اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155116 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

محمد نصراللہ نصرؔ (ہاوڑہ)

( ۱)

پھول کو خوشبو قمر کی روشنی تو نے ہی دی

کائنات حسن کو یوں دلکشی تو نے ہی دی

*

اک فلک کو ماہ و انجم، اک زمیں کو پھول پھل

دونوں عالم کو ہر اک شئے دیدنی تو نے ہی دی

*

وسعت صحرا کو نخلستان کی ٹھنڈی ہوا

موج بحر بے کراں کو بے کلی تو نے ہی دی

*

طائر دلکش ادا کو حسن بھی دلکش دیا

عندلیب خوش نوا کو راگنی تو نے ہی دی

*

دن کو روشن کر دیا خورشید نور خاص سے

شب گزیدہ دہر کو یہ چاندنی تو نے ہی دی

*

علم کی دولت عطا کی، عقل بھی تیری عطا

ہاں بشر کو نیک و بد کی آگہی تو نے ہی دی

*

تیری حکمت کا بیاں ممکن نہیں الفاظ میں

ایک لفظ کن سے ہم کو زندگی تو نے ہی دی

*

بندۂ کمتر تری توصیف کرنا کس طرح

نصرؔ کو توفیق یا رب! مدح کی تو نے ہی دی

***

۸۱

(۲)

یہ مہر و ماہ منور غلام تیرے ہیں

تمام نور کے مظہر غلام تیرے ہیں

*

تغیرات زمانہ ہیں تری قدرت میں

یہ عرش و فرش کے منظر غلام تیرے ہیں

*

ترے غلام خدایا ہیں نغمہ بار پرند

تو نامہ بر یہ کبوتر غلام تیرے ہیں

*

ترے جہاں کے گداؤں کا ذکر کیا یا رب

زمانے بھر کے سکندر غلام تیرے ہیں

*

کروں نہ کیوں میں اطاعت تری مرے مولا

تمام پیر و پیمبر غلام تیرے ہیں

*

کہاں کہاں نہ غلامی میں ہے تری خلقت

یہ سیپ سیپ میں گوہر غلام تیرے ہیں

*

تری رضا پہ ہے موقوف فکر کی پرواز

تخیلات کے شہپر غلام تیرے ہیں

*

ترا غلام ترا نصرؔ کیوں نہ ہو یا رب

کہ ذی وقار سخنور غلام تیرے ہیں

***

۸۲

مشرف حسین محضر (علی گڑھ)

آنکھوں میں تو ہے دل میں تو ہے دل کے احساسات میں تو

تیری ذات کا میں شیدائی پنہاں میری ذات میں تو

*

صبح طرب کی سطح افق سے سورج بن کر ابھرا ہے

چاند کا روپ لیے آیا ہے غم کی کالی رات میں تو

*

عیش و مسرت تیرا کرم ہے فکرو فاقہ تیری رضا!

آسودہ لمحات میں تو تھا آشفتہ لمحات میں تو!

*

قہر ترا نافرمانوں پر رحم ترا ہر تابع پر

فیض و غضب کی آندھی میں تو رحمت کی برسات میں تو

*

کعبے کی دیوار پہ لکھے مصرعوں سے یہ ثابت ہے

لاثانی ہے تیرا کلام اور یکتا اپنی ذات میں تو

*

ماضی تیرا حال بھی تیرا مستقبل کا تو مالک!

ماضی کے حالات میں تو تھا موجودہ حالات میں تو

*

تو چاہے محضرؔ کے حق میں ناممکن، ممکن کر دے

ہر اک شئے پر تو قادر ہے سارے امکانات میں تو

***

۸۳

مراق مرزا (بمبئی)

گلستاں اس کے ریگزار اس کا

سارے عالم پہ اختیار اس کا

*

چاند ستاروں میں جلوہ گر ہے وہی

پھول کلیوں پہ ہے نکھار اس کا

*

اس کے دم سے رواں سمندر ہے

ہے ندی اس کی، آبشار اس کا

*

جانے کیوں ان دنوں لبوں پہ مرے

نام آتا ہے بار بار اس کا

*

ذرے ذرے میں وہ سمایا ہے

ہے زمیں اس کی کوہسار اس کا

*

جسم اس کا ہے، سانس اس کی ہے

ابن آدم ہے قرض دار اس کا

*

وہ مرا ہر گناہ بخشے گا

ہے مرے دل کو اعتبار اس کا

***

۸۴

رحمت اللہ راشد احمدآبادی (ناگپور)

ہے ترا ہر ذرے پہ احسان رب العالمین

کیا بیاں ہ سے ہو تیری شان رب العالمین

*

سرخرو ہو جائے ہر انسان رب العالمین

کر عطا ہر ایک کو ایمان رب العالمین

*

ساری خلقت آج بھی بے بس ہے تیرے سامنے

تیرے قبضے میں ہے سب کی جان رب العالمین

*

ذکر ہر مخلوق کرتی ہے ترا شام و سحر

لہر ہو دریا کی یا طوفان رب العالمین

*

سارا عالم، ساری دنیا تیرے ہی قبضے میں ہے

ہے ترا قرآں میں یہ اعلان رب العالمین

*

اک اشارے پر ترے پیارے خلیل اللہ نے

کر دیا بیٹے کو بھی قربان رب العالمین

*

جب بھی ٹوٹے تیرے راشدؔ پر مصیبت کے پہاڑ

کر دیا تو نے انھیں آسان رب العالمین

***

۸۵

حافظ اسرارسیفی (آرہ)

تو ہی میری آرزو ہے تو ہی میری جستجو

اول و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو

*

تو نے دامان زمیں کو موتیوں سے بھر دیا

اور جہان آسماں کو قمقموں سے بھر دیا

*

رازق و خلاق تو ہے حافظ و ناصر ہے تو

آنکھ سے اوجھل ہے لیکن ہر جگہ ظاہر ہے تو

*

نعمتیں ہیں ان گنت اور رحمتیں ہیں بے شمار

ہر قدم پر ہے عنایت تیری اے پروردگار

*

ہے منور نور بھی اور نور کا محور بھی تو

تو ہی ہے تحسین فطرت اور مہہ و اختر بھی تو

*

تو ہی مندر کا جرس ہے تو ہی مسجد کی اذاں

ذرے ذرے میں ہے روشن تیرے جلووں کا نشاں

*

قطرۂ ناچیز ہوں میں اور تو بحر رواں

تیری مدحت کے لیے ہے گنگ ناطق کی زباں

*

بخش دے سیفیؔ کو مولا ہے کرم تیرا بڑا

بندۂ ناچیز یہ ہے بحر عصیاں میں پڑا

***

۸۶

شاغل ادیب (حیدرآباد)

کاش مل جاتے مرے نالوں کو تاثیرنئی

تجھ سے اللہ ملے خوشیوں کی جاگیر نئی

*

رکھنا ایمان سلامت تو مرا اے اللہ

ہے یہ وعدہ نہ کروں گا کوئی تقصیر نئی

*

ہر نئی صبح رہے حمد نئی ہونٹوں پر

ہر نئی شام ہو، دل میں تری توقیر نئی

*

رات کے خواب مرے کڑوے بہت ہیں یارو

دن کے لمحات کو دے میٹھی سی تعبیر نئی

*

تیرے محبوبؐ کا بیمار جو ہو جاتا ہے

اس کو بے مانگے تو دے دیتا ہے اکسیر نئی

*

اپنے محبوبؐ کی امت پہ ہو رحمت کی نظر

اپنے محبوبؐ کی امت دے توقیر نئی

*

تیرے قرآں میں مسائل ہیں قیامت تک کے

آیتیں اس کی عطا کرتی ہیں تفسیر نئی

*

حمد شاغلؔ میں لکھوں یا کہ مناجات لکھوں

دے دے مولا تو قلم کو مرے تاثیر نئی

***

۸۷

فراغ روہوی (کلکتہ)

اعزاز مجھ کو ایک یہی ذوالجلال! دے

میری نگاہِ شوق کو ذوقِ جمال دے

*

مجھ کو خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے

ایسا دے پھر مزاج کہ دنیا مثال دے

*

تو نے عطا کیے ہیں یہ لوح و قلم تو پھر

جو دل گداز ہو وہی حسن خیال دے

*

شہرت سے تو نے مجھ کو نوازا تو ہے، مگر

تھوڑا سا انکسار بھی اے ذوالجلال! دے

*

میری نظر میں وہ کسی دریا سے کم نہیں

قطرہ جو میرے کوزے میں یا رب! تو ڈال دے

*

گمنامیوں کی قید میں گوہر جو ہے ابھی

یا رب! اسے صدف سے تو باہر نکال دے

*

محروم تیرے فیض سے صحرا جو ہے یہاں

اک بار اس کے سامنے دریا اچھال دے

*

ہو فیض یاب حرف دعا سے ترا فراغؔ

تاثیر بھی زباں میں اگر اس کی ڈال دے

***

۸۸

خضر ناگپوری (ناگپور)

اے مرے مالک مرے پروردگار

تیری رحمت ایک بحر بے کنار

*

آتش نمرود تو نے سرد کی

تو نے عیسیٰ کی بچائی زندگی

تو نے یوسف کا رکھا قائم وقار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

نور بخشا دیدۂ یعقوب کو

دم میں اچھا کر دیا ایوب کو

دی زلیخا کو جوانی کی بہار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

ہے عطا کی شان بھی کیا دیدنی

آگ کے طالب کو دی پیغمبری

ایک مانگے کوئی تو دے تو ہزار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

۸۹

نوح کی کشتی کا تو ہی ناخدا

راستہ موسیٰ کو دریا میں دیا

تیری قدرت ہے جہاں پر آشکار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

تاجدار انبیا کا واسطا

نعمت کونین اسے بھی کر عطا

خضرؔ بھی رحمت کا ہے امیدوار

اے مرے مالک مرے پروردگار

***

۹۰

بولو وہ کون ہے ؟

ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء (ناگپور)

بولو وہ کون ہے ؟ نظروں سے جو رہ کر پنہاں

ایک اک شے کے پس پردہ ہے جلوہ افشاں

*

بولو وہ کون ہے ؟ دیتا ہے جو سامان حیات

ہم کو بن مانگے عطا کرتا ہے کیا کیا نعمات

*

بولو وہ کون ہے ؟ ہر سمت ہے جس کا سکہ

حکمراں جو ہے فلک اور زمیں پر تنہا

*

بولو وہ کون ہے ؟ یہ دھرتی سجائی جس نے

چرخ پہ چادر نورانی بچھائی جس نے

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو قادر و قیوم بھی ہے

ہر دو عالم کا جو مسجود بھی مخدوم بھی ہے

*

بولو وہ کون ہے ؟ نازل کیا جس نے قرآں

اس میں صادر کئے حکمت بھرے کتنے فرماں

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو رزق عطا کرتا ہے

جس کی مرضی کے بنا پتہ نہیں ہلتا ہے

*

۹۱

بولو وہ کون ہے ؟ ہر امر پہ قدرت والا

جس سے بڑھ کر نہیں ہے کوئی بھی حکمت والا

جس نے پیدا کیا انساں کو بطرز احسن

زندگی کرنے کے پھر اس کو سکھائے ہیں چلن

جس نے مخلوق میں انساں کو بنایا اشرف

*

کون ہے وہ؟ جو ہے سجدوں کا ہمارے حقدار

ہر قدم پر ہمیں اس کی ہی مدد ہے درکار

ایسی ہی ہستی تو بجز رب العلیٰ کوئی نہیں

لائق حمد و ثنا اس کے سوا کوئی نہیں

***

۹۲

محسن باعشن حسرت (کلکتہ)

وہ جس نے دی ہم کو زندگانی

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

جو سب سے افضل ہے سب سے برتر

جو سب کا والی ہے سب کا یاور

*

وہ جس نے دونوں جہاں بنائے

زمین اور آسماں بنائے

*

وہ جس نے دولت ہمیں عطا کی

وہ جس نے شہرت ہمیں عطا کی

*

وہ جس نے دی ہم سبھوں کو عزت

وہ جس نے بخشی ہمیں مسرت

*

وہ جس کی ہم پر ہے مہربانی!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

وہ جس نے بخشی گلوں کو خوشبو

وہ جس نے دلکش بنائے جگنو

*

۹۳

وہ جس نے تارے سجائے ہر سو

وہ جس نے غنچے کھلائے ہر سو

*

یہ چاند سورج دیئے ہیں جس نے

پہاڑ پیدا کئے ہیں جس نے

*

وہ جس کے گن گا رہے ہیں سارے

وہ جس کے دم سے ہیں سب نظارے

*

جہاں پہ جس کی ہے حکمرانی!!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

***

۹۴

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

(۱)

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے

متاعِ صبر عطا کر دے ذوالجلال مجھے

*

فقط تری ہی محبت ہو خانۂ دل میں

اس آرزوئے حقیقی سے کر نہال مجھے

*

انا سے دل کو مرے پاک رکھ کہ اس کے سبب

عروج لے کے چلا جانبِ زوال مجھے

*

درست کر مری فطرت میں خامیاں ہیں بہت

نواز خوبیِ کردار و خوش خصال مجھے

*

وہ جس کمال نے صلحا کو سرفرازی دی

مرے کریم عطا کر وہی کمال مجھے

*

گناہگار ہوں ڈوبا ہوا ہوں عصیاں میں

تو اس عمیق سمندر سے اب نکال مجھے

***

۹۵

(۲)

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربی

مرا نصیب و مقدر سنوار دے ربی

*

ہوا ہے گلشنِ امید میرا پژمردہ

خزاں کی کوکھ سے فصلِ بہار دے ربی

*

قدم قدم پہ ہیں خارِ نفاق و بغض و حسد

اس امتحاں سے سلامت گزار دے ربی

*

میں مخلصانہ دعا دشمنوں کو دیتا رہوں

تو میرے دل میں وہ جذبہ ابھار دے ربی

*

میں جو کہوں یا لکھوں سب میں عشق ہو تیرا

میرے خیال کو اتنا نکھار دے ربی

*

بہت برا ہے گنا ہوں سے حال ساحلؔ کا

یہ بار سر سے تو اس کے اتار دے ربی

***

۹۶

(۳)

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولیٰ

راہ جو سیدھی ہے، وہ راہ بتا دے مولیٰ

*

تجھ کو پانے میں یہ قوت ہے رکاوٹ کا سبب

فتنہ و شر کو مرے دل سے مٹا دے مولیٰ

*

یہ گرفتار ہے گردابِ مسائل میں ابھی

کشتیِ زیست مری پار لگا دے مولیٰ

*

میرا ہر لفظ ترے عشق کا مظہر بن جائے

سوچ کو میری وہ پاکیزہ ادا دے مولیٰ

*

تیرے مصحف کی تلاوت کروں آسانی سے

نور آنکھوں کا مری اتنا بڑھا دے مولیٰ

*

عالمِ فانی و باقی میں بھلائی دے دے

نار دوزخ سے بھی ساحلؔ کو بچا دے مولیٰ

***

۹۷

(۴)

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دے دے

پیڑسرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دے دے

*

راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا

عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دے دے

*

خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری

سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دے دے

*

شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی

التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دے دے

*

سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا

صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دے دے

*

دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا

زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دے دے

***

۹۸

فرید تنویر (ناگپور)

میرے دل میں ہوئی جب بھی کوئی خواہش مولا

ہو گئی تیری عنایات کی بارش مولا

*

تیرے خورشید کرم کی یہ ضیا باری ہے

زندگی میں ہے اجالوں کی نمائش مولا

*

نکلا طوفان حوادث سے سفینہ میرا

یہ ترا فضل ہے، یہ تیری نوازش مولا

*

ہو مرے حال پہ ہر وقت ترا لطف و کرم

دور ہر دم رہے افلاک کی گردش مولا

*

التجا ہے ترے تنویرؔ کی اے رب کریم

زندگی بھر نہ ہو اس سے کوئی لغزش مولا

***

۹۹

منظورالحسن منظور (پونہ)

حیات مہنگی، ممات سستی ہے کیسا قہر و وبال یا رب

کہیں تو آ کر ہو ختم آخر، یہ دور حزن و ملال یا رب

*

یہ چینچی میں عتاب روسی، یہ بوسنی میں لہو کے دریا

ہے خوں میں ڈوبا ہوا فلسطیں، یہ کیسا طرز رجال یا رب

*

نکل کے بدر و احد سے آگے، یہ آئے ہیں کربلا سے غازی

تھکے ہیں سارے ہی آبلہ پا، تو آ کے انکو سنبھال یا رب

*

چلے ہیں سر سے کفن کو باندھے، صلیب کاندھوں پہ لیکے اپنے

زباں پہ تیرا ہے ذکر پیہم، نظر میں تیرا جمال یا رب

*

دلوں میں خیر البشرؐ کی عظمت، ادا میں قرآں کا بانکپن ہے

یہی تو ہے زادِ راہ اپنا، یہی ہے مال و منال یا رب

*

کھڑے ہیں دارو رسن کی زد پر، مگر ہنسی ہے سبھوں کے لب پر

یہ سرفروشی کا عزمِ راسخ، ہے مومنانہ کمال یا رب

*

یہ جوش صہبائے عشق احمدؐ، کہ زیر خنجر بھی کہہ رہے ہیں

لہو سے ہو کر ہی سرخ رو اب، ملے گا تیرا وصال یا رب

*

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

اڑتیسواں سبق

قیامت میں کس چیز کے بارے میں سوال ہوگا ؟

روز قیامت سب سے پہلے اس چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا جس کی طرف توجہ دینابہت اہم اور زندگی ساز ہے عن الرِّضا عن آبائہ عن علیِّ علیہ السلام قا ل:''قال النَّبیِّ أوَّل ما یسأل عنه العبد حبنا اهل البیت ''امام رضا ںنے اپنے والد اور انھوں نے مولائے کائنات سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :سب سے پہلا سوال انسان سے ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں ہوگا۔( ۱ )

عن أبی بصیر قال : سمعتُ أ با جعفر علیہ السلام یقول: ''اوّل ما یُحاسب العبد الصلاة فاِنْ قُبِلت قُبِلَ ما سواها''ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام صادق کو میں نے فرماتے سنا ہے کہ سب سے پہلے جس کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے اگر یہ قبول تو سارے اعمال قبول ہوجائیں گے۔( ۲ )

پہلی حدیث میں عقیدہ کے متعلق پہلا سوال ہے اور دوسری حدیث میں عمل کے متعلق پہلاسوال ہےعن أبی عبداللّه علیه السلام فی قول اللّه :

____________________

(۱) بحارالانوار ج،۷ص ۲۶۰

(۲) بحا رالانوار ج،۷ ص ۲۶۷

۲۶۱

''( اِنّ السمع والبصروالفؤاد کُلّ أولئِک کان عنه مسئولا ) قال یُسال السمع عمّا یسمع والبصر عما یطرف والفؤاد عمّا عقد علیه ''امام صادق نے خدا وند عالم کے اس قول کی تفسیر میں جس میں کہا گیاہے کہ کان آنکھ اور دل سے سوال ہوگا فرمایا: جوکچھ کان نے سنا اورجوکچھ آنکھو ں نے دیکھا اور جس سے دل وابستہ ہوا سوال کیا جائے گا( ۱ ) عن أبی عبداللّهں قال، قال: رسول اللّه أنا أوّل قادم علیٰ اللّه ثُمَّ یُقدّم علّکتاب اللّه ثُمَّ یُقدم علّ أهل بیتی ثُمَّ یقدم علّ أمت فیقفون فیسألهم ما فعلتم فی کتابی وأهل بیت نبیّکم؟ اما م صادق سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :میں وہ شخص ہو ں جو سب سے پہلے خدا کی بارگاہ میں جائوں گا پھر کتاب خدا (قرآن) اس کے بعد میرے اہل بیت پھر میری امت آئے گی ،وہ لوگ رک جائیں گے اور خدا ان سے پوچھے گا کہ میری کتاب اور اپنے نبی کے اہل بیت کے ساتھ تم نے کیاکیا؟( ۲ ) عن الکاظم عن آبائه قال : قال رسول اللّه: لا تزول قدم عبد یوم القیامة حتیٰ یسأل عن أربع عن عمره فیما أفناه وشبابه فیما ابلاه وعَن مالهِ من این کسبه وفیما أنفقه وعن حبنا اهل البیت ۔امام کاظم نے اپنے آباء واجداد سے نقل کیاہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ روز قیامت کسی بندے کاقدم نہیںاٹھے گا مگر یہ کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اس کی عمر کے بارے میں کہ

____________________

( ۱) بحارالانوار ج۷ص ،۲۶۷

(۲) بحارالانوار ج۷، ص ۲۶۵

۲۶۲

کس راہ میں صرف کی؟ اس کی جوانی کے متعلق کہ کس راہ میں برباد کیا ؟اور مال کے بارے میں کہ کہا ں سے جمع کیا اورکہاں خرچ کیا ؟اورہماری کی محبت کے بارے میں ۔( ۱ )

روز قیامت او ر حقوق الناس کا سوال

جس چیز کا حساب بہت سخت دشوار ہوگا وہ لوگوں کے حقوق ہیں جو ایک دوسرے پر رکھتے ہیں ا س حق کو جب تک صاحب حق نہیں معاف کر ے گاخدا بھی نہیں معاف کرے گا اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے بعض بطور نمونہ پیش خدمت ہے۔

قال علی ں :أمّا الذنب الذیِ لا یغفر فمظالم العباد بعضهم لبعض أنَّ اللَّه تبارک وتعالیٰ اِذا برز لخلقه أقسم قسماً علیٰ نفسه فقال: وعزتِی وجلالِی لا یجوزنِی ظلم ظالم ولو کف بکف... فیقتص للعباد بعضهم من بعض حتیٰ لایبقی لأحد علیٰ أحد مظلمة مولائے کائنات نے فرمایا وہ گناہ جو قابل معافی نہیں ہیں وہ ظلم ہے جو لوگ ایک دوسرے پر کرتے ہیں خداوند عالم قیامت کے دن اپنے عزت وجلال کی قسم کھا کر کہے گا کہ آج کسی کے ظلم سے در گذر نہیں کیاجائے گا چاہے کسی کے ہاتھ پر ہاتھ مارنا ہی کیوںنہ ہو پھر اس دن لوگوں کے ضائع شدہ حقوق کوخدا واپس پلٹائے گا تاکہ کوئی

____________________

(۱) بحا الانوار ج،۷ص ۲۵۸

۲۶۳

مظلوم نہ رہ جائے۔( ۱ ) مولا ئے کائنات نے فرمایا ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھی اور پھر فرمایا : یہاں قبیلہ بنی نجار کاکوئی ہے ؟ان کا دوست جنت کے دروازے پر روک لیاجائے گا اسے داخل ہو نے کی اجازت نہیںدی جائے گی صرف ان تین درہم کے لئے جو فلاں یہودی کا مقروض ہے جبکہ وہ شہدا ء کے مرہون منت ہے۔( ۲ ) قال ابو جعفر:''کُلُّ ذَنب یُکفرّه القتل فی سبیل اللّه اِلّا الدین فانّه لا کفّارة له اِلّا أدائه أو یقضی صاحبه أو یعفو الذی له الحق''امام محمد باقر ں نے فرمایا :اللہ کی راہ میں شہید ہونا ہرگناہ کے لئے کفارہ ہے سوائے قرض کے چونکہ قرض کا کوئی کفارہ نہیں ہے صرف ادا ہے چاہے اس کا دوست ہی ادا کرے یاقرض دینے والا معاف کردے۔( ۳ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک دن لوگو ں کو مخاطب کرکے فرمایا: جانتے ہو فقیر کو ن ہے، مفلس کون ہے ؟ انھوں نے کہا جس کے پاس دولت وثروت نہ ہوہم اسے مفلس کہتے ہیںحضرت نے فرمایا: میری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو روزہ ،نماز اور زکوةکے ساتھ محشر میں آئے گا لیکن کسی کو گالی دی ہو یا غلط تہمت لگا یا ہو اور کسی کے مال کوغصب کیا ہو اورکسی کو طمانچہ ماراہو اس کے گناہ کو ختم کرنے کے لئے اس کی اچھائیوں کوبانٹ دیاجائے گااگر اس کی نیکیاں تمام ہو گئیں تو صاحبان حق کے گناہوں کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔( ۴ )

____________________

(۱)معاد فلسفی ج۳،ص ۱۷۲ ازکافی

(۲)معا د فلسفی ج۲،ص ۱۹۴ احتجاج طبرسی

(۳) سابق حوالہ ۱۹۵ از وسائل الشیعہ

(۴) معاد فلسفی ج۳ ازمسند احمد وصحیح مسلم

۲۶۴

قال أ ّبو عبداللّه ں:''أما أنّه ما ظفر أحد بخیر من ظفر بالظلم أما أن المظلوم یأخذ من دین الظالم أکثر مما یأخذ الظالم من مال المظلوم ''امام صادق نے فرمایا :یہ جان لوکہ کوئی شخص ظلم کے ذریعہ

کامیاب نہیں ہو سکتا اور مظلوم ظالم کے دین سے اس سے زیادہ حاصل کرے گا جتنا اس نے مظلوم کے مال سے حاصل کیاہے۔( ۱ )

صراط دنیا یا آخرت کیاہے ؟

صراط کے معنی لغت میں راستہ کے معنی ہیں قران اور احادیث پیغمبر کی اصطلاح میں صراط دومعنی میں استعمال ہو اہے ایک صراط دنیا اوردوسرا صراط آخرت

صراط دنیا :نجات وکامیابی او ر سعادت کی راہ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے( وأنّ هَذَا صِرَاطیِ مُستقیماً فاتَّبِعُوه وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سبِیلِهِ ) اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو اوردوسرے راستوں کے پیچھے نہ جائو کہ راہ خدا سے الگ ہوجا ئو گے۔( ۲ ) ( وهَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُستَقِیماً ) اور یہی تمہارے پروردگار کا سیدھا راستہ ہے۔( ۳ )

یہ صراط دنیا حدیثوں میں مختلف طریقوں سے آیا ہے من جملہ خدا کو پہچاننے کاراستہ اسلام ،دین ،قرآن ،پیغمبر ،امیرالمومنین ،ائمہ معصومین اور یہ سب کے سب ایک معنی کی طرف اشارہ ہیں وہ ہے سعادت اور کامیابی کاراستہ۔اس راستہ

____________________

(۱) کافی جلد ۳، از مسند احمد وصحیح مسلم

(۲) سورہ انعام آیة ۱۵۳

(۳)سورہ انعام آیة ۱۲۶

۲۶۵

کو پار کرنے کا مقصد عقائد حقہ کا حاصل کرنا ہے (خدا وند عالم کو پہچاننے سے لے کر اس کے صفات اور انبیاء اور ائمہ کی معرفت اورتمام اعتقادات کی شناخت نیز دین کے احکا م پر عمل کرنا اور اخلاق حمیدہ کا حصول ہے ) ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے او رجو بھی دقت اور غور وفکر کے ساتھ اس سے گزر جائے گا وہ راہ آخرت طے کرلے گا۔ صراط آخرت : اس پل اور راستہ کو کہا جا تاہے جو جہنم پر سے گذر ا ہے اور اس پل کادوسرا سراجنت کوپہنچتا ہے جوبھی اسے طے کرلے گا وہ ہمیشہ کی کامیابی پالے گا اور جنت میں اس کا ٹھکانہ جاودانی ہوگا اور جو بھی اس سے عبور نہیں کرپائے گا آگ میں گر کر مستحق عذاب ہوجائے گا( وَاِن مِنکُم اِلَّا وَارِدُهَا کَانَ علیٰ رَبِّک حَتَماً مَقضِیاً ثُمَّ نُنجِی الَّذینَ أِتَّقوا وَ نَذرُ الظَّالِمِینَ فِیهَا جَثِیاً ) اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اسے جہنم میں وارد ہوناہے ہو کہ یہ تمہارے رب کاحتمی فیصلہ ہے اس کے بعد ہم متقی افراد کو نجات دے دیں گے اور ظالمین کو جہنم میں چھوڑ دیں گے۔( ۱ )

اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث ہے جس میں فرمایا ہے: بعض لوگ بجلی کی طرح پل صراط سے گذر جائیں گے، بعض لوگ ہوا کی طرح اور بعض لوگ گھوڑے کی طرح اور بعض دوڑتے ہو ئے اوربعض راستہ چلتے ہوئے اوریہ ان کیاعمال کے لحاظ سے ہوگا ۔

____________________

(۱) سورہ مریم آیة ،۷۲

۲۶۶

جابر ابن عبداللہ انصاری کہتے ہیں : میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :کوئی نیک یا گنہگار نہیں بچے گا مگر یہ کہ اسے دوزخ میں ڈالا جائے گا لیکن مومن کے لئے ٹھنڈی اور سالم ہوگی جیسے جناب ابراہیم کے لئے آگ تھی پھر متقی اس سے نجات پا جائے گا اور ظالم وستم گر اسی آگ میں رہیںگے ۔( ۱ )

جوبھی دنیا کے راستے پر ثابت قدم رہے گا وہ آخرت میں لڑکھڑا ئے گا نہیں

عن مفضل بن عمر قال :سألت أبا عبد اللّهِ علیه السلام عن الصِّراط فقال:هو الطریق اِلیٰ معرفة اللّه عزَّوجلَّ وهما صراطان صراط فیِ الدّنیا وصراط فیِ الآخرة فَأمّا صراط الذیِ فی الدنیا فهو الأمام المفروض الطاعة من عرفه فی الدنیا واقتدیٰ بهداه مرّ علیٰ الصّراط الذی هو جسر جهنم فی الا خرة ومن لم یعرفه فی الدنیا زلت قدمه علیٰ الصّراط فِی الآخرة فتردیٰ فی نار جهنم ۔

مفضّل بیان کرتے ہیں میں نے امام صادق سے صراط کے بارے میں پوچھا : امام نے فرمایا :وہی خدا کو پہچانتے کاراستہ ہے اوریہ دو راستے ہیں ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں لیکن دنیامیں صراط امام ہے جس کی اطاعت واجب ہے اور جو بھی اسے پہچان لے او راس کی اتبا ع کرے تو اس پل سے جو جہنم پر ہے آسانی سے گذر جائے گا اور جس نے بھی اسے نہیں پہچانا اس کے قدم صراط آخرت پہ

____________________

(۱) تفسیر نورالثقلین ج،۳ ص ۳۵۳

۲۶۷

لڑکھڑائیں گے او رجہنم میں گرجائے گا ۔( ۱ )

سورہ الحمد کے اِھدنا الصِّراط المُستقیمَ کے ذیل میں بہت سے حدیثیں تفسیر روائی میں بیان کی گئی ہیں، تفسیر نورالثقلین سے ،ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں''قال رسول اللّه: اِهدنا الصَّراط المُستقیمَ صراط الأنبیّاء و هم الّذین أنعم اللّه علیهم'' رسول اللہ نے فرمایا صراط مستقیم انبیاء کا راستہ ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے نعمت نازل کی ہے ۔

امام صادق نے فرمایا: صراط مستقیم امام کو پہچاننے کا راستہ ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا :واللّه نحن الصّّراط المستقیم خد اکی قسم ہم ہی صراط مستقیم ہیں۔( صِراط الّذین أنَعمتَ عَلیهم ) کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے محمد اور ان کی ذریة( صلوات اللہ علیہم ) مراد ہے ۔

امام محمد باقر ں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا : ہم خد ا کی طرف سے روشن راستے اورصراط مستقیم ہیں اور مخلوقات خد ا کے لئے نعمات الٰہی ہیں۔( ۱ )

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق نے فرمایا :الصَّراط المستقیم أمیرُ المؤمنین امیر المومنین صراط مستقیم هیں قال النبّی :اِذاکان یوم القیامة ونصب الصّراط علیٰ جهنم لم یجز علیه اِلّا مَن کان معه جواز فیه ولایة علی بن أبی طالب علیه السلام وذلک قوله:

____________________

(۱) تفسیر نور الثقلین ج۱،ص ۲۰ تا ۲۴

۲۶۸

( وَقفُوهُم أَنَّهم مَسئُولُونَ ) یعنی عن ولایة علی بن ابی طالب ؛ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا جب قیامت آئے گی اور پل صراط کو جہنم پر رکھاجائے گا کوئی بھی اس پر سے گذر نہیں سکتا مگر جس کے پاس اجازت نامہ ہوگا جس میں علی ں کی ولایت ہوگی اور یہی ہے قول خدا :کہ روکو انہیں ان سے سوال کیا جائے گایعنی علی ابن ابی طالب کی ولا یت کے سلسلے میں سوال کیاجائے گا ۔

دوسری حدیث میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : پل صراط پر وہ اتنا ہی ثابت قدم ہوگا جو ہم اہل بیت سے جتنی محبت کرے گا۔( ۱ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج ۸ ،ص ۶۸۔۶۹

۲۶۹

سوالات

۱۔قیامت میں کس چیز کے بارے میں سوال ہوگا ؟

۲۔ پیغمبر کی نظرمیں فقیر اور مفلس کون ہے ؟

۳۔ صراط دنیا اور صراط آخرت کسے کہتے ہیں ؟

۴۔ امام صادق نے صراط کے سلسلے میں مفضل سے کیافرمایا ؟

۲۷۰

انتالیسواں سبق

بہشت اور اہل بہشت ، جہنم اور جہنمی

انسان کا آخری مقام جنت یا دوزخ ہے یہ قیامت کے بعد او ر ابدی زندگی کی ابتدا ء ہے جنت یعنی جہاں تمام طرح کی معنوی اورمادی نعمتیں ہو ں گی دوزخ یعنی تمام طرح کی مصیبت سختی اور شکنجہ کا مرکز ۔ بہت سی آیتیں اور روایتیں جنت کی صفات ونعمات اور جنتی لوگوں کے بارے میں آئی ہیں یہ نعمتیں روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی، پہلے جیسا کہ بیان کیاجاچکا ہے کہ معاد جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی لہٰذا ضروری ہے جسم اور روح دونوں مستفیض ہوں یہاں فقط ان نعمتوں کی فہرست بیان کر رہے ہیں ۔

جسمانی نعمتیں

۱۔ جنتی باغ : قرآن مجید کی ۱۰۰سے زیادہ آیتیں ہیں جس میں جنت اور جنات وغیرہ جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ایسے باغ جن کا دنیا کے با غات سے تقابل نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہمارے لئے بالکل قابل ادراک نہیں ہے ۔

۲۔بہشتی محلا ت : مساکن طیبہ کے لفظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بہشتی محل میں تمام سہولتیں مہیا ہو ں گی ۔

۳۔ مختلف النوع تخت اور بستر : جنت کی بہترین نعمتوں میں سے وہاں کے بہتریں بستر ہیں جو انسان کے دلوں کو موہ لیں گے اوردل کو لبھا نے والے ہیں جنکے لئے مختلف لفظ استعمال ہوئے ہیں ۔

۴۔ جنتی خو ان : تمام آیتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنت میں طرح طرح کے کھانے ہو ںگے جملہ مِمَّا یشَتھُونَ(من چاہا ) کے بہت وسیع معنی ہیں اور اس کی بہترین تعبیر رنگ برنگ کے پھل ہیں ۔

۵۔ پاک مشروب :جنت میں مشروب مختلف النو ع اور نشاط آورہو گی اور قرآن کے بقول '' لَذةُ لِلشَاربینَ'' پینے والو ں کے لئے لذت وسرور کا باعث

۲۷۱

ہوگا ہمیشہ تازہ ، مزہ میں کوئی تبدیلی نہیں شفاف او رخوشبو دار ہوگا ۔

۶۔ لبا س اور زیورات :انسان کے لئے بہترین زینت لباس ہے قرآن وحدیث میں اہل بہشت کے لبا س کے سلسلے میں مختلف ا لفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے ان کے لبا س کے خوبصورتی او رکشش کا پتہ چلتاہے ۔

۷۔ جنتی عورتیں : شریف عورت، انسان کے سکو ن کاباعث ہے بلکہ روحانی لذت کا سرچشمہ ہے قرآن اور احادیث معصومین میں مختلف طریقہ سے اس نعمت کا ذکر ہواہے اور اس کی بہت سے تعریف کی گئی ہے یعنی جنتی عورتیں تمام ظاہری اور باطنی کمالات کی مظہر ہو ںگی ۔

۸۔ جو بھی چاہئے ''( فِیها مَاتشتهیِهِ الأنفُس وتَلذَ الأعیُن'' ) جو بھی دل چاہے گا اور جو بھی آنکھو ںکی ٹھنڈک کا باعث ہوگا وہ جنت میں موجود ہوگا یہ سب سے اہم چیز ہے جو جنت کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہے یعنی تمام جسمانی او رروحانی لذتیں پائی جا ئیں گی ۔

روحا نی سرور

جنت کی روحانی نعمتیں مادی اور جسمانی لذتوں سے بہتر او ر افضل ہوں گی چونکہ ان معنوی نعمتوں کا ذکر پیکر الفاظ میں نہیں سماسکتا : یعنی کہنے اور سننے والی نہیں ہیں، بلکہ درک کرنے والی او رحاصل کرنے والی اوربراہ راست قریب سے لذت بخش ہیں ،اسی لئے قرآن او رحدیث میں زیادہ ترکلی طور پر او رمختصر بیان کیاگیاہے۔

۱۔ خصوصی احترام : جنت میں داخل ہوتے وقت فرشتوں کے استقبال اور خصو صی احترام کے ذریعہ آغاز ہوگا اورجس دروازہ سے بھی داخل ہوگا فرشتے اسے سلام کریں گے اور کہیں گے صبر اور استقامت کے باعث اتنی اچھی جزاملی ہے ۔

۲۔سکون کی جگہ:جنت سلامتی کی جگہ ہے سکون واطمینان کاگھر( أُدخُلُوا الجَنَّةَ لَا خَوفُ عَلَیکُم وَلَا أَنتُم تَحزَنُونَ ) جا ئو جنت میں داخل ہو جائو۔جہاں نہ کسی طرح کاخوف ہوگا نہ حزن وملا ل پایا جائے گا۔( ۱ )

____________________

(۱)سورہ اعراف آیة ۴۹

۲۷۲

۳۔باوفا دوست اور ساتھی : پاک اورباکمال دوستوں کا ملنا یہ ایک بہترین روحانی لذت ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے( وَحَسُنَ أُولئِکَ رَفِیقاً ) کتنے اچھے دوست ہیں یہ فضل ورحمت خدا ہے۔

۴۔شیریں لہجہ میں گفتگو : جنت میں بے لوث اور اتھاہ محبت فضاکو اور شاداب وخوشحال کردے گی وہا ں لغو اوربیہودہ باتیں نہیں ہوں گی فقط سلام کیاجائیگا ''فی شغل فاکھون''خوش وخرم رہنے والے کام ہو ں ۔

۵۔ بیحد خو شحالی او رشادابی :( تَعرِفُ فیِ وُجُوهِهِم نَضَرةَ النَّعیِمِ ) تم ان کے چہروں پر نعمت کی شادابی کامشاہدہ کروگے( ۱ ) ( وَوُجُوهُ یَومئِذٍ مُسفِرَةُ ضاحکةُ مُستبشِرَةُ ) مسکراتے ہوئے کھلے ہوئے ہوںگے۔( ۲ )

۶۔خد ا کی خوشنودی کا احساس :محبوب کی رضایت کاادراک سب سے بڑی معنوی لذت ہے جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیة۱۵ میں جنت کے سرسبز باغ او رپاک وپاکیزہ عورتوں کے ذکر کے بعد ارشاد ہوتاہے وَ رِضوان مِن اللّہ (خداکی خوشنودی )''( رَضِیَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضُوا عَنهُ ذَلِک الفَوزُ العَظِیمَ'' ) خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے۔( ۳ )

۷۔ بہشتی نعمتوں کاجاویدانی اور ابدی ہونا : خوف اور ہراس ہمیشہ فنا اور نابودی سے ہوتا ہے لیکن جنت کی نعمتیں ابدی او رہمیشہ رہنے والی ہیں فنا کاخوف

____________________

(۱) سورہ مطففین آیة: ۲۴

(۲) سورہ عبس آیة:۳۸۔ ۳۹

(۳) سورہ مائدہ آیة: ۱۱۹

۲۷۳

نہیں ہے یہ بہترین اورابدی خاصیت کے حامل ہیں:( أُکُلُهَا دَائمُ وَظِلُّهَا ) ۔( ۱ )

اس کے پھل دائمی ہوں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا ۔

۸۔ پرواز فکر کی رسائی جہا ں ممکن نہیں :( فَلَا تَعلمُ نَفس مَاأخفیٰ لهُم مِّن قُرَّةِ أعیُن ) کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لئے ایسی مخفی جزاء ہے جواس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوگی۔( ۲ ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :جنت میں ایسی چیزیں ہوں گی جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا او رنہ کا ن نے سنا ہوگا او رنہ ہی قلب کی رسائی وہاںتک ہوئی ہوگی۔( ۳ )

جہنم او رجہنمی لوگ

جہنم، الٰہی قہر وغضب کانام ہے جہنم کی سزا جسمانی اور روحانی دونوںہے، اگرکوئی شخص انہیں فقط روحی اور معنوی سزا سے مخصوص کرتا ہے تویہ قرآن کی بہت سی آیتوں پر توجہ نہ کرنے کے سبب ہے، قیامت کی بحث میں ذکر کیا گیاہے کہ قیامت جسمانی اور روحانی دونوںہے لہٰذا جنت اورجہنم دونوں میں یہ صفت ہے ۔

جہنمیوں کی جسمانی سزا

۱۔ عذاب کی سختی :

جہنم کی سزا اس قدر سخت ہوگی کہ گنہگار شخص چاہے گا کہ بچے ،بیوی ،بھا ئی

____________________

(۱)سورہ رعد آیة :۳۵

(۲) سورہ سجدہ آیة: ۱۷

(۳) المیزان ومجمع البیان

۲۷۴

دوست ،خاندان یہاںتک کہ روی زمین کی تمام چیزوں کو وہ قربان کر دے تاکہ اس کے نجات کاباعث قرار پائے ۔( یَوَدُّ المُجرِمُ لویَفتَدِ مِن عَذَابِ یَومَئِذٍ بِبَنِیهِ وَصَاحِبتِه وأَخِیهِ وَفَصِیلتِه التِ تُؤیهِ وَمَن فیِ الأَرضِ جَمیعاً ثُمَّ یُنجِیهِ ) مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے

لیا جائے اور بیوی اوربھائی کو اور اس کے کنبہ کو جس میں وہ رہتا تھا اورروی زمین کی ساری مخلوقات کو اور اسے نجات دے دی جائے۔( ۱ )

۲۔جہنمیوںکا خورد ونوش :( اِنَّ شَجَرةَ الزَّقُومِ طَعَامُ الأَثِیمِ کَالمُهلِ یَغل فیِ البُطُونِ کَغلِ الحَمِیمِ ) بے شک آخرت میں ایک تھوہڑ کادرخت ہے جوگنہگا ر وںکی غذاہے وہ پگھلے ہوئے تانبے کی مانند پیٹ میں جوش کھائے گا جیسے گرم پانی جوش کھاتاہے۔( ۲ )

۳۔جہنمی کپڑے :( وَتَریٰ المُجرِمِینَ یَومئِذٍ مُقَرَّنِینَ فیِ الأَصفَادِ سَرَابِیلُهُم مِن قَطِرانٍ وَتَغشیٰ وُجُوهَهم النَّارُ ) اور تم اس دن مجرموں کو دیکھو گے کہ کسی طرح زنجیر وں میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے لباس قطران (بدبودار مادہ کے) ہوںگے اور ان کے چہروں کو آگ ہر طرف سے ڈھا نکے ہوئے ہوگی( ۳ ) ( فَالَّذِینَ کَفَرُوا قُطِعَت لَهُم ثِیَابُ مِن نَارٍ یُصبُّ مِن فَوقِ رُؤُوسِهِم الحَمِیمُ یُصهَرُ بِهِ مَا فیِ بُطُونِهِم وَالجُلُودُ ) جولوگ کافر ہیں ان کے واسطے آگ کے

____________________

(۱) سورہ معارج ۱۱۔۱۴

(۲) سورہ دخان ۴۳۔۴۶

(۳)سورہ ابراہیم ۴۹۔ ۵۰

۲۷۵

کپڑے قطع کئے جائیں گے او ران کے سروں پر گرما گرم پانی انڈیلاجائے گا جس سے ان کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے او ران کی جلدیں سب گل جا ئیں گی ۔( ۱ )

۴۔ ہر طرح کاعذاب : جہنم میں ہر طرح کا عذاب ہوگا کیونکہ جہنم خدا کے غیظ وغضب کانام ہے( أِنَّ الَّذیِنَ کَفَرُوا بِآیاتِنا سَوفَ نُصلِیهِمَ نَاراً کُلَّما نَضِجَت جُلُودُهُم بَدَّلنَا هُم جُلُوداً غَیرَها لِیَذُوقُوا العَذَابَ اِنَّ اللَّهَ کَانَ عَزِیزاً حَکِیما ) اور بے شک جن لوگو ں نے ہماری آیتوں کاانکا ر کیاہے ہم انہیں آگ میں بھون دیں گے اور جب ایک کھال پک جائے گی تو دوسری بدل دیںگے تاکہ عذاب کامزہ چکھتے رہیں خدا سب پر غالب اور صاحب حکمت ہے( ۲ )

روحانی عذاب

۱۔ غم والم اور ناامیدی :( کُلَّما أَرادُوا أَنْ یَخرُجُوا مِنها مِن غَمٍّ أُعیدُوا فِیهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الحَریقِ ) جب یہ جہنم کی تکلیف سے نکل بھاگنا چائیں گے تو دوبارہ اسی میں پلٹا دیے جائیں گے کہ ابھی اور جہنم کا مزہ چکھو ۔( ۳ )

۲۔ذلت ورسوائی( وَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیاتِنَا فَأُولئِک لَهُم عَذَابُ مُهِینُ ) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اورہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کے لئے نہا یت درجہ رسواکن عذاب ہے۔( ۴ )

قرآن میں متعدد جگہ اہل جہنم کی ذلت اور رسوائی کوبیان کیا گیا ہے جس

____________________

(۱) سورہ حج ۱۹ تا۲۰

(۲) سورہ نساء آیة ۵۶

(۳) سورہ حج آیة ۲۲

(۴) سورہ حج آیة ۵۷

۲۷۶

طرح وہ لوگ دنیا میں مومنین کو ذلیل سمجھتے تھے ۔

۳۔تحقیر وتوہین :جب جہنمی کہیں گے با ر الہا! ہمیں اس جہنم سے نکا ل دے اگر اس کے بعدھم دوبارہ گنا ہ کرتے ہیں تو ہم واقعی ظالم ہیں ان سے کہا جا ئیگا۔( أخسَئوا فِیهَا وَلَا تُکلِّمُونَ ) اب اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور بات نہ کرو( ۱ )

اخساء کا جملہ کتے کو بھگانے کے وقت کیا جاتا ہے اوریہ جملہ گنہگا روں اور ظالموں کو ذلیل کرنے کے لئے استعمال ہو اہے ۔

۴۔ابدی سزا اور امکا نات :( وَمَنْ یَعصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَأِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدینَ فِیهَا أَبَداً ) اور جو اللہ او ررسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم ہے اور وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔( ۲ )

دائمی اور ابدی ہونا جو جہنمیوںکے لئے ہے بہت دردنا ک اور سخت ہوگا چونکہ ہر پریشانی او ر سختی میں نجا ت کی امید ہی خوشی کاسبب ہوتی ہے لیکن یہاں سختی اور بے چینی اس لئے زیادہ ہوگی،کہ نجا ت کی کوئی امید نہیں ،اس کے علا وہ رحمت خدا سے دوری سخت روحی بے چینی ہے ۔

سوال؟ یہ کیسے ہو گا کہ وہ انسان جس نے زیا دہ سے زیادہ سوسال گنا ہ کئے اسے کروڑوں سال بلکہ ہمیشہ سزادی جائے البتہ یہ سوال جنت کے دائمی ہو نے پر بھی

____________________

(۱) سورہ مومنون آیة:۱۰۸

(۲)سورہ جن آیة ۲۳

۲۷۷

ہے لیکن وہاں خداکا فضل وکرم ہے لیکن دائمی سزا عدالت الٰہی سے کس طرح سازگا ر ہے ؟۔

جواب : بعض گنا ہ جیسے( کفر )کا فر ہونااس پر دائمی عذاب یہ قرین عقل ہے بطور مثال اگر ڈرائیور کا ٹرافیک کے قانو ن کی خلاف ورزی کے باعث ایکسیڈنٹ میں پیر ٹوٹ جائے تو اس کی خلا ف ورزی ایک سکنڈ کی تھی مگر آخری عمر تک پیر کی نعمت سے محروم رہے گا ۔

ماچس کی ایک تیلی پورے شہر کو جلا نے کے لئے کا فی ہے انسان کے اعمال بھی اسی طرح ہیں، قرآن میں ارشاد رب العزت ہے( وَلَا تُجزَونَ اِلَّا مَاکُنتُم تَعملَُونَ ) اورتم کو صرف ویسا ہی بدلہ دیا جا ئے گا جیسے اعمال تم کررہے ہو( ۱ ) دائمی ہونا یہ عمل کے باعث ہے ۔

____________________

(۱)سورہ یس آیة ۵۴

۲۷۸

سوالات

۱۔ جنت کی پانچ جسمانی نعمتوں کو بیان کریں ؟

۲۔جنت کی پانچ روحانی نعمتوںکا بیان کریں ؟

۳۔ اہل جہنم کی تین جسمانی سزائیں بیان کریں ؟

۴۔ اہل جہنم کی تین روحانی عذاب کو بیان کریں ؟

۲۷۹

چالیسواں سبق

شفاعت

شفاعت ایک اہم دینی اور اعتقادی مسائل میں سے ہے قرآن اور احادیث معصومین میں اس کا متعدد بار ذکر آیاہے اس کی وضاحت کے لئے کچھ چیزوں پر توجہ ضروری ہے !

۱۔ شفاعت کے کیا معنی ہیں ؟ لسان العرب میں مادہ شفع کے یہ معنی ہیں : ''الشَّافعُ الطالب لغیره یتشفع به الیٰ المطلوب'' (شافع اسے کہتے ہیں جو دوسرے کے لئے کوئی چیز طلب کرے ) مفردات راغب میں لفظ شفع کے یہ معنی بیان کئے گئے ہیں :''الشفاعة الانضمام الیٰ آخر ناصراً له وسائلاً عنه'' شفاعت ایک دوسرے کا ضم ہو نا اس لحاظ سے کہ وہ اس کی مدد کرے او راس کی طرف سے اس کی ضروریا ت کا طلبگار ہو ۔

مولا ئے کائنات نے اس سلسلے میں فرمایا : الشفیع جناح الطالب شفاعت کرنے والا محتاج کے لئے اس کے پر کی مانند ہے جس کے مدد سے وہ مقصد تک پہنچے گا۔( ۱ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ حکمت ۶۳

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303