اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )12%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155156 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

''وأمّا الحوادث الواقعة فارجعوا فیها اِلیٰ رواة أحَادیثنا فأِنّهُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّهِ علیهم''اگر کو ئی مسئلہ درپیش ہوتو ہما رے راویان حدیث کی طرف رجو ع کریں کیونکہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں اور ہم اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں۔( ۱ ) مرحوم شیخ طوسی نے بھی کتاب ''الغیبة'' میں اس حدیث کونقل کیا ہے فقط''اَنَا حُجّةُ اللّهِ علیهم''کی جگه'' اناحجة الله علیکم''کالفظ استعمال کیاہے کہ (میں تم پر حجت خداہوں )اس حدیث سے اس طرح استدلال کیاجائیگاکہ اس حدیث میں امام زمانہ نے دوجملوں''فأِنّهُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّهِ'' اس طرح بیان فرمایا جو بالکل روشن ہے راویا ن حدیث جویہی فقہاء ہیں ان کا حکم امام کے حکم کے مانند ہے یعنی فقہاء لوگوں کے درمیان امام کے نائب ہیں ۔

۲۔وہ حدیث جو امام صادق سے نقل ہوئی ہے اور مقبولہ محمد بن حنظلہ کے نام سے مشہور ہے ''مَنْ کا ن منکم قَد رویَ حدیثنا ونظر فیِ حلالنا وحرامنا وعرف أحکامنا فلیرضوا به حکماً فاِنِّی قد جعلته علیکم

____________________

(۱)اکمال الدین صدوق ج،۲ص ۴۸۳

۲۰۱

حاکماً فاِذا حَکم بحکمنا فلم یقبله منه فانما استخف بحکم اللّه وعلینا ردّ والرّاد علینا کالرّاد علیٰ اللّه وهو علیٰ حدّ الشِّرک باللِّه'' ( ۱ )

تم میں جو بھی ہماری حدیثیں بیان کرے اور جو ہمارے حلال وحرام میں صاحب نظر ہو اور ہمارے احکام کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اس کی حاکمیت سے راضی ہو کیونکہ ہم نے ان کو تم سب پر حاکم قرار دیاہے اگر انھو ں نے ہمارے حکم کے مطابق حکم کیا اور قبول نہیں کیا گیا تو حکم خدا کو ہلکا سمجھنا ہے اور ہمارے قول کی تردید ہے اور ہماری تردید حکم خدا کی تردید ہے اور یہ شرک کے برابر ہے ۔آج کی اصطلاح میں فقیہ اس شخص کو کہتے ہیں جوحدیث کی روشنی میں حلال وحرام کو درک کرسکے ۔اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب امام معصوم کی موجود گی میں امام تک پہنچنا ممکن نہ ہو اور امام معصوم کی حکومت نہ ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کاکام فقیہ جامع الشرائط کی طرف رجوع کرناہے اس زمانہ غیبت امام میں جبکہ کوئی امام موجود نہیں ہے تولوگو ں کی یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ فقیہ جامع الشرا ئط کی طرف رجو ع کریں ۔

۳۔شیخ صدوق امیر المومنین ںسے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:''اللَّهمَّ ارحم خُلفائِ الّذین یأ تون مِن بعدیِ یرون حدیثیِ وسنتیِ'' ( ۲ ) خدا یا!ہمارے خلفاء پر رحم فرما آپ سے پوچھا گیا آپ کے جانشین کون ہیں ؟تو آپ نے فرمایا جو ہمارے بعد آئیں گے اورہماری سنت واحادیث کو نقل کریں گے ۔اس حدیث سے ولا یت فقیہ کے اثبات میں دو نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے ۔

____________________

(۱) اصول کافی ج۱، ص ۶۷(۲) من لا یحضر ہ الفقیہ ج،۴ص ۴۲۰ وسائل الشیعہ ج ،۱۸ ص ۶۵

۲۰۲

الف ) رسول اسلام تین چیزوں کے لئے مبعوث کئے گئے تھے۔

۱۔ آیات الٰہی کی تبلیغ احکام شرعی کی تو ضیح وتفسیر اور لوگو ں کی ہدایت کے لئے۔

۲۔ اختلافات اور تنازع کے وقت قضاوت کے لئے۔

۳۔ حکومت اسلامی کی تشکیل اور اس کی حسن تدبیر یعنی ولایت کے لئے۔

ب) جو رسول کے بعد آئیں گے اور ان کی سنت واحادیث کو بیان کریں گے ان سے مراد فقہاء ہیں ۔راویان ومحدثین مراد نہیں ہیں کیونکہ راویان حدیث فقط حدیث نقل کرتے ہیںاور ان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ یہ حدیث یاسنت خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے بھی یانہیں ؟کو ن سی حدیث میں تعارض (ٹکرائو) ہے اور کون سی مخصصّ ہے ان تمام چیزوں کو وہی جانتا ہے جو مقام اجتہاد اور درجہ فقہاہت تک پہنچ چکا ہوتا ہے ان دو نکتوں کی جانب توجہ کرنے کے بعد اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فقہا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہیں اور وہ تمام چیزیں جوپیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تھیں (جیسے تبلیغ دین ، فیصلہ، حکومت وولایت ) ان کے لئے بھی ہیں ۔

۲۰۳

ولی فقیہ کے شرائط

۱۔اجتہاد وفقاہت: دینی واسلامی حکومت میں سماج ومعاشرہ کی زمامداری اسلامی قوانین کی بنا ء پر ہو تی ہے لہٰذا جو شخص اس منزل و مقام پر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی قانون کو اچھی طرح جا نتا ہو تاکہ معاشرہ کی رہبری کے وقت اس کے قانو ن کی مخالفت نہ ہو ۔ اور ان قوانین کا علم اجتہاد ی منزل میں ہو نا چاہئے ۔

۲۔ عدالت وتقوی :اگر عالم وفقیہ عدالت وتقوی سے دور ہوگا تواقتدار ومسند نشینی اس کو تباہ کردے گی بلکہ اس بات کا امکا ن ہے کہ ذاتی یاخاندانی منفعت کوسماجی وملی منفعت پر مقدّم کردے۔ولی فقیہ کے لئے پرہیزگا ری،امانتداری،اور عدالت شرط ہے تاکہ لوگ اعتما د اوراطمینا ن کے ساتھ مسند ولایت اس کے حوالے کردیں ۔

۳۔سماجی مصلحت کی شناخت اور اس کی درجہ بندی : یعنی مدیر ومدبر ہو ۔قال علی :''أَیُّها النّاس أِنَّ أحقّ النَّاس بهذا الأمر أقواهم علیه وأعلمهم بأمرِ اللّه فیه'' ( ۱ ) اے لوگو ! حکومت کامستحق وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ شجاع ہو اور احکا م الٰہیہ کا تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔( ۲ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۳(۲) ولایت فقیہ کی بحث کو مصباح یزدی ہادوی تہرانی ، کی بحثوں سے اقتباس کیا ہے۔

۲۰۴

سوالات

۱۔ ولایت عربی لغت میں کن معنوں میں مستعمل ہواہے اور ولایت فقیہ سے مرادکون ہیں؟

۲۔ ولایت فقیہ کے لئے عقلی دلیل بیان کریں ؟

۳۔ امام زمانہ کی توقیع مقدس جو فقہاء کے طرف رجو ع کے سلسلہ میں ہے بیان کریں ؟

۴۔ مقبولہ عمر وبن حنظلہ سے کس طرح استدلا ل کیاجا ئے گا ؟

۵۔ حدیث ''اللّھم اِرحم خلفائی'' میں ولی فقیہ کا امتیاز کیاہے ؟

۶۔ولی فقیہ کے شرائط کیا ہیں ؟

۲۰۵

تیسواں سبق

معاد

توحید کے بعد اعتقادی امور میں قیامت سے اہم کوئی مسئلہ نہیں ہے، قرآن میں تقریبا بارہ سو آیتیں صرف معاد کے لئے ہیں ،اس طرح تقریبا ہر صفحہ پر معاد کاتذکرہ ہے اور تیس مقامات پر خداپر ایمان کے بعد اس دوسری دنیا پر ایمان کا تذکرہ ہے جیسے''و یؤمنون باللّہ والیوم الاخر'' خدا اوراس کی حکمت وعدالت اور قدرت پر ایمان ،معاد کے ایمان کے بغیر ناممکن ہے ۔

اعتقاد معاد کے آثار

۱۔معاد پر ایمان واعتقاد انسانی زندگی کوایک مفہوم عطاکرتاہے اوراس دنیا کی کھوکھلی زندگی سے رہائی دلاتا ہے ۔۲۔ معاد کا عقیدہ انسان کوکمال کے راستے پر گامزن کرتاہے اوراسے ادھر ادھر حیران وسرگردان ہو نے سے بچاتا ہے۔ ۳۔ معاد پر ایمان تمام احکام الٰہی کے اجراء کی ضمانت ،حقدار کو ان کا حق ملنے کا سبب اور انسان کو مشکلات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔۴۔معاد پر ایمان کا اصلی مقصد پاکیزگی نفس ،احکام شرعی پرعمل پیرا ہونا اورایثار وقربانی ہے ۔۵۔ معاد کا عقیدہ دنیاداری کے اس جڑکو اکھاڑ پھینکتاہے جس پر خطا ومظالم کی بنیاد ہے اوریہ فعل خود تمام گناہو ں سے دوری کا سبب ہے ۔

۲۰۶

خلاصہ کلام یہ کہ معاد پر ایمان کے نتیجہ میں انسان کے اعمال میں بہت زیادہ فرق آجا تا ہے او راس کا گہرا اثر پڑتا ہے، کیونکہ انسان کے اعمال کی بازگشت اس کے اعتقادکی طرف ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ہر انسان کے کردار اوراعتقاد کارابطہ دوسری دنیا سے براہ راست ہوتاہے جوبھی معاد پر اعتقاد رکھتا ہے اپنی اوراپنے اعمال کی اصلاح میں حد سے زیادہ سخت اور حساس ہوتاہے وہ جب بھی کوئی کام کرتاہے اس کا قطعی نتیجہ اپنی آنکھو سے دیکھ لیتاہے اسی لئے وہ ہمیشہ اپنے اعمال پر نظر رکھتاہے ان لوگو ں کے بہ نسبت جو مرنے کے بعد والی زندگی کی طرف توجہ نہیںکرتے، انکی دنیاوی زندگی عبث ،بیکا راور تکراری ہے اگر دنیا کی زندگی کو آخرت پر ایمان رکھے بغیر دیکھیں توبالکل ویسے ہے جیسے وہ بچہ جو بطن مادر میں ہے اور اس کے لئے یہ دنیا نہ ہو تو وہ ایک تاریک قید خانہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

درحقیقت اگراس دنیا کا اختتام فقط فنا ونابودی ہے توکتناخوفناک اور بھیانک ہے یہاں تک آرام دہ زندگی بھی عبث اور بے فائدہ ہوجائے گی کچھ دن تک سادہ لوح اورناتجربہ کار پھر ہر طرح سے آمادہ کچھ دن غم وآلام کی زندگی پھر پیری وبڑھاپا اورموت ونابودی یہ سب کیامعنی رکھتا ہے تو پھر کس کے لئے زندہ ہیں ؟صرف کھانے لباس زحمات کامقابلہ کرنے کے لئے ؟

۲۰۷

اس تکراری زندگی کو دسیوں سال کھینچنے سے کیا فائدہ؟ کیاواقعاً اتنا وسیع آسمان اور یہ زمین اور یہ حصول علم کی زحمت اور تجربات یہ اساتید اور مربی یہ سب فقط چند دن کی زندگی کے لئے تھے پھر ہمیشہ کے لئے فناونابودی ہے اس جگہ قیامت پر ایمان نہ رکھنے والو ں کے لئے زندگی کاعبث وبیکار ہو ناقطعی ہوجاتاہے لیکن جو لوگ معاد پر اعتقاد رکھتے ہیں دنیاکو آخرت کی کھیتی سمجھتے ہیں اس کسا ن کی مانند ہے جوفصل اس لئے اگا تاہے کہ اس سے ایک مدت تک بلکہ ہمیشہ اپنی زندگی بسر کرئے گا ۔زندگی ایک پل اور صراط مستقیم کی مانند ہے جس پر چل کرانسان ایک مقصد تک پہنچتاہے جیساکہ قرآن نے فرمایا :( وَفیهَا مَا تَشتَهِیهِ الأنفُسُ وَتَلذُّ الأعیُنُ ) ( ۱ ) وہاں ان کے لئے وہ تمام چیزیں ہوںگی جس کی دل میں خواہش ہو اور جو آنکھوں کوبھلی معلوم ہوتی ہو اورتم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو اس دنیا جیسی با عظمت( ''لاعینُ رأت ولا أذنُ سَمِعت'' نہ آج تک کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا او رنہ کسی کا ن نے سنا ہو گا ) مقام کوپانے کے لئے سختیاں آسان، کوششیں شیریں ہوجاتی ہیں مشکلا ت کو برداشت کرنا اور سختیوں کوتحمل کرنا بہت آسان لگتا ہے کیو نکہ اس کے نتیجہ میں ہمیشہ رہنے والا آرام وآسائش ہے قیامت پر ایمان رکھنے کا پہلا فائدہ بامقصد ہونا ہے کیونکہ قیامت پر اعتقاد رکھنے والوں کی نظر میں موت فناونابودی کانام نہیں بلکہ ایک ابدی زندگی کے لئے ایک روشن دان کی مانند ہے۔

____________________

(۱)سورہ زخرف آیة: ۷۱

۲۰۸

قیامت پر ایمان رکھنے کا فائدہ قرآن کی نظرمیں

قیامت پر ایمان انسان کی تربیت کا اہم سبب ،اچھے کام انجام دینے اورمعاشرہ کی خدمت کرنے کامحرّک نیز گناہو ں سے روکنے کاایک مضبوط ذریعہ ہے قرآن میں اہم تربیتی مسئلہ کو اسی راستہ سے پیش کیاگیا ہے جیساکہ بعض آیات میں ہے کہ نہ تنہا قیامت پرایمان اور اعتقاد بلکہ ظن واحتمال بھی مثبت آثار کا باعث ہے ۔

۱۔( ألا یَظُنُّ أُولئِک أَنَّهُم مَبعُوثُونَ لِیوم ٍعَظیمٍ یَومَ یَقُومُ النَّاسُ لرِبِّ العَالَمینَ ) ( ۱ ) کیا انہیں یہ خیال نہیں کہ یہ ایک روز دوبارہ اٹھائے جا نے والے ہیں بڑے سخت دن کہ جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوںگے ۔

۲ ۔دوسری آیت میں اشارہ ہو ا ہے کہ صرف اس دوسری دنیا کی امید وتوقع ہی گناہو ں سے روکنے اورعمل صالح کرنے کے لئے کافی ہے( فَمَنْ کَانَ یَرجوا لِقَائَ رَبّهِ فَلیَعمَلْ عَمَلاً صَالحاً وَلا یُشرِک بِعبادَةِ رَبِّه أَحداً ) ''لہٰذا جو بھی اس کی ملا قات کاامید وار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پرور دگار کی عبا دت میں شریک نہ بنا ئے''۔( ۲ )

۳۔ قرآن کا صریحی اعلان ہے کہ انسان کے افعال وکردار ابدیت کا لبا س پہن لیتے ہیں اورقیامت میں اس سے الگ نہیں ہو ں گے( یَومَ تَجدُ کُلَّ نَفَسٍ )

____________________

(۱)سو رہ مطففین آیة:۴تا۶

(۲) سورہ کھف آخری آیت

۲۰۹

( مَا عَمِلت مِنْ خَیرٍ مُحضَراً وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوئٍ تَودُّ لوأَنَّ بَینَها وَبَینَهُ أَمَداً بَعیدا ) ( ۱ ) ''اس دن کو یاد کرو جب انسان اپنے اعمال نیک کو بھی حاضر پائے گا اور اعمال بد کو بھی جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے او ران برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہوجاتا'' ۔

۴۔قیامت کا معتقد کسی اچھے یابرے کام کو چھو ٹا نہیں سمجھتا ہے کیو نکہ قرآن کے مطابق چھوٹی چیز کابھی حساب ہوگا( فَمَنْ یَعمَلْ مِثقَالَ ذَرةٍ خَیراً یَرَهُ وَمَنْ یَعمَل مِثقالَ ذَرةٍ شَراً یَرَهُ ) ( ۲ ) پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ بھی اسے دیکھے گا ۔

ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اورکہنے لگا یا رسول اللہ! ہمیں قرآن کی تعلیم دیں پیغمبر نے ایک صحابی کے حوالے کردیا تاکہ وہ اس کو قرآن کی تعلیم دے وہ مسجد کے کونے میں بیٹھ کراسی دن قرآن سیکھنے لگا ،معلم نے سورہ زلزال پڑھانا شروع کیا جب اس آیت پر پہنچا تو اس آدمی نے رک کر تھوڑا سونچا اورپوچھتا ہے کیایہ وحی ہے؟ معلم نے کہا ہاں؛ اس نے کہا بس کیجئے ہم نے اس آیت سے سبق سیکھ لیا جب ہمارے ہر چھوٹے بڑے اچھے برے اعمال کاحساب ہوگا تواب ہم کو اپنی ذمہ داریوں کا علم ہوگیا یہی جملہ ہماری زندگی کی کا یا پلٹنے کے لئے کافی ہے اس نے خدا حافظی کی اور چلا گیا۔ معلم،رسول کے پاس آیا ساراواقعہ بیان کیا ،حضرت نے فرمایا : ''رجع فقیھاً''گو کہ وہ چلا گیا مگر سب کچھ سمجھ کرگیا ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ آل عمران ۳۰

(۲) سورہ زلزال آخری آیة

۲۱۰

قیامت کامعتقد خدا کی راہ میں تمام سختیاں اورمشکلات برداشت کرتاہے اور اخروی زندگی کی خاطر اس دنیوی زندگی کو خیر باد کہہ دیتا ہے جیساکہ جادوگر وں نے جب موسی کے معجزہ کو دیکھا او رسمجھ گئے کہ یہ خدا کی جا نب سے ہے تو سب ان کی رسالت پرایمان لے آئے فرعون نے کہا ہم سب کے ہا تھ پیر کاٹ دیں گے اور سولی پرلٹکا دیں گے ان لوگوں نے جواب میں کہا( فَاقضِ مَاأنتَ قَاضٍ اِنَّما تَقضِ هَذِهِ الحَیاة الدُّنیا اِنَّا أَمنَّا بِرَبِّنَا لِیَغفرَ لَنَا خَطایَانَا وَمَا أکرَهتَنا عَلیهِ مِنَ السِّحرِ وَاللَّه خَیر وَأبقَیٰ ) ( ۱ ) ''اب تجھے جو فیصلہ کرناہے کرلے تو فقط زندگا نی دنیا ہی تک کا فیصلہ کرسکتاہے ہم اپنے پرور دگا ر پر ایما ن لے آئے ہیںکہ وہ ہماری خطائو ں کو معاف کردے اور اس جادو کو بخش دے جس پر تونے ہمیں مجبور کیاتھا اوراللہ سب سے بہتر اوروہی باقی رہنے والاہے ۔

____________________

(۱)سورہ طہ آیة :۷۲تا۷۳

۲۱۱

سوالات

۱۔ قیامت پر ایما ن رکھنے کے فوائد بیان کریں ؟

۲۔ جو قیامت کا معتقد نہیں ہے اس کی زندگی کیسی ہے ؟

۳۔ قیامت پرایمان رکھنے کافائدہ بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۲۱۲

اکتیسواں سبق

اثبات قیامت پر قرآنی دلیلیں

پہلی خلقت کی جانب یاد دہانی

( وَهوُ الّّذیِ یَبدؤُا الخَلَق ثُمَّ یُعیدُهُ وَهُوَ أَهوَنُ عَلِیه ) ( ۱ ) ''اور وہی وہ ہے جو خلقت کی ابتدا ء کرتاہے اور پھر دوبارہ بھی پیدا کرے گا اوریہ کام اس کے لئے بے حد آسان ہے''( کَما بدأَ کُم تَعُودُونَ ) ( ۲ ) اس نے جس طرح تمہاری ابتداء کی ہے اسی طرح تم پلٹ کر بھی جائو گے( وَیَقولُ الأِنسانُ ذا مَا مِتُّ لسَوفَ اخرج حیّاً أولا یَذکُر الأِنسانُ اِنّاخَلقَناهُ مِنْ قَبلُ وَلَمْ یَکُ شَیئاً ) ( ۳ ) اور یہ انسان کہتا ہے کہ کیا ہم جب مرجائیں گے تو دوبارہ زندہ کرکے نکالے جائیںگے کیاوہ اس بات کو یاد نہیں کرتا ہے کہ پہلے ہم نے اسے خلق کیاہے جب یہ کچھ نہیں تھا( فَسیقُولُونَ مَنْ یُعیدُنَا قُل الَّذِی فَطَرَکُم أَوّلَ مَرَةٍ ) ( ۴ ) عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ ہم کو کون دوبارہ واپس لاسکتاہے توکہہ دیجئے جس نے تمہیں پہلی بار پیداکیا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ روم، آیة:۲۷

(۲)سورہ اعراف ،آیة:۲۹

(۳) سورہ مریم آیة :۶۶۔۶۷

(۴) سورہ اسراء آیة:۵۱

۲۱۳

ایک صحرای عرب کو ایک انسان کی بوسیدہ ہڈی کاکوئی ٹکڑا ملا وہ اس کو لے کر دوڑتاہو ا شہر کی جانب آیا اور پیغمبر کو تلاش کرتا ہو ا حاضر خدمت ہوااور چیخ کرکہتا ہے کون اس پرانی ہڈی کودوبارہ زندہ کرے گا ؟۔

ارشاد ہو ا:( قُلْ یُحییهَاالَّذِی أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَة وَهُوَبِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) ''آپ کہہ دیجئے جس نے پہلے خلق کیاہے وہی زندہ بھی کرے گا اوروہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے'' ۔

مذکورہ اور ان جیسی آیات کے پیش نظر انسانوں کو تخلیق کی ابتداء کی طرف توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانو ں کو دوبارہ پلٹانا خداکے لئے بہت آسان ہے یعنی قادر المطلق خداکے لئے یہ ساری چیزیں بہت آسان ہے (تخلیق کی ابتدا ء اور دوبارہ قیامت میں واپس پلٹانا ایک ہی چیز ہے ۔

قیامت اورخداکی قدرت مطلقہ

خدا کی قدرت: خدا کی ایک صفت قادرمطلق ہونا ہے جوتوحید کے بحث میں گزر چکی ہے یہ وسیع آسمان یہ کہکشاں ،منظومہ کثیر اور عظیم کواکب ،مختلف النوع مخلوقات یہ سب کے سب اس کے قادر مطلق ہونے پر دلالت کرتے ہیں ان سب کومان لینے کے بعد سوال کا کوئی مقام نہیں رہتا کہ انسان کیسے دوبارہ زندہ ہوگا( أَوَلَمْ یَرَوا أَنَّ اللَّهَ الَّذِِ خَلَقَ السَّمواتِ وَالأَرضَ وَلَمْ یَعیِ بِخَلقهِنَّ )

____________________

(۱)سورہ یس آیة ۔۷۹

۲۱۴

( بِقَادرٍ علیٰ أَن یُحیالمَوتیٰ بَلیٰ اِنَّهُ علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیر ) ( ۱ ) ''کیا انھوں نے نہیں دیکھا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اوروہ ان کی تخلیق سے عاجز نہیں تھا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے کہ یقینا وہ ہر شی ٔ پر قدرت رکھنے والاہے ''( أَوَ لَیسَ الَّذِ خَلَقَ السَّمٰواتِ والأَرضَ بِقَادِرٍ علیٰ أَنْ یَخلُقَ مِثلَهُم بَلیٰ وَهُوَ الخَلَّاقُ العَلِیمُ ) ( ۲ ) ''تو کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا و ہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیداکر ے یقینا ہے ا ور وہ بہترین پیدا کرنے والااو رجاننے والا ہے ''۔( أَیَحسَبُ الِانسانُ أَنْ لَنْ نَجمَعَ عِظَاَمهُ بَلیٰ قَادرِینَ علیٰ أن نُسوِّ بَنَانهُ ) ( ۳ ) کیا انسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کوجمع نہیں کرسکیں گے یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کے انگلیوں کے پور تک درست کردیں۔( أَیَحسبُ الأِنسانُ أَنْ یُترَک سُدیً أَلَمْ یَک نُطفةً مِنْ مَنِیٍ یُمنیٰ ثُمَّ کَانَ عَلَقةً فَخَلقَ فَسویٰ فَجَعلَ مِنهُ الزَّوجَینِ الذَّکَرَ وَالأُنثیٰ أَلیسَ ذَلِکَ بِقَادرٍ عَلیٰ أَن یُحی المَوتَی ) ٰ)( ۴ ) ''کیا انسان کا خیال ہے کہ اسے اسطرح آزاد چھوڑ دیاجا ئے گا کیا وہ اس منی کاقطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتاہے پھر علقہ بنا پھر اس کو خلق کرکے برابر کیا پھر اس سے عورت اورمرد کوجوڑا تیار کیا ۔کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے'' ۔( قُل سِیرُوا فیِ الأَرضِ فَانُظُروا کَیفَ بَدأ )

____________________

(۱) احقاف آیہ: ۳۳

(۲) یس آیة: ۸۱

(۳) قیامت آیة :۳۔۴

(۴) قیامت آیة:۴۰۔۳۶

۲۱۵

( الخَلَقَ ثُمَّ اللَّهُ ینُشُ النَّشأَةَ الأَخرِةَ أِنَّ اللَّه عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیرُ ) ( ۱ )

''آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین پر سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیاہے اس کے بعد وہی آخرت میں دوبارہ ایجاد کرے گا بیشک وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والاہے'' ۔

مسئلۂ قیامت اوردلیل عدالت

قیامت اور خدا کی عدالت : خداکے حکم کے مقابلہ میں دوطرح کے لوگ ہیں کچھ اس کے مطیع اور فرمانبردار کچھ عاصی اور گنہگا ر ۔

اس طرح کچھ لوگ ظالم ہیں کچھ مظلوم ( جو سختی کی زندگی گذاررہے ہیں ) کچھ زندگی کی ہر آسائش وآرام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کچھ ایسے ہیں جو فقروفاقہ اور تنگ دستی کی زندگی گذاررہے ہیں ۔

لہٰذاخدا کی قدرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد قیامت اور حساب وکتاب ہو تاکہ ان مسائل کی مکمل تحقیق ہوسکے ۔( أمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجتَرحُوا السَّیئَاتِ أَنْ نَجعَلهُم کالَّذِینَ آمنُوا وَعَملوا الصَّالِحاتِ سَوَائً مَحیَاهُم وَمَمَاتُهُم سَائَ مَا یَحکُمُونَ وَخَلَقَ اللََهُ السَّمواتِ والأَرضَ بِالحقِّ وَلتُجزَیٰ کُّلُّ نَفسٍ بِما کَسَبت وَهُمْ لاَ یُظلَمُونَ ) ( ۲ ) '' کیا برائی اختیار کرنے والوں نے یہ سونچ لیا ہے کہ ہم ان کو ایمان لانے والوں اورنیک کام

____________________

(۱)سورہ عنکبوت آیة:۲۰

(۲)جاثیہ: ۲۱۔۲۲

۲۱۶

انجام دینے والوں کے برابر قرار دیں گے سب کی موت وحیات ایک جیسی ہو گی یہ ان لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے اور اللہ نے زمین وآسمان کوحق کے ساتھ پیداکیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بدلہ دیاجاسکے اوریہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا ''( أفَمَن کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَا نَ فَاسِقاً لَا یَستوُونَ ) ( ۱ ) '' کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجا ئے گا جوفاسق ہے ہر گز نہیں ،دونو ں برابر نہیں ہوسکتے''( أَفَنجَعلُ المُسلمِین کالمُجرِمِینَ مَالکُم کَیفَ تَحکُمُونَ ) ( ۲ ) ''کیا ہم اطاعت گزاروں کو مجرموں جیسا بنادیں تمہیں کیا ہوگیاہے تم کیسا فیصلہ کر رہے ہو'' ۔( اَم نَجعَلُ الَّذینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالحِاتِ کالمُفسِدِینَ فیِ الأَرضِ أَم نَجعَلُ المُتَّقِینَ کَالفُجَّار ) ( ۳ ) '' کیا ہم ایما ن لانے والے اورنیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد برپا کرنے والو ں جیسا قرار دیدیںگے یا صاحبان تقوی کوفاسق وفاجر جیسا قرار دیدیں گے''( ؟! ( اِلَیهِ مَرجِعُکُم جَمیعاً وَعدَ اللَّهِ حَقَّاً اِنَّهُ یَبدؤا الخَلَق ثُمَّ یُعیدُهُ لِیَجزِِ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالقسطِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُم شَرابُ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابُ ألِیمُ بِمَا کَانُوا یَکفُرُونَ ) ( ۴ ) اس کی طرف تم سب کی

____________________

(۱) سورہ سجدہ آیة:۱۸

(۲) قلم :۳۵،۳۶

(۳) سورہ ص: ۲۸

(۴) سورہ یونس آیة: ۴

۲۱۷

بازگشت ہے یہ خدا کا سچاوعدہ ہے وہی خلقت کا آغاز کرنے والا ہے اور واپس لے جانے والاہے تاکہ ایمان اورنیک اعمال کو عادلا نہ جزا دے سکے اورجو کافر ہو گئے ان کے لئے تو گرم پانی کامشروب ہے اور ان کے کفر کے بنا پر درد ناک عذاب

بھی ہے۔

سوالات

۱۔ پہلی خلقت قیامت پر کس طرح دلیل ہے ؟

۲۔خدا کی قدرت قیامت کے لئے کس طرح دلیل ہے ایک آیت پیش کریں ؟

۳۔ دلیل عدالت ،قیامت کو کس طرح ثابت کرتی ہے ؟

۲۱۸

بتیسواں سبق

معاد اور فلسفہء خلقت

قرآن کی تقریباًسو آیتوںمیں خدا کو لفظ حکیم سے یاد کیا گیا ہے ۔اور ہم اس کی حکمت کی نشانیوں کودنیابھر میں دیکھتے ہیں ۔اگر ہم فرض کریں کہ موت زندگی کے خاتمہ کانام ہے اورمرنے کے بعد قیامت نہیں ہے تو خلقت بیکار وعبث ہو جا ئے گی اور حکیم خداکبھی بھی بیکار کام انجام نہیں دیتا ،کیا کوئی سونچ سکتاہے کہ وہ تمام حکمتیں جوخدا نے دنیا کی خلقت کے لئے قرار دی ہیں و ہ سب عبث ہیں اور اس دنیا کا اختتام فنا ونا بودی ہے؟ کیایہ یقین کرنے کے قابل ہے کہ خدا اس دنیا کے دستر خوان کوبچھائے اور دنیا کی تما م ضروریا ت زندگی کو مہیا کرے اور اس کے بعد موت کی وجہ سے یہ ساری چیزیں ختم ہوجائیں اور یہ دنیا کابچھا ہو ا دستر خوان سمٹ جا ئے( رَبَّنَا مَاخَلقَتَ هذا بَاطِلاً ) ( ۱ ) خد ایا! تونے اس کا ئنات کو بیکا ر وعبث خلق نہیں کیا ہے ۔

لہٰذا حکیم وعلیم خدا پرایمان رکھنا موت کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھنے کے برابر ہے یعنی اگرکو ئی وحدانیت کاقائل ہے تو ضروری ہے کہ وہ قیامت پر بھی ایمان

____________________

(۱) آل عمران ۱۹۱

۲۱۹

رکھتا ہو اس سلسلہ میں بہت ساری آیتیں ہیں جن میں سے بعض کو بطور نمونہ پیش کررہے ہیں ۔

( أَفَحَسِبتُم اِنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثاً وَأَنَّکُم اِلَینا لَا تُرجعُونَ ) ''کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار خلق کیاہے اورتم ہماری طرف پلٹ کرنہیں آئوگے''۔( ۱ ) ( وَمَاخَلقَنا السَّمائَ وَالأرَضَ وَمَا بَینَهُمَا بَاطِلاً ذلِک ظَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیل لِلّذِینَ کَفَرُواْ مِنَ النّارِ ) ''میں نے آسمان وزمین اوراس کے درمیان کی چیزوںکو بیکا ر خلق نہیں کیاہے یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کا فر ہوگئے ہیں پس کافروں کے واسطے جہنم کی آگ ہے''۔( ۲ ) ( وَمَا خَلَقَنا السَّمَواتِ وَالأَرضَ وَمَا بَینَهُما اِلّا بِالَحقِّ واِنَّ السَّاعَة لآتِیَةُ فَاصفَح الصَّفَح الجَمِیلَ ) ''میں نے آسمان وزمین او ر اس کے درمیان کی چیزوں کو خلق نہیں کیا مگر حق پر اور قیا مت یقینی ہے''۔( ۳ ) ( أَیَحسَبُ الأَِنسانُ أَنْ یُترک سُدیً أَلَم یَکُ نُطفَةً مِنْ مَنٍِ یُمنیٰ ثُمَّ کَانَ عَلَقةً فَخَلقَ فَسوَّیٰ فَجَعلَ مِنهُ الزَّوجِین الذَّکَرَ وَالأُنثیٰ أَلَیسَ ذَلِک بِقادرٍ علیٰ أَن یُحیَی المَوتی ) ٰ)( ۴ ) '' کیاانسان کاخیال ہے کہ اسے اس طرح آزاد چھو ڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ اس منی کا قطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتاہے ۔پھر علقہ بناپھر اس کو خلق کر کے برابر کیاپھر اس سے عورت اور مرد کاجوڑا تیار کیا ۔کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے۔؟

____________________

(۱) مومنون آیة: ۱۵ ۱

(۲) سورہ ص آیة: ۲۷

(۳) سو رہ حجر آیة: ۸۵

(۴) سورہ قیامت آیة: ۳۶۔۴۰

۲۲۰

قرآن میں قیامت کے عینی نمونہ

عزیر یا ارمیا ی پیغمبر کاقصہ :

(( أَوکالَّذِ مَرَّعلیٰ قَریةٍ وَهِیَ خَاویةُ علیٰ عُرُوشِها قاَلَ أَنّی یُحییِ هذهِ اللَّهُ بَعَدَ مَوتِها فأَماتهُ اللَّه مِائةَ عام ثُمَّ بَعَثهُ قَالَ کَم لَبِثتَ قَالَ لَبِثتُ یَوماً أَوبَعضَ یَومٍ قَالَ بَل لبِثتَ مِائةَ عامٍ فَانظُر اِلیٰ طَعامِک وَشَرَابِک لَمْ یَتسنَّه وَأنظُر اِلیٰ حِمَارِک وَلِنَجعَلک آیةً للنَّاسِ وَانظُر اِلیٰ العِظَامِ کَیفَ نُنشزُهَا ثُمَّ نَکَسُوهَا لَحمًا فَلمَّا تَبَیّنَ لَهُ قَالَ أَعلمُ أَنَّ اللَّهَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''جنا ب عزیر کا ایک دیہات سے گزر ہوا آپ نے دیکھا کہ وہ تباہ وبرباد پڑا ہو اہے ۔ کہا خدا ان مردوں کو کیسے زندہ کریگا خدانے انہیں سوسال کی موت دیدی پھر انہیںزندہ کیا پوچھاکتنے دن تک سوئے رہے کہا ایک دن یا اس سے کم خدا نے کہاتم یہا ں سوسال تک سوتے رہے ہو ذرا اپنے کھانے اورپینے کی طرف دیکھو جو ختم ہوچکا ہے اپنے گدھے کی طرف دیکھو جو خاک میں مل چکا ہے تاکہ میں تمہیں لوگوں کے لئے نشانی قرار دوں اپنی ہڈیوں کیطرف دیکھو کہ انہیں جمع کرکے ان پر گوشت چڑھا یا چونکہ یہ بات ان کے واسطے واضح ہوچکی تھی کہا: جانتا ہو ں خد اہر چیز پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ''وہ برباد شہر جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ (بیت المقدس ) تھا اور یہ تباہی بخت النصر کے ذریعہ ہوئی ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیة :۲۵۹

۲۲۱

حضرت عزیر جب کھانا پانی لے کر اپنے گدھے پر سوار اس شہر سے گذرے دیکھا گھر تباہ اور ا ن کے رہنے والے مٹی میں مل چکے ہیں ان کی ہڈیا ں پرانی ہوکر زمین میں بکھری پڑی ہیں اس المناک منظر نے پیغمبر کوسونچنے پر مجبورکردیا اور خود سے کہنے لگے خدایا! انہیں کب اور کیسے زندہ کرے گا؟۔

خدا نے انہیں عملی جواب دیا انہیں اوران کے گدھے کو سوسال تک کے لئے موت دی اس کے بعد پہلے انہیں زندہ کیاتاکہ خد اکی طاقت کا وہ خود اندازہ لگائیں کہ کھانا جو جلدی خراب ہوجاتا ہے تبدیل نہیںہوا اور مردوں کو زندہ ہو تے وہ خو د دیکھ لیں ۔

حضرت عزیر نے جیسے ہی اپنی سواری کو زندہ ہو تے دیکھا کہا کہ جانتا ہو ںخدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ آیة اور یہ پیغمبر کا قصہ معاد جسمانی کو ثابت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہیں ۔

حضرت ابراہیم کاقصہ :( واِذ قَالَ اِبراهیمُ رَبِّ أَرنِی کَیفَ تُحییِ المَو تیٰ قَالَ أَولَم تُؤمِن قَالَ بَلیٰ وَلَکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبِی قالَ فَخُذْ أَربعةً مِنَ الطَّیرِ فَصُرهُنَّ اِلِیک ثُمَّ اجعَلْ علیٰ کُلِّ جَبَلٍ مِنهُنَّ جُزأً ثُمَّ ادعُهُنَّ یَأتِینَک سَعیًا وَأَعلمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَیزُحَکیمُ ) ( ۱ ) ''جناب ابراہیم نے عرض کیا بارالہا! مجھے دکھا دے کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ خدا نے کہامگر تمہیں

____________________

(۱) سورہ بقرہ :۲۶۰

۲۲۲

ہم پرایمان نہیں ہے کہا ہے تو مگر چاہتا ہو ں دل کو سکون مل جائے کہا چار طرح کے پرندوں کو جمع کرو (مرغ ،مور ،کبوتر ، کوا،)انہیں ذبح کرکے گوشت پہا ڑ پر رکھد و او ر ان کے ہر جزء کو اللہ کے نام پر بلا ئو وہ دوڑے چلے آئیں گے اورجان لو کہ خدا بڑی حکمت والا ہے'' ۔

مفسرین نے اس آیة کے ذیل میں لکھا کہ حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گذر رہے تھے ایک مردے کو دیکھا کہ جو دریا کے کنارے پڑا ہے مردہ خور جانور اس کے چاروںطر ف جمع ہیں اورکھا رہے ہیں جب حضرت ابراہیم نے اس منظر کودیکھا تو مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں سونچنے لگے کہ وہ کس طرح زندہ کئے جا ئیں گے (کیونکہ اس مردہ کا گوشت دوسرے کا جزء بن چکا تھا ) جبکہ جناب ابراہیم کو علم الیقین تھا کہ خد امردوں کو زندہ کرے گا لیکن اسے آنکھو ں سے زندہ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے ۔

مقتول بنی اسرائیل کاقصہ:

( واِذَ قَتَلتُم نَفسًا فَادَّارَأتُم فِیهَا واللَّه ُمخرِجُ مَاکُنتُم تَکتُمُونَ فَقُلنَا اَضرِبُوهُ بِبَعضِهَا کَذَلِک یُحیِی اللَّهُ المَوتیٰ وَیُرِیکُم آیاتِهِ لَعلَّکُم تَعقِلُونَ ) ( ۱ ) ''جب تم لوگو ں نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کے سلسلے میں اختلاف کیا کہ کس نے قتل کیا ہے جسے تم چھپانا چاہتے تھے خدااسے ظاہر کرتاہے پس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة۷۲ تا۷۳

۲۲۳

ہم نے کہا اس گائے کا کچھ حصہ اس مقتول کے بدن پر مارو خدا مردوں کو اس طرح زندہ کرتاہے آیت خود تمہیں دکھا رہی ہے شاید عقل سے کام لو ''۔

بنی اسرائیل کا ایک آدمی مخفیانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اس کے قاتل کے سلسلے میں اختلاف ہوا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے پر الزام لگا رہا تھا قریب تھاکہ ایک جنگ چھڑ جائے ان لوگوں نے جنا ب موسی سے مدد چاہی جناب موسی نے لطف خدا سے ان کی مددکی حکم خدا کے مطابق گائے کو ذبح کرکے اس کے گوشت کومقتول کے جسم پرمارا وہ شخص تھوڑی دیر کے لئے زندہ ہوگیا اور قاتل کی شناخت کی یہ معا د اور مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بھی دلیل ہے ۔

قوم موسی ٰسے ستر آدمیوںکا زندہ ہو نا :( وَاِذ قُلتُم یَامُوسیٰ لَن نُؤمِنَ لَک حتیٰ نَرَیٰ اللَّهَ جَهَرةً فَاَخذتکُم الصَّاعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرُونَ ثُمّ بَعَثناکُم مِن بَعدِ مَوتِکُم لَعلَّکُم تَشکُرُونَ ) جب تم لوگو ں نے موسی سے کہا کہ ہم اس وقت تک خدا پرایمان نہیں لائیں گے جب تک اپنی آنکھو ں سے دیکھ نہ لیں پھر بجلی نے (موت ) تم سب کواپنی لپیٹ میں لے لیا اورتم دیکھتے رہے پھر ہم نے تم سب کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا تاکہ تم شکر گذار بن جائو ،بنی اسرائیل کے سرکردہ افراد جنا ب موسی کے ساتھ کو ہ طور پر گئے تھے اور خداکو اپنی آنکھو ں سے دیکھنے کی بات دہرائی موت کی بجلی چمکی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوا حضرت موسی ٰبے ہو ش ہو گئے بنی اسرائیل کے نمائندوں کو موت نے اپنی آغوش میں لیا پھر خدا نے انہیں زندہ کیا تاکہ اس کی نعمت کا شکریہ اداکریں۔( ۱ )

قیامت کو ثابت کرنے کے لئے قرآ ن کی دوسری دلیل ہے جس میں مردے کوزندہ کیاگیاہے ۔

____________________

(۱) سو رہ بقرہ آیة ۵۵

۲۲۴

سوالات

۱۔ فلسفہ خلقت کے ذریعہ کس طرح قیامت کو ثابت کریں گے ؟

۲۔ جنا ب عزیر یاارمیا پیغمبر کاواقعہ بیان کریں ؟

۳۔ جناب ابراہیم کا قصہ بیان کریں ؟

۴۔ مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کریں ؟

۲۲۵

تیتیسواں سبق

بقاء روح کی دلیل

روح باقی او رمستقل ہے :( وَلَا تَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ''جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے انہیں رزق ملتاہے''( ۱ ) ( وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقتلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُونَ ) جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے ہیں انہیں مردہ ہرگز نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم انہیں نہیں سمجھ سکتے ہو۔( ۲ ) ( قُلْ یَتَوفاکُم مَلَکُٔ المَوتِ الَّذیِ وکِّلَ بِکُم ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) کہدو کہ موت کافرشتہ جوتم پر معین کیاگیا ہے وہ تمہاری روح قبض کر کے تمہارے رب کی طرف پلٹا دے گا۔( ۳ )

مذکورہ آیات بقاء روح کی بہترین دلیل ہے اگرموت زندگی کے خاتمہ کانام ہوتا توشہداء کے لئے حیات کا مختلف انداز میں ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا پہلے کی دو آییتں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والو ں کے لئے ہیں اور ان کی روح کی بقاء کے حوالے سے ہیں ۔

____________________

(۱)آل عمران آیة ۱۶۹

(۲) بقرہ آیة ۱۵۴

(۳) سجدہ آیة ۱۱

۲۲۶

تیسری آیت عام ہے کہ تمام لوگ خدا کی طر ف پلٹ کر جائیں گے جو تمام انسانوں کے باقی رہنے پردلیل ہے ۔کتاب مفردات میں راغب کے بقول وافی کے اصل معنی کمال تک پہونچنے کے ہیں لہٰذا توفی کے معنی مکمل گرفت کے ہیں اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موت فناکانام نہیں بلکہ مکمل طور پر دسترسی ہے۔

( وَیسئلُونَکَ عَنِ الرُّوح قُلْ الرِّوحُ مِن أمرِرَبِّی وَمَا أُوتِیتُم مِنَ العِلمِ اِلاَّ قَلِیلاً ) اے رسول! تم سے روح کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہدو روح امرخداہے اس کا تھوڑا ساعلم آپ کو عطاکیاگیاہے۔( ۱ )

انسان خواب و موت کو دیکھتا ہے کہ جسمانی کمی وبیشی کے علاوہ ایک خاص قسم کی تبدیلی پیداہوتی ہے یہیں سے پتہ چلتاہے کہ انسان کے پاس جسم کے علاوہ بھی کوئی جوہر ہے ۔ کسی نے بھی روح کے وجود کاانکا ر نہیں کیا ہے یہاں تک کہ مادی حضرات نے بھی اس کے وجود کوقبول کیاہے اسی بناء پر نفسیات ان علوم میں سے ہے جس پر دنیا کی بڑی بڑی یو نیورسٹیوں میں تحقیق ہورہی ہے ۔

وہ واحد بحث جو خد اکے ماننے والوں اورمادی حضرات کے درمیان چل رہی ہے وہ روح کے مستقل ہو نے یانہ ہونے کے سلسلے میں ہے اسلامی مفکرین اسلام کی بھر پور مدد سے اس بات کے قائل ہیںکہ روح باقی ہے اورمستقل ہے روح کے مستقل ہونے پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔

____________________

(۱) اسراء آیة :۸۵

۲۲۷

پہلے عقلی دلیل پھر نقلی دلیل پیش کریں گے اگر چہ قرآن پر اعتقاد رکھنے والے بہترین دلیل کلام خدا کوتسلیم کرتے ہیں اور اسی کواصل مانتے ہیں۔

روح کے مستقل ہو نے پر دلیل

۱۔ہم اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیںکہ ہم متفکر ومدرک ومرید ہیں یہ چیز فکر اورارادہ اور ادراک سے الگ ہے دلیل یہ ہے کہ بولا جاتاہے میری فکر میرا ارادہ میرا ادارک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فکر سے الگ ہیں ہم ارادہ سے ہٹکر ہیں درک اورہے ہم اور ہیں یہ سب ہم سے ہے اورہم اسے اپنی ذات میں پا تے ہیں ہم دماغ، دل اور اعضاء سے الگ ہیں یہ (ہم ) وہی روح ہے ۔

۲۔ جب بھی انسان اپنے کو جسم سے جدا فرض کرتاہے اورتمام اعضاء بدن کا ناطہ اپنے آپ سے توڑ دیتاہے پھر بھی اپنے کو زندہ محسوس کرتاہے جبکہ اجزاء بدن نہیں ہیں اوریہ وجود وہی روح ہے جومستقل رہ سکتی ہے ۔

۳۔پوری عمرمیں شخصیت ایک ہے ۔ یہ ''ہم'' ابتداء زندگی سے آخر عمر تک ایک ہے یہ ''ہم'' دس سال پہلے بھی ہے اور پچاس سال بعد بھی، اگرچہ علم وقدرت زندگی کی کمال تک پہونچ جائے لیکن ''ہم'' اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ آج کے علم نے ثابت کر دیا کہ انسان کے عمر میں کئی بار جسم میں ،رگو ں میں ،یہاں تک کہ دماغ کی شریانوں میں تبدیلی ہوتی ہے چوبیس گھنٹے کے اندر کروروں رگیں ختم ہو تی ہیں اور کروڑوں ان کی جگہ پیداہوتی ہیں جیسے بڑے حوض میں پانی ایک جگہ سے جاتاہے اور دوسری طرف سے آتاہے ظاہر ہے بڑے حوض کاپانی ہمیشہ بدلتاہے اگرچہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس کوایک ہی حالت میں دیکھتے ہیں ۔

نتیجہ:

اگر انسان صرف اجزاء بدن کا نام ہو تا اورصرف دل و دماغ ہو تا یعنی روح نہ ہوتی تواپنے اعمال کا ذمہ دار نہیں قرار پاتا ،مثلا اگر کو ئی دس سال پہلے کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسے سزا نہیں دے سکتے اس لئے کہ جسم کے تمام خلیئے تبدیل ہوگئے ہیں گویا اب وہ دس سال پرانا جسم نہیں ہے۔اگر انسان ہمیشہ ذمہ دار ہے یہاںتک کہ وہ خوداس کا اعتراف کررہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے اگرچہ تمام اعضاء بدل چکے ہیں مگر وہ خود باقی ہے اوریہ وہی روح ہے۔

۲۲۸

روح کی بقاء اور استقلال پر نقلی دلیل

تاریخ اسلام میں بہت سی جگہ موت کے بعد روح سے مربوط چیزیں آئی ہیں جن میں سے بعض یہاں پیش کی جارہی ہے جنگ بدر کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیاکہ دشمن کی لاشوں کوایک کنویں میں ڈال دیاجائے اس کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کنویں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :''هل وجد تم ماوعدکم ربکم حقاً فِانّی قَد وجدت ماوعدنی رَبِّی حقاً ''کیا تم لوگو ںنے وعدہ خداکے مطابق سب کچھ پایاہے ؟ہم نے تو اللہ کے وعدہ کو حق دیکھا ) بعض افراد نے عرض کیا :کیا آپ بے جان لوگو ں سے باتیں کر رہے ہیں، وہ سب توایک لا ش کی شکل میں پڑے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا: وہ لوگ تم سے بہتر میری آواز سن رہے ہیں دوسرے لفظوں میں یو ں کہا جائے کہ تم لوگ ان سے بہتر میری بات نہیں سمجھ رہے ہو۔( ۱ )

سلمان فارسی مولا امیر المومنین کی طرف سے والی مدائن تھے اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں : ایک دن سلمان فارسی کی عیا دت کوگیا، جب وہ مریض تھے اورمرض میں اضافہ ہوتاجارہاتھا یہا ںتک کہ موت کی جانب قدم بڑھا رہے تھے مجھ سے ایک دن فرمایا اے اصبغ! رسول خد ا نے مجھ سے فرمایا ہے جب موت قریب ہو گی تو مردہ تم سے باتیں کریںگے ہمیں قبرستان کی طرف لے چلو حکم کے مطابق انہیں قبر ستان میں لے جایاگیا کہامجھے قبلہ رخ کرو اس وقت بلند آواز سے کہا :

''السلام علیکم یا اهلَ عرصة البلا ء السلام علیکم یامحتجبین عن الدُّنیا'' میرا سلام ہو تم پر اے بلا ء کی وادی میں رہنے والومیراسلام ہو اے اپنے کو دنیا سے چھپا لینے والو۔اسی وقت روحوں نے سلام کا جواب دیااورکہا جو چاہتے ہو سوال کرو جناب سلمان نے پوچھا تم جنتی ہویا جہنمی؟مردہ نے کہا خدا نے مجھے دامن عفو میں جگہ عنایت کی ہے اورمیں جنتی ہو ں جناب سلمان نے موت کی کیفیت اورموت کے بعد کے حالات دریافت کئے ا س نے

____________________

(۱) سیرہ ابن ہشام ج ،۱ ص ۶۳۹

۲۲۹

سب کاجواب دیا اس کے بعد جناب سلمان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی( ۱ )

مولا امیرالمومنین ںجنگ صفین سے واپسی پر شہر کوفہ کے پیچھے قبر ستا ن کے کنارے کھڑے ہو ئے اور قبروں کی طرف رخ کر کے فرمایا :اے حولناک او ر تاریک قبروں کے رہنے والوتم اس قافلہ کے پہلے افراد ہو ہم بھی تمہارے پیچھے آرہے ہیں لیکن تمہارے گھردوسروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں اور تمہاری بیویوں نے شادی کر لیں اورتمہارے مال واسباب تقسیم ہوچکے ہیں یہ سب میری خبر تھی تمہارے پاس کیا خبرہے ؟''ثُمَّ التفت اِلیٰ أَصحابه فقال أمّا لوأذِن فیِ الکلام لأخبروکم أَنَّ خیر الزاد التقویٰ ''( ۲ )

پھر اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا جان لو اگر انہیں بولنے کی اجازت ہوتی تویہ تمہیں بتا تے کہ بہترین زاد راہ تقوی وپرہیز گا ری ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج۱، معادفلسفی ۳۱۵

(۲)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ۱۲۵

۲۳۰

سوالات

۱۔قرآن بقاء روح کے لئے کیا کہتا ہے آیت کے ذریعہ بیان کریں ؟

۲۔ استقلال روح کے لئے عقلی دلیل بیان کریں ؟

۳ بقاء روح کے لئے ایک نقلی دلیل بیان کریں ؟

۲۳۱

چوتیسواں سبق

معاد جسمانی اورروحانی ہے

کیاموت کے بعد زندگی روحانی ہے ؟یعنی جسم کہنہ ہو کر بکھر جائے گااور آخرت کی زندگی فقط روح سے مربوط ہے یافقط جسمانی ہے اور روح کاشمارجسم کے آثاروخواص میں ہے ؟یا یہ کہ آدھی روحانی اور آدھی جسمانی ہے جسم لطیف اس دنیا وی جسم سے افضل ہے یاموت کے بعد زندگی مادی او رروحانی ہے اور دوبارہ دونوں جمع ہوکر حاضر ہوںگے، ان چاروں نظریوں کے حامی اور طرفدارموجود ہیں لیکن شیعوں کا نظریہ (عقیدہ)یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں معاد جسمانی اور روحانی پر دلالت کرتی ہیں اور اس مسئلہ میں کوئی شک وتردید کی گنجائش نہیں ہے ۔

۱۔ بہت سی جگہو ں پر قرآن نے منکریں معاد کو جو یہ سوال کرتے ہیں کہ ''جب ہم خاک میں مل جائیں گے او رہماری ہڈیاں پرانی ہوکر پھر زندہ ہوںگی'' جواب دیا ہے ، اور انہیں اس بحث میں بیان کیا جاچکا ہے جہاں معاد پر قرآن کی دلیل پیش کی گئی ہے جیسے (سورہ یس آیة ۸۰) میں واضح طور پر معاد جسمانی اور روحانی کوبیان کیاگیا ہے ۔

۲۔ دوسری جگہ (سورہ قیامت آیة ۳،۴) میں فرمایا :کیاانسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیو ں کو جمع نہیں کریںگے بلکہ ہم قادر ہیں کہ انگلیو ں کے نشانات کو بھی ترتیب دیدیں ،ہڈیو ں کو جمع کرنا انگلیوں کے نشانات کو دوبارہ مرتب کرنا یہ معا د جسمانی اورروحانی کی ایک او ر دلیل ہے ۔

۲۳۲

۳۔ تیسری مثال وہ آیتیں جوکہتی ہیں کہ انسان قبر سے اٹھے گا اس سے ظاہر ہے کہ قبر انسانی جسم کے لئے گھر قرار دیا گیا ہے اور اسلامی منکرین کی نظر میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جسم کے بغیر روح کا پلٹنا ممکن نہیں ہے جسم بغیر روح کے صرف لاش ہے خلاصہ یہ کہ اس طرح کی آیتیں معاد جسمانی اور روحانی کے لئے واضح دلیل ہے ۔ (وَأَنَّ السَّاعةَ آتِیةُ لا رَیبَ فِیها وأَنَّ اللَّهَ یَبعَثُ مَن فی القُبُورِ )قیامت کے سلسلے میں کو ئی شک نہیں او رخدا وند عالم ان تمام افراد کو جو قبروں میں ہیں دوبارہ زندہ کرے گا ۔( ۱ ) سورہ یس کی آیة : ۱۵۱ اور ۱۵۲ اور دوسری آیات اس پر شاہد ہیں ۔

۴۔ وہ آیتیں جو بہشتی نعمتوں کے سلسلے میں ہیں ۔میوے ،غذائیں مختلف کپڑے اوردوسری جسمانی لذتیں وغیرہ ،جنت کی لذتییں اور نعمتیں صرف مادیت پر منحصر نہیں ہیں بلکہ معنوی اور روحی لذتیں بھی بہت ہیں جن کا تذکرہ جنت کی بحث میں آئے گا انشاء اللہ

لیکن سورہ رحمن اور اس جیسی آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ معاد جسمانی اور روحانی دونوںہی اعتبارسے ہے اور جسم اور روح کے لئے لذتیں ہیں یہ

____________________

(۱) سو رہ حج آیة ۷

۲۳۳

ہے کہ جنت کی نعمتیں دنیاوی نعمتوں سے الگ ہیں او ران سے بہتر ہیں مگر یہ سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیں ۔

۵۔وہ آیتیں جو مجرموں کے لئے مختلف طرح کے عذاب اور سزا کو بیان کرتی ہیں ان میں سے بہت سی جسم سے مربوط ہیں یہ آیتیں قرآن میں بہت ہیں ان میں بعض کی جانب اشارہ کررہے ہیں( یَومَ یُحمَیٰ عَلَیها فِی نَارِجَهَنَّم فَتُکویٰ بِها جِبَاهُهُم وَجُنُوبُهُم وَظُهُورُهُم ) ''جس دن انہیں دوزخ میں کھولایا جائے گا اورجلا یا جا ئے گا اور ان کی پیشانیاں نیز ان کے پہلو اور پشت کوداغا جائے گا''( ۱ ) ( یَومَ یُسحبُونُ فِی النّارِ عَلیٰ وُجُوههِمِ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ) ''جس دن دوزخ کی آگ ان کے چہرے پر ڈالی جا ئیگی او ران سے کہا جا ئے گا آج دوزخ کی آگ کا مزہ چکھ لو''( ۲ ) ( تَصلیٰ نَاراً حَامِیةً تُسقیٰ مِن عَینٍ آنیةٍ لَیسَ لَهُم طَعَامُ اِلَّا مِن ضَرِیعُ لا یُسمن ولَا یُغنیٰ مِن جُوعٍ ) ( ۳ ) ''بھڑکتی آگ میں داخل ہونگے کھولتے پانی سے سیراب کیا جائے گا ،خشک کا نٹا کڑوا اور بدبو دار کھانے کے علاوہ کچھ میسر نہ ہو گا ایسا کھانا جو نہ انہیں موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے نجات دلائے گا''۔( کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهمُ بَدَّلنَاهُم جُلُوداً غَیرَها لِیَذُوقُوا العَذَابَ أِنَّ اللَّه کَانَ عَزِیزاً حَکِیماً ) ( ۴ ) جیسے ہی کافر کی کھال جل کر ختم ہو جا ئے گی اس کی جگہ دوسری کھال کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ عذاب

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة: ۳۵

(۲) سورہ قمر آیة :۴۸

(۳) غاشیہ آیة :۴۔۷

(۴) سورہ نسا ء آیة ۵۶

۲۳۴

کامکمل مزا چکھ لیں بیشک خدا عزیز اور حکمت والا ہے ۔

اس طرح کہ بہت سی آیتیں ہیں جن کا تذکرہ جہنم کی بحث میں آئیگا سب کے سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیںاگر معاد فقط جسمانی ہوتی تو روحانی غذ اکا کوئی مفہوم نہ ہوتا ؟۔

۶۔ وہ آیتیں جو روز قیامت اعضاء وانسان کے بات کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں وہ معا د جسمانی اور روحانی پر واضح دلیل ہیںچونکہ ایسی آیتیں بھی بہت ہیں لہٰذانمونہ کے طور پرکچھ کا یہاں ذکر کرتے ہیں( الیَومَ نَختِمُ عَلیٰ أَفوَاهِهِم وَتُکَلِّمُنَا أَیدِیهِم وَتَشهد أَرجلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) ''آج ان کی زبانو ں پر تالے لگ جائنگے ان کے ہاتھ باتیں کریں گے ان کے پائوں جو کئے ہوںگے اس پر گواہی دیں گے'' ۔( ۱ ) ( حَتیٰ اِذ مَا جَائُ وهَا شَهِدَ عَلَیهِم سَمعُهم وَأَبصَارُهُم وَجُلُودُهُم بِمَا کَانُوا یَعمَلُونَ ) '' یہاںتک کہ جب پہونچیں گے ان کی آنکھیں او رگوشت وپوست جو عمل انجام دیئے ہیں انکی گواہی دیں گے''( وَقَالُوا لِجُلُودِهِم لِمَ شَهِدتُم عَلَینَا قَالُوا أنطَقَنا اللَّهُ الَّذِی أنطَقَ کُلِّ شَیئٍ ) '' وہ اپنے جسم سے سوال کریں گے کیوں میرے خلاف گواہی دیتے ہو؟ وہ جواب میں کہیںگے وہ خدا جس نے سب کو قوت گویا ئی عطاکی ہے اس نے ہمیں بولنے کے لئے کہا''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ یس ۶۵

(۲) سورہ فصلت ،۲۱

۲۳۵

۷۔وہ آیتیں جومعاد جسمانی اور روحانی کو بطور نمونہ اس دنیا میں ثابت کرتی ہیں جیسے حضرت ابراہیم کا قصہ او رچار پرندے جوزندہ ہو ئے (سورہ بقرہ آیة۲۶۰) مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ جو زندہ ہوا (بقرہ آیة ۷۳) جنا ب ''عزیر'' یا''ارمیا ' ' پیغمبر کا واقعہ (بقرہ ۲۵۹ )جناب حزقیل پیغمبر کاقصہ اورموت کے بعد بہت سارے لوگوں کا زندہ ہوناجیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۳ میں ملتا ہے ،جناب عیسی کا مردو ں کو زندہ کرنا (مائدہ ۱۱۰ آل عمران۴۹) میں آیا ہے جناب موسی کے زمانے میں موت کے بعد ستر آدمیوں کازندہ ہونا (بقرہ ۵۶۵۵) یہ سب کے سب واقعے معاد جسمانی اور روحانی پر محکم دلیل ہیں ۔

سوالات

۱۔موت کے بعدکے حیات کی کیفیت کے بارے میں کیا نظر یہ ہے ؟

۲۔شیعہ موت کے بعد کی زندگی کو کس طرح جانتے ہیں ایک دلیل قرآن سے ذکر کریں ؟

۳۔ معادجسمانی اور روحانی کانمونہ جو اسی دنیا میں واقع ہوا ہے بیان کریں ؟

۲۳۶

پیتیسواں سبق

برزخ یا قیامت صغری

جوبھی اس دنیا میں آتاہے ان چار مراحل کو اسے طے کرنا ضروری ہے ۔

۱۔ پیدائش سے لے کر موت تک کیونکہ یہ دنیا کی زندگی ہے۔

۲۔موت کے بعدسے قیامت تک کی زندگی اسے عالم برزخ کہتے ہیں۔

۳۔قیامت کبری

۴۔جنت یا دوزخ

برزخ

برزخ؛ دو چیز کے درمیان کے فاصلے کانام ہے یہاں برزخ سے مراد وہ دنیا ہے جواس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے جب روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے (قبل اس کے کہ یہ روح قیامت کے لئے دوبارہ اصل بدن میں واپس آئے ) ایک ایسے نازک جسم میں رہتی ہے جسے جسم مثالی کہتے ہیں تاکہ قیامت کے وقت وہ اسی کے ساتھ ہو ۔

۲۳۷

موت کے وقت انسان دنیا او رآخرت کے درمیان ہوتا ہے مولا امیر المومنین نے فرمایا: لِکلِّ دار باب وباب دار الآخرة الموت ہر گھر کا ایک دروازہ ہوتا ہے او رآخرت کا دروازہ موت ہے( ۱ ) جیسا کہ بعض احادیث میں واضح طور پر ملتا ہے کہ موت کے وقت بہت سی چیزیں ہمارے لئے واضح اور روشن ہوجاتی ہیں ۔

۱۔ملک الموت اور دوسرے فرشتوں کو دیکھنا

(۲) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او ر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی زیارت

(۳) جنت یا دوزخ میں اپنی جگہ کا دیکھنا

(۴) اعمال کامجسم ہونا او راپنے گذرے ہوئے اعمال کو دیکھنا

(۵) دولت کا مجسم ہونا جو جمع کر رکھی ہے

(۶) اولا د رشتہ دار اور دوستوں کا مجسم ہونا

(۷) شیطان کامجسم ہونا

یہ کیفیت جس سے اچھے اعمال انجام دینے والے بھی ڈرتے ہیں اور خدا سے پناہ مانگتے ہیں ۔اس وقت انسان بعض پس پردہ رموز واسرار کو دیکھتا ہے او راس کا اعمال اس کے سامنے ہوتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو نیکیوں سے خالی اور گناہ کے بوجھ تلے محسوس کرتاہے اپنے کئے پرنادم وپشیمان ہو کر پلٹنے کی التجا کرتا ہے تاکہ اپنے کئے کا جبران کر سکے ۔( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحَدَ هُمُ المَوت قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلّیِ أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمةُ هُوَ قَائِلُهَا ) ''جب ان

____________________

(۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید

۲۳۸

میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے فریاد کرتے ہیں بارالہا !مجھے پلٹادے تاکہ جو کچھ چھوٹ گیاہے اسے پورا کرلیں اور اچھے اعمال انجام دے لیں اس سے کہا جا ئے گا ایسا نہیں ہوسکتایہ فریاد ہے جو وہ کریں گے''۔( ۱ )

یہ باتیں زبان پر ہوںگی او راگر پلٹا دیا جائے تو اعمال پہلے کی طرح ہو ں گے جس طرح جب مجرم گرفتار ہوتاہے او راسے سزادی جاتی ہے تو یہی کہتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی گرفتاری اور سزاختم ہو جاتی ہے اکثر پھر وہی اعمال دہراتا ہے ۔

قَال لقمان لابنه: یَا بُنیِ اِنَّ الدُّنیا بحر عمیق وقد هلکَ فیها عالم کثیر فاجعل سفینتکَ فِیهَا الاِیمان بِاللَّه واجعل زادک فیها تقویٰ اللَّه واجعل شراعها التوکّل علیٰ اللَّه فَاِنْ نجوّت فبرحمة اللّه وان هلکت فیه فبذنوبکَ وأشد ساعاته یوم یولد ویوم یموت ویوم یُبعث ۔''جنا ب لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا :اے میرے لخت جگر !یہ دنیا بہت گہرا سمندر ہے کتنے لوگ اس میں ڈوب چکے ہیں لذا تم خدا پر ایما ن، اپنے لئے کشتی نجا ت اور زاد راہ، پرہیز گاری نیز لنگر خدا پر بھروسہ کرو اب اگر ڈوبنے سے بچ گئے تو یہ خدا کی رحمت ہے اور اگر غرق ہوگئے تو یہ تمہا رے گناہ کے با عث ہوگا اور سخت ترین لمحہ زندگی انسان کے لئے وہ ہے جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے یا وہ دن ہے جب اس دنیا کو خدا حافظ کہتاہے یا پھر وہ دن ہوگا جب پلٹایا جائے گا ''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ مومنون آیة ، ۹۹۔۱۰۰

(۲)بحارالانوار جلد ،۶ ص ۲۵۰

۲۳۹

عالم برزخ کے اثبات کے سلسلہ میں بہت سی آیتیں وروایتیں پائی جا تی ہیں اگر چہ یہ بات عقل ومحسوسات کے ذریعہ بھی ثابت ہو چکی ہے۔

برزخ کے سلسلے میں قرآنی آیا ت

( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلِّی أعمَلُ صَالِحاً فِیما تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمَة هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرائِهِم بَرزَخُ اِلیٰ یَوم یُبعثُونَ ) ( ۱ ) یہا ں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پرور دگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ،ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جویہ کہہ رہا ہے او ر ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والاہے یہ آیت واضح طور پر برزخ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

( وَلَاتَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ( ۲ ) خبردار راہ خد امیں قتل ہونے والوں کومردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں او راپنے پرور دگا ر کے یہا ں سے رزق پارہے ہیں ۔( وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُون ) ( ۳ ) ''اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کاشعورنہیں ہے ''۔

یہ دو آیتیں برزخ کی زندگی اور شہداء کے رزق کو ثابت کرتی ہیں۔

____________________

(۱) سورہ مومنون ۔۹۹۔۱۰۰

(۲) آل عمران آیة ،۱۶۹

(۳) بقرہ آیة :۱۵۴

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303