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے اور اسے انسانیت کی پاکیزہ زندگی میسر آجائےگی۔اگر عقل فطری خواہشات نفسانی کی پیروی اور شیطانی وسوسوں کے سبب مردہ ہو جائے تو انسان کو کوئی بھی معرفت اسکی مطلوب ومقصود زندگی تک نہیںپہنچا سکتی اور نہ ہی اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے؛جیسا کہ امیر المومنین (ع) کے حسین کلام میں موجود ہے کہ: عقل فطری کی مثال آنکھ کی سی ہے اور عقل تجربی کی مثال سورج کی سی ہے ، جیسا کہ سورج کی روشنی نابینا کو پھسلنے سے نہیں روک سکتی اسی طرح عقل تجربی بھی پھسلنے اور انحطاط سے ان لوگوں کو نہیں روک سکتی کہ جنکی عقل فطری اور وجدان اخلاقی مردہ ہو چکے ہیں۔

۱۷

عاقل و عالم کا فرق

ہم کتاب'' علم و حکمت ، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے پیش گفتار میں وضاحت کر چکے ہیں کہ لفظ علم اسلامی نصوص میں دو معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ، ایک جوہر و حقیقت علم اور دوسرے سطحی و ظاہری علم، پہلے معنیٰ میں عقل اور علم میں تلازم پایا جاتا ہے ، جیسا کہ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں:

العقل و العلم مقروناِ فی قرن لا یفترقان ولا یتباینان

عقل اور علم دونوں ایک ساتھ ہیںجو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں۔

اس بنیاد پر عالم و عاقل مینکوئی فرق نہیں ہے ۔ عاقل ہی عالم ہے اور عالم ہی عاقل ہے نیز ارشاد پروردگار ہے :

تلک الامثال نضربها للناس وما یعقلها الا العالمون

یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے؛ عاقل اور عالم میں فرق ہے ، علم کو عقل کی ضرورت ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کوئی عالم ہو لیکن عاقل نہ ہو۔ اگر علم ، عقل کے ساتھ ہو تو عالم اور کائنات دونوںکےلئے مفید ہے اور اگر علم ، عقل کے بغیر ہو تو نہ فقط یہ کہ مفید نہیںہے بلکہ مضر اور خطرناک ہے۔

۱۸

عقل کے بغیر علم کا خطرہ

امام علی (ع) کا ارشاد ہے العقل لم یجن علیٰ صاحبہ قط و العلم من غیر عقل یجنی علیٰ صاحبہ'' عقل، صاحب عقل کو کبھی تکلیف نہیں پہنچاتی لیکن عقل کے بغیر علم، صاحب علم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔

دورحاضر میں علم کافی ترقی کر چکا ہے لیکن عقل کم ہو گئی ہے ، آج کا معاشرہ مولائے کائنات کے اس قول کا مصداق بنا ہوا ہے :

من زاد علمه علیٰ عقله کان وبالا علیه

جس شخص کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو تا ہے وہ اس کےلئے وبال ہو جاتا ہے ۔

نیز اس شعر کا مصداق ہے ۔

اذا کنت ذاعلم و لم تک عاقلا

فانت کذی نعل لیس له رجل

اگر تم عالم ہو اور عاقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس نعلین تو ہے لیکن پیر نہیں ہے۔

آج علم ، عقل سے جدا ہونے کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ کو مادی و معنوی تکامل اور آرام و آسائش عطا کرنے کے بجائے انسان کے لئے بد امنی، اضطراب، فساد اور مادی و معنوی انحطاط کا باعث ہوا ہے ۔

آج کی دنیا میں علم، عیش طلب افراد، مستکبرین اور بے عقلوں کے لئے سیاسی ، اقتصادی اور مادی لذتوں کے حصول کا وسیلہ بنا ہو ا ہے کہ اس اسی سے دوسرے زمانوں سے زیادہ لوگوں کو انحراف و پستی کی طرف لے جارہے ہےں۔

۱۹

جب تک عقل کے ساتھ علم نہ ہو علم صحیح معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا اور انسانی معاشرہ کو آرام و سکون نصیب نہیں ہو سکتا، جیسا کہ امام علی (ع) کا ارشاد ہے :

افضل ما منّ اﷲ سبحانه به علیٰ عباده علم وعقل وملک وعدل

بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم، عقل ، بادشاہت اور عدل ہے ۔

مختصر یہ کہ دور حاضر میں علم دوسرے زمانوں سے زیادہ عقل کا محتاج ہے اور کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں''جو آپ کے ہاتھوں میں ہے،اسکی ضرورت فرہنگی، اجتماعی اور سیاسی لحاظ سے دوسرے زمانوں سے کہیں زیادہ ہے ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

بعثت کے چودہ سوسال گذرنے کے بعد بھی اسلا م کے اربوں جانی دشمن اور لیچڑ قسم کے لوگ نت نئی سازشیں مسلمانوں کے خلا ف کیاکرتے ہیں ۔

اگر ان میں طاقت ہو تی توقرآن کے جیسا سورہ لے آتے اور یقینا اس کے ذریعہ اسلام سے نبر د آزما ہوتے ۔علم بلا غت کے ماہر افراد نے اعتراف کیاہے کہ قرآن کاجواب لا ناناممکن ہے اس کی فصاحت وبلا غت حیرت انگیز ہے اس کے احکام وقوانین مضبوط ،اس کی پیشین گوئیاں اور خبریں یقینی او رصحیح ہیں، بلکہ زمان ومکان وعلم سے پرے ہیں ۔

یہ خو د اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ انسان کا گڑھا ہو ا کلا م نہیں ہے بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔

اعجاز قرآن پر تاریخی ثبو ت

جب قرآن نے ان آیتوں کے ذریعہ لوگو ں کو چیلنج کیا تو اس کے بعد اسلام کے دشمنوں نے تمام عرب کے فصیح وبلیغ افراد سے مددمانگی لیکن پھر بھی مقابلہ میں شکست کاسامنا کرنا پڑا اورتیزی سے عقب نشینی کی۔ ان لوگو ں میں سے جومقابلہ کے لئے بلا ئے گئے تھے ولید بن مغیرہ بھی تھا، اس سے کہا گیا کہ غور وخوض کرکے اپنی رائے پیش کرو ولید نے پیغمبر اسلا م سے درخو است کی کہ کچھ قرآنی آیا ت کی تلاوت کریں رسول نے حم سجدہ کی چند آیتوں کی تلا وت کی ۔ ان آیا ت نے ولید کے اندرکچھ ایسا تغییر وتحول پیدا کیاکہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا اوردشمنو ں کے بیچ جا کر کہنے لگا خداکی قسم محمد سے ایسی بات سنی جونہ انسانوں کے کلام جیسا ہے او رنہ پریوں کے کلام کی مانند ۔

واِنَّ له لحلاوة وأَنَّ علیه لطلاوة واِنَّ أعلاه لمُثمر وأنَّ أسفله لمغدق أَنّه یعلو ولا یُعلیٰ علیه''اس کی باتوں میں عجیب شیرنی ہے اس کا عجیب سحر ابیان لب ولہجہ ہے اس کی بلندی ایک پھل دار درخت کی مانند ہے اس کی جڑیں مضبوط اور مفید ہیں، اس کا کلام سب پر غالب ہے کسی سے مغلو ب نہیں ''یہ باتیں اس بات کا سبب بنی کہ قریش میں یہ چہ میگو ئیاں شروع ہو گئیں کہ ولید محمد کا شیدائی اورمسلمان ہوگیا ہے ۔

۱۴۱

یہ نظریہ مشرکین کے عزائم پر ایک کا ری ضرب تھی لہٰذا اس مسئلہ پرغور و خو ض کرنے کے لئے ابو جہل کا انتخاب کیا گیا وہ بھی ولید کے پاس آیا اور مشرکین مکہ کے درمیان جو خبر گشت کر رہی تھی اس سے ولید کو باخبر کیا اور اس کو ان کی ایک میٹینگ میں بلا یا وہ آیا اورکہنے لگا تم لوگ سوچ رہے ہو کہ محمد مجنون ہیں کیا تم لوگوں نے ان کے اندر کو ئی جنون کے آثار دیکھے ہیں ؟۔

سب نے ایک زبان ہو کر کہا نہیں ، اس نے کہا تم سوچتے ہو وہ جھو ٹے ہیں (معاذاللہ) لیکن یہ بتائو کہ کیا تم لوگوں میں سچے امین کے نام سے مشہور نہیں تھے۔ ؟

بعض قریش کے سرداروں نے کہا کہ محمد کو پھر کس نام سے یاد کریں ؟ ولید کچھ دیر چپ رہا پھر یکا یک بولا اسے جادوگر کہو کیو ں کہ جو بھی اس پر ایمان لے آتا ہے وہ سب چیز سے بے نیاز ہو جا تا ہے مشرکین نے اس ناروا تہمت کو خوب ہوادی تاکہ وہ افراد جوقرآن سے مانوس ہو گئے تھے انھیں پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے الگ کر دیا جائے لیکن ان کی تمام سازشیں نقش بر آب ہو گئیں اور حق وحقیقت کے پیاسے جوق در جوق پیغمبر کی خدمت میں آکر اس آسمانی پیغام اور اس کی دلکش بیان سے سیراب ہونے لگے ۔

جادوگر کا الزام در حقیقت قرآن کے جذّاب اور ہر دل عزیز ہو نے کا ایک اعتراف تھا، انھوں نے اس کشش کو جادو کانام دے دیا جبکہ اس کا جادو سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔

قرآن علوم کا خزانہ ہے ۔ فقہ کی کتا ب نہیں ہے مگر بندوںکے قانون عبادت ،او رسیاسی و معاشرتی جزاوسزا اور اجرای احکام سب اس میں پائے جا تے ہیں فلسفہ کانصاب نہیں مگر فلسفہ کی بہت ساری دلیلیں اس میں ہیں ،علم نجوم کی کتاب نہیں پھر بھی ستارہ شناسی کے بہت ظریف اور باریک نکا ت اس میں پائے جا تے ہیں جس نے دنیا کے تمام مفکروں کو اپنی جانب کھینچ لیاہے۔

علم حیاتیات کا مجموعہ نہیں پھر بھی بہتیری آیات اس حوالے سے موجود ہیں لہٰذ اقرآن معجزہ ہے او ران علوم سے ارفع واعلی ہے ۔

۱۴۲

اگر نزول قرآن کی فضاپر غور کی جائے تو پیغمبر اسلا م اور قرآن کی عظمت میں مزید اضافہ ہوگا ۔

اس ماحول میں جہا ں بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے وہاںایک ایسا شخص اٹھا جس نے نہ دنیا وی مدرسہ میں علم حاصل کیا نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ایسی کتاب لیکر آیا کہ چودہ سوسال بعد بھی علماء او رمفکرین اس کے معنی ومطلب کی تفسیر میں جوجھ رہے ہیں اور ہر زمانے میں اس سے نئے مطالب کا انکشاف ہو تا ہے۔

قرآن نے اس دنیاکو اس طرح تقسیم کیاکہ جوبہت ہی دقیق او رمنظم ہے توحید کو بہ نحو احسن بیان کیازمین وآسمان کی تخلیق کے اسرار ورموز اور انسان کی خلقت اوردن ورات کی خلقت کے راز کو خد اکے وجود کی نشانیاں قرار دیتے ہو ئے مختلف طریقہ سے ذکر کیا ہے کبھی فطری توحید توکبھی استدلال توحید پر بحث کی ہے یہ پوری کائنات خدا کے ہاتھ میں ہے اسے بہت طریقہ سے بیا ن کیاہے جب معاد اور قیامت کی بات آتی ہے تو مشرکین کے تعجب پر فرمایا ہے : کیا جس نے اس زمین وآسمان کو ان عظمتوں کے ساتھ پیدا کیا اس کے لئے یہ ممکن نہیںکہ تم جیسا خلق کردے جی ہاں پیداکرنے والا قادر اور صاحب حکمت ہے اور اس کی طاقت اس حد تک ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اور اسے حکم دے دے ہوجابس وہ فوراً وجود میں آجاتی ہے ۔

۱۴۳

خلاصہ یہ کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے لانے والے (پیغمبر ) اور تفسیر کرنے والے (ائمہ معصومین ) کے علا وہ اس کا مکمل علم کسی کے پاس نہیں اس کے باوجود قرآن ہمیشہ ہم لوگوں کے لئے بھی ایک خاص چاشنی رکھتا ہے چونکہ دلوںکی بہار ہے لہٰذا جتناہی پڑھیں گے اتنا ہی زیادہ لطف اندوز ہوںگے جی ہاں قرآن ہمیشہ نیا ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے چونکہ یہ پیغمبر اسلام کا دائمی معجزہ ہے ۔

حضرت امیر نے قرآن کے بارے میں فرمایا :واِنَّ القرآنَ ظاهره أنیق وباطنه عمیق لا تُفنیٰ عجائبه ولاتنقضیِ غرائبه ( ۱ )

''بیشک قرآن ظاہر میں حسین اورباطن میں عمیق ہے اس کے عجائبات انمٹ ہیں''۔

اس کے غرائب اور اس کی تازگی میں ہمیشگی ہے وہ کبھی کہنہ او رفرسودہ نہ ہوگی ۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۷۵میں آیا ہے (فیه ربیع القلب وینابیع العلم وماللقلب جلا ء غیره )دلوں کی بہار قرآن میں ہے اس میں دل کے لئے علم کے چشمے ہیں اس کے علا وہ کوئی نور موزون نہیں ہے ۔

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیوں قرآن کی ترویج اور اس میں تفحص کے ساتھ ساتھ اس کی تازگی اور بالیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ؟

امام نے فرمایا:''لان الله تبارک و تعالیٰ لم یجعله لزمان دون زمان و لالناس دون ناس فهو فی کل زمان جدید و عند کل قوم

____________________

(۱) نہج البلا غہ خطبہ ۱۸

۱۴۴

غض الی یوم القیٰمة ''

''اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کو کسی خاص زمانہ اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا (بلکہ یہ کتابِ الٰہی تمام زمانے اور تمام انسانوں کے لئے ہے)پس قرآن ہر زمانہ کے لئے جدید اور تمام انسانوں کے لئے قیامت تک زندہ ہے۔''

سوالات

۱۔ خصوصیات قرآن بیان کریں ؟

۲۔ اعجاز قرآن کے سلسلہ میں ولید کا قصہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امیر المومنین نے قرآن کے سلسلہ میں کیا فرمایا ؟

۱۴۵

بائیسواں سبق

نبوت خاصہ (دوسراباب )

خاتمیت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلسلہ رسالت کی آخری کڑی ہیں، نبوت کاسلسلہ ان پر خدا نے ختم کردیااور اسی لئے ان کا لقب بھی خاتم الانبیاء ہے (خاتمِ چاہے زیر ہو یا زبر خاتَم، کسی طرح بھی پڑھا جائے اس کے معنی کسی کام کا اتمام یاختم ہونا ہے، اسی بناپر عربی میں انگوٹھی کوخاتم کہا جاتا ہے چونکہ انگوٹھی اس زمانے میں لوگوں کے دستخط اور مہر کا مقام رکھتی تھی او رجب کہیں خط لکھتے تو اس کے آخر میں اپنی انگوٹھی سے مہر لگا دیتے تھے ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی نبوت کا اختتام بھی ایک اسلامی ضرورت ہے اور اسے ہر مسلمان مانتا ہے کہ اب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اس اصل پر تین دلیل ہے ۔

۱۔ خاتمیت کا لا زم او رضروری ہونا۲۔ قرآن کی آیتیں ۳۔ بہت ساری حدیثیں

۱۔خاتمیت کا ضروری ہو نا:اگر کسی نے اسلا م کو دلیل ومنطق کے ذریعہ مان لیا تو اس نے خاتمیت پیغمبر اسلا م کو بھی قبول کر لیا، اسی لئے مسلمانو ں کا کو ئی فرقہ کسی نئے پیغمبر کے انتظار میں نہیں ہے یعنی خاتمیت مسلمانو ں کی نظر میں ایک حقیقی اورضرور ی چیز ہے ۔

۱۴۶

۲۔قرآن کی آیتیں:( مَاکَانَ مُحمَّدُ أَبَا أحدٍ مِنْ رِجالِکُم وَلکنْ رَسُولَ اللّهِ وخَاتَم النَبِیینَ ) محمد تم مردو ں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں۔( ۱ ) ( وَمَا أَرسَلنَا ک اِلَّا کَافَةً للنَّاسِ ) (اور پیغمبر ہم نے آپ کو تمام لوگو ں کے لئے بھیجا ہے۔( ۲ )

۳۔ احادیث : حدیث منزلت جسے شیعہ وسنی دونو ں نے پیغمبر اسلا م سے نقل کیاہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولا ئے کا ئنات سے مخاطب ہو کر فرمایا :أنَتَ مِنی بِمنزلة هارون من موسیٰ اِلَّا أَنَّه لا نَبیّ بَعدی : ، تم میرے نزدیک ویسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئیگا ۔

معتبر حدیث میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسو ل خدانے فرمایا میری مثال پیغمبروں کے بیچ بالکل ایسی جیسے کو ئی گھربنایا جائے اور اسے خوب اچھی طرح سجا یا جائے مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو اب جو بھی دیکھے گا کہے گا بہت خوبصورت ہے مگر یہ ایک جگہ خالی ہے میں وہی آخری اینٹ ہو ں اور نبو ت مجھ پر ختم ہے۔( ۳ )

اما م صادق نے فرمایا :حلال مُحمَّد حلال أبداً اِلیٰ یوم

____________________

(۱) سورہ احزاب آیة: ۴۰

(۲) سو رہ سبا آیة: ۲۸۔

(۳) نقل از تفسیر مجمع البیا ن مرحو م طبرسی

۱۴۷

القیامة وحرامه حرام أبداً اِلی یوم القیامة ( ۱ ) ''اِنَّ اللّهَ ختم بنبیّکم النبییَّن فلا نَبیَّ بعده أبداً''

امام صادق نے فرمایا : بیشک اللہ نے تمہا رے پیغمبر کے بعد نبو ت کا سلسلہ ختم کردیا ہے اور اب اس کے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا ۔( ۲ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ کے درمیان فرمایا :أناخاتمُ النبییّن والمُرسلینَ والحُجّة علیٰ جمیع المخلوقین أهل السَّمٰوات والأَرضین'' میں آخری نبی اور آخری الٰہی نمایندہ ہو ں اور تمام اہل زمین وآسمان کے لئے آخری حجت ہو ں''۔( ۳ )

مولائے کا ئنا ت نے نہج البلا غہ کے خطبہ ۹۱ میں فرمایا :''حتیٰ تمت نبیّنا مُحمّد حجتّہ وبلغ المقطع عذرہ ونذرہ''ہاں تک کہ خدا نے ہمارے نبی کے ذریعہ حجت کو تمام کردیااور تمام ضروری احکامات کو ان کے لئے بیا ن کر دیا خطبہ ۱۷۳میں پیغمبر اسلام کے صفات کے سلسلہ میں اس طرح فرمایا :''امین وحیہ وخاتم رسلہ وبشیر رحمتہ'' محمد خداکی وحی کے امین اور خاتم الرسل اور رحمت کی بشارت دینے والے ہیں

____________________

(۱) اصو ل کا فی ج۱، ص ۵۸

(۲) اصول کا فی ج۱،ص ۲۶۹

(۳)مستدرک الوسائل ج۳، ص ۲۴۷

۱۴۸

فلسفہ خاتمیت

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ انسانیت ہمیشہ تغییر وتحول سے دوچار ہو تی ہے یہ کیسے ممکن ہے ،ایک ثابت اورناقابل تبدیل قانون پوری انسانیت کے لئے جواب دہ ثابت ہو اور یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاتم النبیین بن جا ئیں

اور دوسرے پیغمبر کی ضرورت نہ پیش آئے !

اس کاجو اب ہم دو طرح سے دیں گے :

۱۔ دین اسلام فطرت سے مکمل ہماہنگی رکھتا ہے اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی :

( فَأَقِم وَجهَکَ للدّینِ حَنیفًا فِطرَتَ اللَّهِ التِی فَطَرالنَّاسَ علیها لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذَلِکَ الدِّین القَیّمُ وَلَکنَّ أَکثَر النّا سِ لایَعلَمُونَ ) آپ اپنے رخ کو دین کی طرف قائم رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانو ں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ۔( ۱ )

جیسے انصاف ، سچائی، ایثار ، درگذر، لطف و کرم ، نیک خصلت ہمیشہ محبوب ہے اور اسی کے مقابل ظلم ، جھوٹ،بے جا اونچ نیچ، بد اخلاقی یہ سب چیزیں ہمیشہ لائق نفرت تھیں اور رہیں گی۔

لہٰذا قوانین اسلام جو کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے ہمیشہ اسرار خلقت کی طرح زندہ ہے۔

۲۔ دین اسلام قرآن و اہلبیت کے سہارے ہے ۔ قرآن لامتناہی مرکز علم سے صادر ہوا ہے اور اہل بیت وحی الٰہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ قرآن و اہل بیت ایک

____________________

(۱)سورہ روم آیت۳۰۔

۱۴۹

دوسرے کے مفسر ہیں ۔ اور رسول اکرم کی حدیث کے مطابق یہ رہبران اسلام ایک دوسرے سے تا قیامت جدا نہیں ہوں گے ۔ لہٰذا اسلام ہمیشہ زندہ ہے ،اور بغیر کسی ردّ و بدل کے ترقی کی راہ پر گامزن اور بشریت کی مشکلات کا حل کرنے والا ہے ۔'' قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا انهما لن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض'' میں تمہارے لئے دو گرانقدر چیزیں قرآن و میری عترت چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہو نگے یہاں تک حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریںگے۔( ۱ )

____________________

(۱)المراجعات؛سید شرف الدین عاملی۔

۱۵۰

سوالات

۱۔قرآن نے اس دنیا کی تقسیم کس طرح کی ہے مختصر بیان کریں ؟

۲ ۔پیغمبر اسلام کے خاتم النبیین ہونے پر دلیل پیش کریں؟

۳۔ چونکہ دنیا میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لہٰذا محمد آخری رسول او ر اسلام آخری دین کیسے ہو سکتاہے ؟

۱۵۱

تیئسواں سبق

امامت

دین اسلام کی چوتھی اصل اور اعتقاد کی چوتھی بنیاد امامت ہے لغت میں امام کے معنی رہبر ا ور پیشوا کے ہیں اور اصطلاح میں پیغمبر اکرم کی وصایت وخلافت اور ائمہ معصومین کی رہبری مراد ہے، امامت شیعوں کی نظرمیں اصول دین میں سے ایک ہے اور امام کا فریضہ شیعوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کے فرائض کی انجام دہی ہے۔

یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعثت کااور ائمہ کے منصوب ہونے کا مقصد ایک ہے اور جو چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ رسول کو مبعوث کرے وہی چیز اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ خد اامام کو بھی معین کرے تاکہ رسول کی ذمہ داریوںکو انجام دے سکے، امام کے بنیادی شرائط میں سے ہے کہ وہ بے پناہ علم رکھتا ہو اور صاحب عصمت ہو نیز خطا ونسیا ن سے دور ہو اور ان شرائط کے ساتھ کسی شخصیت کا پہچاننا وحی کے بغیر ناممکن ہے اسی لئے شیعہ معتقد ہیںکہ منصب امامت بھی ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی طرف سے معین ہو نا چاہئے لہٰذا امامت او رخلافت کی بحث ایک تاریخی گفتگو نہیں ہے بلکہ حکومت اسلامی کی حقیقت او رپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اختتام دنیا تک حکو مت کرنا ہے اور ہماری آئندہ کی زندگی سے مکمل طور پر مربوط ہے، اسی طرح یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعداعتقادی اور فکری مسائل میں لوگ کس کی طرف رجوع کریں ۔

شیعوںکاکہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلا م اور ان کے بعد ان کے گیارہ فرزند ایک کے بعد ایک پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین ہیں، شیعہ او رسنی کے درمیان یہی بنیادی اختلاف ہے ۔

ہمارا اصل مقصد اس بحث میں یہ ہے کہ امامت پر عقلی، تاریخی ،قرآنی اور سنت نبوی سے دلیلیں پیش کریںکیونکہ ہم ا س بات کے معتقد ہیںکہ اسلام حقیقی کانورانی چہرہ مذہب شیعہ میں پایا جاتا ہے اورصرف شیعہ ہیں جو حقیقی اسلا م کو اپنے تمام ترکمالات کے ساتھ پوری دنیا میں پہچنوا سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اس کی حقانیت کو دلیل ومنطق کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے ۔

۱۵۲

امامت کا ہو نا ضروری ہے

امامت عامہ

دلیل لطف : شیعہ معتقد ہیں کہ بندو ں پرخداکا لطف اور اس کی بے پناہ محبت اور حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعد بھی لوگ بغیر رہبر کے نہ رہیں یعنی جو دلیلیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہونے کے لزوم پر دلا لت کر تی ہیں وہی دلیلیںاس بات کی متقاضی ہیں کہ امام کا ہو نابھی ضروری ہے تاکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح دنیا اورآخرت کی سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکیں اوریہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ مہربان خدا بنی نوع انسان کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر کسی ہادی اوررہبر کے چھو ڑدے ۔

مناظرہ ہشام بن حکم

ہشام کا شمار امام جعفر صادق کے شاگردو ںمیں ہے : کہتے ہیں میں جمعہ کوبصرہ گیااور وہاں کی مسجد میں داخل ہوا عمروبن عبید معتزلی (عالم اہل سنت) وہاں بیٹھے تھے اور ان کو لوگ گھیرے میں لئے ہوئے سوال وجواب کر رہے تھے میں بھی ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اورکہا :میں اس شہر کانہیں ہوں کیا اجازت ہے کہ میں بھی سوال کروں ؟کہا جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو: میں نے کہا آپ کے پاس آنکھ ہے ؟ اس نے کہا دیکھ نہیں رہے ہو یہ بھی کوئی سوال ہے۔ ؟

میں نے کہا میرے سوالات کچھ ایسے ہی ہیں کہا اچھا پوچھو ہر چند کہ یہ بیکارہے انہو ں نے کہا جی ہاں آنکھ ہے ،میں نے کہا ان آنکھو ں سے کیا کام لیتے ہیں؟ کہا دیکھنے والی چیزیں دیکھتا ہو ں ا قسام او ررنگ کو مشخص کرتا ہو ں ، میں نے کہا زبان ہے ؟کہا جی ہا ں ، میں نے کہااس سے کیا کرتے ہیں؟ جواب دیا کہ اس سے کھانے کی لذت معلو م کرتاہوں میں نے کہا ناک ہے ؟کہنے لگے جی ہا ں میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ کہا خوشبو سونگھتا ہو ں او راس سے خوشبو اور بدبو میں فرق کرتا ہوں میں نے کہا کان بھی ہے ؟جواب دیا جی ہا ں ،میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ جو اب دیا اس سے مختلف آوازوں کو سنتا ہو ں او ر ایک دوسرے کی تشخیص دیتا ہو ں، میں نے کہا اس کے علا وہ قلب (عقل ) بھی ہے ؟کہا جی ہا ں۔ میں نے پوچھا اس سے کیا کرتے ہیں؟جواب دیا اگر ہما رے اعضاء وجوارح مشکوک ہو جاتے ہیں تواس سے شک کو دور کرتا ہو ں ۔

۱۵۳

قلب اور عقل کاکام اعضا ء وجوارح کو ہدایت کرنا ہے ،ہشام نے کہا:میں نے ان کی بات کی تائید کی کہا بالکل صحیح۔ خدانے عقل کو اعضاء وجوارح کی ہدایت کے لئے خلق کیااے عالم! کیایہ کہنا صحیح ہے کہ خدانے آنکھ کان کو اور دوسرے اعضاء کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑااور مسلمانو ں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر ہادی ورہبر کے چھوڑ دیا تاکہ لوگ شک و شبہ اور اختلا ف کی باعث فنا ہو جائیں کیاکوئی صاحب عقل اس بات کو تسلیم کرے گا ؟!۔

ہدف خلقت

قرآن میں بہت سی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں( هَوَ الَّذِی خَلَق لَکُم مَافِی الأَرضِ جَمِیعاً ) وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کے تمام ذخیرہ کو تم ہی لوگو ں کے لئے پیدا کیا۔( ۱ ) ( سَخَّرَ لَکُمُ اللَّیلَ وَالنَّهارَ والشَّمسَ وَالقَمَر ) ''اور اسی نے تمہارے لئے رات و دن اورآفتاب وماہتاب سب کو مسخر کردیا ''۔( ۲ )

چونکہ انسان کی خاطر یہ دنیا خلق ہوئی ہے اور انسان عبادت اور خدا تک پہونچنے کے لئے خلق ہو اہے تاکہ اپنے حسب لیاقت کمال تک پہونچ سکے، اس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة :۲۹

(۲) سورہ نحل آیة :۱۲

۱۵۴

مقصد کی رسائی کے لئے رہبر کی ضرورت ہے اور نبی اکرم کے بعدامام اس تکامل کا رہبر وہادی ہے ۔

مہربا ن ودرد مند پیغمبر او رمسئلہ امامت :

( لَقَد جَا ئَ کُم رَسُولُ مِن أَنفُسِکُم عَزیزُ عَلَیه مَا عَنِتُم حَرِیصُ عَلَیکُم بِالمُؤمنینَ رَؤُفُ رَحِیمُ ) یقینا تمہا رے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہو تی ہے وہ تمہاری ہدا یت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ۔( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کبھی کسی کا م کے لئے کچھ دن کے واسطے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے چاہے مقصد جنگ ہو یا حج، لوگو ں کی سرپرستی کے لئے کسی نہ کسی کو معین کر جاتے تھے تاکہ ان کی راہنمائی کر سکے آپ شہروں کے لئے حاکم بھیجتے تھے لہٰذا وہ پیغمبر جولوگوں پر اس قدر مہربان ہوکہ بقول قرآن ،اپنی زندگی میں کبھی بھی حتی کہ تھوڑی مدت کے لئے بھی لوگوں کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑا ،تو یہ بات بالکل قابل قبول نہیں کہ وہ اپنے بعد لوگو ں کی رہبری کے لئے امامت و جانشینی کے مسئلہ میں تساہلی وسہل انگا ری سے کام لیں گے اور لوگوں کو سرگردان اور بغیر کسی ذمہ داری کے بے مہار چھوڑ دیںگے ۔عقل وفطرت کہتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پیغمبر جس نے لوگوں کے چھوٹے سے چھو ٹے مسائل چاہے مادی ہو ں یا معنوی سبھی کو بیان کر

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة ۱۲۸

۱۵۵

دیا ہو اور اس نے سب سے اہم مسئلہ یعنی رہبری اور اپنی جانشینی کے تعین میں غفلت سے کام لیا ہو اورواضح طور پر لوگوں سے بیان نہ کیاہو!۔

سوالات

۱۔ امام کا ہو نا ضروری ہے دلیل لطف سے ثابت کریں ؟

۲۔ ہشام بن حکم اور عمروبن عبید کے درمیان مناظرہ کا خلا صہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امام کا ہونا لازم ہے خلقت کے ذریعہ کس طرح استدلال کریں گے ؟

۴۔ سورہ توبہ کی آیة ۱۲۸ کے ذریعہ کس طرح امامت کااستدلا ل کریں گے ؟

۱۵۶

چوبیسواں سبق

عصمت اورعلم امامت نیزامام کی تعیین کاطریقہ

عقل وسنت نیزقرآن کی نظر میں عصمت امامت کے لئے بنیادی شرط ہے اورغیر معصوم کبھی اس عہدہ کا مستحق قرار نہیں پاسکتا، نبوت کی بحث میں جن دلیلوں کا ذکر انبیاء کی عصمت کے لئے لازم ہونے کے طور پر پیش کیا گیاہے ان کو ملاحظہ فرمائیں۔

قرآن اور عصمت اما م

( وَاِذابتلیٰ اِبراهیمَ رَبُّهُ بِکلماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ اِنِّی جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِی قَالَ لَا یَنالُ عَهدیِ الظَّالَمِینَ ) اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراہیم کاامتحان لیا اور انھو ںنے پوراکردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کاامام اورقائد بنا رہے ہیں انھوںنے عرض کیا کہ کیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشاد ہو اکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا ۔( ۱ )

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة: ۱۲۴

۱۵۷

ظالم اور ستمگر کون ہے ؟

اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ اس بلند مقام کاحقدار کو ن ہے او ر کون نہیں ہے یہ دیکھنا پڑے گا کہ قرآن نے کسے ظالم کہا ہے ۔؟

کیونکہ خدانے فرمایاہے :کہ میرا یہ عہدہ ظالمین کو نہیں مل سکتا ۔قرآن نے تین طرح کے لوگو ں کو ظالم شمار کیاہے ۔

۱۔ جولوگ خد ا کا شریک مانیں( یَا بُنََّ لَاتُشرِک باللَّهِ اِنَّ الشِّرکَ لَظُلمُ عَظِیمُ ) لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:بیٹا خبردار کسی کو خد ا کاشریک نہ بنانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔( ۱ )

۲۔ ایک انسان کادوسرے انسان پر ظلم کرنا:( اِنَّما السَّبیلُ عَلیٰ الَّذینَ یَظلِمُونَ النَّاسَ وَیَبغُونَ فِی الأَرضِ بِغَیرِ الحَقِّ أُولئِک لَهُم عَذَابُ ألِیمُ ) الزام ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلا تے ہیں انہیں لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔( ۲ )

۳۔ اپنے نفس پر ظلم کرنا:( فَمِنهُم ظَالمُ لِنَفسِهِ وَمِنهُم مُقتَصِدُ وَمِنهُم سَابِقُ بِالخَیراتِ ) ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خداکی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں ۔( ۳ )

____________________

(۱)سو رہ لقمان آیة: ۱۳

(۲) سورہ شوری آیة: ۴۲

(۳) سورہ فاطر آیة: ۳۲

۱۵۸

انسان کو کمال تک پہنچنے اور سعادت مند ہو نے کے لئے پیدا کیا گیاہے، اب جس نے بھی اس راستہ سے روگردانی کی او رخدا ئی حد کو پار کیا وہ ظالم ہے( وَمَنْ یَتعَدَّ حُدُودَاللَّهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ) جس نے بھی خدا کے حکم سے روگردانی کی، اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔( ۱ )

قرآن میں ان تینوں پر ظلم کااطلاق ہوتاہے لیکن حقیقت میں پہلی اوردوسری قسم کے ظلم کااطلاق بھی اپنے نفس ہی پر ہوتاہے ۔

نتیجہ :چار طرح کے لوگ ہیں

۱۔ جوابتداء زندگی سے لے کر آخر عمر تک گناہ اور معصیت کے مرتکب ہوتے رہے ۔

۲۔ جنہو ںنے ابتداء میں گناہ کیا،لیکن آخری وقت میں توبہ کر لیا اورپھر گناہ نہیں کرتے ۔

۳ کچھ ایسے ہیں جو ابتدا میں گناہ نہیں کرتے لیکن آخری عمر میں گناہ کرتے ہیں۔

۴۔ وہ لوگ جنہوں نے ابتداء سے آخر عمر تک کوئی گناہ نہیں کیا۔

قرآ ن کی رو سے پہلے تین قسم کے لوگ مقام امامت کے ہرگز حقدار نہیں ہوسکتے ،کیو نکہ ظالمین میں سے ہیں اور خدا نے حضرت ابراہیم سے فرمایاکہ ظالم اس

____________________

(۱) سورہ طلا ق آیة: ۱

۱۵۹

عہدہ کا حقدار نہیں بن سکتا، لہٰذا مذکورہ آیة سے یہ نتیجہ نکلاکہ امام او ررہبر کو معصوم ہونا چاہئے اور ہر قسم کے گناہ او رخطا سے پاک ہو اگر ان تمام واضح حدیثوں کو جو رسول اسلام سے امام علی اور گیارہ اماموں کی امامت کے سلسلہ میں ہیں، یکسر نظر اندا ز کر دیا جائے، تب بھی قرآن کی رو سے مسند خلا فت کے دعویدار افراد خلا فت کے مستحق او رپیغمبر کی جانشینی کے قابل بالکل نہیں تھے کیو نکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ظالم کے حقیقی مصداق تھے اور خدا نے فرمایا ہے کہ ظالموں کو یہ عہدہ نہیں مل سکتا اب فیصلہ آپ خو د کریں!

۱۔ وہ لوگ جو ابتداء عمر سے ہی کافر تھے ۔

۲۔ وہ لوگ جنہو ں نے بشریت پر بالخصوص حضرت علی وفاطمہ زہراصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ظلم کیا ۔

۳۔وہ لوگ جنہو ںنے خو د اعتراف کیا کہ میں نے احکام الٰہی کی مخالفت کی اور اپنے نفس پر ظلم کیا ، کیا ایسے لوگ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلیفہ اور جانشین بن سکتے ہیں۔ ؟

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303