اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155113 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کی ہے ایسی خالص عبادت، عشق محبوب سے مکمل لبریز ہے اور اس محبت کا اثر خدا کی جانب پیش قدمی کا بہت اہم سبب ہے، کمال مطلق کی جانب پیش قدمی گناہو ں اور تمام آلودگیو ں سے کنارہ کشی کا پیش خیمہ ہے ۔

حقیقی عبادت گذار اس بات کی سعی پیہم کرتا ہے کہ خود کو محبوب کے جیسا قراردے اور ا سی طرح سے خود کو صفات جمال و جلا ل الٰہیہ کا پر توقرار دیتا ہے اور یہ امور انسان کے تربیت وتکامل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

سوالات

۱۔خدا کی وحدانیت پر دلیل پیش کریں ؟

۲۔ مراتب توحید کیا ہیں ؟

۳۔ توحید افعال سے مراد کیاہے ؟

۴۔ توحید در عبادت کی وضاحت کیجئے ؟

۶۱

آٹھواں سبق

صفات خدا (فصل اول )

جس طرح سے شناخت خدا وندمتعال اور اس کے اصل وجو د کو جا ننا آسان ہے اسی طرح اس کے صفات سے آگاہی چنداں آسان نہیں ہے .کیونکہ خد اکی شنا خت کے لئے آسمان کے ستارے، درختوں کے پتے ،متنوع برگ وگیاہ ، جاندار اشیاء بلکہ ایٹمی ذرات کی تعداد یہ سب اس کے وجود پر دلیل ہیں یہ سب کے سب اس کے عظمت کی نشانیاں ہیں، لیکن اس کی صفات کی پہچان کے لئے غوروخو ض او ر دقت نظر کی ضرورت ہے تاکہ تشبیہ اور قیا س آرائی سے دور رہیں صفات خدا کی شناخت کی پہلی شرط ،صفات مخلو قات کی خدا سے نفی کرنا او رخدا کاکسی مخلوق سے تشبیہ نہ دینا ہے کیو نکہ خدا کی کسی صفت کا مخلوقات کی صفت سے کسی طرح موازنہ ہو ہی نہیں سکتا ،مادی صفات میں سے کو ئی صفت اس کی پاک ذات میں دخیل نہیں ہے کیو نکہ مادی صفت محدودیت کا سبب ہے اور وہ لا محدود ہے اور تمام مراتب کمال کا مجموعہ ہے لہٰذا ہم اس کی ذات کوکماحقہ درک نہیں کر سکتے اور اس طرح کی کو ئی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے ۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ عقل، خد اکی حقیقت ذات اور اس کے صفات کو کیوں نہیں درک کر سکتی ؟ تو اس کاجواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس ہررخ سے بے نظیر و لا محدود ہے ،علم ،قدرت اور اس کے تمام صفات اس کی ذات کی طرح لا محدود ہیں ، اور دوسری طرف ہم او رجو کچھ ہم سے مربوط ہے ، علم ،قدرت ،حیات ،فرمان ،مکا ن، سب محدود ومتناہی ہے ۔تو ان تمام تر محدودیت کے ساتھ اس کی حقیقت ذات کو کہ جولامحدود ہے کیسے درک کر سکتے ہیں ؟!اس کی حقیقت ذات کو آخر کیسے درک کریں جس کی کو ئی شبیہ ومثیل نہیں ؟۔

۶۲

صفات ثبوتیہ و سلبیہ :

صفات خدا کو دو قسموںمیں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ثبوتیہ و سلبیہ

صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

''عالم ،قادر ، حی، مرید ، مدرک ، سمیع ، بصیر ، متکلم و صادق ''۔خدا وند کمال مطلق ہے جو کچھ صفات ثبوتیہ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے وہ اصول صفات ہیں نہ یہ کہ خدا ان میں منحصر و محدود ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ

''وہ مرکب ومجسم نہیں ، قابل دید و محلول نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں ''

صفات ذات و صفات فعل

صفات ثبوتیہ کی دوقسمیں ہیں ۔ صفات ذات و صفات فعل

صفات ذات: جو اس کی عین ذات ہیں انہیں کو ذات خدا وندی سے جدا نہیں کرسکتے جیسے علم ،قدرت،حیات ،اور جن کی بھی ان تینوں صفات کی طرف بازگشت ہو جیسے سمیع ، بصیر، قدیم، ازلی، ابدی، مدرک، حکیم، غنی، کریم ،عزیز و غیرہ ۔

صفات فعل : وہ صفات جو افعال خدا وندسے متعلق ہیں یعنی جب تک وہ افعال اس سے صادر نہ ہو ں وہ صفات اس سے متصف نہیں ہو ںگے جیسے خالق رازق یااس کے ماننددوسرے صفات اور کبھی اس سے یہ صفات سلب بھی ہو جا تے ہیں جیسے''کان اللّٰهُ ولمْ یُخلق شیئاً ثُم خَلَق ۔أراد اللّه شیئاً ولم یرد شیئاً آخر شاء ولم یشائ''وه خدا تھا جس نے خلق نہیں کیا تھا پھراس نے خلق کیا، خدا نے ایک چیز کا ارادہ، کیا دوسری چیز کا ارادہ نہیں کیا ، چاہا اور نہیں چاہا ۔''تکلم مع موسیٰ ولم یتکلم مع فرعون یُحب مَن أطاعہُ ولا یُحب مَنْ عصاہ'' حضرت موسی سے ہم کلام ہوا فرعون سے کلام نہیںکیا ،جو اس کی اطاعت کرتا ہے اس کو دوست رکھتا ہے اور جو اس کی نا فرمانی کرتاہے اس کو دوست نہیں رکھتا ، اس کے صفات فعل میں ''اذا '' اور ''اِن'' کا لفظ داخل و شامل ہو تا ہے جیسے '' اِذا أراد شیئاً و اِن شائَ اللّه'' اس کی صفات ذات میں ''اِذا عَلِم اللّه ''اور''اِن عَلِم ''نہیں کہہ سکتے۔

۶۳

علم خداوند

وہ واجب الوجود جو عالم علم کل ہے اس کی حیرت انگیز نظم و ہماہنگی پوری کائنات پر محیط ہے ،جو اس کے لا متناہی علم کا بیّن ثبوت ہے اس کے علم کے لئے ماضی حال ،مستقبل سب برابر ہے ، اس کا علم ازل و ابد پر محیط ہے کروڑوں سال قبل و بعد کاعلم اس کے نزدیک آج کے علم کے برابر ہے جس طرح سے کل کا ئنا ت کا خالق ہے اسی طرح تمام ذرات کی تعداد اور ان کے اسرار مکنونہ کا مکمل عالم ہے انسان کے نیک و بد اعمال نیز ان کی نیات ومقاصد سے آگا ہ و باخبر ہے ،علم خداوند اس کی عین ذات ہے اور اس کی ذات سے جدا نہیں ۔

( وَ اعلموا أَنَّ اللّهَ بِکلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) جان لو کہ خد اہر شی ٔسے آگا ہ ہے۔( وَهَوَ اللّهُ فیِ السَّمٰواتِ وَ فیِ الأَرضِ یَعلَمُ سرَّکُم وَجَهَرَکُم وَ یَعلمُ ما تََکسِبُونَ ) ( ۲ ) ''وہ خد اوہ ہے جو زمینو ں و آسمانو ں میں تمہارے ظاہر و باطن کا عالم ہے او رجو کچھ تم انجام دیتے ہو اس کا عالم ہے'' ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة ۲۳۱

(۲)سورہ انعام آیة ،۳

۶۴

سوالات

۱۔عقل، خد اکی حقیقت ذات اور ا س کے صفات تک کیو ں نہیں پہنچ سکتی ؟

۲۔صفات ثبوتیہ وصفات سلبیہ کی تعریف کریں ؟

۳۔ صفات ذات و صفا ت فعل میں کیافرق ہے ؟

۶۵

نواں سبق

صفات خدا وند (فصل دوم )

خد اوند متعال بے پنا ہ قوتوں کامالک ہے اتنی بڑی کا ئنا ت اپنی تمام عظمتوں او روسعتوں کے ساتھ سیارات وکواکب ،کہکشائیں، بے کراں سمندر ، دریا اور ان میں مختلف النوع مخلو قات و موجودات سب کے سب اس کی قدرتوں کے کرشمہ ہیں ! خدا ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شی ٔپر اس کی قدرت یکساں و مساوی ہے۔

( تَبَارَک الّذیِ بِیَدِهِ المُلک وَهُوعلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں کا ئنا ت کی باگ ڈور ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے'' ۔

( لِلّه مُلک السَّمٰواتِ والأَرضِ وَماَ فِیهنَّ وَ هُو علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۲ ) ''زمین وآسمان اورجوکچھ اس کے درمیان ہے ان سب کی حکومت خدا سے مخصوص ہے او روہ ہرچیز پرقادر ہے'' ۔

( فلَا أُقسِمُ بِربِّ المَشَارقِ وَالمَغَاربِ اِنَّا لَقَادِرُونَ ) ( ۳ ) میں

____________________

(۱) سورہ ملک آیة ۱

(۲) مائدہ آیة ۱۲۰

(۳) معارج آیة ۴۰

۶۶

تمام مشرق و مغرب کے پروردگا ر کی قسم کھا کر کہتا ہو ں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں۔

قران کی متعدد آیات جوقدرت خداوندعالم کو بیا ن کرتی ہیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قدرت خد الئے کو ئی حدو قید نہیں ہے بلکہ جس وقت وہ چاہے انجام دے دیتا ہے او رجب کسی چیز کی نا بودی کا ارادہ کرے تواس چیز کومٹ ہی جا نا ہے ۔

خلا صہ یہ کہ کسی قسم کی ناتوانی او رضعف کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔آسمان، عظیم ترین سیارات اور ذرات سب اس کے لئے یکساںاور برابر ہیں ۔

عن علیٍّ علیه السلام :وما الجلیل واللطیف والثقیل والخفیف والقوی والضعیف من خلقه اِلّا سواء

امیر المومنین فرماتے ہیں:'' آشکا ر وپوشیدہ، وزنی او ر ہلکا ،قوی وضعیف یہ سب کے سب خلقت میں اس کے نزدیک برابر ہیں''( ۱ )

امام جعفر صادق نے فرمایا : جس وقت حضرت موسیٰ طور پر تشریف لے گئے عرض کی ! خدا یا ! اپنے خزانے کا نظارہ کرادے تو خدا نے فرمایا : میراخزانہ یوں ہے کہ جس وقت میں کسی چیز کا ارادہ کرکے کسی چیز کو کہو ںکہ ہو جا تو وہ وجو د میں آجائے گی( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۷

قدرت خداکے متعلق ایک سوال

کبھی کبھی یہ سوال اٹھا یا جا تا ہے کہ کیا خدا اپنا جیسا ایک خدا پیدا کرسکتا ہے؟

اگر یہ جواب دیا جا ئے کہ کیو ں نہیں ؟تو دو خداہو جا ئیں گے ! اوراگر کہا جائے کہ نہیں کرسکتا تو ایسی صورت میں قدرت خدا محدود ہو جا ئے گی ۔ یا یہ کہ کیا خدا اتنی بڑی کائنات کو ایک مرغی کے انڈے کے اندر دنیا کو چھوٹی اور انڈے کو بڑ ا کئے بغیر سمو سکتاہے۔؟

اس کے جو اب میں یہ کہا جا ئے گا کہ ایسے مواقع کے لئے (نہیں ہو سکتا ) یا (نہیں کرسکتا ) کی لفظیں استعمال نہیں کریں گے ،یا واضح لفظوں میں یہ کہا جا ئے کہ یہ سوال ہی نامعقول ہے کیو نکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کیا خدا اپنے جیسا دوسرا بنا سکتا ہے تو خود لفظ (خلقت) کے یہ معنی ہیں کہ وہ شیء ممکن الوجود و مخلو ق ہے اور جب ہم یہ کہیں گے (خدا وند ) کے معنی وہ شی ٔہے جو واجب الوجود ہے ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کیا خدا اس با ت پر قادر ہے کہ ایسی چیز کو خلق کرے جو ایک ہی وقت میں واجب الوجو د بھی ہو اور نہ بھی ہو، ممکن الوجود بھی ہو اور غیر ممکن الوجود بھی ، خالق بھی ہو اور مخلوق بھی یہ سوال غلط ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح سے جب یہ کہا جا ئے کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ کل کا ئنا ت کو ایک مرغی کے انڈے میں سمودے اس طرح سے کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ بڑی بھی ہے اور چھوٹی بھی اس سوال کے بے تکے ہو نے کی وجہ سے جواب کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیو نکہ محال سے قدرت کا تعلق خود محال ہے ۔

اسی سوال کو ایک شخص نے حضرت امیرںسے پوچھا تھا آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۸

اِنَّ اللّه تبارک وتعالیٰ لا ینسب اِلیٰ العجز والّذیِ سألتنیِ لا یکون ''خدا کی جا نب عجز و ناتوانی کی نسبت نہیں دی جاسکتی ؛لیکن تم نے جو سوال کیا وہ انہونی ہے''( ۱ )

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاںنے ( اس سوال کے جو اب میں ) فرمایا : ہا ں کیو ں نہیں انڈے سے بھی چھوٹی چیزمیں اس دنیا کو رکھ سکتا ہے خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو تمہاری آنکھ کے اندر رکھ دے جو انڈے سے بھی چھوٹی ہے (در حقیقت یہ جو اب مولا کا نقضی جو اب تھا کیو نکہ سوال کرنے والا ایسے مسائل کے تحلیل کی طاقت نہیں رکھتا تھا)۔( ۲ )

خدا حی وقیوم ہے

خدا حیات جاوداں کا مالک ہے وہ ثابت و قائم ہے وہ اپنی ذات پر قائم ہے دوسری موجودات اس کی وجہ سے قائم ہیں حیات خدا اور حیات موجو دات میں فرق ہے کیو نکہ حیات ،خد اکی عین ذات ہے نہ عارضی ہے اور نہ ہی وقتی ۔

حیات خدا یعنی اس کا علم او راس کی قدرت ،خدا کی حیات ذاتی ،ازلی ،ابدی، نہ بدلنے والی اور ہر طرح کی محدودیت سے خالی ہے وہ قیوم ہے یعنی موجودات کے مختلف امو ر اس کے ہاتھ میں ہیں مخلوقات کی رزق ،عمر ،حیات اور موت اس کے حسن تدبیر کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) توحید صدوق باب ۹ ، حدیث ۹

(۲)پیام قرآن ج ۴، ص ۱۸۳

۶۹

اسی لئے یا حی یا قیوم جا مع اذکا رمیں سے ایک ہے اس لئے کہ (حی) اس کے بہترین صفات ذات یعنی علم وقدرت میں سے ہے اور (قیوم ) اس کے صفات فعل میں سے ہے اس وجہ سے امیر المومنین سے نے ارشاد فرمایا :فلسنا نعلمُ کُنه عظمتک ِالَّا انَّا نعلم اِنَّک حیّ قیُّوم لا تاخذ ک سِنةُ ولا نوم ( ۱ )

''ہم کبھی تیری حقیقت ذات کو درک نہیں کر سکتے ہم بس اتنا جا نتے ہیں کہ حی و قیوم ہے اور کبھی بھی تجھے نینداور جھپکی نہیں آتی (اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے )''

امیر المو منین سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ سجدے میں سر رکھ کر ''یا حی یا قیوم '' کا ورد کر رہے ہیں کئی دفعہ گیا اور واپس آگیا آپ مستقل اسی ذکر کا ورد فرمارہے تھے یہا ں تک جنگ بدر فتح ہو گئی ۔( ۲ )

جو کچھ اب تک ذکر کیا گیا ہے وہ صفات خد ا کے اصول تھے اور دوسری صفات بھی ہیں کہ جن کے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا جائے گا ۔

قدیم و ابدی : یعنی ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اس کے لئے آغاز و انتہا نہیں ہے( هُوَ الأَوّلُ و الآخِرُ والظَّاهرُ والباطِنُ وَ هُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۳ ) ''وہ اول و آخر ہے وہ ظاہر و باطن ہے وہ ہرشی ٔکا جاننے والا ہے ''۔

____________________

(۱) نہج البلا غہ خ ،۱۶۰

(۲) تفسیر روح البیا ن آیہ الکرسی کے بیان میں۔

(۳) حدید آیة،۳

۷۰

مرید : یعنی وہ صاحب ارادہ ہے وہ اپنے کاموں میں مجبو ر نہیں ہے وہ جس کام کو بھی انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور اس کی حکمت پیش نظر ہو تی ہے (وہ حکیم ہے )

مدرک : ساری چیزوں کو درک کرتا ہے .ساری چیزوں کو دیکھتا ہے او رہر آواز کو سنتا ہے۔ ( وہ سمیع و بصیر ہے )

متکلم : خدا ہو ائوں میں آواز پیدا کر سکتا ہے وہ اپنے رسولوں سے گفتگو کرتا ہے اس کی گفتگو زبا ن و لب و حلق کی محتا ج نہیں ۔

صادق : یعنی خدا جوکچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اور عین حقیقت ہے کیو نکہ جھوٹ جھل ونادانی کے باعث یا کسی کمزوری کے سبب ہوتا ہے او رخد اان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلام یہ کہ خد اکمال مطلق ہے او رکسی قسم کا نقض و عیب اس کی ذات سے متصف نہیں اور ہم کو اس کی صفات کی شناخت میں بھی اپنے عجز کا اعتراف کرنا چاہئے ۔

۷۱

ذات خد امیں تفکر منع ہے

صفات کے بارے میں جو مختصر بیا ن تھا اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ صفات خدا عین ذات ہیں لہٰذانہ اس کی ذات او ر نہ ہی اس کی صفات میں از حد تفکر کریں کیو نکہ از حد تفکر حیرانی او ر سر گردانی کاسبب ہے صرف اس کی مخلوقات میں غور خوض کریں ۔

قال الاما مُ البا قر علیه السلام : ''تکلموا فیِ خلق اللّه ولا تکلموا فیِ اللّٰه فأَنَّ الکلام فی اللّٰهِ لا یزاد صاحبة الا تحیّراً ''خلقت خداکے با رے میں گفتگو کرو .خدا کے با رے میں گفتگو نہ کرو اس لئے کہ خدا کے بارے میں گفتگو صاحب کلا م کے حق میں تحیّر کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرے گا۔

علامہ مجلسی او ردیگر علما ء نے کہا ہے کہ ذات و صفات خدا میں تفکر و تکلم سے منع کرنے کا مطلب کیفیت ذات خدا وندعالم ہے ۔

قال الامام الباقر علیه السلام: اِیاکم و التفکّر فی اللّٰه لکن اِذَا أردتم أن تَنظروا اِلیٰ عظمته فانظروا اِلیٰ عظیم خلقه '' ذات خد امیں غور و خو ض سے پرہیز کرو جب جب بھی اس کی عظمتوں کودیکھنا چاہوتو اس کی عظیم خلقت (اس دنیا )کودیکھو ''۔( ۱ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب نہی از کلام در کیفیت حدیث ،۱۔۷

۷۲

سوالا ت

۱۔ خدا کے قدرت کی نشانیا ں کیا ہیں ؟

۲۔ قدیم ، ابدی ،متکلم ، صادق کے کیا معنی ہیں ؟

۳۔ ذات خد امیں غو ر و خو ض کیوں منع ہے ؟

۷۳

دسواں سبق

صفات سلبیہ

ایک جملہ میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ صفات سلبیہ یعنی : خدا وند ہر طرح کے عیب و نقص ، عوارض نیز صفات ممکنات سے پاک ومنزہ ہے ۔ لیکن ان صفات میں بعض پر بحث کی گئی ہے جیسے وہ مرکب نہیں ہے ، جسم نہیں رکھتا ، قابل رئویت نہیں ، اس کے لئے زمان ومکا ن ،کو ئی ٹھکا نہ یا جہت معین نہیں کرسکتے .وہ ہر طرح کے نیاز و احتیاج سے دور ہے، اس کی ذات والا صفات محل حوادث نہیں اور عوارض وتغییر وتبدل کا شکا ر نہیں ہو سکتی ،صفات خدا ونداس کی عین ذات ہے اس کی ذات مقدس پر اضا فہ نہیں ہے ۔

سید الاولیاء امیرالمومنین ایک خطبہ کی ابتدا میں یو ں گویا ہیں''لا یشغله شأن ولا یغیره زمان ولا یحویه مکان ولایصفه لسان ''کو ئی چیز اس کو اپنے آپ میں مشغول نہیں کرسکتی، زما نہ کا تغییر وتبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا کو ئی مکان اپنے میں سمو نہیں سکتا ،کو ئی زبا ن اس کی مدح نہیں کر سکتی۔( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ،۱۷۸

۷۴

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق سے نقل ہے کہ''اِنَّ اللّهَ تبارک و تعالیٰ لا یُوصف بزمان ولا مکان ولا حرکة ولا انتقال ولا سکون بل هو خالق الزمان والمکان والحرکة والانتقال تعالی اللّه عما یقول الظالمون علوًا کبیراً ''خدا وندتعالی کی تعریف وتوصیف زمان و مکا ن ،حرکت و انتقال مکان و سکو ن کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی ، وہ زمان ومکا ن نیزحرکت ونقل مکا ن، ،اور سکون کا خالق ہے ،خدا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو ظالم او رستمگر افراد تصور کرتے ہیں۔( ۱ )

صفات سلبی کی وضاحت

خدا مرکب نہیں ہے یعنی اجزاء ترکیبی نہیں رکھتا کیو نکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کامحتاج ہو تا ہے جبکہ خدا کسی شی ٔ کا محتا ج نہیں ہے ، وحدانیت کی بحث میں ہم نے یہ بات کہی تھی کہ خدا کمال مطلق ہے ، اور ا س کے لئے کو ئی حد ومقدار نہیں ہیں ،لہٰذا اس بات کی جا نب ہماری توجہ ضروری ہے کہ جو محدودیت یا احتیا ج کا سبب ہے وہ ممکنات سے مخصوص ہے خدا ان سے پاک و منزہ ہے تعالی اللّہ عنہ ذلک علواً کبیراً۔

خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا

( لاَ تُدرِکُهُ الأبصَارُ و هُوَ یُدرِک الأبصارَ وَهو اللّطِیفُ الخَبِیر ) ( ۲ ) آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی وہ تمام آنکھوں کو دیکھتا ہے وہ لطیف وخبیر ہے

____________________

(۱) کتاب بحارالانوار ج۳ ،ص،۳۰۹

(۲) سورہ انعام آیة ۔۱۰۳

۷۵

سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟

جواب : اس لئے کہ دیکھنے کے جو لوازمات ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں یعنی خدا کو اگردیکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو جہت اورسمت رکھتا ہو ،اجزاء رکھتا ہو اس لئے کہ ہر جسم اجزاء و عوارض جیسے رنگ ،حجم اور ابعاد رکھتا ہے ،نیز تمام اجسام تغییر وتبدل رکھتے ہیں اور مکا ن کے محتاج ہیں اور یہ سب ممکنات کی خصوصیات ہیں ، اورنیاز واحتیاج کے شکا رہیں خدا ان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلا م یہ کہ نہ خدا جسم ہے اورنہ ہی دیکھا جاسکتا ہے ( اہل سنت کے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ خدا روز محشر مجسم ہوگا اور دکھا ئی دے گا اس کے ضمن میں ان کی جانب سے بہت ساری باتیں مضحکہ خیز ہیں اورکسی عقل و منطق سے سروکا ر نہیں رکھتیں ۔

امام علی رضا سے روایت ہے :أنّه لَیس مِنَّا مَن زعم أَنَّ اللّٰه عزَّوجلَّ جسم ونحن منه براء فی الدنیا والآخرة ( ۱ ) جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ خدا جسم و جسمانیت رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے او رہم دنیا وآخرت میں ایسے شخص سے دور و بیزار ہیں ۔

____________________

(۱)توحید صدوق باب ۶، حدیث، ۲۰

۷۶

وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے

مادہ سے خالی ایک شی ٔ کی شناخت ان انسانو ں کے لئے جو ہمیشہ مادی

قیدخانہ میں اسیر رہے اور اس کے عادی ہو گئے بہت ہی مشکل کام ہے شناخت خدا کا پہلا زینہ اس (خدا ) کو صفات مخلوقات سے منزہ جاننا ہے ،جب تک ہم خداکو لا مکا ن ولا زمان نہ جا نیں گے در حقیقت اس کی معرفت ہی حاصل نہیںکر سکتے ۔محل او رمکان رکھنا جسم وجسمانیت کالازمہ ہے او رہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ وہ جسم نہیں رکھتا وہ ہر جگہ ہے ۔

وہ ہر جگہ ہے

( وَللَّهِ المَشرِقُ والمَغرِبُ فَأَینَمَا تُولُوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ اِنَّ اللّٰهَ واسِعُ عَلیمُ ) ( ۱ ) مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے اور تم جس جانب بھی رخ کروگے خدا وہاں موجود ہے خدا بے نیاز اور صاحب علم و حکمت ہے ۔

( وَهُوَ مَعَکُم أَینَ مَا کُنتُم وَاللّهُ بِمَا تَعملُونَ بَصیرُ ) ( ۲ ) تم جس جگہ بھی ہو خدا تمہارے ہمراہ ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس پر ناظر ہے ۔

امام موسی کا ظم ںنے فرمایا :اِنَّ اللّٰهَ تبارک وتعالیٰ کان لم ینزل بلا زمان ولا مکان وهو الآن کما کان لا یخلو منه مکان ولا یشغل به مکان ولا یحلّ فی مکان ( ۳ ) خدا ہمیشہ سے زمان ومکان کے بغیر موجود تھا اور اب بھی ہے، کو ئی جگہ اس سے خالی نہیں اور درعین حال کسی جگہ میں قید نہیںاس نے کسی مکا ن میں حلول نہیںکیا۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ص ۱۱۵۔

(۲) سورہ حدید آیة ،۴

(۳) توحید صدوق باب ۲۸،حدیث ۱۲

۷۷

ایک شخص نے حضرت امام علی سے سوال کیا کہ مولا ہمارا خدازمین وآسمان کو پید اکرنے سے پہلے کہاں تھا ؟آپ نے فرمایا : کہاں کا لفظ مکا ن کے حوالے سے ہے جبکہ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہیں تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) سابق حوالہ حدیث،۴

۷۸

خدا کہا ں ہے ؟

کتاب ارشاد واحتجاج میں ذکر ہے کہ ایک یہودی مفّکر، خلفاء میں سے ایک کے پاس آیا او رسوال کیا کہ آپ جانشین رسول ہیں ؟ انھو ں نے جو اب دیا ہاں اس نے کہا خد اکہا ں ہے ؟

انہو ں نے جواب دیا آسمان میں عرش اعظم پر بر اجمان ہے اس نے کہا پھر تو زمین اس کے حیطۂ قدرت سے خالی ہے خلیفہ ناراض ہو گئے اور چیخ کر بولے فوراً یہاں سے دفع ہو جا ئو ورنہ قتل کرادوںگا ،یہودی حیران ہوکر اسلام کا مذاق اڑا تا ہو ا باہر نکل گیا۔

جب امیرالمومنین ںکو اس بات کی اطلاع ہو ئی توآپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا میں تمہارے سوال اور دئے گئے جواب دونوںسے باخبر ہوں،لیکن میں بتاتا ہو ں کہ اس نے مکا ن کو خلق کیا ہے لہٰذا اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود صاحب مکان ہو اور کسی مکان میں مقید ہو۔

وہ اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ مکان اس کو اپنے آپ میں سمو لے ،کیاتم

۷۹

نے اپنی کتابوں میں نہیں پڑھا کہ ایک دن حضرت موسی بن عمران بیٹھے ہو ئے تھے۔

ایک فرشتہ مشرق سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ مغرب سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ آیاآپ نے سوال کیاکہاں سے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان میں خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ اور آیا اس سے سوال کیا کہا ں تھے؟ اس نے کہازمین کے ساتویں طبق سے خدا کے پاس تھا ،اس کے بعد حضرت موسی نے کہاپاک ہے وہ ذات جس کے وجود سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور اس کے نزدیک کوئی جگہ دوسری سے نزدیک نہیں ۔

یہودی نے کہا کہ : میں اس بات کی گواہی دیتا ہو ںکہ حق مبین یہی ہے اور آپ پوری کائنات میں سب سے زیادہ وصی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہلیت رکھتے ہیں ۔( ۱ )

ہم دعا کرتے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیوں بلند کرتے ہیں ؟

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک کا فر ،حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور'' الرحمن علی العرش استوی '' کی تفسیر جاننی چاہی امام نے دوران تفسیر وضاحت فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا : خدا کسی مخلوق ومکان کا محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں ، اس نے عرض کی تو پھر دعا کرتے وقت

____________________

(۱) پیام قرآن نقل جلد۴ ،ص ۲۷۴

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قرآن میں قیامت کے عینی نمونہ

عزیر یا ارمیا ی پیغمبر کاقصہ :

(( أَوکالَّذِ مَرَّعلیٰ قَریةٍ وَهِیَ خَاویةُ علیٰ عُرُوشِها قاَلَ أَنّی یُحییِ هذهِ اللَّهُ بَعَدَ مَوتِها فأَماتهُ اللَّه مِائةَ عام ثُمَّ بَعَثهُ قَالَ کَم لَبِثتَ قَالَ لَبِثتُ یَوماً أَوبَعضَ یَومٍ قَالَ بَل لبِثتَ مِائةَ عامٍ فَانظُر اِلیٰ طَعامِک وَشَرَابِک لَمْ یَتسنَّه وَأنظُر اِلیٰ حِمَارِک وَلِنَجعَلک آیةً للنَّاسِ وَانظُر اِلیٰ العِظَامِ کَیفَ نُنشزُهَا ثُمَّ نَکَسُوهَا لَحمًا فَلمَّا تَبَیّنَ لَهُ قَالَ أَعلمُ أَنَّ اللَّهَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''جنا ب عزیر کا ایک دیہات سے گزر ہوا آپ نے دیکھا کہ وہ تباہ وبرباد پڑا ہو اہے ۔ کہا خدا ان مردوں کو کیسے زندہ کریگا خدانے انہیں سوسال کی موت دیدی پھر انہیںزندہ کیا پوچھاکتنے دن تک سوئے رہے کہا ایک دن یا اس سے کم خدا نے کہاتم یہا ں سوسال تک سوتے رہے ہو ذرا اپنے کھانے اورپینے کی طرف دیکھو جو ختم ہوچکا ہے اپنے گدھے کی طرف دیکھو جو خاک میں مل چکا ہے تاکہ میں تمہیں لوگوں کے لئے نشانی قرار دوں اپنی ہڈیوں کیطرف دیکھو کہ انہیں جمع کرکے ان پر گوشت چڑھا یا چونکہ یہ بات ان کے واسطے واضح ہوچکی تھی کہا: جانتا ہو ں خد اہر چیز پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ''وہ برباد شہر جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ (بیت المقدس ) تھا اور یہ تباہی بخت النصر کے ذریعہ ہوئی ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیة :۲۵۹

۲۲۱

حضرت عزیر جب کھانا پانی لے کر اپنے گدھے پر سوار اس شہر سے گذرے دیکھا گھر تباہ اور ا ن کے رہنے والے مٹی میں مل چکے ہیں ان کی ہڈیا ں پرانی ہوکر زمین میں بکھری پڑی ہیں اس المناک منظر نے پیغمبر کوسونچنے پر مجبورکردیا اور خود سے کہنے لگے خدایا! انہیں کب اور کیسے زندہ کرے گا؟۔

خدا نے انہیں عملی جواب دیا انہیں اوران کے گدھے کو سوسال تک کے لئے موت دی اس کے بعد پہلے انہیں زندہ کیاتاکہ خد اکی طاقت کا وہ خود اندازہ لگائیں کہ کھانا جو جلدی خراب ہوجاتا ہے تبدیل نہیںہوا اور مردوں کو زندہ ہو تے وہ خو د دیکھ لیں ۔

حضرت عزیر نے جیسے ہی اپنی سواری کو زندہ ہو تے دیکھا کہا کہ جانتا ہو ںخدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ آیة اور یہ پیغمبر کا قصہ معاد جسمانی کو ثابت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہیں ۔

حضرت ابراہیم کاقصہ :( واِذ قَالَ اِبراهیمُ رَبِّ أَرنِی کَیفَ تُحییِ المَو تیٰ قَالَ أَولَم تُؤمِن قَالَ بَلیٰ وَلَکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبِی قالَ فَخُذْ أَربعةً مِنَ الطَّیرِ فَصُرهُنَّ اِلِیک ثُمَّ اجعَلْ علیٰ کُلِّ جَبَلٍ مِنهُنَّ جُزأً ثُمَّ ادعُهُنَّ یَأتِینَک سَعیًا وَأَعلمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَیزُحَکیمُ ) ( ۱ ) ''جناب ابراہیم نے عرض کیا بارالہا! مجھے دکھا دے کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ خدا نے کہامگر تمہیں

____________________

(۱) سورہ بقرہ :۲۶۰

۲۲۲

ہم پرایمان نہیں ہے کہا ہے تو مگر چاہتا ہو ں دل کو سکون مل جائے کہا چار طرح کے پرندوں کو جمع کرو (مرغ ،مور ،کبوتر ، کوا،)انہیں ذبح کرکے گوشت پہا ڑ پر رکھد و او ر ان کے ہر جزء کو اللہ کے نام پر بلا ئو وہ دوڑے چلے آئیں گے اورجان لو کہ خدا بڑی حکمت والا ہے'' ۔

مفسرین نے اس آیة کے ذیل میں لکھا کہ حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گذر رہے تھے ایک مردے کو دیکھا کہ جو دریا کے کنارے پڑا ہے مردہ خور جانور اس کے چاروںطر ف جمع ہیں اورکھا رہے ہیں جب حضرت ابراہیم نے اس منظر کودیکھا تو مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں سونچنے لگے کہ وہ کس طرح زندہ کئے جا ئیں گے (کیونکہ اس مردہ کا گوشت دوسرے کا جزء بن چکا تھا ) جبکہ جناب ابراہیم کو علم الیقین تھا کہ خد امردوں کو زندہ کرے گا لیکن اسے آنکھو ں سے زندہ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے ۔

مقتول بنی اسرائیل کاقصہ:

( واِذَ قَتَلتُم نَفسًا فَادَّارَأتُم فِیهَا واللَّه ُمخرِجُ مَاکُنتُم تَکتُمُونَ فَقُلنَا اَضرِبُوهُ بِبَعضِهَا کَذَلِک یُحیِی اللَّهُ المَوتیٰ وَیُرِیکُم آیاتِهِ لَعلَّکُم تَعقِلُونَ ) ( ۱ ) ''جب تم لوگو ں نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کے سلسلے میں اختلاف کیا کہ کس نے قتل کیا ہے جسے تم چھپانا چاہتے تھے خدااسے ظاہر کرتاہے پس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة۷۲ تا۷۳

۲۲۳

ہم نے کہا اس گائے کا کچھ حصہ اس مقتول کے بدن پر مارو خدا مردوں کو اس طرح زندہ کرتاہے آیت خود تمہیں دکھا رہی ہے شاید عقل سے کام لو ''۔

بنی اسرائیل کا ایک آدمی مخفیانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اس کے قاتل کے سلسلے میں اختلاف ہوا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے پر الزام لگا رہا تھا قریب تھاکہ ایک جنگ چھڑ جائے ان لوگوں نے جنا ب موسی سے مدد چاہی جناب موسی نے لطف خدا سے ان کی مددکی حکم خدا کے مطابق گائے کو ذبح کرکے اس کے گوشت کومقتول کے جسم پرمارا وہ شخص تھوڑی دیر کے لئے زندہ ہوگیا اور قاتل کی شناخت کی یہ معا د اور مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بھی دلیل ہے ۔

قوم موسی ٰسے ستر آدمیوںکا زندہ ہو نا :( وَاِذ قُلتُم یَامُوسیٰ لَن نُؤمِنَ لَک حتیٰ نَرَیٰ اللَّهَ جَهَرةً فَاَخذتکُم الصَّاعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرُونَ ثُمّ بَعَثناکُم مِن بَعدِ مَوتِکُم لَعلَّکُم تَشکُرُونَ ) جب تم لوگو ں نے موسی سے کہا کہ ہم اس وقت تک خدا پرایمان نہیں لائیں گے جب تک اپنی آنکھو ں سے دیکھ نہ لیں پھر بجلی نے (موت ) تم سب کواپنی لپیٹ میں لے لیا اورتم دیکھتے رہے پھر ہم نے تم سب کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا تاکہ تم شکر گذار بن جائو ،بنی اسرائیل کے سرکردہ افراد جنا ب موسی کے ساتھ کو ہ طور پر گئے تھے اور خداکو اپنی آنکھو ں سے دیکھنے کی بات دہرائی موت کی بجلی چمکی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوا حضرت موسی ٰبے ہو ش ہو گئے بنی اسرائیل کے نمائندوں کو موت نے اپنی آغوش میں لیا پھر خدا نے انہیں زندہ کیا تاکہ اس کی نعمت کا شکریہ اداکریں۔( ۱ )

قیامت کو ثابت کرنے کے لئے قرآ ن کی دوسری دلیل ہے جس میں مردے کوزندہ کیاگیاہے ۔

____________________

(۱) سو رہ بقرہ آیة ۵۵

۲۲۴

سوالات

۱۔ فلسفہ خلقت کے ذریعہ کس طرح قیامت کو ثابت کریں گے ؟

۲۔ جنا ب عزیر یاارمیا پیغمبر کاواقعہ بیان کریں ؟

۳۔ جناب ابراہیم کا قصہ بیان کریں ؟

۴۔ مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کریں ؟

۲۲۵

تیتیسواں سبق

بقاء روح کی دلیل

روح باقی او رمستقل ہے :( وَلَا تَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ''جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے انہیں رزق ملتاہے''( ۱ ) ( وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقتلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُونَ ) جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے ہیں انہیں مردہ ہرگز نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم انہیں نہیں سمجھ سکتے ہو۔( ۲ ) ( قُلْ یَتَوفاکُم مَلَکُٔ المَوتِ الَّذیِ وکِّلَ بِکُم ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) کہدو کہ موت کافرشتہ جوتم پر معین کیاگیا ہے وہ تمہاری روح قبض کر کے تمہارے رب کی طرف پلٹا دے گا۔( ۳ )

مذکورہ آیات بقاء روح کی بہترین دلیل ہے اگرموت زندگی کے خاتمہ کانام ہوتا توشہداء کے لئے حیات کا مختلف انداز میں ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا پہلے کی دو آییتں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والو ں کے لئے ہیں اور ان کی روح کی بقاء کے حوالے سے ہیں ۔

____________________

(۱)آل عمران آیة ۱۶۹

(۲) بقرہ آیة ۱۵۴

(۳) سجدہ آیة ۱۱

۲۲۶

تیسری آیت عام ہے کہ تمام لوگ خدا کی طر ف پلٹ کر جائیں گے جو تمام انسانوں کے باقی رہنے پردلیل ہے ۔کتاب مفردات میں راغب کے بقول وافی کے اصل معنی کمال تک پہونچنے کے ہیں لہٰذا توفی کے معنی مکمل گرفت کے ہیں اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موت فناکانام نہیں بلکہ مکمل طور پر دسترسی ہے۔

( وَیسئلُونَکَ عَنِ الرُّوح قُلْ الرِّوحُ مِن أمرِرَبِّی وَمَا أُوتِیتُم مِنَ العِلمِ اِلاَّ قَلِیلاً ) اے رسول! تم سے روح کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہدو روح امرخداہے اس کا تھوڑا ساعلم آپ کو عطاکیاگیاہے۔( ۱ )

انسان خواب و موت کو دیکھتا ہے کہ جسمانی کمی وبیشی کے علاوہ ایک خاص قسم کی تبدیلی پیداہوتی ہے یہیں سے پتہ چلتاہے کہ انسان کے پاس جسم کے علاوہ بھی کوئی جوہر ہے ۔ کسی نے بھی روح کے وجود کاانکا ر نہیں کیا ہے یہاں تک کہ مادی حضرات نے بھی اس کے وجود کوقبول کیاہے اسی بناء پر نفسیات ان علوم میں سے ہے جس پر دنیا کی بڑی بڑی یو نیورسٹیوں میں تحقیق ہورہی ہے ۔

وہ واحد بحث جو خد اکے ماننے والوں اورمادی حضرات کے درمیان چل رہی ہے وہ روح کے مستقل ہو نے یانہ ہونے کے سلسلے میں ہے اسلامی مفکرین اسلام کی بھر پور مدد سے اس بات کے قائل ہیںکہ روح باقی ہے اورمستقل ہے روح کے مستقل ہونے پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔

____________________

(۱) اسراء آیة :۸۵

۲۲۷

پہلے عقلی دلیل پھر نقلی دلیل پیش کریں گے اگر چہ قرآن پر اعتقاد رکھنے والے بہترین دلیل کلام خدا کوتسلیم کرتے ہیں اور اسی کواصل مانتے ہیں۔

روح کے مستقل ہو نے پر دلیل

۱۔ہم اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیںکہ ہم متفکر ومدرک ومرید ہیں یہ چیز فکر اورارادہ اور ادراک سے الگ ہے دلیل یہ ہے کہ بولا جاتاہے میری فکر میرا ارادہ میرا ادارک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فکر سے الگ ہیں ہم ارادہ سے ہٹکر ہیں درک اورہے ہم اور ہیں یہ سب ہم سے ہے اورہم اسے اپنی ذات میں پا تے ہیں ہم دماغ، دل اور اعضاء سے الگ ہیں یہ (ہم ) وہی روح ہے ۔

۲۔ جب بھی انسان اپنے کو جسم سے جدا فرض کرتاہے اورتمام اعضاء بدن کا ناطہ اپنے آپ سے توڑ دیتاہے پھر بھی اپنے کو زندہ محسوس کرتاہے جبکہ اجزاء بدن نہیں ہیں اوریہ وجود وہی روح ہے جومستقل رہ سکتی ہے ۔

۳۔پوری عمرمیں شخصیت ایک ہے ۔ یہ ''ہم'' ابتداء زندگی سے آخر عمر تک ایک ہے یہ ''ہم'' دس سال پہلے بھی ہے اور پچاس سال بعد بھی، اگرچہ علم وقدرت زندگی کی کمال تک پہونچ جائے لیکن ''ہم'' اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ آج کے علم نے ثابت کر دیا کہ انسان کے عمر میں کئی بار جسم میں ،رگو ں میں ،یہاں تک کہ دماغ کی شریانوں میں تبدیلی ہوتی ہے چوبیس گھنٹے کے اندر کروروں رگیں ختم ہو تی ہیں اور کروڑوں ان کی جگہ پیداہوتی ہیں جیسے بڑے حوض میں پانی ایک جگہ سے جاتاہے اور دوسری طرف سے آتاہے ظاہر ہے بڑے حوض کاپانی ہمیشہ بدلتاہے اگرچہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس کوایک ہی حالت میں دیکھتے ہیں ۔

نتیجہ:

اگر انسان صرف اجزاء بدن کا نام ہو تا اورصرف دل و دماغ ہو تا یعنی روح نہ ہوتی تواپنے اعمال کا ذمہ دار نہیں قرار پاتا ،مثلا اگر کو ئی دس سال پہلے کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسے سزا نہیں دے سکتے اس لئے کہ جسم کے تمام خلیئے تبدیل ہوگئے ہیں گویا اب وہ دس سال پرانا جسم نہیں ہے۔اگر انسان ہمیشہ ذمہ دار ہے یہاںتک کہ وہ خوداس کا اعتراف کررہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے اگرچہ تمام اعضاء بدل چکے ہیں مگر وہ خود باقی ہے اوریہ وہی روح ہے۔

۲۲۸

روح کی بقاء اور استقلال پر نقلی دلیل

تاریخ اسلام میں بہت سی جگہ موت کے بعد روح سے مربوط چیزیں آئی ہیں جن میں سے بعض یہاں پیش کی جارہی ہے جنگ بدر کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیاکہ دشمن کی لاشوں کوایک کنویں میں ڈال دیاجائے اس کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کنویں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :''هل وجد تم ماوعدکم ربکم حقاً فِانّی قَد وجدت ماوعدنی رَبِّی حقاً ''کیا تم لوگو ںنے وعدہ خداکے مطابق سب کچھ پایاہے ؟ہم نے تو اللہ کے وعدہ کو حق دیکھا ) بعض افراد نے عرض کیا :کیا آپ بے جان لوگو ں سے باتیں کر رہے ہیں، وہ سب توایک لا ش کی شکل میں پڑے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا: وہ لوگ تم سے بہتر میری آواز سن رہے ہیں دوسرے لفظوں میں یو ں کہا جائے کہ تم لوگ ان سے بہتر میری بات نہیں سمجھ رہے ہو۔( ۱ )

سلمان فارسی مولا امیر المومنین کی طرف سے والی مدائن تھے اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں : ایک دن سلمان فارسی کی عیا دت کوگیا، جب وہ مریض تھے اورمرض میں اضافہ ہوتاجارہاتھا یہا ںتک کہ موت کی جانب قدم بڑھا رہے تھے مجھ سے ایک دن فرمایا اے اصبغ! رسول خد ا نے مجھ سے فرمایا ہے جب موت قریب ہو گی تو مردہ تم سے باتیں کریںگے ہمیں قبرستان کی طرف لے چلو حکم کے مطابق انہیں قبر ستان میں لے جایاگیا کہامجھے قبلہ رخ کرو اس وقت بلند آواز سے کہا :

''السلام علیکم یا اهلَ عرصة البلا ء السلام علیکم یامحتجبین عن الدُّنیا'' میرا سلام ہو تم پر اے بلا ء کی وادی میں رہنے والومیراسلام ہو اے اپنے کو دنیا سے چھپا لینے والو۔اسی وقت روحوں نے سلام کا جواب دیااورکہا جو چاہتے ہو سوال کرو جناب سلمان نے پوچھا تم جنتی ہویا جہنمی؟مردہ نے کہا خدا نے مجھے دامن عفو میں جگہ عنایت کی ہے اورمیں جنتی ہو ں جناب سلمان نے موت کی کیفیت اورموت کے بعد کے حالات دریافت کئے ا س نے

____________________

(۱) سیرہ ابن ہشام ج ،۱ ص ۶۳۹

۲۲۹

سب کاجواب دیا اس کے بعد جناب سلمان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی( ۱ )

مولا امیرالمومنین ںجنگ صفین سے واپسی پر شہر کوفہ کے پیچھے قبر ستا ن کے کنارے کھڑے ہو ئے اور قبروں کی طرف رخ کر کے فرمایا :اے حولناک او ر تاریک قبروں کے رہنے والوتم اس قافلہ کے پہلے افراد ہو ہم بھی تمہارے پیچھے آرہے ہیں لیکن تمہارے گھردوسروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں اور تمہاری بیویوں نے شادی کر لیں اورتمہارے مال واسباب تقسیم ہوچکے ہیں یہ سب میری خبر تھی تمہارے پاس کیا خبرہے ؟''ثُمَّ التفت اِلیٰ أَصحابه فقال أمّا لوأذِن فیِ الکلام لأخبروکم أَنَّ خیر الزاد التقویٰ ''( ۲ )

پھر اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا جان لو اگر انہیں بولنے کی اجازت ہوتی تویہ تمہیں بتا تے کہ بہترین زاد راہ تقوی وپرہیز گا ری ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج۱، معادفلسفی ۳۱۵

(۲)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ۱۲۵

۲۳۰

سوالات

۱۔قرآن بقاء روح کے لئے کیا کہتا ہے آیت کے ذریعہ بیان کریں ؟

۲۔ استقلال روح کے لئے عقلی دلیل بیان کریں ؟

۳ بقاء روح کے لئے ایک نقلی دلیل بیان کریں ؟

۲۳۱

چوتیسواں سبق

معاد جسمانی اورروحانی ہے

کیاموت کے بعد زندگی روحانی ہے ؟یعنی جسم کہنہ ہو کر بکھر جائے گااور آخرت کی زندگی فقط روح سے مربوط ہے یافقط جسمانی ہے اور روح کاشمارجسم کے آثاروخواص میں ہے ؟یا یہ کہ آدھی روحانی اور آدھی جسمانی ہے جسم لطیف اس دنیا وی جسم سے افضل ہے یاموت کے بعد زندگی مادی او رروحانی ہے اور دوبارہ دونوں جمع ہوکر حاضر ہوںگے، ان چاروں نظریوں کے حامی اور طرفدارموجود ہیں لیکن شیعوں کا نظریہ (عقیدہ)یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں معاد جسمانی اور روحانی پر دلالت کرتی ہیں اور اس مسئلہ میں کوئی شک وتردید کی گنجائش نہیں ہے ۔

۱۔ بہت سی جگہو ں پر قرآن نے منکریں معاد کو جو یہ سوال کرتے ہیں کہ ''جب ہم خاک میں مل جائیں گے او رہماری ہڈیاں پرانی ہوکر پھر زندہ ہوںگی'' جواب دیا ہے ، اور انہیں اس بحث میں بیان کیا جاچکا ہے جہاں معاد پر قرآن کی دلیل پیش کی گئی ہے جیسے (سورہ یس آیة ۸۰) میں واضح طور پر معاد جسمانی اور روحانی کوبیان کیاگیا ہے ۔

۲۔ دوسری جگہ (سورہ قیامت آیة ۳،۴) میں فرمایا :کیاانسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیو ں کو جمع نہیں کریںگے بلکہ ہم قادر ہیں کہ انگلیو ں کے نشانات کو بھی ترتیب دیدیں ،ہڈیو ں کو جمع کرنا انگلیوں کے نشانات کو دوبارہ مرتب کرنا یہ معا د جسمانی اورروحانی کی ایک او ر دلیل ہے ۔

۲۳۲

۳۔ تیسری مثال وہ آیتیں جوکہتی ہیں کہ انسان قبر سے اٹھے گا اس سے ظاہر ہے کہ قبر انسانی جسم کے لئے گھر قرار دیا گیا ہے اور اسلامی منکرین کی نظر میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جسم کے بغیر روح کا پلٹنا ممکن نہیں ہے جسم بغیر روح کے صرف لاش ہے خلاصہ یہ کہ اس طرح کی آیتیں معاد جسمانی اور روحانی کے لئے واضح دلیل ہے ۔ (وَأَنَّ السَّاعةَ آتِیةُ لا رَیبَ فِیها وأَنَّ اللَّهَ یَبعَثُ مَن فی القُبُورِ )قیامت کے سلسلے میں کو ئی شک نہیں او رخدا وند عالم ان تمام افراد کو جو قبروں میں ہیں دوبارہ زندہ کرے گا ۔( ۱ ) سورہ یس کی آیة : ۱۵۱ اور ۱۵۲ اور دوسری آیات اس پر شاہد ہیں ۔

۴۔ وہ آیتیں جو بہشتی نعمتوں کے سلسلے میں ہیں ۔میوے ،غذائیں مختلف کپڑے اوردوسری جسمانی لذتیں وغیرہ ،جنت کی لذتییں اور نعمتیں صرف مادیت پر منحصر نہیں ہیں بلکہ معنوی اور روحی لذتیں بھی بہت ہیں جن کا تذکرہ جنت کی بحث میں آئے گا انشاء اللہ

لیکن سورہ رحمن اور اس جیسی آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ معاد جسمانی اور روحانی دونوںہی اعتبارسے ہے اور جسم اور روح کے لئے لذتیں ہیں یہ

____________________

(۱) سو رہ حج آیة ۷

۲۳۳

ہے کہ جنت کی نعمتیں دنیاوی نعمتوں سے الگ ہیں او ران سے بہتر ہیں مگر یہ سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیں ۔

۵۔وہ آیتیں جو مجرموں کے لئے مختلف طرح کے عذاب اور سزا کو بیان کرتی ہیں ان میں سے بہت سی جسم سے مربوط ہیں یہ آیتیں قرآن میں بہت ہیں ان میں بعض کی جانب اشارہ کررہے ہیں( یَومَ یُحمَیٰ عَلَیها فِی نَارِجَهَنَّم فَتُکویٰ بِها جِبَاهُهُم وَجُنُوبُهُم وَظُهُورُهُم ) ''جس دن انہیں دوزخ میں کھولایا جائے گا اورجلا یا جا ئے گا اور ان کی پیشانیاں نیز ان کے پہلو اور پشت کوداغا جائے گا''( ۱ ) ( یَومَ یُسحبُونُ فِی النّارِ عَلیٰ وُجُوههِمِ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ) ''جس دن دوزخ کی آگ ان کے چہرے پر ڈالی جا ئیگی او ران سے کہا جا ئے گا آج دوزخ کی آگ کا مزہ چکھ لو''( ۲ ) ( تَصلیٰ نَاراً حَامِیةً تُسقیٰ مِن عَینٍ آنیةٍ لَیسَ لَهُم طَعَامُ اِلَّا مِن ضَرِیعُ لا یُسمن ولَا یُغنیٰ مِن جُوعٍ ) ( ۳ ) ''بھڑکتی آگ میں داخل ہونگے کھولتے پانی سے سیراب کیا جائے گا ،خشک کا نٹا کڑوا اور بدبو دار کھانے کے علاوہ کچھ میسر نہ ہو گا ایسا کھانا جو نہ انہیں موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے نجات دلائے گا''۔( کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهمُ بَدَّلنَاهُم جُلُوداً غَیرَها لِیَذُوقُوا العَذَابَ أِنَّ اللَّه کَانَ عَزِیزاً حَکِیماً ) ( ۴ ) جیسے ہی کافر کی کھال جل کر ختم ہو جا ئے گی اس کی جگہ دوسری کھال کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ عذاب

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة: ۳۵

(۲) سورہ قمر آیة :۴۸

(۳) غاشیہ آیة :۴۔۷

(۴) سورہ نسا ء آیة ۵۶

۲۳۴

کامکمل مزا چکھ لیں بیشک خدا عزیز اور حکمت والا ہے ۔

اس طرح کہ بہت سی آیتیں ہیں جن کا تذکرہ جہنم کی بحث میں آئیگا سب کے سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیںاگر معاد فقط جسمانی ہوتی تو روحانی غذ اکا کوئی مفہوم نہ ہوتا ؟۔

۶۔ وہ آیتیں جو روز قیامت اعضاء وانسان کے بات کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں وہ معا د جسمانی اور روحانی پر واضح دلیل ہیںچونکہ ایسی آیتیں بھی بہت ہیں لہٰذانمونہ کے طور پرکچھ کا یہاں ذکر کرتے ہیں( الیَومَ نَختِمُ عَلیٰ أَفوَاهِهِم وَتُکَلِّمُنَا أَیدِیهِم وَتَشهد أَرجلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) ''آج ان کی زبانو ں پر تالے لگ جائنگے ان کے ہاتھ باتیں کریں گے ان کے پائوں جو کئے ہوںگے اس پر گواہی دیں گے'' ۔( ۱ ) ( حَتیٰ اِذ مَا جَائُ وهَا شَهِدَ عَلَیهِم سَمعُهم وَأَبصَارُهُم وَجُلُودُهُم بِمَا کَانُوا یَعمَلُونَ ) '' یہاںتک کہ جب پہونچیں گے ان کی آنکھیں او رگوشت وپوست جو عمل انجام دیئے ہیں انکی گواہی دیں گے''( وَقَالُوا لِجُلُودِهِم لِمَ شَهِدتُم عَلَینَا قَالُوا أنطَقَنا اللَّهُ الَّذِی أنطَقَ کُلِّ شَیئٍ ) '' وہ اپنے جسم سے سوال کریں گے کیوں میرے خلاف گواہی دیتے ہو؟ وہ جواب میں کہیںگے وہ خدا جس نے سب کو قوت گویا ئی عطاکی ہے اس نے ہمیں بولنے کے لئے کہا''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ یس ۶۵

(۲) سورہ فصلت ،۲۱

۲۳۵

۷۔وہ آیتیں جومعاد جسمانی اور روحانی کو بطور نمونہ اس دنیا میں ثابت کرتی ہیں جیسے حضرت ابراہیم کا قصہ او رچار پرندے جوزندہ ہو ئے (سورہ بقرہ آیة۲۶۰) مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ جو زندہ ہوا (بقرہ آیة ۷۳) جنا ب ''عزیر'' یا''ارمیا ' ' پیغمبر کا واقعہ (بقرہ ۲۵۹ )جناب حزقیل پیغمبر کاقصہ اورموت کے بعد بہت سارے لوگوں کا زندہ ہوناجیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۳ میں ملتا ہے ،جناب عیسی کا مردو ں کو زندہ کرنا (مائدہ ۱۱۰ آل عمران۴۹) میں آیا ہے جناب موسی کے زمانے میں موت کے بعد ستر آدمیوں کازندہ ہونا (بقرہ ۵۶۵۵) یہ سب کے سب واقعے معاد جسمانی اور روحانی پر محکم دلیل ہیں ۔

سوالات

۱۔موت کے بعدکے حیات کی کیفیت کے بارے میں کیا نظر یہ ہے ؟

۲۔شیعہ موت کے بعد کی زندگی کو کس طرح جانتے ہیں ایک دلیل قرآن سے ذکر کریں ؟

۳۔ معادجسمانی اور روحانی کانمونہ جو اسی دنیا میں واقع ہوا ہے بیان کریں ؟

۲۳۶

پیتیسواں سبق

برزخ یا قیامت صغری

جوبھی اس دنیا میں آتاہے ان چار مراحل کو اسے طے کرنا ضروری ہے ۔

۱۔ پیدائش سے لے کر موت تک کیونکہ یہ دنیا کی زندگی ہے۔

۲۔موت کے بعدسے قیامت تک کی زندگی اسے عالم برزخ کہتے ہیں۔

۳۔قیامت کبری

۴۔جنت یا دوزخ

برزخ

برزخ؛ دو چیز کے درمیان کے فاصلے کانام ہے یہاں برزخ سے مراد وہ دنیا ہے جواس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے جب روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے (قبل اس کے کہ یہ روح قیامت کے لئے دوبارہ اصل بدن میں واپس آئے ) ایک ایسے نازک جسم میں رہتی ہے جسے جسم مثالی کہتے ہیں تاکہ قیامت کے وقت وہ اسی کے ساتھ ہو ۔

۲۳۷

موت کے وقت انسان دنیا او رآخرت کے درمیان ہوتا ہے مولا امیر المومنین نے فرمایا: لِکلِّ دار باب وباب دار الآخرة الموت ہر گھر کا ایک دروازہ ہوتا ہے او رآخرت کا دروازہ موت ہے( ۱ ) جیسا کہ بعض احادیث میں واضح طور پر ملتا ہے کہ موت کے وقت بہت سی چیزیں ہمارے لئے واضح اور روشن ہوجاتی ہیں ۔

۱۔ملک الموت اور دوسرے فرشتوں کو دیکھنا

(۲) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او ر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی زیارت

(۳) جنت یا دوزخ میں اپنی جگہ کا دیکھنا

(۴) اعمال کامجسم ہونا او راپنے گذرے ہوئے اعمال کو دیکھنا

(۵) دولت کا مجسم ہونا جو جمع کر رکھی ہے

(۶) اولا د رشتہ دار اور دوستوں کا مجسم ہونا

(۷) شیطان کامجسم ہونا

یہ کیفیت جس سے اچھے اعمال انجام دینے والے بھی ڈرتے ہیں اور خدا سے پناہ مانگتے ہیں ۔اس وقت انسان بعض پس پردہ رموز واسرار کو دیکھتا ہے او راس کا اعمال اس کے سامنے ہوتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو نیکیوں سے خالی اور گناہ کے بوجھ تلے محسوس کرتاہے اپنے کئے پرنادم وپشیمان ہو کر پلٹنے کی التجا کرتا ہے تاکہ اپنے کئے کا جبران کر سکے ۔( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحَدَ هُمُ المَوت قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلّیِ أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمةُ هُوَ قَائِلُهَا ) ''جب ان

____________________

(۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید

۲۳۸

میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے فریاد کرتے ہیں بارالہا !مجھے پلٹادے تاکہ جو کچھ چھوٹ گیاہے اسے پورا کرلیں اور اچھے اعمال انجام دے لیں اس سے کہا جا ئے گا ایسا نہیں ہوسکتایہ فریاد ہے جو وہ کریں گے''۔( ۱ )

یہ باتیں زبان پر ہوںگی او راگر پلٹا دیا جائے تو اعمال پہلے کی طرح ہو ں گے جس طرح جب مجرم گرفتار ہوتاہے او راسے سزادی جاتی ہے تو یہی کہتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی گرفتاری اور سزاختم ہو جاتی ہے اکثر پھر وہی اعمال دہراتا ہے ۔

قَال لقمان لابنه: یَا بُنیِ اِنَّ الدُّنیا بحر عمیق وقد هلکَ فیها عالم کثیر فاجعل سفینتکَ فِیهَا الاِیمان بِاللَّه واجعل زادک فیها تقویٰ اللَّه واجعل شراعها التوکّل علیٰ اللَّه فَاِنْ نجوّت فبرحمة اللّه وان هلکت فیه فبذنوبکَ وأشد ساعاته یوم یولد ویوم یموت ویوم یُبعث ۔''جنا ب لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا :اے میرے لخت جگر !یہ دنیا بہت گہرا سمندر ہے کتنے لوگ اس میں ڈوب چکے ہیں لذا تم خدا پر ایما ن، اپنے لئے کشتی نجا ت اور زاد راہ، پرہیز گاری نیز لنگر خدا پر بھروسہ کرو اب اگر ڈوبنے سے بچ گئے تو یہ خدا کی رحمت ہے اور اگر غرق ہوگئے تو یہ تمہا رے گناہ کے با عث ہوگا اور سخت ترین لمحہ زندگی انسان کے لئے وہ ہے جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے یا وہ دن ہے جب اس دنیا کو خدا حافظ کہتاہے یا پھر وہ دن ہوگا جب پلٹایا جائے گا ''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ مومنون آیة ، ۹۹۔۱۰۰

(۲)بحارالانوار جلد ،۶ ص ۲۵۰

۲۳۹

عالم برزخ کے اثبات کے سلسلہ میں بہت سی آیتیں وروایتیں پائی جا تی ہیں اگر چہ یہ بات عقل ومحسوسات کے ذریعہ بھی ثابت ہو چکی ہے۔

برزخ کے سلسلے میں قرآنی آیا ت

( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلِّی أعمَلُ صَالِحاً فِیما تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمَة هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرائِهِم بَرزَخُ اِلیٰ یَوم یُبعثُونَ ) ( ۱ ) یہا ں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پرور دگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ،ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جویہ کہہ رہا ہے او ر ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والاہے یہ آیت واضح طور پر برزخ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

( وَلَاتَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ( ۲ ) خبردار راہ خد امیں قتل ہونے والوں کومردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں او راپنے پرور دگا ر کے یہا ں سے رزق پارہے ہیں ۔( وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُون ) ( ۳ ) ''اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کاشعورنہیں ہے ''۔

یہ دو آیتیں برزخ کی زندگی اور شہداء کے رزق کو ثابت کرتی ہیں۔

____________________

(۱) سورہ مومنون ۔۹۹۔۱۰۰

(۲) آل عمران آیة ،۱۶۹

(۳) بقرہ آیة :۱۵۴

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303