اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155115 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

محمد نصراللہ نصرؔ (ہاوڑہ)

( ۱)

پھول کو خوشبو قمر کی روشنی تو نے ہی دی

کائنات حسن کو یوں دلکشی تو نے ہی دی

*

اک فلک کو ماہ و انجم، اک زمیں کو پھول پھل

دونوں عالم کو ہر اک شئے دیدنی تو نے ہی دی

*

وسعت صحرا کو نخلستان کی ٹھنڈی ہوا

موج بحر بے کراں کو بے کلی تو نے ہی دی

*

طائر دلکش ادا کو حسن بھی دلکش دیا

عندلیب خوش نوا کو راگنی تو نے ہی دی

*

دن کو روشن کر دیا خورشید نور خاص سے

شب گزیدہ دہر کو یہ چاندنی تو نے ہی دی

*

علم کی دولت عطا کی، عقل بھی تیری عطا

ہاں بشر کو نیک و بد کی آگہی تو نے ہی دی

*

تیری حکمت کا بیاں ممکن نہیں الفاظ میں

ایک لفظ کن سے ہم کو زندگی تو نے ہی دی

*

بندۂ کمتر تری توصیف کرنا کس طرح

نصرؔ کو توفیق یا رب! مدح کی تو نے ہی دی

***

۸۱

(۲)

یہ مہر و ماہ منور غلام تیرے ہیں

تمام نور کے مظہر غلام تیرے ہیں

*

تغیرات زمانہ ہیں تری قدرت میں

یہ عرش و فرش کے منظر غلام تیرے ہیں

*

ترے غلام خدایا ہیں نغمہ بار پرند

تو نامہ بر یہ کبوتر غلام تیرے ہیں

*

ترے جہاں کے گداؤں کا ذکر کیا یا رب

زمانے بھر کے سکندر غلام تیرے ہیں

*

کروں نہ کیوں میں اطاعت تری مرے مولا

تمام پیر و پیمبر غلام تیرے ہیں

*

کہاں کہاں نہ غلامی میں ہے تری خلقت

یہ سیپ سیپ میں گوہر غلام تیرے ہیں

*

تری رضا پہ ہے موقوف فکر کی پرواز

تخیلات کے شہپر غلام تیرے ہیں

*

ترا غلام ترا نصرؔ کیوں نہ ہو یا رب

کہ ذی وقار سخنور غلام تیرے ہیں

***

۸۲

مشرف حسین محضر (علی گڑھ)

آنکھوں میں تو ہے دل میں تو ہے دل کے احساسات میں تو

تیری ذات کا میں شیدائی پنہاں میری ذات میں تو

*

صبح طرب کی سطح افق سے سورج بن کر ابھرا ہے

چاند کا روپ لیے آیا ہے غم کی کالی رات میں تو

*

عیش و مسرت تیرا کرم ہے فکرو فاقہ تیری رضا!

آسودہ لمحات میں تو تھا آشفتہ لمحات میں تو!

*

قہر ترا نافرمانوں پر رحم ترا ہر تابع پر

فیض و غضب کی آندھی میں تو رحمت کی برسات میں تو

*

کعبے کی دیوار پہ لکھے مصرعوں سے یہ ثابت ہے

لاثانی ہے تیرا کلام اور یکتا اپنی ذات میں تو

*

ماضی تیرا حال بھی تیرا مستقبل کا تو مالک!

ماضی کے حالات میں تو تھا موجودہ حالات میں تو

*

تو چاہے محضرؔ کے حق میں ناممکن، ممکن کر دے

ہر اک شئے پر تو قادر ہے سارے امکانات میں تو

***

۸۳

مراق مرزا (بمبئی)

گلستاں اس کے ریگزار اس کا

سارے عالم پہ اختیار اس کا

*

چاند ستاروں میں جلوہ گر ہے وہی

پھول کلیوں پہ ہے نکھار اس کا

*

اس کے دم سے رواں سمندر ہے

ہے ندی اس کی، آبشار اس کا

*

جانے کیوں ان دنوں لبوں پہ مرے

نام آتا ہے بار بار اس کا

*

ذرے ذرے میں وہ سمایا ہے

ہے زمیں اس کی کوہسار اس کا

*

جسم اس کا ہے، سانس اس کی ہے

ابن آدم ہے قرض دار اس کا

*

وہ مرا ہر گناہ بخشے گا

ہے مرے دل کو اعتبار اس کا

***

۸۴

رحمت اللہ راشد احمدآبادی (ناگپور)

ہے ترا ہر ذرے پہ احسان رب العالمین

کیا بیاں ہ سے ہو تیری شان رب العالمین

*

سرخرو ہو جائے ہر انسان رب العالمین

کر عطا ہر ایک کو ایمان رب العالمین

*

ساری خلقت آج بھی بے بس ہے تیرے سامنے

تیرے قبضے میں ہے سب کی جان رب العالمین

*

ذکر ہر مخلوق کرتی ہے ترا شام و سحر

لہر ہو دریا کی یا طوفان رب العالمین

*

سارا عالم، ساری دنیا تیرے ہی قبضے میں ہے

ہے ترا قرآں میں یہ اعلان رب العالمین

*

اک اشارے پر ترے پیارے خلیل اللہ نے

کر دیا بیٹے کو بھی قربان رب العالمین

*

جب بھی ٹوٹے تیرے راشدؔ پر مصیبت کے پہاڑ

کر دیا تو نے انھیں آسان رب العالمین

***

۸۵

حافظ اسرارسیفی (آرہ)

تو ہی میری آرزو ہے تو ہی میری جستجو

اول و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو

*

تو نے دامان زمیں کو موتیوں سے بھر دیا

اور جہان آسماں کو قمقموں سے بھر دیا

*

رازق و خلاق تو ہے حافظ و ناصر ہے تو

آنکھ سے اوجھل ہے لیکن ہر جگہ ظاہر ہے تو

*

نعمتیں ہیں ان گنت اور رحمتیں ہیں بے شمار

ہر قدم پر ہے عنایت تیری اے پروردگار

*

ہے منور نور بھی اور نور کا محور بھی تو

تو ہی ہے تحسین فطرت اور مہہ و اختر بھی تو

*

تو ہی مندر کا جرس ہے تو ہی مسجد کی اذاں

ذرے ذرے میں ہے روشن تیرے جلووں کا نشاں

*

قطرۂ ناچیز ہوں میں اور تو بحر رواں

تیری مدحت کے لیے ہے گنگ ناطق کی زباں

*

بخش دے سیفیؔ کو مولا ہے کرم تیرا بڑا

بندۂ ناچیز یہ ہے بحر عصیاں میں پڑا

***

۸۶

شاغل ادیب (حیدرآباد)

کاش مل جاتے مرے نالوں کو تاثیرنئی

تجھ سے اللہ ملے خوشیوں کی جاگیر نئی

*

رکھنا ایمان سلامت تو مرا اے اللہ

ہے یہ وعدہ نہ کروں گا کوئی تقصیر نئی

*

ہر نئی صبح رہے حمد نئی ہونٹوں پر

ہر نئی شام ہو، دل میں تری توقیر نئی

*

رات کے خواب مرے کڑوے بہت ہیں یارو

دن کے لمحات کو دے میٹھی سی تعبیر نئی

*

تیرے محبوبؐ کا بیمار جو ہو جاتا ہے

اس کو بے مانگے تو دے دیتا ہے اکسیر نئی

*

اپنے محبوبؐ کی امت پہ ہو رحمت کی نظر

اپنے محبوبؐ کی امت دے توقیر نئی

*

تیرے قرآں میں مسائل ہیں قیامت تک کے

آیتیں اس کی عطا کرتی ہیں تفسیر نئی

*

حمد شاغلؔ میں لکھوں یا کہ مناجات لکھوں

دے دے مولا تو قلم کو مرے تاثیر نئی

***

۸۷

فراغ روہوی (کلکتہ)

اعزاز مجھ کو ایک یہی ذوالجلال! دے

میری نگاہِ شوق کو ذوقِ جمال دے

*

مجھ کو خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے

ایسا دے پھر مزاج کہ دنیا مثال دے

*

تو نے عطا کیے ہیں یہ لوح و قلم تو پھر

جو دل گداز ہو وہی حسن خیال دے

*

شہرت سے تو نے مجھ کو نوازا تو ہے، مگر

تھوڑا سا انکسار بھی اے ذوالجلال! دے

*

میری نظر میں وہ کسی دریا سے کم نہیں

قطرہ جو میرے کوزے میں یا رب! تو ڈال دے

*

گمنامیوں کی قید میں گوہر جو ہے ابھی

یا رب! اسے صدف سے تو باہر نکال دے

*

محروم تیرے فیض سے صحرا جو ہے یہاں

اک بار اس کے سامنے دریا اچھال دے

*

ہو فیض یاب حرف دعا سے ترا فراغؔ

تاثیر بھی زباں میں اگر اس کی ڈال دے

***

۸۸

خضر ناگپوری (ناگپور)

اے مرے مالک مرے پروردگار

تیری رحمت ایک بحر بے کنار

*

آتش نمرود تو نے سرد کی

تو نے عیسیٰ کی بچائی زندگی

تو نے یوسف کا رکھا قائم وقار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

نور بخشا دیدۂ یعقوب کو

دم میں اچھا کر دیا ایوب کو

دی زلیخا کو جوانی کی بہار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

ہے عطا کی شان بھی کیا دیدنی

آگ کے طالب کو دی پیغمبری

ایک مانگے کوئی تو دے تو ہزار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

۸۹

نوح کی کشتی کا تو ہی ناخدا

راستہ موسیٰ کو دریا میں دیا

تیری قدرت ہے جہاں پر آشکار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

تاجدار انبیا کا واسطا

نعمت کونین اسے بھی کر عطا

خضرؔ بھی رحمت کا ہے امیدوار

اے مرے مالک مرے پروردگار

***

۹۰

بولو وہ کون ہے ؟

ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء (ناگپور)

بولو وہ کون ہے ؟ نظروں سے جو رہ کر پنہاں

ایک اک شے کے پس پردہ ہے جلوہ افشاں

*

بولو وہ کون ہے ؟ دیتا ہے جو سامان حیات

ہم کو بن مانگے عطا کرتا ہے کیا کیا نعمات

*

بولو وہ کون ہے ؟ ہر سمت ہے جس کا سکہ

حکمراں جو ہے فلک اور زمیں پر تنہا

*

بولو وہ کون ہے ؟ یہ دھرتی سجائی جس نے

چرخ پہ چادر نورانی بچھائی جس نے

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو قادر و قیوم بھی ہے

ہر دو عالم کا جو مسجود بھی مخدوم بھی ہے

*

بولو وہ کون ہے ؟ نازل کیا جس نے قرآں

اس میں صادر کئے حکمت بھرے کتنے فرماں

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو رزق عطا کرتا ہے

جس کی مرضی کے بنا پتہ نہیں ہلتا ہے

*

۹۱

بولو وہ کون ہے ؟ ہر امر پہ قدرت والا

جس سے بڑھ کر نہیں ہے کوئی بھی حکمت والا

جس نے پیدا کیا انساں کو بطرز احسن

زندگی کرنے کے پھر اس کو سکھائے ہیں چلن

جس نے مخلوق میں انساں کو بنایا اشرف

*

کون ہے وہ؟ جو ہے سجدوں کا ہمارے حقدار

ہر قدم پر ہمیں اس کی ہی مدد ہے درکار

ایسی ہی ہستی تو بجز رب العلیٰ کوئی نہیں

لائق حمد و ثنا اس کے سوا کوئی نہیں

***

۹۲

محسن باعشن حسرت (کلکتہ)

وہ جس نے دی ہم کو زندگانی

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

جو سب سے افضل ہے سب سے برتر

جو سب کا والی ہے سب کا یاور

*

وہ جس نے دونوں جہاں بنائے

زمین اور آسماں بنائے

*

وہ جس نے دولت ہمیں عطا کی

وہ جس نے شہرت ہمیں عطا کی

*

وہ جس نے دی ہم سبھوں کو عزت

وہ جس نے بخشی ہمیں مسرت

*

وہ جس کی ہم پر ہے مہربانی!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

وہ جس نے بخشی گلوں کو خوشبو

وہ جس نے دلکش بنائے جگنو

*

۹۳

وہ جس نے تارے سجائے ہر سو

وہ جس نے غنچے کھلائے ہر سو

*

یہ چاند سورج دیئے ہیں جس نے

پہاڑ پیدا کئے ہیں جس نے

*

وہ جس کے گن گا رہے ہیں سارے

وہ جس کے دم سے ہیں سب نظارے

*

جہاں پہ جس کی ہے حکمرانی!!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

***

۹۴

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

(۱)

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے

متاعِ صبر عطا کر دے ذوالجلال مجھے

*

فقط تری ہی محبت ہو خانۂ دل میں

اس آرزوئے حقیقی سے کر نہال مجھے

*

انا سے دل کو مرے پاک رکھ کہ اس کے سبب

عروج لے کے چلا جانبِ زوال مجھے

*

درست کر مری فطرت میں خامیاں ہیں بہت

نواز خوبیِ کردار و خوش خصال مجھے

*

وہ جس کمال نے صلحا کو سرفرازی دی

مرے کریم عطا کر وہی کمال مجھے

*

گناہگار ہوں ڈوبا ہوا ہوں عصیاں میں

تو اس عمیق سمندر سے اب نکال مجھے

***

۹۵

(۲)

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربی

مرا نصیب و مقدر سنوار دے ربی

*

ہوا ہے گلشنِ امید میرا پژمردہ

خزاں کی کوکھ سے فصلِ بہار دے ربی

*

قدم قدم پہ ہیں خارِ نفاق و بغض و حسد

اس امتحاں سے سلامت گزار دے ربی

*

میں مخلصانہ دعا دشمنوں کو دیتا رہوں

تو میرے دل میں وہ جذبہ ابھار دے ربی

*

میں جو کہوں یا لکھوں سب میں عشق ہو تیرا

میرے خیال کو اتنا نکھار دے ربی

*

بہت برا ہے گنا ہوں سے حال ساحلؔ کا

یہ بار سر سے تو اس کے اتار دے ربی

***

۹۶

(۳)

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولیٰ

راہ جو سیدھی ہے، وہ راہ بتا دے مولیٰ

*

تجھ کو پانے میں یہ قوت ہے رکاوٹ کا سبب

فتنہ و شر کو مرے دل سے مٹا دے مولیٰ

*

یہ گرفتار ہے گردابِ مسائل میں ابھی

کشتیِ زیست مری پار لگا دے مولیٰ

*

میرا ہر لفظ ترے عشق کا مظہر بن جائے

سوچ کو میری وہ پاکیزہ ادا دے مولیٰ

*

تیرے مصحف کی تلاوت کروں آسانی سے

نور آنکھوں کا مری اتنا بڑھا دے مولیٰ

*

عالمِ فانی و باقی میں بھلائی دے دے

نار دوزخ سے بھی ساحلؔ کو بچا دے مولیٰ

***

۹۷

(۴)

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دے دے

پیڑسرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دے دے

*

راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا

عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دے دے

*

خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری

سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دے دے

*

شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی

التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دے دے

*

سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا

صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دے دے

*

دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا

زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دے دے

***

۹۸

فرید تنویر (ناگپور)

میرے دل میں ہوئی جب بھی کوئی خواہش مولا

ہو گئی تیری عنایات کی بارش مولا

*

تیرے خورشید کرم کی یہ ضیا باری ہے

زندگی میں ہے اجالوں کی نمائش مولا

*

نکلا طوفان حوادث سے سفینہ میرا

یہ ترا فضل ہے، یہ تیری نوازش مولا

*

ہو مرے حال پہ ہر وقت ترا لطف و کرم

دور ہر دم رہے افلاک کی گردش مولا

*

التجا ہے ترے تنویرؔ کی اے رب کریم

زندگی بھر نہ ہو اس سے کوئی لغزش مولا

***

۹۹

منظورالحسن منظور (پونہ)

حیات مہنگی، ممات سستی ہے کیسا قہر و وبال یا رب

کہیں تو آ کر ہو ختم آخر، یہ دور حزن و ملال یا رب

*

یہ چینچی میں عتاب روسی، یہ بوسنی میں لہو کے دریا

ہے خوں میں ڈوبا ہوا فلسطیں، یہ کیسا طرز رجال یا رب

*

نکل کے بدر و احد سے آگے، یہ آئے ہیں کربلا سے غازی

تھکے ہیں سارے ہی آبلہ پا، تو آ کے انکو سنبھال یا رب

*

چلے ہیں سر سے کفن کو باندھے، صلیب کاندھوں پہ لیکے اپنے

زباں پہ تیرا ہے ذکر پیہم، نظر میں تیرا جمال یا رب

*

دلوں میں خیر البشرؐ کی عظمت، ادا میں قرآں کا بانکپن ہے

یہی تو ہے زادِ راہ اپنا، یہی ہے مال و منال یا رب

*

کھڑے ہیں دارو رسن کی زد پر، مگر ہنسی ہے سبھوں کے لب پر

یہ سرفروشی کا عزمِ راسخ، ہے مومنانہ کمال یا رب

*

یہ جوش صہبائے عشق احمدؐ، کہ زیر خنجر بھی کہہ رہے ہیں

لہو سے ہو کر ہی سرخ رو اب، ملے گا تیرا وصال یا رب

*

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ستاسٔواں سبق

مولا ئے کا ئنا ت کی امامت اور آیة تبلیغ

( یَاأَیُّها الرَّسُولُ بَلِّغْ مَاأُنِزلَ اِلیکَ مِنْ رَبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتهُ وَاللَّهُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللَّه لَا یَهدِی القَومَ الکَافِرِین ) اے پیغمبر!ٍ آپ اس حکم کوپہنچادیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیاگیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ۔( ۱ )

خطاب کا انداز بتا رہا ہے کہ کو ئی اہم ذمہ داری ہے کہ جس کے چھو ڑنے سے رسالت ناقص ہو جائیگی اور یہ آیت یقینا توحید یا جنگ یادوسری چیزوں کے واسطے نہیں تھی چونکہ اس آیت کے نازل ہو نے سے پہلے یہ تمام مسائل حل ہو چکے تھے کیونکہ یہ آیت پیغمبر کی زندگی کے آخری وقت میں نازل ہو ئی ہے بغیر کسی شک کے یہ آیت مسئلہ امامت اور جانشین پیغمبر سے متعلق ہے۔ یہا ںتک کہ اہل سنت کے بے شمار علماء ،مفسرین اور مورخین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مذکو رہ آیت

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیة: ۶۷

۱۸۱

واقعہ غدیر اور مولا ئے کا ئنا ت کے لئے نازل ہوئی ہے مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب مقدس الغدیر میں حدیث غدیرکو ۱۱۰ صحابہ سے اور ۳۶۰ بزرگ علماء اور مشہو ر اسلا می کتابو ں سے نقل کیاہے اورکسی نے اس حدیث کے صدور پر شک نہیں کیا ہے اگر آیة تبلیغ اور حدیث غدیر کے علا وہ کوئی دوسری آیت یا حدیث نہ بھی پا ئی جاتی تب بھی مولائے کا ئنات کی خلا فت بلا فصل کو ثابت کرنے کے لئے یہی دوآیتیں کا فی تھیں اس کے باوجود بے شمار آیتیں مولا ئے کا ئنا ت اور ان کے فرزندوں کی امامت کے سلسلہ میں نازل ہو ئی ہیں اورہمارا اعتقاد ہے کہ پوراقرآن مفسر اہل بیت ہے اور اہل بیت مفسر قرآن ہیں اور حدیث ثقلین کی نظر سے یہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ،اس سلسلہ میں روائی تفسیروں میں من جملہ نورالثقلین ،تفسیر برہان ،تفسیر عیاشی اور کتاب غایة المرام او ر دوسری بہت سی کتابو ں میں دیکھ سکتے ہیں ہم یہیں پر اس بحث پر اکتفا کرتے ہو ئے بحث کو مکمل کرنے کے لئے مشہور حدیث غدیر کو نقل کرتے ہیں ۔

مولا ئے کا ئنات کی امامت اور حدیث غدیر

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۰ھمیں مکہ کی طرف حج کے قصد سے گئے یہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آخری حج تھا لہٰذا تاریخ میں اسے حجة الوداع بھی کہتے ہیں اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ ایک لا کھ بیس ہزار صحابی تھے مدینہ کی طرف واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے ) میں جبرئیل نازل ہو ئے او راس آیت کو پیش کیا( یَاأَیُّهاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَاأُنِزلَ اِلیک مِنْ رَبِّک وَاِنْ لَمْ تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتهُ وَاللَّهُ یَعصِمُک مِنَ النَّاس اِنَّ اللَّه لَا یَهدِی القَومَ الکَافِرِین )

۱۸۲

قبل اس کے کہ مسلمان یہا ں سے جداہو ں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو رکنے کاحکم دیا جوآگے بڑھ گئے تھے انہیں پیچھے بلا یا اورجو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظارکیا بہت گرم اور جھلسا دینے والی ہوا چل رہی تھی مسلمانوں نے نماز ظہر پیغمبر اسلام کی امامت میں ادا کی، نماز کے بعد آنحضرت نے طویل خطبہ پڑھااور اس کے ضمن میں فرمایا :میں جلد ہی خدا کی دعوت پر لبیک کہنے والا ہوں اور تمہارے درمیان سے چلاجائو ں گا پھر فرمایا :اے لوگوں! میری آواز سن رہے ہو سب نے کہا ،ہاں ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :یَا أَیُّهاالنَّاس مَن أولَیٰ النّاس بالمُؤمنین من أ نفسهم اے لوگو! مومنین کے نفوس پر کون زیادہ حقدار ہے ، سب نے ایک آواز ہوکر کہا خدا اوراس کا رسول بہتر جانتا ہے حضرت نے فرمایا خدا میرا رہبر ومولاہے اور میں مومنین کارہبر ومولاہوں او رمومنین پر ان سے زیادہ میراحق ہے پھر مولا ئے کا ئنا ت کو ہاتھو ں پہ بلند کیا اور فرمایا:''مَنْ کنت مولاه فعلِّمولاه'' جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں اس جملہ کو تین بار دہرایا پھر آسمان کی طرف سر کو بلند کیا اور فرمایا:''اللَّهمَّ والِ مَن وَالاه وعاد مَنْ عاداه وانصر من نصره واخذل مَن خذله ُ''خدا یا! تو اس کو دوست رکھ جو اس (علی )کو دوست رکھے تو اس کی مدد کر جو اس کی مددکرے تواس کو رسواوذلیل کر جوان کی عزت نہ کرے

۱۸۳

پھر فرمایا : تمام حاضرین غائبین تک یہ خبر پہونچا دیں ابھی مجمع چھٹا نہیں تھا کہ جبرئیل نازل ہو ئے اور اس آیت کی پیغمبر پر تلا وت کی :( الیَومَ أکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَأَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِ وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دیناً ) ''آج میں نے تمہارے لئے دین کوکامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کوتم پر تمام کر دیاہے او رتمہارے دین اسلام سے راضی ہوگیا''۔( ۱ )

اسی وقت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :اللَّهُ أَکبرُ اللّّه أکبرُ علیٰ ٰاِکمال الدِّین واِتمام النّعمة ورِضیٰ الرّب برسالتِوالولایة لعلیّ مِن بعدیِ اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے دین کو کامل کرنے ،اور اپنی نعمتوں کے تمام کرنے اورمیری رسالت پر راضی ہونے ،اور میرے بعد علی کی ولایت پر راضی ہو نے پر ، اسی وقت لوگو ں کے بیچ ایک خبر گشت کرنے لگی او ر تمام لوگ مولائے کائنا ت کو اس مقام و منزلت پر مبا رک باد پیش کرنے لگے یہاں تک عمر نے لوگو ں کے درمیان مولا ئے کا ئنا ت سے کہا:''بخِِ بخِِ لَک یابنَ أَبیِ طالب أَصبحتَ وأَمسیتَ مولایِ ومولیٰ کُلّ مُؤمن ومؤمنة''مبارک ہو مبارک اے ابو طالب کے بیٹے آپ کی صبح وشام اس حالت میں ہے کہ میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے مولا ہیں اس حدیث کو مختلف الفاظ میں کبھی تفصیل کے ساتھ کبھی اختصار سے بے شمار علماء اسلام نے نقل کیا ہے اس حد تک کہ کسی کو بھی اس کے صادر ہونے پر شک نہیں ہے مرحوم بحرانی

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیة:۳

۱۸۴

نے اپنی کتاب غایة المرام میں اس حدیث کو ۸۹ سند کے ساتھ اہل سنت سے اور۴۳ سند کے ساتھ شیعہ سے نقل کیاہے اوراس سلسلہ میں بہترین کتاب جولکھی گئی ہے وہ ''الغدیر ''ہے جسے علامہ امینی نے بے انتہا زحمتوں کے بعد لبا س وجود عطا کیا ہے ۔

لفظ مولا کے معنی پر اعتراض اور اس کا جو اب

جب بعض نے یہ دیکھا کہ حدیث کی سند انکا ر کے قابل نہیں تو لفظ مولا کے معنی میں شک ایجاد کیا اور کہنے لگے کہ یہ دوست کے معنی میں ہے ۔

جو اب :

دس دلیلوں کی بنا پر لفظ مولی صرف ولا یت ورہبری کے معنی میں ہے اور دوست کے معنی ہر گز نہیںہو سکتے ۔

۱۔ خو د پیغمبر اسلام نے علی کے تعارف سے قبل فرمایا :''مَنْ أَولیٰ النّاس بالمؤمنین مِن أنفسھم'' اور پھر یہ جملہ''من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' ' فرمایا توپھر جس طرح پہلا جملہ ولا یت کے لئے ہے ، دوسرے کو بھی اسی طرح ہو نا ضروری ہے تاکہ دونو ں جملہ میں ربط باقی رہے ۔

۲۔ آیة تبلیغ جو مولا ئے کا ئنا ت کو پہنچنوانے سے قبل نازل ہو ئی پیغمبر سے خطاب کرکے فرمایا : اگر آپ نے یہ نہ کیاتوگویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا،کیا اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی سے دوستی کا اعلان نہیں کرتے تو رسالت ناقص رہتی ؟ جبکہ متعدد بار رسول اسلا م حضرت علی سے بے انتہا محبت اور دوستی کا اظہار کر چکے تھے یہ کو ئی نئی بات نہیں تھی ۔

۱۸۵

۳۔ کیا یہ بات معقول ہے کہ وہ پیغمبر جسے''مَایَنطِقُ عن الهَوی ٰ''کا خطاب ملا ہو ا س سخت گرمی میں ہزاروں لوگو ں کوروک کر کہے :اے لوگو ں جس کا میں دوست ہو ں علی بھی اس کے دوست ہیں۔ ؟

۴۔ جو آیتیں علی کے تعارف کے بعد نازل ہوئیں ہیں جیسے الیوم آج دین کامل ہوگیا نعمتیں تم پر تمام کردیں او رتمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا۔( ۱ ) دوسری آیت( الیَومَ یَئِس الّذین کَفَرُوا ) .....اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے( ۲ ) یہ تمام چیزیں کیا اس بناپر تھیں کہ پیغمبر نے علی کو دوست بنایا تھا۔ ؟

۵۔ وہ تمام خو شیاں اور حتی عمر کی مبارکبادی صرف پیغمبر اور علی کی دوستی کی وجہ سے تھی کیا یہ کوئی نئی بات تھی۔ ؟

۶۔پیغمبر اسلام اورائمہ معصومین نے یوم غدیر کومسلمانوں کے لئے سب سے بڑی عید قرار دیا ہے تاکہ ہر سال یہ واقعہ زندہ رہے کیا صرف دوستی کااعلان کرنا ان تمام چیزوں کا باعث بنا کہ اسے سب سے بڑی عید قرار دے دیا جائے ۔؟

۷ ۔تعارف کرانے سے پہلے آیت آئی( ''واللّه یَعصِمُک مِنْ النَّاسِ ) ''کیا پیغمبر اسلام علی سے دوستی کا اعلا ن کرنے سے ڈر رہے تھے کہ خدا کو کہنا پڑا کہ خدا آپ کو دشمنو ں کے شر سے محفوظ رکھے گا یاامامت اورجانشینی کااہم مسئلہ تھا۔ ؟

۸۔ شعراء اور ادیبوں نے اس وقت سے لے کر آج تک جو اشعار غدیر کے سلسلہ میں کہے ہیں ان سب نے خطبہ غدیر کو ولا یت اور امامت مولائے کا ئنات

____________________

(۱) سورہ مائدہ آیة۳

(۲) سورہ مائدہ آیة ۳

۱۸۶

سے مرتبط ماناہے اور مولائے کائنات کی جانشینی کو بیان کیاہے ان اشعار کا تذکرہ علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر کی پہلی جلد میں کیا ہے۔ ؟

۹۔ مولائے کائنات اور دوسرے ائمہ معصومین نے بہت سی جگہوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی امامت ثابت کی ہے اور سب نے ان کے کلام سے ولایت ورہبری کو جانا،قائل ہوئے اور قبول کیا ۔

۱۰۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر کی پہلی جلد کے ص ۲۱۴ پر اہل سنت کے مشہو ر مفسر ومورخ محمد جریر طبری سے نقل کیاہے کہ پیغمبر اسلام نے آیت تبلیغ کے نازل ہونے کے بعد فرمایا : کہ جبرئیل خداکی طرف سے حکم لائے ہیں کہ اس جگہ رک کرسبھی اورسب کالے اور گورے کو بتادیں کہ: علی ابن ابی طالب میرے بعد میرے بھائی میرے وصی و جانشین اورامام ہیں۔

سوالات

۱۔آیةتبلیغ مولائے کائنات کی امامت پر کیوں کر دلالت کرتی ہے ؟

۲۔ حدیث مقدس غدیر کا خلاصہ بیان کریں ؟

۳۔کیوں لفظ مولا حدیث غدیر میں صرف ولایت اور رہبری کیلئے آیا ہے ؟

۱۸۷

اٹھائیسواں سبق

حضرت مہدی ں (قسم اول )

امامت کی بحث کے بعد ،امام زمانہ کے سلسلہ میں اب مختصر سی بحث ضروری ہے کچھ روایتیں جواہل سنت کے یہاں پائی جاتی ہیں پہلے ان کاذکر کرتے ہیں تاکہ وہ رواتیںان کے لئے دلیل بن سکیں ۔

قال رسول اللّه :یخرجُ فی آخرالزمان رجل من ولدیِ اسمه کاسمیِ وکنیته ککنیتیِ یملأ الأرض عدلًا کما ملئت جوراً فذلکَ هوالمهدی ِ :آخر زمانے میں ہماری نسل سے ایک ایساشخص قیام کرے گا جس کا نام میرے نام پر ہو گا اور جس کی کنیت میری کنیت ہوگی ، اوروہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی اوروہی مہدی علیہ السلام ہیں۔( ۱ )

قال النبی صلی اللّه علیه وآله:''لولم یبق من الدهر اِلّا یوم لبعث اللّه رجلاً مِن اهل بیتی یملأها عدلاً کما مُلئت جَوراً '' اگر اس دنیاکے ختم ہونے میں ایک دن بھی باقی رہے گا تو اس دن بھی خدا وند عالم میرے اہل بیت سے ایک شخص کومبعوث کرے گا تاکہ دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے جس

____________________

(۱) التذکرہ ص۲۰۴ ۔منھا ج السنہ ص ۲۱۱۔

۱۸۸

طرح ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی ۔( ۱ )

قال رسول اللّه : ''لا تذهب الدّنیا حتی یقوم مِن أمتیِ رجل من ولد الحُسین یملأ الأَرض عدلاً کما مُلئت ظلماً ''اس دنیا کا اختتام اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ ہماری امت سے ایک شخص قیام نہ کرے جو نسل امام حسین سے ہو گا وہ زمین کوعدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وستم سے بھری ہو ئی ہوگی ۔( ۲ )

شیعہ مصنفین نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں بے شمارروایتیں حضرت مہدی کے حوالے سے نقل کی ہیں ۔لیکن مطلب روشن ہونے کی خاطر انہیں نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

حضرت مہدی ں کی مخفی ولا دت

حضرت حجت بن الحسن المہدی کی ولا دت پندرہ شعبان ۲۵۵ ھ کوہوئی ماں کا نام نرجس اورباپ کا نام امام حسن عسکری ہے ۔مخفی ولا دت کاسبب یہ تھا کہ امام کی ولا دت ایسے زمانے میں ہوئی جب عباسی دور خلافت کے ظالم وجابر اسلامی حکمران ملکوں پر قابض تھے وہ بہت سی حدیثوں کے ذریعہ جانتے تھے کہ امام حسن عسکری کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جو ظالم اور ستمگر حکومتوں کوجڑ سے اکھاڑ پھینکے گا لہٰذا وہ اس تاک میں تھے کہ قائم آل محمد کی ہر نشانی کومٹادیں، اسی لئے متوکل عباسی نے ۲۳۵ ھ ق میں حکم دیا کہ حضرت ہادی اور ان کے رشتہ داروں کو مدینہ سے سامرہ

____________________

(۱)ینابیع المودة ،ج۳،ص۸۹ سنن سجستانی ،ج ۴ ص ۱۵۱ مسند ، ج ۱ ص ۹۹ نورالابصار ،ص۲۲۹

(۲) مودة القربی ،ص ۹۶ ینابیع المودة ص ۴۵۵

۱۸۹

(حکومت کے پایہ تخت ) میں لایا جائے اور عسکر نامی محلے میں مستقر کر کے ان پر کڑی نظر رکھی جائے معتمد عباسی امام حسن عسکری کے اس نومولددفرزندکاشدت سے انتظار کررہا تھا اور اس نے اپنے جواسیس اور دائیوں کو اس امرکے لئے معین کرد یاتھا تاکہ علویوںکے گھروں خاص کر امام حسن عسکری کے گھرکا وقتا فوقتا معاینہ کریںاور اگر کوئی بچہ ملے جس پر منجی بشریت کاگمان ہوتو اسے فوراً قتل کردیا جائے اسی لئے احادیث معصومین میں امام زمانہ کی مخفی ولا دت کو جناب موسی کی ولادت سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسی خاطر ان کی ماں کاحمل ،موسی کی ماں کی طرح ظاہر نہیں ہوا او ر کسی کو علم نہیں تھا ،حتیٰ حکیمہ خاتون (امام حسن عسکری کی پھوپھی) کو بھی علم نہیں تھاجب نیمہ شعبان کی رات امام نے ان سے کہا ،آج رات یہیں ٹھہریں (چونکہ آج وہ بچہ آنے والا ہے جس کا وعدہ کیاگیا ہے ) تو انھوں نے تعجب کیا،کیونکہ نرجس خاتون میں حمل کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے جب امام زمانہ کی ولا دت ہوئی تو ان کے والد انہیںلوگوںکی نظروں سے چھپا کے رکھتے تھے ،صرف اپنے مخصوص اصحاب کو انکی زیارت کرائی ۔

شیخ صدوق اپنی کتاب اکمال الدین میں احمد بن حسن قمی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن عسکری کے یہاں سے ایک خط ہمارے دادا (احمد بن اسحق ) کے پاس آیا ،جس میں لکھا تھا :ہمارے یہاں بچہ پیداہواہے لیکن یہ خبر لوگوں سے چھپی رہے کیونکہ اس بات سے ہم صرف اپنے اصحاب اور قریبی رشتہ داروں کو ہی مطلع کررہے ہیں ۔

۱۹۰

امام زمانہ کی خصوصیت

۱۔امام زمانہ کانورائمہ کے نور کے درمیان اس ستارہ کی مانند ہو گا جوکواکب کے درمیان درخشاں ہو تا ہے ۔

۲۔ شجرہ شرافت ،پدر کے ذریعہ ائمہ علیہم السلا م اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک او رماں کے ذریعہ قیصر روم اورشمعون الصفا حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کے وصی سے ملتا ہے ۔

۳۔ولا دت کے روز امام زمانہ کو عرش لے جا یا گیا اور خدا کی جانب سے آواز آئی، مرحبا اے میرے خاص بندے ،میرے دین کی مدد کرنے والے ،میرے حکم کوجاری کرنے والے ،اور میرے بندوں کی ہدایت کرنے والے ۔

۴۔نام اورکنیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام اورکنیت پر ہے ۔

۵۔ وصی کا سلسلہ امام زمانہ پر ختم ہے ،جس طرح پیغمبر اسلام خاتم الانبیاء ہیں اسی طرح امام زمانہ خاتم الا وصیاء ہیں ۔

۶۔ ابتدائے ولا دت سے ہی روح القدس کے سپرد ہیں ، مقدس فضا اورعالم انوار میں تربیت ہوئی اٹھنا بیٹھنا مقدس ارواح اور بلند ترین لوگو ں کے ساتھ ہے ۔

۷۔ کسی ظالم وجابر کی بیعت نہ کی تھی، نہ کی ہے اور نہ کریں گے۔

۸۔امام زمانہ کے ظہور کی عجیب وغریب ،زمینی او رآسمانی نشانیاں ظاہر ہوں گی ،جوکسی حجت کے لئے نہیں تھیں ۔

۹۔ ظہور کے قریب آسمان سے ایک منادی آپ کے اسم گرامی کو پکا رے گا ۔

۱۰ ۔وہ قرآن جو امیرالمومنین نے پیغمبر کے انتقال کے بعد جمع کیا تھا اور محفوظ رکھا تھا وہ امام کے ظہو ر کے وقت ظاہر ہوگا ۔

۱۱۔ عمر کا طولا نی ہونا یاشب وروز کی گردش سے آنجنا ب کے مزاج یا اعضاء وجوارح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔اور جب سرکار کاظہور ہوگا توآپ ایک چالیس سالہ جوان کی مانند نظر آئیں گے ۔

۱۲۔ ظہور کے وقت زمین اپنے تمام خزانے اور ذخیرے کو اگل دے گی ۔

۱۹۱

۱۳ ۔لوگو ں کی عقل سرکار کے وجود کی برکت سے کامل ہوجائے گی ،اور آپ لوگو ں کے سروں پر ہاتھ پھیریں گے جس سے لوگوںکے دل کا کینہ وحسد ختم ہوجائے گااورلوگوں کے دل علم سے لبریز ہوں گے ۔

۱۴۔ آپ کے اصحاب کی عمر کافی طولانی ہوگی ۔

۱۵۔مرض ،بلاء ،مصیبت، کمزوری، غصہ، یہ تمام چیزیں آپ کے اصحاب کے جسم سے ختم ہوجائے گی اور ان کے اصحاب میں ہر ایک کی طاقت چالیس جوان کے برابر ہوگی ۔

۱۶۔آپ کی حکمرانی اور سلطنت مشرق سے مغرب تک پوری دنیا پر ہوگی ۔

۱۷۔ پوری دنیا عدل وانصاف سے بھر جائے گی ۔

۱۸۔بعض مردے زندہ ہوکر آپ کے ساتھ ہوجا ئیں گے منجملہ ۲۷افراد اصحاب موسی سے اور ۷ آدمی اصحاب کہف سے ۔یوشع بن نون ،سلمان ،ابوذر،مقداد مالک اشتر یہ لوگ تمام شہروں میں حاکم ہوں گے ۔ اور جو بھی چالیس صبح دعائے عہد پڑھے گا اس کا شمار امام کے ساتھیوں میں ہوگا او راگر حضرت کے ظہور سے پہلے انتقال کر گیا تو خدا وند عالم اسے زندہ کرے گا تاکہ امام کی خدمت میں حاضری دی سکے۔

۱۹۲

۱۹۔ وہ تمام الٰہی احکام جو ابھی تک نافذ نہیں ہو سکے نافذ ہوں گے ۔

۲۰۔علم کے تمام۲۷ حروف ظاہر ہوجا ئیںگے ۔اور امام کے ظہور تک صرف دو حرف ظاہر ہو ئے ہوںگے ۔

۲۱۔ کفا ر ومشرکین سے تقیہ کا حکم ،آپ کے زمانہ میں ہٹا لیا جائے گا۔

۲۲۔ کسی سے گواہی یا دلیل نہیں مانگی جائے گی،امام خود حضرت داود کی طرح اپنے علم امامت سے فیصلہ کریں گے ۔

۲۳۔ با رش، درخت ، ہریالی ،میوہ جات اور دوسری نعمتیں بے شمار ہوں گی۔

۲۴۔آپ کی مدد کے لئے جناب عیسی آسمان سے اتریں گے اور آپ کے پیچھے نما ز پڑھیں گے۔

۲۵۔ ظالموں کی حکومت اور جابروں کی سلطنت کا خاتمہ ہوجائے گا ۔

لِکلِّ أُناس دولة یرقبونها

ودولتنا فی آخر الدَّهر تظهر

روایت میں ہے کہ امام صادق ہمیشہ اس شعر کو زمزمہ کیا کرتے تھے ۔

ترجمہ: (تمام لوگو ں کے لئے ہرزمانہ میں حکومت ہے جس پر وہ نظر جمائے ہیں اور ہماری حکومت آخری زمانہ میں ہوگی) امام زمانہ کی حکومت آنے پر تمام ائمہ معصومین رجعت فرمائیں گے۔( ۱ )

____________________

(۱) یہ ان خصوصیات کا خلا صہ ہے جنہیں محدث قمی نے منتھی الاما ل میں نقل کیا ہے ۔

۱۹۳

سوالات

۱۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایسی روایت بیان کریں جوآپ کے ظہور اور آفاقی عدالت

پر دلا لت کرتی ہے ؟

۲۔ امام زمانہ کی ولا دت مخفی کیوں تھی ؟

۳۔ امام زمانہ کی خصوصیات بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۹۴

امام زمانہ کے شکل وشمائل (دوسری فصل )

روایت میں ہے کہ امام زمانہ رسول اللہ سے بہت زیادہ مشابہ ہوں گے اور آپ کے شکل وشمائل کے حوالے سے جو کچھ تاریخ میں درج ہے وہ یہ ہیں۔

۱۔سفیدی وسرخی کا سنگم نورانی چہرہ۔

۲۔ رخسار مبارک گندمی لیکن شب زندہ داری کے باعث زردی مائل۔

۳۔ کشادہ اور تابناک پیشانی۔

۴۔ بھویں آپس میں متصل اور ناک ستواں۔

۵۔دلکش چہرہ ۔

۶۔ ریش مبارک اور سر کے بالوں کی سیاہی پر رخ زیبا کانور غالب ہوگا۔

۷۔ داہنے رخسار پر ایک تل ہوگا۔

۸۔سامنے کے دندان مبارک میں (رسول خدا کی مانند ) شگاف ہوگا (جو حسن کو دوبالاکردے گا ) ۔

۹ ۔ آنکھیں سیاہ وسرمئی اور سرپر ایک نشان ہوگا ۔

۱۰۔ بھرے اور کشادہ شانے ۔

۱۱۔ روایت میں ہے کہ ''المھدِّ طاووس أھلَ الجَنَّةِ وجھہ کالقمر الدری علیہ جلابیب النور'' امام زمانہ اہل بہشت کے لئے طائووس (مور ) کی طرح ہیں آپ کاچہرہ چاند کی طرح منور اور جسم پر نورانی لباس ہوگا ۔

۱۲۔ نہ دراز نہ پستہ بلکہ میا نہ قد ہوںگے ۔

۱۳۔ قدوقامت ایسا اعتدال وتناسب کے سانچہ میں ڈھلا ہوگا کہ چشم عالم نے اب تک نہ دیکھا ہوگا ۔''صلی اللّہ علیہ وعلی آبائہ الطاہرین ''

۱۹۵

امام زمانہ کی غیبت صغریٰ

غیبت صغریٰ کا آغاز آپ کے پدر بزگوار کی شہا دت اور ان پر نماز پڑھنے کے بعد ہو ا ۔اس غیبت میں امام زمانہ نے اپنے لئے خصوصی نائب چنے جن کے ذریعہ شیعوں کی ضروریات اور ان کے سوالات کا جواب دیتے تھے کچھ دن تک چار نمایندے ایک کے بعد ایک آپ کاحکم اور جو اب لے کر شیعوں تک پہنچاتے تھے ۔

امام کے پہلے نائب خاص :ابو عمر عثمان بن سعید العمری الاسدی تھے جن کی نیابت ۲۶۰ھ سے شروع ہوکر ۲۸۰ھ پر ختم ہو گئی ۔

دوسرے نائب :ان کے بیٹے محمد بن عثمان العمری تھے جو باپ کے انتقال کے بعد ۲۸۰ ھ سے ۲۰۵ ھتک نائب تھے ۔

تیسرے نائب :ابوالقاسم الحسین بن روح نو بختی جن کی نیابت ۳۰۵ ھ سے لے کر ۳۲۶ھ تک تھی ۔

چوتھے نائب :ابو الحسن علی بن محمد سمری ۳۲۶ھ سے لے کر ۳۲۹ ھتک تھے او ر اسی سال ۱۵شعبان کو انتقال کر گئے ۔

ان حضرات کے نیابت کی جگہ بغداد تھی اور یہ سب بغداد میں ہی مدفون ہیں اس کے بعد غیبت کبریٰ کا آغاز ہوجاتا ہے۔

امام زمانہ کی غیبت کبریٰ

امام زمانہ کی غیبت کبری علی بن محمد سمری کے انتقال سے چھ دن قبل امام زمانہ کی جانب سے توقیع شریف جاری ہوئی ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا علیِّ بن محمّد ا لسّمری أعظم اللّه أجر اخوانک فیک فاِنّک میت ما بینک وبین ستة أیام فاجمع أمرک ولا توص اِلیٰ أحد فیقوم مقامک بعد وفاتک فقد وقعت الغیبة التامة فلا ظهور اِلاّ بعد اِذن اللّه تعالیٰ ذکره و ذلک بعد طول الأمد وقسوة القلوب وامتلاء الأرض جوراً وسیاتی من شیعتیِ مَن یدعیِ المشاهدة الا فمن ادعیٰ المشاهدة قبل خروج السّفیانیِ والصیحة فهوکذّاب مفترّ ولا حول ولا قوة اِلّا باللّه العَلِّی العظیم.

۱۹۶

اے علی بن محمد سمری! ''خدا تمہاری موت پر تمہارے بھائیوں کو صبر اور اجر عظیم عطا کرے اب سے چھ دن کے اندر تمہارا انتقال ہوجائے گا ،لہٰذا اب تم اپنے امور کو مرتب کرلو اور آئندہ کے لئے کسی کو اپنا وصی مقرر نہ کرنا،جو تمہارے انتقال کے بعدتمہارا جانشین قرار پائے کیونکہ اب غیبت تامہ (کبری ) کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے اور اب اس وقت ظہور ہوگا جب خدا کا حکم ہو گا اوریہ ایک طویل مدت اوردلو ں کے سخت ہوجانے اور زمین کے ظلم سے بھر جانے کے بعد ہی ہو گا ۔آئندہ زمانے میں ہمارے شیعو ں میں سے بعض اس بات کا دعوی کریں گے کہ ہم نے امام زمانہ کو دیکھا ہے لیکن جو شخص سفیانی کے خروج اور آسمانی آواز سے پہلے مجھے دیکھنے کا دعوی کرے وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے اور کوئی طاقت وقوت نہیں سوائے بلند وعظیم خد اکے''۔( ۱ )

لہٰذا اب لوگ غیبت کبری میں علماء مجتہدین کی طرف رجوع کریں جیسا کہ خود امام زمانہ نے اسحاق بن یعقوب کے مسئلہ کے جواب میں جومحمد بن عثمان بن سعید سمری کے ذریعہ امام تک پہنچاتھا ۔آپ نے فرمایا :''وأمّا الحوادث الواقعة فارجعوا فیهااِلیٰ رواة أحَادیثنا فأِنّهُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّهِ علیهم'' ا ب اگر کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوجا ئے تو اس میں راویان حدیث کی جانب رجوع کرنا کیونکہ یہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں اور ہم خدا کی طرف سے ان کے لئے حجت ہیں۔

''اللَّهمَّ عَجّل فَرجه واجعلنا من أعوانه وأنصاره'' (آمین )( ۲ )

____________________

(۱) منتھی الامال نقل از شیخ طوسی وصدوق ۔(۲)بحث امامت کی تدوین و ترتیب میں حسب ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے ؛ بحارالانوار ، حق الیقین مرحوم مجلسی ؛ اثبات الھدی، شیخ الحر عاملی ؛ المراجعات شرف الدین ، بررسی مسائل کلی امامت ابراہیم امینی اصول اعتقادرا این گونہ تدریس کنیم ، امامی ، آشتیانی ، حسنی ) کتابھا ، عقائد آقایان مکارم شیرازی ، سبحانی استادی ری شہری، قرأتی کلمة الطیب ، مرحوم طیب۔

۱۹۷

سوالات

۱۔امام زمانہ کے شمائل کو مختصر طور پر بیان کریں ؟

۲۔ غیبت صغری کسے کہتے ہیں اور یہ کب تک جاری رہی ؟

۳۔نواب اربعہ کے نام بتائیں ؟

۱۹۸

انتیسواں سبق

ولایت فقیہ

عربی میں ولا یت کے دومعنی بیان کئے گئے ہیں ۱۔رہبری اور حکومت ۲ ۔ سلطنت( ۱ ) جب ولایت کسی فقیہ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی معاشرہ کی راہنمائی اور ان کی رہبری ہے اگر اسلام کے سیاسی نظام کی شرح کی جائے اور اس کے سیاسی پہلوئوں کو اجاگر کیاجائے تواس صورت میں ولایت فقیہ غیبت امام زمان میں اس مذہب کا ایک اہم رکن ہوگا ۔

اہل تشیع کے نزدیک عصر غیبت میں ولایت فقیہ ائمہ معصومین کی ولایت کی تکمیل واستمرار ہے جس طرح ائمہ کی امامت رسول کی ولا یت کا دوام ہے اس عقیدہ کااصل مقصد یہ ہے کہ اسلامی حکومت کی کلید باگ ڈور سنبھالنے کے لئے ایک صدر مقام ہو اور وہ ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہوجواسلام کی صحیح شناخت رکھتا ہو اگر عصر معصوم ہے تو خود معصوم اس کی نظارت فرمائیں اور ان کی عدم موجودگی میں فقیہ جامع الشرائط اس عہدہ کو ذمہ دار ہو گا۔چونکہ اسلام کی نظرمیں حکومت کا اصل کام ضروریات اسلام اوراحکام اسلامی کو لوگوں کے درمیان نافذ کرنا ہے۔اور اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ حکم کوقطعی اور حتمی صورت دینے والا شخص دین کی مکمل شناخت رکھتاہو ۔

____________________

(۱) قاموس المحیط ص،۱۷۳۲ مصباح المنیر ج،۲ ص ۳۹۶ تاج العروس ج،۱۰ ص ۳۹۸ ۔

۱۹۹

ولایت فقیہ پر دلیل

ولایت فقیہ پرعقلی دلیل

اس میں کو ئی شک نہیں کہ ہرسماج اورہر حکومت کے لئے رہبر کا ہونا ضروری ہے، اگر کسی سماج میں اسلامی حکومت وسلطنت ہو تو عقل کا تقاضا ہے کہ اس حکومت کی باگ ڈور ایسے ہاتھ میں ہوجو احکام وقوانین اسلامی کومکمل طور سے جانتا ہو، اب اگر امام معصوم لوگوں کے درمیان ہے تو وہ اس منصب کا حقیقی حقدار ہے ۔

لیکن زمانہ غیبت میں معاشرہ کی رہبریت کی صلا حیت رکھنے والا فقیہ عادل اس مقام کامستحق ہے۔دوسرے لفظوںمیں یوں کہاجائے کہ اسلامی قوانین اوراحکام اسلامی کوجاری کرنے والے کے لئے تین شرطوں کاہونا ضروری ہے ۔

۱۔''بہترین قانون شناس ہو'' ۲۔'' قوانین اسلام کابہترین مفسر ہو''

۳۔''قوانین اسلام کا بہترین عالم اور نافذ کرنے والاہو او ر کسی قسم کے اغراض ومقاصد کے تحت مخالفت کاقصدنہ رکھتا ہو ''۔

اس خصوصیت کا حامل اس زمانہ غیبت میں ولی فقیہ ہے ۔

ولایت فقیہ :یعنی ایسے اسلام شناس عادل کی طرف رجو ع کرناجو سب سے زیادہ امام معصوم سے قریب ہو ۔

دلیل نقلی:

ولایت فقیہ کے اثبات کے لئے بہت ساری روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔

۱۔ توقیع شریف جیساکہ صدوق نے اسحاق بن یعقوب سے نقل کیاہے کہ امام زمانہ نے ان کے سوال کے جواب میں جوخط لکھا تھا وہ یہ حکم تھا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303