اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )18%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155141 / ڈاؤنلوڈ: 4154
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

چاہے ہاتھ آسمان کی جانب رکھیں یا زمین کی طرف اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،آپ نے فرمایا : یہ موضوع اس کے علم اور احاطہ قدرت میں برابر ہے لیکن خدانے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ دعا کرتے وقت ہاتھوں کو آسمان کی جانب عرش کی طرف بلند کریں کیونکہ معد ن رزق وہاں ہے ۔جو کچھ قرآن اور فرمان رسول ہے ہم اس کو پہچاتے ہیں ، اس کے بعد فرمایا : اپنے ہاتھوں کو خدا کی طرف بلند کرو اوریہ وہ موضوع ہے جس پر تمام امتوں کا اتفاق ہے ۔( ۱ )

حضرت امیر المومنین ںنے فرمایا : کہ تم میں سے کوئی بھی جب نماز تمام کرے تو دعا کے لئے ہاتھوں کوآسمان کی جانب بلند کرے پھر دعا کرے ،ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا خدا ہر جگہ نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہا ں ہے ۔ اس نے کہاپھر ہاتھو ں کو آسمان کی طرف کیوں اٹھاتے ہیں ،آپ نے فرمایا :تم نے (قرآن مجیدمیں ) نہیں پڑھا آسمان میں تمہاری روزی ہے اورجو کچھ تم سے وعدہ کیاگیا ہے۔ انسان محل رزق کے علاوہ کہا ںسے رزق طلب کرے گا محل رزق اور وعدہ الٰہی آسمان ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) پیام قرآن از بحارالانوار ج۳،ص ۳۳۰

(۲) پیام قرآن نقل از بحارالانوار ج ۹۰،ص ۳۰۸

۸۱

سوالات

۱۔ صفات سلبیہ سے مراد کیاہے ؟

۲ ۔ خدا کو دیکھنا کیوں ناممکن ہے ؟

۳ ۔ یہو دی دانشمند جس نے سوال کیا تھا کہ خدا کہا ںہے حضرت امیر نے اس کو کیا جواب دیا ؟

۴۔ دعا کے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیو ں اٹھا تے ہیں ؟

۸۲

گیارہواں سبق

عدل الٰہی

اصول دین کی دوسری قسم عدل سے متعلق ہے ،عدل ،خداکے صفات جمالیہ میں سے ایک ہے عدالت الٰہی ایک طرف تو ایمان بہ خدا سے مربوط ہے تو دوسری طرف معاد سے، ایک طرف مسئلہ نبوت وامامت سے تودوسری طرف سے فلسفہ ٔاحکام سے کبھی ثواب و عقاب تو کبھی جبر و تفویض سے اسی بناپر اصل عدالت کا اقرار یا انکا ر ممکن ہے کہ تمام اعتقاد اور معرفت کے چہرے کو بدل دے اس کے علا وہ اجتماعی ، اخلاقی اور تربیتی مسائل میں بھی عدل الٰہی سے انکا ر نہیںکیا جاسکتاانہیں خصوصیات کی وجہ سے عدل الٰہی کو اصول دین میں شمار کیا گیاہے ۔

مولا ئے کا ئنا ت نے ایک مختصر اورمفید عبارت کے ذریعہ توحید اور عدل کو ایک جگہ رکھ کر فرمایا :''التوحید ان لا تتوھمہ والعدل ان لا تتھمہ'' توحید وہ ہے جوتمہاری واہمہ سے دور ہے (کیو نکہ جو واہمہ میں سماجائے وہ محدود ہے)اور عدل اس چیز کا نام ہے جسے تم متہم نہ کرو ( برے کام جو تم انجام دے رہے ہو اسے خدا کی طرف نسبت نہ دو )( ۱ )

____________________

(۱) کلمات قصار نہج البلا غہ حکمت ۴۷۰

۸۳

عدل الٰہی پر عقلی دلیل

ظلم قبیح (ناپسند) ہے او رصاحب حکمت خدا کبھی قبیح فعل انجام نہیںدیتا کیونکہ ظلم کے کچھ اسباب ہیں اور خدا ان چیزوں سے منزہ ہے ۔

ظلم کے اسباب اور اس کی بنیاد

۱۔ضرورت :وہ شخص ظلم کرتاہے جوکسی مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے اور وہ مقصد صرف ظلم ہی کے راستے سے ممکن ہے ۔

۲ ۔ جہالت اور نادانی: وہ شخص ظلم کرتا ہے جو ظلم کی برائیوں اور اس کی قباحت سے واقف نہیںہوتا ۔

۳۔اخلاقی برائی :وہ شخص ظلم کرتاہے جس کے اندر کینہ ،عداوت ،حسد خواہشات پرستی ہے۔

۴۔ عجز و ناتوانی : وہ شخص ظلم کرتا ہے جو خطرہ اور نقصان کو اپنے سے دور کرنے سے عاجز ہو اور اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے ظلم کے علاوہ کو ئی راستہ نہ پاتا ہو ۔

اس دنیا میں جو بھی ظلم ہو تا ہے انہیں میں سے کسی ایک کی بنا پر ہوتاہے اگر یہ اسباب نہ پائے جا ئیں تو کہیں بھی کو ئی ظلم نہ ہو او رمذکورہ اسباب میں سے کو ئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ خدا وند عالم :

الف ): غنی ہے او رکسی کا محتاج نہیں ہے ۔

ب): اس کا علم لا محدودہے اور کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے۔

ج): تمام اچھے صفات کا مالک ہے اور تمام عیوب اور نواقص سے پاک اور پاکیزہ ہے ۔

د): لا محدود قدرت کامالک ہے لہٰذا وہ عادل ہے ۔

۸۴

صحیفۂ سجادیہ کی دعا نمبر ۴۵ میں آیا ہے'' وعفوک تفضل وعقوبتک عدل''بارالٰہا! تیری عفو و بخشش تیرے فضل کانتیجہ ہے اور تیرا عقاب عین عدالت ہے۔

ائمہ معصومین سے نقل ہے کہ نماز شب کے اختتام پر اس دعا کو پڑھا جائے ''وقد علمت یا الهیِ أَنّه لیس فی نقمتک عجلة ولا فی حکمک ظلم واِنَّما یُعجّل من یخاف الفوت واِنَّما یحتاج اِلیٰ ظلم الضعیف وقد تعالیت یا ألهی عن ذلک علواً کبیراً'' ( ۱ ) ''بارالٰہا ! میں جانتا ہو ںکہ توعقاب میں جلدی نہیں کرتا اور تیرے حکم میں ظلم نہیں پایا جا تا، جلدی وہ کرتاہے جو ڈرتا ہے کہ کہیں وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے اور ظلم وہ کرتا ہے جو ضعیف اور ناتواں ہوتا ہے اور اے میرے پروردگار تو ان سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے'' ۔

عدالت خدا کے معانی

عدل کے اس مشہور معنی کے علا وہ (کہ خدا عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا) دوسرے کئی معانی پائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱) مصباح المتہجد شیخ طوسی ص ۱۷۳ (دعاء بعد از نماز شب )

۸۵

۱۔ خد اعادل ہے یعنی خالق کا ئنا ت ہر اس کا م سے دور ہے جو مصلحت اورحکمت کے خلا ف ہے ۔

۲۔ عدل یعنی : تمام لوگ خدا کی نظر میں ایک ہیں تمام جہات سے اور کو ئی بھی اس کے نزدیک بلند وبالا نہیں ہے مگر وہ شخص جو تقوی اور اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے کو فساد اور نابودی سے بچائے( اِنّ أَکرَمکُم عِند اللَّهِ أتَقاکُم اِنَّ اللّٰهَ عَلیمُ خَبیرُ ) بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے اور اللہ ہر شی ٔ کا جاننے والا اور ہر بات سے با خبر ہے۔( ۱ )

۳۔ حق کے ساتھ فیصلہ او رجزا : یعنی خدا وند عالم کسی بھی عمل کو چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا اور حقیر کیو ں نہ ہو اس کے بجا لانے والے کا حق ضائع نہیں کرتا اور بغیر جزاء کے نہیں رہنے دیتا او ربغیر کسی امتیاز کے تمام لوگوں کو ان کے اعمال کی جزاملے گی

( فَمنْ یَعملْ مِثقالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرهُ وَمَنْ یَعمل مِثقالَ ذَرَّةٍ شَراً یَرهُ ) پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا او رجس نے ذرہ برابربرائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا ۔( ۲ )

۴۔ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا'' العادل الواضع کُلّ شیئٍ موضعہ'' عادل وہ شخص ہے جوہر چیز کو اس کی جگہ پر قرار دے۔( ۳ )

خدا وند عالم نے تمام مخلوقات کو اس کی مناسبت سے خلق کیا ہے اور اس کے

____________________

(۱)سورہ حجرات آیة ۱۴

(۲) سورہ زلزال آیة ۷

(۳) مجمع البحرین کلمہ عدل

۸۶

اندر کی چیزیں اسی کے لحاظ سے خلق کی ہیں تمام موجودات عالم میں تعادل وتناسب پایا جاتاہے ''( أنبتنا فیها مِن کُلّ شیئٍ موزون ) ''( ۱ ) اور ہر چیز کو معینہ مقدار کے مطابق پیدا کیاہے۔

ہرکا م مقصد کے تحت : یعنی دنیا کی تمام تخلیق کا ایک مقصدہے اور اس دنیا کو خلق کرنے میں کچھ اسرارو رموز پوشیدہ ہیں اوراس دنیامیں کو ئی چیز بیکار و عبث نہیں ہے( أ فَحَسِبتُم انَّما خَلَقنَاکُم عَبثاً وَ أَنَّکم اِلینَا لا تُرجعُون ) کیاتمہا را خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکا ر پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لا ئے جا ئو گے( ۲ )

ان مذکورہ عدالت کے معانی پر اعتقاد اور یقین اور ان میں سے ہر ایک معنی کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانے کی وجہ سے بہت سے اخلاقی آثار مرتب ہو ں گے عادل عدالت کا خواہاں ہو تا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ حجر آیة ۱۹

(۲) سورہ مومنون آیة :۱۱۵

۸۷

سوالات

۱۔ کیو ں عدل کو اصول دین میں شامل کیا گیاہے ؟

۲۔ عدل خدا پر عقلی دلیل کیا ہے ؟

۳۔ ظلم کے اسباب کیاہیں ؟

۴ ۔ عدالت کے معانی بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۸۸

بارہواں سبق

مصیبتوں اور آفتوں کا راز(پہلا حصہ )

یہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ خدا عادل ہے او ر اس کے تمام کام حکمت کی بنیاد پر ہیں کچھ ایسے مسائل ہیں جو واضح نہیں ہو سکے لہٰذا ان کو واضح کردینا ضروری ہے یعنی آفتیں اور بلائیں ،دردورنج ،ناکامی او ر شکست ،نقائص اور بحران خد اکی عدالت سے کیسے سازگارہے ؟

تھوڑا غورکرنے پر واضح ہوجاتاہے کہ یہ تمام حالات عدل الٰہی کے موافق رہے ہیں نہ کہ مخالف ،مذکورہ سوالات کے سلسلہ میں دو بہترین جواب دئے جا سکتے ہیں۔

۱۔ مختصر اور اجمالی ۲ ۔تفصیلی

اجمالی جواب:

جب عقلی اور نقلی دلیلو ں سے ثابت ہوچکا کہ خداحکیم و عادل ہے اور اس کی تمام تخلیق ہدف اور حکمت کے ساتھ ہے اور یہ کہ خدا وند متعال کسی شخص اورکسی کاکبھی بھی محتاج نہیں اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے خلا صہ یہ کہ وہ کوئی بھی کام خلاف حکمت انجام نہیں دیتا ،ظلم جوکہ سرچشمۂ جہل اورعاجزی ہے اس کا تصور ذات اقدس کے لئے ممکن ہی نہیں اس کے باوجود اب اگر ہم مذکورہ حوادث وحالات کے فلسفہ کونہ سمجھ سکیں تو ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ یہ ہمارے علم کی محدودیت اور اس کا قصور ہے ، چونکہ جس نے بھی خدا کو اس کے صفات کی روشنی میں پہچانا اس کے لئے یہ جواب کافی ووافی ہے ۔

۸۹

تفصیلی جواب :

ان مصیبتوں کے ذمہ دار خو د ہم ہی ہیں ۔انسان کی زندگی میں بہت زیادہ مصیبتیں دامن گیر ہوتی ہیں جس کی اصلی وجہ او رسبب خو د وہی ہے اگرچہ اکثر ناکامیوں کاسبب،سستی وکاہلی او رسعی وتلاش کو چھوڑ دینا ہے ۔

زیادہ تر بیماریاں شکم پرستی اورہوائے نفس کی وجہ سے آتی ہیں ،بے نظمی ہمیشہ بد بختی کا سبب رہی ہے اور اسی طرح اختلاف وجدائی ہمیشہ مصیبت اور بد بختی کا پیش خیمہ رہے ہیں اور تعجب تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے علت ومعلول کے رابطہ کو بھلاکر ساری مصیبتوں کا ذمہ دار خداکو ٹھرایاہے۔

ان باتوں کے علا وہ بہت سے نقائص اور کمیا ںجیسے بعض بچوں کا ناقص الخلقت ہو نا (اندھا ،بہرا اور گونگا ، مفلو ج ہو نا ) والدین کی کوتاہی او ر شریعت کے اصول و قوانین کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے ہے ، اگر چہ بچہ کا کوئی قصور نہیں لیکن یہ والدین کے جہل او رظلم کا طبیعی اثر ہے (بحمد اللہ معصوم ہادیوں نے ان نقائص کو روکنے کے لئے کچھ قوانین بتائے ہیں یہاں تک کہ بچے کے خوبصورت اور با استعداد ہونے کے لئے بھی قوانین وآئین بتائے ہیں ) ۔

۹۰

اگر والدین نے ان قوانین کی پیروی نہیں کی تو عا م سی بات ہے کہ اس نواقص کے ذمہ دار ہو ں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی خدا کی طرف منسوب نہیں کر سکتے بلکہ یہ ایسی مصیبت ہیں جسے انسان نے خود اپنے یا دوسروں کے لئے پال رکھی ہے۔ قرآن اس جانب اشارہ کرتا ہے :( مَا أَصَابَک مِن حَسنَةٍ فَمِن اللّٰه وَمَا أَصَابَک مِن سَیئَةٍ فَمِن نَفسِک ) جو بھی نیکیاں(اچھائیاں او رکا میابیاں) تم تک پہونچی ہیں وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائیاں( بدبختیاںاور ناکامیاں) تمہا رے دامن گیر ہو تی ہیں وہ خود تمہاری کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔( ۱ )

اور دوسری جگہ قرآن فرماتاہے :( ظَهَر الفَسَادُ فی البَرِّ وَالبَحرِ بِما کَسبَت أَیدیِ النَّاسِ لِیُذِیقهم بَعضَ الّذیِ عَمِلوا لَعَلَّهُم یُرجَعُونَ ) لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے دریا اور خشکی میں فساد پھیل گیا (لہٰذا ) خدا ان کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھا دینا چاہتا ہے شاید وہ بدل جا ئیں۔( ۲ )

نا پسند واقعات او رالٰہی سزائیں

حدیثوں میں بھی متعدد مقامات پر اس طرح ذکر ہو ا:انسانوں کے دامن گیر ہونے والی مصیبتوں کا زیاد ہ تر حصہ گناہو ں کی سزا کا ہو تا ہے ۔

ایک حدیث میں امام علی رضا ںسے روایت ہے :''کلّما أحدث العِباد من الذنوب ما لم یکونوا یعملون أحدث لهم من البلا ء ما لم یکونوا

____________________

(۱) سورہ نساء آیة ۷۹

(۲) سورہ روم آیة ۴۱

۹۱

یعرفون ''جب بھی خدا کے بندے ایسے گناہو ںکو انجام دیتے ہیں جنہیں کبھی پہلے انجام نہیں دیا تھا توخدا انہیں نامعلوم اور نئی مصیبتوں میں گرفتار کردیتاہے ۔( ۱ )

حضرت امام صادق سے منقول ہے :''أِنَّ الرجلَ لیذنب الذنب فیحرم صلا ة اللیل واِنَّ عمل الشَّرأسرع فی صاحبه من السکین فی اللحم ''کبھی انسان ایسے گنا ہ کو انجام دیتا ہے جس کے نتیجہ میں نماز شب سے محروم ہو جا تاہے (کیونکہ ) برے عمل کا برا اثر اس کے انجام دینے والے میں اس چاقو سے زیادہ تیز ہو تا ہے جوگوشت کو کا ٹنے میں ہو تا ہے۔( ۲ )

حضرت علی ابن ابی طالب ں فرماتے ہیں : کسی قوم کی خوشی اور نشاط اسی وقت چھنتی ہے جب وہ براکام انجام دیتی ہے کیو نکہ خدا بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔( ۳ )

ایک دوسری جگہ امام علی فرماتے ہیں : گناہو ںسے دوری اختیار کرو کیونکہ تمام بلا ئیں او رمصیبتیں ،روزی کا کم ہو نا ،گناہ کی وجہ سے ہے یہاںتک کہ بدن میں خراش کا آنا ،ٹھوکر کھا کر گر جانا ،مصیبتوں میں گرفتار ہو نا ،یہ سب گناہ کا نتیجہ ہے، خداوند متعال کا ارشاد ہے : جو بھی مصیبت تم تک آتی ہے وہ تمہا رے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔

____________________

(۱) سابق ، ،ص ۳۵۸

(۲) نہج البلا غہ خطبہ ۱۷۸

(۳) سورہ نساء ۷۹ ،بحارالانوار ج ۸۳ ،ص ۳۵۰(مزید معلومات کے لئے تفسیر برہان ج،۴ ص ۱۲۷ او رنور الثقلین آیة ۷۸ کے ذیل میںاو ر بحارالانوار ج، ۷۸ ،ص ۵۲ کی طرف رجوع فرمائیں

۹۲

عذاب او رسزا کے عمومی ہونے پر کچھ سوال

بہت سی مصیبتیں اور بلا ئیں تاریخی شواہد ،حدیثوں او رقرآن کی روشنی میں عذاب او ر سزا کے عنوان سے ہو تی ہیں۔

لیکن یہاں پر جو سوال ذہن میں آتاہے وہ یہ ہے کہ عذاب او رسزائوں میں گرفتار ہونے والے افراد دوطرح کے ہیں ،ظالم اور مظلوم ،مومن او رکافر توآخر سبھی لوگ کیو ںعذاب میں گرفتار ہو کر ہلا ک ہوگئے ۔؟

جو اب : اسلا م کی رو سے مظلو مین یا مومنین کی مشکلا ت او رمصیبتیں نہی عن المنکر کو ترک کرنے او ر گمراہی وظالمین کامقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے ہے( اِتقُوا فِتنةً لاتُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنکُم خَاصةً ) ایسے فتنہ سے بچو جس کے اثرات صرف ظالموں تک ہی نہیں بلکہ سبھی کو گھیرلیتے ہیں۔( ۱ )

قال رسول اللّه صلیٰ اللّه علیه وآله وسلم : لتامرنَّ بالمعروف ولتنهنَّ عن المنکر أو لیعمنکم عذاب اللّه ( ۲ ) امر بمعروف اور نہی عن المنکر ضرور انجام دو ورنہ خدا کا عمومی عذاب تم کو بھی گھیرلے گا ۔

دوسراسوال یہ ہے : کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ گنہگار وں او رظالموں کی دنیاوی زندگی بہت اچھی ہے او ر انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں، جبکہ ان کے مقابل نیک اور مومن لوگو ں کو پریشان حال دیکھتے ہیں آخر ایسا کیوں ؟۔

جو اب:آیات و روایات کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ظالموںاور گنہگاروں کو مہلت اور نعمتیں ان کے عذاب کی شدت کا باعث ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انفال آیة ۲۰

(۲)وسائل الشیعہ جلد ۱۱،ص۴۰۷

۹۳

( وَلَا یَحسَبَنَّ الَّذینَ کَفَروا أَنَّما نُملیِ لَهم خَیرُ لأنفُسِهِم اِنَّما نُملیِ لَهُم لِیَزدادوا ثماً وَ لَهُم عَذابُ مُهِینُ ) ( ۱ )

کفار ہر گز اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ اگر ہم نے ان کو مہلت دے دی تو اس میں ان کی بھلا ئی ہے ،ہم نے ان کو اس لئے مہلت دی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گنا ہ کریں ، سخت عذاب ا ن کے انتظار میں ہے ۔

حضرت علی ںنے فرمایا :''یابن آدم اِذا رأیتَ ربکَ سبحانه یُتابع علیک نعمة وأَنت تعصیه فاحذره'' فرزند آدم جب تم یہ محسوس کرنا کہ خدا نا فرمانی کے باوجود تم پر نعمتوں کی بارش کر رہا ہے تو اس سے ہوشیار رہنا( ۲ )

امام صادق فرماتے ہیں :

اِذا أَراد اللّه بعبد خیراً فأذنب ذنباً تبعه بنقمة فیذکره الاستغفار واذا أراد اللّه بعبدٍ شراً فاذنب ذنبا تبعه بنعمة لینسیه الاستغفار ویتمادی به وهو قول اللّه عزَّوجلَّ ( سنستدرجهم من حیث لا یعلمون ) بالنعم عند المعاصی'' ( ۳ ) جب خدا کسی بندہ کی بھلا ئی اور خوش نصیبی چاہتا ہے تو اس کے گناہ کرنے پر کسی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے او راسے استغفار کی طرف متوجہ کر تا ہے ،اور جب (نا فرمانی او رسر کشی کی وجہ سے ) کسی بندہ کی

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیة ۱۷۸

(۲)شرح ابن الحدید ، ج،۱۹ ص ۲۷۵ ۔

(۳) اصول کا فی ج، ۲،باب استدراج ، حدیث ۔۱

۹۴

تباہی وبربادی چاہتا ہے تو اس کے گناہ پر ایسی نعمت دیتا ہے جس سے استغفار کو بھول جائے اور اپنی عادت پر باقی رہ جائے ۔

اور یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں خد اکا ارشاد ہے ، ہم انہیں آہستہ آہستہ ایسے راستوں سے عذاب کی طرف لے جا تے ہیں کہ ان کو خبر تک نہیںہو پا تی اور وہ یہ کہ نافرمانی کے موقع پر ہم انہیں نعمت عطا کر دیتے ہیں ۔

سوالات

۱۔ ناپسندواقعات کااجمالی جواب تحریر کریں ؟

۲۔ اپنی کمائی ہو ئی مصیبتوں سے مراد کیاہے ؟

۳۔ مومنین ومظلومین مشکلا ت سے کیوں دوچار ہیں حدیث رسول بیا ن کریں ؟

۴۔ عذابِ تدریجی کی تعریف کریں ؟

۹۵

تیرہواں سبق

مصائب وبلیات کا فلسفہ (حصہ دوم )

مومنین کے لئے بلا ء ومصیبت ا ن کے علو درجات کے لئے ہے او ر کبھی ان کی یاد دہانی اور بیداری کے لئے بعض وقت ان کے گناہو ں کا کفارہ ہیں اور یہ سب کی سب چیزیں خدا کی طرف سے مومنین پر لطف ہیں ۔

امام صادق فرماتے ہیں:''اِنَّ عَظیم الأجرِ لمَع عظیم البلا ء وما أحب اللّٰه قوماً الا ابتلاهم' ' اجرت کی زیادتی بلا ئوں کی کثرت پر ہے اور خدا جس قوم کو دوست رکھتا ہے اس کو بلا ئو ں میں مبتلا ء کرتا ہے۔( ۱ )

امام باقرں فرماتے ہیں:''لو یعلم المؤمن ماله فی المصائب من الاجر لتمنی أَنَّه یُقرض بالمقاریض'' اگر مومن کو اس بات کاعلم ہو جائے کہ آنے والی مصیبت کااجر کتنا ہے تو وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ اس کو قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔( ۲ )

امام علی ں فرماتے ہیں:''مَن قَصَّر فی العمل ابتلیٰ بالهم ولا

____________________

(۱) بحار جلد ۶۷ ،ص۲۰۷

(۲) بحار جلد ۸۱ ،ص ۱۹۲ ۔

۹۶

حاجة للّٰہ فِیمَن لیس للّہ فی نفسہ وما لہ نصیب'' جس نے اعمال میں کمی کی وہ مشکلا ت کا شکار ہو ا اور جس کے جان ومال میں کسی قسم کا نقصان نہ پایا جائے تو وہ لطف خدا کا مستحق نہیں ہے۔( ۱ )

امام صادق نے فرمایا:ساعات الأَوجاعُ یُذهبنّ بساعات الخطایا ( ۲) مصیبت کی گھڑیا ں خطا کے لمحات کو مٹادیتی ہیں۔ (بیماری گناہوں کا کفارہ ہے ) ۔دوسری جگہ امام صادق فرماتے ہیں :لا تزال الغموم والهموم بالمؤمن حتی لاتدع له ذنباًً ( ۳ ) مومن ہمیشہ مصیبت وبلا ء میں اس لئے گرفتار رہتا ہے تاکہ اس کے گنا ہ باقی نہ رہ جائیں ۔

امام رضا ںنے فرمایا :المرضُ للمؤمن تطهیرو رحمة و للکافر تعذیب ولعنة وأَن المرضَ لا یزال بالمؤمن حتیٰ لا یکون علیه ذنب ( ۴ ) مومن کی بیماری اس کی پاکیزگی او ررحمت کا سبب ہے او رکا فر کے لئے عذاب و لعنت کا سامان ہے ،مومن ہمیشہ بیماری میں مبتلارہتا ہے تاکہ اس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں ۔

امام باقر ںفرماتے ہیں :''أِنَّما یُبتلیٰ المؤمن فی الدنیا علیٰ قدر دینه او قال علی حسب دینه' ' مومن دنیا میں مراتب دین کے تحت مصیبت میں مبتلاہو تا ہے۔( ۵ )

____________________

(۱) بحار الانوار ج،۸۱ ص ،۱۹۱۔(۳)بحار الانوار جلد۶۷باب ابتلاء لمومن

(۲)بحار الانوار جلد،۸۱ص،۱۹۱(۴)بحار الانوار جلد۸۱، ص،۱۸۳(۵) بحار الانوار ج،۸۱ ص ،۱۹۶۔

۹۷

دوسری حدیث میں امام صادق نے فرمایا :مومن کے لئے چالیس شب نہیں گذرتی کہ اس کے اوپر کو ئی بڑی مصیبت آپڑتی ہے تاکہ وہ ہو شیار ہوجائے ۔( ۱ )

قرآن مجید میں کم وبیش، بیس مقامات پر امتحان الٰہی کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے ۔یہ امتحان خدانے ہم سے آگا ہی کے لئے نہیں لیا ہے کیونکہ وہ ابتداء ہی سے ہم سے با خبر ہے بلکہ اس امتحان میں تربیت کاایک پہلو ہے۔ الٰہی امتحانات روح اورجسم کے لئے تکامل کاذریعہ ہیں او ردوسری طرف امتحان کے بعد جزاوسزا کا استحقاق ہے( وَلَنَبلُونَّکُم بِشَیئٍ مِن الخَوفِ والجُوعِ وَنَقصٍ مِن الأموالِ وَ الأنفُسِ والثَّمراتِ و بَشّر الصَّابِرینَ ) ( ۲ ) او رہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف، تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس او رثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر! آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ۔( وَنَبلُونَّکُم بالشَّرِّ والخَیرِ فَتنة واِلینا تُرجعَونَ ) ( ۳ ) اور ہم تو اچھائی او ربرائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے اور تم سب پلٹا کر ہماری بارگاہ میں لائے جائوگے ۔

مولائے کائنا ت نے فرمایا :...ولکنّ اللّهَ یختبر عباده بأنواع الشدائد ویتعبدهم بأنواع المجاهد و یبتلیهم بضروب المکاره ( ۴ )

خدا وند تعالی اپنے بندوں کو مختلف سختیوں کے ذریعہ آزماتاہے او ربندے کو مختلف مشکلوں میں عبادت کی دعوت دیتا ہے اور متعدد پریشانیوں میں مبتلا کر تا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوار جلد۶۷باب ابتلاء لمومن

(۲) سورہ بقرہ آیة ۱۵۵

(۳) سورہ انبیاء آیة ۳۵(۴)نہج البلا غہ خطبہ ۱۹۲

۹۸

فلسفہ مصائب کا خلا صہ اور نتیجہ

بہتیرے اعتراضات، عدل الٰہی کے سلسلہ میں جہالت او ربلا ء و مصیبت کے فلسفہ کو درک نہ کرنے کے باعث ہو ئے ہیں مثلایہ خیال کریں کہ موت فنا ہے اور اعتراض کر بیٹھیں کہ فلاں شخص کیو ں جوانی کے عالم میں مر گیا اور اپنی زندگی کا لطف نہ اٹھا سکا ؟ ہم یہ سوچتے ہیں کہ دنیا ابدی پناہ گاہ ہے لہٰذا یہ سوال کرتے ہیں کہ سیلا ب اور زلزلے کیو ں بہت سارے لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ہے ؟ ہماری فکر کے اعتبار سے یہ دنیا آرامگاہ ہے تو پوچھتے ہیں کہ بعض لوگ بے سروسامان کیوں ہیں ؟۔

(یہ سارے سوالات ) ان لوگو ں کی مانند ہیں جو دوران درس اعتراضات کی جھڑ لگادیتے ہیں کہ چائے کیاہوئی ،کھا نا کیوں نہیں لاتے ،ہما را بستر یہاں کیوں نہیں ہے ؟ان سارے سوالوں کے جواب میں صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ درس گا ہ ہے مسافر خانہ نہیں ۔در حقیقت گزشتہ سارے اعتراضات کابہترین راہ حل اس دنیا کو پہچاننا اور موجودات عالم کے مقصد خلقت کو درک کرنا ہے ۔

سوالات

۱۔مومنین دنیا میں مصائب وآلا م کے شکا رکیو ں رہتے ہیں ؟

۲۔ خدا اپنے بندو ں کا امتحان کیو ں لیتا ہے ؟

۳۔ فلسفہ ٔمصائب کا خلا صہ او رنتیجہ بیان کریں ؟

۹۹

چودہواں سبق

اختیار او ر میا نہ روی

شیعہ حضرات ائمہ معصومین کی اتباع کی بناپر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مشیت الٰہی کے باوجود انسان اپنے کام میں صاحب اختیار ہے ۔

کسی کا م میں اختیا ر ،ارادہ ،انتخاب ان سب کا ہو ناایک ناقابل انکا ر شیٔ ہے اس کے باوجود بعض لوگوںنے اپنے ضمیر اور فطرت کی مخالفت کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکا ر کر دیا ۔بعض افراد اس کے مقابل میں تفویض کے قائل ہو گئے ۔

آخرکار: اس بحث میں تین نظریہ قائم ہو ئے ہیں ۔

۱ ۔ جبر و بے اختیار: ا س نظریہ کے قائل افراد کہتے ہیں کہ انسان اپنے کاموںمیں ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتا ۔ او رانسان کسی ماہر فن کے ہاتھ میں بے شعور اوزار کی طرح ہے ،اور جوکچھ بھی معرض وجو د میں آتا ہے وہ مشیت خد اہے ۔

۲۔ تفویض یا آزادی:اس نظریہ کے معتقد افراد کاکہنا ہے کہ خد انے انسانوں کو خلق کر کے اور دل و دماغ کی قوت بخش کے انہیں ان کے کاموں میں مکمل اختیار دے دیا ہے لہٰذا ان کے افعال وکردار میں خد ا کا کو ئی دخل نہیں او رقضا و قدر کابھی کو ئی اثر نہیں ہے ۔

۳۔اختیار یا میانہ روی ۔ نہ جبر نہ تفویض بلکہ اختیارا ور امر بین الامرین (میانہ روی)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تیسرا سبق

وضوء

جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے نماز سے پہلے اس ترتیب سے وضوء کرنا چاہیئے پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک یا دو دفعہ دھوئے _ پھر تین مرتبہ کلی کرے پھر تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے اور صاف کرے _ پھر وضو کی نیت اس طرح کرے _ :

وضو کرتا ہوں _ یا کرتی ہوں_ واسطے دور ہونے حدث کے اور مباح ہونے نماز کے واجب قربةً الی اللہ '' نیت کے فوراً بعد اس ترتیب سے وضو کرے _

۱_ منہ کو پیشانی کے بال سے ٹھوڑی تک اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے _

۲_ دائیں ہاتھ کو کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۳_ بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سے انگلیوں کے سرے تک اوپر سے نیچے تک دھوئے _

۴_ دائیں ہاتھ کی تری سے سرکے اگلے حصّہ پر اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرے _

۵_ دائیں ہاتھ کی تری سے دائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

۶_ بائیں ہاتھ کی تری سے بائیں پاؤں کے اوپر انگلیوں کے سرے سے پاؤں کی ابھری ہوئی جگہ تک مسح کرے _

ماں باپ یا استاد کے سامنے وضو کرو اور ان سے پوچھ کہ کیا میرا وضو درست ہے _

۱۲۱

چوتھا سبق:

نماز پڑھیں

ہم کو نماز پڑھنی چاہئے تا کہ اپنے مہربان خدا سے نماز میں باتین کریں _ نماز دین کا ستون ہے _ ہمارے پیغمبر (ص) فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو سبک سمجھے اور اس کے بارے میں سستی اور کوتاہی کرے وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے _ اسلام ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کو نماز سکھائیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اولاد کو ہمیشہ نماز پڑھنے کی یاددہانی کرتے رہیں اور ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہتے رہیں _ جو لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہوچکے ہیں انہیں لازمی طور پر نماز پڑھنی چاہیے اور اگر نماز نہیں پڑھتے ہیں تو اللہ کے نافرمان اور گناہگار ہوں گے

سوالات

۱_ ہم نماز میں کس سے کلام کرتے ہیں ؟

۲_ ہمارے پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کے حق میں جو نماز میں سستی کرتے ہیں کیا فرمایا ہے ؟

۳_ سات سال کے بچّوں کے بارے میں ماں باپ کا کیا وظیفہ ہے ؟

۴_ کون تمہیں نماز سکھاتا ہے ؟

۵_ نماز دین کا ستون ہے کا کیا مطلب ہے ؟

۱۲۲

پانچواں سبق

نماز آخرت کیلئے بہترین توشہ ہے

نماز بہترین عبادت ہے _ نماز ہمیں خدا سے نزدیک کرتی ہے اور آخرت کیلئے یہ بہترین توشہ ہے _ اگر صحیح نماز پڑھیں تو ہم آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں گے _

حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں دنیا میں نماز پڑھنے کو دوست رکھتا ہوں ، میرے دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے _ نیز آپ(ع) نے فرمایا نماز ایک پاکیزہ چشمے کے مانند ہے کہ نمازی ہر روز پانچ دفعہ اپنے آپ کو اس میں دھوتا ہے _ ہم نماز میں اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارا دل اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ جو شخص نماز نہیں پڑھتا خدا اور اس کا رسول (ص) اسے دوست نہیں رکھتا

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے تھے میں واجب نماز نہ پڑھنے والے سے بیزار ہوں _ خدا نماز پڑھنے والوں کو دوست رکھتا ہے بالخصوص اس بچّے کو جو بچپن سے نماز پڑھتا ہے زیادہ دوست رکھتا ہے _

ہر مسلمان دن رات میں پانچ وقت نماز پڑھے

۱_ نماز صبح دو رکعت

۲_ نماز ظہر چار رکعت

۳_ نماز عصر چار رکعت

۴_ نماز مغرب تین رکعت

۵_ نماز عشاء چار رکعت

۱۲۳

جواب دیجئے

۱_ حضرت محمد مصطفی (ص) نے نماز کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲_ کیا کریں کہ آخرت میں سعادتمند ہوں ؟

۳_ ہر مسلمان دن رات میں کتنی دفعہ نماز پڑھتا ہے اور ہرایک کیلئے کتنی رکعت ہیں؟

۴_ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے لئے پیغمبر (ص) نے کیا فرما یا ہے ؟

۶_ کیا تم بھی انہیں میں سے ہو کہ جسے خدا بہت دوست رکھتا ہے اور کیوں؟

۱۲۴

چھٹا سبق

طریقہ نماز

اس ترتیب سے نماز پڑھیں

۱_ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں اور نیت کریں یعنی قصد کریں کہ کون نماز پڑھنا چاہتے ہیں _ مثلاً قصد کریں کہ چار رکعت نماز ظہر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہوں _

۲_ نیت کرنے کے بعد اللہ اکبر کہیں اور اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اوپر لے جائیں _

۳_ تکبیر کہنے کے بعد سورہ الحمد اس طرح پڑھیں

( بسم الله الرحمن الرحیمی : الحمد لله ربّ العالمین _ الرّحمن الرّحمین _ مالک یوم الدین_ ايّاک نعبد و ايّاک نستعین_ اهدنا الصّراط المستقیم_ صراط الذین انعمت علیهم_ غیر المغضوب علیهم و لا الضّالین)

۴_ سورہ الحمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید کا ایک پورا سورہ پڑھیں مثلاً سورہ توحید پڑھیں:

( بسم الله الرّحمن الرّحیم _ قل هو الله احد _ اللّه الصمد_ لم یلد و لم یولد _ و لم یکن له کفواً احد _)

۵_ اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس قدر جھکیں کہ ہاتھ زانو تک پہنچ جائے اور اس وقت پڑھیں

۱۲۵

سبحان ربّی العظیم و بحمده

۶_ اس کے بعد رکوع سر اٹھائیں اور سیدھے کھڑے ہو کر کہیں :

سمع الله لمن حمده

اس کے بعد سجدے میں جائیں _ یعنی اپنی پیشانی مٹی یا پتھر یا لکڑی پر رکھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھیں اور پڑھیں:

سبحان ربّی الاعلی و بحمده

اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاکر بیٹھ جائیں اور پڑھیں:

استغفر الله ربّی و اتوب الیه

پھر دوبارہ پہلے کی طرح سجدے میں جائیں اور وہی پڑھیں جو پہلے سجدے میں پڑھا تھا اور اس کے بعد سجدے سے اٹھا کر بیٹھ جائیں اس کے بعد پھر دوسری رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اٹھتے وقت یہ پڑھتے جائیں:

بحول الله و قوته اقوم و اقعد

پہلی رکعت کی طرح پڑھیں_

۷_ دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور ایک سورہ پڑھنے کے بعد قنوت پڑھیں _ یعنی دونوں ہاتھوں کو منہ کے سامنے اٹھا کر دعا پڑھیں اور مثلاً یوں کہیں :

ربّنا اتنا فی الدنیا حسنةً و فی الآخرة حسنةً وقنا عذاب الناّر _

۱۲۶

اس کے بعد رکوع میں جائیں اور اس کے بعد سجدے میں جائیں اور انہیں پہلی رکعت کی طرح بجالائیں

۸_ جب دو سجدے کر چکیں تو دو زانو بیٹھ جائیں اور تشہد پڑھیں :

الحمد لله _ اشهد ان لا اله الاّ الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمد اً عبده و رسوله _ اللهم صلّ علی محمد و آل محمد

۹_ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجائیں اور تیسری رکعت بجالائیں تیسری رکعت میں سورہ الحمد کی جگہ تین مرتبہ پڑھیں :

سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله والله اکبر

اس کے بعد دوسری رکعت کی طرح رکوع اور سجود کریں اور اس کے بعد پھر چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اسے تیسری رکعت کی طرح بجالائیں _

۱۰_ چوتھی رکعت کے دو سجدے بجالانے کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھیں اور اس کے بعد یوں سلام پڑھیں:

السّلام علیک ايّها النبی و رحمة الله و برکاته

السلام علینا و علی عباد الله الصالحین

السلام علیکم ورحمة الله و برکاته

یہاں ہماری ظہر کی نمازتمام ہوگئی

۱۲۷

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلتے تک ہے نماز ظہر اور عصر کا وقت زوال شمس سے آفتاب کے غروب ہونے تک ہے _

مغرب اور عشاء کا وقت غروب شرعی شمس سے آدھی رات یعنی تقریباً سوا گیارہ بجے رات تک ہے _

یادرکھئے کہ

۱_ عصر اور عشاء کی نماز کو ظہر کی نماز کی طرح پڑھیں لیکن نیت کریں کہ مثلاً عصر کی یا عشاء کی نماز پڑھتا ہوں ...:

۲_ مغرب کی نماز تین رکعت ہے تیسری رکعت میں تشہد اور سلام پڑھیں _

۳_ صبح کی نماز دو رکعت ہے دوسری رکعت میں تشہد کے بعد سلام پڑھیں _

۱۲۸

ساتواں سبق

نماز پر شکوہ _ نمازجمعہ

نماز ایمان کی اعلی ترین کو نپل اور روح انسانی کا اوج ہے _ جو نماز نہیں پڑھتا وہ ایمان اور انسانیت کے بلند مقام سے بے بہرہ ہے _ نماز میں قبلہ روکھڑے ہوتے ہیں اور خدائے مہربان کے ساتھ کلام کرتے ہیں _ پیغمبر اسلام(ص) نے نماز قائم کرنے کے لئے تاکید کی ہے کہ مسجد میں جائیں اور اپنی نماز دوسرے نماز یوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں تنہا نماز کی نسبت دریا اور قطرہ کی ہے اور ان کے ثواب اور اجر میں بھی یہی نسبت ہے جو مسجد میں با جماعت ادا کی جائے _ جو نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں _ ان میں نماز جمعہ کا خاص مقام ہے کہ جسے لازمی طور سے جماعت کے ساتھ مخصوص مراسم سے ادا کیا جاتا ہے _ کیا آپ نماز جمعہ کے مراسم جانتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ کیوں امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہوتا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امام جمعہ کو خطبوں میں کن مطالب کو ذکر کرنا ہے ؟

امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں اس لئے لیتا ہے تا کہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اعلان کرے کہ مسلمان کو اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیئے _ ہتھیار ہاتھ میں لے کر ہر ساتویں دن مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ نماز کے برپا کرنے کے لائے لازمی طور پر جہاد اور مقابلہ کرنا ہوگا _ امام جمعہ ہتھیار ہاتھ میں لیکر خطبہ پڑھتا ہے تا کہ اعلان کر ے کہ نماز اور جہاد ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں _ اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہاتھ میں ہتھیار رکھنا چاہیئےور دشمن

۱۲۹

کی معمولی سے معمولی حرکت پر نگاہ رکھنی چاہیے _ جو امام جمعہ اسلامی معاشرہ کے ولی اور رہبر کی طرف سے معيّن کیا جاتاہے وہ ہاتھ میں ہتھیار لیتا ہے اور لوگوں کی طرف منہ کرکے دو خطبے دیتا ہے اور اجتماعی و سیاسی ضروریات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے اور ملک کے عمومی حالات کی وضاحت کرنا ہے _ اجتماعی مشکلات اور اس کے مفید حل کے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے _ لوگوں کو تقوی _ خداپرستی ایثار اور قربانی و فداکاری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے _ نماز یوں کو پرہیزگاری ، سچائی ، دوستی اورایک دوسرے کی مدد کرنے کی طرف رغبت دلاتا ہے _ لوگ نماز کی منظم صفوں میں نظم و ضبط برادری اور اتحاد کی تمرین اور مشق کرتے ہیں _ اور متحد ہوکر دشمن کامقابلہ کرنے کا اظہار کرتے ہیں _ جب نماز جمعہ کے خطبے شروع ہوتے ہیں اور امام جمعہ تقریر کرنا شروع کرتا ہے تو لوگوں پر ضروری ہوجاتاہے کہ وہ خامو ش اور آرام سے بیٹھیں اور نماز جیسی حالت بناکر امام جمعہ کے خطبوں کو غور سے نہیں _

سوالات

۱_ نماز جمعہ کی منظم صفیں کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں؟

۲_ امام جمعہ خطبہ دیتے وقت ہاتھ میں ہتھیار کیوں لیکر کھڑا ہوتا ہے ؟

۳_ امام جمعہ کو کون معيّن کرتا ہے ؟

۴_ امام جمعہ نماز جمعہ کے خطبے میں کن مطالب کو بیان کرتا ہے ؟

۵_ نماز جمعہ کے خطبے دیئےانے کے وقت نماز یوں کا فرض کیا ہوتا ہے ؟

۱۳۰

آٹھواں سبق

روزہ

اسلام کی بزرگ ترین عبادات میں سے ایک روزہ بھی ہے

خدا روزا داروں کو دوست رکھتا ہے اور ان کو اچھی جزا دیتا ہے روزہ انسان کی تندرستی اور سلامتی میں مدد کرتا ہے

جو انسان بالغ ہوجاتا ہے اس پر ماہ مرضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے اگرروزہ رکھ سکتا ہو اور روزہ نہ رکھے تو اس نے گناہ کیا ہے روزہ دار کو سحری سے لیکر مغرب تک کچھ نہیں کھانا چاہئے

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ اسلام کی بزرگ ترین ...ہے

۲_ خدا روزہ داروں ہے

۳_ روزہ انسان کی مدد کرتا ہے

۴_ روزہ دار کو نہیں کھانا چاہیئے

۵_ اگر روزہ رکھ سکتا ہو اور گناہ کیا ہے

۱۳۱

نواں سبق

ایک بے نظیر دولہا

ایک جوان بہادر اور ہدایت یافتہ تھا _ جنگوں میں شریک ہوتا تھا _ ایمان اور عشق کے ساتھ اسلام و قرآن کی حفاظت اور پاسداری کرتا تھا _ اللہ کے راستے میں شہادت کو اپنے لئے بڑا افتخار سمجھتا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہوجانا اس کی دلی تمنا تھی _ یہ تھا حنظلہ جو چاہتا تھا کہ مدینہ کی اس لڑکی سے جو اس سے منسوب تھی شادی کرلے شادی کے مقدمات مہيّا کرلئے گئے تھے _ تمام رشتہ داروں کو شادی کے جشن میں مدعو کیا جا چکا تھا _ اسی دن پیغمبر اکرم (ص) کو مطلع کیا گیا کہ دشمن کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور شہر پر حملہ کرنے والی ہے _

پیغمبر (ص) نے یہ خبر بہادر اور مومن مسلمانوں کو بتلائی اور جہاد کا اعلان فرمایا_ اسلام کے سپاہی مقابلہ اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے _ جوان محافظ اور پاسداروں نے محبت اور شوق کے جذبے سے ماں باپ کے ہاتھ چومے خداحافظ کہا _ ماؤں نے اپنے کڑیل جوانوں کو جنگ کا لباس پہنایا اور ان کے لئے دعا کی _ چھوٹے بچے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اپنے باپ اور بھائیوں کو الوداع کررہے تھے _

اسلام کی جانباز فوج اللہ اکبر کہتے ہوئے شہر سے میدان احد کی طرف روانہ ہور ہی تھی _ اہل مدینہ اسلام کی بہادر فوج کو شہر کے باہر تک جاکر الوداع کہہ رہے تھے _ حنظلہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پریشانی و شرمندگی کے عالم میں عرض کیا _ یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ میں بھی میدان احد میں حاضر ہوں اور جہاد

۱۳۲

کروں لیکن میرے ماں باپ اصرار کررہے ہیں کہ میں آج رات مدینہ رہ جاؤں _ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آج رات مدینہ میں رہ جاؤں اور اپنی شادی میں شرکت کرلوں اور کل میں اسلامی فوج سے جا ملوں گا _ رسول خدا (ص) نے اسے اجازت دے دی کہ وہ مدینہ میں رہ جائے _ مدینہ خالی ہوچکا تھا _ حنظلہ کی شادی کا جشن شروع ہوا لیکن اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے _ حنظلہ تمام رات بیقرار رہا کیونکہ اس کی تمام تر توجہ جنگ کی طرف تھی وہ کبھی اپنے آپ سے کہتا کہ اے حنظلہ تو عروسی میں بیٹھا ہوا ہے لیکن تیرے فوجی بھائی اور دوست میدان جنگ میں مورچے بنارہے ہیں وہ شہادت کے راستے کی کوشش میں ہیں وہ اللہ کا دیدار کریں گے اور بہشت میں جائیں گے اور تو بستر پر آرام کررہا ہے _ شاید حنظلہ اس رات بالکل نہیں سوئے اور برابر اسی فکر میں رہے حنظلہ کی بیوی نئی دلہن کی آنکھ لگ گئی _ اس نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے _ اور حنظلہ آسمان کی طرف چلا گیا ہے اور پھر آسمان کا شگاف بند ہوگیا ہے خواب سے بیدار ہوئی _ حنظلہ سحر سے پہلے بستر سے اٹھے اورجنگی لباس پہنا اور میدان احد کی طرف جانے کے لئے تیار ہوئے دلہن نے پر نم آنکھوں سے اس کی طرف نگاہ کی اور خواہش کی کہ وہ اتنی جلدی میدان جنگ میں نہ جائے اور اسے تنہا نہ چھوڑے حنظلہ اپنے آنسو پونچھ کر کہنے لگے اے میری مہربان بیوی _ میں بھی تجھے دوست رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ اچھی زندگی بسر کروں لیکن تجھے معلوم ہے کہ پیغمبر (ص) اسلام نے کل جہاد کا اعلان کیا تھا پیغمبر (ص) کے حکم کی اطاعت واجب ہے اور اسلامی مملکت کا دفاع ہر ایک مسلمان کا فرض ہے _ اسلام کے محافظ اور پاسدار اب میدان جنگ میں صبح کے انتظار میں قبلہ رخ بیٹھے ہیں تا کہ نماز ادا کریں اور دشمن پرحملہ کردیں میں بھی ان کی مدد کے لئے جلدی جانا چاہتا ہوں اے مہربان بیوی

۱۳۳

میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان فتح اور نصرت سے لوٹیں گے اور آزادی و عزت کی زندگی بسر کریں گے اگر میں ماراگیا تو میں اپنی امیدوار آرزو کو پہنچا اور تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ بہترین دوست اور یاور ہے _ دولہا اور دلہن نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں کے پاک آنسو آپس میں ملے اور وہ ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے _ حنظلہ نے جنگی آلات اٹھائے اور میدان احد کی طرف روانہ ہوے وہ تنہا تیزی کے ساتھ کھجوروں کے درختوں اور پتھروں سے گذرتے ہوے عین جنگ کے عروج کے وقت اپنے بھائیوں سے جاملے _ امیر لشکر کے حکم کے مطابق جو ذمہ داری ان کے سپرد ہوئی اسے قبول کیا اور دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے باوجودیکہ وہ تھکے ہوئے دشمن پر سخت حملہ کیا _ چابکدستی اور پھر تی سے تلوار کا وار کرتے اور کڑکتے ہوئے بادل کی طرح حملہ آور ہوتے اور دشمنوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے دشمن کے بہت سے آدمیوں کو جنہم واصل کیا اور بالآخر تھک کر گرگئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کو حنظلہ کے جسم پاک کو آسمان کی طرف لے جارہے ہیں اور غسل دے رہے ہیں _ یہ خبر اس کی بیوی کو مدینہ پہنچی

سوالات

۱_ پیغمبر اسلام نے کس جنگ کے لئے اعلان جہاد کیا ؟

۲_ پیغمبر کے اعلان جہاد کے بعد اسلام کے پاسدار کس طرح آمادہ ہوگئے ؟

۳_ حنظلہ پریشانی کی حالت میں پیغمبر (ص) (ص) کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور کیا کہا؟

۱۳۴

حنظلہ عروسی کی رات اپنے آپ سے کیا کہا رہے تھے اور ان کے ذہن میں کیسے سوالات آرہے تھے؟

۵_ دلہن نے خواب میں کیا دیکھا؟

۶_ حنظلہ نے چلتے وقت اپنی بیوی سے کیا کہا؟

۷_ حنظلہ کی بیوی نے حنظلہ سے کیا خواہش ظاہر کی؟

۸_ پیغمبر (ص) اسلام نے حنظلہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۵

چھٹا حصّہ

اخلاق و آداب

۱۳۶

پہلا سبق

والدین سے نیکی کرو

ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ میرا لڑکا اسماعیل مجھ سے بہت اچھائی سے پیش آتا ہے وہ مطیع اور فرمانبردار لڑکا ہے _ ایسا کام کبھی نہیں کرتا جو مجھے گراں گذرے _ اپنے کاموں کو اچھی طرح انجام دیتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے پہلے بھی اسماعیل کو دوست رکھتا تھا لیکن اب اس سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں کیونکہ اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ ماں باپ سے اچھا سلوک روارکھتا ہے ہمارے پیغمبر(ص) ان اچھے بچوں سے جو ماں باپ سے بھلائی کرتے تھے _ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے

'' خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ''

'' اپنے ماں باپ سے نیکی کرو''

سوالات

۱_ امام جعفر صاد ق (ع) نے اسماعیل کے باپ سے کیا کہا؟

۲_ اسماعیل کا عمل کیسا تھا؟

۳_ گھر میں تمہارا عمل کیسا ہے کن کاموں میں تم اپنے ماں باپ کی مدد کرتے ہو؟

۱۳۷

دوسرا سبق

استاد کا مرتبہ

ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی (ص) فرماتے ہیں : میں لوگوں کامعلّم اور استاد ہوں _ او ر انکو دینداری کا درس دیتا ہوں _

حضرت علی (ع) نے فرمایا : کہ باپ اور استاد کے احترام کے لئے کھڑے ہوجاؤ _

چوتھے امام حضرت سجاد (ع) نے فرمایا ہے : استاد کے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں : پہلا حق شاگرد کو استاد کا زیادہ احترام کرنا _ دوسرا : اچھی باتوں کی طرف متوجہ ہونا _ تیسرا : اپنی نگاہ ہمیشہ استاد پر رکھنا _ چوتھا : درس یاد رکھنے کے لئے اپنے حواس جمع رکھنا _ پانچواں : کلاس میں اس کے درس کی قدر اور شکریہ ادا کرنا _

ہم آپ (ع) کے اس فرمان کی پیروی کرتے ہیں _ اور اپنے استاد کو دوست رکھتے ہیں اور انکا احترام کرتے ہیں _ اور جانتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی طرح ہم پر بہت زیادہ حق رکھتے ہیں _

سوالات

۱_ لکھنا پڑھنا کس نے تمہیں سکھلایا؟

۲_ جن چیزوں کو تم نہیں جانتے کس سے یاد کرتے ہو؟

۳_ انسانوں کے بزرگ ترین استاد کوں ہیں؟

۴_ ہمارے پہلے امام (ع) نے باپ اور استاد کے حق میں کیا فرمایا؟

۵_ ہمارے چوتھے امام(ع) نے استاد کے حقوق کے بارے میں کیا فرمایا؟

۱۳۸

تیسرا سبق

اسلام میں مساوات

ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ (ع) ایک دستر خوان پر اپنے خادموں اور سیاہ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے میں نے کہا: کاش: آپ (ع) خادموں اور غلاموں کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاتے _ مناسب نہیں کہ آپ (ع) ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں _ امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا_ چپ رہو میں کیوں ان کے لئے علیحدہ دستر خوان بچھاؤں؟ ہمارا خدا ایک ہے ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ہم سب کی ماں حضرت حوّا ، علیہا السلام ہیں _ ہر ایک کی اچھائی اور برائی اور جزا اس کے کام کی وجہ سے ہوتی ہے _ جب میں ان سیاہ غلاموں اور خادموں کے ساتھ کوئی فرق روا نہیں رکھتا توان کیلئے علیحدہ دستر خواہ کیوں بچھاؤں

سوالات

۱_ امام رضا علیہ السلام کن لوگوں کے ساتھ کھا ناکھارہے تھے ؟

۲_ اس آدمی نے امام رضا علیہ السلام سے کیا کہا؟

۳_ امام رضا علیہ السلام نے اسے کیا جواب دیا ؟

۴_ تم کس سے کہوگے کہ چپ رہو اور کیوں؟

۵_ ہر ایک کی اچھائی اور برائی کا تعلق کس چیز سے ہے ؟

۶_ امام رضا علیہ السلام کے اس کردار کی کس طرح پیروی کریں گے ؟

۱۳۹

چوتھا سبق

بوڑھوں کی مدد

ایک دن امام موسی کاظم (ع) مسجد میں مناجات اورعبادت میں مشغول تھے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جس کا عصا گم ہوچکا تھا جس کی وجہ وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتا تھا آپ(ع) کا دل اس مرد کی حالت پر مغموم ہوا با وجودیکہ آپ (ع) عبادت میں مشغول تھے لیکن اس کے عصا کو اٹھا کر اس بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہوگئے _ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ زیادہ عمر والوں اور بوڑھوں کا احترام کرو _ آپ (ع) فرماتے ہیں : کہ بوڑھوں کا احترام کرو جس نے ان کا احترام کیا ہوگیا اس نے خدا کا احترام کیا _

سوالات

۱_ بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے کیوں نہیں اٹھ سکتا تھا؟

۲_ امام موسی کاظم (ع) نے اس بوڑھے آدمی کی کس طرح مدد کی ؟

۳_ پیغمبر (ص) بوڑھوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟

۴_ کیا تم نے کبھی کسی بوڑھے مرد یا عورت کی مدد کی ہے ؟

۵_ بوڑھوں کے احترام سے کس کا احترام ہوتا ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303