اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155112 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پانچواں سبق

آفاق میں خدا کی نشانیاں (فصل دوم )

آسمانوں کی خلقت میں غور وخوض

قال اللّہ :( اِنَّ فِی السَّمٰوَاتِ والأَرضِ لأیاتٍ للمُؤمنِینَ ) ( ۱ ) بے شک زمین وآسمان میں اہل ایما ن کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں ۔

قال اللّہ تعالیٰ:( اِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰواتِ والأَرضِ وَ اختِلافِ اللَّیلِ والنَّهارِ لآیاتٍ لأولِی الألبابِ ) ( ۲ ) بے شک زمین و آسمان کی مخلو ق او ر روز و شب کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں ۔( قَالَت رُسُلُهُم أَ فِی اللّهِ شکُ فَاطِرالسَّمواتِ والأرضِ ) ( ۳ ) ان کے رسولو ں نے کہا : کیا وجو د خدامیں شک ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے ؟

آل عمران کی آیت۱۹۰کی تفسیر کے سلسلے میں حدیث میں وارد ہو اہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک تھوڑی سی استراحت کے بعد اٹھے وضو فرمایا اور مشغول نماز ہوگئے اور اتناگریہ فرمایا کہ آپ کے لباس کا سامنے کاحصہ تر ہو گیا اس کے بعد سجدے میں جاکر

____________________

(۱) سورہ جا ثیہ آیة:۳

(۲) سورہ آل عمران آیة: ۱۹۰

(۳) سورہ ابراہیم آیة: ۱۰

۴۱

اتنا گریہ کیا کہ اشک سے زمین نم ہو گئی ، اور گریہ و ندبہ کی یہ کیفیت اذان صبح تک جاری رہی جب موذن رسول عربی بلا ل نے آپ کو نماز صبح کے لئے آواز دی تو کیا دیکھاکہ آپ کی آنکھیں گریا ں کنا ں ہیں بلا ل نے پوچھ ہی لیا یا رسول اللہ ! گریہ کا سبب کیا ہے ؟جبکہ الطاف و اکرام الٰہی آپ کے گرد حلقہ کئے ہوئے ہیں۔

آپ نے فرمایا : کہ کیا میں خدا کا شاکر بندہ نہ رہو ں ؟اور گریہ کیوں نہ کروں ؟آج رات مجھ پر دل ہلا دینے والی آیات کا نزول ہو اہے پھر مولا نے آل عمران کی مذکورہ آیت کے بعد کی چار آیتوں کی تلا وت فرمائی اور آخرمیں فرمایا :''وَیلُ لِمَن قرأها ولم یتفکر فیها'' ویل (جہنم کا ایک کنواں) ہے اس شخص کے لئے جو اس آیت کو پڑھے اور اس میں تفکر و تدبر نہ کرے ۔( ۱)

فضا کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد دائرہ حیرت میں جو چیز وسعت کا سبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو اور آسمان پر چاند بھی نہ چمک رہا ہو ایسے میں آسمان کی جانب دیکھیں تو جو ایک طولانی علاقہ کمان کی مانند ایک افق سے دوسرے افق تک دیکھا ئی دے رہا ہے وہ سیا ہی زمین،میں ایک سفید نہرکے مانند دیکھا ئی دے گاوہی کہکشاں ہے ہر کہکشاں میں بے شمار ستارے ہوتے ہیں ہماری کہکشاں کی مسافت ایک ( جو کہ ہمارا شمسی نظام اس میں پایا جاتا ہے ) ہزار نوری سال ہے ، سورج جوکہ از حد سرعت کے ساتھ اس کہکشاں کا چکر لگا رہا ہے ڈھائی کروڑ سال میں اس کہکشاں کا مکمل چکر لگاتا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)پیام قرآن ج۲،ص ۱۶۲( متعدد تفاسیر کے حوالے سے )

(۲) راہ تکامل ج۶،ص ۱۰۳

۴۲

آخری تحقیقات کے مطابق کم سے کم ایک کروڑ کہکشاں اس عالم میں ہیں اورصرف ہماری کہکشاں میں ایک ارب ستارے پائے جاتے ہیں۔( ۱ )

خدا وند متعال کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی خلقت آسمان ہے جس کو قرآن نے نہایت ہی اہتمام سے بیان کیا ہے ، اورتین سو تیرہ مرتبہ مفرد وجمع ملا کر آیات قرآنی میں لفظ آسمان کو ذکر کیا ہے، اور علی الاعلان بشریت کو خلقت آسمان میں تدبر کی دعوت دی ہے تاکہ اس کی معرفت میں اضافہ ہوسکے ۔

سورہ ق کی آیة ۶ میں ارشاد ہو ا ۔( أَفَلَم یَنظُرُوا اِلیٰ السَّمائِ فَوقَهُم کَیفَ بَنیناَهَا وَ زَّینَّاها وَمَالَها مِن فُروُجٍ ) کیا انھو ںنے اپنے سر پہ سایہ فگن آسمان کو نہیں دیکھا ( اس میں تفکر نہیں کیا ) کہ ہم نے اس کو کیسے بنایا اس کو (ستاروں ) کے ذریعہ سجا یا سنوارا اور اس میں ( بال برابر ) شگاف نہیں ہے ۔

روایا ت میں آیا ہے کہ شب زندہ دار افراد جب سحر کے وقت نمازشب کے لئے اٹھیں تو پہلے آسمان کی جانب دیکھیں اور سورہ آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت کریں ۔

____________________

(۱) پیام قرآن ج۲،ص ۱۷۶

۴۳

خلقت آسمان اور معصومین کے نظریات واقوال

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نما ز شب کے لئے اٹھتے تھے ،پہلے مسواک کرتے تھے پھر آسمان کی جانب دیکھتے تھے اور اس آیت( اِنّ َفِی خَلقِ السَّمٰواتِ وَ الأرضِ ) ( ۱ ) کی تلاوت کرتے تھے ۔

مطالعہ آسمانی کے وقت امیر المومنین کی منا جات

امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی جن کا نام حبَّہ عرنی ہے کہتے ہیں کہ ایک رات میں نو ف کے ساتھ دارالامارہ میں سویا ہوا تھا، رات کے آخری حصہ میں کیا دیکھاکہ امیر المومنین دارالا مارہ کے صحن میں ایک حیران اور مضطرب شخص کی طرح دیوار پر ہاتھ رکھ کر ان آیا ت کی تلا وت فرمارہے ہیں ۔

( اِنَّ فِی خَلقِ السَّمواتِ والأَرضِ وَ اختِلَافِ اللَّیلِ والنَّهارِ لآیاتٍ لأولِی الأَلبابِ الَّذینَ یَذکروُنَ اللّهَ قِیامًا وَ قُعُوداً وعلیٰ جُنُوبِهِم وَ یتفَکَّرُونَ فِی خلقِ السَّمواتِ والأَرضِ رَبَّنا ماخَلقتَ هذا بَاطِلاً سُبحاَنک فَقِنا عَذَابَ النَّارِ رَبّنا اِنَّک مَنْ تُدخِل النَّارِ فَقَد أَخزَیتهُ وَما للِظَّالمِینَ مِن أنصارٍ رَبَّنا اِنّنَا سَمِعنا مُنادیًا یُنادیِ للایمانِ أَنْ آمِنوا بِرَبِّکُم فأمَنَّا رَبَّنا فَاغفِرلَنَا ذُنُوبَنا وَ کَفِّر عَنا سَیئاتَنا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الأَبرارِ رَبَّنا وآتِنا مَا وَعَدتنا علیٰ رُسُلِک ولا تُخزِنَا یَومَ القِیَامةِ اِنَّک لَا تُخلِفُ المِیعَادَ ) ( ۲ ) بیشک زمین و آسمان کی خلقت لیل و نہا ر کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ جولوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے،خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی خلقت میں غور وفکر کرتے ہیں کہ خدا یا تونے یہ

____________________

(۱) مجمع البیا ن۔ مذکورہ آیة کے ذیل میں

(۲)سو رہ آل عمران آیة ۱۹۰سے۱۹۴تک۔

۴۴

سب بیکا ر نہیں پیدا کیا ،توپاک وبے نیازہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔

پرور دگار !تو جسے جہنم میں ڈالے گا گویا اس کو ذلیل ورسوا کردیا اور ظالمین کاکوئی مدد گار نہیں ہے پرور دگا ر! ہم نے اس منا دی کوسنا جو ایمان کی آواز لگا رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آئو تو ہم ایمان لے آئے ،پرور دگار!اب ہما رے گنا ہو ں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما اورہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرما ،پروردگار! جو تونے اپنے رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے اسے عطا فرمااور روز قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا کہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔

حبہ کہتے ہیں کہ حضرت ان آیا ت کی بار بار تلا وت فرما تے تھے اور خوبصورت آسمان اور اس کے خوبصورت خالق کے تدبر میں کچھ یوں غرق تھے کہ جیسے آپ کھوئے ہوئے ہوں اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور فرمایا: حبّہ جگ رہے ہو یا سورہے ہو؟ میں نے کہا آقا،جگ رہا ہو ں،لیکن میرے سید و سردار!آپ نے اتنے جہاد کئے اتنا روشن وتابناک آپ کا ماضی ہے اس قدر آپ کا زہد و تقوی ہے اورآپ گریہ فرمارہے ہیں، مولا نے آنکھو ں کو جھکالیا اور ہچکیاں لینے لگے پھر فرمایا : اے حبّہ ! ہم سب پیش پروردگا ر حاضر ہیں ،اور ہما را کوئی عمل اس پر پوشیدہ نہیں ہے، حبہ یہ بات بالکل قطعی ہے کہ خدا ہماری او رتمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور کو ئی چیز ہم کو او رتم کو خدا سے چھپا نہیں سکتی ۔

۴۵

اس کے بعد مولا ،میرے ساتھی نوف کی جا نب متوجہ ہو ئے اور فرمایا: نوف سو رہے ہو ؟ انھو ں نے کہا :نہیں مولا آپ کی حیرت انگیز کیفیت کی وجہ سے آج کی رات بہت رویا ہو ں ۔آپ نے فرمایا :اے نوف اگر آج رات خو ف خداسے گریہ کروگے توکل پیش پروردگار تمہاری آنکھیں روشن ومنو ر ہوںگی ۔اے نوف ! کسی کی آنکھ سے ایک قطرہ بھی آنسو کا نہیں گرتا مگر یہ کہ ایک آگ کے دریا کو بجھا دیتا ہے (نوف کہتے ہیں ) آقا کا آخری جملہ یہ تھا کہ ترک ذمہ داری پر خدا سے ڈرو ، اور زمزمہ کرتے ہوئے ہمارے سامنے سے گذر ے اور فرمایا : اے میرے پروردگا ر ! اے کا ش میں یہ جا ن سکتا کہ جس وقت میں غافل ہو ں تونے مجھ سے منھ مو ڑ لیا ہے یا میری جانب متوجہ ہے ! اے کا ش میں جان سکتا کہ اتنی طویل ترین غفلت اور تیری شکرگزار ی میں کوتاہیوں کے باوجو د تیرے نزدیک میر اکیا وقار ہے نوف کہتے ہیں خدا کی قسم صبح تک آقا کی یہی کیفیت تھی۔( ۱ )

امام سید سجا د ں نماز شب کے لئے اٹھے پانی میں ہاتھ ڈالا تاکہ وضو فرمالیں اس بیچ آسمان کی جا نب دیکھا اور اس میں تفکر کرتے ہو ئے اس قدر مشغول ہو گئے کہ صبح ہو گئی اور موذن نے اذان کہہ دی اور آپ کا دست مبارک ابھی تک وضو کے پا نی میں ڈوبا ہواتھا ۔

امیر المومنین ں فرماتے ہیں :سُبحانک ما اعظم ما نریٰ من خَلقک وما أصغر کلّ عظیمة فی جنب قدرتک وما اهول ما نریٰ

____________________

(۱) سفینہ البحار ج۔۱ ص ۹۵ بحار الانوار ج،۴۱ ص ۲۲

۴۶

مِن ملکو تک و ما احقر ذلک فیما غاب عنا من سلطانک وما أسبغ نعمک فی الدنیا وما أصغرها فی نعم الآخرة ( ۱ )

اے پاک وپاکیزہ پروردگار تو کتنا عظیم ہے ان چیزوں سے جو تیری مخلوقات میں مشاہدہ کرتے ہیں تیری قدرت کے سامنے سارے بلند قامت کس قدر (بونے دکھا ئے دیتے ہیں اور ) چھو ٹے ہیں ، ملکو ت کتنا حیرت انگیز (شاہکا ر ) ہے او رکتنی ایسی چھوٹی چیزیں ہیں جو تیری سلطنت میں ہما ری نگا ہو ں سے اوجھل ہیں دنیا میں تیری نعمتیں کتنی بے شمار ہیں اور آخرت کی نعمتوں کے مقابل یہ کتنی تھوڑی سی معلوم ہوتی ہیں ۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ

۴۷

سوالا ت

۱۔ پیغمبر کے گریہ کا سبب کیا تھا اور بلا ل سے کیا فرمایا ؟

۲۔ کہکشاں کیا ہے ؟اور ہماری کہکشاں کا دائرہ کتناہے ؟

۳۔ منا جا ت امیرالمومنین کے سلسلہ میں حبہ کی داستان کا خلا صہ بیان کریں؟

۴۸

چھٹا سبق

برہا ن نظم

پچھلے سبق سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں ایک خاص قسم کا نظام پایا جاتا ہے اور اس بات کا امکا ن بھی نہیں ہے کہ موجودات عالم میں پائے جانے والے نظم ونسوق کی تردید کو ئی بھی عاقل انسان کر سکے ، کا ئنا ت کے مادی ذرات میں سے سب سے چھوٹی شی (ایٹم ) او ربڑی سے بڑی چیز ،کہکشاں ہے سب جگہ اور ہر چیز میں ایک خاص نظم وضبط پایا جاتا ہے اور دقیق حساب کے تحت گردش کرتے ہیں ۔

انسان ،حیوان ، نباتات وجمادات او رزمین وآسمان کی دوسری تمام موجودات ایک مقصد کے پیش نظر پیدا کی گئی ہیں اور ان پر ایک خاص قانون ہے جو حکمرانی کرتا ہے اور ان کی ہدایت کر رہا ہے یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیاپر نظم و تنظیم کی حکمرانی نہ ہو تی تو دنیا کے بارے میں معلومات بھی حاصل نہ ہوتی،کیونکہ علم کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان عمومی نظام و قوانین کی دریافت ہو جودنیاپر حکم فرما ہیں ۔

اگر جسم انسان کے خلیہ کی نقل و حرکت اور جسمانی نظم کی رد و بدل ایک خاص راہ و روش پر مشتمل نہ ہو تی تو فیزیو لوزی اور علم طب کا وجو د کیسے آتا ؟

اگر سیارات وکو اکب ایک خاص نظام کے تحت گردش نہ کرتے ہو تے توعلم نجو م ( ستارہ شناسی ) کا وجو د کیو نکر ہو تا؟اور اگر ان میں خاص نظم و ضبط نہ ہو تا تو ستارہ شنا س افراد چاند گہن اور سورج گہن کو کیسے معین کرسکتے ؟ اور سورج کے طلوع و غروب کو ہمیشہ کیسے معین کرسکتے ؟

اور یہی نظم جو کائنات پر کار فرماہے اسی بات کا سبب بنا ہے کہ دانشمند افراد ریاضی اور فیزیکی طریقہ سے اندازہ لگا کر بغیر کسی ذمہ دار (کنٹرولر ) کے ایک خاص سفینہ تیار کر کے کو اکب کی سیر کو بھیج دیتے ہیں۔

خلا صہ یہ کہ علم نظام، اشیاء کا مفسّر ہے جو دوسری چیزوں میں پایا جاتاہے اور علم ونظم کا رشتہ بالکل واضح و روشن ہے ۔

قرآن مجیدنے خدا کو پہچاننے کے لئے برہان نظم سے بہت استفادہ کیا ہے اوراس جا نب ہم پہلے ہی اشارہ کر چکے ہیں ، یا یو ں کہا جا ئے کہ قرانی نظرئے کے تحت خدا کو پہچاننے کا بہترین اور واضح راستہ نظام خلقت اورآثار موجودات کا مطالعہ ہے ۔

۴۹

برہان نظم کی بنیا د

یہ دلیل دو بنیادوں ( صغری و کبری) اورایک نتیجہ پر مشتمل ہے

۱۔ یہ دنیا ایک خاص نظام او ردقیق حساب کے تحت خلق ہو ئی ہے اور موجودات کے ہر ذرے میں ایک خاص قسم کا قانون کار فرما ہے جس میں تبدیلی نا ممکن ہے ۔

۲۔ جہاں بھی نظم وتدبیر کا دقیق خیال رکھا گیا ہو وہاں اضافات و اتفاقات کا امکان نہیں ہے اور یہ کیفیت یقینا کسی علم و قدرت سے منسلک ہے ۔

نتیجہ: اس دنیا کا نظم وضبط اور اس کی تدبیربہ نحو احسن اس بات پر گواہ ہے کہ ایک علیم و خبیر خالق نے نہایت خو ش اسلو بی سے اس کا نقشہ تیار کیا ہے اس کے بعد عالم ہستی کو انہیں بنیادوں پر قائم کیا۔

خلقت، خالق کا پتہ دیتی ہے

اگر ایک گاڑی کا وجو د اس کے بنانے والے او رایک کتاب کا وجو د اس کے لکھنے والے، ایک مکان کا وجود اس کے معمار کا پتہ دیتاہے تویہ عظیم خلقت یہ دقیق نظام ،حکیم وعلیم ،قادر یعنی خدا وند متعال کے وجو د کا جیتا جا گتا ثبوت ہے ۔

ایک سیٹ لائٹ بنا نے کے لئے سیکڑوں سائنس داں، دن رات سرجو ڑ کر تحقیق کرتے ہیں اور دقیق ریاضی اور علم حساب کے تحت ا س کو فضا میں چھوڑتے ہیں اور اس میں حرکت پیدا کرتے ہیں ۔

کروڑوں کہکشائیں جس میں کروڑوں منظومۂ شمسی ہیں او ر ان میں سے ہر ایک میں کروڑوں سیارات وکو اکب پائے جا تے ہیں اور سب کے سب فضا میں بغیر کسی تھوڑی سی غلطی کے گردش کرتے ہیں کیاقادر مطلق خدا کے وجود پر دلیل نہیں ہیں ؟۔

۵۰

نیوٹن اورایک مادی دانشمند کا دلچسپ مباحثہ

مشہو ر ستارہ شناس اور ریاضی داں نیوٹن نے ایک ماہر مکینک سے کہا کہ ایک چھوٹا سا سانچہ ،منظومہ شمسی کے لئے تیار کرو اس منظومہ کے سیارات چھوٹے چھوٹے گیند تھے جو ایک تسمہ سے بندھے ہو ئے تھے اوران کے لئے ایک ہینڈل بنایاگیا تھا جب اس کو چلاتے تھے تو نہایت ہی دلکش کیفیت میں وہ سارے گیند اپنے اپنے مدار پر گردش کرتے تھے اور اپنے مرکز کے ارد گرد چکر لگا تے تھے ۔

ایک دن نیوٹن اپنے مطالعہ کی میز کے پاس بیٹھا تھا او ریہ سا نچہ بھی وہیں رکھاتھا ۔ اس کا ایک قریبی دوست جو میٹر یالیزم کا مفکر ودانشمند تھا آیا جیسے ہی اس کی نگا ہ اس خوبصورت سانچہ پر پڑی وہ ششدر رہ گیا اورجب نیوٹن نے اس ہینڈل کو گھمایا اور وہ سارے سیارا ت بہت ہی آہستہ او ردلکش انداز میں اپنے مرکز کے گرد چکر لگانے لگے تو اس کی حیرانی میں اور اضا فہ ہو گیا او رچیخ پڑا ،ارے واہ ،یہ تو بہت ہی حیرت انگیز چیزہے اس کو کس نے بنایا ہے ،نیو ٹن نے کہا کسی نے نہیں ،یہ یک بیک بن کر تیار ہوگیاہے ،اس مادی مفکر نے کہا:نیوٹن صاحب آپ کیاسمجھتے ہیں کہ میں نراپاگل ہو ں یہ سانچہ خو د بخود کیسے بن سکتا ہے کیا یہ ممکن ہے !۔

نہ صرف یہ کہ اس کا بنا نے والا کو ئی ہے بلکہ اس کا بنانے والا عصر حاضر کا نا بغہ ہے نیوٹن آہستہ سے اٹھا اوراس مفکر کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر بولا میرے اچھے دوست جو تم دیکھ رہے ہو وہ صرف ایک سانچہ ہے جو ایک عظیم نظام شمسی کے تحت بنایا گیا ہے ! اور تم اس بات پر بالکل راضی نہیں ہوکہ یہ خو د بخود بن گیا ہے توتم اس بات کو کیسے مان لیتے ہو کہ خود نظام شمسی اپنی تمام تر وسعت و پیچیدگی کے ساتھ بغیر کسی عاقل وقادر کے وجو دمیں آگیا ؟!مادی مفکر بہت شرمندہ ہو ااور لا جواب ہو کر رہ گیا جی ہاں

۵۱

یہ وہی برہان نظم ہے جو قادر و توانا خدا کے وجود پر دلیل ہے( ۱ )

مو حد وزیر کی دلیل منکر بادشاہ کے لئے

ایک خدا کے منکر بادشاہ کا ایک توحید پرست وزیر تھا وزیر جو بھی دلیل پیش کرتا وہ قبول نہ کرتا .یہاں تک کہ وزیر نے بادشاہ کو اطلاع دئے بغیر ایک بہترین محل بنوایا ،جو آب وہوا کے حساب سے بھی بہت منا سب تھا اور اس میں انواع و اقسام کے پھل اورپھول لگے ہو ئے تھے ایک دن وزیر نے بادشاہ کو اس محل کے دیدار کی دعوت دی، بادشاہ کو وہ محل بہت پسند آیا اس نے پوچھا اس کا معمار و انجینئرکو ن تھا؟وزیر نے فوراً جو اب دیا بادشاہ سلا مت نہ ہی اس کا کو ئی انجینئر ہے اور نہ معمار ، ہم نے دیکھا کہ اچانک ایک محل تیار ہو گیا بادشاہ آگ بگو لہ ہو گیا او ربولا کہ تم میرا مذاق اڑا رہے ہو کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی چیز خودبخود پید ا ہو جا ئے ؟وزیر نے کہا : بادشاہ سلا مت اگر یہ چھوٹا سا قصر بغیر کسی بنا نے والے کے نہیں بن سکتا تو اتنی بڑی دنیا اپنی تمام ترعظمتوں کے ساتھ یہ زمین وآسمان یہ دریا و سمندر اور اس کے تما م موجودات بغیر خالق کے کیسے وجود میں آگئے؟بادشاہ سمجھ گیا اس نے وزیر کو سراہا اور خدا شناسی کی راہ پرآگیا ۔

____________________

(۱) ہستی بخش ص ۱۴۹ شہید ھا شمی نژاد

۵۲

برہا ن نظم کا خلا صہ اور نتیجہ

تما م مخلو قات منجملہ:

۱ ۔کہکشاں ،سیارات وکواکب

۲۔انسان او ر اس کے تمام رموز و اسرار جو اس کی خلقت میں پوشیدہ ہیں ۔

۳۔ ایٹمس ، خلیہ اور اعصاب

۴۔حیوانات اور ان کے مختلف اقسام

۵۔ نبا تات اور ان کے خو اص

۶۔دریا ،سمندر اور ان کے عجائبات و مخلو قات

۷۔ جہا ن خلقت کا دقیق نظم وضبط

۸۔اس دنیا کی وہ ساری چیزیں جو ابھی عقل بشر میں نہیں آئی ہیں سب کی سب حکیم و دانا اور قادر خداوند عالم کے وجود پر دلیل ہے۔

سوالا ت

۱۔نظمِ جہان کے علم کی پیدا وار کیسے ہو ئی ؟

۲۔ برہا ن نظم کی اساس و بنیاد کیا ہے ؟

۳۔ نیو ٹن اور مادی مفکر کے مباحثہ کا خلا صہ بیا ن کریں ؟

۴۔ موحد وزیر کی دلیل منکر بادشاہ کے لئے کیا تھی ؟

۵۳

ساتواں سبق

توحید اور خدا کی یکتائی

قال اللّہ تعا لیٰ:( فَاِلٰهُکُم اِلهُ وَاحدُ فَلَهُ أَسلِمُوا ) ( ۱ ) تم سب کا خد اایک ہے لہٰذا اس کے سامنے سر تسلیم خم کردو ۔( لا تَجعل مَعَ اللّٰهِ اِلهًا آخَر ) ( ۲ ) خدا کے ساتھ کو ئی دوسرا معبود قرار نہ دو( لَوکانَ فِیهِماَ أَلِهةُ اِلّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ) ( ۳ ) اگر زمین و آسمان میں دو خدا ہوتے تو زمین و آسمان ختم ہوجا ئے ۔

تمام الٰہی رسولوں کا اصلی نعرہ توحید تھا اور پیغمبر عربی کو ہ حرا سے''قولوا لا الہ الا اللّٰہ تفلحوا'' کہتے ہو ئے آئے اور آپ نے حدیث میں فرمایا کہ :افضل العبادة قول لااله الا اللّٰه بہترین عبادت لا الہ الا اللّٰہ کہنا ہے ۔

توحید اور یکتائی پر دلیلیں

۱۔ وہ خدا جوکما ل مطلق ہے اور اس کے لئے کو ئی حد اور مقدار نہیں ہے وہ پروردگارجو ازلی و ابدی ہے، وہ پرور دگار کہ زمان و مکا ن جس کی پیداکی ہوئی مخلوق

____________________

(۱)سورہ حج آیہ: ۳۴

(۲) سورہ اسراء آیة: ۲۲

(۳) سورہ انبیاء آیة:۲۲

۵۴

ہے اور وہ ایک ہی ہے ۔ اگر خدا کے لا محدود و لا متناہی ہو نے کے بارے میں غور و فکر کریں تو بات یہ کھل کر سامنے آئے گی کہ ایک کے علاوہ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ تعدّد محدودیت کا سبب ہے ۔

۲۔ دنیا میں ایک نظام کا بول بالا ہے اور ایک نظام کسی ایک ناظم کے وجو د کا متقاضی ہے ستارہ شناس ،دا نشور جن قوانین و نظام کا مشاہدہ کہکشاں وکرات میں کرتے ہیںاورا یٹمی ماہرین بھی ایٹمی ذرات میں انہیں قوانین کامشاہدہ کرتے ہیںنیز یہی قوانین جسم انسان میں بھی کا ر فرما ہیں، او راگر ایک کے سوا دوسراحاکم و ناظم ہو تا تو عالمی نظام درہم برہم ہو جا تا ، یہی معنی ہیں( لَو کَانَ فِیهِمَا آلِهةُ اِلاّ اللّٰهُ لَفَسدَتَا ) ( ۱ ) کے۔

۳۔ وحدانیت خدا پر تمام انبیا ء کی خبریں اس کی وحدانیت پر ٹھوس دلیل ہیں وہ تمام انبیاء و مرسلین جو خدا کی جانب سے احکام الٰہی کو پہچانے پر متعین تھے سب نے خدا کو واحد بتایا ہے .حضرت امیرالمومنین مام حسن سے وصیت کرتے وقت فرماتے ہیں :واعلمْ یا بُنی أَنه لو کان لربک شریک لأتتک رسله و لرأت آثار ملکه و سلطانه و معرفة أفعاله وصفاته و لکنَّه اللّٰه واحد کما وصف نفسه ( ۲ ) میرے لا ل جان لو کہ اگر خداکاکوئی شریک ہو تا تو اس (شریک)کا کو ئی رسول تم تک ضرور آتا اور اس کی قدرت و ملوکیت

____________________

(۱) سو رہ انبیا ء آیة: ۲۲

(۲) نہج البلا غہ مکتوب، ۳۱۔امام حسن سے وصیت سے متعلق

۵۵

کے آثار تم ضرور دیکھتے ، اس کے افعال و صفات سے ضرور آگا ہ ہو تے لیکن وہ واحد ویکتا ہے جیسا کہ خو د اس نے اپنی توصیف میں کہاہے( وَمَا أَرسَلنا مِن قَبلِک مِنْ رَسُولٍ اِلَّا نُوحِی اِلیه أنَّهُ لا اِله اِلَّا أَنا فَاعبُدُون ) ( ۱ ) میرے حبیب ہم نے تم سے پہلے کسی نبی کو نہیں مبعوث کیا مگر یہ کہ ہم نے اس تک وحی کی کہ میرے علاوہ کو ئی معبود نہیں ، لہٰذا میری عبادت کرو ۔

مسئلہ توحید تمام اوصاف الہیہ کی شنا خت کا بنیا دی مسئلہ ہے کیونکہ اس کی یکتائی اس کے لا محدود ہو نے پر دلا لت کر تی ہے اور یہی وجو د (وحدا نیت ) ہے جو تمام کمالا ت کا مجموعہ ہے او رہر طرح کے عیب سے پاک ومنزہ ہے خلا صہ کلا م یہ کہ اگر ہم نے خد اکو حقیقی معنوں میں واحد ویکتا مان لیا تو گویا اس کے سا رے صفات سے آشنا ہو گئے ۔

عَن أَبیِ عبد اللّٰهں قال : مَن قال لا اِله الَّا اللّه مُخلِصاً دخل الجنَّة و اِخلاصه أن تحجزه لا اِله الّا اللّه عمّا حرّم اللّه عزّوجلَّ ( ۲ )

امام صادق نے فرمایا:جو کو ئی خلو ص کے ساتھ لا اِلہ الّا اللّہ کہے گا وہ داخل بہشت ہو گا اور اس کا خلو ص اس بات کا متقاضی ہے کہ''لا اِلہ الّا اللّہ'' کو ہر اس چیز سے دور رکھے جس کو خد انے حرام قرار دیا ہے ۔

____________________

(۱) سو رہ انبیاء آیة۲۵

(۲) توحید صدوق باب ثواب المو حدین حدیث ۲۶

۵۶

قال ابو عبد اللّه علیه السلام : مَن قال لا اله اِلاّ اللّه مائة مرّة کان أَفضل النّاس ذلک الیوم عملاً اِلّا من زاد ۔

امام جعفر صادق نے فرمایا : جو شخص سو مرتبہ خلوص کے ساتھ لا الہ الا اللّہ کہے تو روز محشر (اس) عمل کے باعث افضل ناس میں شمار ہو گا مگر یہ کہ کو ئی اس سے زیادہ کہے ہو( ۱ )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : پیش پروردگار لا اِلہ اِلّا اللّہ سے بہتر کو ئی کلا م نہیں ہے جو شخص لا اِلہ اِلّا اللّہ کی تکرار کرے گا اس کے گنا ہ یوں ختم ہوں گے جیسے درخت سے سو کھے پتے جھڑجاتے ہیں۔( ۲ )

مراتب توحید

۱۔توحید ذاتی: یعنی ہر جہت سے بے نظیر اور تمام جہات سے کا مل ہو۔ (لَیسَ کَمِثلهِ شَیئُ وَهُوَ السَّمِیعُ البَصیرُ )( ۳ )

اس کی مانند کو ئی شیٔ نہیں ہے وہ سننے اور دیکھنے والا ہے(ولَم یَکن لَهُ کُفواً أَحد )( ۴ ) اس کا کو ئی ہمسرو ہم پلہ نہیں ہے ۔

۲۔ توحید صفاتی : یعنی اس کے تمام صفات کی بازگشت صرف ایک طرف ہے اس کے صفا ت اس کی عین ذات ہے یعنی وہی خدا ہے جو عالم ،قادر ،حی ،... ہے ایک

____________________

(۱) توحید صدوق باب ثواب المو حدین ۔۱ حدیث ،۳۳

(۲)سابق حوالہ حدیث ،۱۵

(۳) سورہ شوری آیة ۱۱

(۴) توحید۴۔

۵۷

شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور عرض کی بنیاد علم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : معرفة اللّہ حقُّ معرفتہ (خدا کے شایان شان اس کی معرفت حاصل کرنا ہے )اس نے عرض

کیا حق معرفت کیا ہے ؟آپ نے فرمایا :'' اِن تعرفه بلا مثال ولا شبه وتعرفه اِلها واحداً خالقاً قادراً اوّلاً وآخراً وظاهرأً وباطناً لا کفو له ولا مثل له فذاک معرفة اللّه حقّ معرفته'' اس کو بلا شبیہ وبلا مثل جانو، اس کو ایسا خدا جانو جو واحد ،خالق ، قادر ، اول ،آخر ،ظاہر وباطن ہے، نہ ہی ا س کا کوئی ہم پلہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مثل ہے ، خدا کو اس طرح جاننا اور ماننا حق معرفت خدا وندی ہے۔( ۱ )

۳۔ توحید افعالی :توحید افعال کا مطلب دونوں عالم کے تمام امور فعل خداوند سے متعلق ہیںتمام موجو دات جس خاصیت کے بھی حامل ہو ںذات الٰہی کی مرہون منت ہیں،گلوں کی شگفتگی ،سورج کی ضیا ء باری ، مشکلات کا حل، سب کا سب اس کی ذات سے متعلق ہے. یعنی کا ئنات ہستی کی کسی شئی میں استقلا ل نہیں، اس دنیا میں مستقل و موثر صرف ذات خداوندی ہے ،دوسرے لفظوں میں یو ں کہا جائے کہ موجودات عالم جس طرح اپنے وجو د میں ذات الٰہی سے وابستگی پر مجبور ہیں اپنے تاثیر و فعل میں بھی مجبور ہیں البتہ اس کے معنی یہ ہرگزنہیں ہیں کہ قانو ن علیت وعالمِ اسبا ب کی نفی کردی جا ئے ۔

امام صادق کے فرمان کے مطابق کہ :أبی اللّه أن یجری الأشیاء اِلّا بأَسبابٍ ( ۲ ) خدااس بات سے پر ہیز کرتا ہے کہ کوئی چیز حرکت نہ

____________________

(۱) بحاالا نوار ج۳ ص ۱۴ ۔

(۲)اصول کا فی باب معرفة الامام حدیث ۷۔

۵۸

کرے مگر اپنے اسبا ب کے تحت، توحید افعالی کا اعتقاد ہرگزانسان کے لئے جبرا ور سلب اختیار کاموجب نہیں ہو گا ؛انشاء اللہ آئندہ بحثوں میں اس بات کی جانب اشارہ کریں گے کہ انسان اپنے افعال میں خو د مختار ہے لیکن تمام قوت و قدرت حتی ارادہ انسا ن بھی خدا کے ہاتھوں ہے( قُلِ اللّهُ خَالِقُ کُلِّ شَیئٍ وَهُوَ الوَاحدُ القَهّارُ ) ( ۱ ) اے نبی! کہہ دیجئے کے خدا تمام اشیاء کا خالق ہے وہ ایک او رقہا ر ہے.( ذَلکُمُ اللّهُ رَبَّکُم لا اِله اِلّا هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیئٍ فَاعبُدوُهُ وَ هُو علیٰ کُلِّ شییئٍ وَکِیلٍ ) ( ۲ ) اللہ ہی تمہارا خدا ہے اس کے سو ا کو ئی معبود نہیں وہ ہر شی ٔکا خالق ہے لہٰذا اس کی عبادت کرو وہ ہر شی ٔ کا محافظ و مدبر ہے ۔

۴۔ توحید در عبادت :توحید کی قسمو ںمیں حساس ترین قسم توحید در عبادت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں او راس کے علاوہ کسی کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں ،توحید در عبادت ، توحید در ذات اور توحید در صفات کا لا زمہ ہے جب یہ بات مسلم ہو گئی کہ وہ واجب الوجو د ہے او راس کے سو ا سبھی ممکن و محتاج ہیں لہٰذا عبادت صرف اسی سے مخصوص ہے اور وہ کمال مطلق ہے اس کے علا وہ کسی کمال مطلق کا وجو د نہیں ہے ۔عبادت کا مقصد بھی کمال طلبی ہے لہٰذا عبادت صرف ذات پروردگا ر سے مخصوص ہے تمام انبیاء و مرسلین کی تبلیغ کا عنوان کلی ،توحید در عبادت تھا آیات قرآنی بھی اس سلسلہ میں موجود ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ رعد آیة: ۱۶

(۲)انعام آیة ۱۰۲

۵۹

قرآن او رتوحید در عبادت

۱۔( وَ لَقَد بَعثَنَا فِی کُلِّ أُمةٍ رَسُولاً أَن اعبُدُوا اللّه واجَتنِبوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تاکہ خدا ئے یکتا کی عبادت کریں او رطاغوت سے پر ہیز کریں ۔

۲۔( وَماَ أَرسَلنَا مِنْ قَبلِک مِنْ رَسُولٍ اِلّا نُوحِی اِلیه أَنّهُ لا اِله اِلَّا أَنَا فَاعبُدُونِ ) ( ۲ ) ہم نے آپ سے قبل کسی رسول کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس پر وحی کی کہ میرے علاوہ کو ئی معبود نہیں لہٰذا میری عبادت کرو ۔

۳۔( وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّی وَ رَبُّکُم فَاعبُدُوه هذا صِراطُ مُستقِیمُ ) ( ۳ ) بیشک اللہ ہمارا او رتم سب کا پر ور دگا رہے لہٰذا اس کی عبادت کرو اوریہی سیدھا راستہ ہے۔

اس نکتہ کی جانب توجہ ضروری ہے کہ احترام، تواضع او رخشوع کے مراتب و درجات ہیں اور سب سے آخری اور اعلی درجہ پرستش و عبودیت ہے .اوریہ مرحلہ صرف ذات خدا وند سے مخصوص ہے جس کا بین ثبوت سجدہ ہے ۔

اسی بناء پر غیر خداکا سجدہ کرنا جائز نہیں ہے. او ریہ بات مسلّم ہے کہ اگر انسان عبودیت کے اس مرحلہ پر پہنچ جائے اور پیش پرور دگا ر اپنی پیشانی کو خاک پر رکھ دے تو گویا اس نے اطاعت خدا کی راہ اور اپنے تکامل میں بہت زیادہ پیش قدمی

____________________

(۱) سورہ نحل آیة: ۳۶

(۲) سورہ انبیا ء آیة: ۲۵

(۳) سورہ مریم آیة:۳۶

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قرآن میں قیامت کے عینی نمونہ

عزیر یا ارمیا ی پیغمبر کاقصہ :

(( أَوکالَّذِ مَرَّعلیٰ قَریةٍ وَهِیَ خَاویةُ علیٰ عُرُوشِها قاَلَ أَنّی یُحییِ هذهِ اللَّهُ بَعَدَ مَوتِها فأَماتهُ اللَّه مِائةَ عام ثُمَّ بَعَثهُ قَالَ کَم لَبِثتَ قَالَ لَبِثتُ یَوماً أَوبَعضَ یَومٍ قَالَ بَل لبِثتَ مِائةَ عامٍ فَانظُر اِلیٰ طَعامِک وَشَرَابِک لَمْ یَتسنَّه وَأنظُر اِلیٰ حِمَارِک وَلِنَجعَلک آیةً للنَّاسِ وَانظُر اِلیٰ العِظَامِ کَیفَ نُنشزُهَا ثُمَّ نَکَسُوهَا لَحمًا فَلمَّا تَبَیّنَ لَهُ قَالَ أَعلمُ أَنَّ اللَّهَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''جنا ب عزیر کا ایک دیہات سے گزر ہوا آپ نے دیکھا کہ وہ تباہ وبرباد پڑا ہو اہے ۔ کہا خدا ان مردوں کو کیسے زندہ کریگا خدانے انہیں سوسال کی موت دیدی پھر انہیںزندہ کیا پوچھاکتنے دن تک سوئے رہے کہا ایک دن یا اس سے کم خدا نے کہاتم یہا ں سوسال تک سوتے رہے ہو ذرا اپنے کھانے اورپینے کی طرف دیکھو جو ختم ہوچکا ہے اپنے گدھے کی طرف دیکھو جو خاک میں مل چکا ہے تاکہ میں تمہیں لوگوں کے لئے نشانی قرار دوں اپنی ہڈیوں کیطرف دیکھو کہ انہیں جمع کرکے ان پر گوشت چڑھا یا چونکہ یہ بات ان کے واسطے واضح ہوچکی تھی کہا: جانتا ہو ں خد اہر چیز پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ''وہ برباد شہر جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ (بیت المقدس ) تھا اور یہ تباہی بخت النصر کے ذریعہ ہوئی ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیة :۲۵۹

۲۲۱

حضرت عزیر جب کھانا پانی لے کر اپنے گدھے پر سوار اس شہر سے گذرے دیکھا گھر تباہ اور ا ن کے رہنے والے مٹی میں مل چکے ہیں ان کی ہڈیا ں پرانی ہوکر زمین میں بکھری پڑی ہیں اس المناک منظر نے پیغمبر کوسونچنے پر مجبورکردیا اور خود سے کہنے لگے خدایا! انہیں کب اور کیسے زندہ کرے گا؟۔

خدا نے انہیں عملی جواب دیا انہیں اوران کے گدھے کو سوسال تک کے لئے موت دی اس کے بعد پہلے انہیں زندہ کیاتاکہ خد اکی طاقت کا وہ خود اندازہ لگائیں کہ کھانا جو جلدی خراب ہوجاتا ہے تبدیل نہیںہوا اور مردوں کو زندہ ہو تے وہ خو د دیکھ لیں ۔

حضرت عزیر نے جیسے ہی اپنی سواری کو زندہ ہو تے دیکھا کہا کہ جانتا ہو ںخدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ آیة اور یہ پیغمبر کا قصہ معاد جسمانی کو ثابت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہیں ۔

حضرت ابراہیم کاقصہ :( واِذ قَالَ اِبراهیمُ رَبِّ أَرنِی کَیفَ تُحییِ المَو تیٰ قَالَ أَولَم تُؤمِن قَالَ بَلیٰ وَلَکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبِی قالَ فَخُذْ أَربعةً مِنَ الطَّیرِ فَصُرهُنَّ اِلِیک ثُمَّ اجعَلْ علیٰ کُلِّ جَبَلٍ مِنهُنَّ جُزأً ثُمَّ ادعُهُنَّ یَأتِینَک سَعیًا وَأَعلمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَیزُحَکیمُ ) ( ۱ ) ''جناب ابراہیم نے عرض کیا بارالہا! مجھے دکھا دے کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ خدا نے کہامگر تمہیں

____________________

(۱) سورہ بقرہ :۲۶۰

۲۲۲

ہم پرایمان نہیں ہے کہا ہے تو مگر چاہتا ہو ں دل کو سکون مل جائے کہا چار طرح کے پرندوں کو جمع کرو (مرغ ،مور ،کبوتر ، کوا،)انہیں ذبح کرکے گوشت پہا ڑ پر رکھد و او ر ان کے ہر جزء کو اللہ کے نام پر بلا ئو وہ دوڑے چلے آئیں گے اورجان لو کہ خدا بڑی حکمت والا ہے'' ۔

مفسرین نے اس آیة کے ذیل میں لکھا کہ حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گذر رہے تھے ایک مردے کو دیکھا کہ جو دریا کے کنارے پڑا ہے مردہ خور جانور اس کے چاروںطر ف جمع ہیں اورکھا رہے ہیں جب حضرت ابراہیم نے اس منظر کودیکھا تو مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں سونچنے لگے کہ وہ کس طرح زندہ کئے جا ئیں گے (کیونکہ اس مردہ کا گوشت دوسرے کا جزء بن چکا تھا ) جبکہ جناب ابراہیم کو علم الیقین تھا کہ خد امردوں کو زندہ کرے گا لیکن اسے آنکھو ں سے زندہ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے ۔

مقتول بنی اسرائیل کاقصہ:

( واِذَ قَتَلتُم نَفسًا فَادَّارَأتُم فِیهَا واللَّه ُمخرِجُ مَاکُنتُم تَکتُمُونَ فَقُلنَا اَضرِبُوهُ بِبَعضِهَا کَذَلِک یُحیِی اللَّهُ المَوتیٰ وَیُرِیکُم آیاتِهِ لَعلَّکُم تَعقِلُونَ ) ( ۱ ) ''جب تم لوگو ں نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کے سلسلے میں اختلاف کیا کہ کس نے قتل کیا ہے جسے تم چھپانا چاہتے تھے خدااسے ظاہر کرتاہے پس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة۷۲ تا۷۳

۲۲۳

ہم نے کہا اس گائے کا کچھ حصہ اس مقتول کے بدن پر مارو خدا مردوں کو اس طرح زندہ کرتاہے آیت خود تمہیں دکھا رہی ہے شاید عقل سے کام لو ''۔

بنی اسرائیل کا ایک آدمی مخفیانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اس کے قاتل کے سلسلے میں اختلاف ہوا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے پر الزام لگا رہا تھا قریب تھاکہ ایک جنگ چھڑ جائے ان لوگوں نے جنا ب موسی سے مدد چاہی جناب موسی نے لطف خدا سے ان کی مددکی حکم خدا کے مطابق گائے کو ذبح کرکے اس کے گوشت کومقتول کے جسم پرمارا وہ شخص تھوڑی دیر کے لئے زندہ ہوگیا اور قاتل کی شناخت کی یہ معا د اور مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بھی دلیل ہے ۔

قوم موسی ٰسے ستر آدمیوںکا زندہ ہو نا :( وَاِذ قُلتُم یَامُوسیٰ لَن نُؤمِنَ لَک حتیٰ نَرَیٰ اللَّهَ جَهَرةً فَاَخذتکُم الصَّاعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرُونَ ثُمّ بَعَثناکُم مِن بَعدِ مَوتِکُم لَعلَّکُم تَشکُرُونَ ) جب تم لوگو ں نے موسی سے کہا کہ ہم اس وقت تک خدا پرایمان نہیں لائیں گے جب تک اپنی آنکھو ں سے دیکھ نہ لیں پھر بجلی نے (موت ) تم سب کواپنی لپیٹ میں لے لیا اورتم دیکھتے رہے پھر ہم نے تم سب کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا تاکہ تم شکر گذار بن جائو ،بنی اسرائیل کے سرکردہ افراد جنا ب موسی کے ساتھ کو ہ طور پر گئے تھے اور خداکو اپنی آنکھو ں سے دیکھنے کی بات دہرائی موت کی بجلی چمکی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوا حضرت موسی ٰبے ہو ش ہو گئے بنی اسرائیل کے نمائندوں کو موت نے اپنی آغوش میں لیا پھر خدا نے انہیں زندہ کیا تاکہ اس کی نعمت کا شکریہ اداکریں۔( ۱ )

قیامت کو ثابت کرنے کے لئے قرآ ن کی دوسری دلیل ہے جس میں مردے کوزندہ کیاگیاہے ۔

____________________

(۱) سو رہ بقرہ آیة ۵۵

۲۲۴

سوالات

۱۔ فلسفہ خلقت کے ذریعہ کس طرح قیامت کو ثابت کریں گے ؟

۲۔ جنا ب عزیر یاارمیا پیغمبر کاواقعہ بیان کریں ؟

۳۔ جناب ابراہیم کا قصہ بیان کریں ؟

۴۔ مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کریں ؟

۲۲۵

تیتیسواں سبق

بقاء روح کی دلیل

روح باقی او رمستقل ہے :( وَلَا تَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ''جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے انہیں رزق ملتاہے''( ۱ ) ( وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقتلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُونَ ) جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے ہیں انہیں مردہ ہرگز نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم انہیں نہیں سمجھ سکتے ہو۔( ۲ ) ( قُلْ یَتَوفاکُم مَلَکُٔ المَوتِ الَّذیِ وکِّلَ بِکُم ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) کہدو کہ موت کافرشتہ جوتم پر معین کیاگیا ہے وہ تمہاری روح قبض کر کے تمہارے رب کی طرف پلٹا دے گا۔( ۳ )

مذکورہ آیات بقاء روح کی بہترین دلیل ہے اگرموت زندگی کے خاتمہ کانام ہوتا توشہداء کے لئے حیات کا مختلف انداز میں ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا پہلے کی دو آییتں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والو ں کے لئے ہیں اور ان کی روح کی بقاء کے حوالے سے ہیں ۔

____________________

(۱)آل عمران آیة ۱۶۹

(۲) بقرہ آیة ۱۵۴

(۳) سجدہ آیة ۱۱

۲۲۶

تیسری آیت عام ہے کہ تمام لوگ خدا کی طر ف پلٹ کر جائیں گے جو تمام انسانوں کے باقی رہنے پردلیل ہے ۔کتاب مفردات میں راغب کے بقول وافی کے اصل معنی کمال تک پہونچنے کے ہیں لہٰذا توفی کے معنی مکمل گرفت کے ہیں اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موت فناکانام نہیں بلکہ مکمل طور پر دسترسی ہے۔

( وَیسئلُونَکَ عَنِ الرُّوح قُلْ الرِّوحُ مِن أمرِرَبِّی وَمَا أُوتِیتُم مِنَ العِلمِ اِلاَّ قَلِیلاً ) اے رسول! تم سے روح کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہدو روح امرخداہے اس کا تھوڑا ساعلم آپ کو عطاکیاگیاہے۔( ۱ )

انسان خواب و موت کو دیکھتا ہے کہ جسمانی کمی وبیشی کے علاوہ ایک خاص قسم کی تبدیلی پیداہوتی ہے یہیں سے پتہ چلتاہے کہ انسان کے پاس جسم کے علاوہ بھی کوئی جوہر ہے ۔ کسی نے بھی روح کے وجود کاانکا ر نہیں کیا ہے یہاں تک کہ مادی حضرات نے بھی اس کے وجود کوقبول کیاہے اسی بناء پر نفسیات ان علوم میں سے ہے جس پر دنیا کی بڑی بڑی یو نیورسٹیوں میں تحقیق ہورہی ہے ۔

وہ واحد بحث جو خد اکے ماننے والوں اورمادی حضرات کے درمیان چل رہی ہے وہ روح کے مستقل ہو نے یانہ ہونے کے سلسلے میں ہے اسلامی مفکرین اسلام کی بھر پور مدد سے اس بات کے قائل ہیںکہ روح باقی ہے اورمستقل ہے روح کے مستقل ہونے پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔

____________________

(۱) اسراء آیة :۸۵

۲۲۷

پہلے عقلی دلیل پھر نقلی دلیل پیش کریں گے اگر چہ قرآن پر اعتقاد رکھنے والے بہترین دلیل کلام خدا کوتسلیم کرتے ہیں اور اسی کواصل مانتے ہیں۔

روح کے مستقل ہو نے پر دلیل

۱۔ہم اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیںکہ ہم متفکر ومدرک ومرید ہیں یہ چیز فکر اورارادہ اور ادراک سے الگ ہے دلیل یہ ہے کہ بولا جاتاہے میری فکر میرا ارادہ میرا ادارک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فکر سے الگ ہیں ہم ارادہ سے ہٹکر ہیں درک اورہے ہم اور ہیں یہ سب ہم سے ہے اورہم اسے اپنی ذات میں پا تے ہیں ہم دماغ، دل اور اعضاء سے الگ ہیں یہ (ہم ) وہی روح ہے ۔

۲۔ جب بھی انسان اپنے کو جسم سے جدا فرض کرتاہے اورتمام اعضاء بدن کا ناطہ اپنے آپ سے توڑ دیتاہے پھر بھی اپنے کو زندہ محسوس کرتاہے جبکہ اجزاء بدن نہیں ہیں اوریہ وجود وہی روح ہے جومستقل رہ سکتی ہے ۔

۳۔پوری عمرمیں شخصیت ایک ہے ۔ یہ ''ہم'' ابتداء زندگی سے آخر عمر تک ایک ہے یہ ''ہم'' دس سال پہلے بھی ہے اور پچاس سال بعد بھی، اگرچہ علم وقدرت زندگی کی کمال تک پہونچ جائے لیکن ''ہم'' اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ آج کے علم نے ثابت کر دیا کہ انسان کے عمر میں کئی بار جسم میں ،رگو ں میں ،یہاں تک کہ دماغ کی شریانوں میں تبدیلی ہوتی ہے چوبیس گھنٹے کے اندر کروروں رگیں ختم ہو تی ہیں اور کروڑوں ان کی جگہ پیداہوتی ہیں جیسے بڑے حوض میں پانی ایک جگہ سے جاتاہے اور دوسری طرف سے آتاہے ظاہر ہے بڑے حوض کاپانی ہمیشہ بدلتاہے اگرچہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس کوایک ہی حالت میں دیکھتے ہیں ۔

نتیجہ:

اگر انسان صرف اجزاء بدن کا نام ہو تا اورصرف دل و دماغ ہو تا یعنی روح نہ ہوتی تواپنے اعمال کا ذمہ دار نہیں قرار پاتا ،مثلا اگر کو ئی دس سال پہلے کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسے سزا نہیں دے سکتے اس لئے کہ جسم کے تمام خلیئے تبدیل ہوگئے ہیں گویا اب وہ دس سال پرانا جسم نہیں ہے۔اگر انسان ہمیشہ ذمہ دار ہے یہاںتک کہ وہ خوداس کا اعتراف کررہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے اگرچہ تمام اعضاء بدل چکے ہیں مگر وہ خود باقی ہے اوریہ وہی روح ہے۔

۲۲۸

روح کی بقاء اور استقلال پر نقلی دلیل

تاریخ اسلام میں بہت سی جگہ موت کے بعد روح سے مربوط چیزیں آئی ہیں جن میں سے بعض یہاں پیش کی جارہی ہے جنگ بدر کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیاکہ دشمن کی لاشوں کوایک کنویں میں ڈال دیاجائے اس کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کنویں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :''هل وجد تم ماوعدکم ربکم حقاً فِانّی قَد وجدت ماوعدنی رَبِّی حقاً ''کیا تم لوگو ںنے وعدہ خداکے مطابق سب کچھ پایاہے ؟ہم نے تو اللہ کے وعدہ کو حق دیکھا ) بعض افراد نے عرض کیا :کیا آپ بے جان لوگو ں سے باتیں کر رہے ہیں، وہ سب توایک لا ش کی شکل میں پڑے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا: وہ لوگ تم سے بہتر میری آواز سن رہے ہیں دوسرے لفظوں میں یو ں کہا جائے کہ تم لوگ ان سے بہتر میری بات نہیں سمجھ رہے ہو۔( ۱ )

سلمان فارسی مولا امیر المومنین کی طرف سے والی مدائن تھے اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں : ایک دن سلمان فارسی کی عیا دت کوگیا، جب وہ مریض تھے اورمرض میں اضافہ ہوتاجارہاتھا یہا ںتک کہ موت کی جانب قدم بڑھا رہے تھے مجھ سے ایک دن فرمایا اے اصبغ! رسول خد ا نے مجھ سے فرمایا ہے جب موت قریب ہو گی تو مردہ تم سے باتیں کریںگے ہمیں قبرستان کی طرف لے چلو حکم کے مطابق انہیں قبر ستان میں لے جایاگیا کہامجھے قبلہ رخ کرو اس وقت بلند آواز سے کہا :

''السلام علیکم یا اهلَ عرصة البلا ء السلام علیکم یامحتجبین عن الدُّنیا'' میرا سلام ہو تم پر اے بلا ء کی وادی میں رہنے والومیراسلام ہو اے اپنے کو دنیا سے چھپا لینے والو۔اسی وقت روحوں نے سلام کا جواب دیااورکہا جو چاہتے ہو سوال کرو جناب سلمان نے پوچھا تم جنتی ہویا جہنمی؟مردہ نے کہا خدا نے مجھے دامن عفو میں جگہ عنایت کی ہے اورمیں جنتی ہو ں جناب سلمان نے موت کی کیفیت اورموت کے بعد کے حالات دریافت کئے ا س نے

____________________

(۱) سیرہ ابن ہشام ج ،۱ ص ۶۳۹

۲۲۹

سب کاجواب دیا اس کے بعد جناب سلمان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی( ۱ )

مولا امیرالمومنین ںجنگ صفین سے واپسی پر شہر کوفہ کے پیچھے قبر ستا ن کے کنارے کھڑے ہو ئے اور قبروں کی طرف رخ کر کے فرمایا :اے حولناک او ر تاریک قبروں کے رہنے والوتم اس قافلہ کے پہلے افراد ہو ہم بھی تمہارے پیچھے آرہے ہیں لیکن تمہارے گھردوسروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں اور تمہاری بیویوں نے شادی کر لیں اورتمہارے مال واسباب تقسیم ہوچکے ہیں یہ سب میری خبر تھی تمہارے پاس کیا خبرہے ؟''ثُمَّ التفت اِلیٰ أَصحابه فقال أمّا لوأذِن فیِ الکلام لأخبروکم أَنَّ خیر الزاد التقویٰ ''( ۲ )

پھر اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا جان لو اگر انہیں بولنے کی اجازت ہوتی تویہ تمہیں بتا تے کہ بہترین زاد راہ تقوی وپرہیز گا ری ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج۱، معادفلسفی ۳۱۵

(۲)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ۱۲۵

۲۳۰

سوالات

۱۔قرآن بقاء روح کے لئے کیا کہتا ہے آیت کے ذریعہ بیان کریں ؟

۲۔ استقلال روح کے لئے عقلی دلیل بیان کریں ؟

۳ بقاء روح کے لئے ایک نقلی دلیل بیان کریں ؟

۲۳۱

چوتیسواں سبق

معاد جسمانی اورروحانی ہے

کیاموت کے بعد زندگی روحانی ہے ؟یعنی جسم کہنہ ہو کر بکھر جائے گااور آخرت کی زندگی فقط روح سے مربوط ہے یافقط جسمانی ہے اور روح کاشمارجسم کے آثاروخواص میں ہے ؟یا یہ کہ آدھی روحانی اور آدھی جسمانی ہے جسم لطیف اس دنیا وی جسم سے افضل ہے یاموت کے بعد زندگی مادی او رروحانی ہے اور دوبارہ دونوں جمع ہوکر حاضر ہوںگے، ان چاروں نظریوں کے حامی اور طرفدارموجود ہیں لیکن شیعوں کا نظریہ (عقیدہ)یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں معاد جسمانی اور روحانی پر دلالت کرتی ہیں اور اس مسئلہ میں کوئی شک وتردید کی گنجائش نہیں ہے ۔

۱۔ بہت سی جگہو ں پر قرآن نے منکریں معاد کو جو یہ سوال کرتے ہیں کہ ''جب ہم خاک میں مل جائیں گے او رہماری ہڈیاں پرانی ہوکر پھر زندہ ہوںگی'' جواب دیا ہے ، اور انہیں اس بحث میں بیان کیا جاچکا ہے جہاں معاد پر قرآن کی دلیل پیش کی گئی ہے جیسے (سورہ یس آیة ۸۰) میں واضح طور پر معاد جسمانی اور روحانی کوبیان کیاگیا ہے ۔

۲۔ دوسری جگہ (سورہ قیامت آیة ۳،۴) میں فرمایا :کیاانسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیو ں کو جمع نہیں کریںگے بلکہ ہم قادر ہیں کہ انگلیو ں کے نشانات کو بھی ترتیب دیدیں ،ہڈیو ں کو جمع کرنا انگلیوں کے نشانات کو دوبارہ مرتب کرنا یہ معا د جسمانی اورروحانی کی ایک او ر دلیل ہے ۔

۲۳۲

۳۔ تیسری مثال وہ آیتیں جوکہتی ہیں کہ انسان قبر سے اٹھے گا اس سے ظاہر ہے کہ قبر انسانی جسم کے لئے گھر قرار دیا گیا ہے اور اسلامی منکرین کی نظر میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جسم کے بغیر روح کا پلٹنا ممکن نہیں ہے جسم بغیر روح کے صرف لاش ہے خلاصہ یہ کہ اس طرح کی آیتیں معاد جسمانی اور روحانی کے لئے واضح دلیل ہے ۔ (وَأَنَّ السَّاعةَ آتِیةُ لا رَیبَ فِیها وأَنَّ اللَّهَ یَبعَثُ مَن فی القُبُورِ )قیامت کے سلسلے میں کو ئی شک نہیں او رخدا وند عالم ان تمام افراد کو جو قبروں میں ہیں دوبارہ زندہ کرے گا ۔( ۱ ) سورہ یس کی آیة : ۱۵۱ اور ۱۵۲ اور دوسری آیات اس پر شاہد ہیں ۔

۴۔ وہ آیتیں جو بہشتی نعمتوں کے سلسلے میں ہیں ۔میوے ،غذائیں مختلف کپڑے اوردوسری جسمانی لذتیں وغیرہ ،جنت کی لذتییں اور نعمتیں صرف مادیت پر منحصر نہیں ہیں بلکہ معنوی اور روحی لذتیں بھی بہت ہیں جن کا تذکرہ جنت کی بحث میں آئے گا انشاء اللہ

لیکن سورہ رحمن اور اس جیسی آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ معاد جسمانی اور روحانی دونوںہی اعتبارسے ہے اور جسم اور روح کے لئے لذتیں ہیں یہ

____________________

(۱) سو رہ حج آیة ۷

۲۳۳

ہے کہ جنت کی نعمتیں دنیاوی نعمتوں سے الگ ہیں او ران سے بہتر ہیں مگر یہ سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیں ۔

۵۔وہ آیتیں جو مجرموں کے لئے مختلف طرح کے عذاب اور سزا کو بیان کرتی ہیں ان میں سے بہت سی جسم سے مربوط ہیں یہ آیتیں قرآن میں بہت ہیں ان میں بعض کی جانب اشارہ کررہے ہیں( یَومَ یُحمَیٰ عَلَیها فِی نَارِجَهَنَّم فَتُکویٰ بِها جِبَاهُهُم وَجُنُوبُهُم وَظُهُورُهُم ) ''جس دن انہیں دوزخ میں کھولایا جائے گا اورجلا یا جا ئے گا اور ان کی پیشانیاں نیز ان کے پہلو اور پشت کوداغا جائے گا''( ۱ ) ( یَومَ یُسحبُونُ فِی النّارِ عَلیٰ وُجُوههِمِ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ) ''جس دن دوزخ کی آگ ان کے چہرے پر ڈالی جا ئیگی او ران سے کہا جا ئے گا آج دوزخ کی آگ کا مزہ چکھ لو''( ۲ ) ( تَصلیٰ نَاراً حَامِیةً تُسقیٰ مِن عَینٍ آنیةٍ لَیسَ لَهُم طَعَامُ اِلَّا مِن ضَرِیعُ لا یُسمن ولَا یُغنیٰ مِن جُوعٍ ) ( ۳ ) ''بھڑکتی آگ میں داخل ہونگے کھولتے پانی سے سیراب کیا جائے گا ،خشک کا نٹا کڑوا اور بدبو دار کھانے کے علاوہ کچھ میسر نہ ہو گا ایسا کھانا جو نہ انہیں موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے نجات دلائے گا''۔( کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهمُ بَدَّلنَاهُم جُلُوداً غَیرَها لِیَذُوقُوا العَذَابَ أِنَّ اللَّه کَانَ عَزِیزاً حَکِیماً ) ( ۴ ) جیسے ہی کافر کی کھال جل کر ختم ہو جا ئے گی اس کی جگہ دوسری کھال کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ عذاب

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة: ۳۵

(۲) سورہ قمر آیة :۴۸

(۳) غاشیہ آیة :۴۔۷

(۴) سورہ نسا ء آیة ۵۶

۲۳۴

کامکمل مزا چکھ لیں بیشک خدا عزیز اور حکمت والا ہے ۔

اس طرح کہ بہت سی آیتیں ہیں جن کا تذکرہ جہنم کی بحث میں آئیگا سب کے سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیںاگر معاد فقط جسمانی ہوتی تو روحانی غذ اکا کوئی مفہوم نہ ہوتا ؟۔

۶۔ وہ آیتیں جو روز قیامت اعضاء وانسان کے بات کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں وہ معا د جسمانی اور روحانی پر واضح دلیل ہیںچونکہ ایسی آیتیں بھی بہت ہیں لہٰذانمونہ کے طور پرکچھ کا یہاں ذکر کرتے ہیں( الیَومَ نَختِمُ عَلیٰ أَفوَاهِهِم وَتُکَلِّمُنَا أَیدِیهِم وَتَشهد أَرجلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) ''آج ان کی زبانو ں پر تالے لگ جائنگے ان کے ہاتھ باتیں کریں گے ان کے پائوں جو کئے ہوںگے اس پر گواہی دیں گے'' ۔( ۱ ) ( حَتیٰ اِذ مَا جَائُ وهَا شَهِدَ عَلَیهِم سَمعُهم وَأَبصَارُهُم وَجُلُودُهُم بِمَا کَانُوا یَعمَلُونَ ) '' یہاںتک کہ جب پہونچیں گے ان کی آنکھیں او رگوشت وپوست جو عمل انجام دیئے ہیں انکی گواہی دیں گے''( وَقَالُوا لِجُلُودِهِم لِمَ شَهِدتُم عَلَینَا قَالُوا أنطَقَنا اللَّهُ الَّذِی أنطَقَ کُلِّ شَیئٍ ) '' وہ اپنے جسم سے سوال کریں گے کیوں میرے خلاف گواہی دیتے ہو؟ وہ جواب میں کہیںگے وہ خدا جس نے سب کو قوت گویا ئی عطاکی ہے اس نے ہمیں بولنے کے لئے کہا''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ یس ۶۵

(۲) سورہ فصلت ،۲۱

۲۳۵

۷۔وہ آیتیں جومعاد جسمانی اور روحانی کو بطور نمونہ اس دنیا میں ثابت کرتی ہیں جیسے حضرت ابراہیم کا قصہ او رچار پرندے جوزندہ ہو ئے (سورہ بقرہ آیة۲۶۰) مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ جو زندہ ہوا (بقرہ آیة ۷۳) جنا ب ''عزیر'' یا''ارمیا ' ' پیغمبر کا واقعہ (بقرہ ۲۵۹ )جناب حزقیل پیغمبر کاقصہ اورموت کے بعد بہت سارے لوگوں کا زندہ ہوناجیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۳ میں ملتا ہے ،جناب عیسی کا مردو ں کو زندہ کرنا (مائدہ ۱۱۰ آل عمران۴۹) میں آیا ہے جناب موسی کے زمانے میں موت کے بعد ستر آدمیوں کازندہ ہونا (بقرہ ۵۶۵۵) یہ سب کے سب واقعے معاد جسمانی اور روحانی پر محکم دلیل ہیں ۔

سوالات

۱۔موت کے بعدکے حیات کی کیفیت کے بارے میں کیا نظر یہ ہے ؟

۲۔شیعہ موت کے بعد کی زندگی کو کس طرح جانتے ہیں ایک دلیل قرآن سے ذکر کریں ؟

۳۔ معادجسمانی اور روحانی کانمونہ جو اسی دنیا میں واقع ہوا ہے بیان کریں ؟

۲۳۶

پیتیسواں سبق

برزخ یا قیامت صغری

جوبھی اس دنیا میں آتاہے ان چار مراحل کو اسے طے کرنا ضروری ہے ۔

۱۔ پیدائش سے لے کر موت تک کیونکہ یہ دنیا کی زندگی ہے۔

۲۔موت کے بعدسے قیامت تک کی زندگی اسے عالم برزخ کہتے ہیں۔

۳۔قیامت کبری

۴۔جنت یا دوزخ

برزخ

برزخ؛ دو چیز کے درمیان کے فاصلے کانام ہے یہاں برزخ سے مراد وہ دنیا ہے جواس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے جب روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے (قبل اس کے کہ یہ روح قیامت کے لئے دوبارہ اصل بدن میں واپس آئے ) ایک ایسے نازک جسم میں رہتی ہے جسے جسم مثالی کہتے ہیں تاکہ قیامت کے وقت وہ اسی کے ساتھ ہو ۔

۲۳۷

موت کے وقت انسان دنیا او رآخرت کے درمیان ہوتا ہے مولا امیر المومنین نے فرمایا: لِکلِّ دار باب وباب دار الآخرة الموت ہر گھر کا ایک دروازہ ہوتا ہے او رآخرت کا دروازہ موت ہے( ۱ ) جیسا کہ بعض احادیث میں واضح طور پر ملتا ہے کہ موت کے وقت بہت سی چیزیں ہمارے لئے واضح اور روشن ہوجاتی ہیں ۔

۱۔ملک الموت اور دوسرے فرشتوں کو دیکھنا

(۲) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او ر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی زیارت

(۳) جنت یا دوزخ میں اپنی جگہ کا دیکھنا

(۴) اعمال کامجسم ہونا او راپنے گذرے ہوئے اعمال کو دیکھنا

(۵) دولت کا مجسم ہونا جو جمع کر رکھی ہے

(۶) اولا د رشتہ دار اور دوستوں کا مجسم ہونا

(۷) شیطان کامجسم ہونا

یہ کیفیت جس سے اچھے اعمال انجام دینے والے بھی ڈرتے ہیں اور خدا سے پناہ مانگتے ہیں ۔اس وقت انسان بعض پس پردہ رموز واسرار کو دیکھتا ہے او راس کا اعمال اس کے سامنے ہوتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو نیکیوں سے خالی اور گناہ کے بوجھ تلے محسوس کرتاہے اپنے کئے پرنادم وپشیمان ہو کر پلٹنے کی التجا کرتا ہے تاکہ اپنے کئے کا جبران کر سکے ۔( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحَدَ هُمُ المَوت قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلّیِ أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمةُ هُوَ قَائِلُهَا ) ''جب ان

____________________

(۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید

۲۳۸

میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے فریاد کرتے ہیں بارالہا !مجھے پلٹادے تاکہ جو کچھ چھوٹ گیاہے اسے پورا کرلیں اور اچھے اعمال انجام دے لیں اس سے کہا جا ئے گا ایسا نہیں ہوسکتایہ فریاد ہے جو وہ کریں گے''۔( ۱ )

یہ باتیں زبان پر ہوںگی او راگر پلٹا دیا جائے تو اعمال پہلے کی طرح ہو ں گے جس طرح جب مجرم گرفتار ہوتاہے او راسے سزادی جاتی ہے تو یہی کہتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی گرفتاری اور سزاختم ہو جاتی ہے اکثر پھر وہی اعمال دہراتا ہے ۔

قَال لقمان لابنه: یَا بُنیِ اِنَّ الدُّنیا بحر عمیق وقد هلکَ فیها عالم کثیر فاجعل سفینتکَ فِیهَا الاِیمان بِاللَّه واجعل زادک فیها تقویٰ اللَّه واجعل شراعها التوکّل علیٰ اللَّه فَاِنْ نجوّت فبرحمة اللّه وان هلکت فیه فبذنوبکَ وأشد ساعاته یوم یولد ویوم یموت ویوم یُبعث ۔''جنا ب لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا :اے میرے لخت جگر !یہ دنیا بہت گہرا سمندر ہے کتنے لوگ اس میں ڈوب چکے ہیں لذا تم خدا پر ایما ن، اپنے لئے کشتی نجا ت اور زاد راہ، پرہیز گاری نیز لنگر خدا پر بھروسہ کرو اب اگر ڈوبنے سے بچ گئے تو یہ خدا کی رحمت ہے اور اگر غرق ہوگئے تو یہ تمہا رے گناہ کے با عث ہوگا اور سخت ترین لمحہ زندگی انسان کے لئے وہ ہے جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے یا وہ دن ہے جب اس دنیا کو خدا حافظ کہتاہے یا پھر وہ دن ہوگا جب پلٹایا جائے گا ''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ مومنون آیة ، ۹۹۔۱۰۰

(۲)بحارالانوار جلد ،۶ ص ۲۵۰

۲۳۹

عالم برزخ کے اثبات کے سلسلہ میں بہت سی آیتیں وروایتیں پائی جا تی ہیں اگر چہ یہ بات عقل ومحسوسات کے ذریعہ بھی ثابت ہو چکی ہے۔

برزخ کے سلسلے میں قرآنی آیا ت

( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلِّی أعمَلُ صَالِحاً فِیما تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمَة هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرائِهِم بَرزَخُ اِلیٰ یَوم یُبعثُونَ ) ( ۱ ) یہا ں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پرور دگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ،ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جویہ کہہ رہا ہے او ر ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والاہے یہ آیت واضح طور پر برزخ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

( وَلَاتَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ( ۲ ) خبردار راہ خد امیں قتل ہونے والوں کومردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں او راپنے پرور دگا ر کے یہا ں سے رزق پارہے ہیں ۔( وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُون ) ( ۳ ) ''اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کاشعورنہیں ہے ''۔

یہ دو آیتیں برزخ کی زندگی اور شہداء کے رزق کو ثابت کرتی ہیں۔

____________________

(۱) سورہ مومنون ۔۹۹۔۱۰۰

(۲) آل عمران آیة ،۱۶۹

(۳) بقرہ آیة :۱۵۴

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303