اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )0%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف: شیخ علی اصغر قائمی
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 130744
ڈاؤنلوڈ: 2526

تبصرے:

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130744 / ڈاؤنلوڈ: 2526
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

اڑتیسواں سبق

قیامت میں کس چیز کے بارے میں سوال ہوگا ؟

روز قیامت سب سے پہلے اس چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا جس کی طرف توجہ دینابہت اہم اور زندگی ساز ہے عن الرِّضا عن آبائہ عن علیِّ علیہ السلام قا ل:''قال النَّبیِّ أوَّل ما یسأل عنه العبد حبنا اهل البیت ''امام رضا ںنے اپنے والد اور انھوں نے مولائے کائنات سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :سب سے پہلا سوال انسان سے ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں ہوگا۔( ۱ )

عن أبی بصیر قال : سمعتُ أ با جعفر علیہ السلام یقول: ''اوّل ما یُحاسب العبد الصلاة فاِنْ قُبِلت قُبِلَ ما سواها''ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام صادق کو میں نے فرماتے سنا ہے کہ سب سے پہلے جس کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے اگر یہ قبول تو سارے اعمال قبول ہوجائیں گے۔( ۲ )

پہلی حدیث میں عقیدہ کے متعلق پہلا سوال ہے اور دوسری حدیث میں عمل کے متعلق پہلاسوال ہےعن أبی عبداللّه علیه السلام فی قول اللّه :

____________________

(۱) بحارالانوار ج،۷ص ۲۶۰

(۲) بحا رالانوار ج،۷ ص ۲۶۷

۲۶۱

''( اِنّ السمع والبصروالفؤاد کُلّ أولئِک کان عنه مسئولا ) قال یُسال السمع عمّا یسمع والبصر عما یطرف والفؤاد عمّا عقد علیه ''امام صادق نے خدا وند عالم کے اس قول کی تفسیر میں جس میں کہا گیاہے کہ کان آنکھ اور دل سے سوال ہوگا فرمایا: جوکچھ کان نے سنا اورجوکچھ آنکھو ں نے دیکھا اور جس سے دل وابستہ ہوا سوال کیا جائے گا( ۱ ) عن أبی عبداللّهں قال، قال: رسول اللّه أنا أوّل قادم علیٰ اللّه ثُمَّ یُقدّم علّکتاب اللّه ثُمَّ یُقدم علّ أهل بیتی ثُمَّ یقدم علّ أمت فیقفون فیسألهم ما فعلتم فی کتابی وأهل بیت نبیّکم؟ اما م صادق سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :میں وہ شخص ہو ں جو سب سے پہلے خدا کی بارگاہ میں جائوں گا پھر کتاب خدا (قرآن) اس کے بعد میرے اہل بیت پھر میری امت آئے گی ،وہ لوگ رک جائیں گے اور خدا ان سے پوچھے گا کہ میری کتاب اور اپنے نبی کے اہل بیت کے ساتھ تم نے کیاکیا؟( ۲ ) عن الکاظم عن آبائه قال : قال رسول اللّه: لا تزول قدم عبد یوم القیامة حتیٰ یسأل عن أربع عن عمره فیما أفناه وشبابه فیما ابلاه وعَن مالهِ من این کسبه وفیما أنفقه وعن حبنا اهل البیت ۔امام کاظم نے اپنے آباء واجداد سے نقل کیاہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ روز قیامت کسی بندے کاقدم نہیںاٹھے گا مگر یہ کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اس کی عمر کے بارے میں کہ

____________________

( ۱) بحارالانوار ج۷ص ،۲۶۷

(۲) بحارالانوار ج۷، ص ۲۶۵

۲۶۲

کس راہ میں صرف کی؟ اس کی جوانی کے متعلق کہ کس راہ میں برباد کیا ؟اور مال کے بارے میں کہ کہا ں سے جمع کیا اورکہاں خرچ کیا ؟اورہماری کی محبت کے بارے میں ۔( ۱ )

روز قیامت او ر حقوق الناس کا سوال

جس چیز کا حساب بہت سخت دشوار ہوگا وہ لوگوں کے حقوق ہیں جو ایک دوسرے پر رکھتے ہیں ا س حق کو جب تک صاحب حق نہیں معاف کر ے گاخدا بھی نہیں معاف کرے گا اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے بعض بطور نمونہ پیش خدمت ہے۔

قال علی ں :أمّا الذنب الذیِ لا یغفر فمظالم العباد بعضهم لبعض أنَّ اللَّه تبارک وتعالیٰ اِذا برز لخلقه أقسم قسماً علیٰ نفسه فقال: وعزتِی وجلالِی لا یجوزنِی ظلم ظالم ولو کف بکف... فیقتص للعباد بعضهم من بعض حتیٰ لایبقی لأحد علیٰ أحد مظلمة مولائے کائنات نے فرمایا وہ گناہ جو قابل معافی نہیں ہیں وہ ظلم ہے جو لوگ ایک دوسرے پر کرتے ہیں خداوند عالم قیامت کے دن اپنے عزت وجلال کی قسم کھا کر کہے گا کہ آج کسی کے ظلم سے در گذر نہیں کیاجائے گا چاہے کسی کے ہاتھ پر ہاتھ مارنا ہی کیوںنہ ہو پھر اس دن لوگوں کے ضائع شدہ حقوق کوخدا واپس پلٹائے گا تاکہ کوئی

____________________

(۱) بحا الانوار ج،۷ص ۲۵۸

۲۶۳

مظلوم نہ رہ جائے۔( ۱ ) مولا ئے کائنات نے فرمایا ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھی اور پھر فرمایا : یہاں قبیلہ بنی نجار کاکوئی ہے ؟ان کا دوست جنت کے دروازے پر روک لیاجائے گا اسے داخل ہو نے کی اجازت نہیںدی جائے گی صرف ان تین درہم کے لئے جو فلاں یہودی کا مقروض ہے جبکہ وہ شہدا ء کے مرہون منت ہے۔( ۲ ) قال ابو جعفر:''کُلُّ ذَنب یُکفرّه القتل فی سبیل اللّه اِلّا الدین فانّه لا کفّارة له اِلّا أدائه أو یقضی صاحبه أو یعفو الذی له الحق''امام محمد باقر ں نے فرمایا :اللہ کی راہ میں شہید ہونا ہرگناہ کے لئے کفارہ ہے سوائے قرض کے چونکہ قرض کا کوئی کفارہ نہیں ہے صرف ادا ہے چاہے اس کا دوست ہی ادا کرے یاقرض دینے والا معاف کردے۔( ۳ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک دن لوگو ں کو مخاطب کرکے فرمایا: جانتے ہو فقیر کو ن ہے، مفلس کون ہے ؟ انھوں نے کہا جس کے پاس دولت وثروت نہ ہوہم اسے مفلس کہتے ہیںحضرت نے فرمایا: میری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو روزہ ،نماز اور زکوةکے ساتھ محشر میں آئے گا لیکن کسی کو گالی دی ہو یا غلط تہمت لگا یا ہو اور کسی کے مال کوغصب کیا ہو اورکسی کو طمانچہ ماراہو اس کے گناہ کو ختم کرنے کے لئے اس کی اچھائیوں کوبانٹ دیاجائے گااگر اس کی نیکیاں تمام ہو گئیں تو صاحبان حق کے گناہوں کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔( ۴ )

____________________

(۱)معاد فلسفی ج۳،ص ۱۷۲ ازکافی

(۲)معا د فلسفی ج۲،ص ۱۹۴ احتجاج طبرسی

(۳) سابق حوالہ ۱۹۵ از وسائل الشیعہ

(۴) معاد فلسفی ج۳ ازمسند احمد وصحیح مسلم

۲۶۴

قال أ ّبو عبداللّه ں:''أما أنّه ما ظفر أحد بخیر من ظفر بالظلم أما أن المظلوم یأخذ من دین الظالم أکثر مما یأخذ الظالم من مال المظلوم ''امام صادق نے فرمایا :یہ جان لوکہ کوئی شخص ظلم کے ذریعہ

کامیاب نہیں ہو سکتا اور مظلوم ظالم کے دین سے اس سے زیادہ حاصل کرے گا جتنا اس نے مظلوم کے مال سے حاصل کیاہے۔( ۱ )

صراط دنیا یا آخرت کیاہے ؟

صراط کے معنی لغت میں راستہ کے معنی ہیں قران اور احادیث پیغمبر کی اصطلاح میں صراط دومعنی میں استعمال ہو اہے ایک صراط دنیا اوردوسرا صراط آخرت

صراط دنیا :نجات وکامیابی او ر سعادت کی راہ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے( وأنّ هَذَا صِرَاطیِ مُستقیماً فاتَّبِعُوه وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سبِیلِهِ ) اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو اوردوسرے راستوں کے پیچھے نہ جائو کہ راہ خدا سے الگ ہوجا ئو گے۔( ۲ ) ( وهَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُستَقِیماً ) اور یہی تمہارے پروردگار کا سیدھا راستہ ہے۔( ۳ )

یہ صراط دنیا حدیثوں میں مختلف طریقوں سے آیا ہے من جملہ خدا کو پہچاننے کاراستہ اسلام ،دین ،قرآن ،پیغمبر ،امیرالمومنین ،ائمہ معصومین اور یہ سب کے سب ایک معنی کی طرف اشارہ ہیں وہ ہے سعادت اور کامیابی کاراستہ۔اس راستہ

____________________

(۱) کافی جلد ۳، از مسند احمد وصحیح مسلم

(۲) سورہ انعام آیة ۱۵۳

(۳)سورہ انعام آیة ۱۲۶

۲۶۵

کو پار کرنے کا مقصد عقائد حقہ کا حاصل کرنا ہے (خدا وند عالم کو پہچاننے سے لے کر اس کے صفات اور انبیاء اور ائمہ کی معرفت اورتمام اعتقادات کی شناخت نیز دین کے احکا م پر عمل کرنا اور اخلاق حمیدہ کا حصول ہے ) ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے او رجو بھی دقت اور غور وفکر کے ساتھ اس سے گزر جائے گا وہ راہ آخرت طے کرلے گا۔ صراط آخرت : اس پل اور راستہ کو کہا جا تاہے جو جہنم پر سے گذر ا ہے اور اس پل کادوسرا سراجنت کوپہنچتا ہے جوبھی اسے طے کرلے گا وہ ہمیشہ کی کامیابی پالے گا اور جنت میں اس کا ٹھکانہ جاودانی ہوگا اور جو بھی اس سے عبور نہیں کرپائے گا آگ میں گر کر مستحق عذاب ہوجائے گا( وَاِن مِنکُم اِلَّا وَارِدُهَا کَانَ علیٰ رَبِّک حَتَماً مَقضِیاً ثُمَّ نُنجِی الَّذینَ أِتَّقوا وَ نَذرُ الظَّالِمِینَ فِیهَا جَثِیاً ) اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اسے جہنم میں وارد ہوناہے ہو کہ یہ تمہارے رب کاحتمی فیصلہ ہے اس کے بعد ہم متقی افراد کو نجات دے دیں گے اور ظالمین کو جہنم میں چھوڑ دیں گے۔( ۱ )

اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث ہے جس میں فرمایا ہے: بعض لوگ بجلی کی طرح پل صراط سے گذر جائیں گے، بعض لوگ ہوا کی طرح اور بعض لوگ گھوڑے کی طرح اور بعض دوڑتے ہو ئے اوربعض راستہ چلتے ہوئے اوریہ ان کیاعمال کے لحاظ سے ہوگا ۔

____________________

(۱) سورہ مریم آیة ،۷۲

۲۶۶

جابر ابن عبداللہ انصاری کہتے ہیں : میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :کوئی نیک یا گنہگار نہیں بچے گا مگر یہ کہ اسے دوزخ میں ڈالا جائے گا لیکن مومن کے لئے ٹھنڈی اور سالم ہوگی جیسے جناب ابراہیم کے لئے آگ تھی پھر متقی اس سے نجات پا جائے گا اور ظالم وستم گر اسی آگ میں رہیںگے ۔( ۱ )

جوبھی دنیا کے راستے پر ثابت قدم رہے گا وہ آخرت میں لڑکھڑا ئے گا نہیں

عن مفضل بن عمر قال :سألت أبا عبد اللّهِ علیه السلام عن الصِّراط فقال:هو الطریق اِلیٰ معرفة اللّه عزَّوجلَّ وهما صراطان صراط فیِ الدّنیا وصراط فیِ الآخرة فَأمّا صراط الذیِ فی الدنیا فهو الأمام المفروض الطاعة من عرفه فی الدنیا واقتدیٰ بهداه مرّ علیٰ الصّراط الذی هو جسر جهنم فی الا خرة ومن لم یعرفه فی الدنیا زلت قدمه علیٰ الصّراط فِی الآخرة فتردیٰ فی نار جهنم ۔

مفضّل بیان کرتے ہیں میں نے امام صادق سے صراط کے بارے میں پوچھا : امام نے فرمایا :وہی خدا کو پہچانتے کاراستہ ہے اوریہ دو راستے ہیں ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں لیکن دنیامیں صراط امام ہے جس کی اطاعت واجب ہے اور جو بھی اسے پہچان لے او راس کی اتبا ع کرے تو اس پل سے جو جہنم پر ہے آسانی سے گذر جائے گا اور جس نے بھی اسے نہیں پہچانا اس کے قدم صراط آخرت پہ

____________________

(۱) تفسیر نورالثقلین ج،۳ ص ۳۵۳

۲۶۷

لڑکھڑائیں گے او رجہنم میں گرجائے گا ۔( ۱ )

سورہ الحمد کے اِھدنا الصِّراط المُستقیمَ کے ذیل میں بہت سے حدیثیں تفسیر روائی میں بیان کی گئی ہیں، تفسیر نورالثقلین سے ،ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں''قال رسول اللّه: اِهدنا الصَّراط المُستقیمَ صراط الأنبیّاء و هم الّذین أنعم اللّه علیهم'' رسول اللہ نے فرمایا صراط مستقیم انبیاء کا راستہ ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے نعمت نازل کی ہے ۔

امام صادق نے فرمایا: صراط مستقیم امام کو پہچاننے کا راستہ ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا :واللّه نحن الصّّراط المستقیم خد اکی قسم ہم ہی صراط مستقیم ہیں۔( صِراط الّذین أنَعمتَ عَلیهم ) کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے محمد اور ان کی ذریة( صلوات اللہ علیہم ) مراد ہے ۔

امام محمد باقر ں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا : ہم خد ا کی طرف سے روشن راستے اورصراط مستقیم ہیں اور مخلوقات خد ا کے لئے نعمات الٰہی ہیں۔( ۱ )

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق نے فرمایا :الصَّراط المستقیم أمیرُ المؤمنین امیر المومنین صراط مستقیم هیں قال النبّی :اِذاکان یوم القیامة ونصب الصّراط علیٰ جهنم لم یجز علیه اِلّا مَن کان معه جواز فیه ولایة علی بن أبی طالب علیه السلام وذلک قوله:

____________________

(۱) تفسیر نور الثقلین ج۱،ص ۲۰ تا ۲۴

۲۶۸

( وَقفُوهُم أَنَّهم مَسئُولُونَ ) یعنی عن ولایة علی بن ابی طالب ؛ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا جب قیامت آئے گی اور پل صراط کو جہنم پر رکھاجائے گا کوئی بھی اس پر سے گذر نہیں سکتا مگر جس کے پاس اجازت نامہ ہوگا جس میں علی ں کی ولایت ہوگی اور یہی ہے قول خدا :کہ روکو انہیں ان سے سوال کیا جائے گایعنی علی ابن ابی طالب کی ولا یت کے سلسلے میں سوال کیاجائے گا ۔

دوسری حدیث میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : پل صراط پر وہ اتنا ہی ثابت قدم ہوگا جو ہم اہل بیت سے جتنی محبت کرے گا۔( ۱ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج ۸ ،ص ۶۸۔۶۹

۲۶۹

سوالات

۱۔قیامت میں کس چیز کے بارے میں سوال ہوگا ؟

۲۔ پیغمبر کی نظرمیں فقیر اور مفلس کون ہے ؟

۳۔ صراط دنیا اور صراط آخرت کسے کہتے ہیں ؟

۴۔ امام صادق نے صراط کے سلسلے میں مفضل سے کیافرمایا ؟

۲۷۰

انتالیسواں سبق

بہشت اور اہل بہشت ، جہنم اور جہنمی

انسان کا آخری مقام جنت یا دوزخ ہے یہ قیامت کے بعد او ر ابدی زندگی کی ابتدا ء ہے جنت یعنی جہاں تمام طرح کی معنوی اورمادی نعمتیں ہو ں گی دوزخ یعنی تمام طرح کی مصیبت سختی اور شکنجہ کا مرکز ۔ بہت سی آیتیں اور روایتیں جنت کی صفات ونعمات اور جنتی لوگوں کے بارے میں آئی ہیں یہ نعمتیں روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی، پہلے جیسا کہ بیان کیاجاچکا ہے کہ معاد جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی لہٰذا ضروری ہے جسم اور روح دونوں مستفیض ہوں یہاں فقط ان نعمتوں کی فہرست بیان کر رہے ہیں ۔

جسمانی نعمتیں

۱۔ جنتی باغ : قرآن مجید کی ۱۰۰سے زیادہ آیتیں ہیں جس میں جنت اور جنات وغیرہ جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ایسے باغ جن کا دنیا کے با غات سے تقابل نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہمارے لئے بالکل قابل ادراک نہیں ہے ۔

۲۔بہشتی محلا ت : مساکن طیبہ کے لفظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بہشتی محل میں تمام سہولتیں مہیا ہو ں گی ۔

۳۔ مختلف النوع تخت اور بستر : جنت کی بہترین نعمتوں میں سے وہاں کے بہتریں بستر ہیں جو انسان کے دلوں کو موہ لیں گے اوردل کو لبھا نے والے ہیں جنکے لئے مختلف لفظ استعمال ہوئے ہیں ۔

۴۔ جنتی خو ان : تمام آیتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنت میں طرح طرح کے کھانے ہو ںگے جملہ مِمَّا یشَتھُونَ(من چاہا ) کے بہت وسیع معنی ہیں اور اس کی بہترین تعبیر رنگ برنگ کے پھل ہیں ۔

۵۔ پاک مشروب :جنت میں مشروب مختلف النو ع اور نشاط آورہو گی اور قرآن کے بقول '' لَذةُ لِلشَاربینَ'' پینے والو ں کے لئے لذت وسرور کا باعث

۲۷۱

ہوگا ہمیشہ تازہ ، مزہ میں کوئی تبدیلی نہیں شفاف او رخوشبو دار ہوگا ۔

۶۔ لبا س اور زیورات :انسان کے لئے بہترین زینت لباس ہے قرآن وحدیث میں اہل بہشت کے لبا س کے سلسلے میں مختلف ا لفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے ان کے لبا س کے خوبصورتی او رکشش کا پتہ چلتاہے ۔

۷۔ جنتی عورتیں : شریف عورت، انسان کے سکو ن کاباعث ہے بلکہ روحانی لذت کا سرچشمہ ہے قرآن اور احادیث معصومین میں مختلف طریقہ سے اس نعمت کا ذکر ہواہے اور اس کی بہت سے تعریف کی گئی ہے یعنی جنتی عورتیں تمام ظاہری اور باطنی کمالات کی مظہر ہو ںگی ۔

۸۔ جو بھی چاہئے ''( فِیها مَاتشتهیِهِ الأنفُس وتَلذَ الأعیُن'' ) جو بھی دل چاہے گا اور جو بھی آنکھو ںکی ٹھنڈک کا باعث ہوگا وہ جنت میں موجود ہوگا یہ سب سے اہم چیز ہے جو جنت کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہے یعنی تمام جسمانی او رروحانی لذتیں پائی جا ئیں گی ۔

روحا نی سرور

جنت کی روحانی نعمتیں مادی اور جسمانی لذتوں سے بہتر او ر افضل ہوں گی چونکہ ان معنوی نعمتوں کا ذکر پیکر الفاظ میں نہیں سماسکتا : یعنی کہنے اور سننے والی نہیں ہیں، بلکہ درک کرنے والی او رحاصل کرنے والی اوربراہ راست قریب سے لذت بخش ہیں ،اسی لئے قرآن او رحدیث میں زیادہ ترکلی طور پر او رمختصر بیان کیاگیاہے۔

۱۔ خصوصی احترام : جنت میں داخل ہوتے وقت فرشتوں کے استقبال اور خصو صی احترام کے ذریعہ آغاز ہوگا اورجس دروازہ سے بھی داخل ہوگا فرشتے اسے سلام کریں گے اور کہیں گے صبر اور استقامت کے باعث اتنی اچھی جزاملی ہے ۔

۲۔سکون کی جگہ:جنت سلامتی کی جگہ ہے سکون واطمینان کاگھر( أُدخُلُوا الجَنَّةَ لَا خَوفُ عَلَیکُم وَلَا أَنتُم تَحزَنُونَ ) جا ئو جنت میں داخل ہو جائو۔جہاں نہ کسی طرح کاخوف ہوگا نہ حزن وملا ل پایا جائے گا۔( ۱ )

____________________

(۱)سورہ اعراف آیة ۴۹

۲۷۲

۳۔باوفا دوست اور ساتھی : پاک اورباکمال دوستوں کا ملنا یہ ایک بہترین روحانی لذت ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے( وَحَسُنَ أُولئِکَ رَفِیقاً ) کتنے اچھے دوست ہیں یہ فضل ورحمت خدا ہے۔

۴۔شیریں لہجہ میں گفتگو : جنت میں بے لوث اور اتھاہ محبت فضاکو اور شاداب وخوشحال کردے گی وہا ں لغو اوربیہودہ باتیں نہیں ہوں گی فقط سلام کیاجائیگا ''فی شغل فاکھون''خوش وخرم رہنے والے کام ہو ں ۔

۵۔ بیحد خو شحالی او رشادابی :( تَعرِفُ فیِ وُجُوهِهِم نَضَرةَ النَّعیِمِ ) تم ان کے چہروں پر نعمت کی شادابی کامشاہدہ کروگے( ۱ ) ( وَوُجُوهُ یَومئِذٍ مُسفِرَةُ ضاحکةُ مُستبشِرَةُ ) مسکراتے ہوئے کھلے ہوئے ہوںگے۔( ۲ )

۶۔خد ا کی خوشنودی کا احساس :محبوب کی رضایت کاادراک سب سے بڑی معنوی لذت ہے جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیة۱۵ میں جنت کے سرسبز باغ او رپاک وپاکیزہ عورتوں کے ذکر کے بعد ارشاد ہوتاہے وَ رِضوان مِن اللّہ (خداکی خوشنودی )''( رَضِیَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضُوا عَنهُ ذَلِک الفَوزُ العَظِیمَ'' ) خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے۔( ۳ )

۷۔ بہشتی نعمتوں کاجاویدانی اور ابدی ہونا : خوف اور ہراس ہمیشہ فنا اور نابودی سے ہوتا ہے لیکن جنت کی نعمتیں ابدی او رہمیشہ رہنے والی ہیں فنا کاخوف

____________________

(۱) سورہ مطففین آیة: ۲۴

(۲) سورہ عبس آیة:۳۸۔ ۳۹

(۳) سورہ مائدہ آیة: ۱۱۹

۲۷۳

نہیں ہے یہ بہترین اورابدی خاصیت کے حامل ہیں:( أُکُلُهَا دَائمُ وَظِلُّهَا ) ۔( ۱ )

اس کے پھل دائمی ہوں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا ۔

۸۔ پرواز فکر کی رسائی جہا ں ممکن نہیں :( فَلَا تَعلمُ نَفس مَاأخفیٰ لهُم مِّن قُرَّةِ أعیُن ) کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لئے ایسی مخفی جزاء ہے جواس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوگی۔( ۲ ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :جنت میں ایسی چیزیں ہوں گی جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا او رنہ کا ن نے سنا ہوگا او رنہ ہی قلب کی رسائی وہاںتک ہوئی ہوگی۔( ۳ )

جہنم او رجہنمی لوگ

جہنم، الٰہی قہر وغضب کانام ہے جہنم کی سزا جسمانی اور روحانی دونوںہے، اگرکوئی شخص انہیں فقط روحی اور معنوی سزا سے مخصوص کرتا ہے تویہ قرآن کی بہت سی آیتوں پر توجہ نہ کرنے کے سبب ہے، قیامت کی بحث میں ذکر کیا گیاہے کہ قیامت جسمانی اور روحانی دونوںہے لہٰذا جنت اورجہنم دونوں میں یہ صفت ہے ۔

جہنمیوں کی جسمانی سزا

۱۔ عذاب کی سختی :

جہنم کی سزا اس قدر سخت ہوگی کہ گنہگار شخص چاہے گا کہ بچے ،بیوی ،بھا ئی

____________________

(۱)سورہ رعد آیة :۳۵

(۲) سورہ سجدہ آیة: ۱۷

(۳) المیزان ومجمع البیان

۲۷۴

دوست ،خاندان یہاںتک کہ روی زمین کی تمام چیزوں کو وہ قربان کر دے تاکہ اس کے نجات کاباعث قرار پائے ۔( یَوَدُّ المُجرِمُ لویَفتَدِ مِن عَذَابِ یَومَئِذٍ بِبَنِیهِ وَصَاحِبتِه وأَخِیهِ وَفَصِیلتِه التِ تُؤیهِ وَمَن فیِ الأَرضِ جَمیعاً ثُمَّ یُنجِیهِ ) مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے

لیا جائے اور بیوی اوربھائی کو اور اس کے کنبہ کو جس میں وہ رہتا تھا اورروی زمین کی ساری مخلوقات کو اور اسے نجات دے دی جائے۔( ۱ )

۲۔جہنمیوںکا خورد ونوش :( اِنَّ شَجَرةَ الزَّقُومِ طَعَامُ الأَثِیمِ کَالمُهلِ یَغل فیِ البُطُونِ کَغلِ الحَمِیمِ ) بے شک آخرت میں ایک تھوہڑ کادرخت ہے جوگنہگا ر وںکی غذاہے وہ پگھلے ہوئے تانبے کی مانند پیٹ میں جوش کھائے گا جیسے گرم پانی جوش کھاتاہے۔( ۲ )

۳۔جہنمی کپڑے :( وَتَریٰ المُجرِمِینَ یَومئِذٍ مُقَرَّنِینَ فیِ الأَصفَادِ سَرَابِیلُهُم مِن قَطِرانٍ وَتَغشیٰ وُجُوهَهم النَّارُ ) اور تم اس دن مجرموں کو دیکھو گے کہ کسی طرح زنجیر وں میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے لباس قطران (بدبودار مادہ کے) ہوںگے اور ان کے چہروں کو آگ ہر طرف سے ڈھا نکے ہوئے ہوگی( ۳ ) ( فَالَّذِینَ کَفَرُوا قُطِعَت لَهُم ثِیَابُ مِن نَارٍ یُصبُّ مِن فَوقِ رُؤُوسِهِم الحَمِیمُ یُصهَرُ بِهِ مَا فیِ بُطُونِهِم وَالجُلُودُ ) جولوگ کافر ہیں ان کے واسطے آگ کے

____________________

(۱) سورہ معارج ۱۱۔۱۴

(۲) سورہ دخان ۴۳۔۴۶

(۳)سورہ ابراہیم ۴۹۔ ۵۰

۲۷۵

کپڑے قطع کئے جائیں گے او ران کے سروں پر گرما گرم پانی انڈیلاجائے گا جس سے ان کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے او ران کی جلدیں سب گل جا ئیں گی ۔( ۱ )

۴۔ ہر طرح کاعذاب : جہنم میں ہر طرح کا عذاب ہوگا کیونکہ جہنم خدا کے غیظ وغضب کانام ہے( أِنَّ الَّذیِنَ کَفَرُوا بِآیاتِنا سَوفَ نُصلِیهِمَ نَاراً کُلَّما نَضِجَت جُلُودُهُم بَدَّلنَا هُم جُلُوداً غَیرَها لِیَذُوقُوا العَذَابَ اِنَّ اللَّهَ کَانَ عَزِیزاً حَکِیما ) اور بے شک جن لوگو ں نے ہماری آیتوں کاانکا ر کیاہے ہم انہیں آگ میں بھون دیں گے اور جب ایک کھال پک جائے گی تو دوسری بدل دیںگے تاکہ عذاب کامزہ چکھتے رہیں خدا سب پر غالب اور صاحب حکمت ہے( ۲ )

روحانی عذاب

۱۔ غم والم اور ناامیدی :( کُلَّما أَرادُوا أَنْ یَخرُجُوا مِنها مِن غَمٍّ أُعیدُوا فِیهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الحَریقِ ) جب یہ جہنم کی تکلیف سے نکل بھاگنا چائیں گے تو دوبارہ اسی میں پلٹا دیے جائیں گے کہ ابھی اور جہنم کا مزہ چکھو ۔( ۳ )

۲۔ذلت ورسوائی( وَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیاتِنَا فَأُولئِک لَهُم عَذَابُ مُهِینُ ) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اورہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کے لئے نہا یت درجہ رسواکن عذاب ہے۔( ۴ )

قرآن میں متعدد جگہ اہل جہنم کی ذلت اور رسوائی کوبیان کیا گیا ہے جس

____________________

(۱) سورہ حج ۱۹ تا۲۰

(۲) سورہ نساء آیة ۵۶

(۳) سورہ حج آیة ۲۲

(۴) سورہ حج آیة ۵۷

۲۷۶

طرح وہ لوگ دنیا میں مومنین کو ذلیل سمجھتے تھے ۔

۳۔تحقیر وتوہین :جب جہنمی کہیں گے با ر الہا! ہمیں اس جہنم سے نکا ل دے اگر اس کے بعدھم دوبارہ گنا ہ کرتے ہیں تو ہم واقعی ظالم ہیں ان سے کہا جا ئیگا۔( أخسَئوا فِیهَا وَلَا تُکلِّمُونَ ) اب اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور بات نہ کرو( ۱ )

اخساء کا جملہ کتے کو بھگانے کے وقت کیا جاتا ہے اوریہ جملہ گنہگا روں اور ظالموں کو ذلیل کرنے کے لئے استعمال ہو اہے ۔

۴۔ابدی سزا اور امکا نات :( وَمَنْ یَعصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَأِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدینَ فِیهَا أَبَداً ) اور جو اللہ او ررسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم ہے اور وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔( ۲ )

دائمی اور ابدی ہونا جو جہنمیوںکے لئے ہے بہت دردنا ک اور سخت ہوگا چونکہ ہر پریشانی او ر سختی میں نجا ت کی امید ہی خوشی کاسبب ہوتی ہے لیکن یہاں سختی اور بے چینی اس لئے زیادہ ہوگی،کہ نجا ت کی کوئی امید نہیں ،اس کے علا وہ رحمت خدا سے دوری سخت روحی بے چینی ہے ۔

سوال؟ یہ کیسے ہو گا کہ وہ انسان جس نے زیا دہ سے زیادہ سوسال گنا ہ کئے اسے کروڑوں سال بلکہ ہمیشہ سزادی جائے البتہ یہ سوال جنت کے دائمی ہو نے پر بھی

____________________

(۱) سورہ مومنون آیة:۱۰۸

(۲)سورہ جن آیة ۲۳

۲۷۷

ہے لیکن وہاں خداکا فضل وکرم ہے لیکن دائمی سزا عدالت الٰہی سے کس طرح سازگا ر ہے ؟۔

جواب : بعض گنا ہ جیسے( کفر )کا فر ہونااس پر دائمی عذاب یہ قرین عقل ہے بطور مثال اگر ڈرائیور کا ٹرافیک کے قانو ن کی خلاف ورزی کے باعث ایکسیڈنٹ میں پیر ٹوٹ جائے تو اس کی خلا ف ورزی ایک سکنڈ کی تھی مگر آخری عمر تک پیر کی نعمت سے محروم رہے گا ۔

ماچس کی ایک تیلی پورے شہر کو جلا نے کے لئے کا فی ہے انسان کے اعمال بھی اسی طرح ہیں، قرآن میں ارشاد رب العزت ہے( وَلَا تُجزَونَ اِلَّا مَاکُنتُم تَعملَُونَ ) اورتم کو صرف ویسا ہی بدلہ دیا جا ئے گا جیسے اعمال تم کررہے ہو( ۱ ) دائمی ہونا یہ عمل کے باعث ہے ۔

____________________

(۱)سورہ یس آیة ۵۴

۲۷۸

سوالات

۱۔ جنت کی پانچ جسمانی نعمتوں کو بیان کریں ؟

۲۔جنت کی پانچ روحانی نعمتوںکا بیان کریں ؟

۳۔ اہل جہنم کی تین جسمانی سزائیں بیان کریں ؟

۴۔ اہل جہنم کی تین روحانی عذاب کو بیان کریں ؟

۲۷۹

چالیسواں سبق

شفاعت

شفاعت ایک اہم دینی اور اعتقادی مسائل میں سے ہے قرآن اور احادیث معصومین میں اس کا متعدد بار ذکر آیاہے اس کی وضاحت کے لئے کچھ چیزوں پر توجہ ضروری ہے !

۱۔ شفاعت کے کیا معنی ہیں ؟ لسان العرب میں مادہ شفع کے یہ معنی ہیں : ''الشَّافعُ الطالب لغیره یتشفع به الیٰ المطلوب'' (شافع اسے کہتے ہیں جو دوسرے کے لئے کوئی چیز طلب کرے ) مفردات راغب میں لفظ شفع کے یہ معنی بیان کئے گئے ہیں :''الشفاعة الانضمام الیٰ آخر ناصراً له وسائلاً عنه'' شفاعت ایک دوسرے کا ضم ہو نا اس لحاظ سے کہ وہ اس کی مدد کرے او راس کی طرف سے اس کی ضروریا ت کا طلبگار ہو ۔

مولا ئے کائنات نے اس سلسلے میں فرمایا : الشفیع جناح الطالب شفاعت کرنے والا محتاج کے لئے اس کے پر کی مانند ہے جس کے مدد سے وہ مقصد تک پہنچے گا۔( ۱ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ حکمت ۶۳

۲۸۰