اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155140 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

اڑتیسواں سبق

قیامت میں کس چیز کے بارے میں سوال ہوگا ؟

روز قیامت سب سے پہلے اس چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا جس کی طرف توجہ دینابہت اہم اور زندگی ساز ہے عن الرِّضا عن آبائہ عن علیِّ علیہ السلام قا ل:''قال النَّبیِّ أوَّل ما یسأل عنه العبد حبنا اهل البیت ''امام رضا ںنے اپنے والد اور انھوں نے مولائے کائنات سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :سب سے پہلا سوال انسان سے ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں ہوگا۔( ۱ )

عن أبی بصیر قال : سمعتُ أ با جعفر علیہ السلام یقول: ''اوّل ما یُحاسب العبد الصلاة فاِنْ قُبِلت قُبِلَ ما سواها''ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام صادق کو میں نے فرماتے سنا ہے کہ سب سے پہلے جس کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے اگر یہ قبول تو سارے اعمال قبول ہوجائیں گے۔( ۲ )

پہلی حدیث میں عقیدہ کے متعلق پہلا سوال ہے اور دوسری حدیث میں عمل کے متعلق پہلاسوال ہےعن أبی عبداللّه علیه السلام فی قول اللّه :

____________________

(۱) بحارالانوار ج،۷ص ۲۶۰

(۲) بحا رالانوار ج،۷ ص ۲۶۷

۲۶۱

''( اِنّ السمع والبصروالفؤاد کُلّ أولئِک کان عنه مسئولا ) قال یُسال السمع عمّا یسمع والبصر عما یطرف والفؤاد عمّا عقد علیه ''امام صادق نے خدا وند عالم کے اس قول کی تفسیر میں جس میں کہا گیاہے کہ کان آنکھ اور دل سے سوال ہوگا فرمایا: جوکچھ کان نے سنا اورجوکچھ آنکھو ں نے دیکھا اور جس سے دل وابستہ ہوا سوال کیا جائے گا( ۱ ) عن أبی عبداللّهں قال، قال: رسول اللّه أنا أوّل قادم علیٰ اللّه ثُمَّ یُقدّم علّکتاب اللّه ثُمَّ یُقدم علّ أهل بیتی ثُمَّ یقدم علّ أمت فیقفون فیسألهم ما فعلتم فی کتابی وأهل بیت نبیّکم؟ اما م صادق سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :میں وہ شخص ہو ں جو سب سے پہلے خدا کی بارگاہ میں جائوں گا پھر کتاب خدا (قرآن) اس کے بعد میرے اہل بیت پھر میری امت آئے گی ،وہ لوگ رک جائیں گے اور خدا ان سے پوچھے گا کہ میری کتاب اور اپنے نبی کے اہل بیت کے ساتھ تم نے کیاکیا؟( ۲ ) عن الکاظم عن آبائه قال : قال رسول اللّه: لا تزول قدم عبد یوم القیامة حتیٰ یسأل عن أربع عن عمره فیما أفناه وشبابه فیما ابلاه وعَن مالهِ من این کسبه وفیما أنفقه وعن حبنا اهل البیت ۔امام کاظم نے اپنے آباء واجداد سے نقل کیاہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ روز قیامت کسی بندے کاقدم نہیںاٹھے گا مگر یہ کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اس کی عمر کے بارے میں کہ

____________________

( ۱) بحارالانوار ج۷ص ،۲۶۷

(۲) بحارالانوار ج۷، ص ۲۶۵

۲۶۲

کس راہ میں صرف کی؟ اس کی جوانی کے متعلق کہ کس راہ میں برباد کیا ؟اور مال کے بارے میں کہ کہا ں سے جمع کیا اورکہاں خرچ کیا ؟اورہماری کی محبت کے بارے میں ۔( ۱ )

روز قیامت او ر حقوق الناس کا سوال

جس چیز کا حساب بہت سخت دشوار ہوگا وہ لوگوں کے حقوق ہیں جو ایک دوسرے پر رکھتے ہیں ا س حق کو جب تک صاحب حق نہیں معاف کر ے گاخدا بھی نہیں معاف کرے گا اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے بعض بطور نمونہ پیش خدمت ہے۔

قال علی ں :أمّا الذنب الذیِ لا یغفر فمظالم العباد بعضهم لبعض أنَّ اللَّه تبارک وتعالیٰ اِذا برز لخلقه أقسم قسماً علیٰ نفسه فقال: وعزتِی وجلالِی لا یجوزنِی ظلم ظالم ولو کف بکف... فیقتص للعباد بعضهم من بعض حتیٰ لایبقی لأحد علیٰ أحد مظلمة مولائے کائنات نے فرمایا وہ گناہ جو قابل معافی نہیں ہیں وہ ظلم ہے جو لوگ ایک دوسرے پر کرتے ہیں خداوند عالم قیامت کے دن اپنے عزت وجلال کی قسم کھا کر کہے گا کہ آج کسی کے ظلم سے در گذر نہیں کیاجائے گا چاہے کسی کے ہاتھ پر ہاتھ مارنا ہی کیوںنہ ہو پھر اس دن لوگوں کے ضائع شدہ حقوق کوخدا واپس پلٹائے گا تاکہ کوئی

____________________

(۱) بحا الانوار ج،۷ص ۲۵۸

۲۶۳

مظلوم نہ رہ جائے۔( ۱ ) مولا ئے کائنات نے فرمایا ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھی اور پھر فرمایا : یہاں قبیلہ بنی نجار کاکوئی ہے ؟ان کا دوست جنت کے دروازے پر روک لیاجائے گا اسے داخل ہو نے کی اجازت نہیںدی جائے گی صرف ان تین درہم کے لئے جو فلاں یہودی کا مقروض ہے جبکہ وہ شہدا ء کے مرہون منت ہے۔( ۲ ) قال ابو جعفر:''کُلُّ ذَنب یُکفرّه القتل فی سبیل اللّه اِلّا الدین فانّه لا کفّارة له اِلّا أدائه أو یقضی صاحبه أو یعفو الذی له الحق''امام محمد باقر ں نے فرمایا :اللہ کی راہ میں شہید ہونا ہرگناہ کے لئے کفارہ ہے سوائے قرض کے چونکہ قرض کا کوئی کفارہ نہیں ہے صرف ادا ہے چاہے اس کا دوست ہی ادا کرے یاقرض دینے والا معاف کردے۔( ۳ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک دن لوگو ں کو مخاطب کرکے فرمایا: جانتے ہو فقیر کو ن ہے، مفلس کون ہے ؟ انھوں نے کہا جس کے پاس دولت وثروت نہ ہوہم اسے مفلس کہتے ہیںحضرت نے فرمایا: میری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو روزہ ،نماز اور زکوةکے ساتھ محشر میں آئے گا لیکن کسی کو گالی دی ہو یا غلط تہمت لگا یا ہو اور کسی کے مال کوغصب کیا ہو اورکسی کو طمانچہ ماراہو اس کے گناہ کو ختم کرنے کے لئے اس کی اچھائیوں کوبانٹ دیاجائے گااگر اس کی نیکیاں تمام ہو گئیں تو صاحبان حق کے گناہوں کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔( ۴ )

____________________

(۱)معاد فلسفی ج۳،ص ۱۷۲ ازکافی

(۲)معا د فلسفی ج۲،ص ۱۹۴ احتجاج طبرسی

(۳) سابق حوالہ ۱۹۵ از وسائل الشیعہ

(۴) معاد فلسفی ج۳ ازمسند احمد وصحیح مسلم

۲۶۴

قال أ ّبو عبداللّه ں:''أما أنّه ما ظفر أحد بخیر من ظفر بالظلم أما أن المظلوم یأخذ من دین الظالم أکثر مما یأخذ الظالم من مال المظلوم ''امام صادق نے فرمایا :یہ جان لوکہ کوئی شخص ظلم کے ذریعہ

کامیاب نہیں ہو سکتا اور مظلوم ظالم کے دین سے اس سے زیادہ حاصل کرے گا جتنا اس نے مظلوم کے مال سے حاصل کیاہے۔( ۱ )

صراط دنیا یا آخرت کیاہے ؟

صراط کے معنی لغت میں راستہ کے معنی ہیں قران اور احادیث پیغمبر کی اصطلاح میں صراط دومعنی میں استعمال ہو اہے ایک صراط دنیا اوردوسرا صراط آخرت

صراط دنیا :نجات وکامیابی او ر سعادت کی راہ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے( وأنّ هَذَا صِرَاطیِ مُستقیماً فاتَّبِعُوه وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سبِیلِهِ ) اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو اوردوسرے راستوں کے پیچھے نہ جائو کہ راہ خدا سے الگ ہوجا ئو گے۔( ۲ ) ( وهَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُستَقِیماً ) اور یہی تمہارے پروردگار کا سیدھا راستہ ہے۔( ۳ )

یہ صراط دنیا حدیثوں میں مختلف طریقوں سے آیا ہے من جملہ خدا کو پہچاننے کاراستہ اسلام ،دین ،قرآن ،پیغمبر ،امیرالمومنین ،ائمہ معصومین اور یہ سب کے سب ایک معنی کی طرف اشارہ ہیں وہ ہے سعادت اور کامیابی کاراستہ۔اس راستہ

____________________

(۱) کافی جلد ۳، از مسند احمد وصحیح مسلم

(۲) سورہ انعام آیة ۱۵۳

(۳)سورہ انعام آیة ۱۲۶

۲۶۵

کو پار کرنے کا مقصد عقائد حقہ کا حاصل کرنا ہے (خدا وند عالم کو پہچاننے سے لے کر اس کے صفات اور انبیاء اور ائمہ کی معرفت اورتمام اعتقادات کی شناخت نیز دین کے احکا م پر عمل کرنا اور اخلاق حمیدہ کا حصول ہے ) ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے او رجو بھی دقت اور غور وفکر کے ساتھ اس سے گزر جائے گا وہ راہ آخرت طے کرلے گا۔ صراط آخرت : اس پل اور راستہ کو کہا جا تاہے جو جہنم پر سے گذر ا ہے اور اس پل کادوسرا سراجنت کوپہنچتا ہے جوبھی اسے طے کرلے گا وہ ہمیشہ کی کامیابی پالے گا اور جنت میں اس کا ٹھکانہ جاودانی ہوگا اور جو بھی اس سے عبور نہیں کرپائے گا آگ میں گر کر مستحق عذاب ہوجائے گا( وَاِن مِنکُم اِلَّا وَارِدُهَا کَانَ علیٰ رَبِّک حَتَماً مَقضِیاً ثُمَّ نُنجِی الَّذینَ أِتَّقوا وَ نَذرُ الظَّالِمِینَ فِیهَا جَثِیاً ) اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اسے جہنم میں وارد ہوناہے ہو کہ یہ تمہارے رب کاحتمی فیصلہ ہے اس کے بعد ہم متقی افراد کو نجات دے دیں گے اور ظالمین کو جہنم میں چھوڑ دیں گے۔( ۱ )

اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث ہے جس میں فرمایا ہے: بعض لوگ بجلی کی طرح پل صراط سے گذر جائیں گے، بعض لوگ ہوا کی طرح اور بعض لوگ گھوڑے کی طرح اور بعض دوڑتے ہو ئے اوربعض راستہ چلتے ہوئے اوریہ ان کیاعمال کے لحاظ سے ہوگا ۔

____________________

(۱) سورہ مریم آیة ،۷۲

۲۶۶

جابر ابن عبداللہ انصاری کہتے ہیں : میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :کوئی نیک یا گنہگار نہیں بچے گا مگر یہ کہ اسے دوزخ میں ڈالا جائے گا لیکن مومن کے لئے ٹھنڈی اور سالم ہوگی جیسے جناب ابراہیم کے لئے آگ تھی پھر متقی اس سے نجات پا جائے گا اور ظالم وستم گر اسی آگ میں رہیںگے ۔( ۱ )

جوبھی دنیا کے راستے پر ثابت قدم رہے گا وہ آخرت میں لڑکھڑا ئے گا نہیں

عن مفضل بن عمر قال :سألت أبا عبد اللّهِ علیه السلام عن الصِّراط فقال:هو الطریق اِلیٰ معرفة اللّه عزَّوجلَّ وهما صراطان صراط فیِ الدّنیا وصراط فیِ الآخرة فَأمّا صراط الذیِ فی الدنیا فهو الأمام المفروض الطاعة من عرفه فی الدنیا واقتدیٰ بهداه مرّ علیٰ الصّراط الذی هو جسر جهنم فی الا خرة ومن لم یعرفه فی الدنیا زلت قدمه علیٰ الصّراط فِی الآخرة فتردیٰ فی نار جهنم ۔

مفضّل بیان کرتے ہیں میں نے امام صادق سے صراط کے بارے میں پوچھا : امام نے فرمایا :وہی خدا کو پہچانتے کاراستہ ہے اوریہ دو راستے ہیں ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں لیکن دنیامیں صراط امام ہے جس کی اطاعت واجب ہے اور جو بھی اسے پہچان لے او راس کی اتبا ع کرے تو اس پل سے جو جہنم پر ہے آسانی سے گذر جائے گا اور جس نے بھی اسے نہیں پہچانا اس کے قدم صراط آخرت پہ

____________________

(۱) تفسیر نورالثقلین ج،۳ ص ۳۵۳

۲۶۷

لڑکھڑائیں گے او رجہنم میں گرجائے گا ۔( ۱ )

سورہ الحمد کے اِھدنا الصِّراط المُستقیمَ کے ذیل میں بہت سے حدیثیں تفسیر روائی میں بیان کی گئی ہیں، تفسیر نورالثقلین سے ،ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں''قال رسول اللّه: اِهدنا الصَّراط المُستقیمَ صراط الأنبیّاء و هم الّذین أنعم اللّه علیهم'' رسول اللہ نے فرمایا صراط مستقیم انبیاء کا راستہ ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے نعمت نازل کی ہے ۔

امام صادق نے فرمایا: صراط مستقیم امام کو پہچاننے کا راستہ ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا :واللّه نحن الصّّراط المستقیم خد اکی قسم ہم ہی صراط مستقیم ہیں۔( صِراط الّذین أنَعمتَ عَلیهم ) کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے محمد اور ان کی ذریة( صلوات اللہ علیہم ) مراد ہے ۔

امام محمد باقر ں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا : ہم خد ا کی طرف سے روشن راستے اورصراط مستقیم ہیں اور مخلوقات خد ا کے لئے نعمات الٰہی ہیں۔( ۱ )

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق نے فرمایا :الصَّراط المستقیم أمیرُ المؤمنین امیر المومنین صراط مستقیم هیں قال النبّی :اِذاکان یوم القیامة ونصب الصّراط علیٰ جهنم لم یجز علیه اِلّا مَن کان معه جواز فیه ولایة علی بن أبی طالب علیه السلام وذلک قوله:

____________________

(۱) تفسیر نور الثقلین ج۱،ص ۲۰ تا ۲۴

۲۶۸

( وَقفُوهُم أَنَّهم مَسئُولُونَ ) یعنی عن ولایة علی بن ابی طالب ؛ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا جب قیامت آئے گی اور پل صراط کو جہنم پر رکھاجائے گا کوئی بھی اس پر سے گذر نہیں سکتا مگر جس کے پاس اجازت نامہ ہوگا جس میں علی ں کی ولایت ہوگی اور یہی ہے قول خدا :کہ روکو انہیں ان سے سوال کیا جائے گایعنی علی ابن ابی طالب کی ولا یت کے سلسلے میں سوال کیاجائے گا ۔

دوسری حدیث میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : پل صراط پر وہ اتنا ہی ثابت قدم ہوگا جو ہم اہل بیت سے جتنی محبت کرے گا۔( ۱ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج ۸ ،ص ۶۸۔۶۹

۲۶۹

سوالات

۱۔قیامت میں کس چیز کے بارے میں سوال ہوگا ؟

۲۔ پیغمبر کی نظرمیں فقیر اور مفلس کون ہے ؟

۳۔ صراط دنیا اور صراط آخرت کسے کہتے ہیں ؟

۴۔ امام صادق نے صراط کے سلسلے میں مفضل سے کیافرمایا ؟

۲۷۰

انتالیسواں سبق

بہشت اور اہل بہشت ، جہنم اور جہنمی

انسان کا آخری مقام جنت یا دوزخ ہے یہ قیامت کے بعد او ر ابدی زندگی کی ابتدا ء ہے جنت یعنی جہاں تمام طرح کی معنوی اورمادی نعمتیں ہو ں گی دوزخ یعنی تمام طرح کی مصیبت سختی اور شکنجہ کا مرکز ۔ بہت سی آیتیں اور روایتیں جنت کی صفات ونعمات اور جنتی لوگوں کے بارے میں آئی ہیں یہ نعمتیں روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی، پہلے جیسا کہ بیان کیاجاچکا ہے کہ معاد جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی لہٰذا ضروری ہے جسم اور روح دونوں مستفیض ہوں یہاں فقط ان نعمتوں کی فہرست بیان کر رہے ہیں ۔

جسمانی نعمتیں

۱۔ جنتی باغ : قرآن مجید کی ۱۰۰سے زیادہ آیتیں ہیں جس میں جنت اور جنات وغیرہ جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ایسے باغ جن کا دنیا کے با غات سے تقابل نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہمارے لئے بالکل قابل ادراک نہیں ہے ۔

۲۔بہشتی محلا ت : مساکن طیبہ کے لفظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بہشتی محل میں تمام سہولتیں مہیا ہو ں گی ۔

۳۔ مختلف النوع تخت اور بستر : جنت کی بہترین نعمتوں میں سے وہاں کے بہتریں بستر ہیں جو انسان کے دلوں کو موہ لیں گے اوردل کو لبھا نے والے ہیں جنکے لئے مختلف لفظ استعمال ہوئے ہیں ۔

۴۔ جنتی خو ان : تمام آیتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنت میں طرح طرح کے کھانے ہو ںگے جملہ مِمَّا یشَتھُونَ(من چاہا ) کے بہت وسیع معنی ہیں اور اس کی بہترین تعبیر رنگ برنگ کے پھل ہیں ۔

۵۔ پاک مشروب :جنت میں مشروب مختلف النو ع اور نشاط آورہو گی اور قرآن کے بقول '' لَذةُ لِلشَاربینَ'' پینے والو ں کے لئے لذت وسرور کا باعث

۲۷۱

ہوگا ہمیشہ تازہ ، مزہ میں کوئی تبدیلی نہیں شفاف او رخوشبو دار ہوگا ۔

۶۔ لبا س اور زیورات :انسان کے لئے بہترین زینت لباس ہے قرآن وحدیث میں اہل بہشت کے لبا س کے سلسلے میں مختلف ا لفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے ان کے لبا س کے خوبصورتی او رکشش کا پتہ چلتاہے ۔

۷۔ جنتی عورتیں : شریف عورت، انسان کے سکو ن کاباعث ہے بلکہ روحانی لذت کا سرچشمہ ہے قرآن اور احادیث معصومین میں مختلف طریقہ سے اس نعمت کا ذکر ہواہے اور اس کی بہت سے تعریف کی گئی ہے یعنی جنتی عورتیں تمام ظاہری اور باطنی کمالات کی مظہر ہو ںگی ۔

۸۔ جو بھی چاہئے ''( فِیها مَاتشتهیِهِ الأنفُس وتَلذَ الأعیُن'' ) جو بھی دل چاہے گا اور جو بھی آنکھو ںکی ٹھنڈک کا باعث ہوگا وہ جنت میں موجود ہوگا یہ سب سے اہم چیز ہے جو جنت کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہے یعنی تمام جسمانی او رروحانی لذتیں پائی جا ئیں گی ۔

روحا نی سرور

جنت کی روحانی نعمتیں مادی اور جسمانی لذتوں سے بہتر او ر افضل ہوں گی چونکہ ان معنوی نعمتوں کا ذکر پیکر الفاظ میں نہیں سماسکتا : یعنی کہنے اور سننے والی نہیں ہیں، بلکہ درک کرنے والی او رحاصل کرنے والی اوربراہ راست قریب سے لذت بخش ہیں ،اسی لئے قرآن او رحدیث میں زیادہ ترکلی طور پر او رمختصر بیان کیاگیاہے۔

۱۔ خصوصی احترام : جنت میں داخل ہوتے وقت فرشتوں کے استقبال اور خصو صی احترام کے ذریعہ آغاز ہوگا اورجس دروازہ سے بھی داخل ہوگا فرشتے اسے سلام کریں گے اور کہیں گے صبر اور استقامت کے باعث اتنی اچھی جزاملی ہے ۔

۲۔سکون کی جگہ:جنت سلامتی کی جگہ ہے سکون واطمینان کاگھر( أُدخُلُوا الجَنَّةَ لَا خَوفُ عَلَیکُم وَلَا أَنتُم تَحزَنُونَ ) جا ئو جنت میں داخل ہو جائو۔جہاں نہ کسی طرح کاخوف ہوگا نہ حزن وملا ل پایا جائے گا۔( ۱ )

____________________

(۱)سورہ اعراف آیة ۴۹

۲۷۲

۳۔باوفا دوست اور ساتھی : پاک اورباکمال دوستوں کا ملنا یہ ایک بہترین روحانی لذت ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے( وَحَسُنَ أُولئِکَ رَفِیقاً ) کتنے اچھے دوست ہیں یہ فضل ورحمت خدا ہے۔

۴۔شیریں لہجہ میں گفتگو : جنت میں بے لوث اور اتھاہ محبت فضاکو اور شاداب وخوشحال کردے گی وہا ں لغو اوربیہودہ باتیں نہیں ہوں گی فقط سلام کیاجائیگا ''فی شغل فاکھون''خوش وخرم رہنے والے کام ہو ں ۔

۵۔ بیحد خو شحالی او رشادابی :( تَعرِفُ فیِ وُجُوهِهِم نَضَرةَ النَّعیِمِ ) تم ان کے چہروں پر نعمت کی شادابی کامشاہدہ کروگے( ۱ ) ( وَوُجُوهُ یَومئِذٍ مُسفِرَةُ ضاحکةُ مُستبشِرَةُ ) مسکراتے ہوئے کھلے ہوئے ہوںگے۔( ۲ )

۶۔خد ا کی خوشنودی کا احساس :محبوب کی رضایت کاادراک سب سے بڑی معنوی لذت ہے جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیة۱۵ میں جنت کے سرسبز باغ او رپاک وپاکیزہ عورتوں کے ذکر کے بعد ارشاد ہوتاہے وَ رِضوان مِن اللّہ (خداکی خوشنودی )''( رَضِیَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضُوا عَنهُ ذَلِک الفَوزُ العَظِیمَ'' ) خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے۔( ۳ )

۷۔ بہشتی نعمتوں کاجاویدانی اور ابدی ہونا : خوف اور ہراس ہمیشہ فنا اور نابودی سے ہوتا ہے لیکن جنت کی نعمتیں ابدی او رہمیشہ رہنے والی ہیں فنا کاخوف

____________________

(۱) سورہ مطففین آیة: ۲۴

(۲) سورہ عبس آیة:۳۸۔ ۳۹

(۳) سورہ مائدہ آیة: ۱۱۹

۲۷۳

نہیں ہے یہ بہترین اورابدی خاصیت کے حامل ہیں:( أُکُلُهَا دَائمُ وَظِلُّهَا ) ۔( ۱ )

اس کے پھل دائمی ہوں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا ۔

۸۔ پرواز فکر کی رسائی جہا ں ممکن نہیں :( فَلَا تَعلمُ نَفس مَاأخفیٰ لهُم مِّن قُرَّةِ أعیُن ) کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لئے ایسی مخفی جزاء ہے جواس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوگی۔( ۲ ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :جنت میں ایسی چیزیں ہوں گی جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا او رنہ کا ن نے سنا ہوگا او رنہ ہی قلب کی رسائی وہاںتک ہوئی ہوگی۔( ۳ )

جہنم او رجہنمی لوگ

جہنم، الٰہی قہر وغضب کانام ہے جہنم کی سزا جسمانی اور روحانی دونوںہے، اگرکوئی شخص انہیں فقط روحی اور معنوی سزا سے مخصوص کرتا ہے تویہ قرآن کی بہت سی آیتوں پر توجہ نہ کرنے کے سبب ہے، قیامت کی بحث میں ذکر کیا گیاہے کہ قیامت جسمانی اور روحانی دونوںہے لہٰذا جنت اورجہنم دونوں میں یہ صفت ہے ۔

جہنمیوں کی جسمانی سزا

۱۔ عذاب کی سختی :

جہنم کی سزا اس قدر سخت ہوگی کہ گنہگار شخص چاہے گا کہ بچے ،بیوی ،بھا ئی

____________________

(۱)سورہ رعد آیة :۳۵

(۲) سورہ سجدہ آیة: ۱۷

(۳) المیزان ومجمع البیان

۲۷۴

دوست ،خاندان یہاںتک کہ روی زمین کی تمام چیزوں کو وہ قربان کر دے تاکہ اس کے نجات کاباعث قرار پائے ۔( یَوَدُّ المُجرِمُ لویَفتَدِ مِن عَذَابِ یَومَئِذٍ بِبَنِیهِ وَصَاحِبتِه وأَخِیهِ وَفَصِیلتِه التِ تُؤیهِ وَمَن فیِ الأَرضِ جَمیعاً ثُمَّ یُنجِیهِ ) مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے

لیا جائے اور بیوی اوربھائی کو اور اس کے کنبہ کو جس میں وہ رہتا تھا اورروی زمین کی ساری مخلوقات کو اور اسے نجات دے دی جائے۔( ۱ )

۲۔جہنمیوںکا خورد ونوش :( اِنَّ شَجَرةَ الزَّقُومِ طَعَامُ الأَثِیمِ کَالمُهلِ یَغل فیِ البُطُونِ کَغلِ الحَمِیمِ ) بے شک آخرت میں ایک تھوہڑ کادرخت ہے جوگنہگا ر وںکی غذاہے وہ پگھلے ہوئے تانبے کی مانند پیٹ میں جوش کھائے گا جیسے گرم پانی جوش کھاتاہے۔( ۲ )

۳۔جہنمی کپڑے :( وَتَریٰ المُجرِمِینَ یَومئِذٍ مُقَرَّنِینَ فیِ الأَصفَادِ سَرَابِیلُهُم مِن قَطِرانٍ وَتَغشیٰ وُجُوهَهم النَّارُ ) اور تم اس دن مجرموں کو دیکھو گے کہ کسی طرح زنجیر وں میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے لباس قطران (بدبودار مادہ کے) ہوںگے اور ان کے چہروں کو آگ ہر طرف سے ڈھا نکے ہوئے ہوگی( ۳ ) ( فَالَّذِینَ کَفَرُوا قُطِعَت لَهُم ثِیَابُ مِن نَارٍ یُصبُّ مِن فَوقِ رُؤُوسِهِم الحَمِیمُ یُصهَرُ بِهِ مَا فیِ بُطُونِهِم وَالجُلُودُ ) جولوگ کافر ہیں ان کے واسطے آگ کے

____________________

(۱) سورہ معارج ۱۱۔۱۴

(۲) سورہ دخان ۴۳۔۴۶

(۳)سورہ ابراہیم ۴۹۔ ۵۰

۲۷۵

کپڑے قطع کئے جائیں گے او ران کے سروں پر گرما گرم پانی انڈیلاجائے گا جس سے ان کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے او ران کی جلدیں سب گل جا ئیں گی ۔( ۱ )

۴۔ ہر طرح کاعذاب : جہنم میں ہر طرح کا عذاب ہوگا کیونکہ جہنم خدا کے غیظ وغضب کانام ہے( أِنَّ الَّذیِنَ کَفَرُوا بِآیاتِنا سَوفَ نُصلِیهِمَ نَاراً کُلَّما نَضِجَت جُلُودُهُم بَدَّلنَا هُم جُلُوداً غَیرَها لِیَذُوقُوا العَذَابَ اِنَّ اللَّهَ کَانَ عَزِیزاً حَکِیما ) اور بے شک جن لوگو ں نے ہماری آیتوں کاانکا ر کیاہے ہم انہیں آگ میں بھون دیں گے اور جب ایک کھال پک جائے گی تو دوسری بدل دیںگے تاکہ عذاب کامزہ چکھتے رہیں خدا سب پر غالب اور صاحب حکمت ہے( ۲ )

روحانی عذاب

۱۔ غم والم اور ناامیدی :( کُلَّما أَرادُوا أَنْ یَخرُجُوا مِنها مِن غَمٍّ أُعیدُوا فِیهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الحَریقِ ) جب یہ جہنم کی تکلیف سے نکل بھاگنا چائیں گے تو دوبارہ اسی میں پلٹا دیے جائیں گے کہ ابھی اور جہنم کا مزہ چکھو ۔( ۳ )

۲۔ذلت ورسوائی( وَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیاتِنَا فَأُولئِک لَهُم عَذَابُ مُهِینُ ) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اورہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کے لئے نہا یت درجہ رسواکن عذاب ہے۔( ۴ )

قرآن میں متعدد جگہ اہل جہنم کی ذلت اور رسوائی کوبیان کیا گیا ہے جس

____________________

(۱) سورہ حج ۱۹ تا۲۰

(۲) سورہ نساء آیة ۵۶

(۳) سورہ حج آیة ۲۲

(۴) سورہ حج آیة ۵۷

۲۷۶

طرح وہ لوگ دنیا میں مومنین کو ذلیل سمجھتے تھے ۔

۳۔تحقیر وتوہین :جب جہنمی کہیں گے با ر الہا! ہمیں اس جہنم سے نکا ل دے اگر اس کے بعدھم دوبارہ گنا ہ کرتے ہیں تو ہم واقعی ظالم ہیں ان سے کہا جا ئیگا۔( أخسَئوا فِیهَا وَلَا تُکلِّمُونَ ) اب اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور بات نہ کرو( ۱ )

اخساء کا جملہ کتے کو بھگانے کے وقت کیا جاتا ہے اوریہ جملہ گنہگا روں اور ظالموں کو ذلیل کرنے کے لئے استعمال ہو اہے ۔

۴۔ابدی سزا اور امکا نات :( وَمَنْ یَعصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَأِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدینَ فِیهَا أَبَداً ) اور جو اللہ او ررسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم ہے اور وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔( ۲ )

دائمی اور ابدی ہونا جو جہنمیوںکے لئے ہے بہت دردنا ک اور سخت ہوگا چونکہ ہر پریشانی او ر سختی میں نجا ت کی امید ہی خوشی کاسبب ہوتی ہے لیکن یہاں سختی اور بے چینی اس لئے زیادہ ہوگی،کہ نجا ت کی کوئی امید نہیں ،اس کے علا وہ رحمت خدا سے دوری سخت روحی بے چینی ہے ۔

سوال؟ یہ کیسے ہو گا کہ وہ انسان جس نے زیا دہ سے زیادہ سوسال گنا ہ کئے اسے کروڑوں سال بلکہ ہمیشہ سزادی جائے البتہ یہ سوال جنت کے دائمی ہو نے پر بھی

____________________

(۱) سورہ مومنون آیة:۱۰۸

(۲)سورہ جن آیة ۲۳

۲۷۷

ہے لیکن وہاں خداکا فضل وکرم ہے لیکن دائمی سزا عدالت الٰہی سے کس طرح سازگا ر ہے ؟۔

جواب : بعض گنا ہ جیسے( کفر )کا فر ہونااس پر دائمی عذاب یہ قرین عقل ہے بطور مثال اگر ڈرائیور کا ٹرافیک کے قانو ن کی خلاف ورزی کے باعث ایکسیڈنٹ میں پیر ٹوٹ جائے تو اس کی خلا ف ورزی ایک سکنڈ کی تھی مگر آخری عمر تک پیر کی نعمت سے محروم رہے گا ۔

ماچس کی ایک تیلی پورے شہر کو جلا نے کے لئے کا فی ہے انسان کے اعمال بھی اسی طرح ہیں، قرآن میں ارشاد رب العزت ہے( وَلَا تُجزَونَ اِلَّا مَاکُنتُم تَعملَُونَ ) اورتم کو صرف ویسا ہی بدلہ دیا جا ئے گا جیسے اعمال تم کررہے ہو( ۱ ) دائمی ہونا یہ عمل کے باعث ہے ۔

____________________

(۱)سورہ یس آیة ۵۴

۲۷۸

سوالات

۱۔ جنت کی پانچ جسمانی نعمتوں کو بیان کریں ؟

۲۔جنت کی پانچ روحانی نعمتوںکا بیان کریں ؟

۳۔ اہل جہنم کی تین جسمانی سزائیں بیان کریں ؟

۴۔ اہل جہنم کی تین روحانی عذاب کو بیان کریں ؟

۲۷۹

چالیسواں سبق

شفاعت

شفاعت ایک اہم دینی اور اعتقادی مسائل میں سے ہے قرآن اور احادیث معصومین میں اس کا متعدد بار ذکر آیاہے اس کی وضاحت کے لئے کچھ چیزوں پر توجہ ضروری ہے !

۱۔ شفاعت کے کیا معنی ہیں ؟ لسان العرب میں مادہ شفع کے یہ معنی ہیں : ''الشَّافعُ الطالب لغیره یتشفع به الیٰ المطلوب'' (شافع اسے کہتے ہیں جو دوسرے کے لئے کوئی چیز طلب کرے ) مفردات راغب میں لفظ شفع کے یہ معنی بیان کئے گئے ہیں :''الشفاعة الانضمام الیٰ آخر ناصراً له وسائلاً عنه'' شفاعت ایک دوسرے کا ضم ہو نا اس لحاظ سے کہ وہ اس کی مدد کرے او راس کی طرف سے اس کی ضروریا ت کا طلبگار ہو ۔

مولا ئے کائنات نے اس سلسلے میں فرمایا : الشفیع جناح الطالب شفاعت کرنے والا محتاج کے لئے اس کے پر کی مانند ہے جس کے مدد سے وہ مقصد تک پہنچے گا۔( ۱ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ حکمت ۶۳

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303