اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155068 / ڈاؤنلوڈ: 4153
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کی ہے ایسی خالص عبادت، عشق محبوب سے مکمل لبریز ہے اور اس محبت کا اثر خدا کی جانب پیش قدمی کا بہت اہم سبب ہے، کمال مطلق کی جانب پیش قدمی گناہو ں اور تمام آلودگیو ں سے کنارہ کشی کا پیش خیمہ ہے ۔

حقیقی عبادت گذار اس بات کی سعی پیہم کرتا ہے کہ خود کو محبوب کے جیسا قراردے اور ا سی طرح سے خود کو صفات جمال و جلا ل الٰہیہ کا پر توقرار دیتا ہے اور یہ امور انسان کے تربیت وتکامل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

سوالات

۱۔خدا کی وحدانیت پر دلیل پیش کریں ؟

۲۔ مراتب توحید کیا ہیں ؟

۳۔ توحید افعال سے مراد کیاہے ؟

۴۔ توحید در عبادت کی وضاحت کیجئے ؟

۶۱

آٹھواں سبق

صفات خدا (فصل اول )

جس طرح سے شناخت خدا وندمتعال اور اس کے اصل وجو د کو جا ننا آسان ہے اسی طرح اس کے صفات سے آگاہی چنداں آسان نہیں ہے .کیونکہ خد اکی شنا خت کے لئے آسمان کے ستارے، درختوں کے پتے ،متنوع برگ وگیاہ ، جاندار اشیاء بلکہ ایٹمی ذرات کی تعداد یہ سب اس کے وجود پر دلیل ہیں یہ سب کے سب اس کے عظمت کی نشانیاں ہیں، لیکن اس کی صفات کی پہچان کے لئے غوروخو ض او ر دقت نظر کی ضرورت ہے تاکہ تشبیہ اور قیا س آرائی سے دور رہیں صفات خدا کی شناخت کی پہلی شرط ،صفات مخلو قات کی خدا سے نفی کرنا او رخدا کاکسی مخلوق سے تشبیہ نہ دینا ہے کیو نکہ خدا کی کسی صفت کا مخلوقات کی صفت سے کسی طرح موازنہ ہو ہی نہیں سکتا ،مادی صفات میں سے کو ئی صفت اس کی پاک ذات میں دخیل نہیں ہے کیو نکہ مادی صفت محدودیت کا سبب ہے اور وہ لا محدود ہے اور تمام مراتب کمال کا مجموعہ ہے لہٰذا ہم اس کی ذات کوکماحقہ درک نہیں کر سکتے اور اس طرح کی کو ئی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے ۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ عقل، خد اکی حقیقت ذات اور اس کے صفات کو کیوں نہیں درک کر سکتی ؟ تو اس کاجواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس ہررخ سے بے نظیر و لا محدود ہے ،علم ،قدرت اور اس کے تمام صفات اس کی ذات کی طرح لا محدود ہیں ، اور دوسری طرف ہم او رجو کچھ ہم سے مربوط ہے ، علم ،قدرت ،حیات ،فرمان ،مکا ن، سب محدود ومتناہی ہے ۔تو ان تمام تر محدودیت کے ساتھ اس کی حقیقت ذات کو کہ جولامحدود ہے کیسے درک کر سکتے ہیں ؟!اس کی حقیقت ذات کو آخر کیسے درک کریں جس کی کو ئی شبیہ ومثیل نہیں ؟۔

۶۲

صفات ثبوتیہ و سلبیہ :

صفات خدا کو دو قسموںمیں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ثبوتیہ و سلبیہ

صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

''عالم ،قادر ، حی، مرید ، مدرک ، سمیع ، بصیر ، متکلم و صادق ''۔خدا وند کمال مطلق ہے جو کچھ صفات ثبوتیہ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے وہ اصول صفات ہیں نہ یہ کہ خدا ان میں منحصر و محدود ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ

''وہ مرکب ومجسم نہیں ، قابل دید و محلول نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں ''

صفات ذات و صفات فعل

صفات ثبوتیہ کی دوقسمیں ہیں ۔ صفات ذات و صفات فعل

صفات ذات: جو اس کی عین ذات ہیں انہیں کو ذات خدا وندی سے جدا نہیں کرسکتے جیسے علم ،قدرت،حیات ،اور جن کی بھی ان تینوں صفات کی طرف بازگشت ہو جیسے سمیع ، بصیر، قدیم، ازلی، ابدی، مدرک، حکیم، غنی، کریم ،عزیز و غیرہ ۔

صفات فعل : وہ صفات جو افعال خدا وندسے متعلق ہیں یعنی جب تک وہ افعال اس سے صادر نہ ہو ں وہ صفات اس سے متصف نہیں ہو ںگے جیسے خالق رازق یااس کے ماننددوسرے صفات اور کبھی اس سے یہ صفات سلب بھی ہو جا تے ہیں جیسے''کان اللّٰهُ ولمْ یُخلق شیئاً ثُم خَلَق ۔أراد اللّه شیئاً ولم یرد شیئاً آخر شاء ولم یشائ''وه خدا تھا جس نے خلق نہیں کیا تھا پھراس نے خلق کیا، خدا نے ایک چیز کا ارادہ، کیا دوسری چیز کا ارادہ نہیں کیا ، چاہا اور نہیں چاہا ۔''تکلم مع موسیٰ ولم یتکلم مع فرعون یُحب مَن أطاعہُ ولا یُحب مَنْ عصاہ'' حضرت موسی سے ہم کلام ہوا فرعون سے کلام نہیںکیا ،جو اس کی اطاعت کرتا ہے اس کو دوست رکھتا ہے اور جو اس کی نا فرمانی کرتاہے اس کو دوست نہیں رکھتا ، اس کے صفات فعل میں ''اذا '' اور ''اِن'' کا لفظ داخل و شامل ہو تا ہے جیسے '' اِذا أراد شیئاً و اِن شائَ اللّه'' اس کی صفات ذات میں ''اِذا عَلِم اللّه ''اور''اِن عَلِم ''نہیں کہہ سکتے۔

۶۳

علم خداوند

وہ واجب الوجود جو عالم علم کل ہے اس کی حیرت انگیز نظم و ہماہنگی پوری کائنات پر محیط ہے ،جو اس کے لا متناہی علم کا بیّن ثبوت ہے اس کے علم کے لئے ماضی حال ،مستقبل سب برابر ہے ، اس کا علم ازل و ابد پر محیط ہے کروڑوں سال قبل و بعد کاعلم اس کے نزدیک آج کے علم کے برابر ہے جس طرح سے کل کا ئنا ت کا خالق ہے اسی طرح تمام ذرات کی تعداد اور ان کے اسرار مکنونہ کا مکمل عالم ہے انسان کے نیک و بد اعمال نیز ان کی نیات ومقاصد سے آگا ہ و باخبر ہے ،علم خداوند اس کی عین ذات ہے اور اس کی ذات سے جدا نہیں ۔

( وَ اعلموا أَنَّ اللّهَ بِکلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) جان لو کہ خد اہر شی ٔسے آگا ہ ہے۔( وَهَوَ اللّهُ فیِ السَّمٰواتِ وَ فیِ الأَرضِ یَعلَمُ سرَّکُم وَجَهَرَکُم وَ یَعلمُ ما تََکسِبُونَ ) ( ۲ ) ''وہ خد اوہ ہے جو زمینو ں و آسمانو ں میں تمہارے ظاہر و باطن کا عالم ہے او رجو کچھ تم انجام دیتے ہو اس کا عالم ہے'' ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة ۲۳۱

(۲)سورہ انعام آیة ،۳

۶۴

سوالات

۱۔عقل، خد اکی حقیقت ذات اور ا س کے صفات تک کیو ں نہیں پہنچ سکتی ؟

۲۔صفات ثبوتیہ وصفات سلبیہ کی تعریف کریں ؟

۳۔ صفات ذات و صفا ت فعل میں کیافرق ہے ؟

۶۵

نواں سبق

صفات خدا وند (فصل دوم )

خد اوند متعال بے پنا ہ قوتوں کامالک ہے اتنی بڑی کا ئنا ت اپنی تمام عظمتوں او روسعتوں کے ساتھ سیارات وکواکب ،کہکشائیں، بے کراں سمندر ، دریا اور ان میں مختلف النوع مخلو قات و موجودات سب کے سب اس کی قدرتوں کے کرشمہ ہیں ! خدا ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شی ٔپر اس کی قدرت یکساں و مساوی ہے۔

( تَبَارَک الّذیِ بِیَدِهِ المُلک وَهُوعلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں کا ئنا ت کی باگ ڈور ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے'' ۔

( لِلّه مُلک السَّمٰواتِ والأَرضِ وَماَ فِیهنَّ وَ هُو علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۲ ) ''زمین وآسمان اورجوکچھ اس کے درمیان ہے ان سب کی حکومت خدا سے مخصوص ہے او روہ ہرچیز پرقادر ہے'' ۔

( فلَا أُقسِمُ بِربِّ المَشَارقِ وَالمَغَاربِ اِنَّا لَقَادِرُونَ ) ( ۳ ) میں

____________________

(۱) سورہ ملک آیة ۱

(۲) مائدہ آیة ۱۲۰

(۳) معارج آیة ۴۰

۶۶

تمام مشرق و مغرب کے پروردگا ر کی قسم کھا کر کہتا ہو ں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں۔

قران کی متعدد آیات جوقدرت خداوندعالم کو بیا ن کرتی ہیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قدرت خد الئے کو ئی حدو قید نہیں ہے بلکہ جس وقت وہ چاہے انجام دے دیتا ہے او رجب کسی چیز کی نا بودی کا ارادہ کرے تواس چیز کومٹ ہی جا نا ہے ۔

خلا صہ یہ کہ کسی قسم کی ناتوانی او رضعف کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔آسمان، عظیم ترین سیارات اور ذرات سب اس کے لئے یکساںاور برابر ہیں ۔

عن علیٍّ علیه السلام :وما الجلیل واللطیف والثقیل والخفیف والقوی والضعیف من خلقه اِلّا سواء

امیر المومنین فرماتے ہیں:'' آشکا ر وپوشیدہ، وزنی او ر ہلکا ،قوی وضعیف یہ سب کے سب خلقت میں اس کے نزدیک برابر ہیں''( ۱ )

امام جعفر صادق نے فرمایا : جس وقت حضرت موسیٰ طور پر تشریف لے گئے عرض کی ! خدا یا ! اپنے خزانے کا نظارہ کرادے تو خدا نے فرمایا : میراخزانہ یوں ہے کہ جس وقت میں کسی چیز کا ارادہ کرکے کسی چیز کو کہو ںکہ ہو جا تو وہ وجو د میں آجائے گی( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۷

قدرت خداکے متعلق ایک سوال

کبھی کبھی یہ سوال اٹھا یا جا تا ہے کہ کیا خدا اپنا جیسا ایک خدا پیدا کرسکتا ہے؟

اگر یہ جواب دیا جا ئے کہ کیو ں نہیں ؟تو دو خداہو جا ئیں گے ! اوراگر کہا جائے کہ نہیں کرسکتا تو ایسی صورت میں قدرت خدا محدود ہو جا ئے گی ۔ یا یہ کہ کیا خدا اتنی بڑی کائنات کو ایک مرغی کے انڈے کے اندر دنیا کو چھوٹی اور انڈے کو بڑ ا کئے بغیر سمو سکتاہے۔؟

اس کے جو اب میں یہ کہا جا ئے گا کہ ایسے مواقع کے لئے (نہیں ہو سکتا ) یا (نہیں کرسکتا ) کی لفظیں استعمال نہیں کریں گے ،یا واضح لفظوں میں یہ کہا جا ئے کہ یہ سوال ہی نامعقول ہے کیو نکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کیا خدا اپنے جیسا دوسرا بنا سکتا ہے تو خود لفظ (خلقت) کے یہ معنی ہیں کہ وہ شیء ممکن الوجود و مخلو ق ہے اور جب ہم یہ کہیں گے (خدا وند ) کے معنی وہ شی ٔہے جو واجب الوجود ہے ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کیا خدا اس با ت پر قادر ہے کہ ایسی چیز کو خلق کرے جو ایک ہی وقت میں واجب الوجو د بھی ہو اور نہ بھی ہو، ممکن الوجود بھی ہو اور غیر ممکن الوجود بھی ، خالق بھی ہو اور مخلوق بھی یہ سوال غلط ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح سے جب یہ کہا جا ئے کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ کل کا ئنا ت کو ایک مرغی کے انڈے میں سمودے اس طرح سے کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ بڑی بھی ہے اور چھوٹی بھی اس سوال کے بے تکے ہو نے کی وجہ سے جواب کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیو نکہ محال سے قدرت کا تعلق خود محال ہے ۔

اسی سوال کو ایک شخص نے حضرت امیرںسے پوچھا تھا آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۸

اِنَّ اللّه تبارک وتعالیٰ لا ینسب اِلیٰ العجز والّذیِ سألتنیِ لا یکون ''خدا کی جا نب عجز و ناتوانی کی نسبت نہیں دی جاسکتی ؛لیکن تم نے جو سوال کیا وہ انہونی ہے''( ۱ )

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاںنے ( اس سوال کے جو اب میں ) فرمایا : ہا ں کیو ں نہیں انڈے سے بھی چھوٹی چیزمیں اس دنیا کو رکھ سکتا ہے خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو تمہاری آنکھ کے اندر رکھ دے جو انڈے سے بھی چھوٹی ہے (در حقیقت یہ جو اب مولا کا نقضی جو اب تھا کیو نکہ سوال کرنے والا ایسے مسائل کے تحلیل کی طاقت نہیں رکھتا تھا)۔( ۲ )

خدا حی وقیوم ہے

خدا حیات جاوداں کا مالک ہے وہ ثابت و قائم ہے وہ اپنی ذات پر قائم ہے دوسری موجودات اس کی وجہ سے قائم ہیں حیات خدا اور حیات موجو دات میں فرق ہے کیو نکہ حیات ،خد اکی عین ذات ہے نہ عارضی ہے اور نہ ہی وقتی ۔

حیات خدا یعنی اس کا علم او راس کی قدرت ،خدا کی حیات ذاتی ،ازلی ،ابدی، نہ بدلنے والی اور ہر طرح کی محدودیت سے خالی ہے وہ قیوم ہے یعنی موجودات کے مختلف امو ر اس کے ہاتھ میں ہیں مخلوقات کی رزق ،عمر ،حیات اور موت اس کے حسن تدبیر کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) توحید صدوق باب ۹ ، حدیث ۹

(۲)پیام قرآن ج ۴، ص ۱۸۳

۶۹

اسی لئے یا حی یا قیوم جا مع اذکا رمیں سے ایک ہے اس لئے کہ (حی) اس کے بہترین صفات ذات یعنی علم وقدرت میں سے ہے اور (قیوم ) اس کے صفات فعل میں سے ہے اس وجہ سے امیر المومنین سے نے ارشاد فرمایا :فلسنا نعلمُ کُنه عظمتک ِالَّا انَّا نعلم اِنَّک حیّ قیُّوم لا تاخذ ک سِنةُ ولا نوم ( ۱ )

''ہم کبھی تیری حقیقت ذات کو درک نہیں کر سکتے ہم بس اتنا جا نتے ہیں کہ حی و قیوم ہے اور کبھی بھی تجھے نینداور جھپکی نہیں آتی (اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے )''

امیر المو منین سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ سجدے میں سر رکھ کر ''یا حی یا قیوم '' کا ورد کر رہے ہیں کئی دفعہ گیا اور واپس آگیا آپ مستقل اسی ذکر کا ورد فرمارہے تھے یہا ں تک جنگ بدر فتح ہو گئی ۔( ۲ )

جو کچھ اب تک ذکر کیا گیا ہے وہ صفات خد ا کے اصول تھے اور دوسری صفات بھی ہیں کہ جن کے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا جائے گا ۔

قدیم و ابدی : یعنی ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اس کے لئے آغاز و انتہا نہیں ہے( هُوَ الأَوّلُ و الآخِرُ والظَّاهرُ والباطِنُ وَ هُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۳ ) ''وہ اول و آخر ہے وہ ظاہر و باطن ہے وہ ہرشی ٔکا جاننے والا ہے ''۔

____________________

(۱) نہج البلا غہ خ ،۱۶۰

(۲) تفسیر روح البیا ن آیہ الکرسی کے بیان میں۔

(۳) حدید آیة،۳

۷۰

مرید : یعنی وہ صاحب ارادہ ہے وہ اپنے کاموں میں مجبو ر نہیں ہے وہ جس کام کو بھی انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور اس کی حکمت پیش نظر ہو تی ہے (وہ حکیم ہے )

مدرک : ساری چیزوں کو درک کرتا ہے .ساری چیزوں کو دیکھتا ہے او رہر آواز کو سنتا ہے۔ ( وہ سمیع و بصیر ہے )

متکلم : خدا ہو ائوں میں آواز پیدا کر سکتا ہے وہ اپنے رسولوں سے گفتگو کرتا ہے اس کی گفتگو زبا ن و لب و حلق کی محتا ج نہیں ۔

صادق : یعنی خدا جوکچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اور عین حقیقت ہے کیو نکہ جھوٹ جھل ونادانی کے باعث یا کسی کمزوری کے سبب ہوتا ہے او رخد اان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلام یہ کہ خد اکمال مطلق ہے او رکسی قسم کا نقض و عیب اس کی ذات سے متصف نہیں اور ہم کو اس کی صفات کی شناخت میں بھی اپنے عجز کا اعتراف کرنا چاہئے ۔

۷۱

ذات خد امیں تفکر منع ہے

صفات کے بارے میں جو مختصر بیا ن تھا اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ صفات خدا عین ذات ہیں لہٰذانہ اس کی ذات او ر نہ ہی اس کی صفات میں از حد تفکر کریں کیو نکہ از حد تفکر حیرانی او ر سر گردانی کاسبب ہے صرف اس کی مخلوقات میں غور خوض کریں ۔

قال الاما مُ البا قر علیه السلام : ''تکلموا فیِ خلق اللّه ولا تکلموا فیِ اللّٰه فأَنَّ الکلام فی اللّٰهِ لا یزاد صاحبة الا تحیّراً ''خلقت خداکے با رے میں گفتگو کرو .خدا کے با رے میں گفتگو نہ کرو اس لئے کہ خدا کے بارے میں گفتگو صاحب کلا م کے حق میں تحیّر کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرے گا۔

علامہ مجلسی او ردیگر علما ء نے کہا ہے کہ ذات و صفات خدا میں تفکر و تکلم سے منع کرنے کا مطلب کیفیت ذات خدا وندعالم ہے ۔

قال الامام الباقر علیه السلام: اِیاکم و التفکّر فی اللّٰه لکن اِذَا أردتم أن تَنظروا اِلیٰ عظمته فانظروا اِلیٰ عظیم خلقه '' ذات خد امیں غور و خو ض سے پرہیز کرو جب جب بھی اس کی عظمتوں کودیکھنا چاہوتو اس کی عظیم خلقت (اس دنیا )کودیکھو ''۔( ۱ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب نہی از کلام در کیفیت حدیث ،۱۔۷

۷۲

سوالا ت

۱۔ خدا کے قدرت کی نشانیا ں کیا ہیں ؟

۲۔ قدیم ، ابدی ،متکلم ، صادق کے کیا معنی ہیں ؟

۳۔ ذات خد امیں غو ر و خو ض کیوں منع ہے ؟

۷۳

دسواں سبق

صفات سلبیہ

ایک جملہ میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ صفات سلبیہ یعنی : خدا وند ہر طرح کے عیب و نقص ، عوارض نیز صفات ممکنات سے پاک ومنزہ ہے ۔ لیکن ان صفات میں بعض پر بحث کی گئی ہے جیسے وہ مرکب نہیں ہے ، جسم نہیں رکھتا ، قابل رئویت نہیں ، اس کے لئے زمان ومکا ن ،کو ئی ٹھکا نہ یا جہت معین نہیں کرسکتے .وہ ہر طرح کے نیاز و احتیاج سے دور ہے، اس کی ذات والا صفات محل حوادث نہیں اور عوارض وتغییر وتبدل کا شکا ر نہیں ہو سکتی ،صفات خدا ونداس کی عین ذات ہے اس کی ذات مقدس پر اضا فہ نہیں ہے ۔

سید الاولیاء امیرالمومنین ایک خطبہ کی ابتدا میں یو ں گویا ہیں''لا یشغله شأن ولا یغیره زمان ولا یحویه مکان ولایصفه لسان ''کو ئی چیز اس کو اپنے آپ میں مشغول نہیں کرسکتی، زما نہ کا تغییر وتبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا کو ئی مکان اپنے میں سمو نہیں سکتا ،کو ئی زبا ن اس کی مدح نہیں کر سکتی۔( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ،۱۷۸

۷۴

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق سے نقل ہے کہ''اِنَّ اللّهَ تبارک و تعالیٰ لا یُوصف بزمان ولا مکان ولا حرکة ولا انتقال ولا سکون بل هو خالق الزمان والمکان والحرکة والانتقال تعالی اللّه عما یقول الظالمون علوًا کبیراً ''خدا وندتعالی کی تعریف وتوصیف زمان و مکا ن ،حرکت و انتقال مکان و سکو ن کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی ، وہ زمان ومکا ن نیزحرکت ونقل مکا ن، ،اور سکون کا خالق ہے ،خدا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو ظالم او رستمگر افراد تصور کرتے ہیں۔( ۱ )

صفات سلبی کی وضاحت

خدا مرکب نہیں ہے یعنی اجزاء ترکیبی نہیں رکھتا کیو نکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کامحتاج ہو تا ہے جبکہ خدا کسی شی ٔ کا محتا ج نہیں ہے ، وحدانیت کی بحث میں ہم نے یہ بات کہی تھی کہ خدا کمال مطلق ہے ، اور ا س کے لئے کو ئی حد ومقدار نہیں ہیں ،لہٰذا اس بات کی جا نب ہماری توجہ ضروری ہے کہ جو محدودیت یا احتیا ج کا سبب ہے وہ ممکنات سے مخصوص ہے خدا ان سے پاک و منزہ ہے تعالی اللّہ عنہ ذلک علواً کبیراً۔

خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا

( لاَ تُدرِکُهُ الأبصَارُ و هُوَ یُدرِک الأبصارَ وَهو اللّطِیفُ الخَبِیر ) ( ۲ ) آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی وہ تمام آنکھوں کو دیکھتا ہے وہ لطیف وخبیر ہے

____________________

(۱) کتاب بحارالانوار ج۳ ،ص،۳۰۹

(۲) سورہ انعام آیة ۔۱۰۳

۷۵

سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟

جواب : اس لئے کہ دیکھنے کے جو لوازمات ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں یعنی خدا کو اگردیکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو جہت اورسمت رکھتا ہو ،اجزاء رکھتا ہو اس لئے کہ ہر جسم اجزاء و عوارض جیسے رنگ ،حجم اور ابعاد رکھتا ہے ،نیز تمام اجسام تغییر وتبدل رکھتے ہیں اور مکا ن کے محتاج ہیں اور یہ سب ممکنات کی خصوصیات ہیں ، اورنیاز واحتیاج کے شکا رہیں خدا ان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلا م یہ کہ نہ خدا جسم ہے اورنہ ہی دیکھا جاسکتا ہے ( اہل سنت کے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ خدا روز محشر مجسم ہوگا اور دکھا ئی دے گا اس کے ضمن میں ان کی جانب سے بہت ساری باتیں مضحکہ خیز ہیں اورکسی عقل و منطق سے سروکا ر نہیں رکھتیں ۔

امام علی رضا سے روایت ہے :أنّه لَیس مِنَّا مَن زعم أَنَّ اللّٰه عزَّوجلَّ جسم ونحن منه براء فی الدنیا والآخرة ( ۱ ) جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ خدا جسم و جسمانیت رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے او رہم دنیا وآخرت میں ایسے شخص سے دور و بیزار ہیں ۔

____________________

(۱)توحید صدوق باب ۶، حدیث، ۲۰

۷۶

وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے

مادہ سے خالی ایک شی ٔ کی شناخت ان انسانو ں کے لئے جو ہمیشہ مادی

قیدخانہ میں اسیر رہے اور اس کے عادی ہو گئے بہت ہی مشکل کام ہے شناخت خدا کا پہلا زینہ اس (خدا ) کو صفات مخلوقات سے منزہ جاننا ہے ،جب تک ہم خداکو لا مکا ن ولا زمان نہ جا نیں گے در حقیقت اس کی معرفت ہی حاصل نہیںکر سکتے ۔محل او رمکان رکھنا جسم وجسمانیت کالازمہ ہے او رہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ وہ جسم نہیں رکھتا وہ ہر جگہ ہے ۔

وہ ہر جگہ ہے

( وَللَّهِ المَشرِقُ والمَغرِبُ فَأَینَمَا تُولُوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ اِنَّ اللّٰهَ واسِعُ عَلیمُ ) ( ۱ ) مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے اور تم جس جانب بھی رخ کروگے خدا وہاں موجود ہے خدا بے نیاز اور صاحب علم و حکمت ہے ۔

( وَهُوَ مَعَکُم أَینَ مَا کُنتُم وَاللّهُ بِمَا تَعملُونَ بَصیرُ ) ( ۲ ) تم جس جگہ بھی ہو خدا تمہارے ہمراہ ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس پر ناظر ہے ۔

امام موسی کا ظم ںنے فرمایا :اِنَّ اللّٰهَ تبارک وتعالیٰ کان لم ینزل بلا زمان ولا مکان وهو الآن کما کان لا یخلو منه مکان ولا یشغل به مکان ولا یحلّ فی مکان ( ۳ ) خدا ہمیشہ سے زمان ومکان کے بغیر موجود تھا اور اب بھی ہے، کو ئی جگہ اس سے خالی نہیں اور درعین حال کسی جگہ میں قید نہیںاس نے کسی مکا ن میں حلول نہیںکیا۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ص ۱۱۵۔

(۲) سورہ حدید آیة ،۴

(۳) توحید صدوق باب ۲۸،حدیث ۱۲

۷۷

ایک شخص نے حضرت امام علی سے سوال کیا کہ مولا ہمارا خدازمین وآسمان کو پید اکرنے سے پہلے کہاں تھا ؟آپ نے فرمایا : کہاں کا لفظ مکا ن کے حوالے سے ہے جبکہ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہیں تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) سابق حوالہ حدیث،۴

۷۸

خدا کہا ں ہے ؟

کتاب ارشاد واحتجاج میں ذکر ہے کہ ایک یہودی مفّکر، خلفاء میں سے ایک کے پاس آیا او رسوال کیا کہ آپ جانشین رسول ہیں ؟ انھو ں نے جو اب دیا ہاں اس نے کہا خد اکہا ں ہے ؟

انہو ں نے جواب دیا آسمان میں عرش اعظم پر بر اجمان ہے اس نے کہا پھر تو زمین اس کے حیطۂ قدرت سے خالی ہے خلیفہ ناراض ہو گئے اور چیخ کر بولے فوراً یہاں سے دفع ہو جا ئو ورنہ قتل کرادوںگا ،یہودی حیران ہوکر اسلام کا مذاق اڑا تا ہو ا باہر نکل گیا۔

جب امیرالمومنین ںکو اس بات کی اطلاع ہو ئی توآپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا میں تمہارے سوال اور دئے گئے جواب دونوںسے باخبر ہوں،لیکن میں بتاتا ہو ں کہ اس نے مکا ن کو خلق کیا ہے لہٰذا اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود صاحب مکان ہو اور کسی مکان میں مقید ہو۔

وہ اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ مکان اس کو اپنے آپ میں سمو لے ،کیاتم

۷۹

نے اپنی کتابوں میں نہیں پڑھا کہ ایک دن حضرت موسی بن عمران بیٹھے ہو ئے تھے۔

ایک فرشتہ مشرق سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ مغرب سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ آیاآپ نے سوال کیاکہاں سے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان میں خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ اور آیا اس سے سوال کیا کہا ں تھے؟ اس نے کہازمین کے ساتویں طبق سے خدا کے پاس تھا ،اس کے بعد حضرت موسی نے کہاپاک ہے وہ ذات جس کے وجود سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور اس کے نزدیک کوئی جگہ دوسری سے نزدیک نہیں ۔

یہودی نے کہا کہ : میں اس بات کی گواہی دیتا ہو ںکہ حق مبین یہی ہے اور آپ پوری کائنات میں سب سے زیادہ وصی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہلیت رکھتے ہیں ۔( ۱ )

ہم دعا کرتے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیوں بلند کرتے ہیں ؟

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک کا فر ،حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور'' الرحمن علی العرش استوی '' کی تفسیر جاننی چاہی امام نے دوران تفسیر وضاحت فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا : خدا کسی مخلوق ومکان کا محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں ، اس نے عرض کی تو پھر دعا کرتے وقت

____________________

(۱) پیام قرآن نقل جلد۴ ،ص ۲۷۴

۸۰

(18) علم و قدرت خدمت انسان میں

رَبِّ قَدْ أَتَیتَنِی مِنَ الْمُلِ و عَلَّمْتَنِی مِنْ تَأوِیلِ الأحٰادِیْثِ --- تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَ أَلْحِقْنِیْ بِالصَالِحِیْنَ- (سوره مبارکه یوسف ،١٠١)

ترجمہ:

پروردگار تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دیا۔ مجھے دنیا سے فرمانبردار اٹھانا اور صالحین سے ملحق کردینا۔

پیغام:

عادلانہ حکومت کے قیام کے لیے علم اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صالحین حکومت کو رضائے الٰہی اور لوگوں کی خدمت کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں خدا سے راز و نیاز اور دعا کرتے رہنی چاہیئے۔

جو لوگ صاحب علم و قدرت ہیں انہیں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ خدا کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

(19) معلم بزرگ

الرَّحْمٰان- عَلَّمَ القُرآنَ - خَلَقَ الْاِنْسٰانَ - عَلَّمَهُ البَیَان- (سوره مبارکه رحمن، ١-٤)

۸۱

ترجمہ:

وہ خدا بڑا مہربان ہے۔ اس نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔ انسان کو پیدا کیا ہے۔ اور اسے بیان سکھایا ہے۔

پیغام:

قرآن کی تعلیم انسان کی تخلیق سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہے اس لیے کہ اگر انسان کے پاس نور ہدایت نہ ہو تو وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔

ہم انسانوں کو چاہئیے کہ اُس عظیم معلم کے لائق اور فرمانبردار شاگرد بنیں۔

(20) علم اور تقویٰ

وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰهُ وَ اللّٰهُ بِکُلِّ شیئٍ عَلِیْمٍ- (سوره مبارکه بقره، ٢٨٢)

ترجمہ:

اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

پیغام:

پاکیزہ دل ، ذرخیز زمین کی مانند ہے جس میں علوم پروان چڑھتے ہیں خداوند تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے وہ ہماری ہر ضرورت سے واقف ہے اور اپنے وسیع علم کی بناء پر ہمیں سعادت مند زندگی گزارنے کے اصول بتاتا ہے۔

۸۲

(21)خیر فراوان

وَمَنْ یُؤتَ الحِکْمَةَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْراً کثیرا-(سوره مبارکه بقره ،٢٦٩)

ترجمہ:

اور جسے حکمت عطا کردی جائے گویا اُسے خیر کثیر عطا کردیا گیا ہے۔

پیغام:

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مال و مقام باعث عزت و سربلندی ہے جب کہ قرآن نے حکمت ، معرفت اور علم کو خوبیوں کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔

۸۳

چھٹی فصل(اسرار کائنات)

۸۴

(1) خاک سے پیدائش

وَمِنْ اٰیٰا تِهِ أَنْ خَلَقَکُمْ مِنْ تُرٰابٍ ثُمَّ اِذَا أَنْتُمْ بَشَر تَنْتَشِرُونَ- (سورئه مبارکه روم،٢٠)

ترجمہ:

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں خاک سے پیدا کیا ہے اور اس کے بعد تم بشر کی شکل و صورت پھیل گئے ہو۔

توضیح:

تمام پھل ، سبزیاں اور دالیں جو انسان کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں سب زمیں سے اُگتی ہیں ان کے علاوہ دوسرے جن اجزاء ، کیلشیم ، سوڈیم، فولاد وغیرہ کی انسان کے بدن کو ضرورت ہوتی ہے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں۔

جس بات کو قرآن نے بیان کیا تھا نئی اورجدید ریسرچ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ انسان کا نطفہ خاک کے اجزاء سے بنتا ہے۔

(2) جَنِین کے مراحل

ثُمَّ خَلَقْنٰا النُّطْفَةُ عَلَقَة فَخَلَقْنٰا العَلَقَة مضغة فَخَلَقنٰا المضغَةَعَظٰاماً فَکَسُونَا العِظَامَ لَحْمَا ---(سورئه مبارکه مومنون ١٤)

۸۵

ترجمہ:

پھر نطفہ کو علقہ بنایا ہے اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیاں پیدا کی ہیں اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ہے۔

توضیح:

جنین کا پہلا مرحلہ مرد وزن کے جنسی سیل کاہے اس کے بعد نطفہ رحم زن میں علقہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور پھر اس کے بعد یہ مضغہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہے اورپھر اُن ہڈیوں پر گوشت چڑھتا ہے۔

اور یہ وہ مراحل ہیں جن تک آج کی سائنسی دنیا بہت زیادہ تحقیق اور جستجو کے بعد پہنچی ہے۔

(3) تاریکی میں خلقت

یَخْلُقُکُمْ فِی بُطونِ امّهٰاتِکُمْ خَلْقًا مِن بعد خَلْقٍ فی ظُلُمٰاتٍ ثلاث--- (سورئه مبارکه زمر ،٦)

ترجمہ:

وہ تم کو تمہاری ماؤں کے شکم میں تخلیق کی مختلف منزلوں سے گزارتا ہے اور یہ سب تین تاریکیوں میں ہوتا ہے۔

۸۶

توضیح:

أطباء کے مطابق تین تاریکیوں سے مراد وہ پردے ہیں جن میں جنین ولادت سے پہلے کے مراحل طے کرتا ہے اور وہ تین تاریکیاں یہ ہیں:

1۔ تاریکی شکم 2۔ تاریکی رحم 3۔ تاریکی مشیمہ (بچہ دانی)

حقیقت امر یہ ہے کہ یہ خالق کائنات کا کمال تخلیق ہے ورنہ انسان کا جیسا حسین نقش ایسی تاریکیوں میں ابھار دینا اور وہ بھی قطرہ آب پر جس کے نقش کو ہمیشہ غیر مستقر اور نقش بر آب کیا جاتا ہے صرف پروردگار کا کمال ہے ۔ دنیا کا کوئی نقاش تو سوچ بھی نہیں سکتا ہے تخلیق کا کیا سوال ہے۔

(4) بڑھاپا

وَمَنْ نعمّرْه ننکِّسهُ فی الخَلْقِ أفَلا یعقلون -(سورئه مبارکه یس،٦٨)

ترجمہ:

اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں تو اُسے خلقت میں بچپنے کی طرف واپس کردیتے ہیں کیا یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔

توضیح:

:أطباء کا کہنا ہے کہ جسم میں 50 سال کے بعد ضعف پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے مثال کے طور پر انسان کا دل ایک اندازے کے مطابق ہر سال 3 کروڑ 6لاکھ بار پھیلتا اور سکڑتا ہے اور پھر تدریجی طور پر یہ رفتار کم ہوجاتی ہے اور وہ سیل جو بدن کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں نابود ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

۸۷

(5) کشش ثِقل

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضِ کِفٰاتا- (سورئه مبارکه مرسلات، ٢٥)

ترجمہ:

کیا ہم نے زمین کو ایک جمع کرنے والا ظرف نہیں بنایا ہے۔

توضیح:

کفات کے معنی جمع کرنے اور سمیٹنے کے ہیں کہ زمین تمام چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی اور جذب کرتی ہے۔

ممکن ہے لفظ ''کفات ''(جس کے معنی جمع اور جذب کرنے کے ہیں) کا استعمال کشش ثقل کی طرف اشارہ ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ ابوریحان بیرونی (م440ھ ق) وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے کشش ثقل کو دریافت کیا لیکن مشہور یہ ہے کہ سترویں صدی (17) عیسوی میں نیوٹن نے کشش ثقل کا انکشاف کیا تھا۔

۸۸

(6) زمین کی گردش

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهٰادا- (سورئه مبارکه نبائ،٦)

ترجمہ:

کیا ہم نے زمین کو گہوار نہیں بنایا ہے۔

توضیح:

جس طرح گہوارہ حرکت کرتا ہے لیکن گہوارہ کی حرکت بچے کے لیے پریشانی اور اضطراب کا سبب نہیں ہے بالکل اسی طرح زمین بھی حرکت کرتی ہے لیکن اس کی حرکت اُس پر زندگی بسر کرنے والوں کے لیے باعث اضطراب و پریشانی نہیں ہے۔

علمی اور صنعتی ترقی اور پیش رفت کے نتیجے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ زمین بہت تیزی سے حرکت کررہی ہے اور سائنسدانوں نے ابھی تک زمین کی 14 طرح کی حرکت کو دریافت کیا ہے۔

(7) وسعت آسمان

وَ السَّمَاء بَنیْنَاهٰا بأَییدٍ وَاِنَّ لَموسِعُونَ-(سورئه مبارکه ذاریات،٤٧)

ترجمہ:

اور آسمان کو ہم نے اپنی طاقت سے بنایا ہے اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں۔

۸۹

توضیح:

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ فضا میں (جو کروڑں کہکشاں پر مشتمل ہے) بہت تیزی سے وسعت پیدا ہورہی ہے جس کا اندازہ سیاروں کے مزید دور ہونے کی وجہ ے لگایا گیا ہے ایک اندازہ کے مطابق فضا میں ایک سیکنڈ میں 66ہزار کلومیٹر وسعت پیدا ہوتی ہے۔

(8) سیاروں کی خلقت

ثُمّ استَوی اِلی السَّماء وَهِی دُخٰان-(سورئه مبارکه فصلت ،١١)

ترجمہ:

اس کے بعد اس نے آسمان کی طرف رخ کیا جو بالکل دھواں تھا۔

توضیح:

جدید ریسرچ کے مطابق جہان مختلف گیسوں سے مل کر بنا ہے جس کا اصلی عنصر ہائیڈروجن اور باقی ہلیوم ہے گیسوں کا یہ مجموعہ بادل کی صورت اختیار کرنے کے بعد بڑے بڑے عناصر کی صورت میں تبدیل ہوگیا اور پھر آخر میں اسی مجموعہ نے کہکشاں کی صورت اختیار کرلی ہے۔ سیاروں کی خلقت کے بارے میں سائنسدانوں کے اس نظریہ کی طرف قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے۔

۹۰

(9)سبز درخت سے آگ

الذی جَعَلَ لَکُم مِنَ الشَّجَرا الْأَخْضَرِ نَارا-(سورئه مبارکه یس،٨٠)

ترجمہ:

جس نے تمہارے واسطے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی۔

توضیح:

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ آگ تو خشک درخت سے حاصل ہوتی ہے پھر قرآن نے آگ کا منشاء سبز درخت کو کیوں قرار دیا ہے؟

قابل توجہ بات یہ ہے کہ فقط سبزدرخت ہی سورج سے کاربن کے ذخیرہ اندوزی کا کام انجام دے سکتا ہے۔ اور قرآن کی اس آیت میں اسی چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

(10) پہاڑوں کی حرکت

وَتَرَی الجِبٰالَ تَحسَبُهاجامدة وَهِیَ تَمُرّ مَرَّ السحاب-(سورئه مبارکه نمل،٨٨)

۹۱

ترجمہ:

اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر انہیں مضبوط اور جمے ہوئے سمجھتے ہو حالانکہ یہ بادل کی طرح اڑے اڑے پھریں گے۔

توضیح:

ظاہری طور پر پہاڑوں کی حرکت قابل مشاہدہ نہیں ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ سوچیں کہ پہاڑوں کی حرکت سے کیا مراد ہے؟

زمین حرکت کرتی ہے کیا یہی حرکت مراد ہے؟

ایٹم کے ذرات بھی حرکت کرتے ہیں اور پہاڑ ایٹم کے ذرات سے مل کر بنیں ہیں تو کیا یہ حرکت مرا د ہے؟ یا کوئی اور ؟

(11) پہاڑ

وَالجِبٰالَ أَوتادا-(سورئه مبارکه نباء ،٧)

ترجمہ:

اور کیا ہم نے پہاڑوں کی میخیں نصب نہیں کی ہیں۔

توضیح:

زمین کے اندر آتشی مواد موجود ہے جس کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہے یہ لمبے لمبے پہاڑ زمین پر اس لیے بنائے گئے ہیں تاکہ زمین اپنی داخلی حرارت کے سبب نہ لرزے جس طرح کھانے کی دیگ پر اینٹ وغیرہ رکھ دی جاتی ہے۔

قرآن نے ایک علمی راز کا انکشاف کرتے ہوئے پہاڑوں کو زمین کی میخیں قراردیا ہے۔

۹۲

(12) ہر چیز کا جوڑا

وَمِن ْ کلّ شیٍٔ خَلَقنٰا زوجین-(سورئه مبارکه ذاریات،٤٩)

ترجمہ:

اور ہم نے ہر چیز میں سے جوڑا بنایا ہے۔

توضیح:

سائنسدانوں کے مطابق ہر چیز کا وجود ایٹم سے ہے اور ایٹم دوچیزوں یعنی الیکٹرون (منفی) اور پروٹون (مثبت) سے مل کر بنتا ہے۔

(13) ستون آسمان

أَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمَاوٰاتِ بِغَیْرٍ عَمَدٍ تَرَونَها---(سورئه مبارکه، رعد ٢)

ترجمہ:

اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ایسے ستون کے جسے تم دیکھ رہے ہو بلند کردیا ہے۔

۹۳

توضیح:

عمد کے معنی ستون کے ہیں۔

جدید پیشرفت سے یہ بات ثابت ہے کہ زمین فضا میں تیزی کے ساتھ حرکت کررہی ہے اور قوت جاذبہ (جو سورج اور دوسرے سیارات کے درمیان رابطہ کے طور پر موجود ہے) کی مدد سے ہر سیارہ اپنے دائرہ میں محو حرکت ہے۔

قرآن کی آیت میں (کہ آسمان غیر قابل مشاہدہ ستون پر ٹھہرا ہوا ہے) اس قوت کی طرف اشارہ ہے۔

(14) گول زمین

فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ المَشَرِقِ وَالْمَغارب---(سورئه مبارکه معارج،٤٠)

ترجمہ:

میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔

توضیح:

آیت میں متعدد مشرق اور مغرب کا ذکر زمیں کے گول ہونے کی طرف اشارہ ہے اس لیے کہ زمین کا ہر نقطہ ایک گروہ کے لیے مشرق اور دوسرے گروہ کے لیے مغرب ہے سن 18 ویں صدی عیسوی میں زمین کے گول ہونے کا نظریہ پیش ہوا ہے ورنہ اس سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زمین مسطح یا مخروطی (گاجر کی شکل کی) ہے۔

۹۴

(15) پانی سے خلقت

وَجَعَلْنٰا مِنَ الْمٰائِ کلُّ شی ئٍ حیّ ---(سورئه مبارکه انبیائ٣٠)

ترجمہ:

اور ہر جاندار کو پانی سے قرار دیا ہے۔

توضیح:

اس سلسلے میں کئی احتمال موجود ہیں:

1۔ موجودات کے بدن میں کافی مقدار میں پانی پایا جاتا ہے۔

2۔ تمام جانداروں اور نباتات کی زندگی پانی سے وابستہ ہے۔

3۔ سب سے پہلی زندہ مخلوق دریا کے پانی میں وجود میں آئی ہے۔

(16) درختوں میں نظام زوجیّت

وَمِنْ کلّ الثمرات جَعل فِیها زَوْجَیْن اثنین--- (سورئه مبارکه رعد،٣)

۹۵

ترجمہ:

اور (خدا وہ ہے جس نے ) زمین میں ہر پھل کا جوڑا قرار دیا ۔

توضیح:

لینہ وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے 1707 صدی عیسوی میں درختوں میں نظام زوجیت کے نظریہ کو پیش کیا جو آج ایک ثابت شدہ عملی نظریہ کے طور پر قابل قبول ہے۔ قرآن کریم نے صدیوں پہلے درختوں میں نظام زوجیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

(17) سورج کی گردش

وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقرّلها -(سورئه مبارکه یس،٣٨)

ترجمہ:

اور آفتاب اپنے ایک مرکز پر دوڑ رہا ہے۔

توضیح:

کوپرنیک، کاپلر اور گالیلہ آفتاب کو ثابت سمجھتے تھے لیکن جدید دور میں یہ بات ثابت ہے کہ آفتاب کی تین حرکتیں ہیں:

1۔ وضعی حرکت : سورج کا اپنے گرد چکر لگانا یہ حرکت 25 روز میں ایک مرتبہ انجام پاتی ہے۔

2۔ انتقالی حرکت: یہ حرکت منظومہ شمسی کے ہمراہ ہر سیکنڈ میں 19 /5 کلومیٹر انجام پاتی ہے۔

3۔ مرکز کہکشاں کہ گرد یہ حرکت ہر سیکند میں 335 کلو میٹر کی رفتار سے ہوتی ہے۔

۹۶

(18)حیوانات کی گفتگو

قالت نَمْلَة یٰا ایُّهَا النَّمْلُ أُدْخُلوا مَسَاکِنَکُم-(سورئه مبارکه نمل،١٨)

ترجمہ:

ایک چیونٹی نے آواز دی کہ چیونٹیو سب اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ہوجاؤ۔

توضیح:

قرآن نے حیوانات کی گفتگو کے چند نمونہ پیش کیے ہیں جیسے ھُد ھُد کا جناب سلیمان سے ہم کلام ہونا اور چیونٹیو کا آپس میں گفتگو کرناو۔

انسان اتنی ترقی اور پیش رفت کے باوجود ابھی تک حیوانات کی گفتگو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن اُمید ہے کہ بشر آئندہ جلد ہی اس راز سے پردہ اٹھا کر اس کے فوائد سے بہرہ مند ہوگا۔

(19) زمیں کے اردگرد کی فضائ

وَجَعَلْنٰا السَّمَائَ سَقْنًا مَحْفُوظَا----(سورئه مبارکه انبیائ-٣٢)

ترجمہ:

اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت کی طرح بنایا ہے۔

۹۷

توضیح:

زمین کے اطراف کو کئی سو کلومیٹر تک تند وتیز ہوا کے دباؤ نے اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے جس کی قوت دس میٹر فولادی چادر کے برابر ہے جو نہ فقط انسان کو ان شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف آرہی ہیں اور انسان کی ہلاکت کا سبب بنی سکتی ہیں بلکہ اُن پتھروں سے بھی محفوظ رکھتی ہے جو روزانہ 50کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف آرہے ہیں۔ قرآن کی یہ آیت اسی چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

(20) پودوں میں عمل لقاح

وَ أَرْسَلْنٰا الرّیاحَ لَواقح----(سورئه مبارکه حجر،٢٢)

ترجمہ:

اور ہم نے ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھانے والا بنا کر چلایا ہے۔

توضیح:

19 ویں صدی عیسوی کے شروع میں مائیکرو سکوپ کی ایجاد سے سائنسدان اس نتیجہ پر پہنچے کہ پودوں میں تلقیح کا عمل ایک ایسے معمولی ذرہ کی بنا پر انجام پاتا ہے جسے گردہ کہتے ہیں جو حشرات یا ہواؤں کے ذریعہ سے ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔

ممکن ہے کہ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہو کہ بادلوں کے درمیان عمل تلقیح ہوا کے ذریعہ ہوتاہے۔ بارش اور برف باری وغیرہ کا ہونا عمل لقاح کے بغیر انجام نہیں پاسکتا اور یہ چیز جدید تحقیقات کا نتیجہ ہے۔

۹۸

(21) سورج کا تاریک ہونا

اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ وَاِذَا النُّجومُ انْکَدَرَتْ-(سورئه مبارکه تکویر ،١-٢)

ترجمہ:

جب چادر آفتاب کو لپیٹ دیا جائے گا ، جب تارے گر پڑیں گے۔

توضیح:

آفتاب کی سطح پر 6 ہزار اور اس کے اندر کئی لاکھ درجہ حرارت موجود ہے جو ایک ایٹمی تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ وجود میں آتی ہے۔علماء فلکیات کا کہنا ہے کہ سورج کا وزن 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 000/ 2 ٹن ہے جس میں سے ہر سیکنڈ میں اس کا 40 ٹن وزن کم ہوجاتا ہے اور یہی أمر اس بات کا سبب ہے کہ سورج ایک طویل مدت کے بعد تاریک ہوجائے گا۔

۹۹

ساتویں فصل(غور وفکر)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303