اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155054 / ڈاؤنلوڈ: 4153
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

چاہے ہاتھ آسمان کی جانب رکھیں یا زمین کی طرف اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،آپ نے فرمایا : یہ موضوع اس کے علم اور احاطہ قدرت میں برابر ہے لیکن خدانے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ دعا کرتے وقت ہاتھوں کو آسمان کی جانب عرش کی طرف بلند کریں کیونکہ معد ن رزق وہاں ہے ۔جو کچھ قرآن اور فرمان رسول ہے ہم اس کو پہچاتے ہیں ، اس کے بعد فرمایا : اپنے ہاتھوں کو خدا کی طرف بلند کرو اوریہ وہ موضوع ہے جس پر تمام امتوں کا اتفاق ہے ۔( ۱ )

حضرت امیر المومنین ںنے فرمایا : کہ تم میں سے کوئی بھی جب نماز تمام کرے تو دعا کے لئے ہاتھوں کوآسمان کی جانب بلند کرے پھر دعا کرے ،ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا خدا ہر جگہ نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہا ں ہے ۔ اس نے کہاپھر ہاتھو ں کو آسمان کی طرف کیوں اٹھاتے ہیں ،آپ نے فرمایا :تم نے (قرآن مجیدمیں ) نہیں پڑھا آسمان میں تمہاری روزی ہے اورجو کچھ تم سے وعدہ کیاگیا ہے۔ انسان محل رزق کے علاوہ کہا ںسے رزق طلب کرے گا محل رزق اور وعدہ الٰہی آسمان ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) پیام قرآن از بحارالانوار ج۳،ص ۳۳۰

(۲) پیام قرآن نقل از بحارالانوار ج ۹۰،ص ۳۰۸

۸۱

سوالات

۱۔ صفات سلبیہ سے مراد کیاہے ؟

۲ ۔ خدا کو دیکھنا کیوں ناممکن ہے ؟

۳ ۔ یہو دی دانشمند جس نے سوال کیا تھا کہ خدا کہا ںہے حضرت امیر نے اس کو کیا جواب دیا ؟

۴۔ دعا کے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیو ں اٹھا تے ہیں ؟

۸۲

گیارہواں سبق

عدل الٰہی

اصول دین کی دوسری قسم عدل سے متعلق ہے ،عدل ،خداکے صفات جمالیہ میں سے ایک ہے عدالت الٰہی ایک طرف تو ایمان بہ خدا سے مربوط ہے تو دوسری طرف معاد سے، ایک طرف مسئلہ نبوت وامامت سے تودوسری طرف سے فلسفہ ٔاحکام سے کبھی ثواب و عقاب تو کبھی جبر و تفویض سے اسی بناپر اصل عدالت کا اقرار یا انکا ر ممکن ہے کہ تمام اعتقاد اور معرفت کے چہرے کو بدل دے اس کے علا وہ اجتماعی ، اخلاقی اور تربیتی مسائل میں بھی عدل الٰہی سے انکا ر نہیںکیا جاسکتاانہیں خصوصیات کی وجہ سے عدل الٰہی کو اصول دین میں شمار کیا گیاہے ۔

مولا ئے کا ئنا ت نے ایک مختصر اورمفید عبارت کے ذریعہ توحید اور عدل کو ایک جگہ رکھ کر فرمایا :''التوحید ان لا تتوھمہ والعدل ان لا تتھمہ'' توحید وہ ہے جوتمہاری واہمہ سے دور ہے (کیو نکہ جو واہمہ میں سماجائے وہ محدود ہے)اور عدل اس چیز کا نام ہے جسے تم متہم نہ کرو ( برے کام جو تم انجام دے رہے ہو اسے خدا کی طرف نسبت نہ دو )( ۱ )

____________________

(۱) کلمات قصار نہج البلا غہ حکمت ۴۷۰

۸۳

عدل الٰہی پر عقلی دلیل

ظلم قبیح (ناپسند) ہے او رصاحب حکمت خدا کبھی قبیح فعل انجام نہیںدیتا کیونکہ ظلم کے کچھ اسباب ہیں اور خدا ان چیزوں سے منزہ ہے ۔

ظلم کے اسباب اور اس کی بنیاد

۱۔ضرورت :وہ شخص ظلم کرتاہے جوکسی مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے اور وہ مقصد صرف ظلم ہی کے راستے سے ممکن ہے ۔

۲ ۔ جہالت اور نادانی: وہ شخص ظلم کرتا ہے جو ظلم کی برائیوں اور اس کی قباحت سے واقف نہیںہوتا ۔

۳۔اخلاقی برائی :وہ شخص ظلم کرتاہے جس کے اندر کینہ ،عداوت ،حسد خواہشات پرستی ہے۔

۴۔ عجز و ناتوانی : وہ شخص ظلم کرتا ہے جو خطرہ اور نقصان کو اپنے سے دور کرنے سے عاجز ہو اور اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے ظلم کے علاوہ کو ئی راستہ نہ پاتا ہو ۔

اس دنیا میں جو بھی ظلم ہو تا ہے انہیں میں سے کسی ایک کی بنا پر ہوتاہے اگر یہ اسباب نہ پائے جا ئیں تو کہیں بھی کو ئی ظلم نہ ہو او رمذکورہ اسباب میں سے کو ئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ خدا وند عالم :

الف ): غنی ہے او رکسی کا محتاج نہیں ہے ۔

ب): اس کا علم لا محدودہے اور کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے۔

ج): تمام اچھے صفات کا مالک ہے اور تمام عیوب اور نواقص سے پاک اور پاکیزہ ہے ۔

د): لا محدود قدرت کامالک ہے لہٰذا وہ عادل ہے ۔

۸۴

صحیفۂ سجادیہ کی دعا نمبر ۴۵ میں آیا ہے'' وعفوک تفضل وعقوبتک عدل''بارالٰہا! تیری عفو و بخشش تیرے فضل کانتیجہ ہے اور تیرا عقاب عین عدالت ہے۔

ائمہ معصومین سے نقل ہے کہ نماز شب کے اختتام پر اس دعا کو پڑھا جائے ''وقد علمت یا الهیِ أَنّه لیس فی نقمتک عجلة ولا فی حکمک ظلم واِنَّما یُعجّل من یخاف الفوت واِنَّما یحتاج اِلیٰ ظلم الضعیف وقد تعالیت یا ألهی عن ذلک علواً کبیراً'' ( ۱ ) ''بارالٰہا ! میں جانتا ہو ںکہ توعقاب میں جلدی نہیں کرتا اور تیرے حکم میں ظلم نہیں پایا جا تا، جلدی وہ کرتاہے جو ڈرتا ہے کہ کہیں وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے اور ظلم وہ کرتا ہے جو ضعیف اور ناتواں ہوتا ہے اور اے میرے پروردگار تو ان سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے'' ۔

عدالت خدا کے معانی

عدل کے اس مشہور معنی کے علا وہ (کہ خدا عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا) دوسرے کئی معانی پائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱) مصباح المتہجد شیخ طوسی ص ۱۷۳ (دعاء بعد از نماز شب )

۸۵

۱۔ خد اعادل ہے یعنی خالق کا ئنا ت ہر اس کا م سے دور ہے جو مصلحت اورحکمت کے خلا ف ہے ۔

۲۔ عدل یعنی : تمام لوگ خدا کی نظر میں ایک ہیں تمام جہات سے اور کو ئی بھی اس کے نزدیک بلند وبالا نہیں ہے مگر وہ شخص جو تقوی اور اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے کو فساد اور نابودی سے بچائے( اِنّ أَکرَمکُم عِند اللَّهِ أتَقاکُم اِنَّ اللّٰهَ عَلیمُ خَبیرُ ) بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے اور اللہ ہر شی ٔ کا جاننے والا اور ہر بات سے با خبر ہے۔( ۱ )

۳۔ حق کے ساتھ فیصلہ او رجزا : یعنی خدا وند عالم کسی بھی عمل کو چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا اور حقیر کیو ں نہ ہو اس کے بجا لانے والے کا حق ضائع نہیں کرتا اور بغیر جزاء کے نہیں رہنے دیتا او ربغیر کسی امتیاز کے تمام لوگوں کو ان کے اعمال کی جزاملے گی

( فَمنْ یَعملْ مِثقالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرهُ وَمَنْ یَعمل مِثقالَ ذَرَّةٍ شَراً یَرهُ ) پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا او رجس نے ذرہ برابربرائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا ۔( ۲ )

۴۔ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا'' العادل الواضع کُلّ شیئٍ موضعہ'' عادل وہ شخص ہے جوہر چیز کو اس کی جگہ پر قرار دے۔( ۳ )

خدا وند عالم نے تمام مخلوقات کو اس کی مناسبت سے خلق کیا ہے اور اس کے

____________________

(۱)سورہ حجرات آیة ۱۴

(۲) سورہ زلزال آیة ۷

(۳) مجمع البحرین کلمہ عدل

۸۶

اندر کی چیزیں اسی کے لحاظ سے خلق کی ہیں تمام موجودات عالم میں تعادل وتناسب پایا جاتاہے ''( أنبتنا فیها مِن کُلّ شیئٍ موزون ) ''( ۱ ) اور ہر چیز کو معینہ مقدار کے مطابق پیدا کیاہے۔

ہرکا م مقصد کے تحت : یعنی دنیا کی تمام تخلیق کا ایک مقصدہے اور اس دنیا کو خلق کرنے میں کچھ اسرارو رموز پوشیدہ ہیں اوراس دنیامیں کو ئی چیز بیکار و عبث نہیں ہے( أ فَحَسِبتُم انَّما خَلَقنَاکُم عَبثاً وَ أَنَّکم اِلینَا لا تُرجعُون ) کیاتمہا را خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکا ر پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لا ئے جا ئو گے( ۲ )

ان مذکورہ عدالت کے معانی پر اعتقاد اور یقین اور ان میں سے ہر ایک معنی کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانے کی وجہ سے بہت سے اخلاقی آثار مرتب ہو ں گے عادل عدالت کا خواہاں ہو تا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ حجر آیة ۱۹

(۲) سورہ مومنون آیة :۱۱۵

۸۷

سوالات

۱۔ کیو ں عدل کو اصول دین میں شامل کیا گیاہے ؟

۲۔ عدل خدا پر عقلی دلیل کیا ہے ؟

۳۔ ظلم کے اسباب کیاہیں ؟

۴ ۔ عدالت کے معانی بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۸۸

بارہواں سبق

مصیبتوں اور آفتوں کا راز(پہلا حصہ )

یہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ خدا عادل ہے او ر اس کے تمام کام حکمت کی بنیاد پر ہیں کچھ ایسے مسائل ہیں جو واضح نہیں ہو سکے لہٰذا ان کو واضح کردینا ضروری ہے یعنی آفتیں اور بلائیں ،دردورنج ،ناکامی او ر شکست ،نقائص اور بحران خد اکی عدالت سے کیسے سازگارہے ؟

تھوڑا غورکرنے پر واضح ہوجاتاہے کہ یہ تمام حالات عدل الٰہی کے موافق رہے ہیں نہ کہ مخالف ،مذکورہ سوالات کے سلسلہ میں دو بہترین جواب دئے جا سکتے ہیں۔

۱۔ مختصر اور اجمالی ۲ ۔تفصیلی

اجمالی جواب:

جب عقلی اور نقلی دلیلو ں سے ثابت ہوچکا کہ خداحکیم و عادل ہے اور اس کی تمام تخلیق ہدف اور حکمت کے ساتھ ہے اور یہ کہ خدا وند متعال کسی شخص اورکسی کاکبھی بھی محتاج نہیں اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے خلا صہ یہ کہ وہ کوئی بھی کام خلاف حکمت انجام نہیں دیتا ،ظلم جوکہ سرچشمۂ جہل اورعاجزی ہے اس کا تصور ذات اقدس کے لئے ممکن ہی نہیں اس کے باوجود اب اگر ہم مذکورہ حوادث وحالات کے فلسفہ کونہ سمجھ سکیں تو ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ یہ ہمارے علم کی محدودیت اور اس کا قصور ہے ، چونکہ جس نے بھی خدا کو اس کے صفات کی روشنی میں پہچانا اس کے لئے یہ جواب کافی ووافی ہے ۔

۸۹

تفصیلی جواب :

ان مصیبتوں کے ذمہ دار خو د ہم ہی ہیں ۔انسان کی زندگی میں بہت زیادہ مصیبتیں دامن گیر ہوتی ہیں جس کی اصلی وجہ او رسبب خو د وہی ہے اگرچہ اکثر ناکامیوں کاسبب،سستی وکاہلی او رسعی وتلاش کو چھوڑ دینا ہے ۔

زیادہ تر بیماریاں شکم پرستی اورہوائے نفس کی وجہ سے آتی ہیں ،بے نظمی ہمیشہ بد بختی کا سبب رہی ہے اور اسی طرح اختلاف وجدائی ہمیشہ مصیبت اور بد بختی کا پیش خیمہ رہے ہیں اور تعجب تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے علت ومعلول کے رابطہ کو بھلاکر ساری مصیبتوں کا ذمہ دار خداکو ٹھرایاہے۔

ان باتوں کے علا وہ بہت سے نقائص اور کمیا ںجیسے بعض بچوں کا ناقص الخلقت ہو نا (اندھا ،بہرا اور گونگا ، مفلو ج ہو نا ) والدین کی کوتاہی او ر شریعت کے اصول و قوانین کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے ہے ، اگر چہ بچہ کا کوئی قصور نہیں لیکن یہ والدین کے جہل او رظلم کا طبیعی اثر ہے (بحمد اللہ معصوم ہادیوں نے ان نقائص کو روکنے کے لئے کچھ قوانین بتائے ہیں یہاں تک کہ بچے کے خوبصورت اور با استعداد ہونے کے لئے بھی قوانین وآئین بتائے ہیں ) ۔

۹۰

اگر والدین نے ان قوانین کی پیروی نہیں کی تو عا م سی بات ہے کہ اس نواقص کے ذمہ دار ہو ں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی خدا کی طرف منسوب نہیں کر سکتے بلکہ یہ ایسی مصیبت ہیں جسے انسان نے خود اپنے یا دوسروں کے لئے پال رکھی ہے۔ قرآن اس جانب اشارہ کرتا ہے :( مَا أَصَابَک مِن حَسنَةٍ فَمِن اللّٰه وَمَا أَصَابَک مِن سَیئَةٍ فَمِن نَفسِک ) جو بھی نیکیاں(اچھائیاں او رکا میابیاں) تم تک پہونچی ہیں وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائیاں( بدبختیاںاور ناکامیاں) تمہا رے دامن گیر ہو تی ہیں وہ خود تمہاری کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔( ۱ )

اور دوسری جگہ قرآن فرماتاہے :( ظَهَر الفَسَادُ فی البَرِّ وَالبَحرِ بِما کَسبَت أَیدیِ النَّاسِ لِیُذِیقهم بَعضَ الّذیِ عَمِلوا لَعَلَّهُم یُرجَعُونَ ) لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے دریا اور خشکی میں فساد پھیل گیا (لہٰذا ) خدا ان کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھا دینا چاہتا ہے شاید وہ بدل جا ئیں۔( ۲ )

نا پسند واقعات او رالٰہی سزائیں

حدیثوں میں بھی متعدد مقامات پر اس طرح ذکر ہو ا:انسانوں کے دامن گیر ہونے والی مصیبتوں کا زیاد ہ تر حصہ گناہو ں کی سزا کا ہو تا ہے ۔

ایک حدیث میں امام علی رضا ںسے روایت ہے :''کلّما أحدث العِباد من الذنوب ما لم یکونوا یعملون أحدث لهم من البلا ء ما لم یکونوا

____________________

(۱) سورہ نساء آیة ۷۹

(۲) سورہ روم آیة ۴۱

۹۱

یعرفون ''جب بھی خدا کے بندے ایسے گناہو ںکو انجام دیتے ہیں جنہیں کبھی پہلے انجام نہیں دیا تھا توخدا انہیں نامعلوم اور نئی مصیبتوں میں گرفتار کردیتاہے ۔( ۱ )

حضرت امام صادق سے منقول ہے :''أِنَّ الرجلَ لیذنب الذنب فیحرم صلا ة اللیل واِنَّ عمل الشَّرأسرع فی صاحبه من السکین فی اللحم ''کبھی انسان ایسے گنا ہ کو انجام دیتا ہے جس کے نتیجہ میں نماز شب سے محروم ہو جا تاہے (کیونکہ ) برے عمل کا برا اثر اس کے انجام دینے والے میں اس چاقو سے زیادہ تیز ہو تا ہے جوگوشت کو کا ٹنے میں ہو تا ہے۔( ۲ )

حضرت علی ابن ابی طالب ں فرماتے ہیں : کسی قوم کی خوشی اور نشاط اسی وقت چھنتی ہے جب وہ براکام انجام دیتی ہے کیو نکہ خدا بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔( ۳ )

ایک دوسری جگہ امام علی فرماتے ہیں : گناہو ںسے دوری اختیار کرو کیونکہ تمام بلا ئیں او رمصیبتیں ،روزی کا کم ہو نا ،گناہ کی وجہ سے ہے یہاںتک کہ بدن میں خراش کا آنا ،ٹھوکر کھا کر گر جانا ،مصیبتوں میں گرفتار ہو نا ،یہ سب گناہ کا نتیجہ ہے، خداوند متعال کا ارشاد ہے : جو بھی مصیبت تم تک آتی ہے وہ تمہا رے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔

____________________

(۱) سابق ، ،ص ۳۵۸

(۲) نہج البلا غہ خطبہ ۱۷۸

(۳) سورہ نساء ۷۹ ،بحارالانوار ج ۸۳ ،ص ۳۵۰(مزید معلومات کے لئے تفسیر برہان ج،۴ ص ۱۲۷ او رنور الثقلین آیة ۷۸ کے ذیل میںاو ر بحارالانوار ج، ۷۸ ،ص ۵۲ کی طرف رجوع فرمائیں

۹۲

عذاب او رسزا کے عمومی ہونے پر کچھ سوال

بہت سی مصیبتیں اور بلا ئیں تاریخی شواہد ،حدیثوں او رقرآن کی روشنی میں عذاب او ر سزا کے عنوان سے ہو تی ہیں۔

لیکن یہاں پر جو سوال ذہن میں آتاہے وہ یہ ہے کہ عذاب او رسزائوں میں گرفتار ہونے والے افراد دوطرح کے ہیں ،ظالم اور مظلوم ،مومن او رکافر توآخر سبھی لوگ کیو ںعذاب میں گرفتار ہو کر ہلا ک ہوگئے ۔؟

جو اب : اسلا م کی رو سے مظلو مین یا مومنین کی مشکلا ت او رمصیبتیں نہی عن المنکر کو ترک کرنے او ر گمراہی وظالمین کامقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے ہے( اِتقُوا فِتنةً لاتُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنکُم خَاصةً ) ایسے فتنہ سے بچو جس کے اثرات صرف ظالموں تک ہی نہیں بلکہ سبھی کو گھیرلیتے ہیں۔( ۱ )

قال رسول اللّه صلیٰ اللّه علیه وآله وسلم : لتامرنَّ بالمعروف ولتنهنَّ عن المنکر أو لیعمنکم عذاب اللّه ( ۲ ) امر بمعروف اور نہی عن المنکر ضرور انجام دو ورنہ خدا کا عمومی عذاب تم کو بھی گھیرلے گا ۔

دوسراسوال یہ ہے : کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ گنہگار وں او رظالموں کی دنیاوی زندگی بہت اچھی ہے او ر انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں، جبکہ ان کے مقابل نیک اور مومن لوگو ں کو پریشان حال دیکھتے ہیں آخر ایسا کیوں ؟۔

جو اب:آیات و روایات کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ظالموںاور گنہگاروں کو مہلت اور نعمتیں ان کے عذاب کی شدت کا باعث ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انفال آیة ۲۰

(۲)وسائل الشیعہ جلد ۱۱،ص۴۰۷

۹۳

( وَلَا یَحسَبَنَّ الَّذینَ کَفَروا أَنَّما نُملیِ لَهم خَیرُ لأنفُسِهِم اِنَّما نُملیِ لَهُم لِیَزدادوا ثماً وَ لَهُم عَذابُ مُهِینُ ) ( ۱ )

کفار ہر گز اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ اگر ہم نے ان کو مہلت دے دی تو اس میں ان کی بھلا ئی ہے ،ہم نے ان کو اس لئے مہلت دی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گنا ہ کریں ، سخت عذاب ا ن کے انتظار میں ہے ۔

حضرت علی ںنے فرمایا :''یابن آدم اِذا رأیتَ ربکَ سبحانه یُتابع علیک نعمة وأَنت تعصیه فاحذره'' فرزند آدم جب تم یہ محسوس کرنا کہ خدا نا فرمانی کے باوجود تم پر نعمتوں کی بارش کر رہا ہے تو اس سے ہوشیار رہنا( ۲ )

امام صادق فرماتے ہیں :

اِذا أَراد اللّه بعبد خیراً فأذنب ذنباً تبعه بنقمة فیذکره الاستغفار واذا أراد اللّه بعبدٍ شراً فاذنب ذنبا تبعه بنعمة لینسیه الاستغفار ویتمادی به وهو قول اللّه عزَّوجلَّ ( سنستدرجهم من حیث لا یعلمون ) بالنعم عند المعاصی'' ( ۳ ) جب خدا کسی بندہ کی بھلا ئی اور خوش نصیبی چاہتا ہے تو اس کے گناہ کرنے پر کسی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے او راسے استغفار کی طرف متوجہ کر تا ہے ،اور جب (نا فرمانی او رسر کشی کی وجہ سے ) کسی بندہ کی

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیة ۱۷۸

(۲)شرح ابن الحدید ، ج،۱۹ ص ۲۷۵ ۔

(۳) اصول کا فی ج، ۲،باب استدراج ، حدیث ۔۱

۹۴

تباہی وبربادی چاہتا ہے تو اس کے گناہ پر ایسی نعمت دیتا ہے جس سے استغفار کو بھول جائے اور اپنی عادت پر باقی رہ جائے ۔

اور یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں خد اکا ارشاد ہے ، ہم انہیں آہستہ آہستہ ایسے راستوں سے عذاب کی طرف لے جا تے ہیں کہ ان کو خبر تک نہیںہو پا تی اور وہ یہ کہ نافرمانی کے موقع پر ہم انہیں نعمت عطا کر دیتے ہیں ۔

سوالات

۱۔ ناپسندواقعات کااجمالی جواب تحریر کریں ؟

۲۔ اپنی کمائی ہو ئی مصیبتوں سے مراد کیاہے ؟

۳۔ مومنین ومظلومین مشکلا ت سے کیوں دوچار ہیں حدیث رسول بیا ن کریں ؟

۴۔ عذابِ تدریجی کی تعریف کریں ؟

۹۵

تیرہواں سبق

مصائب وبلیات کا فلسفہ (حصہ دوم )

مومنین کے لئے بلا ء ومصیبت ا ن کے علو درجات کے لئے ہے او ر کبھی ان کی یاد دہانی اور بیداری کے لئے بعض وقت ان کے گناہو ں کا کفارہ ہیں اور یہ سب کی سب چیزیں خدا کی طرف سے مومنین پر لطف ہیں ۔

امام صادق فرماتے ہیں:''اِنَّ عَظیم الأجرِ لمَع عظیم البلا ء وما أحب اللّٰه قوماً الا ابتلاهم' ' اجرت کی زیادتی بلا ئوں کی کثرت پر ہے اور خدا جس قوم کو دوست رکھتا ہے اس کو بلا ئو ں میں مبتلا ء کرتا ہے۔( ۱ )

امام باقرں فرماتے ہیں:''لو یعلم المؤمن ماله فی المصائب من الاجر لتمنی أَنَّه یُقرض بالمقاریض'' اگر مومن کو اس بات کاعلم ہو جائے کہ آنے والی مصیبت کااجر کتنا ہے تو وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ اس کو قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔( ۲ )

امام علی ں فرماتے ہیں:''مَن قَصَّر فی العمل ابتلیٰ بالهم ولا

____________________

(۱) بحار جلد ۶۷ ،ص۲۰۷

(۲) بحار جلد ۸۱ ،ص ۱۹۲ ۔

۹۶

حاجة للّٰہ فِیمَن لیس للّہ فی نفسہ وما لہ نصیب'' جس نے اعمال میں کمی کی وہ مشکلا ت کا شکار ہو ا اور جس کے جان ومال میں کسی قسم کا نقصان نہ پایا جائے تو وہ لطف خدا کا مستحق نہیں ہے۔( ۱ )

امام صادق نے فرمایا:ساعات الأَوجاعُ یُذهبنّ بساعات الخطایا ( ۲) مصیبت کی گھڑیا ں خطا کے لمحات کو مٹادیتی ہیں۔ (بیماری گناہوں کا کفارہ ہے ) ۔دوسری جگہ امام صادق فرماتے ہیں :لا تزال الغموم والهموم بالمؤمن حتی لاتدع له ذنباًً ( ۳ ) مومن ہمیشہ مصیبت وبلا ء میں اس لئے گرفتار رہتا ہے تاکہ اس کے گنا ہ باقی نہ رہ جائیں ۔

امام رضا ںنے فرمایا :المرضُ للمؤمن تطهیرو رحمة و للکافر تعذیب ولعنة وأَن المرضَ لا یزال بالمؤمن حتیٰ لا یکون علیه ذنب ( ۴ ) مومن کی بیماری اس کی پاکیزگی او ررحمت کا سبب ہے او رکا فر کے لئے عذاب و لعنت کا سامان ہے ،مومن ہمیشہ بیماری میں مبتلارہتا ہے تاکہ اس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں ۔

امام باقر ںفرماتے ہیں :''أِنَّما یُبتلیٰ المؤمن فی الدنیا علیٰ قدر دینه او قال علی حسب دینه' ' مومن دنیا میں مراتب دین کے تحت مصیبت میں مبتلاہو تا ہے۔( ۵ )

____________________

(۱) بحار الانوار ج،۸۱ ص ،۱۹۱۔(۳)بحار الانوار جلد۶۷باب ابتلاء لمومن

(۲)بحار الانوار جلد،۸۱ص،۱۹۱(۴)بحار الانوار جلد۸۱، ص،۱۸۳(۵) بحار الانوار ج،۸۱ ص ،۱۹۶۔

۹۷

دوسری حدیث میں امام صادق نے فرمایا :مومن کے لئے چالیس شب نہیں گذرتی کہ اس کے اوپر کو ئی بڑی مصیبت آپڑتی ہے تاکہ وہ ہو شیار ہوجائے ۔( ۱ )

قرآن مجید میں کم وبیش، بیس مقامات پر امتحان الٰہی کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے ۔یہ امتحان خدانے ہم سے آگا ہی کے لئے نہیں لیا ہے کیونکہ وہ ابتداء ہی سے ہم سے با خبر ہے بلکہ اس امتحان میں تربیت کاایک پہلو ہے۔ الٰہی امتحانات روح اورجسم کے لئے تکامل کاذریعہ ہیں او ردوسری طرف امتحان کے بعد جزاوسزا کا استحقاق ہے( وَلَنَبلُونَّکُم بِشَیئٍ مِن الخَوفِ والجُوعِ وَنَقصٍ مِن الأموالِ وَ الأنفُسِ والثَّمراتِ و بَشّر الصَّابِرینَ ) ( ۲ ) او رہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف، تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس او رثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر! آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ۔( وَنَبلُونَّکُم بالشَّرِّ والخَیرِ فَتنة واِلینا تُرجعَونَ ) ( ۳ ) اور ہم تو اچھائی او ربرائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے اور تم سب پلٹا کر ہماری بارگاہ میں لائے جائوگے ۔

مولائے کائنا ت نے فرمایا :...ولکنّ اللّهَ یختبر عباده بأنواع الشدائد ویتعبدهم بأنواع المجاهد و یبتلیهم بضروب المکاره ( ۴ )

خدا وند تعالی اپنے بندوں کو مختلف سختیوں کے ذریعہ آزماتاہے او ربندے کو مختلف مشکلوں میں عبادت کی دعوت دیتا ہے اور متعدد پریشانیوں میں مبتلا کر تا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوار جلد۶۷باب ابتلاء لمومن

(۲) سورہ بقرہ آیة ۱۵۵

(۳) سورہ انبیاء آیة ۳۵(۴)نہج البلا غہ خطبہ ۱۹۲

۹۸

فلسفہ مصائب کا خلا صہ اور نتیجہ

بہتیرے اعتراضات، عدل الٰہی کے سلسلہ میں جہالت او ربلا ء و مصیبت کے فلسفہ کو درک نہ کرنے کے باعث ہو ئے ہیں مثلایہ خیال کریں کہ موت فنا ہے اور اعتراض کر بیٹھیں کہ فلاں شخص کیو ں جوانی کے عالم میں مر گیا اور اپنی زندگی کا لطف نہ اٹھا سکا ؟ ہم یہ سوچتے ہیں کہ دنیا ابدی پناہ گاہ ہے لہٰذا یہ سوال کرتے ہیں کہ سیلا ب اور زلزلے کیو ں بہت سارے لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ہے ؟ ہماری فکر کے اعتبار سے یہ دنیا آرامگاہ ہے تو پوچھتے ہیں کہ بعض لوگ بے سروسامان کیوں ہیں ؟۔

(یہ سارے سوالات ) ان لوگو ں کی مانند ہیں جو دوران درس اعتراضات کی جھڑ لگادیتے ہیں کہ چائے کیاہوئی ،کھا نا کیوں نہیں لاتے ،ہما را بستر یہاں کیوں نہیں ہے ؟ان سارے سوالوں کے جواب میں صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ درس گا ہ ہے مسافر خانہ نہیں ۔در حقیقت گزشتہ سارے اعتراضات کابہترین راہ حل اس دنیا کو پہچاننا اور موجودات عالم کے مقصد خلقت کو درک کرنا ہے ۔

سوالات

۱۔مومنین دنیا میں مصائب وآلا م کے شکا رکیو ں رہتے ہیں ؟

۲۔ خدا اپنے بندو ں کا امتحان کیو ں لیتا ہے ؟

۳۔ فلسفہ ٔمصائب کا خلا صہ او رنتیجہ بیان کریں ؟

۹۹

چودہواں سبق

اختیار او ر میا نہ روی

شیعہ حضرات ائمہ معصومین کی اتباع کی بناپر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مشیت الٰہی کے باوجود انسان اپنے کام میں صاحب اختیار ہے ۔

کسی کا م میں اختیا ر ،ارادہ ،انتخاب ان سب کا ہو ناایک ناقابل انکا ر شیٔ ہے اس کے باوجود بعض لوگوںنے اپنے ضمیر اور فطرت کی مخالفت کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکا ر کر دیا ۔بعض افراد اس کے مقابل میں تفویض کے قائل ہو گئے ۔

آخرکار: اس بحث میں تین نظریہ قائم ہو ئے ہیں ۔

۱ ۔ جبر و بے اختیار: ا س نظریہ کے قائل افراد کہتے ہیں کہ انسان اپنے کاموںمیں ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتا ۔ او رانسان کسی ماہر فن کے ہاتھ میں بے شعور اوزار کی طرح ہے ،اور جوکچھ بھی معرض وجو د میں آتا ہے وہ مشیت خد اہے ۔

۲۔ تفویض یا آزادی:اس نظریہ کے معتقد افراد کاکہنا ہے کہ خد انے انسانوں کو خلق کر کے اور دل و دماغ کی قوت بخش کے انہیں ان کے کاموں میں مکمل اختیار دے دیا ہے لہٰذا ان کے افعال وکردار میں خد ا کا کو ئی دخل نہیں او رقضا و قدر کابھی کو ئی اثر نہیں ہے ۔

۳۔اختیار یا میانہ روی ۔ نہ جبر نہ تفویض بلکہ اختیارا ور امر بین الامرین (میانہ روی)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

''وأمّا الحوادث الواقعة فارجعوا فیها اِلیٰ رواة أحَادیثنا فأِنّهُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّهِ علیهم''اگر کو ئی مسئلہ درپیش ہوتو ہما رے راویان حدیث کی طرف رجو ع کریں کیونکہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں اور ہم اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں۔( ۱ ) مرحوم شیخ طوسی نے بھی کتاب ''الغیبة'' میں اس حدیث کونقل کیا ہے فقط''اَنَا حُجّةُ اللّهِ علیهم''کی جگه'' اناحجة الله علیکم''کالفظ استعمال کیاہے کہ (میں تم پر حجت خداہوں )اس حدیث سے اس طرح استدلال کیاجائیگاکہ اس حدیث میں امام زمانہ نے دوجملوں''فأِنّهُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّهِ'' اس طرح بیان فرمایا جو بالکل روشن ہے راویا ن حدیث جویہی فقہاء ہیں ان کا حکم امام کے حکم کے مانند ہے یعنی فقہاء لوگوں کے درمیان امام کے نائب ہیں ۔

۲۔وہ حدیث جو امام صادق سے نقل ہوئی ہے اور مقبولہ محمد بن حنظلہ کے نام سے مشہور ہے ''مَنْ کا ن منکم قَد رویَ حدیثنا ونظر فیِ حلالنا وحرامنا وعرف أحکامنا فلیرضوا به حکماً فاِنِّی قد جعلته علیکم

____________________

(۱)اکمال الدین صدوق ج،۲ص ۴۸۳

۲۰۱

حاکماً فاِذا حَکم بحکمنا فلم یقبله منه فانما استخف بحکم اللّه وعلینا ردّ والرّاد علینا کالرّاد علیٰ اللّه وهو علیٰ حدّ الشِّرک باللِّه'' ( ۱ )

تم میں جو بھی ہماری حدیثیں بیان کرے اور جو ہمارے حلال وحرام میں صاحب نظر ہو اور ہمارے احکام کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اس کی حاکمیت سے راضی ہو کیونکہ ہم نے ان کو تم سب پر حاکم قرار دیاہے اگر انھو ں نے ہمارے حکم کے مطابق حکم کیا اور قبول نہیں کیا گیا تو حکم خدا کو ہلکا سمجھنا ہے اور ہمارے قول کی تردید ہے اور ہماری تردید حکم خدا کی تردید ہے اور یہ شرک کے برابر ہے ۔آج کی اصطلاح میں فقیہ اس شخص کو کہتے ہیں جوحدیث کی روشنی میں حلال وحرام کو درک کرسکے ۔اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب امام معصوم کی موجود گی میں امام تک پہنچنا ممکن نہ ہو اور امام معصوم کی حکومت نہ ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کاکام فقیہ جامع الشرائط کی طرف رجوع کرناہے اس زمانہ غیبت امام میں جبکہ کوئی امام موجود نہیں ہے تولوگو ں کی یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ فقیہ جامع الشرا ئط کی طرف رجو ع کریں ۔

۳۔شیخ صدوق امیر المومنین ںسے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:''اللَّهمَّ ارحم خُلفائِ الّذین یأ تون مِن بعدیِ یرون حدیثیِ وسنتیِ'' ( ۲ ) خدا یا!ہمارے خلفاء پر رحم فرما آپ سے پوچھا گیا آپ کے جانشین کون ہیں ؟تو آپ نے فرمایا جو ہمارے بعد آئیں گے اورہماری سنت واحادیث کو نقل کریں گے ۔اس حدیث سے ولا یت فقیہ کے اثبات میں دو نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے ۔

____________________

(۱) اصول کافی ج۱، ص ۶۷(۲) من لا یحضر ہ الفقیہ ج،۴ص ۴۲۰ وسائل الشیعہ ج ،۱۸ ص ۶۵

۲۰۲

الف ) رسول اسلام تین چیزوں کے لئے مبعوث کئے گئے تھے۔

۱۔ آیات الٰہی کی تبلیغ احکام شرعی کی تو ضیح وتفسیر اور لوگو ں کی ہدایت کے لئے۔

۲۔ اختلافات اور تنازع کے وقت قضاوت کے لئے۔

۳۔ حکومت اسلامی کی تشکیل اور اس کی حسن تدبیر یعنی ولایت کے لئے۔

ب) جو رسول کے بعد آئیں گے اور ان کی سنت واحادیث کو بیان کریں گے ان سے مراد فقہاء ہیں ۔راویان ومحدثین مراد نہیں ہیں کیونکہ راویان حدیث فقط حدیث نقل کرتے ہیںاور ان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ یہ حدیث یاسنت خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے بھی یانہیں ؟کو ن سی حدیث میں تعارض (ٹکرائو) ہے اور کون سی مخصصّ ہے ان تمام چیزوں کو وہی جانتا ہے جو مقام اجتہاد اور درجہ فقہاہت تک پہنچ چکا ہوتا ہے ان دو نکتوں کی جانب توجہ کرنے کے بعد اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فقہا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہیں اور وہ تمام چیزیں جوپیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تھیں (جیسے تبلیغ دین ، فیصلہ، حکومت وولایت ) ان کے لئے بھی ہیں ۔

۲۰۳

ولی فقیہ کے شرائط

۱۔اجتہاد وفقاہت: دینی واسلامی حکومت میں سماج ومعاشرہ کی زمامداری اسلامی قوانین کی بنا ء پر ہو تی ہے لہٰذا جو شخص اس منزل و مقام پر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی قانون کو اچھی طرح جا نتا ہو تاکہ معاشرہ کی رہبری کے وقت اس کے قانو ن کی مخالفت نہ ہو ۔ اور ان قوانین کا علم اجتہاد ی منزل میں ہو نا چاہئے ۔

۲۔ عدالت وتقوی :اگر عالم وفقیہ عدالت وتقوی سے دور ہوگا تواقتدار ومسند نشینی اس کو تباہ کردے گی بلکہ اس بات کا امکا ن ہے کہ ذاتی یاخاندانی منفعت کوسماجی وملی منفعت پر مقدّم کردے۔ولی فقیہ کے لئے پرہیزگا ری،امانتداری،اور عدالت شرط ہے تاکہ لوگ اعتما د اوراطمینا ن کے ساتھ مسند ولایت اس کے حوالے کردیں ۔

۳۔سماجی مصلحت کی شناخت اور اس کی درجہ بندی : یعنی مدیر ومدبر ہو ۔قال علی :''أَیُّها النّاس أِنَّ أحقّ النَّاس بهذا الأمر أقواهم علیه وأعلمهم بأمرِ اللّه فیه'' ( ۱ ) اے لوگو ! حکومت کامستحق وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ شجاع ہو اور احکا م الٰہیہ کا تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔( ۲ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۳(۲) ولایت فقیہ کی بحث کو مصباح یزدی ہادوی تہرانی ، کی بحثوں سے اقتباس کیا ہے۔

۲۰۴

سوالات

۱۔ ولایت عربی لغت میں کن معنوں میں مستعمل ہواہے اور ولایت فقیہ سے مرادکون ہیں؟

۲۔ ولایت فقیہ کے لئے عقلی دلیل بیان کریں ؟

۳۔ امام زمانہ کی توقیع مقدس جو فقہاء کے طرف رجو ع کے سلسلہ میں ہے بیان کریں ؟

۴۔ مقبولہ عمر وبن حنظلہ سے کس طرح استدلا ل کیاجا ئے گا ؟

۵۔ حدیث ''اللّھم اِرحم خلفائی'' میں ولی فقیہ کا امتیاز کیاہے ؟

۶۔ولی فقیہ کے شرائط کیا ہیں ؟

۲۰۵

تیسواں سبق

معاد

توحید کے بعد اعتقادی امور میں قیامت سے اہم کوئی مسئلہ نہیں ہے، قرآن میں تقریبا بارہ سو آیتیں صرف معاد کے لئے ہیں ،اس طرح تقریبا ہر صفحہ پر معاد کاتذکرہ ہے اور تیس مقامات پر خداپر ایمان کے بعد اس دوسری دنیا پر ایمان کا تذکرہ ہے جیسے''و یؤمنون باللّہ والیوم الاخر'' خدا اوراس کی حکمت وعدالت اور قدرت پر ایمان ،معاد کے ایمان کے بغیر ناممکن ہے ۔

اعتقاد معاد کے آثار

۱۔معاد پر ایمان واعتقاد انسانی زندگی کوایک مفہوم عطاکرتاہے اوراس دنیا کی کھوکھلی زندگی سے رہائی دلاتا ہے ۔۲۔ معاد کا عقیدہ انسان کوکمال کے راستے پر گامزن کرتاہے اوراسے ادھر ادھر حیران وسرگردان ہو نے سے بچاتا ہے۔ ۳۔ معاد پر ایمان تمام احکام الٰہی کے اجراء کی ضمانت ،حقدار کو ان کا حق ملنے کا سبب اور انسان کو مشکلات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔۴۔معاد پر ایمان کا اصلی مقصد پاکیزگی نفس ،احکام شرعی پرعمل پیرا ہونا اورایثار وقربانی ہے ۔۵۔ معاد کا عقیدہ دنیاداری کے اس جڑکو اکھاڑ پھینکتاہے جس پر خطا ومظالم کی بنیاد ہے اوریہ فعل خود تمام گناہو ں سے دوری کا سبب ہے ۔

۲۰۶

خلاصہ کلام یہ کہ معاد پر ایمان کے نتیجہ میں انسان کے اعمال میں بہت زیادہ فرق آجا تا ہے او راس کا گہرا اثر پڑتا ہے، کیونکہ انسان کے اعمال کی بازگشت اس کے اعتقادکی طرف ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ہر انسان کے کردار اوراعتقاد کارابطہ دوسری دنیا سے براہ راست ہوتاہے جوبھی معاد پر اعتقاد رکھتا ہے اپنی اوراپنے اعمال کی اصلاح میں حد سے زیادہ سخت اور حساس ہوتاہے وہ جب بھی کوئی کام کرتاہے اس کا قطعی نتیجہ اپنی آنکھو سے دیکھ لیتاہے اسی لئے وہ ہمیشہ اپنے اعمال پر نظر رکھتاہے ان لوگو ں کے بہ نسبت جو مرنے کے بعد والی زندگی کی طرف توجہ نہیںکرتے، انکی دنیاوی زندگی عبث ،بیکا راور تکراری ہے اگر دنیا کی زندگی کو آخرت پر ایمان رکھے بغیر دیکھیں توبالکل ویسے ہے جیسے وہ بچہ جو بطن مادر میں ہے اور اس کے لئے یہ دنیا نہ ہو تو وہ ایک تاریک قید خانہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

درحقیقت اگراس دنیا کا اختتام فقط فنا ونابودی ہے توکتناخوفناک اور بھیانک ہے یہاں تک آرام دہ زندگی بھی عبث اور بے فائدہ ہوجائے گی کچھ دن تک سادہ لوح اورناتجربہ کار پھر ہر طرح سے آمادہ کچھ دن غم وآلام کی زندگی پھر پیری وبڑھاپا اورموت ونابودی یہ سب کیامعنی رکھتا ہے تو پھر کس کے لئے زندہ ہیں ؟صرف کھانے لباس زحمات کامقابلہ کرنے کے لئے ؟

۲۰۷

اس تکراری زندگی کو دسیوں سال کھینچنے سے کیا فائدہ؟ کیاواقعاً اتنا وسیع آسمان اور یہ زمین اور یہ حصول علم کی زحمت اور تجربات یہ اساتید اور مربی یہ سب فقط چند دن کی زندگی کے لئے تھے پھر ہمیشہ کے لئے فناونابودی ہے اس جگہ قیامت پر ایمان نہ رکھنے والو ں کے لئے زندگی کاعبث وبیکار ہو ناقطعی ہوجاتاہے لیکن جو لوگ معاد پر اعتقاد رکھتے ہیں دنیاکو آخرت کی کھیتی سمجھتے ہیں اس کسا ن کی مانند ہے جوفصل اس لئے اگا تاہے کہ اس سے ایک مدت تک بلکہ ہمیشہ اپنی زندگی بسر کرئے گا ۔زندگی ایک پل اور صراط مستقیم کی مانند ہے جس پر چل کرانسان ایک مقصد تک پہنچتاہے جیساکہ قرآن نے فرمایا :( وَفیهَا مَا تَشتَهِیهِ الأنفُسُ وَتَلذُّ الأعیُنُ ) ( ۱ ) وہاں ان کے لئے وہ تمام چیزیں ہوںگی جس کی دل میں خواہش ہو اور جو آنکھوں کوبھلی معلوم ہوتی ہو اورتم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو اس دنیا جیسی با عظمت( ''لاعینُ رأت ولا أذنُ سَمِعت'' نہ آج تک کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا او رنہ کسی کا ن نے سنا ہو گا ) مقام کوپانے کے لئے سختیاں آسان، کوششیں شیریں ہوجاتی ہیں مشکلا ت کو برداشت کرنا اور سختیوں کوتحمل کرنا بہت آسان لگتا ہے کیو نکہ اس کے نتیجہ میں ہمیشہ رہنے والا آرام وآسائش ہے قیامت پر ایمان رکھنے کا پہلا فائدہ بامقصد ہونا ہے کیونکہ قیامت پر اعتقاد رکھنے والوں کی نظر میں موت فناونابودی کانام نہیں بلکہ ایک ابدی زندگی کے لئے ایک روشن دان کی مانند ہے۔

____________________

(۱)سورہ زخرف آیة: ۷۱

۲۰۸

قیامت پر ایمان رکھنے کا فائدہ قرآن کی نظرمیں

قیامت پر ایمان انسان کی تربیت کا اہم سبب ،اچھے کام انجام دینے اورمعاشرہ کی خدمت کرنے کامحرّک نیز گناہو ں سے روکنے کاایک مضبوط ذریعہ ہے قرآن میں اہم تربیتی مسئلہ کو اسی راستہ سے پیش کیاگیا ہے جیساکہ بعض آیات میں ہے کہ نہ تنہا قیامت پرایمان اور اعتقاد بلکہ ظن واحتمال بھی مثبت آثار کا باعث ہے ۔

۱۔( ألا یَظُنُّ أُولئِک أَنَّهُم مَبعُوثُونَ لِیوم ٍعَظیمٍ یَومَ یَقُومُ النَّاسُ لرِبِّ العَالَمینَ ) ( ۱ ) کیا انہیں یہ خیال نہیں کہ یہ ایک روز دوبارہ اٹھائے جا نے والے ہیں بڑے سخت دن کہ جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوںگے ۔

۲ ۔دوسری آیت میں اشارہ ہو ا ہے کہ صرف اس دوسری دنیا کی امید وتوقع ہی گناہو ں سے روکنے اورعمل صالح کرنے کے لئے کافی ہے( فَمَنْ کَانَ یَرجوا لِقَائَ رَبّهِ فَلیَعمَلْ عَمَلاً صَالحاً وَلا یُشرِک بِعبادَةِ رَبِّه أَحداً ) ''لہٰذا جو بھی اس کی ملا قات کاامید وار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پرور دگار کی عبا دت میں شریک نہ بنا ئے''۔( ۲ )

۳۔ قرآن کا صریحی اعلان ہے کہ انسان کے افعال وکردار ابدیت کا لبا س پہن لیتے ہیں اورقیامت میں اس سے الگ نہیں ہو ں گے( یَومَ تَجدُ کُلَّ نَفَسٍ )

____________________

(۱)سو رہ مطففین آیة:۴تا۶

(۲) سورہ کھف آخری آیت

۲۰۹

( مَا عَمِلت مِنْ خَیرٍ مُحضَراً وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوئٍ تَودُّ لوأَنَّ بَینَها وَبَینَهُ أَمَداً بَعیدا ) ( ۱ ) ''اس دن کو یاد کرو جب انسان اپنے اعمال نیک کو بھی حاضر پائے گا اور اعمال بد کو بھی جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے او ران برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہوجاتا'' ۔

۴۔قیامت کا معتقد کسی اچھے یابرے کام کو چھو ٹا نہیں سمجھتا ہے کیو نکہ قرآن کے مطابق چھوٹی چیز کابھی حساب ہوگا( فَمَنْ یَعمَلْ مِثقَالَ ذَرةٍ خَیراً یَرَهُ وَمَنْ یَعمَل مِثقالَ ذَرةٍ شَراً یَرَهُ ) ( ۲ ) پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ بھی اسے دیکھے گا ۔

ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اورکہنے لگا یا رسول اللہ! ہمیں قرآن کی تعلیم دیں پیغمبر نے ایک صحابی کے حوالے کردیا تاکہ وہ اس کو قرآن کی تعلیم دے وہ مسجد کے کونے میں بیٹھ کراسی دن قرآن سیکھنے لگا ،معلم نے سورہ زلزال پڑھانا شروع کیا جب اس آیت پر پہنچا تو اس آدمی نے رک کر تھوڑا سونچا اورپوچھتا ہے کیایہ وحی ہے؟ معلم نے کہا ہاں؛ اس نے کہا بس کیجئے ہم نے اس آیت سے سبق سیکھ لیا جب ہمارے ہر چھوٹے بڑے اچھے برے اعمال کاحساب ہوگا تواب ہم کو اپنی ذمہ داریوں کا علم ہوگیا یہی جملہ ہماری زندگی کی کا یا پلٹنے کے لئے کافی ہے اس نے خدا حافظی کی اور چلا گیا۔ معلم،رسول کے پاس آیا ساراواقعہ بیان کیا ،حضرت نے فرمایا : ''رجع فقیھاً''گو کہ وہ چلا گیا مگر سب کچھ سمجھ کرگیا ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ آل عمران ۳۰

(۲) سورہ زلزال آخری آیة

۲۱۰

قیامت کامعتقد خدا کی راہ میں تمام سختیاں اورمشکلات برداشت کرتاہے اور اخروی زندگی کی خاطر اس دنیوی زندگی کو خیر باد کہہ دیتا ہے جیساکہ جادوگر وں نے جب موسی کے معجزہ کو دیکھا او رسمجھ گئے کہ یہ خدا کی جا نب سے ہے تو سب ان کی رسالت پرایمان لے آئے فرعون نے کہا ہم سب کے ہا تھ پیر کاٹ دیں گے اور سولی پرلٹکا دیں گے ان لوگوں نے جواب میں کہا( فَاقضِ مَاأنتَ قَاضٍ اِنَّما تَقضِ هَذِهِ الحَیاة الدُّنیا اِنَّا أَمنَّا بِرَبِّنَا لِیَغفرَ لَنَا خَطایَانَا وَمَا أکرَهتَنا عَلیهِ مِنَ السِّحرِ وَاللَّه خَیر وَأبقَیٰ ) ( ۱ ) ''اب تجھے جو فیصلہ کرناہے کرلے تو فقط زندگا نی دنیا ہی تک کا فیصلہ کرسکتاہے ہم اپنے پرور دگا ر پر ایما ن لے آئے ہیںکہ وہ ہماری خطائو ں کو معاف کردے اور اس جادو کو بخش دے جس پر تونے ہمیں مجبور کیاتھا اوراللہ سب سے بہتر اوروہی باقی رہنے والاہے ۔

____________________

(۱)سورہ طہ آیة :۷۲تا۷۳

۲۱۱

سوالات

۱۔ قیامت پر ایما ن رکھنے کے فوائد بیان کریں ؟

۲۔ جو قیامت کا معتقد نہیں ہے اس کی زندگی کیسی ہے ؟

۳۔ قیامت پرایمان رکھنے کافائدہ بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۲۱۲

اکتیسواں سبق

اثبات قیامت پر قرآنی دلیلیں

پہلی خلقت کی جانب یاد دہانی

( وَهوُ الّّذیِ یَبدؤُا الخَلَق ثُمَّ یُعیدُهُ وَهُوَ أَهوَنُ عَلِیه ) ( ۱ ) ''اور وہی وہ ہے جو خلقت کی ابتدا ء کرتاہے اور پھر دوبارہ بھی پیدا کرے گا اوریہ کام اس کے لئے بے حد آسان ہے''( کَما بدأَ کُم تَعُودُونَ ) ( ۲ ) اس نے جس طرح تمہاری ابتداء کی ہے اسی طرح تم پلٹ کر بھی جائو گے( وَیَقولُ الأِنسانُ ذا مَا مِتُّ لسَوفَ اخرج حیّاً أولا یَذکُر الأِنسانُ اِنّاخَلقَناهُ مِنْ قَبلُ وَلَمْ یَکُ شَیئاً ) ( ۳ ) اور یہ انسان کہتا ہے کہ کیا ہم جب مرجائیں گے تو دوبارہ زندہ کرکے نکالے جائیںگے کیاوہ اس بات کو یاد نہیں کرتا ہے کہ پہلے ہم نے اسے خلق کیاہے جب یہ کچھ نہیں تھا( فَسیقُولُونَ مَنْ یُعیدُنَا قُل الَّذِی فَطَرَکُم أَوّلَ مَرَةٍ ) ( ۴ ) عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ ہم کو کون دوبارہ واپس لاسکتاہے توکہہ دیجئے جس نے تمہیں پہلی بار پیداکیا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ روم، آیة:۲۷

(۲)سورہ اعراف ،آیة:۲۹

(۳) سورہ مریم آیة :۶۶۔۶۷

(۴) سورہ اسراء آیة:۵۱

۲۱۳

ایک صحرای عرب کو ایک انسان کی بوسیدہ ہڈی کاکوئی ٹکڑا ملا وہ اس کو لے کر دوڑتاہو ا شہر کی جانب آیا اور پیغمبر کو تلاش کرتا ہو ا حاضر خدمت ہوااور چیخ کرکہتا ہے کون اس پرانی ہڈی کودوبارہ زندہ کرے گا ؟۔

ارشاد ہو ا:( قُلْ یُحییهَاالَّذِی أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَة وَهُوَبِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) ''آپ کہہ دیجئے جس نے پہلے خلق کیاہے وہی زندہ بھی کرے گا اوروہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے'' ۔

مذکورہ اور ان جیسی آیات کے پیش نظر انسانوں کو تخلیق کی ابتداء کی طرف توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانو ں کو دوبارہ پلٹانا خداکے لئے بہت آسان ہے یعنی قادر المطلق خداکے لئے یہ ساری چیزیں بہت آسان ہے (تخلیق کی ابتدا ء اور دوبارہ قیامت میں واپس پلٹانا ایک ہی چیز ہے ۔

قیامت اورخداکی قدرت مطلقہ

خدا کی قدرت: خدا کی ایک صفت قادرمطلق ہونا ہے جوتوحید کے بحث میں گزر چکی ہے یہ وسیع آسمان یہ کہکشاں ،منظومہ کثیر اور عظیم کواکب ،مختلف النوع مخلوقات یہ سب کے سب اس کے قادر مطلق ہونے پر دلالت کرتے ہیں ان سب کومان لینے کے بعد سوال کا کوئی مقام نہیں رہتا کہ انسان کیسے دوبارہ زندہ ہوگا( أَوَلَمْ یَرَوا أَنَّ اللَّهَ الَّذِِ خَلَقَ السَّمواتِ وَالأَرضَ وَلَمْ یَعیِ بِخَلقهِنَّ )

____________________

(۱)سورہ یس آیة ۔۷۹

۲۱۴

( بِقَادرٍ علیٰ أَن یُحیالمَوتیٰ بَلیٰ اِنَّهُ علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیر ) ( ۱ ) ''کیا انھوں نے نہیں دیکھا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اوروہ ان کی تخلیق سے عاجز نہیں تھا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے کہ یقینا وہ ہر شی ٔ پر قدرت رکھنے والاہے ''( أَوَ لَیسَ الَّذِ خَلَقَ السَّمٰواتِ والأَرضَ بِقَادِرٍ علیٰ أَنْ یَخلُقَ مِثلَهُم بَلیٰ وَهُوَ الخَلَّاقُ العَلِیمُ ) ( ۲ ) ''تو کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا و ہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیداکر ے یقینا ہے ا ور وہ بہترین پیدا کرنے والااو رجاننے والا ہے ''۔( أَیَحسَبُ الِانسانُ أَنْ لَنْ نَجمَعَ عِظَاَمهُ بَلیٰ قَادرِینَ علیٰ أن نُسوِّ بَنَانهُ ) ( ۳ ) کیا انسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کوجمع نہیں کرسکیں گے یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کے انگلیوں کے پور تک درست کردیں۔( أَیَحسبُ الأِنسانُ أَنْ یُترَک سُدیً أَلَمْ یَک نُطفةً مِنْ مَنِیٍ یُمنیٰ ثُمَّ کَانَ عَلَقةً فَخَلقَ فَسویٰ فَجَعلَ مِنهُ الزَّوجَینِ الذَّکَرَ وَالأُنثیٰ أَلیسَ ذَلِکَ بِقَادرٍ عَلیٰ أَن یُحی المَوتَی ) ٰ)( ۴ ) ''کیا انسان کا خیال ہے کہ اسے اسطرح آزاد چھوڑ دیاجا ئے گا کیا وہ اس منی کاقطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتاہے پھر علقہ بنا پھر اس کو خلق کرکے برابر کیا پھر اس سے عورت اورمرد کوجوڑا تیار کیا ۔کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے'' ۔( قُل سِیرُوا فیِ الأَرضِ فَانُظُروا کَیفَ بَدأ )

____________________

(۱) احقاف آیہ: ۳۳

(۲) یس آیة: ۸۱

(۳) قیامت آیة :۳۔۴

(۴) قیامت آیة:۴۰۔۳۶

۲۱۵

( الخَلَقَ ثُمَّ اللَّهُ ینُشُ النَّشأَةَ الأَخرِةَ أِنَّ اللَّه عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیرُ ) ( ۱ )

''آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین پر سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیاہے اس کے بعد وہی آخرت میں دوبارہ ایجاد کرے گا بیشک وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والاہے'' ۔

مسئلۂ قیامت اوردلیل عدالت

قیامت اور خدا کی عدالت : خداکے حکم کے مقابلہ میں دوطرح کے لوگ ہیں کچھ اس کے مطیع اور فرمانبردار کچھ عاصی اور گنہگا ر ۔

اس طرح کچھ لوگ ظالم ہیں کچھ مظلوم ( جو سختی کی زندگی گذاررہے ہیں ) کچھ زندگی کی ہر آسائش وآرام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کچھ ایسے ہیں جو فقروفاقہ اور تنگ دستی کی زندگی گذاررہے ہیں ۔

لہٰذاخدا کی قدرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد قیامت اور حساب وکتاب ہو تاکہ ان مسائل کی مکمل تحقیق ہوسکے ۔( أمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجتَرحُوا السَّیئَاتِ أَنْ نَجعَلهُم کالَّذِینَ آمنُوا وَعَملوا الصَّالِحاتِ سَوَائً مَحیَاهُم وَمَمَاتُهُم سَائَ مَا یَحکُمُونَ وَخَلَقَ اللََهُ السَّمواتِ والأَرضَ بِالحقِّ وَلتُجزَیٰ کُّلُّ نَفسٍ بِما کَسَبت وَهُمْ لاَ یُظلَمُونَ ) ( ۲ ) '' کیا برائی اختیار کرنے والوں نے یہ سونچ لیا ہے کہ ہم ان کو ایمان لانے والوں اورنیک کام

____________________

(۱)سورہ عنکبوت آیة:۲۰

(۲)جاثیہ: ۲۱۔۲۲

۲۱۶

انجام دینے والوں کے برابر قرار دیں گے سب کی موت وحیات ایک جیسی ہو گی یہ ان لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے اور اللہ نے زمین وآسمان کوحق کے ساتھ پیداکیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بدلہ دیاجاسکے اوریہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا ''( أفَمَن کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَا نَ فَاسِقاً لَا یَستوُونَ ) ( ۱ ) '' کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجا ئے گا جوفاسق ہے ہر گز نہیں ،دونو ں برابر نہیں ہوسکتے''( أَفَنجَعلُ المُسلمِین کالمُجرِمِینَ مَالکُم کَیفَ تَحکُمُونَ ) ( ۲ ) ''کیا ہم اطاعت گزاروں کو مجرموں جیسا بنادیں تمہیں کیا ہوگیاہے تم کیسا فیصلہ کر رہے ہو'' ۔( اَم نَجعَلُ الَّذینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالحِاتِ کالمُفسِدِینَ فیِ الأَرضِ أَم نَجعَلُ المُتَّقِینَ کَالفُجَّار ) ( ۳ ) '' کیا ہم ایما ن لانے والے اورنیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد برپا کرنے والو ں جیسا قرار دیدیںگے یا صاحبان تقوی کوفاسق وفاجر جیسا قرار دیدیں گے''( ؟! ( اِلَیهِ مَرجِعُکُم جَمیعاً وَعدَ اللَّهِ حَقَّاً اِنَّهُ یَبدؤا الخَلَق ثُمَّ یُعیدُهُ لِیَجزِِ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالقسطِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُم شَرابُ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابُ ألِیمُ بِمَا کَانُوا یَکفُرُونَ ) ( ۴ ) اس کی طرف تم سب کی

____________________

(۱) سورہ سجدہ آیة:۱۸

(۲) قلم :۳۵،۳۶

(۳) سورہ ص: ۲۸

(۴) سورہ یونس آیة: ۴

۲۱۷

بازگشت ہے یہ خدا کا سچاوعدہ ہے وہی خلقت کا آغاز کرنے والا ہے اور واپس لے جانے والاہے تاکہ ایمان اورنیک اعمال کو عادلا نہ جزا دے سکے اورجو کافر ہو گئے ان کے لئے تو گرم پانی کامشروب ہے اور ان کے کفر کے بنا پر درد ناک عذاب

بھی ہے۔

سوالات

۱۔ پہلی خلقت قیامت پر کس طرح دلیل ہے ؟

۲۔خدا کی قدرت قیامت کے لئے کس طرح دلیل ہے ایک آیت پیش کریں ؟

۳۔ دلیل عدالت ،قیامت کو کس طرح ثابت کرتی ہے ؟

۲۱۸

بتیسواں سبق

معاد اور فلسفہء خلقت

قرآن کی تقریباًسو آیتوںمیں خدا کو لفظ حکیم سے یاد کیا گیا ہے ۔اور ہم اس کی حکمت کی نشانیوں کودنیابھر میں دیکھتے ہیں ۔اگر ہم فرض کریں کہ موت زندگی کے خاتمہ کانام ہے اورمرنے کے بعد قیامت نہیں ہے تو خلقت بیکار وعبث ہو جا ئے گی اور حکیم خداکبھی بھی بیکار کام انجام نہیں دیتا ،کیا کوئی سونچ سکتاہے کہ وہ تمام حکمتیں جوخدا نے دنیا کی خلقت کے لئے قرار دی ہیں و ہ سب عبث ہیں اور اس دنیا کا اختتام فنا ونا بودی ہے؟ کیایہ یقین کرنے کے قابل ہے کہ خدا اس دنیا کے دستر خوان کوبچھائے اور دنیا کی تما م ضروریا ت زندگی کو مہیا کرے اور اس کے بعد موت کی وجہ سے یہ ساری چیزیں ختم ہوجائیں اور یہ دنیا کابچھا ہو ا دستر خوان سمٹ جا ئے( رَبَّنَا مَاخَلقَتَ هذا بَاطِلاً ) ( ۱ ) خد ایا! تونے اس کا ئنات کو بیکا ر وعبث خلق نہیں کیا ہے ۔

لہٰذا حکیم وعلیم خدا پرایمان رکھنا موت کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھنے کے برابر ہے یعنی اگرکو ئی وحدانیت کاقائل ہے تو ضروری ہے کہ وہ قیامت پر بھی ایمان

____________________

(۱) آل عمران ۱۹۱

۲۱۹

رکھتا ہو اس سلسلہ میں بہت ساری آیتیں ہیں جن میں سے بعض کو بطور نمونہ پیش کررہے ہیں ۔

( أَفَحَسِبتُم اِنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثاً وَأَنَّکُم اِلَینا لَا تُرجعُونَ ) ''کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار خلق کیاہے اورتم ہماری طرف پلٹ کرنہیں آئوگے''۔( ۱ ) ( وَمَاخَلقَنا السَّمائَ وَالأرَضَ وَمَا بَینَهُمَا بَاطِلاً ذلِک ظَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیل لِلّذِینَ کَفَرُواْ مِنَ النّارِ ) ''میں نے آسمان وزمین اوراس کے درمیان کی چیزوںکو بیکا ر خلق نہیں کیاہے یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کا فر ہوگئے ہیں پس کافروں کے واسطے جہنم کی آگ ہے''۔( ۲ ) ( وَمَا خَلَقَنا السَّمَواتِ وَالأَرضَ وَمَا بَینَهُما اِلّا بِالَحقِّ واِنَّ السَّاعَة لآتِیَةُ فَاصفَح الصَّفَح الجَمِیلَ ) ''میں نے آسمان وزمین او ر اس کے درمیان کی چیزوں کو خلق نہیں کیا مگر حق پر اور قیا مت یقینی ہے''۔( ۳ ) ( أَیَحسَبُ الأَِنسانُ أَنْ یُترک سُدیً أَلَم یَکُ نُطفَةً مِنْ مَنٍِ یُمنیٰ ثُمَّ کَانَ عَلَقةً فَخَلقَ فَسوَّیٰ فَجَعلَ مِنهُ الزَّوجِین الذَّکَرَ وَالأُنثیٰ أَلَیسَ ذَلِک بِقادرٍ علیٰ أَن یُحیَی المَوتی ) ٰ)( ۴ ) '' کیاانسان کاخیال ہے کہ اسے اس طرح آزاد چھو ڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ اس منی کا قطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتاہے ۔پھر علقہ بناپھر اس کو خلق کر کے برابر کیاپھر اس سے عورت اور مرد کاجوڑا تیار کیا ۔کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے۔؟

____________________

(۱) مومنون آیة: ۱۵ ۱

(۲) سورہ ص آیة: ۲۷

(۳) سو رہ حجر آیة: ۸۵

(۴) سورہ قیامت آیة: ۳۶۔۴۰

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303