اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155104 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پانچواں سبق

آفاق میں خدا کی نشانیاں (فصل دوم )

آسمانوں کی خلقت میں غور وخوض

قال اللّہ :( اِنَّ فِی السَّمٰوَاتِ والأَرضِ لأیاتٍ للمُؤمنِینَ ) ( ۱ ) بے شک زمین وآسمان میں اہل ایما ن کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں ۔

قال اللّہ تعالیٰ:( اِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰواتِ والأَرضِ وَ اختِلافِ اللَّیلِ والنَّهارِ لآیاتٍ لأولِی الألبابِ ) ( ۲ ) بے شک زمین و آسمان کی مخلو ق او ر روز و شب کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں ۔( قَالَت رُسُلُهُم أَ فِی اللّهِ شکُ فَاطِرالسَّمواتِ والأرضِ ) ( ۳ ) ان کے رسولو ں نے کہا : کیا وجو د خدامیں شک ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے ؟

آل عمران کی آیت۱۹۰کی تفسیر کے سلسلے میں حدیث میں وارد ہو اہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک تھوڑی سی استراحت کے بعد اٹھے وضو فرمایا اور مشغول نماز ہوگئے اور اتناگریہ فرمایا کہ آپ کے لباس کا سامنے کاحصہ تر ہو گیا اس کے بعد سجدے میں جاکر

____________________

(۱) سورہ جا ثیہ آیة:۳

(۲) سورہ آل عمران آیة: ۱۹۰

(۳) سورہ ابراہیم آیة: ۱۰

۴۱

اتنا گریہ کیا کہ اشک سے زمین نم ہو گئی ، اور گریہ و ندبہ کی یہ کیفیت اذان صبح تک جاری رہی جب موذن رسول عربی بلا ل نے آپ کو نماز صبح کے لئے آواز دی تو کیا دیکھاکہ آپ کی آنکھیں گریا ں کنا ں ہیں بلا ل نے پوچھ ہی لیا یا رسول اللہ ! گریہ کا سبب کیا ہے ؟جبکہ الطاف و اکرام الٰہی آپ کے گرد حلقہ کئے ہوئے ہیں۔

آپ نے فرمایا : کہ کیا میں خدا کا شاکر بندہ نہ رہو ں ؟اور گریہ کیوں نہ کروں ؟آج رات مجھ پر دل ہلا دینے والی آیات کا نزول ہو اہے پھر مولا نے آل عمران کی مذکورہ آیت کے بعد کی چار آیتوں کی تلا وت فرمائی اور آخرمیں فرمایا :''وَیلُ لِمَن قرأها ولم یتفکر فیها'' ویل (جہنم کا ایک کنواں) ہے اس شخص کے لئے جو اس آیت کو پڑھے اور اس میں تفکر و تدبر نہ کرے ۔( ۱)

فضا کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد دائرہ حیرت میں جو چیز وسعت کا سبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو اور آسمان پر چاند بھی نہ چمک رہا ہو ایسے میں آسمان کی جانب دیکھیں تو جو ایک طولانی علاقہ کمان کی مانند ایک افق سے دوسرے افق تک دیکھا ئی دے رہا ہے وہ سیا ہی زمین،میں ایک سفید نہرکے مانند دیکھا ئی دے گاوہی کہکشاں ہے ہر کہکشاں میں بے شمار ستارے ہوتے ہیں ہماری کہکشاں کی مسافت ایک ( جو کہ ہمارا شمسی نظام اس میں پایا جاتا ہے ) ہزار نوری سال ہے ، سورج جوکہ از حد سرعت کے ساتھ اس کہکشاں کا چکر لگا رہا ہے ڈھائی کروڑ سال میں اس کہکشاں کا مکمل چکر لگاتا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)پیام قرآن ج۲،ص ۱۶۲( متعدد تفاسیر کے حوالے سے )

(۲) راہ تکامل ج۶،ص ۱۰۳

۴۲

آخری تحقیقات کے مطابق کم سے کم ایک کروڑ کہکشاں اس عالم میں ہیں اورصرف ہماری کہکشاں میں ایک ارب ستارے پائے جاتے ہیں۔( ۱ )

خدا وند متعال کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی خلقت آسمان ہے جس کو قرآن نے نہایت ہی اہتمام سے بیان کیا ہے ، اورتین سو تیرہ مرتبہ مفرد وجمع ملا کر آیات قرآنی میں لفظ آسمان کو ذکر کیا ہے، اور علی الاعلان بشریت کو خلقت آسمان میں تدبر کی دعوت دی ہے تاکہ اس کی معرفت میں اضافہ ہوسکے ۔

سورہ ق کی آیة ۶ میں ارشاد ہو ا ۔( أَفَلَم یَنظُرُوا اِلیٰ السَّمائِ فَوقَهُم کَیفَ بَنیناَهَا وَ زَّینَّاها وَمَالَها مِن فُروُجٍ ) کیا انھو ںنے اپنے سر پہ سایہ فگن آسمان کو نہیں دیکھا ( اس میں تفکر نہیں کیا ) کہ ہم نے اس کو کیسے بنایا اس کو (ستاروں ) کے ذریعہ سجا یا سنوارا اور اس میں ( بال برابر ) شگاف نہیں ہے ۔

روایا ت میں آیا ہے کہ شب زندہ دار افراد جب سحر کے وقت نمازشب کے لئے اٹھیں تو پہلے آسمان کی جانب دیکھیں اور سورہ آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت کریں ۔

____________________

(۱) پیام قرآن ج۲،ص ۱۷۶

۴۳

خلقت آسمان اور معصومین کے نظریات واقوال

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نما ز شب کے لئے اٹھتے تھے ،پہلے مسواک کرتے تھے پھر آسمان کی جانب دیکھتے تھے اور اس آیت( اِنّ َفِی خَلقِ السَّمٰواتِ وَ الأرضِ ) ( ۱ ) کی تلاوت کرتے تھے ۔

مطالعہ آسمانی کے وقت امیر المومنین کی منا جات

امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی جن کا نام حبَّہ عرنی ہے کہتے ہیں کہ ایک رات میں نو ف کے ساتھ دارالامارہ میں سویا ہوا تھا، رات کے آخری حصہ میں کیا دیکھاکہ امیر المومنین دارالا مارہ کے صحن میں ایک حیران اور مضطرب شخص کی طرح دیوار پر ہاتھ رکھ کر ان آیا ت کی تلا وت فرمارہے ہیں ۔

( اِنَّ فِی خَلقِ السَّمواتِ والأَرضِ وَ اختِلَافِ اللَّیلِ والنَّهارِ لآیاتٍ لأولِی الأَلبابِ الَّذینَ یَذکروُنَ اللّهَ قِیامًا وَ قُعُوداً وعلیٰ جُنُوبِهِم وَ یتفَکَّرُونَ فِی خلقِ السَّمواتِ والأَرضِ رَبَّنا ماخَلقتَ هذا بَاطِلاً سُبحاَنک فَقِنا عَذَابَ النَّارِ رَبّنا اِنَّک مَنْ تُدخِل النَّارِ فَقَد أَخزَیتهُ وَما للِظَّالمِینَ مِن أنصارٍ رَبَّنا اِنّنَا سَمِعنا مُنادیًا یُنادیِ للایمانِ أَنْ آمِنوا بِرَبِّکُم فأمَنَّا رَبَّنا فَاغفِرلَنَا ذُنُوبَنا وَ کَفِّر عَنا سَیئاتَنا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الأَبرارِ رَبَّنا وآتِنا مَا وَعَدتنا علیٰ رُسُلِک ولا تُخزِنَا یَومَ القِیَامةِ اِنَّک لَا تُخلِفُ المِیعَادَ ) ( ۲ ) بیشک زمین و آسمان کی خلقت لیل و نہا ر کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ جولوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے،خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی خلقت میں غور وفکر کرتے ہیں کہ خدا یا تونے یہ

____________________

(۱) مجمع البیا ن۔ مذکورہ آیة کے ذیل میں

(۲)سو رہ آل عمران آیة ۱۹۰سے۱۹۴تک۔

۴۴

سب بیکا ر نہیں پیدا کیا ،توپاک وبے نیازہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔

پرور دگار !تو جسے جہنم میں ڈالے گا گویا اس کو ذلیل ورسوا کردیا اور ظالمین کاکوئی مدد گار نہیں ہے پرور دگا ر! ہم نے اس منا دی کوسنا جو ایمان کی آواز لگا رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آئو تو ہم ایمان لے آئے ،پرور دگار!اب ہما رے گنا ہو ں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما اورہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرما ،پروردگار! جو تونے اپنے رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے اسے عطا فرمااور روز قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا کہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔

حبہ کہتے ہیں کہ حضرت ان آیا ت کی بار بار تلا وت فرما تے تھے اور خوبصورت آسمان اور اس کے خوبصورت خالق کے تدبر میں کچھ یوں غرق تھے کہ جیسے آپ کھوئے ہوئے ہوں اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور فرمایا: حبّہ جگ رہے ہو یا سورہے ہو؟ میں نے کہا آقا،جگ رہا ہو ں،لیکن میرے سید و سردار!آپ نے اتنے جہاد کئے اتنا روشن وتابناک آپ کا ماضی ہے اس قدر آپ کا زہد و تقوی ہے اورآپ گریہ فرمارہے ہیں، مولا نے آنکھو ں کو جھکالیا اور ہچکیاں لینے لگے پھر فرمایا : اے حبّہ ! ہم سب پیش پروردگا ر حاضر ہیں ،اور ہما را کوئی عمل اس پر پوشیدہ نہیں ہے، حبہ یہ بات بالکل قطعی ہے کہ خدا ہماری او رتمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور کو ئی چیز ہم کو او رتم کو خدا سے چھپا نہیں سکتی ۔

۴۵

اس کے بعد مولا ،میرے ساتھی نوف کی جا نب متوجہ ہو ئے اور فرمایا: نوف سو رہے ہو ؟ انھو ں نے کہا :نہیں مولا آپ کی حیرت انگیز کیفیت کی وجہ سے آج کی رات بہت رویا ہو ں ۔آپ نے فرمایا :اے نوف اگر آج رات خو ف خداسے گریہ کروگے توکل پیش پروردگار تمہاری آنکھیں روشن ومنو ر ہوںگی ۔اے نوف ! کسی کی آنکھ سے ایک قطرہ بھی آنسو کا نہیں گرتا مگر یہ کہ ایک آگ کے دریا کو بجھا دیتا ہے (نوف کہتے ہیں ) آقا کا آخری جملہ یہ تھا کہ ترک ذمہ داری پر خدا سے ڈرو ، اور زمزمہ کرتے ہوئے ہمارے سامنے سے گذر ے اور فرمایا : اے میرے پروردگا ر ! اے کا ش میں یہ جا ن سکتا کہ جس وقت میں غافل ہو ں تونے مجھ سے منھ مو ڑ لیا ہے یا میری جانب متوجہ ہے ! اے کا ش میں جان سکتا کہ اتنی طویل ترین غفلت اور تیری شکرگزار ی میں کوتاہیوں کے باوجو د تیرے نزدیک میر اکیا وقار ہے نوف کہتے ہیں خدا کی قسم صبح تک آقا کی یہی کیفیت تھی۔( ۱ )

امام سید سجا د ں نماز شب کے لئے اٹھے پانی میں ہاتھ ڈالا تاکہ وضو فرمالیں اس بیچ آسمان کی جا نب دیکھا اور اس میں تفکر کرتے ہو ئے اس قدر مشغول ہو گئے کہ صبح ہو گئی اور موذن نے اذان کہہ دی اور آپ کا دست مبارک ابھی تک وضو کے پا نی میں ڈوبا ہواتھا ۔

امیر المومنین ں فرماتے ہیں :سُبحانک ما اعظم ما نریٰ من خَلقک وما أصغر کلّ عظیمة فی جنب قدرتک وما اهول ما نریٰ

____________________

(۱) سفینہ البحار ج۔۱ ص ۹۵ بحار الانوار ج،۴۱ ص ۲۲

۴۶

مِن ملکو تک و ما احقر ذلک فیما غاب عنا من سلطانک وما أسبغ نعمک فی الدنیا وما أصغرها فی نعم الآخرة ( ۱ )

اے پاک وپاکیزہ پروردگار تو کتنا عظیم ہے ان چیزوں سے جو تیری مخلوقات میں مشاہدہ کرتے ہیں تیری قدرت کے سامنے سارے بلند قامت کس قدر (بونے دکھا ئے دیتے ہیں اور ) چھو ٹے ہیں ، ملکو ت کتنا حیرت انگیز (شاہکا ر ) ہے او رکتنی ایسی چھوٹی چیزیں ہیں جو تیری سلطنت میں ہما ری نگا ہو ں سے اوجھل ہیں دنیا میں تیری نعمتیں کتنی بے شمار ہیں اور آخرت کی نعمتوں کے مقابل یہ کتنی تھوڑی سی معلوم ہوتی ہیں ۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ

۴۷

سوالا ت

۱۔ پیغمبر کے گریہ کا سبب کیا تھا اور بلا ل سے کیا فرمایا ؟

۲۔ کہکشاں کیا ہے ؟اور ہماری کہکشاں کا دائرہ کتناہے ؟

۳۔ منا جا ت امیرالمومنین کے سلسلہ میں حبہ کی داستان کا خلا صہ بیان کریں؟

۴۸

چھٹا سبق

برہا ن نظم

پچھلے سبق سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں ایک خاص قسم کا نظام پایا جاتا ہے اور اس بات کا امکا ن بھی نہیں ہے کہ موجودات عالم میں پائے جانے والے نظم ونسوق کی تردید کو ئی بھی عاقل انسان کر سکے ، کا ئنا ت کے مادی ذرات میں سے سب سے چھوٹی شی (ایٹم ) او ربڑی سے بڑی چیز ،کہکشاں ہے سب جگہ اور ہر چیز میں ایک خاص نظم وضبط پایا جاتا ہے اور دقیق حساب کے تحت گردش کرتے ہیں ۔

انسان ،حیوان ، نباتات وجمادات او رزمین وآسمان کی دوسری تمام موجودات ایک مقصد کے پیش نظر پیدا کی گئی ہیں اور ان پر ایک خاص قانون ہے جو حکمرانی کرتا ہے اور ان کی ہدایت کر رہا ہے یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیاپر نظم و تنظیم کی حکمرانی نہ ہو تی تو دنیا کے بارے میں معلومات بھی حاصل نہ ہوتی،کیونکہ علم کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان عمومی نظام و قوانین کی دریافت ہو جودنیاپر حکم فرما ہیں ۔

اگر جسم انسان کے خلیہ کی نقل و حرکت اور جسمانی نظم کی رد و بدل ایک خاص راہ و روش پر مشتمل نہ ہو تی تو فیزیو لوزی اور علم طب کا وجو د کیسے آتا ؟

اگر سیارات وکو اکب ایک خاص نظام کے تحت گردش نہ کرتے ہو تے توعلم نجو م ( ستارہ شناسی ) کا وجو د کیو نکر ہو تا؟اور اگر ان میں خاص نظم و ضبط نہ ہو تا تو ستارہ شنا س افراد چاند گہن اور سورج گہن کو کیسے معین کرسکتے ؟ اور سورج کے طلوع و غروب کو ہمیشہ کیسے معین کرسکتے ؟

اور یہی نظم جو کائنات پر کار فرماہے اسی بات کا سبب بنا ہے کہ دانشمند افراد ریاضی اور فیزیکی طریقہ سے اندازہ لگا کر بغیر کسی ذمہ دار (کنٹرولر ) کے ایک خاص سفینہ تیار کر کے کو اکب کی سیر کو بھیج دیتے ہیں۔

خلا صہ یہ کہ علم نظام، اشیاء کا مفسّر ہے جو دوسری چیزوں میں پایا جاتاہے اور علم ونظم کا رشتہ بالکل واضح و روشن ہے ۔

قرآن مجیدنے خدا کو پہچاننے کے لئے برہان نظم سے بہت استفادہ کیا ہے اوراس جا نب ہم پہلے ہی اشارہ کر چکے ہیں ، یا یو ں کہا جا ئے کہ قرانی نظرئے کے تحت خدا کو پہچاننے کا بہترین اور واضح راستہ نظام خلقت اورآثار موجودات کا مطالعہ ہے ۔

۴۹

برہان نظم کی بنیا د

یہ دلیل دو بنیادوں ( صغری و کبری) اورایک نتیجہ پر مشتمل ہے

۱۔ یہ دنیا ایک خاص نظام او ردقیق حساب کے تحت خلق ہو ئی ہے اور موجودات کے ہر ذرے میں ایک خاص قسم کا قانون کار فرما ہے جس میں تبدیلی نا ممکن ہے ۔

۲۔ جہاں بھی نظم وتدبیر کا دقیق خیال رکھا گیا ہو وہاں اضافات و اتفاقات کا امکان نہیں ہے اور یہ کیفیت یقینا کسی علم و قدرت سے منسلک ہے ۔

نتیجہ: اس دنیا کا نظم وضبط اور اس کی تدبیربہ نحو احسن اس بات پر گواہ ہے کہ ایک علیم و خبیر خالق نے نہایت خو ش اسلو بی سے اس کا نقشہ تیار کیا ہے اس کے بعد عالم ہستی کو انہیں بنیادوں پر قائم کیا۔

خلقت، خالق کا پتہ دیتی ہے

اگر ایک گاڑی کا وجو د اس کے بنانے والے او رایک کتاب کا وجو د اس کے لکھنے والے، ایک مکان کا وجود اس کے معمار کا پتہ دیتاہے تویہ عظیم خلقت یہ دقیق نظام ،حکیم وعلیم ،قادر یعنی خدا وند متعال کے وجو د کا جیتا جا گتا ثبوت ہے ۔

ایک سیٹ لائٹ بنا نے کے لئے سیکڑوں سائنس داں، دن رات سرجو ڑ کر تحقیق کرتے ہیں اور دقیق ریاضی اور علم حساب کے تحت ا س کو فضا میں چھوڑتے ہیں اور اس میں حرکت پیدا کرتے ہیں ۔

کروڑوں کہکشائیں جس میں کروڑوں منظومۂ شمسی ہیں او ر ان میں سے ہر ایک میں کروڑوں سیارات وکو اکب پائے جا تے ہیں اور سب کے سب فضا میں بغیر کسی تھوڑی سی غلطی کے گردش کرتے ہیں کیاقادر مطلق خدا کے وجود پر دلیل نہیں ہیں ؟۔

۵۰

نیوٹن اورایک مادی دانشمند کا دلچسپ مباحثہ

مشہو ر ستارہ شناس اور ریاضی داں نیوٹن نے ایک ماہر مکینک سے کہا کہ ایک چھوٹا سا سانچہ ،منظومہ شمسی کے لئے تیار کرو اس منظومہ کے سیارات چھوٹے چھوٹے گیند تھے جو ایک تسمہ سے بندھے ہو ئے تھے اوران کے لئے ایک ہینڈل بنایاگیا تھا جب اس کو چلاتے تھے تو نہایت ہی دلکش کیفیت میں وہ سارے گیند اپنے اپنے مدار پر گردش کرتے تھے اور اپنے مرکز کے ارد گرد چکر لگا تے تھے ۔

ایک دن نیوٹن اپنے مطالعہ کی میز کے پاس بیٹھا تھا او ریہ سا نچہ بھی وہیں رکھاتھا ۔ اس کا ایک قریبی دوست جو میٹر یالیزم کا مفکر ودانشمند تھا آیا جیسے ہی اس کی نگا ہ اس خوبصورت سانچہ پر پڑی وہ ششدر رہ گیا اورجب نیوٹن نے اس ہینڈل کو گھمایا اور وہ سارے سیارا ت بہت ہی آہستہ او ردلکش انداز میں اپنے مرکز کے گرد چکر لگانے لگے تو اس کی حیرانی میں اور اضا فہ ہو گیا او رچیخ پڑا ،ارے واہ ،یہ تو بہت ہی حیرت انگیز چیزہے اس کو کس نے بنایا ہے ،نیو ٹن نے کہا کسی نے نہیں ،یہ یک بیک بن کر تیار ہوگیاہے ،اس مادی مفکر نے کہا:نیوٹن صاحب آپ کیاسمجھتے ہیں کہ میں نراپاگل ہو ں یہ سانچہ خو د بخود کیسے بن سکتا ہے کیا یہ ممکن ہے !۔

نہ صرف یہ کہ اس کا بنا نے والا کو ئی ہے بلکہ اس کا بنانے والا عصر حاضر کا نا بغہ ہے نیوٹن آہستہ سے اٹھا اوراس مفکر کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر بولا میرے اچھے دوست جو تم دیکھ رہے ہو وہ صرف ایک سانچہ ہے جو ایک عظیم نظام شمسی کے تحت بنایا گیا ہے ! اور تم اس بات پر بالکل راضی نہیں ہوکہ یہ خو د بخود بن گیا ہے توتم اس بات کو کیسے مان لیتے ہو کہ خود نظام شمسی اپنی تمام تر وسعت و پیچیدگی کے ساتھ بغیر کسی عاقل وقادر کے وجو دمیں آگیا ؟!مادی مفکر بہت شرمندہ ہو ااور لا جواب ہو کر رہ گیا جی ہاں

۵۱

یہ وہی برہان نظم ہے جو قادر و توانا خدا کے وجود پر دلیل ہے( ۱ )

مو حد وزیر کی دلیل منکر بادشاہ کے لئے

ایک خدا کے منکر بادشاہ کا ایک توحید پرست وزیر تھا وزیر جو بھی دلیل پیش کرتا وہ قبول نہ کرتا .یہاں تک کہ وزیر نے بادشاہ کو اطلاع دئے بغیر ایک بہترین محل بنوایا ،جو آب وہوا کے حساب سے بھی بہت منا سب تھا اور اس میں انواع و اقسام کے پھل اورپھول لگے ہو ئے تھے ایک دن وزیر نے بادشاہ کو اس محل کے دیدار کی دعوت دی، بادشاہ کو وہ محل بہت پسند آیا اس نے پوچھا اس کا معمار و انجینئرکو ن تھا؟وزیر نے فوراً جو اب دیا بادشاہ سلا مت نہ ہی اس کا کو ئی انجینئر ہے اور نہ معمار ، ہم نے دیکھا کہ اچانک ایک محل تیار ہو گیا بادشاہ آگ بگو لہ ہو گیا او ربولا کہ تم میرا مذاق اڑا رہے ہو کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی چیز خودبخود پید ا ہو جا ئے ؟وزیر نے کہا : بادشاہ سلا مت اگر یہ چھوٹا سا قصر بغیر کسی بنا نے والے کے نہیں بن سکتا تو اتنی بڑی دنیا اپنی تمام ترعظمتوں کے ساتھ یہ زمین وآسمان یہ دریا و سمندر اور اس کے تما م موجودات بغیر خالق کے کیسے وجود میں آگئے؟بادشاہ سمجھ گیا اس نے وزیر کو سراہا اور خدا شناسی کی راہ پرآگیا ۔

____________________

(۱) ہستی بخش ص ۱۴۹ شہید ھا شمی نژاد

۵۲

برہا ن نظم کا خلا صہ اور نتیجہ

تما م مخلو قات منجملہ:

۱ ۔کہکشاں ،سیارات وکواکب

۲۔انسان او ر اس کے تمام رموز و اسرار جو اس کی خلقت میں پوشیدہ ہیں ۔

۳۔ ایٹمس ، خلیہ اور اعصاب

۴۔حیوانات اور ان کے مختلف اقسام

۵۔ نبا تات اور ان کے خو اص

۶۔دریا ،سمندر اور ان کے عجائبات و مخلو قات

۷۔ جہا ن خلقت کا دقیق نظم وضبط

۸۔اس دنیا کی وہ ساری چیزیں جو ابھی عقل بشر میں نہیں آئی ہیں سب کی سب حکیم و دانا اور قادر خداوند عالم کے وجود پر دلیل ہے۔

سوالا ت

۱۔نظمِ جہان کے علم کی پیدا وار کیسے ہو ئی ؟

۲۔ برہا ن نظم کی اساس و بنیاد کیا ہے ؟

۳۔ نیو ٹن اور مادی مفکر کے مباحثہ کا خلا صہ بیا ن کریں ؟

۴۔ موحد وزیر کی دلیل منکر بادشاہ کے لئے کیا تھی ؟

۵۳

ساتواں سبق

توحید اور خدا کی یکتائی

قال اللّہ تعا لیٰ:( فَاِلٰهُکُم اِلهُ وَاحدُ فَلَهُ أَسلِمُوا ) ( ۱ ) تم سب کا خد اایک ہے لہٰذا اس کے سامنے سر تسلیم خم کردو ۔( لا تَجعل مَعَ اللّٰهِ اِلهًا آخَر ) ( ۲ ) خدا کے ساتھ کو ئی دوسرا معبود قرار نہ دو( لَوکانَ فِیهِماَ أَلِهةُ اِلّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ) ( ۳ ) اگر زمین و آسمان میں دو خدا ہوتے تو زمین و آسمان ختم ہوجا ئے ۔

تمام الٰہی رسولوں کا اصلی نعرہ توحید تھا اور پیغمبر عربی کو ہ حرا سے''قولوا لا الہ الا اللّٰہ تفلحوا'' کہتے ہو ئے آئے اور آپ نے حدیث میں فرمایا کہ :افضل العبادة قول لااله الا اللّٰه بہترین عبادت لا الہ الا اللّٰہ کہنا ہے ۔

توحید اور یکتائی پر دلیلیں

۱۔ وہ خدا جوکما ل مطلق ہے اور اس کے لئے کو ئی حد اور مقدار نہیں ہے وہ پروردگارجو ازلی و ابدی ہے، وہ پرور دگار کہ زمان و مکا ن جس کی پیداکی ہوئی مخلوق

____________________

(۱)سورہ حج آیہ: ۳۴

(۲) سورہ اسراء آیة: ۲۲

(۳) سورہ انبیاء آیة:۲۲

۵۴

ہے اور وہ ایک ہی ہے ۔ اگر خدا کے لا محدود و لا متناہی ہو نے کے بارے میں غور و فکر کریں تو بات یہ کھل کر سامنے آئے گی کہ ایک کے علاوہ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ تعدّد محدودیت کا سبب ہے ۔

۲۔ دنیا میں ایک نظام کا بول بالا ہے اور ایک نظام کسی ایک ناظم کے وجو د کا متقاضی ہے ستارہ شناس ،دا نشور جن قوانین و نظام کا مشاہدہ کہکشاں وکرات میں کرتے ہیںاورا یٹمی ماہرین بھی ایٹمی ذرات میں انہیں قوانین کامشاہدہ کرتے ہیںنیز یہی قوانین جسم انسان میں بھی کا ر فرما ہیں، او راگر ایک کے سوا دوسراحاکم و ناظم ہو تا تو عالمی نظام درہم برہم ہو جا تا ، یہی معنی ہیں( لَو کَانَ فِیهِمَا آلِهةُ اِلاّ اللّٰهُ لَفَسدَتَا ) ( ۱ ) کے۔

۳۔ وحدانیت خدا پر تمام انبیا ء کی خبریں اس کی وحدانیت پر ٹھوس دلیل ہیں وہ تمام انبیاء و مرسلین جو خدا کی جانب سے احکام الٰہی کو پہچانے پر متعین تھے سب نے خدا کو واحد بتایا ہے .حضرت امیرالمومنین مام حسن سے وصیت کرتے وقت فرماتے ہیں :واعلمْ یا بُنی أَنه لو کان لربک شریک لأتتک رسله و لرأت آثار ملکه و سلطانه و معرفة أفعاله وصفاته و لکنَّه اللّٰه واحد کما وصف نفسه ( ۲ ) میرے لا ل جان لو کہ اگر خداکاکوئی شریک ہو تا تو اس (شریک)کا کو ئی رسول تم تک ضرور آتا اور اس کی قدرت و ملوکیت

____________________

(۱) سو رہ انبیا ء آیة: ۲۲

(۲) نہج البلا غہ مکتوب، ۳۱۔امام حسن سے وصیت سے متعلق

۵۵

کے آثار تم ضرور دیکھتے ، اس کے افعال و صفات سے ضرور آگا ہ ہو تے لیکن وہ واحد ویکتا ہے جیسا کہ خو د اس نے اپنی توصیف میں کہاہے( وَمَا أَرسَلنا مِن قَبلِک مِنْ رَسُولٍ اِلَّا نُوحِی اِلیه أنَّهُ لا اِله اِلَّا أَنا فَاعبُدُون ) ( ۱ ) میرے حبیب ہم نے تم سے پہلے کسی نبی کو نہیں مبعوث کیا مگر یہ کہ ہم نے اس تک وحی کی کہ میرے علاوہ کو ئی معبود نہیں ، لہٰذا میری عبادت کرو ۔

مسئلہ توحید تمام اوصاف الہیہ کی شنا خت کا بنیا دی مسئلہ ہے کیونکہ اس کی یکتائی اس کے لا محدود ہو نے پر دلا لت کر تی ہے اور یہی وجو د (وحدا نیت ) ہے جو تمام کمالا ت کا مجموعہ ہے او رہر طرح کے عیب سے پاک ومنزہ ہے خلا صہ کلا م یہ کہ اگر ہم نے خد اکو حقیقی معنوں میں واحد ویکتا مان لیا تو گویا اس کے سا رے صفات سے آشنا ہو گئے ۔

عَن أَبیِ عبد اللّٰهں قال : مَن قال لا اِله الَّا اللّه مُخلِصاً دخل الجنَّة و اِخلاصه أن تحجزه لا اِله الّا اللّه عمّا حرّم اللّه عزّوجلَّ ( ۲ )

امام صادق نے فرمایا:جو کو ئی خلو ص کے ساتھ لا اِلہ الّا اللّہ کہے گا وہ داخل بہشت ہو گا اور اس کا خلو ص اس بات کا متقاضی ہے کہ''لا اِلہ الّا اللّہ'' کو ہر اس چیز سے دور رکھے جس کو خد انے حرام قرار دیا ہے ۔

____________________

(۱) سو رہ انبیاء آیة۲۵

(۲) توحید صدوق باب ثواب المو حدین حدیث ۲۶

۵۶

قال ابو عبد اللّه علیه السلام : مَن قال لا اله اِلاّ اللّه مائة مرّة کان أَفضل النّاس ذلک الیوم عملاً اِلّا من زاد ۔

امام جعفر صادق نے فرمایا : جو شخص سو مرتبہ خلوص کے ساتھ لا الہ الا اللّہ کہے تو روز محشر (اس) عمل کے باعث افضل ناس میں شمار ہو گا مگر یہ کہ کو ئی اس سے زیادہ کہے ہو( ۱ )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : پیش پروردگار لا اِلہ اِلّا اللّہ سے بہتر کو ئی کلا م نہیں ہے جو شخص لا اِلہ اِلّا اللّہ کی تکرار کرے گا اس کے گنا ہ یوں ختم ہوں گے جیسے درخت سے سو کھے پتے جھڑجاتے ہیں۔( ۲ )

مراتب توحید

۱۔توحید ذاتی: یعنی ہر جہت سے بے نظیر اور تمام جہات سے کا مل ہو۔ (لَیسَ کَمِثلهِ شَیئُ وَهُوَ السَّمِیعُ البَصیرُ )( ۳ )

اس کی مانند کو ئی شیٔ نہیں ہے وہ سننے اور دیکھنے والا ہے(ولَم یَکن لَهُ کُفواً أَحد )( ۴ ) اس کا کو ئی ہمسرو ہم پلہ نہیں ہے ۔

۲۔ توحید صفاتی : یعنی اس کے تمام صفات کی بازگشت صرف ایک طرف ہے اس کے صفا ت اس کی عین ذات ہے یعنی وہی خدا ہے جو عالم ،قادر ،حی ،... ہے ایک

____________________

(۱) توحید صدوق باب ثواب المو حدین ۔۱ حدیث ،۳۳

(۲)سابق حوالہ حدیث ،۱۵

(۳) سورہ شوری آیة ۱۱

(۴) توحید۴۔

۵۷

شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور عرض کی بنیاد علم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : معرفة اللّہ حقُّ معرفتہ (خدا کے شایان شان اس کی معرفت حاصل کرنا ہے )اس نے عرض

کیا حق معرفت کیا ہے ؟آپ نے فرمایا :'' اِن تعرفه بلا مثال ولا شبه وتعرفه اِلها واحداً خالقاً قادراً اوّلاً وآخراً وظاهرأً وباطناً لا کفو له ولا مثل له فذاک معرفة اللّه حقّ معرفته'' اس کو بلا شبیہ وبلا مثل جانو، اس کو ایسا خدا جانو جو واحد ،خالق ، قادر ، اول ،آخر ،ظاہر وباطن ہے، نہ ہی ا س کا کوئی ہم پلہ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مثل ہے ، خدا کو اس طرح جاننا اور ماننا حق معرفت خدا وندی ہے۔( ۱ )

۳۔ توحید افعالی :توحید افعال کا مطلب دونوں عالم کے تمام امور فعل خداوند سے متعلق ہیںتمام موجو دات جس خاصیت کے بھی حامل ہو ںذات الٰہی کی مرہون منت ہیں،گلوں کی شگفتگی ،سورج کی ضیا ء باری ، مشکلات کا حل، سب کا سب اس کی ذات سے متعلق ہے. یعنی کا ئنات ہستی کی کسی شئی میں استقلا ل نہیں، اس دنیا میں مستقل و موثر صرف ذات خداوندی ہے ،دوسرے لفظوں میں یو ں کہا جائے کہ موجودات عالم جس طرح اپنے وجو د میں ذات الٰہی سے وابستگی پر مجبور ہیں اپنے تاثیر و فعل میں بھی مجبور ہیں البتہ اس کے معنی یہ ہرگزنہیں ہیں کہ قانو ن علیت وعالمِ اسبا ب کی نفی کردی جا ئے ۔

امام صادق کے فرمان کے مطابق کہ :أبی اللّه أن یجری الأشیاء اِلّا بأَسبابٍ ( ۲ ) خدااس بات سے پر ہیز کرتا ہے کہ کوئی چیز حرکت نہ

____________________

(۱) بحاالا نوار ج۳ ص ۱۴ ۔

(۲)اصول کا فی باب معرفة الامام حدیث ۷۔

۵۸

کرے مگر اپنے اسبا ب کے تحت، توحید افعالی کا اعتقاد ہرگزانسان کے لئے جبرا ور سلب اختیار کاموجب نہیں ہو گا ؛انشاء اللہ آئندہ بحثوں میں اس بات کی جانب اشارہ کریں گے کہ انسان اپنے افعال میں خو د مختار ہے لیکن تمام قوت و قدرت حتی ارادہ انسا ن بھی خدا کے ہاتھوں ہے( قُلِ اللّهُ خَالِقُ کُلِّ شَیئٍ وَهُوَ الوَاحدُ القَهّارُ ) ( ۱ ) اے نبی! کہہ دیجئے کے خدا تمام اشیاء کا خالق ہے وہ ایک او رقہا ر ہے.( ذَلکُمُ اللّهُ رَبَّکُم لا اِله اِلّا هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیئٍ فَاعبُدوُهُ وَ هُو علیٰ کُلِّ شییئٍ وَکِیلٍ ) ( ۲ ) اللہ ہی تمہارا خدا ہے اس کے سو ا کو ئی معبود نہیں وہ ہر شی ٔکا خالق ہے لہٰذا اس کی عبادت کرو وہ ہر شی ٔ کا محافظ و مدبر ہے ۔

۴۔ توحید در عبادت :توحید کی قسمو ںمیں حساس ترین قسم توحید در عبادت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں او راس کے علاوہ کسی کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں ،توحید در عبادت ، توحید در ذات اور توحید در صفات کا لا زمہ ہے جب یہ بات مسلم ہو گئی کہ وہ واجب الوجو د ہے او راس کے سو ا سبھی ممکن و محتاج ہیں لہٰذا عبادت صرف اسی سے مخصوص ہے اور وہ کمال مطلق ہے اس کے علا وہ کسی کمال مطلق کا وجو د نہیں ہے ۔عبادت کا مقصد بھی کمال طلبی ہے لہٰذا عبادت صرف ذات پروردگا ر سے مخصوص ہے تمام انبیاء و مرسلین کی تبلیغ کا عنوان کلی ،توحید در عبادت تھا آیات قرآنی بھی اس سلسلہ میں موجود ہیں ۔

____________________

(۱) سورہ رعد آیة: ۱۶

(۲)انعام آیة ۱۰۲

۵۹

قرآن او رتوحید در عبادت

۱۔( وَ لَقَد بَعثَنَا فِی کُلِّ أُمةٍ رَسُولاً أَن اعبُدُوا اللّه واجَتنِبوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تاکہ خدا ئے یکتا کی عبادت کریں او رطاغوت سے پر ہیز کریں ۔

۲۔( وَماَ أَرسَلنَا مِنْ قَبلِک مِنْ رَسُولٍ اِلّا نُوحِی اِلیه أَنّهُ لا اِله اِلَّا أَنَا فَاعبُدُونِ ) ( ۲ ) ہم نے آپ سے قبل کسی رسول کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس پر وحی کی کہ میرے علاوہ کو ئی معبود نہیں لہٰذا میری عبادت کرو ۔

۳۔( وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّی وَ رَبُّکُم فَاعبُدُوه هذا صِراطُ مُستقِیمُ ) ( ۳ ) بیشک اللہ ہمارا او رتم سب کا پر ور دگا رہے لہٰذا اس کی عبادت کرو اوریہی سیدھا راستہ ہے۔

اس نکتہ کی جانب توجہ ضروری ہے کہ احترام، تواضع او رخشوع کے مراتب و درجات ہیں اور سب سے آخری اور اعلی درجہ پرستش و عبودیت ہے .اوریہ مرحلہ صرف ذات خدا وند سے مخصوص ہے جس کا بین ثبوت سجدہ ہے ۔

اسی بناء پر غیر خداکا سجدہ کرنا جائز نہیں ہے. او ریہ بات مسلّم ہے کہ اگر انسان عبودیت کے اس مرحلہ پر پہنچ جائے اور پیش پرور دگا ر اپنی پیشانی کو خاک پر رکھ دے تو گویا اس نے اطاعت خدا کی راہ اور اپنے تکامل میں بہت زیادہ پیش قدمی

____________________

(۱) سورہ نحل آیة: ۳۶

(۲) سورہ انبیا ء آیة: ۲۵

(۳) سورہ مریم آیة:۳۶

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

رحمت اللہ راشد احمدآبادی (ناگپور)

یہی ہے التجا یا رب، ہدایت بھیک میں دے دے

اطاعت بھیک میں دے دے، عقیدت بھیک میں دے دے

*

تری شان کریمی کا، تجھے ہے واسطہ یا رب

رسول پاک کی مجھ کو محبت بھیک میں دے دے

*

ترے محبوب کے در کے گداؤں کا گدا ہوں میں

حکومت وقت پر کرنے کی طاقت بھیک میں دے دے

*

رگوں میں خون کی گردش ہمیشہ ورد کرتی ہے

مجھے شبیر کا طرز عبادت بھیک میں دے دے

*

ترے محبوب سے بھی اب مخاطب ہو کے کہنا ہے

مرے آقا شفاعت کی ضمانت بھیک میں دے دے

*

تجھے ہے حیدر کرار کا بھی واسطہ یا رب؟

شجاعت بھیک میں دے دے کرامت بھیک میں دے دے

*

سزا وار ثنا و حمد، اے اللہ راشدؔ کو

تو اپنی مدح کرنے کی اجازت بھیک میں دے دے

***

۱۸۱

سیدابرارنغمیؔ (رائے سین)

غرور کج کلاہی سے بچا لے

خدارا کم نگاہی سے بچا لے

*

نہ ہو انصاف پر بنیاد جس کی

تو ایسی بادشاہی سے بچا لے

*

جو باطن میں ہو عصیاں کا سمندر

وہ ظاہر بے گناہی سے بچا لے

*

جہاں ہر شہر ہو مقتل کا منظر

تو اس عالم پناہی سے بچا لے

*

عطا نغمیؔ کو ہو عشق محمد ؐ

مزاج خانقاہی سے بچا لے

***

۱۸۲

ہارون رشید عادل (کامٹی)

میرے خدا تیری رضا

چا ہوں میں کیا اس کے سوا

*

عاصی ہوں میں بندہ تیرا

تو بخش دے میری خطا

*

گمراہ ہوں رستہ دکھا

تو قہر سے اپنے بچا

*

ہر چیز پر غلبہ تیرا

قدرت تری ہے بے پناہ

*

بے شک ہے توسب سے جدا

سجدہ ہے بس تجھ کو روا

*

مجھ کو ملےتیری پناہ

اس سے بھلابہتر ہو کیا

عادلؔ کی ہےبس یہ دعا

***

۱۸۳

عبد المجید کوثر (مالیگاؤں )

زندگی اک سوال ہے ربی

آپ اپنی مثال ہے ربی

*

ایسی بپتا پڑی ہے اب مجھ پر

سانس لینا محال ہے ربی

*

اتنا ٹوٹا ہوں ایسا بکھرا ہوں

میرا جڑنا محال ہے ربی

*

ہائے دنیا کی سب کتابوں میں

لفظ انساں کا، کال ہے ربی

*

کیسے موتی نکالوں ساگر سے

قطرے قطرے پہ جال ہے ربی

*

حال کہتے تھے دل سے ہم لیکن؟

وہ بھی پائمال ہے ربی

*************

۱۸۴

فہرست

سورۂ الفاتحہ ۴

(آزاد منظوم ترجمہ) ۴

امتیاز الدین خان ۴

حمد ۵

حضرت ادیب مالیگانوی مرحوم ۵

(۱) ۵

(۲) ۷

(۳) ۸

حمد ۹

الحاج حکیم رازیؔ ادیبی (پونہ) ۹

حمد ۱۰

ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی (بہرائچ) ۱۰

حمد ۱۲

قیصر شمیم (کولکتہ) ۱۲

حمد ۱۳

قیصر شمیم (کولکتہ) ۱۳

حمد ۱۴

ڈاکٹر زبیر قمر دیگلوری (دیگلور) ۱۴

۱۸۵

محمد ہارون سیٹھ سلیم (بنگلور) ۱۵

ڈاکٹر فیض اشرف فیض (اکبرآبادی) ۱۷

یونس انیس (ناگپور) ۱۹

ظفر کلیم (ناگپور) ۲۰

کرشن کمار طور (پنجاب) ۲۱

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ ۲۲

( ۱) ۲۲

( ۲) ۲۳

( ۳) ۲۴

مدہوش بلگرامی (ہردوئی) ۲۶

سیدطاہرحسین طاہر (ناندیٹر) ۲۸

رہبر جونپوری(بھوپال) ۳۰

محفوظ اثر (ناگپور) ۳۲

عرش صہبائی (جموں ) ۳۳

(۱) ۳۳

(۲) ۳۵

اللہ ھو ۳۷

افضل علی حیدری (ناگپور) ۳۷

حبیب راحت حباب (کھنڈوہ) ۳۹

(۱) ۳۹

۱۸۶

(۲) ۴۰

اختر بیکانیری ۴۱

رحمتِ الٰہی ۴۲

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ ۴۲

شبیر آصف (مالیگاؤں ) ۴۷

صالحؔ بن تابش (مالیگاؤں ) ۴۸

سلیم شہزاد (مالیگاؤں ) ۴۹

ڈاکٹر معین الدین شاہین (بیکانیر) ۵۰

بیتاب کیفی (بھوجپور) ۵۲

ڈاکٹر مقبول احمد مقبول (اودگیر) ۵۴

حمد باری تعالیٰ ۵۵

فرید تنویر (ناگپور) ۵۵

پروردگار دیتا ہے ۵۷

نور منیری (پونہ) ۵۷

راج پریمی (بنگلور) ۵۹

امیر اللہ عنبر خلیقی (ناگپور) ۶۰

ڈاکٹر بختیار نواز (بجرڈیہہ) ۶۱

حمد باری تعالیٰ ۶۲

یونس انیس (ناگپور) ۶۲

حمد ربِ کائنات ۶۴

۱۸۷

کیفی اسماعیلی (کامٹی) ۶۴

احمدرئیس (کلکتہ) ۶۶

محمد افضل خان (ہوڑہ) ۶۷

رزاق افسر (میسور) ۶۸

نظیر احمد نظیر (کامٹی) ۶۹

طالب صدیقی (کلکتہ) ۷۰

رخشاں ہاشمی (مونگیر) ۷۱

صابر فخر الدین (یادگر) ۷۲

صابر فخر الدین (یادگر) ۷۳

علیم الدین علیم (کلکتہ) ۷۴

حیدر علی ظفر دیگلوری ۷۵

حامد رضوی حیدرآبادی ۷۶

سکندر عرفان (کھنڈوہ) ۷۷

صابر جوہری (بھدوہی) ۷۸

(۱) ۷۸

(۲) ۸۰

محمد نصراللہ نصرؔ (ہاوڑہ) ۸۱

( ۱) ۸۱

(۲) ۸۲

مشرف حسین محضر (علی گڑھ) ۸۳

۱۸۸

مراق مرزا (بمبئی) ۸۴

رحمت اللہ راشد احمدآبادی (ناگپور) ۸۵

حافظ اسرارسیفی (آرہ) ۸۶

شاغل ادیب (حیدرآباد) ۸۷

فراغ روہوی (کلکتہ) ۸۸

خضر ناگپوری (ناگپور) ۸۹

بولو وہ کون ہے ؟ ۹۱

ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء (ناگپور) ۹۱

محسن باعشن حسرت (کلکتہ) ۹۳

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ ۹۵

(۱) ۹۵

(۲) ۹۶

(۳) ۹۷

(۴) ۹۸

فرید تنویر (ناگپور) ۹۹

منظورالحسن منظور (پونہ) ۱۰۰

حمد باری تعالیٰ جل شانہٗ ۱۰۲

بختیار مشرقی (اورئی) ۱۰۲

دوہا حمد ۱۰۶

عاجز ہنگن گھاٹی (ہنگن گھاٹ) ۱۰۶

۱۸۹

حمدیہ ماہیے ۱۰۷

مدہوش بلگرامی (ہردوئی) ۱۰۷

راہی صدیقی (ہردوئی) ۱۰۹

منصور اعجاز (آکولہ) ۱۱۲

تخلیق کائنات ۱۱۳

منصور اعجاز (آکولہ) ۱۱۳

حمد ۱۱۵

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ) ۱۱۵

اللہ تعالیٰ ۱۱۷

حشمت کمال پاشاؔ (کلکتہ) ۱۱۷

تحفہ حمد بحضور خالق کائنات ۱۱۸

خان حسنین عاقبؔ (پوسد) ۱۱۸

ارشاد خان ارشاد (ممبرا۔ ممبئی) ۱۲۱

الیاس احمد انصاری شادابؔ (آکولہ) ۱۲۲

عرفان پربھنوی ۱۲۳

گوہر تری کروی (میسور) ۱۲۴

اسماعیل پرواز (ہوڑہ) ۱۲۵

زاہدہ تقدیسؔ فردوسی (جبلپور) ۱۲۶

ڈاکٹر فدا المصطفی فدوی (ساگر) ۱۲۷

طالوت ۱۲۹

۱۹۰

ڈاکٹر شرف الدین ساحل (ناگپور) ۱۲۹

فہیم بسمل (شاہجہاں پور) ۱۳۰

مناجات ۱۳۲

عرفان پربھنوی (پربھنی) ۱۳۲

لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ ۱۳۴

رزاق افسر (میسور) ۱۳۴

وہ شاہ، سب ہیں گدا، لا الہ الا اللہ ۱۳۶

ڈاکٹر نسیم (وارانسی) ۱۳۶

محمد شاہد پٹھان (جئے پور) ۱۳۹

محمد ہارون سیٹھ سلیم بنگلوری ۱۴۰

ڈاکٹر سید ساجد علی (بنگلور) ۱۴۱

محمد حسین دلبرؔ ادیبی ۱۴۲

سلام نجمی (بنگلور) ۱۴۳

سید طاہر حسین طاہر (ناندیڑ) ۱۴۶

رجب عمر (ناگپور) ۱۴۸

علیم الدین علیم (کلکتہ) ۱۴۹

حسن رضا اطہر (بوکارو سیٹی) ۱۵۰

تلک راج پارس (جبل پور) ۱۵۱

رخشاں ہاشمی (مونگیر) ۱۵۲

رئیس احمد رئیس (بدایوں ) ۱۵۳

۱۹۱

امیر اللہ عنبر خلیقی (ناگپور) ۱۵۴

ڈاکٹر قمر رئیس بہرائچی (بہرائچ) ۱۵۵

بیتاب کیفی (بھوجپور) ۱۵۷

عارف حسین افسر (بلندشہری) ۱۵۹

سیداصغربہرائچی (بھرائچ) ۱۶۱

عبرت بہرائچی (بھرائچ) ۱۶۲

( ۱) ۱۶۲

(۲) ۱۶۳

ڈاکٹر امین انعامدار (امراؤتی) ۱۶۵

(۱) ۱۶۵

(۲) ۱۶۶

ڈاکٹر نثار جیراجپوری (اعظم گڑھ) ۱۶۷

عطا عابدی (بہار) ۱۶۸

( ۱) ۱۶۸

(۲) ۱۶۹

امتیاز احمد عاقل نقشبندی (بھدوہی) ۱۷۰

پروفیسر اقتدار افسرؔ (بھوپال) ۱۷۱

سہیل عالم (کامٹی) ۱۷۳

غلام مرتضیٰ راہی (فتح پور) ۱۷۴

اظہار سلیم (مالیگاؤں ) ۱۷۶

۱۹۲

حبیب راحت حباب (کھنڈوہ) ۱۷۷

( ۱) ۱۷۷

(۲) ۱۷۸

(۳) ۱۷۹

ڈاکٹر مسعودجعفری (حیدرآباد) ۱۸۰

رحمت اللہ راشد احمدآبادی (ناگپور) ۱۸۱

سیدابرارنغمیؔ (رائے سین) ۱۸۲

ہارون رشید عادل (کامٹی) ۱۸۳

عبد المجید کوثر (مالیگاؤں ) ۱۸۴

۱۹۳

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303