نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر0%

نماز کی تفسیر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

نماز کی تفسیر

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 66428
ڈاؤنلوڈ: 2546

تبصرے:

نماز کی تفسیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66428 / ڈاؤنلوڈ: 2546
سائز سائز سائز
نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر

مؤلف:
اردو

ربّ العالمین

خدا ہر چیز کا پروردگار ہے ۔ جو چیزیں بھی زمین و آسمان کے درمیان ہیں خدا ان سب کا پروردگار ہے۔

(ربّ السمٰوات و الارض و ما بینهما )(١) و (هو ربّ کل شیٔ )(٢)

حضرت علی ـ عالمین کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

'' من الجمادات و الحیوانات '' یعنی وہ جمادات و حیوانات ، جاندار و بے جان سب کا پروردگار ہے ۔

اگرچہ کبھی قرآن میں ( عالمین )سے انسان مراد ہیں ۔ لیکن بیشتر جگہوں پر عالم یعنی مخلوقات اور عالمین کے معنیٰ تمام مخلوقات ہیں ۔ اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ تمام عالم ہستی

____________________

١۔ مریم ٦٥.

٢۔ انعام ١٦٤.

۱۰۱

کا پروردگار ہے ۔ لہٰذازمانہ ٔ جاہلیت یا دوسری قوموں میں جویہ عقیدہ رائج تھا کہ ہر موجود کے لئے ایک الگ خدا ''ربّ النوع'' ہے یہ ایک باطل فکر ہے ۔ خدا وند عالم نے ہر موجود کی خلقت کے بعد اسکی ترقی و تکامل کا راستہ معین کر دیا ہے اور الہی تربیت ہی اس کی ہدایت کا راستہ ہے ۔ (ربّنا الذ اعطیٰ کل شیئٍ خلقه ثم هدیٰ )(١) ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کے مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے ۔

اللہ وہ ہے جس نے شہد کی مکھی کویہ سکھایا کہ پھول سے کیسے شہد نکالے ، چیونٹی کو سکھایا کہ سردی کے لئے میں کیسے اپنی غذا ذخیرہ کرے اور انسان کے بدن کو ایسا بنایا کہ خود بخود خون بنائے ۔ ہاں ایسا خدا شکر و ستائش کے لائق ہے انسان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جمال و کمال کی تعریف اور نعمت و احسان کا شکریہ ادا کرتا ہے۔خداوند عالم اپنے کمال و جمال کی وجہ سے تعریف کے لائق اور نعمت و احسان کی وجہ سے شکر کا حقدارہے ۔

البتہ خدا کے شکر کے ساتھ مخلوق کا شکر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر شرط یہ ہے کہ خدا کے حکم سے ہو اور اس کے راستے سے ہٹ کر نہ ہو ۔ اگرچہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو شخص بھی جس زبان میں بھی جس طریقے سے بھی دوسروں کی تعریف کرتا ہے وہ در حقیقت اس کے خالق اور سرچشمہ کی حمد کرتا ہے ۔

(ربّ العالمین ) یعنی خدا اور مخلوقات کے درمیان کا رابطہ مضبوط اور دائمی رابطہ ہے ۔

(ربّ العالمین ) یعنی ترقی و تربیت کا امکان سب کے لئے موجود ہے ۔ فقط اچھے لوگ ہی نہیں بلکہ برے لوگ بھی خدا کی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہیں: (کُلَّا نمد هولاء و هولاء )(٢)

____________________

١۔ طہٰ ٥۰.

٢۔ اسراء ٢۰.

۱۰۲

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے : کہ ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ہر ایک کے لئے میدان فراہم ہے تاکہ وہ اپنے مقصد تک پہنچ سکے ۔

لیکن چونکہ دنیا رکاوٹوں ا ور مزاحمت کی جگہ ہے لہٰذا طبیعی ہے کہ ہر شخص اپنی تمام آرزؤں تک نہیں پہنچ سکتا ۔

(ربّ العالمین )یعنی خداوند ہر چیز کا مالک بھی ہے اور ان کا پا لنے والا بھی ۔ لفظ ''ربّ '' کی اصل یا '' ربی '' ہے جس کے معنیٰ رُشد و تربیت ہیں۔ یا یہ لفظ '' ربّ'' سے لیا گیا ہے جس کے معنیٰ صاحب کے ہیں ۔ یعنیٰ خدا وند متعال دنیا کا صاحب بھی ہے اور اس کی تربیت کرنے اور اسے پالنے والا بھی۔(له الخلق و الامر تبارک الله ربّ العالمین )(١)

اسی کے لئے خلق بھی ہے اور امر بھی وہ نہایت ہی صاحب برکت اللہ ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے ۔

روایتوں کے مطابق کلمہ ( الحمد للہ ربّ العالمین ) خدا کی نعمتوں کا بہترین شکریہ ہے لہٰذا تاکید کی گئی ہے کہ ہر دعا سے پہلے خدا وند متعال کی حمد کرو ،ورنہ دعا ادھوری ہے ۔

نہ صرف دعا و مناجات سے پہلے بلکہ اہل بہشت ہر کام کے آخر میں بھی اسی ذکرکی تکرار کرتے ہیں : (و آخر دعواهم انِ الحمد لله ربّ العالمین )(٢)

الرحمن الرحیم

ان دو کلموں کا ترجمہ ''بخشنے والا مہربان ''،کامل اورجامع ترجمہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ علامہ شہید مطہری کے بقول بخشنے والا مہربان ؛ جواد و رؤف کا ترجمہ ہے نہ کہ رحمن و رحیم کا ۔ حقیقت یہ ہے

____________________

١۔اعراف ٥٤.

٢۔ یونس ١۰.

۱۰۳

کہ فارسی حتی اردومیں ان دونوں لفظوں کا ترجمہ یا اس کا ہم معنی لفظ موجود نہیں ہے ۔

گرچہ '' رحمن '' و ''رحیم '' یہ دونوں لفظ '' رحمة '' سے ماخوذ ہیں ، لیکن رحمن ، اللہ کی اس وسیع رحمت کو کہا جاتا ہے جو ابتدائی رحمت ہے اور جو تمام انسانوں کے لئے ہے ۔ لیکن رحیم ایسی رحمت ہے جو نیک لوگوں کے اچھے اعمال کے نتیجہ و جزا میں صرف انھیںپر نازل ہوتی ہے ۔ لہذا امام جعفر صادق ـ کے ارشاد کے مطابق خدا وند عالم تمام مخلو قات کے لئے ''رحمن ''ہے لیکن صرف مو منین کے لئے ''رحیم ''ہے (کتب علی نفسه الرحمة ) (١) اس کی کتاب؟اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دونوں ہی عالم ہستی کے لئے رحمت ہیں : (رحمة للعالمین )(٢)

اس کا نظام تعلیم تربیت رحمت کی بنیاد پر استوار ہے اس کی سزا و عذاب معلم کی چھڑی کی طرح تربیت کے لئے لازمی اور ضروری ہے ۔ گناہوں کی بخشش،اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنا اور ان کے عیوب کو چھپانا ،پچھلی کمیو ں کی تلافی کے لئے فرصت دینا اس کی وسیع رحمت کے جلوے ہیں ۔

در حقیقت عالم ہستی اس کی رحمت کا جلوہ ہے ۔ اس کی طرف سے ہر موجود کو جو بھی پہنچتا ہے اس کا لطف و رحمت ہے ۔ لہذا قرآن کریم کی ساری سورتیں(بسم الله الرحمن الرحیم ) سے شروع ہوتی ہیں ۔

رب العالمین کے سا تھ الر حمن الر حیم یعنی تر بیت الٰہی کی بنیاد رحمت و کرم ہے جس طرح اس کی تعلیم بھی رحم و کرم پر استوار ہے ۔

(الرحمن علم القرآن )(٣) یعنی مہربان خدا نے انسان کو قرآن کی تعلیم دی ہے ۔

یہ ہم انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ استاد اور تربیت دینے والا ہمیشہ مہربان و رحیم ہوناچاہئے ۔

____________________

١۔ انعام ١٢.

٢۔ انبیاء ١۰٧

٣۔ الرحمن ٢.

۱۰۴

مالک یوم الدین

وہ روز جزا ( قیامت ) کا مالک ہے ۔ خدا مالک بھی ہے اور مَلِک بھی۔ عالم ہستی؛ اس کی مالکیت کے تحت مِلک ہے اور مُلک اس کی حکومت و سلطنت کے تحت ہے ۔ اس کی مالکیت بہت وسیع ہے جس میں ساری چیزیں شامل ہیں حتی حکومت بھی اس کی مالکیت کے تحت ہے:

(قل اللّٰهم مالک الملک )(١)

جیسا کہ انسان بھی اپنے اعضائے بدن کا مالک بھی ہے اور ان کا حاکم و فرمانروا بھی ۔

خداوند عالم کی مالکیت حقیقی ہے نہ کہ اعتباری ، فرضی اور بنا ئو ٹی ۔ خدا دنیا کا بھی مالک ہے اور آخرت کا بھی ۔ لیکن چونکہ انسان دنیا میں خود کو اشیاء اورامور کا مالک سمجھتا ہے لہٰذا ان کے اصل مالک ( خدا ) سے غافل ہو جاتا ہے ۔ البتہ اس روز جب تمام اسباب منقطع اور نسبتیں مفقود ہو جائیں گی اور زبانوں پر مہر لگ جائے گی اس وقت خدا کی مالکیت کا اچھی طرح احساس کرے گا اور اس کی سمجھ میں آجائے گاایسے شخص سے خطاب ہوگا (لمن الملک الیوم )آج حکومت کس کی ہے؟ اور جب اس کی آنکھیں کھلیں گی تووہ کہے گا (لله الواحد القهار )(٢)

نمازی ہر نماز میں جویہ کہتا ہے خدا (مالک یوم الدین )ہے اس سے ہمیشہ معاد و قیامت یاد رہتی ہے اور وہ ہرکام کرنے سے پہلے حساب و کتاب اور روز جزا کی فکر کرتا ہے ۔

____________________

١۔ آل عمران ٢٦.

٢۔ مؤمن ١٦.

۱۰۵

لفظ دین

کلمۂ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے :

١) شریعت و قانون الہی : جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

(انّ الدین عند الله الاسلام )(١)

دین ؛ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے ۔

٢) عمل و اطاعت : جیسا کہ قرآن فرماتا ہے (لله الدین الخالص )(٢) دین خالص ( عمل خالص ) خدا کے لئے ہے ۔

٣) حساب و جزا : جیسا کہ آیۂ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے (مالک یوم الدین ) قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ( یوم الدین )ہے ۔ یعنی جزا و سزا کا دن ۔ چنانچہ قرآن مجید قیامت کا انکار کرنے والوں کی بات نقل کر رہا ہے کہ (یسئلون ایان یوم الدین )(٣) یہ پوچھتے ہیں کہ آخر قیامت کا دن کب آئے گا؟

دوسری جگہ پر اسی دن کے تعارف میں فرماتا ہے : (ثم ما ادریٰک ما یوم الدین یوم لا تملک نفس لنفس شیئا و الامر یومئذ لله )(٤)

پھر تمہیں کیا معلوم کہ جزا (قیامت)کا دن کیسا ہے ؟ ! اس دن کوئی کسی کے بارے میں کسی قسم کا اختیار نہ رکھتا ہوگا اور سارا اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہوگا ۔

(مالک یوم الدین )ایک طرح کی دھمکی ہے کہ اے نماز پڑھنے والو ابھی سے کل کی فکر میں رہو ۔ کل کا دن (لا ینفع مال و لا بنون )ہے(٥) جس دن مال اور اولاد کوئی کام نہ آئے گا ۔

____________________

١۔ آل عمران ١٩.

٢۔ زمر ٣.

٣۔ ذاریات ١٢.

٤۔ انفطار ١٩.

٥۔شعراء ٨٨

۱۰۶

ایسا کل کہ (لن تنفعکم ارحامکم )(١) یقینا تمہارے قرابت دار اور تمہاری اولاد روزِ قیامت کام آنے والی نہیں ہے ۔ وہ ایسا کل ہے کہ جس میں نہ زبان کو عذر پیش کرنے کی اجازت ملے گی اور نہ فکر کو تدبیر کرنے کی ، صرف ایک چیز کارساز و چارہ ساز ہوگی اور وہ ہے لطف خدا ۔

(الرحمن الرحیم ) کو (مالک یوم الدین )کے ہمراہ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ڈر اور امید ایک ساتھ ہوں ۔ تشویق و تنبیہ ایک ساتھ ہو ۔

جب کہ قرآن کر یم ایک دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے

(نبیٔ عباد انّ انَا الغفور الرحیم و انّ عذاب هو العذاب الالیم )(٢)

میرے بندوں کو خبر کر دو کہ میں بہت بخشنے والا اور مہربان ہوں اور میرا عذاب بھی بڑا درد ناک ہے ۔

دوسری آیت میں قرآن مجید خدا کو اس طرح سے پہچنوا رہا ہے

(قابل التوب شدید العقاب )(٣)

یعنی خداوند عالم توبہ کا قبول کرنے والا بھی ہے شدید عذاب کرنے والا بھی ہے ۔

بہر حال (الرحمن الرحیم ) امید دینے والا ہے اور (مالک یوم الدین ) ڈرانے والا جملہ ہے ۔ مسلمان کو چاہیئے کہ ڈر اور امید کے درمیان رہے تاکہ نہ تو غرور پیدا ہو اور نہ ہی رحمت الہی سے مایوسی ۔

____________________

١۔ ممتحنہ ٣.

٢۔ حجر ٤٩ ، ٥۰.

٣۔ غافر ٣.

۱۰۷

ایاک نعبد و ایاک نستعین

پروردگار! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ (ایاک نعبد ) یعنی صرف تیرے بندے ہیں ، دوسروں کے بندے نہیں ۔ اس جملہ کے دو رخ ہیں ۔ ایک اس کی بندگی کا اقرار ، دوسرے غیروں کی بندگی سے انکار ۔

جی ہاں ! کامل مکتب ؛ خدا کے ایمان کے ساتھ طاغوت سے بھی انکار کرتا ہے اور جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن طاغوت کی حکمرانی بھی قبول کرتے ہیں وہ لوگ آدھے مسلمان ہیں اور شاید مسلمان ہی نہیں ہیں ۔ خداوند عالم پر ایمان اور اس کے ساتھ طاغوت سے انکار یعنی ایک مسلمان قیدی شرک کے، بھنور میں پھنسنے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یگانگت و قدرت کے مرکز میں پناہ حاصل کرے ۔

لہٰذا نماز پڑھنے والا نماز میں صرف اپنے کو نہیں دیکھتاکہ اپنی فکر میں رہے بلکہ تمام توحید پرستوں کی نمائندگی میں بات کرتا ہے کہ : خدایا ! میں تنہا اس قابل نہیں کہ تیری عبادت کی لیاقت رکھتا اسی لئے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ آیا ہوں اور ہم سب تیری ہی عبادت کریں گے نہ فقط میں ،بلکہ ہم سب لوگ تجھ سے مدد چاہتے ہیں ۔اسی بنا پر اصل میں نماز کوجماعت سے پڑھنا چاہیئے اور فرادیٰ نماز ،توجماعت قائم نہ ہونے پر ہے ۔

اس سے پہلی والی آیتوں نے ہم کو توحید نظری اور خدا کی صحیح شناخت کرائی اور یہ آیت توحید عبادی و عملی کوبیان کر رہی ہے یعنی نہ صرف یہ کہ خدا کو ایک جانو بلکہ عمل میں بھی صرف ایک کی عبادت کرو اور یگانہ پرست رہو ۔

۱۰۸

تم کیوں رحمن و رحیم ، ربّ اور مالک خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی غلامی اختیار کرتے ہو؟! صرف خدا کے بندے رہو نہ مشرق و مغرب کے اور نہ مال و طاقت کے بندے اور نہ ہی طاغوت کے۔ حتی صالح و نیک لوگوں کی اطاعت و بندگی کا بھی تمہیں حق حاصل نہیں ، مگریہ کہ جب خدا اجازت یا حکم دے ۔ چنانچہ اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں فرماتا ہے (مَن یطع الرسول فقد اطاع الله )(١) '' جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کی اس نے خدا کی پیروی کی '' ۔ چنانچہ اگر والدین کی اطاعت کریں اس لئے کہ اس نے حکم دیا ہے تو یہ حقیقت میں خدا کی اطاعت ہے ۔

انسان کو چاہیئے کہ اپنی عقل کی بنا پر فقط خدا کی بندگی قبول کرے ، اس لئے کہ ہم انسان ؛ کمال کے عاشق ہیں اور ترقی و تربیت کے محتاج ،اور خداوند عالم میں تو تمام کمالات پائے جاتے ہیں اور وہ تمام مخلوقات کا ربّ ہے ۔

اگر ہم مہر و محبت کے ضرورت مند ہیں تو وہ رحمن و رحیم ہے ۔

اگر آئندہ کے بارے میں فکر مند ہوں تو وہ صاحب اختیار ہے اور اس دن کا مالک ہے پھر کیوں دوسروں کی طرف جائیں اور ان سے مدد چاہیں ؟ !۔

(ایاک نعبد ) یعنی لوگوں کے ساتھ ہیں لیکن تیرے علاوہ کسی اور کو نہیں چاہتے اور نہ مسلمانوں کے سماج اور معاشرے سے الگ ہوئے ہیںکہ تیری مخلوق کو بھول جائیں اور نہ ہی معاشرے میں ڈوب گئے کہ تجھ خالق کو چھوڑ دیں بلکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی طرف جانے والا راستہ مخلوق کے درمیان سے گزرتا ہے ۔

(ایاک نستعین ) یعنی اگرچہ وہ اسباب اور وسائل جو تو نے دنیا میں قرار دیئے ہیں ، ہم ان کواستعمال کرتے ہیں لیکن یہ جانتے ہیںکہ ہر وسیلہ کا اثر اور سبب کا مؤثرہونا تیرے ہاتھ میں ہے ۔ تو سب کو با اثر یا بے اثر کرنے والا ہے ۔ تو ہر چیز کو سبب بنانے والا ہے اور تو ہی اس کے اثر کو ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ تیرا ارادہ تمام قوانین پر حاکم ہے اور کا ئنات تیرے ارادے کے سامنے محکوم و مجبور ہے ۔

(ایاک نعبد ) یعنی صرف تو عبادت کے لائق ہے اور ہم ڈر اور لالچ کی وجہ سے نہیں

____________________

١۔ نساء ٨۰.

۱۰۹

بلکہ عشق و محبت کی وجہ سے تیری عبادت کرتے ہیں کون سا محبوب تیرے علاوہ ہم سے نزدیک تر اور مہربان تر ہے ؟

(ایاک نعبد و ایاک نستعین )یعنی نہ تو جبر اور نہ ہی تفویض ۔ کیونکہ ہم '' نعبد '' کہتے ہیں پس اختیار کے مالک ہیں اور چونکہ '' نستعین '' کہتے ہیں پس محتاج ہیں اور تمام امور ہمارے اختیار میں نہیںہیں۔

(ایاک نعبد و ایاک نستعین ) یعنی نماز کو جماعت سے پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ایک صف میں بھائی چارگی اور انسانیت کے ساتھ متحد ہیں ۔

(ایاک نعبد ) یعنی خدایا تجھ کو ہم اپنے اوپر حاضر و ناظر سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہتے ہیں ( ایاک ) اور وہ بندے جو تجھے حاضر و ناظر سمجھتے ہیں وہ جلدی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

ہم سورۂ حمد کے شروع میں خدا سے غائبانہ باتیں کر رہے تھے لیکن یہاں پر اس کے سامنے اور براہ راست منزل خطاب میں پہنچتے ہیں ۔ پہلے خدا کی صفات سے آگاہ ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ خود اس تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی صرف ایک مرتبہ نہیں چونکہ محبوب سے گفتگو شیریں ہوتی ہے اس لئے لفظ (ایاک) کی تکرار کرتے ہیں ۔

۱۱۰

خدایا ! اگر چہ عبادت ہم کررہے ہیںلیکن عبادت کرنے میں بھی تیری مدد کے حاجتمند ہیں :

(و ما کنا لنهتد لولا انْ هدٰنا الله )(١)

اور اگر اس ( خدا ) کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم یہاں تک آنے کا راستہ نہیں پا سکتے تھے۔

اگرچہ ہم صرف اسی سے مدد چاہتے ہیں لیکن دوسروں سے مدد حاصل کرنا اگر اس کی مرضی سے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ بالکل اس طرح جیسے انسان اپنی استعداد ، طاقت اور فکر سے مدد لیتا

ہے یہ وحدانیت کے خلاف نہیں ہے خدائے تعالیٰ نے خود ہم کو حکم دیا ہے (تعاونوا ) اس لئے کہ زندگی مدد کے بغیرممکن نہیں ہے۔

حضرت علی ـ نے ایک شخص سے (جو یہ دعا کر رہا تھا کہ خدایا ہم کو لوگوں کا محتاج نہ کر نا) فرمایا : یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ یہ کہو خدایا ہم کو برے لوگوں کا محتاج نہ کر نا، اس لئے کہ زندگی بغیر مدد اور تعاون کے ممکن نہیںہے ۔

سچے دل سے (ایاک نعبد )کہنے والے میں تکبر و غرور اور خود پسندی نہیں رہتی اور وہ خدا کے حکم کے آگے خاضع اور اس کی اطاعت کرنے والا ہے ۔ وہ یہ جانتا ہے کہ خدا وند متعال نے کیو نکہ بہت زیادہ اس پر لطف کیا ہے لہٰذا آخری حد تک اپنے کو حقیر بنا کے اس کی بارگاہ میں پیش کرے جیسے مجسم غلام اپنے مطلق آقا کے سامنے کھڑا ہو اور نہایت خضوع کے ساتھ کہے کہ : ہم تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا مولا و آقا ۔ تیرے علاوہ ہمارا کوئی نہیں لیکن تیرے لئے ہمارے علاوہ بہت ہیں ۔ تجھ کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں بلکہ ہم سراپا تیرے لطف و کرم کے محتاج ہیں لہٰذاضروری ہے کہ ہم تجھ ہی سے مدد مانگیں ۔

____________________

١۔اعراف ٤٣.

۱۱۱

اھدنا الصراط المستقیم

خداوندا !ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما ۔ کاروان ہستی خداوند عالم کی طرف رواں دواں ہے ۔ (الیه المصیر )(١) اور انسان بھی کوشش اور حرکت میں ہے (انک کادح الی ربک )(٢) اور ہر حرکت میں صرف ایک راستہ سیدھا ہوتا ہے باقی راستے منحرف کرنے والے ہوتے ہیں، اسلام نے اس حرکت کے لئے راستہ بھی معین کیا اور راستہ دکھانے والا بھی ، جہاں جانا

____________________

١۔ مائدہ ١٨.

٢۔ انشقاق ٦

۱۱۲

ہے اس کو بھی مشخص کیا اور آگے بڑھنے کا وسیلہ بھی انسان کے اختیار میں دیدیاالبتہ یہ ہم خودطے کریں کہ ہمیں کس راستہ پر جانا ہے۔

پروردگار عالم نے انسان کی فطرت میں ترقی و کمال اور حق طلبی کی چاہت کو راسخ کر دیا ہے اگر یہ چاہت و کشش انبیاء کی تعلیمات کے سائے میں پروان چڑھے تو خداوند عالم کی خاص عنایت کا باعث ہوگی (و الذین اهتدوا زادهم هدیً )(١) اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کر لی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا اور ان کو مزید تقویٰ عنایت فرما دیا ۔ ''

قرآن کریم دو طرح کی ہدایت بیان کرتا ہے ایک ہدایت ِ تکوینی جیسے شہد کی مکھی کی ہدایت کہ پھولوں سے کیسے رس چوسے اور شہد بنائے اور دوسری ہدایت تشریعی ہے جو انسانوں سے مخصوص ہے ۔ یہی ہدایت انبیاء الٰہی کی رہنمائی ہے ۔

صراط مستقیم کونسا راستہ ہے ؟

لفظ صراط، قرآن مجید میں ٤۰ بار سے زیادہ آیا ہے ۔ اس کے معنی : ہموار ، وسیع ، روشن اور چوڑے راستہ کے ہیں ۔ انسان کی زندگی میں متعددراستے موجود ہیں، جن میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ضروری ہے۔

اپنی ہوس کا راستہ ، لوگوں کی ہوس کا راستہ ، طاغوت کا راستہ ، قومی اور نسلی تعصبات کی وجہ سے اپنے اسلاف کا راستہ ، شیطانی وسوسوں کا راستہ ، غیر مجرّب راستہ اور بالآخر خدا اور اولیائے خدا کا راستہ۔

فطری بات ہے کہ خداوند متعال پر اعتقاد رکھنے والا انسان اتنے راستوں میں سے صرف خدا اور اولیائے خدا کے راستہ کا انتخاب کرتا ہے ۔ اس لئے کہ اس راستہ میںایسی خصوصیتیں مو جود

____________________

١۔ محمد ١٧.

۱۱۳

ہیں جو دوسرے راستوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔

٭ یہ سیدھا راستہ ہے جودو نقطوں کے درمیان سب سے چھوٹا راستہ ہے ۔ لہذا مقصد تک پہنچنے کے لئے یہی راستہ سب سے نزدیک راستہ ہے ۔

٭ اللہ کا راستہ ثابت ہے ۔ دوسرے راستے، اپنی یا دوسروں کی ہویٰ و ہوس کی خاطر بدلتے رہتے ہیں ۔

٭ سیدھا راستہ ایک سے زیادہ نہیں ہے اس لئے کہ دو نقطوں کے درمیان صرف ایک سیدھی لکیر ہوتی ہے ۔ لیکن دوسرے راستے زیادہ ہیں ۔

٭ دوسرے راستوں کے بر خلاف مطمئن او ربے خطر راستہ ہے کیو نکہ ان میں انسان ہمیشہ پھسلنے کے خطرے سے دوچار ہتاہے ۔

٭ ایسا راستہ ہے جو انسان کو مقصد یعنی رضائے خدا تک پہنچاتا ہے اس میں شکست اور نا کامی کا وجود نہیں پایا جاتا ۔

٭ سیدھا راستہ ، خدا کا راستہ ہے (انّ رب علی صراط مستقیم )(١)

٭ سید ھا راستہ انبیاء کا راستہ ہے(انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم )(٢ )

٭ سید ھا راستہ ، خدا کی بندگی کا راستہ ہے (و ان اعبدون هذا صراط مستقیم )(٣)

٭ سید ھا راستہ ، خدا پر توکل و انحصار ہے (و مَن یعتصم بالله فقد هُد الی صراط مستقیم )(٤)

انسان کو چاہیئے کہ راستہ کے انتخاب میں بھی خدا سے مدد مانگے اور اس پر چلنے اور باقی

____________________

١۔ ہود ٥٦.

٢۔ یٰس ٣، ٤

٣۔ یٰس ٦١.

٤۔ آل عمران ١۰١

۱۱۴

رہنے میں بھی ۔ جیسے بلب کو جلنے کے لئے ہر وقت ٹرانسفارمر سے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لہذا صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ خاصان خدا کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہر نماز میں صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی دعا خدا سے کریں ۔ نہ صرف نماز کی حالت میں بلکہ ہر حال میں اور ہر کام میں ، چاہے کسی کام کا انتخاب ہو یا کسی دوست کا انتخاب ، شادی کا مسئلہ ہو یا حصول علم کا ، ہمیشہ خدا سے چاہیں کہ ہم کو صراط مستقیم پر قرار دے ۔

اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ عقا ئد میں تو انسان کی فکر صحیح ہولیکن عمل میں لغزش پیدا ہو جائے یا اس کے برعکس ۔

٭ صراط مستقیم اعتدال اور میانہ روی کا راستہ ہے ۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں :

'الیمین و الشمال مضلة و الطریق الوسطیٰ هی الجادة ''(١)

یعنی دائیں بائیں انحراف ہے اور سعادت کا راستہ درمیانی ہے ۔

٭ صراط مستقیم یعنی ہر قسم کی افراط و تفریط سے دوری ، نہ تو حق سے انکار اور نہ حق میں غلو ، نہ جبر اور نہ تفویض، نہ فرد اصل ہے اور نہ سماج سب کچھ ہے ، نہ فقط عقل اور ذہن و خیال اور نہ فقط عمل ، نہ دنیا پرستی اور نہ آخرت سے دوری ، نہ حق سے غفلت اور نہ خلق سے غفلت ، نہ فقط عقل اور نہ فقط جذبات ، نہ پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دینا اور نہ شہوتوں میں غرق رہنا، نہ کنجوسی اور نہ اسراف ، نہ حسد اور نہ ہی چاپلوسی ، اور نہ ڈرا ور نہ ہی با لکل بے باکی وغیرہ وغیرہ ۔

بلکہ عقیدہ ہو یا فکر وعمل ہو اور یا کردار ، ہر جگہ میانہ روی کا راستہ منتخب کریں ۔

سیدھے راستہ پر چلنے کے لئے ہمیشہ خدا سے مدد مانگیں اس لئے کہ یہ راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے اور ہر وقت گرنے کا خطرہ لاحق ہے ۔ جو شخص یہ چاہتا ہے

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨٧ صفحہ ٣.

۱۱۵

کہ صراط قیامت کو پار کرلے وہ پہلے دنیا میں اللہ کے سید ھے راستہ سے منحرف نہ ہو ۔ چاہے وہ انحراف فکری ہو یا عملی اور یا اخلاقی انحراف ہو۔

کو ئی جبر کا قائل ہو جاتا ہے اور سارے کاموں کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے گویا انسان بے ارادہ اور بے اختیار ہے اور وہ اپنی عاقبت میں کوئی اثر نہیں رکھتا اور دوسرا اپنے ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے ۔ جو دل چاہے وہ کرتا ہے خدا کے ہاتھ میں کچھ نہیں جانتا ۔ ایک آسمانی رہبروں کو عام لوگوں کی طرح سمجھتا ہے اور دوسرا ان کوخدا کے برابر بلند کرتا ہے اور حضرت مسیح ـ کو خدا کا بیٹا بلکہ خدا ہی سمجھتا ہے۔

ایک اولیائے خدا کی زیارت اور ان سے توسل کو شرک جانتا ہے دوسرا حتی درخت اور دیوار سے بھی متوسل ہوتا ہے ۔ ایک بے جا غیرت کی بنا پر اجازت نہیں دیتا کہ اس کی بیوی گھر سے باہر نکلے ۔ دوسرا بے غیرتی کی بنا پر اپنی بیوی کو بے پردہ کوچہ و بازار میں بھیجتا ہے ۔ یہ سب خدا کے سیدھے راستہ سے انحراف ہے ۔ خدا ارشاد فرماتا ہے : آپ کہہ دیجیئے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھے راستہ کی ہدایت دی ہے جو ایک مضبوط دین ہے (قل انن هدیٰن رب الی صراط مستقیم دینا قیما )(١)

دوسری جگہ پر ارشاد فرماتا ہے کہ : ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تا کہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو (جعلنا کم امة وسطا لتکونوا شهداء علی الناس )(٢)

روایتوں میں آیا ہے کہ ائمہ معصومین ٪ فرماتے ہیں کہ مستقیم راستہ ہم ہیں ۔یعنی صراط مستقیم کے حقیقی اور عملی نمونے اور اس راستہ پر چلنے کیلئے آسمانی رہبرہمارے لئے نمو نہ ٔ عمل ہیں۔

____________________

١۔ انعام ١٦١.

٢۔ بقرہ ١٤٣.

۱۱۶

انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے تمام مسائل جیسے کام کاج ،تفریح ،تعلیم، تنقید، انفاق ، محبت ، غصہ اور صلح کے مواقع پرہم کو اعتدال اور میانہ روی کی تاکید فرمائی ہے ۔ اصول کافی کے باب ''الاقتصاد ف العبادات '' میں یہ احکام و تاکیدات آئی ہیں ۔

ہم یہاں پر ان آیات اور روایات کے کچھ نمونے جن میںاعتدال کی تاکید اور افراط و تفریط سے منع کیا گیا ہے ،پیش کر رہے ہیں :

(کلوا و اشربوا و لا تسرفوا )(١) کھاؤ اور پیولیکن اسراف نہ کرو ۔

(لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط )(٢) اور خبردار ! اپنے ہاتھوں کو گردنوں سے بندھا ہوا قرار نہ دو اور نہ بالکل پھیلا دو ۔ یعنی انفاق میں نہ تو ہاتھ بند رکھو اور نہ ہی اتنا خرچ کروکہ خود بھی محتاج ہو جاؤ ۔

(الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما )(٣) اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔

(لا تجهر بصلوتک و لا تخافت بها و ابتغ بین ذلک سبیلا )(٤) اور اپنی نمازوں کو نہ چلّا کر پڑھو اور نہ بہت آہستہ آہستہ بلکہ دونوں کا درمیانی راستہ نکالو ۔

(و الذین معه اشدآء علی الکفار رحمآء بینهم )(٥) اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں ۔

____________________

١۔ اسراء ٢٩

٢۔ فرقان ٦٧.

٣۔ اسراء ١١۰

٤۔ فتح ٢٩

٥۔ اعراف ٣١.

۱۱۷

(اقیموا الصلاة و آتوا الزکاة )(١) نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو ۔ یعنی اللہ سے بھی رابطہ رکھو اور مخلوق سے بھی مربوط رہو ۔

(الذین آمنوا و عملوا الصالحات )(٢) اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ۔ یعنی ایمان اورقلبی یقین کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی ہو ۔

اگرچہ قرآن فرماتا ہے (و بالوالدین احسانا )(٣) اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو لیکن دوسری جگہ پر ارشاد فرماتا ہے : '' اگر تم کو خدا کے راستہ سے روکیں تو انکی اطاعت کرنا جائز نہیں '' (فلا تطعهما )(٤)

حق بیانی سے نہ تمہاری دوستیاں تم کو روکیں (شهداء لله ولو علی انفسکم )(٥) اور نہ تمہاری دشمنیاں تم کو عدالت سے دور کریں (و لا یجر منکم شنئان قوم علی ان لا تعدلوا )(٦)

امام حسین ـ شبِ عاشور خدا سے مناجات بھی کر رہے تھے اور شمشیر بھی تیز کر رہے تھے ۔

حاجی حضرات روز عرفہ اورشبِ عید قربان دعا پڑھتے ہیں اور عید قربان کے روز ضروری ہے کہ قربان گاہ میں جاکر قربانی اور خون دینے کے مزہ سے آگاہ ہوں ۔

مختصر یہ کہ دین اسلام کا صرف ایک ہی رخ نہیں ہے کہ کسی ایک پہلو پر توجہ کی جائے اور دوسرے پہلو کو فراموش کردیا جائے بلکہ اس نے انسانی وجودکے تمام پہلووںپر اعتدال ا ور میانہ روی کے ساتھ توجہ کی ہے ۔

____________________

١۔ بقرہ ٤٣.

٢۔ بقرہ ٨٢

٣۔ بقرہ ٨٣.

٤۔ عنکبوت ٨

٥۔نساء ١٣٥.

٦۔ مائدہ ٨.

۱۱۸

صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم و لاالضآلین

''جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کیں ہیں ،ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں ''۔

نماز پڑھنے والا صراط مستقیم کی درخواست کے ساتھ خدا سے چاہتا ہے کہ اس کو اسی راستہ کی ہدایت کرے جو اللہ کی نعمت پانے والوں کا راستہ ہے ۔

قرآن کریم سورۂ نساء کی ٦٩ ویں آیت اور سورۂ مریم کی ٥٨ ویں آیت میں ایسے لوگوں کا تعارف کراتا ہے ۔

یہاں پر ہم سورۂ نساء کی ٦٩ ویں آیت کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں (و من یطع اللہ و الرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین و الصدیقین و الشھداء و الصالحین و حسن اولئک رفیقاً ) اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کیں ہیں ۔ یہ لوگ انبیاء ،صدیقین ، شہدا، اور صالحین ہیں اور یہی بہترین رفقاء ہیں ۔

پس اسی بناء پر نماز پڑھنے والا خدا سے یہ چاہتا ہے کہ اس کو انبیاء و شہداء اور صالحین کے راستہ پر قرار دے ۔ ان نیک او رپاک لوگوں کے راستہ پر چلنے کی آرزو انسان کو کجروی او ربے راہ روی کے خطرہ سے محفوظ رکھتی ہے ،اور اس سے ان لوگوں کی یاد نماز پڑھنے والوں کے ذہن میں مستقل زندہ رہتی ہے ۔

گمراہ اور جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا وہ کون لوگ ہیں ؟

قرآن مجید میں فرعون ، قارون ، ابولہب اور عاد و ثمود اور بنی اسرائیل جیسی اقوام کو ان لوگوںکے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے جن پر قہر الٰہی نازل ہو ا ہے ۔ ہم ہر نماز میں خداوند متعال سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے عقیدہ اور اخلاق و عمل میں ان لوگوں اور ان قوموں کی طرح نہ ہوں جن پر اللہ کا قہر نازل ہوا ہے ۔

۱۱۹

بنی اسرائیل ، جن کی داستان اور حالات و رسومات کو قرآن مجید میں زیادہ بیان کیا گیا ہے ، یہ لو گ ایک وقت اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت رکھتے تھے ۔ خدا وند عالم ان لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے (فضلتکم علی العالمین )(١) ہم نے تم کو عالمین پر فضیلت دی ۔ لیکن اتنی فضیلت و برتری کے بعد بھی ان کے غلط کردار و عمل کی وجہ سے خدا وند عالم نے ان پر اپناغضب نازل کردیا ۔ قرآن اس بارے میں فرماتا ہے : (وبائ و بغضب من الله )(٢) ان کی اس عاقبت و انجام کی تبدیلی ان کے عمل و کردار کی تبدیلی کی وجہ سے تھی۔

یہودی علماء نے توریت کے آسمانی احکام میں تحریف کر دی(یحرفون الکلم )(٣) ان کے تاجروں اور ثروت مندوں نے سود خوری اور حرام خوری شروع کردی(و اخذهم الربائ )(٤) اور پوری قوم نے ڈر اور جان بچانے کی خاطر جہاد اور لڑائی سے منہ موڑ لیا اور حضرت موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا خدا جنگ کرنے کے لئے جاؤ ہم یہیں بیٹھے ہیں (فاذهب انت و ربک فقاتلا انا هیٰهنا قاعدون )(٥)

یہی فکری و عملی انحراف باعث بنا کہ خدا نے ان کو عزت کی بلندی سے ذلّت کی کھائی میں پھینک دیا اور ہمیشہ کے لئے شرمندگی سے ان کی گردنوں کو جھکا دیا ۔ پس ہر نماز میں خدا سے یہی دعا کریں کہ آسمانی کتاب کی تحریف کرنے والوں میں سے نہ ہوں اور نہ ہی سود کھانے والوں اور نہ

____________________

١۔بقرہ ٤٧.

٢۔ بقرہ ٦١.

٣۔ مائدہ ١٣.

٤۔ نساء ١٦١.

٥۔ مائدہ ٢٤.

۱۲۰