اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155134 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(1)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (2)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (3)

--------------

( 1 ) سورہ سجدہ آیت 18

( 2 )سورہ واقعہ آیت 10 ۔ 11

( 3 )سورہ انفال آیت 72

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (1)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (2) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (3)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

1۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

2۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 247

( 2 )سورہ مریم آیت 28

( 3 )سورہ نساء آیت 95

۱۲۲

3۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

4۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

5۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

6۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت 56:

(56) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت 57:

(57) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(1) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( 1 )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(1) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (2)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (3)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (4)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (5)

--------------

( 1 )تفسیر نور الثقلین.

( 2 )سورہ اعلیٰ آیت 17

( 3 )سورہ بقرہ آیت 184

( 4 )سورہ حج آیت 36

( 5 )سورہ اعراف آیت 26

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (1)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (2)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (3)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (4)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (5)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (6)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (7)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 216

( 2 )سورہ زمر آیت 34

( 3 )سورہ فرقان آیت 16

( 4 )سورہ زمر آیت 74

( 5 )سورہ زمر آیت 10

( 6 )سورہ واقعہ آیت 19

( 7 )سورہ بقرہ آیت 112

۱۲۶

پیام:

1۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

2۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

3۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

4۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

5۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

6۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

7۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

8۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

9۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

10۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

11۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

12۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

13۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

14۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

15۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

16۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت 58:

(58) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً 20 بیس سے تیس 30 سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(1)

--------------

( 1 )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

1۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

2۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

3۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت 59:

(59) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(1)

--------------

( 1 )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت 72 ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت 155 ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت 89 ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت 30 ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت 109

۱۳۱

پیام:

1۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

2۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

3۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

4۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

5۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

6۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

7۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

8۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت 60:

(60) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

1۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

2۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

3۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

4۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت 61:

(61)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت 62:

(62) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

1۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

2۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

3۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

4۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

5۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

6۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

7۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت 63:

(63) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

1۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

2۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

3۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

4۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

5۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت 64:

(64) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

1۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

2۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

3۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

4۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

5۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

1۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

2۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

3۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

4۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (1) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

5۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت 65:

(65)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( 1 )آیت نمبر 12 میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

برزخ میں کافروں پر عذاب

( النَّارُ یَعرِضُونَ عَلیها غُدُوّاً وَعَشِیّاً وَیَومَ تَقَومُ السَّاعَة أَدخِلُوا آلَ فِرعَون أَشَدَ العَذَابِ ) ہر صبح وشام آگ انہیں پیش کی جاتی ہے اور جب قیامت آئے گی اس وقت حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو سخت ترین عذاب سے گذارا جائے۔( ۱ )

امام صادق سے روایت ہے کہ دنیا میں آل فرعون ہر صبح وشام آگ کے سامنے پیش کئے جا ئیں گے لیکن قیامت میں (یوم تقوم الساعة)ہے( ۲ ) آیت نے واضح طور پر عذاب کو دوحصوں میں آل فرعون کے لئے تقسیم کیاہے۔

۱۔برزخ میں صبح وشام آگ۔۲۔ قیامت میں سخت ترین عذاب۔

قبر دوسری دنیا کی پہلی منزل

سوال قبر :

جب انسان کو قبر میں رکھ دیا جائے گا اور خدا کے دوفرشتے جنہیں نکیر ومنکر یا ناکر ونکیر کہا جاتا ہے اس کے پاس آئیں گے اوراس سے خد اکی وحدانیت ،نبوت ، وولایت اور نماز وغیرہ کے بارے میں سوال کریںگے ۔

عن أب عبداللّه قال:'' مَن أَنکَر ثلا ثة أشیاء فلیس من شیعتنا المعراج والمسألة فی القبر و الشفاعة''

____________________

(۱)غافر آیة :۴۶

(۲) بحا رالانوار ج۶، ص ۲۸۵

۲۴۱

امام صادق نے فرمایا جو شخص تین چیز کامنکرہے وہ میرا شیعہ نہیں ہے معراج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، قبر میں سوال اور شفاعت۔

امام زین العابدین ہرجمعہ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسجد میں لوگوں کو نصیحت کرتے تھے لوگ اسے حفظ بھی کرتے تھے او رتحریر بھی کرتے تھے ،امام فرماتے ہیں :

أیُّها النَّاس اتقوا اللّه واعلموا أنَّکم الیه تُرجعون فتجد کُلِّ نفس ما عملت فی هذه الدنیا من خیر محضراً وما عملت من سوء تودُّ لو أَنَّ بینها و بینه أمداً بعیداً و یحذّرکم اللّه نفسه و یحک ابن آدم الغافل و لیس بمغفول عنه ابن آدم أَنَّ أَجلک أسرع شیئٍ اِلیک قد أَقبل نحوکَ حثیثاً یطلبکَ و یوشکَ أنَّ یدرککَ وکان قد أَوفیت أجلکَ و قبض الملکَ روحکَ وصرت اِلیٰ منزل وحیداً فردَّ اِلیکَ فیه روحکَ واقتحم علیکَ فیه ملکا کَمنکر ونکیر لمسئلتکَ وشدید امتحانکَ أَلا وأَنَّ أوّل مایسئلا نکَ عن رَبِّکَ الّذِی کنت تعبده وعن نبیّک الذی أرسل اِلیکَ وعن دینکَ الّذِی کنت تدین به وعن کتابکَ الذِی کنت تتلوه وعن اِمامکَ الذی کنت تتولاه ثم عن عمرکَ فیما أَفنیته و مالکَ من أَین اکتسبته؟وفیما أتلفته فخذ حذرکَ و انذر لنفسکَ واعد للجواب قبل الامتحان والمسألة والاختبار''

اے لوگو ! تقوی الٰہی اختیار کرو او ریہ جان لو کہ اسی کی طرف پلٹ کے جا نا ہے اب جس نے اس دنیا میں نیک کام انجام دیا وہ اس کا صلہ پائے گا ۔اسی طرح برائیاں بھی ہیں کہ جس کے لئے تمنا کرے گا اے کا ش! میرے او ران گناہو ں کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا ۔اور خدا آپ کو ڈرا رہا ہے کہ اے غافل انسان تجھ سے غفلت نہیں برتی گئی ہے ۔

۲۴۲

اے فرزند آدم موت تجھ سے سب سے زیادہ قریب ہے اور عنقریب وہ تجھے اپنی آغوش میں لے لیگی گویا موت آچکی ہے او رفرشتہ نے تمہاری روح کو قبض کرلیا ہے او رتم ایک گوشہ تنہائی میں داخل ہو گئے ہو اور تمہاری روح پلٹا دی گئی ہے اور نکیر ومنکر تمہارے سوال او رسخت امتحا ن کے لئے حاضر ہوگئے ہیں جاگ جائو سب سے پہلا سوال جو تم سے کیا جائے گا ،اس خد اکے سلسلہ میں ہو گا جس کی تم عبادت کرتے تھے اور اس پیغمبر کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا اس دین کے بارے میں ہوگا جس کے تم معتقدتھے او راس قرآن کے بارے میں ہوگا جس کی تم تلا و ت کرتے تھے او راس امام کے بارے میں جس کی ولا یت کو تم نے مانا تھاپھر تمہاری عمرکے سلسلہ میں سوا ل ہوگا کہ کس چیز میں گذاری اور مال کے بارے میں کہ تم نے اسے کہاں سے حاصل کیا اورکہا ں خرچ کیا ؟لہٰذا احتیاط کا دامن نہ چھوڑو اور اپنے سلسلہ میں سوچو ،امتحان اور سوالات سے پہلے اپنے کو تیار رکھو ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ،۶ ص ۳۲۲

۲۴۳

سوالات

۱۔ انسا ن موت کے وقت کس چیز کا مشاہدہ کرے گا ؟

۲۔ ہر شخص ولا دت کے بعد کتنے مراحل طے کرتاہے ؟

۳۔ برزخ کیا ہے اور کس مرحلے کانام ہے ؟

۴۔ قرآن برزخ کے لئے کیا فرماتا ہے آیت لکھیں ؟

۲۴۴

چھتیسواں سبق

صور کا پھونکنا ،اور نامۂ اعمال

اس دنیا کا اختتام اور دوسری دنیا کا آغاز ایک قیامت خیز چیخ کے ساتھ ہوگا قرآن کی بہت سی آیتوں میں صور پھونکنے کی طرف اشارہ ہے ان تمام آیتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دوبارصورپھونکا جائے گا۔

۱۔اس دنیا کے خاتمہ کے وقت جس سے تما م مخلوق خدا فنا ہوجا ئے گی یہ صورموت ہے ۔

۲۔ قیامت کے وقت جب تمام مخلو ق کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اوریہ صور قیامت ہے ان دواہم واقعہ کو قرآن نے مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے'' نفخ صور'' صیحہ' نقر در ناقور'' '' صاخہ''،''قارعہ'' ''زجرة''۔( وَنُفِخَ فیِ الصُّورِ فَصُعِقَ مَن فِی السَّمواتِ وَمَن فِی الأَرض اِلا مَن شاء اللَّه ثُمَّ نُفِخَ فیهِ أُخَریٰ فاِذاهُم قِیَامُ یَنظُرونَ ) ''اور جب صور پھو نکا جائے گا اس وقت تمام مخلوق جو آسمان و زمین میں ہیں سب کے سب فنا ہوجائیں گے مگرصرف وہ لوگ بچیں گے جنہیں خدا چاہے گا پھر دوبارہ صور پھونکا جائیگا کہ اچانک سبھی اٹھ کھڑے ہو نگے اورحساب اور جزاء کے منتظر ہوںگے ''۔

سورۂ یس کی ۵۳ آیت میں اس واقعہ کو''صیحہ ''چنگھا ڑ کے نام سے یاد کیاگیاہے ۔

( اِنّ کَانَت اِلَّا صَیحَةً وَاحِدةً فاِذَا هُم جَمِیعُ لدَینا مُحضَرُونَ ) یس:۵۳) قیامت توصرف ایک چنگھاڑ ہے اس کے بعد سب ہماری بارگا ہ میں حاضر کردئے جائیں گے او رسورہ مدثر کی آیت ۸ میں نقر وناقور کے نام سے جانا جاتاہے( فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ فَذلِک یَومَئذٍ یَوم عَسیر ) پھر جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن انتہائی مشکل دن ہوگا اور سورہ عبس کی آیة ۳۳ میں( فاِذَا جاء ت الصَّاخَةُ ) پھر جب کان کے پردے پھاڑ نے والی قیامت آجا ئے گی ۔

اور سورہ قارعة کی ایک سے تین تک کی آیتوں میں اس اہم واقعہ کو قارعہ سے یاد کیا ہے۔( القَارِعَةُ مَا القَارِعةُ وَمَا أدرَاک مَا القَارِعَةُ ) کھڑکھڑانے والی اور کیسی کھڑکھڑانے والی اورتمہیں کیامعلوم کہ وہ کیسے کھڑکھڑانے والی ہے اور سورہ صافات کی آیة ۱۹میں زجر کے نام سے یاد کیاگیاہے( فَاِنّما هِیَ زَجَرَةُ وَاحِدةُ فَاِذَا هُم یَنظُرُونَ ) یہ قیامت تو صرف ایک للکا ر ہوگی جس کے بعد سب دیکھنے لگیں گے ان تمام آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس دنیا کا خاتمہ اور دوسری دنیا کا آغاز اچانک اور ایک چنگھا ڑ ''صیحہ '' کے ذریعہ ہوگا یہ تمام عنوان جو ذکر کئے گئے ہیں

۲۴۵

یہ سب کنایہ ہیں نفخ چاہے پھونکنے کے معنی میں ہو یا صورکے البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ یہ واقعہ سخت ہوگا او رصور کا پھونکا جانا عام طرح سے نہیں ہوگا بلکہ ایک سخت دن ہوگا اور عجیب طریقہ کی چنگھاڑ ہوگی جس سے ایک سکنڈ میں تمام زمین او رآسمان والے نابو د ہو جا ئیں گے خدااپنے دوسرے حکم سے قیام قیامت کی خاطر سب کو دوبارہ زندہ کرے گا ان دو حکم کے درمیان کا فاصلہ ہمیں معلوم نہیں ۔

صحیفہ یانامۂ اعمال

قرآن او راحادیث معصومین علیہم السلام میں نامہ اعمال کے متعلق بہت طویل بحث ہے ایسانامہ اعمال جس میں انسان کے تمام اعمال ثبت ہو ں گے اور قیامت کے دن ظاہر ہوں گے ۔

۱۔ اعمال کا ثبت ہونا:( وَنَکتُبُ مَا قَدَّموا وَآثَارهم وکُلَّ شَیئٍ أَحصَینَاهُ فِی اِمامٍ مُبینٍ ) اور ہم ان گزشتہ اعمال اور ان کے آثار کو لکھتے جاتے ہیں اورہم نے ہر شی ٔ کو ایک روشن امام میں جمع کردیاہے۔( ۱ ) ( وَکُلّ شَیئٍ فَعَلُوهُ فِی الزُّبُرِ وَکُلُّ صَغِیرٍ وَکَبیرٍ مُستَطرُ ) اور ان لوگو ں نے جو کچھ بھی کیا ہے سب نامۂ اعمال میں محفوظ ہے اور ہر چھوٹا اور بڑا عمل اس میں درج کردیاگیا ہے۔( ۲ ) ( اِنَّ رُسُلُنا یَکتُبُونَ مَا تَمکُروَن ) اور ہمارے نمایندہ تمہا رے مکر کو برابر لکھ رہے ہیں۔( ۳ ) ( أَم یَحسَبُونَ أِنَّا لَا نَسمعُ سِرَّهمُ و نَجوٰهم بَلیٰ وَ رُسُلَنَا لَدیهِم یَکتبُونَ ) یا ان کاخیال ہے کہ ہم ان کے راز اور خفیہ باتوں کو نہیں سن سکتے ہیں تم ہم کیا ہمارے نمایندہ سب کچھ لکھ رہے ہیں۔( ۴ )

( فَمَنْ یَعمَل مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤمِنُ فلا کُفرانَ لِسَعیهِ وَاِنَّا لَهُ

____________________

(۱)سورہ یس آیة: ۱۲

(۲) سورہ قمر آیة: ۵۲۔۵۳

(۳) سورہ یونس آیة: ۲۱

(۴) سورہ زخرف آیة: ۸۰

۲۴۶

کَاتِبُونَ ) پھر جوشخص صاحب ایما ن رہ کر عمل کرے گا اس کی کوشش برباد نہ ہوگی اورہم اس کی کوشش کوبرابر لکھ رہے ہیں۔( ۱ )

اعمال کا ظاہر ہونا :( وَاِذَا الصُحُفُ نُشِرَت عَلِمَت نَفسُ مَا أَحَضَرت ) اورجب نامۂ اعمال منتشر کر دئے جائیں گے تب ہر نفس کومعلوم ہوگا کہ اس نے کیا حاضرکیا ہے۔( ۲ ) ( بَل بَداَ لَهُم مَا کَا نُوا یُخفُونَ مِن قَبلُ ) بلکہ ان کے لئے وہ سب واضح ہوگیا جسے پہلے سے چھپا رہے تھے۔( ۳ ) ( یُنبَّوا الأِنسَانُ یَومئِذٍ بِمَا قَدَّمَ و اخَّرَ ) اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے پہلے اور بعد کیاکیا اعمال کئے ہیں۔( ۴ ) ( وَکُلَّ اِنسانٍ ألزمنَاهُ طَائِرهُ فِی عُنُقهِ وَنُخرِجُ لَهُ یَومَ القِیَامَةِ کِتَاباً یَلقیٰهُ مَنشُوراً ) ( ۵ ) اور ہم نے ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں آویزان کردیا ہے اور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کردیں گے( وَوُضِعَ الکِتَابُ فَتَریٰ المُجرمِینَ مُشفِقِینَ مِمَّا فِیهِ وَیَقُولُونَ یا وَیلَتَنَا مَالِ هَذا الکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلَاکَبِیرَةً اِلاَّ أَحصیٰها وَ وجدُوا مَا عَمِلوا حَاضِراً وَلاَ یَظلِمُ رَبُّکَ أَحَداً ) اور جب نامہ اعمال سامنے رکھا جائے گا تودیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اورکہیں گے ہا ئے افسوس اس کتاب نے چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پرور دگار

____________________

(۱) سورہ انبیاء آیة: ۹۴

(۲) تکویر آیة: ۱۰۔۱۴

(۳) سورہ انعام آیة: ۲۸

(۴) سورہ قیامت آیة: ۱۳

(۵)سورہ اسراء آیت۱۳

۲۴۷

کسی ایک پربھی ظلم نہیں کرتا ہے۔( ۱)

نامۂ اعمال احادیث معصومین علیہم السلام کی نظر میں

امام محمدباقرں سورہ اسراء کی آیة ۱۴ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ہر انسان کا نامہ اعمال اس کی گردن میں لٹکادیا جائیگا ۔

(خیره وشره معه حیث کان لا یستطیع فراقه حتیٰ یعطیٰ کتابه یوم القیامة بما عمل ) انسان کی اچھائیاں اور برائیاں نہ الگ ہونے والے ساتھی کی طرح ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں یہاں تک(نامہ اعمال) وہ کتاب ان کے کئے ہو ئے اعمال کے ساتھ اس کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔( ۲ )

عن أَبی عبد اللّه علیه السلام: اذاکان یوم القیامة دفع الانسان کتابه ثم قیل له اقرأ فقال الراوی فیعرف ما فیه :فقال أِنَّ اللَّهَ یُذکّره ، فما من لحظة ولا کلمة ولانقل قدم ولا شیء فعله الاذکره کأنه فعله تلک الساعة فلذلک قالوا یا وَیلتَنا مالِ هَذَا الکِتَابِ لَایُغادِرُ صَغیرةً ولا کَبیرةً اِلَّا أَحصیٰهَا.

امام جعفر صادق نے فرمایا :جب قیامت آئے گی انسان کے نامہ اعمال کواس کے ہاتھ میں دیا جائے گا اور اس سے کہا جا ئے گا پڑھو راوی کہتا ہے کیا ان

____________________

( ۱)سورہ کہف آیة ۴۹

(۲) نورالثقلین ج،۳ ص ،۱۴۴

۲۴۸

مطالب کو وہ جانتا ہوگا ؟امام نے فرمایا : خدا وند عالم اسے یاد دلا ئے گا اس طرح کہ جو بھی اس نے وقت گذار اجو کہا ،جو قدم اٹھایا ،یادوسری چیزیں جس پر عمل کیا ہوگا خدا اسے ان تمام لمحات کو اسے اس طرح یاد دلائے گا جیسے اس نے اسی وقت انجام دیاہواور وہ کہیں گے ہا ئے افسوس یہ کیسی کتاب ہے کہ جس میں ہر چھوٹا ،بڑا سب کچھ لکھ دیا گیاہے ۔( ۱ )

نامۂ اعمال کسے کہتے ہیں

جوچیز یقینی اور مسلّم ہے وہ یہ کہ انسان کے تمام اعمال اور کردار لکھے جاتے ہیں، اب کیا یہ کا غذ، ورق یا کتاب ہے یادوسری چیز ہے ؟اس کی مختلف تفسیریں کی گئیں ہیں تفسیر صافی میں مرحوم فیض کاشانی کہتے ہیں نامہ اعمال روح انسان کے لئے کنایہ ہے کہ اس میں تمام اعمال کے آثار چھپ جاتے ہیں۔

تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی مرحوم فرماتے ہیں نامہ اعمال انسان کے تمام حقیقت کو اپنے اندر شامل کئے ہوگا اوراس کے خطوط دنیاوی کتاب سے مماثلت نہیں رکھتے ہوںگے بلکہ وہ خود اعمال انسان ہے،کہ جس سے خدا باکل واضح طور پر انسان کو بتا دے گا اور مشاہدہ سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہے انھوں نے سورہ آل عمران کی آیت ۳۰ سے استفادہ کیا جس میں ارشاد ہو ا (جس دن انسان اپنے اچھے اور برے اعمال کو سامنے دیکھے گا )( ۲ ) اور بعض نے نامۂ اعمال کو

____________________

(۱)پیام قرآن ج،۶ ص ۱۰۱

(۲) المیزان ج، ۱۳ص،۵۸

۲۴۹

ویڈیوکیسٹ کی تصویر یا ٹیپ کی کیسٹ سے مشابہ بتایا ہے بہر حال چونکہ نامۂ اعمال کا قرآن واحادیث میں کافی ذکر ہے ہم اس پر ایما ن رکھیں ہر چند اس کی حقیقی کیفیت کاہمیں علم نہیں ہے ۔

سوالات

۱۔نفخ ،صور سے کیامراد ہے اور یہ کب واقع ہوگا ؟

۲۔ امام محمد باقر ںنے نامۂ اعمال کے سلسلے میں کیا فرمایا ہے ؟

۳۔ نامہ اعمال کسے کہتے ہیں واضح کیجئے ؟

۲۵۰

سیتیسواں سبق

قیامت کے گواہ اور اعمال کا ترازو

خدا وند عالم لوگوں کی تما م اچھائیاں اوربرائیاں اچھی طرح سے جانتا ہے چاہے انہیں ظاہر میں انجام دیا ہو یاچھپ کر لیکن خدا کی مصلحت اور حکمت اس چیز پر قائم ہوگی کہ قیامت میں لوگوں سے سوالات ان کے اعمال کے کارنامہ اور گواہوں کی گواہی کے اعتبار سے ہو گی اور وہ گواہ یہ لوگ ہیں ۔

۱۔خدا وند عالم :

جوپہلا گواہ ہے( اِنَّ اللّهَ علیٰ کُلِّ شَیئٍ شَهِیدُ ) بیشک خدا ہر چیز پر گواہ ہے۔( ۱ ) ( اِنَّ اللّهَ کَانَ عَلَیکُم رَقیباً ) اللہ تم سب کے اعمال کانگراں ہے۔( ۲ ) ( فَاِلَینَا مَرجِعُهُم ثُمَّ اللَّه شَهِیدُ عَلیٰ مَایَفعَلُونَ ) بہر حال پلٹ کر ہماری ہی بارگاہ میں آنا ہے اس کے بعد خدا خود ان کے اعمال کا گواہ ہے۔( ۳ )

۲۔انبیاء اور ائمہ علیہم السلام :

( وَ یَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیکُم شَهِیداً ) اور پیغمبر آپ پرگواہ ہونگے۔( ۴ ) ( وَجِئنَابِک عَلیٰ هَولاِء شَهِیداً ) اورپیغمبر آپ کو ان سب کاگواہ بنا کر بلائیں گے۔( ۵ ) ( وَیَومَ نَبعَثُ مِن کُلِّ أُمَّةٍ

____________________

(۱) سورہ حج آیة:۷ ۱

(۲) سورہ نسا ء آیة: ۱

(۳) سورہ یونس آیة: ۴۶

(۴) سورہ بقرہ آیة:۱۴۳

(۵) سورہ نسا ء آیة:۴۱

۲۵۱

شَهِیداً ) اور قیامت کے دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے۔( ۱ )

ابوبصیر کے بقول امام صادق سے اس قول خدا کی تفسیر میں :

( وَکَذلِکَ جَعَلنَاکُم أمَّةً وَسَطَاً لِتَکُونُوا شُهدَائَ عَلیٰ النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیکُم شَهِیداً ) فرماتے ہیں:''نحن الشهداء علیٰ الناس بما عند هم من الحلال والحرام وبما ضیعوا منه '' (ہم لوگوں پر گواہ ہو نگے اس چیز کے لئے جو حلا ل اور حرام ان کے پاس ہے اور جو انھوں نے ضایع کیا ہے۔( ۲ )

او ردوسری روایت میں ہے کہ ہم امت وسط ہیں اور ہم خدا کی طرف سے امت کے گواہ ہیں اور خدا کی زمین پر حجت ہیں۔( ۳ )

۳۔فرشتے :

( وَجَائَتْ کُلُّ نَفسٍ مَعَها سَائِقُ وَ شَهِیدُ ) اور ہر انسان آئے گا اس حال میں کہ فرشتے اسے لے جائیں گے اور فرشتے ان کے کامو ں پر گواہ ہوں گے( ماَ یَلفَظ مِن قَول اِلّا لَدَیه رَقِیب عَتید ) وہ کو ئی بات منھ سے نہیں نکالتا ہے مگر یہ کہ ایک نگہبان اس کے پاس موجود رہتا ہے۔( ۴ )

امیر المومنین دعائے کمیل میں فرماتے ہیں:''وکلَّ سیئة أمرت بِاثباتها الکرام الکاتبین الذین وکلّتهم بحفظ مایکون منی وجعلتهم شهوداً علیِّ مع جوارحی ''بارالہا ! میرے ان گنا ہوں کومعاف کردے جنہیں لکھنے کے لئے اپنے

____________________

(۱) سورہ نحل آیة:۸۹

(۲) تفسیر نورالثقلین ج۱،ص ۱۳۴

(۳) حوالہ سابق

(۴) سورہ ق آیة:۲۱، ۱۸

۲۵۲

محبوب فرشتوں کو حکم دیا ہے اور انہیں ہما رے اعضاء جسمانی کے ساتھ گواہ بنایا ہے۔

۴۔زمین :

( یَومئذٍ تُحَدّث أخباَرها ) (زمین ) اس دن وہ اپنی خبریں بیان کریگی( ۱ ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اس آیت کو پڑھا فرمایا:''ا تدرون ما اخبارها؟ جاء ن جبرئیل قال خبرها اِذا کان یوم القیامة أخبرت بکلِّ عمل علیٰ ظهرها'' جانتے ہو زمین کی خبریں کیا ہیں ؟ جبرئیل نے مجھ سے بتایا ہے کہ زمین اس چیز کے بارے میں بتائے گی جو اس پر انجام دیا گیا ہے۔( ۲ )

مولائے کا ئنات فرماتے ہیں :''صلوا المساجد فی بقاع مختلفة فاِنَّ کُلَّ بقعة تشهد للمصلی علیها یوم القیامة ''مسجد میں ہر جگہ نما ز پڑھو چونکہ ہر جگہ قیامت کے دن نماز پڑھنے والے کے لئے گواہی دے گی ۔اسی طرح جب مولائے کائنات بیت المال کو مستحقین میں تقسیم کردینے کے بعدجب زمین خالی ہوجاتی تھی تو دورکعت نماز پڑھتے تھے اور بیت المال کی زمین سے خطاب کر کے کہتے تھے قیامت میں گواہ رہنا حق کے ساتھ یہا ں مال جمع کیا اور حق کے ساتھ تقسیم کیا۔( ۳ )

۵۔ زمان (رات ودن )

قال أبو عبداللّٰه علیه السلام: ما مِن یوم یأتی علیٰ اِبن آدم اِلّا قال ذلک الیوم : یا بن آدم أنا یوم جدید وأنا علیک شهید فقل فَیّ خَیراً أشهُد لَک یوم القیامة فاِنَّک لن ترانِی بعدها أبداً ''امام صادق

____________________

(۱) سورہ زلزال آیة:۴

(۲) درالمنثور ج،۲ معاد فلسفی ۳۳۴

(۳) لئالی الاخبارص۴۶۲

۲۵۳

نے فرمایا : کوئی دن انسان کے لئے نہیں گذرتا مگر وہ دن انسان سے کہتا ہے اے فرزند آدم! میں نیا دن ہو ں اور ہم تمہا رے اوپر گواہ ہیں لہٰذا آج اچھائی انجام دو تاکہ قیامت کے دن تمہارے لئے گواہی دیں اور اس کے بعد تم مجھے کبھی نہیں دیکھو گے ۔

وعنه عن أبیهں :قال اللّیل اِذا اقبل نادیٰ منادٍ بصوت یسمعه الخلائق اِلّا الثّقلین :یا ابن آدم !أنِّی علیٰ ما فیِّ شهید فخذ منی فأَنِّی لوطلعت الشمس لم تزد فیّ حسنه ولم تستعتب فیِّ من سیئة وکذلک یقول النهار اِذَا ادبر اللَّیل ''امام صادق اپنے والد بزرگوار امام باقر سے نقل کرتے ہیں کہ انھو ں نے فرمایا جب رات آتی ہے تو آواز دینے والا آواز لگا تا ہے جس کو انسان او رجنات کے علاوہ سبھی سنتے ہیں کہتاہے :اے فرزند آدم !جو کچھ ہم میں انجام پایا ہے اس پرگواہ ہیں لہٰذا زاد راہ کو مجھ سے حاصل کرلو کیونکہ اگر سورج نکل آیا تو پھر مجھ میں اچھا ئیوں کا اضافہ نہیں کرسکتے او ر گنا ہ کو واپس نہیں لے سکتے اور یہی فریاددن کی ہوتی ہے جب رات گذر جاتی ہے۔( ۱ )

۶۔ انسان کے اعضاء وجوارح :

( یَومَ تَشهَدُ عَلَیهِم ألسِنَتهُم وَ أَیدِیهِم وَ أَرجُلُهُم بِمَا کَا نُوا یَعملُون ) قیامت کے دن ان کے خلا ف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پائوں سب گواہی دیں گے کہ یہ کیا کررہے تھے۔( ۲ ) ( الیَومَ نَختِمُ عَلیٰ أَفوَاهِهِم وَ تُکَلِّمنَا أَیدِیهِم وَتَشهُد أَرجلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) آج

____________________

(۱)بحا الانوار ج۷، ص ۳۲۵

(۲)سو رہ نور آیة: ۲۴۔

۲۵۴

ہم ان کے منھ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے او ران کے پائو ں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے۔( ۱ ) ( شَهِدَ عَلَیهِم سَمعُهم و أَبصارُهُم وَ جُلُودُهُم بِمَا کَا نُوا یَعمَلُونَ ) ان کے کا ن اور انکی آنکھیں اور جلد سب ان کے اعمال کے بارے میں ان کے خلا ف گواہی دیں گے۔( ۲ )

۷۔ خود عمل کا حاضر ہونا :عمل کا مجسم ہوکر سامنے آنا سب سے بڑا گواہ ہے( یَومَئِذٍ یَصدُرُ النَّاسُ أَشتاتاً لِیُروا أَعَمَالَهُم فَمَنْ یَعمَلْ مِثقَالَ ذَرةٍ خَیراً یَرَهُ وَمَنْ یَعمَل مِثقالَ ذَرةٍ شَراً یَرَهُ ) اس روز سارے انسان گروہ در گروہ قبروں سے نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھ سکیں پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے بھی دیکھے گا ۔( ۳ ) ( وَوَجَدُوا مَاعَمِلوا حاَضِراً وَلَا یَظلِمُ رَبُّکَ أَحداً ) او رسب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے او رتمہا را پرو ردگا ر کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔( ۴ ) ( یَومَ تَجدُ کُلَّ نَفَسٍ مَاعَمِلتْ مِنْ خَیرٍ مُحضَراً وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوئٍ تَودُّ لوأَنَّ بَینَها وَبَینَهُ أَمَداً بَعیدا ) اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو حاضر پائے گا او ر اعمال بد کو بھی کہ جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہما رے اور ان برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہو جا تا۔( ۵ )

____________________

(۱) سورہ یس آیة: ۶۵

(۲) سورہ فصلت آیة: ۲۰

(۳)سورہ زلزال آیة: ۶تا آخر۔

(۴) سورہ کہف آیة ۴۹

(۵)سورہ آل عمران آیة ۳۰۔

۲۵۵

اعمال کے مجسم ہونے اور حاضر ہونے کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں ہیں پائی جا تی ہیں جیسا کہ شیخ بہا ئی مرحوم کہتے ہیں:''تُجسّم الأعمال فی النشأة الأ خرویة قد ورد فیِ أحادیث مُتکثرة من طرق المخالف والمؤالف ''اعمال کا دوسری دنیامیں مجسم ہونا بہت سی حدیثوں میں سنی او ر شیعہ دونوں کے یہاں موجود ہے۔( ۱ )

نمو نہ کے طورپر پیغمبر کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں ....و اِذا جاء أخرجوا من قبورھم خرج من کلّ اِنسان عملہ الذیِ کان عملہ فی الدنیا لأن عمل کلّ اِنسان یصحبہ فی قبرہ ''جب تمام لوگ اپنی قبروں سے باہر آئیں گے ان کے اعمال بھی ان کے ساتھ آئیں گے کیونکہ ہرانسان کا عمل اس کی قبر میں اس کے ساتھ رہتا ہے۔( ۲ )

قیامت میں میزان اعمال

قرآن اور احادیث معصومین میں قیامت کے ترازو کے بارے میں بہت زیادہ تذکرہ ہے ،ترازو تولنے کاذریعہ ہے ہر چیز کا ترازو اسی کے لحاظ سے ہوتا ہے سبزی بیچنے کے لئے مخصوص ترازو ہے، لائٹ اور پانی کا ترازو مخصوص میٹر ہے، ٹھنڈی اورگرم ہواکا پتہ لگا نے کے لئے تھرما میڑہے اور قیامت کا ترازو اعمال کو تولنے کا ذریعہ ہوگا ۔

قبل اس کے کہ قیامت کے میزان (ترازو) کے معنی اور اس کی تفسیر بیان کریں

____________________

(۱) بحار الانوار ج۷، ص ۲۲۸

(۲)تفسیر برہان ج۴، ص ۸۷

۲۵۶

اس سلسلے میں قرآن کی آیتوں کو ملا حظہ فرمائیں( وَنَضعُ المَوَازِینَ القِسطَ لِیَومِ القِیَامَةِ فَلاَ تُظلَمُ نَفَسُ شَیئاً وَاِن کان مِثقَالَ حَبَّةٍ مِن خَردَلٍ أتَینَابِهَا وَکَفیٰ بِنَا حَاسِبِین ) او رہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے او رکسی نفس پر ادنی ظلم نہیں کیا جائے گا اوراگر کسی کا عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہے تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں۔( ۱ )

( وَالوَزنُ یَومَئِذٍ الحَقُّ فَمَن ثَقُلَت مَوَازِینُهُ فَأُولئِک هُمُ المُفلِحُونَ وَمَن خَفَّتْ مَوَازِینُهَُ فَاُولئِک الَّذینَ خَسِرُوا أَنفسُهُم بِمَاکَانُوا بِآیاتِنَا یَظلِمُونَ ) آج کے دن اعمال کاوزن ایک برحق شی ٔ ہے پھر جس کے نیک اعمال کا پلہ بھا ری ہوگا وہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔( ۲ )

( فَأمَّا مَنْ ثَقُلَت مَوَازِینُهُ فَهُو فِی عِیشةٍ رَاضِیَةٍ وَ أمَّا مَن خَفَّت مَوَازینُهُ فَأُمُّهُ هَاوِیَةُ ) تو اس دن جس کی نیکیوں کاپلہ بھاری ہوگا وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا اور جس کاپلہ ہلکا ہوگا اس کا مرکز جہنم ہے۔( ۳ )

میزان قیامت کسے کہتے ہیں ؟

مرحوم طبرسی فرماتے ہیں : آخرت میں انصاف کا نام ترازو ہے او روہا ں کسی پر ظلم نہیں کیاجائے گا ،وزن سے مراد عظمت مومن اور اس کی فضیلت کااظہار ہے اور کفار کو ذلیل اور رسوا کرنا ہے جیسا کہ سورہ کہف کی آیة ۱۰۵ میں مشرکین کے سلسلہ میں آیا

____________________

(۱) سورہ انبیاء آیة ۴۷

(۲) سورہ اعراف آیة۸۔۹

(۳)سورہ قارعة آیت ۶۔۹

۲۵۷

ہے''فلا نقیم لهم یَومئذٍ وزنا'' او رہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے اور آیة'' ثَقُلَت مَوازِینُہُ'' سے مراد یعنی ان کی خوبیاںبھاری ہوںگی اورنیکیاں زیادہ ہوںگی اور''خفت موازینه ''سے مراد یعنی خوبیا ں ہلکی او راطاعتیں کم ہوںگی۔( ۱ ) اور جوچیز مرحوم طبرسی نے بیان کیا ہے اس روایت کے ذیل میں ہے جو ہشام بن حکم نے امام صادق نے نقل کیا ہے۔( ۲ )

میزان قیامت کون لوگ ہیں ؟

بحاالانوار کی ساتویں جلد کے ص ۲۴۲ کے ذیل میں جو بیان ہواہے او رتفسیر

صافی میں جو میزان کے معنی بیان کئے گئے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے آخرت میں لوگوں کا ترازو وہ چیز ہے جس کے ذریعہ ہر شخص کی قیمت ومنزلت کو اس کے عقیدہ اور اخلا ق وعمل کے اعتبار سے تولا جائے گا تاکہ ہر انسان کو اس کی جزا مل سکے ،اور اس کے میزان انبیاء اور اوصیاء ہوں گے کیونکہ ہرانسان کی قدرو منزلت انہیں انبیاء کا اتباع اور ان کی سیرت سے قربت کے مطابق ہوگا اور اس کا سبک وہلکا ہونا انبیاء اور اوصیاء سے دوری کے باعث ہوگا ،کافی اور معانی الاخبار میں امام صادق نے اس آیت کی تفسیر میں ''ونضعَ الموازین القِسطَ لیومِ القیامة'' اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریںگے فرمایا:''هُم الأ نبیاء والأوصیائ '' یعنی میزان عمل انبیاء او راوصیاء ہو ں گے

دوسری روایت میں فرمایا:''نحن موازین القسط ''ہم میزان عدالت ہیں۔( ۳ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج،۷ ص ۲۴۷و ۲۴۳

(۲) بحار الانوار ج،۷ ص

۲۴۸(۳) بحارالانوار ج،۷ ص ۲۴۷و ۲۴۳

۲۵۸

مرحوم علامہ مجلسی ،شیخ مفید سے نقل فرماتے ہیں کہ روایت میں آیاہے کہ :''ان أمیرالمؤمنین والأئمةمِن ذریته هم الموا زین ''بیشک امیر المومنین اوران کی آل پاک ائمہ اطہار علیہم السلام قیامت میں میزان عدالت ہو ں گے۔( ۱ )

امیر المومنین ں کی پہلی زیارت مطلقہ میں آیاہے :''السلام علیک یامیزان الاعمال ''میرا سلام ہو آپ پر اے میزان اعمال ۔لہٰذا جو کچھ اب تک بیان کیا گیا ہے وہ میزان عدل الٰہی ہے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او ر ہمارے ائمہ معصومین علیھم السلام اس کی عدالت کے مظہر او رنمونہ ہیں، بعض محققین کے بقول معصوم امام ترازو کے ایک پلڑے کے جیسے ہیں اور تمام لوگ اپنے اعمال وعقیدہ کیساتھ ترازو کے دوسرے پلڑے کی مانند ہیں اب ایک دوسرے کے ساتھ تولا جا ئیگا اب ہما را عمل او ر عقیدہ جتنا ان کے عقیدہ اورعمل سے قریب او ر مشابہ ہوگا اتنا ہی ہمارا وزن بھاری ہوگا جیسا کہ مرحوم طبرسی مجمع البیان میں سورہ کہف کی آیة ۱۰۵ کے ذیل میں فرماتے ہیں روایت صحیحہ میں ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انه لیأ تِی الرجل العظیم السمین یوم القیامة لایزن جناح بعوضة ''قیامت کے دن ایک فربہ اور بھاری بھرکم آدمی کولا یا جائیگا اور اس کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔یعنی وہ انتہائی معمولی اور ہلکا ہوگاکیونکہ اس کے اعمال افکاراور اس کی شخصیت اس کے ظاہری قیافہ کے بالکل خلا ف چھوٹی اور ہلکی ہوگی۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج،۷ ص ۲۴۸

۲۵۹

سوالات

۱۔ قیامت میں گواہ کون لوگ ہوںگے بطور خلاصہ بیان کریں ؟

۲۔ میزان کے کیا معنی ہیں اور قیامت میں میزان کیساہوگا ؟

۳۔ قیامت میں میزان عمل کون لوگ ہو ں گے ؟

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303