اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )12%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155133 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(1)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (2)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (3)

--------------

( 1 ) سورہ سجدہ آیت 18

( 2 )سورہ واقعہ آیت 10 ۔ 11

( 3 )سورہ انفال آیت 72

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (1)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (2) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (3)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

1۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

2۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 247

( 2 )سورہ مریم آیت 28

( 3 )سورہ نساء آیت 95

۱۲۲

3۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

4۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

5۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

6۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت 56:

(56) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت 57:

(57) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(1) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( 1 )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(1) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (2)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (3)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (4)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (5)

--------------

( 1 )تفسیر نور الثقلین.

( 2 )سورہ اعلیٰ آیت 17

( 3 )سورہ بقرہ آیت 184

( 4 )سورہ حج آیت 36

( 5 )سورہ اعراف آیت 26

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (1)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (2)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (3)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (4)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (5)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (6)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (7)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 216

( 2 )سورہ زمر آیت 34

( 3 )سورہ فرقان آیت 16

( 4 )سورہ زمر آیت 74

( 5 )سورہ زمر آیت 10

( 6 )سورہ واقعہ آیت 19

( 7 )سورہ بقرہ آیت 112

۱۲۶

پیام:

1۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

2۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

3۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

4۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

5۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

6۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

7۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

8۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

9۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

10۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

11۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

12۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

13۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

14۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

15۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

16۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت 58:

(58) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً 20 بیس سے تیس 30 سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(1)

--------------

( 1 )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

1۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

2۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

3۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت 59:

(59) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(1)

--------------

( 1 )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت 72 ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت 155 ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت 89 ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت 30 ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت 109

۱۳۱

پیام:

1۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

2۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

3۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

4۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

5۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

6۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

7۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

8۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت 60:

(60) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

1۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

2۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

3۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

4۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت 61:

(61)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت 62:

(62) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

1۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

2۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

3۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

4۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

5۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

6۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

7۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت 63:

(63) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

1۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

2۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

3۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

4۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

5۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت 64:

(64) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

1۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

2۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

3۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

4۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

5۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

1۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

2۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

3۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

4۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (1) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

5۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت 65:

(65)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( 1 )آیت نمبر 12 میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

۲۔ ہما ری بحث کا مقصد وہ شفاعت ہے جس کے ایک طرف خدا ہو یعنی شفاعت کرنے والا ،خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ بنے ،دو مخلوق کے درمیان شفاعت میرامقصد نہیں ہے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ قوی او رمضبوط شخص کاکمزور کے کنارے ہو نااور اس کی مدد کرنا تاکہ وہ کمال کی منزل تک پہنچ سکے اور اولیاء خداکا لوگو ں کے واسطے شفاعت کرنا، قانو ن کی بناء پر ہے نہ کہ تعلقات کی بناء پر اسی سے پتہ چلتا ہے کہ شفاعت اور پارٹی بازی میں فرق ہے ۔

اثبات شفاعت

۳۔ شفاعت مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے ہے اور اس پربہت سی آیات ور روایات دلا لت کرتی ہیں( وَلَا تَنفَعُ الشَّفٰاعَةُ عِندَهُ اِلَّا لِمَن اَذِنَ لَهُ ) اس کے یہاں کسی کی بھی سفارش کام آنے والی نہیں ہے مگر وہ جس کو خود اجازت دے دے( ۱ ) ( یَومَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفٰاعَةُ اِلَّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّحمَٰنُ وَ رَضِیَ لَهُ قَولا ) اس دن کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی سوائے ا ن کے جنہیں خدا نے خوداجازت دی ہے ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہے( ۲ ) ( مَا مِن شَفِیعٍ اِلَّا مِن بَعدِ اِذنِهِ ) کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والانہیں ہے)( ۳ ) ( مَنْ ذَا الّذِ یَشفعُ عِندُه اِلَّا بِاِذنِهِ ) کو ن ہے جواس کی بارگا ہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟( ۴ ) ( وَلا یَشفَعُونَ أِلّّا لِمَنِ ارتَضیٰ ) اور

____________________

(۱) سورہ سبائ ۲۳

(۲) سورہ طہ ۹،۱۰

(۳) سورہ یونس ۳

(۴) سورہ بقرہ ۲۵۵

۲۸۱

فرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کر سکتے، مگر یہ کہ خدا اس کو پسند کرے( ۱ ) ان مذکورہ تمام آیتوں میں کہ جن میں شفاعت کے لئے خد ا کی رضایت اور اجازت شرط ہے یہ تمام کی تمام آیتیںشفاعت کو ثابت کر تی ہیں اور واضح ہے کہ پیغمبر اکرم اور دوسرے معصومین کا شفاعت کرنا خدا کی اجا زت سے ہے ۔

سوال :بعض قرآنی آیتوں میں شفاعت کا انکا ر کیوںکیا گیا ہے ؟جیسے سورہ مدثر کی آیت ۴۸( فَمَا تَنفَعُهُم شَفَاعَةُ الشَّافِعِینَ ) تو انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی( وَاتَّقُوا یَوماً تَجزِِ نَفسُ عَن نَفسٍ شَیئاً وَلَا یُقبلُ مِنها شَفاعةُ وَلَا یُؤخَذُ مِنها عَدلُ وَلَا هُمْ یُنصَرُونَ ) اس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کا بدل نہ بن سکے گا اور کسی کی سفارش قبول نہ ہو گی نہ کوئی معاوضہ لیا جا ئے گا اور نہ کسی کی مدد کی جائے گی۔( ۲ )

جواب : پہلی آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے کہ جنہو ں نے نماز اور خدا کی راہ میں کھا نا کھلا نے کو چھوڑ دیا اور قیامت کو جھٹلا تے ہیں، آیت میں ارشاد ہے کہ ان لوگو ں کے لئے شفاعت کو ئی فائدہ نہیں پہنچائے گی اس میں بھی ضمنی طور پر شفاعت کاہو نا ثابت ہے یعنی پتہ چلتا ہے کہ قیامت میں شفاعت ہے ہر چند کہ بعض لوگوں کے لئے نہیں ہے ۔

اور دوسری آیت کے سیاق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قوم یہو د کے

____________________

(۱)سورہانبیاء ۲۸

(۲) سورہ بقرہ آیة ۴۸

۲۸۲

بارے میں ہے کہ انہوں نے کفر اور دشمنی کو حق کے مقابلے قرار دیاہے یہا ں تک کہ انبیاء الٰہی کو قتل کیا ،لہٰذا ان کے لئے کوئی شفاعت فائدہ نہ دے گی ۔ اوپر کی آیت کلی طور پر شفاعت کی نفی نہیں کر رہی ہے اس کے علا وہ اس کے پہلے کی آیتیں اور متواتر روایات اور اجما ع امت سے شفاعت کاپایاجانا ثابت ہوتا ہے ۔

سوال : بعض آیتوں میں شفاعت کو کیوں فقط خدا سے مخصوص کردیا ہے ؟

جیسے( ما لَکُم مِنْ دُونهٍ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا شَفِیعٍ ) اور تمہارے لئے اس کے علاوہ کوئی سرپرست یاسفارش کرنے والا نہیں ہے۔( ۱ ) ( قُلْ لِلّهِ الشَّفاعَةُ جَمیعاً ) کہہ دیجئے کہ شفاعت کا تما م تر اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔( ۲ )

جواب : واضح رہے کہ بالذات اور مستقل طور پر شفاعت فقط خدا سے مخصوص ہے او ردوسروں کا خدا کی اجازت سے شفاعت کرنا یہ منا فی نہیں ہے ان مذکورہ آیتوں کے مطابق کہ جن میں شفاعت کوخدا کی اجازت کے ساتھ جانا ہے اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض شرائط کے تحت دوسروں کے لئے بھی شفاعت ثابت ہے۔

فلسفۂ شفاعت

شفاعت ایک اہم تربیتی مسئلہ ہے جو مختلف جہتوں سے مثبت آثار کاحامل اور زندگی ساز ہے ۔

۱۔ اولیاء خدا او رشفاعت کئے جانے والے لوگو ں کے درمیان معنوی رابطہ

____________________

(۱) سورہ سجدہ آیة ۴

(۲) سورہ زمر آیة ۴۴

۲۸۳

واضح سی بات ہے جو قیامت کے خو ف سے مضطرب او ر بے چین ہو ایسے کے لئے ائمہ اور پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت کی امید اس بات کا باعث بنے گی کہ وہ کسی طرح ان حضرات سے تعلقات بحال رکھے ۔

اور جوان کی مرضی ہو اسے انجام دے اور جوان کی ناراضگی کا سبب ہو اس سے پرہیز کرے کیو نکہ شفاعت کے معنی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شفاعت کرنے والے اور شفاعت پانے والے کے درمیان معنو ی رابطہ ہونا ضروری ہے ۔

۲۔ شرائط شفاعت کا حاصل کرنا وہ آیت اور احادیث جو پہلے ذکر کی گئیں ان میں شفاعت کے لئے بہت سی شرطیں قرار دی گئی ہیں یہ با ت مسلّم ہے کہ جو شفاعت کی امید میں اور اس کے انتظار میں ہے وہ کوشش کرے گا کہ یہ شرطیں اپنے اندر پیدا کرے سب سے اہم ان میں خدا کی مرضی حاصل کرناہے یعنی لازم ہے ایسا کام انجام دے جوخدا کو مطلوب ہو اور جو شفاعت سے محرومیت کا باعث بنے اسے چھوڑ دے ۔

۲۸۴

شفاعت کے بعض شرائط

الف ) بنیا دی شرط ایمان ہے جولوگ باایمان نہیں ہیں یا صحیح عقیدہ نہیں رکھتے ہیںشفاعت ان کو شامل نہیں ہوگی ۔

ب) نماز چھوڑ نے والا نہ ہو یہاں تک کہ امام صادق کی روایت کے مطابق نماز کو ہلکا بھی نہ سمجھتا ہو ۔

ج) زکا ت نہ دینے والوں میں سے نہ ہو ۔

د) حج چھوڑنے والو ں میں سے نہ ہو ۔

ھ) ظالم نہ ہو( وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِن حَمِیم وَلَا شَفِیع یُطَاع ) کیوں کہ ظالموں کے لئے کوئی مہربان دوست یا کوئی شفاعت فائدہ نہیں دے گی ،سورہ مدثر میں ارشاد ہوا ہے کچھ چیزیں ایسی ہیں جوشفاعت سے انسان کو محروم کردیتی ہیں۔

۱۔نماز کی طرف دھیان نہ دینا۔

۲۔ معاشرہ میں محروم لوگوں کی طرف توجہ نہ کرنا۔

۳ ۔باطل امور میں لگ جانا۔

۴ ۔قیامت سے انکا رکرنا۔

یہ تمام چیزیں سبب بنتی ہیں کہ وہ انسان جوشفاعت کا خواہاں ہے اپنے اعمال میں نظر ثانی کرے اپنے آئندہ کے اعمال میں سدھار لائے لہٰذا شفاعت زندگی ساز اور مثبت آثار کا حامل ہے اور ایک اہم تربیتی مسئلہ ہے( ۱ )

والحمدُ للّهِ ربِّ العالمینَ

____________________

(۱) قیامت کی بحث میں ان کتابو ں سے نقل یا استفادہ کیاگیاہے ،نہج البلا غہ ،بحارالانوار ، تسلیة الفوائد مرحوم شبر،کلم الطیب (مرحوم طیب) ،محجة البیضاء (مرحوم فیض ) ،معاد آقای فلسفی ، معاد آقای مکارم ،معاد آقای قرائتی معاد آقای سلطانی ،تفسیر نمونہ اور سب سے زیادہ جس سے استفادہ کیا گیاہے وہ ہے پیام قرآن ج،۵ و ۶۔

۲۸۵

سوالا ت

۱۔ شفاعت کسے کہتے ہیں اور شفاعت کرنے والے کون ہیں ؟

۲۔ شفاعت کے زندگی ساز اور مثبت آثار بیان کریں ؟

۳ ۔ شفاعت کے شرائط بیان کریں ؟

۲۸۶

منا بع وماخذ

۱۔قرآن

۲۔نہج البلا غہ

۳۔توحید صدوق

۴۔تفسیر پیام قرآن

۵۔بحارالانوار..............محمدباقر مجلسی

۶۔تفسیر نورالثقلین....................عبد علی بن جمعہ عروسی الحویزی

۷۔تفسیر برہان .سید ہاشم بحرانی

۸۔تفسیرالمیزان...........علامہ سید محمد حسین طباطبائی

۹۔تفسیر نمونہ.......آیة اللہ مکارم شیرازی

۱۰۔اصول کافی ........محمد بن یعقوبی کلینی

۱۱۔المراجعات.............. .مرحوم سید شرف الدین عاملی

۱۲۔الغدیر ...............مرحوم علامہ امینی

۱۳۔اثبات الھداة .........مرحوم حر عاملی

۱۴۔کلم الطیب ....................مرحوم طیب اصفہانی

۱۵۔غایة المرام ........مرحوم علامہ بحرانی

۱۶۔غررودرر.................مرحوم آمدی

۱۷۔منتھی الامال ........مرحوم محدث قمی

۱۸۔بررسی مسائل کلی امامت ...................آیة اللہ ابراہیم امینی

۱۹۔تسلیةالفواد................مرحوم شبّر

۲۸۷

۲۰۔سلسلہ بحثھای اعتقادی ..................آیة اللہ مکارم شیرازی

۲۱۔سلسلہ بحثھای اعتقادی ..............آیة اللہ سبحانی

۲۲۔سلسلہ بحثھای اعتقادی ...........آیة اللہ استادی

۲۳۔سلسلہ بحثھای اعتقادی...........حجةالاسلام والمسلمین محمدی ری شہری

۲۴۔درسھای از قرآن ...............حجةالاسلام والمسلمین قرآئتی

۲۵ہستی بخش ورہبران راستین ..........شہید ہاشمی نژاد

۲۶۔گمشدہ شما .............آیة اللہ یزدی

۲۷۔اصول عقائد رااینگونہ تدریس کنیم .............آقایان (آشتیانی ۔امامی ۔حسنی)

۲۸۔خدا شناسی درکلاس درس .............استاد ھریسی

۲۹۔معاد ...................حجةالاسلام والمسلمین فلسفی

۳۰۔معاد ...............حجةالاسلام والمسلمین سلطانی

۲۸۸

فہرست

حرف اول ۴

انتساب ۷

مقدمہ ۸

کچھ اپنی بات ۱۰

پہلا سبق ۱۲

اعتقادی مبا حث کی اہمیت ۱۲

علم عقائد ۱۲

دینی عقیدے کے آثار ۱۳

دین او رمعاشرتی عدالت کی حفاظت ۱۵

بیشمار مسلمان دین کے والا مقام تک کیو ں نہیں پہونچ سکے؟ ۱۶

سوالا ت ۱۸

دوسراسبق ۱۹

توحید فطری ۱۹

فطرت یا معنوی خو اہشات ۱۹

فطرت، روایا ت کی روشنی میں ۲۰

مذہبی فطرت اور دانشوروں کے نظریات ! ۲۲

امیدوں کا ٹوٹنا اور ظہو ر فطرت ۲۴

سوالا ت ۲۶

تیسرا سبق ۲۷

۲۸۹

وجو د انسان میں خدا کی نشانیاں ۲۷

انسان کا جسم ۲۸

جسم انسان ایک پر اسرار عمارت ۲۹

دماغ کی حیرت انگیز خلقت ۳۱

روح انسان مخلوقات عالم کی عجیب ترین شی ٔ ۳۱

روح انسان کی سرگرمیاں ۳۲

اپنی پہچان ۳۳

سوالا ت ۳۵

چوتھا سبق ۳۶

آفاق میں خدا کی نشانیاں (فصل اول ) ۳۶

زمین: ۳۶

چاند اور سورج ۳۸

سوالات ۴۰

پانچواں سبق ۴۱

آفاق میں خدا کی نشانیاں (فصل دوم ) ۴۱

آسمانوں کی خلقت میں غور وخوض ۴۱

خلقت آسمان اور معصومین کے نظریات واقوال ۴۴

مطالعہ آسمانی کے وقت امیر المومنین کی منا جات ۴۴

سوالا ت ۴۸

چھٹا سبق ۴۹

۲۹۰

برہا ن نظم ۴۹

برہان نظم کی بنیا د ۵۰

خلقت، خالق کا پتہ دیتی ہے ۵۰

نیوٹن اورایک مادی دانشمند کا دلچسپ مباحثہ ۵۱

مو حد وزیر کی دلیل منکر بادشاہ کے لئے ۵۲

برہا ن نظم کا خلا صہ اور نتیجہ ۵۳

سوالا ت ۵۳

ساتواں سبق ۵۴

توحید اور خدا کی یکتائی ۵۴

توحید اور یکتائی پر دلیلیں ۵۴

مراتب توحید ۵۷

قرآن او رتوحید در عبادت ۶۰

سوالات ۶۱

آٹھواں سبق ۶۲

صفات خدا (فصل اول ) ۶۲

صفات ثبوتیہ و سلبیہ : ۶۳

صفات ثبوتیہ یا جمالیہ ۶۳

صفات سلبیہ یا جلالیہ ۶۳

صفات ذات و صفات فعل ۶۳

علم خداوند ۶۴

۲۹۱

سوالات ۶۵

نواں سبق ۶۶

صفات خدا وند (فصل دوم ) ۶۶

قدرت خداکے متعلق ایک سوال ۶۸

خدا حی وقیوم ہے ۶۹

ذات خد امیں تفکر منع ہے ۷۲

سوالا ت ۷۳

دسواں سبق ۷۴

صفات سلبیہ ۷۴

صفات سلبی کی وضاحت ۷۵

خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا ۷۵

سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟ ۷۶

وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے ۷۷

وہ ہر جگہ ہے ۷۷

خدا کہا ں ہے ؟ ۷۹

سوالات ۸۲

گیارہواں سبق ۸۳

عدل الٰہی ۸۳

عدل الٰہی پر عقلی دلیل ۸۴

ظلم کے اسباب اور اس کی بنیاد ۸۴

۲۹۲

عدالت خدا کے معانی ۸۵

سوالات ۸۸

بارہواں سبق ۸۹

مصیبتوں اور آفتوں کا راز(پہلا حصہ ) ۸۹

اجمالی جواب: ۸۹

تفصیلی جواب : ۹۰

نا پسند واقعات او رالٰہی سزائیں ۹۱

عذاب او رسزا کے عمومی ہونے پر کچھ سوال ۹۳

سوالات ۹۵

تیرہواں سبق ۹۶

مصائب وبلیات کا فلسفہ (حصہ دوم ) ۹۶

فلسفہ مصائب کا خلا صہ اور نتیجہ ۹۹

سوالات ۹۹

چودہواں سبق ۱۰۰

اختیار او ر میا نہ روی ۱۰۰

عقیدۂ اختیار ۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام ۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل ۱۰۳

سوالا ت ۱۰۴

پندرہواں سبق ۱۰۵

۲۹۳

نبوت عامہ (پہلی فصل ) ۱۰۵

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت ۱۰۵

نتیجہ بحث ۱۰۹

سوالات ۱۱۰

سولھواں سبق ۱۱۱

نبوت عامہ (دوسری فصل ) ۱۱۱

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال ۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد ۱۱۲

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ ۱۱۳

سوالات ۱۱۵

سترہواں سبق ۱۱۶

نبو ت عامہ (تیسری فصل ) ۱۱۶

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق ! ۱۱۶

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟ ۱۱۸

خلا صہ ۱۲۰

سوالات ۱۲۰

اٹھارواںسبق ۱۲۱

نبوت عامہ (چوتھی فصل ) ۱۲۱

عصمت انبیاء ۱۲۱

فلسفہ عصمت ۱۲۲

۲۹۴

انبیاء اور ائمہ کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی ۱۲۳

معصومین کا فلسفہ امتیاز ۱۲۴

امام صادق اور ایک مادیت پر ست کا مناظرہ ۱۲۵

سوالات ۱۲۷

انیسواںسبق ۱۲۸

نبوت عامہ (پانچویں فصل ) ۱۲۸

کیا قرآن نے انبیا ء کو گناہ گار بتایا ہے ؟ ۱۲۸

آدم کا عصیان کیا تھا ؟ ۱۲۹

ظلم کیا ہے اور غفران کے کیا معنی ہیں ؟ ۱۳۱

سوالا ت ۱۳۲

بیسواں سبق ۱۳۳

نبو ت عامہ (چھٹی فصل ) ۱۳۳

سورہ فتح میں ذنب سے کیا مراد ہے ؟ ۱۳۳

انبیاء او رتاریخ ۱۳۵

انبیاء کی تعداد ۱۳۵

سوالات ۱۳۷

اکیسواں سبق ۱۳۸

نبوت خاصہ (پہلی فصل ) ۱۳۸

نبوت خاصہ اور بعثت رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۳۸

رسالت پیغمبر پر دلیلیں ۱۳۹

۲۹۵

قرآن رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دائمی معجزہ ۱۳۹

اعجاز قرآن پر تاریخی ثبو ت ۱۴۱

سوالات ۱۴۵

بائیسواں سبق ۱۴۶

نبوت خاصہ (دوسراباب ) ۱۴۶

خاتمیت پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۴۶

فلسفہ خاتمیت ۱۴۹

سوالات ۱۵۱

تیئسواں سبق ۱۵۲

امامت ۱۵۲

امامت کا ہو نا ضروری ہے ۱۵۳

امامت عامہ ۱۵۳

مناظرہ ہشام بن حکم ۱۵۳

ہدف خلقت ۱۵۴

مہربا ن ودرد مند پیغمبر او رمسئلہ امامت : ۱۵۵

سوالات ۱۵۶

چوبیسواں سبق ۱۵۷

عصمت اورعلم امامت نیزامام کی تعیین کاطریقہ ۱۵۷

قرآن اور عصمت اما م ۱۵۷

ظالم اور ستمگر کون ہے ؟ ۱۵۸

۲۹۶

نتیجہ :چار طرح کے لوگ ہیں ۱۵۹

علم امام ۱۶۱

اما م کے تعیین کا طریقہ ۱۶۱

امام کیسے معین ہوگا ؟ ۱۶۲

سوالات ۱۶۴

پچیسواں سبق ۱۶۵

امامت خاصہ ۱۶۵

مولائے کا ئنات ں کی امامت اور ولایت پر عقلی دلیل ۱۶۵

دومقدمہ ایک نتیجہ ۱۶۵

نتیجہ ۱۶۶

دوسری دلیل ۱۶۶

عصمت اور آیہ تطہیر ۱۶۶

اہل بیت سے مراد ؟ ۱۶۷

اعتراض : ۱۶۹

جواب ۱۶۹

آیة تطہیر او رمولا ئے کا ئنا ت اور انکے گیارہ فرزندوں کی عصمت وامامت ۱۷۰

عصت کے متعلق دوحدیث ۱۷۱

سوالات ۱۷۲

چھبیسواں سبق ۱۷۳

قرآن اور مولائے کا ئنات کی امامت ۱۷۳

۲۹۷

آیة ولایت ۱۷۳

آیة کا شان نزول ۱۷۳

دواعتراض اور انکا جواب ۱۷۵

جو اب : ۱۷۵

جواب: ۱۷۶

آیت اطاعت اولی الامر: ۱۷۷

علی کی امامت اورآیت انذار وحدیث یوم الدار ۱۷۹

حدیث یوم الدار ۱۷۹

سوالات ۱۸۰

ستاسٔواں سبق ۱۸۱

مولا ئے کا ئنا ت کی امامت اور آیة تبلیغ ۱۸۱

مولا ئے کا ئنات کی امامت اور حدیث غدیر ۱۸۲

لفظ مولا کے معنی پر اعتراض اور اس کا جو اب ۱۸۵

جو اب : ۱۸۵

سوالات ۱۸۷

اٹھائیسواں سبق ۱۸۸

حضرت مہدی ں (قسم اول ) ۱۸۸

حضرت مہدی ں کی مخفی ولا دت ۱۸۹

امام زمانہ کی خصوصیت ۱۹۱

سوالات ۱۹۴

۲۹۸

امام زمانہ کے شکل وشمائل (دوسری فصل ) ۱۹۵

امام زمانہ کی غیبت صغریٰ ۱۹۶

امام زمانہ کی غیبت کبریٰ ۱۹۶

سوالات ۱۹۸

انتیسواں سبق ۱۹۹

ولایت فقیہ ۱۹۹

ولایت فقیہ پر دلیل ۲۰۰

ولایت فقیہ پرعقلی دلیل ۲۰۰

دلیل نقلی: ۲۰۰

ولی فقیہ کے شرائط ۲۰۴

سوالات ۲۰۵

تیسواں سبق ۲۰۶

معاد ۲۰۶

اعتقاد معاد کے آثار ۲۰۶

قیامت پر ایمان رکھنے کا فائدہ قرآن کی نظرمیں ۲۰۹

سوالات ۲۱۲

اکتیسواں سبق ۲۱۳

اثبات قیامت پر قرآنی دلیلیں ۲۱۳

پہلی خلقت کی جانب یاد دہانی ۲۱۳

قیامت اورخداکی قدرت مطلقہ ۲۱۴

۲۹۹

مسئلۂ قیامت اوردلیل عدالت ۲۱۶

سوالات ۲۱۸

بتیسواں سبق ۲۱۹

معاد اور فلسفہء خلقت ۲۱۹

قرآن میں قیامت کے عینی نمونہ ۲۲۱

عزیر یا ارمیا ی پیغمبر کاقصہ : ۲۲۱

مقتول بنی اسرائیل کاقصہ: ۲۲۳

سوالات ۲۲۵

تیتیسواں سبق ۲۲۶

بقاء روح کی دلیل ۲۲۶

روح کے مستقل ہو نے پر دلیل ۲۲۸

نتیجہ: ۲۲۸

روح کی بقاء اور استقلال پر نقلی دلیل ۲۲۹

سوالات ۲۳۱

چوتیسواں سبق ۲۳۲

معاد جسمانی اورروحانی ہے ۲۳۲

سوالات ۲۳۶

پیتیسواں سبق ۲۳۷

برزخ یا قیامت صغری ۲۳۷

برزخ ۲۳۷

۳۰۰

301

302

303