نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر0%

نماز کی تفسیر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

نماز کی تفسیر

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 66466
ڈاؤنلوڈ: 2548

تبصرے:

نماز کی تفسیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66466 / ڈاؤنلوڈ: 2548
سائز سائز سائز
نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر

مؤلف:
اردو

جنگ و جہاد سے بھاگنے والوں میں سے ہوں اور نہ گمراہوں میں سے ہوں اور نہ ان لوگوں میں سے جو راستہ بھٹکنے والے کی طرح پریشان حال اور سرگردانی میں مبتلا ہیں اور ہر وقت کسی مقصد کے بغیر کسی بھی طرف چل دیتے ہیں ۔ یہ لوگ حالات کے ساتھ بد لتے رہتے ہیں اورخود اپنے اوپر اختیار نہیں رکھتے ہیں ۔

(ضآلین ) نہ تو (انعمت علیهم ) کی طرح ہیں جو انبیاء اور نیک لوگوں کے راستہ پر ہوں اور نہ ہی (المغضوب علیهم ) کی طرح ہیں جو دین خدا کے مقابلہ میں سینہ تان کر جنگ کرتے ہیں بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو لا پر واہ ، بے درد او رآرام طلب ہیں اور جانوروں کی طرح صرف پیٹ اور شہوت کی فکر میں ہیں ۔ حق و باطل سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ۔ ان کے لئے کچھ فرق نہیں کہ پیغمبران پر حاکم ہوں یا طاغوت اور سرکش ۔ اہم یہ ہے کہ ان کے لئے دنیاوی عیش و آرام ہو ، چاہے جو بھی حکومت کرے ۔ ایسے لوگ گمراہ ہیں اس لئے کہ انہوں نے اپنا راستہ معین نہیں کیا ۔

یہ آیت مکمل طور سے تولّا اور تبرّا کی مصداق ہے ۔

نماز پڑھنے والا سورہ کے آخر میں شہداء اور صالح لوگوں سے اپنے عشق و محبت اور تولّا کا اظہار کرتا ہے اور تاریخ کے گمراہوں اور جن پرغضب ِ خدا نازل ہواہے ان سے برائت اور دوری اختیار کرتا ہے ۔ گمراہوں اور قہر کا نشانہ بننے والوں سے ہر نماز میں اظہار نفرت ہی اسلامی معاشرے کو ایسے لوگوں کی حکومت کے مقابلہ میں مضبوط اور پائدار بناتا ہے۔ قرآن مجید تاکید فرماتا ہے : (لا تتولوا قوما غضب الله علیهم )(١) خبر دار اس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جس پر خدا نے غضب نازل کیا ہے ۔ ''

____________________

١۔ ممتحنہ ١٣.

۱۲۱

پانچواں باب

سورئہ توحید

سورئہ توحید کی فضیلت

نماز میں سورئہ حمد کے بعد قرآن مجید کا کوئی دوسرا سورہ پڑھنا ضروری ہے ،البتہ نماز پڑھنے والے کو اختیار ہے کہ کوئی بھی سورہ پڑھے ، مگر ان چار سوروں کے علاوہ جن میں سجدہ واجب ہے ۔ لیکن تمام سوروں کے درمیان سورئہ توحید کو فوقیت حاصل ہے ،لہذا روایتوں میں تاکید ہوئی ہے کہ رات دن کی نمازوں میںکم از کم کسی ایک رکعت میں اس سورہ کو پڑھو تاکہ واقعی نماز پڑھنے والوں میں قرار پاؤ۔(١)

یہ سورہ ایک تہائی قرآن بلکہ ایک تہائی توریت و زبور اور انجیل کے برابر اہمیت رکھتا ہے ، نہ صرف نماز میں بلکہ اگر اسے نماز کے بعد بھی تعقیبات نماز کے عنوان سے پڑھا جائے تو خداوند عالم انسان کو دنیا و آخرت کی خیر مرحمت فرماتا ہے ۔اگرچہ یہ سورہ چھوٹاہے لیکن اس کے معنی اور اس مضمون بہت بلندہے ۔ جیسا کہ امام سجاد نے فرمایا ہے چونکہ خدا جانتا تھا کہ آئندہ زمانوں میں دقیق اورعمیق لوگ پیدا ہوں گے لہذا اس نے اس سورہ کو اور سورئہ حدید کی ابتدائی آیتوں کو نازل کیا ہے ۔

صرف نماز ہی میں اس سورہ کی تلاوت کرنے کی تاکید نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کی بار بار تلاوت کرنے سے ظالموں کا شر کم ہوتا ہے اور حوادث و خطرات سے انسان کا گھر محفوظ رہتا ہے ۔

سعد بن معاذ ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لشکر کے سرداروں میں سے

____________________

١۔ اس سورہ کی اہمیت و فضیلت کی روایتیں تفسیر برہان میں ذکر ہوئی ہیں ۔ ہم یہاں پر صرف ان روایتوں کے چند گوشوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں

۱۲۲

تھے جو مدینہ کے قبرستان بقیع میں دفن ہیں ۔ ان کی تشییع جنازہ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پا برہنہ شرکت کی اور فرمایا : نوے ہزار فرشتے آسمان سے سعد کی تشییع جنازہ کے لئے آئے ہیں۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت جبرئیل ـ سے پوچھا تم اور اتنے فرشتے سعد بن معاذ کی تشییع جنازہ کے لئے کیوں نازل ہوئے ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے ؟ جناب جبرئیل ـ نے کہا وہ اٹھتے ، بیٹھے ، سوار اور پیدل ہر حال میں سورئہ (قل ہو اللہ احد )کی تلاوت کرتے تھے ۔

اس کی شان نزول یہ ہے کہ یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خدا کے بارے میں یہ مطالبہ کیا کہ آ پ اپنے خدا کو پہچنوائیے۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے جواب میں اس سورہ کی تلاوت کی، یہ سورہ گویا خدائے تعالیٰ کا شناختی کارڈ ہے ۔

قل ہو اللہ احد

'' اے رسول ! کہہ دیجئے کہ خدا ایک ہے ''۔

توحید تمام آسمانی ادیان کی بنیادا ور اصل ہے اور انبیاء اس لئے آئے ہیںتاکہ شرک اور کفر و بت پرستی کے اثرات کو درمیان سے ہٹا دیں اور لوگوں کو ایک خدا کی طرف دعوت دیں ۔

توحید : انبیاء کی تعلیمات کی روح و جان ہے ۔ نہ صرف عقائد بلکہ احکام و اخلاق بھی توحید کے محور پر قائم ہیں ۔

توحید : ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے ۔ بغیر توحید کے ایمان کے قلعہ میں داخل ہونا ممکن نہیں ''قولوا لا اله الا الله تفلحوا ''(١) اور ''لا اله الا الله حصن فمن دخل حصن امن من عذاب ''(٢)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ١٨ صفحہ ٢۰٢

٢۔ بحار الانوار جلد ٣ صفحہ ١٣.

۱۲۳

اس سورہ میں خالص ترین توحیدی عقائد ہیں ۔ اسی لئے اس کو سورئہ اخلاص بھی کہتے ہیں ۔ یہ سورہ عیسائیوں کے عقیدئہ تثلیث ( تین خداؤں ) کو ردّ کرتا ہے ۔ یہودیوں کے شرک اور جاہل عربوں کے عقیدہ کو بھی ردّ کرتا ہے جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاںکہتے تھے ۔

توحید : یعنی خدا کے لئے ساتھی اور شریک قرار دینے سے اپنے عمل اور فکر کو خالص کرنا تاکہ فکر میں شرک اور عمل میں دکھاوانہ آئے بلکہ ارادہ اور مقصد صرف خدا کے لئے ہو اور خود عمل بھی الہی و خدائی ہو ۔

(قل هو الله احد ) وہ یکتا ہے جس کا دوسرا کوئی نہیں ، کوئی اس کی طرح اور اس جیسا نہیں ۔ اس کا جز اور عضو نہیں ۔

(قل هو الله احد ) وہ ایسا معبود ہے جو ہر لحاظ سے منفرد ہے لہٰذا بشر اس کی ذات کو سمجھنے سے عاجز ہے ۔

اس کی یکتائی اور وحدانیت کی دلیل یہ ہے کہ اگر دوسرا خدا ہوتا تو وہ بھی پیغمبروں کو بھیجتا تاکہ اس کو بھی لوگ پہچانیں اور اس کی اطاعت کریں ۔

اس کی وحدانیت کی دلیل یہ ہے کہ تمام انسان خطرے کے وقت صرف ایک مرکز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ صرف ایک مرکز ہے جو مشکلات میں انسان کو امید دیتا ہے ۔

اس کی یکتائی کی دلیل زمین و آسمان ، عالم ہستی اور انسان کے درمیان ہم آہنگی کا ہونا ہے اور یہ کہ تمام مخلوقات کے درمیان گہرا اور منظم رابطہ ہے ۔

اگر آپ ایک تصویر بنانے کے لئے کچھ مصوروں سے کہیں مثلاً ایک سے کہیں کہ مرغ کا سر بنائے دوسرا اس کا بدن اور تیسرا اس کی دم اور اس کے پیر بنائے جس وقت ان تینوں تصویروں کو ایک ساتھ جمع کریں گے تو اس کے سر اور دھڑ کے درمیان تناسب نہیں ہوگا۔ ایک چیز بڑی دوسری چھوٹی ، ایک خوبصورت اور ایک بد صورت ۔

۱۲۴

جی ہاں ! سورج ، چاند ، زمین ، پانی ، ہوا ، مٹی ، پہاڑ ، صحرا ، دریا ان سب کا انسان کی ضرورت کے مطابق ہم آہنگ ہونا خداکی یکتائی و وحدانیت کی دلیل ہے ۔ انسان آکسیجن لیتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتا ہے ۔ درخت کاربن ڈائی آکسائڈ لیتے ہیں اور آکسیجن چھوڑتے ہیں تاکہ انسان اور دوسری زندہ مخلوق کی ضرورت پوری ہو اور یہ ہم آہنگی انسان اور درخت کی زندگی کا راز ہے ۔

وہ ( خدا ) نو مولو د بچے کی ضروریات کو والدین کی محبت سے پوری کرتا ہے ۔ دن کی تھکاوٹ کو رات کی نیند سے دور کرتا ہے ۔ آنکھوں کے پانی کو کھارا اور منہ کے پانی کو میٹھا خلق کیا تاکہ ایک سفید رگوں سے بنی آنکھ کو نمک کے پانی سے دھوئے اور ایک کھانے کو چبانے اور ہضم کرنے کے لئے آمادہ کرے ۔ نو مولود کو پھونکنے کے بجائے چوسنا سکھایا اور اس کے پیدا ہونے سے پہلے ماں کے سینے میں دودھ پیدا کیا ۔ بعض پرند وںکی غذا مگرمچھ کے دانتوں کے درمیان قرار دی اور تمام جانوروں کارزق اچھی طرح فراہم کیا ۔

ایک بدو عرب نے جنگ جمل میں حضرت علی ـ سے توحید کے معنی پوچھے ۔ دوسرے فوجیوں نے اس پر اعتراض کیا کہ اس سوال کے پوچھنے کا یہ وقت نہیں ہے !لیکن حضرت نے اس جنگ کے ہنگامہ میں اس کو توحید کے معنی اوراس کی تفسیر بتائی اور فرمایا: ہم اسی معنی کی وجہ سے مخالفین سے جنگ کر رہے ہیں ۔(١) جی ہاں پوری تاریخ میں پیروان حق کی جنگ اسی توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے تھی ۔

____________________

١۔ تفسیر نور الثقلین جلد ٥ صفحہ ٧۰٩.

۱۲۵

اللہ الصمد

'' اللہ بے نیاز ہے ''۔

'' صمد '' : یعنی جس میں کوئی نفوذ نہ کر سکے ۔ جس میں خلل واقع نہ ہو جو متغیر نہ ہو ۔

وہ صمد ہے :پس مادہ نہیں ہے اور نہ ہی مادہ سے ہے ۔ اس لئے کہ ہر مادی چیز میں زمانہ گزرنے کے ساتھ خلل اور تغیر پیدا ہوتا ہے لہذا وہ نہ تو جسم رکھتا ہے جسے آنکھوں سے دیکھا جاسکے اور نہ ہی قوت جاذبہ کی طرح ہے کہ جو دکھائی نہیں دیتی لیکن مادی خاصیت رکھتی ہے ۔

وہ صمد ہے : جسکی قدرت میں کوئی نفوذ نہیں کر سکتا مگراس کا ارادہ ہر چیز میں نافذ و جاری ہے۔

وہ صمد ہے : اس کی عزت میں خلل واقع نہیں ہوتا اور تمام عزتیں اسی سے ہیں ۔ جو بھی عزت و قدرت رکھتا ہے وہ اسی کی دی ہوئی ہے اور وہ کسی شخص یا کسی چیز کا محتاج نہیں لیکن ساری چیزیں اس کی محتاج ہیں ۔

وہ صمد ہے : اس کی ہستی کامل و اکمل ہے بلکہ مکمل کمال ہے ۔ اس میں تمام کمالات ،کمال کی آخری بلندی کے ساتھ موجود ہیں ۔ تمام موجودات، کمال تک پہنچنے کے لئے اس کی نظرِ لطف و کرم کے محتاج ہیں لیکن وہ کسی موجود کا محتاج نہیں وہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا ۔ اس کا حکم تمام حکموں کے اوپر اس کا ارادہ تمام ارادوں پر حاکم ہے ۔ اس کو نہ سونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کام کے انجام دینے میں کسی مدد یا مددگار کا محتاج ہے ۔

وہ صمد ہے : ایک جملہ میں : سب اس کے نیاز مند ہیں ۔

۱۲۶

لم یلد و لم یولد

'' اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ والد ''۔

وہ موجودات کا خالق ہے نہ کہ ان کو جنم دینے والا ۔ اس کا کام جننا نہیں ہے کہ وہ اپنے جیسے کووجود میں لائے بلکہ وہ عدم سے وجود میں لانے والا ہے ، ماں جس بچہ کو پیدا کرتی ہے وہ بچہ اسی کی جنس سے اوراسی کی طرح یعنی انسان ہوتا ہے لیکن خدا کے لئے مثل و شبیہ کا امکان نہیں کہ خدا اسکو پیدا کرے یا خودکسی سے پیدا ہو (لیس کمثله شیئٍ )(١)

یہ جملہ عیسائیوں کے عقیدہ کے مقابلہ میں ہے جو حضرت عیسیٰ ـ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور انکے لئے خدا کی طرح خدائی کے قائل ہیں ۔ اسی طرح یہ آیت مشرکوں کے عقیدہ کے مقابلہ میں بھی ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاںکہتے تھے اور آیت یہ بتاتی ہے کہ خدا نے کسی بچہ کو جنم ہی نہیں دیا جو لڑکا ہوتا یا لڑکی ہوتی۔

وہ کسی سے پیدا نہیں ہو ا ہے کہ اس کو پیدا کرنے والا اس سے پہلے یا اس سے برتر ہو ۔

اس کا وجود پھول سے پھل اوربیج سے درخت کے نکلنے کی طرح نہیں ہے یا بادل سے پانی یا لکڑی سے آگ نکلنے کی طرح نہیں ہے ۔ یا منہ سے بات اور یا قلم سے تحریر کے نکلنے کی طرح نہیں ہے ۔ یا پھول سے خوشبو یا کھانے سے مزہ نکلنے کی طرح نہیں ہے ۔ یا عقل سے فکر یا دل سے سمجھ یا آگ سے گرمی یا برف سے سردی کے نکلنے کی طرح نہیں ہے ۔ وہ ہے لیکن کسی چیز اور کسی شخص سے مشابہ نہیں ہے ۔ نہ وہ کسی چیز میں ہے اور نہ اس میں کوئی چیز ۔ چیزوں سے اس کا رابطہ باپ اور بیٹے کی طرح نہیں ہے بلکہ خالق اور مخلوق کا رابطہ ہے ۔

____________________

١۔ شوریٰ ١١.

۱۲۷

و لم یکن لہ کفواً احد

'' اور نہ اس کا کوئی کفو اور نہ کوئی ہمسرہے ''۔

وجود ، کمال اور افعال میں کوئی اس کے جیسا نہیں ۔ وہ احد ہے اور کوئی اس کے ہم پلہ نہیں ۔ وہ اکیلا ہے بیوی اور بچے نہیں رکھتا ۔ وہ اپنا مثل نہیں رکھتا کہ جو اس کا شریک اور اس کا معاون و مددگار ہو ۔

پھرانسان یہ کیسے ہمت کرتا ہے کہ اس کی مخلوق کو اس کا شریک جانے اور اس کے حق میں اتنے بڑے ظلم کا مرتکب ہو (ان الشرک لظلم عظیم )(١)

اے نماز پڑھنے والو ! نہ اس نعمت میں جو خدا کی طرف سے تم کو ملتی ہے ، کسی کو اس کا شریک سمجھو اور نہ اس کام میں جس کو تم انجام دے رہے ہو ، خدا کے علاوہ کسی کو مد نظر رکھو ۔ کیوں کسی ایسے کی نظر کرم کی فکر میں ہو جو تمہارے جیسا ضعیف و محتاج ہے؟! ۔

خدا کی توجہ اور عنایت کو حاصل کرنے کی کوشش میں رہو ۔ کوئی اس کی طرح نہیں ہے نہ وہ ضعیف ہے اور نہ محتاج ۔

سورہ کے آخر میں ہم اسکے بلند مفا ہیم کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

(قل هو الله احد ) وہ تن تنہا ہے ۔ ذات میں بھی اور صفات میں بھی ۔ پس معبود ہونے کی لیاقت رکھنے میں بھی وہ یکتا و یگانہ ہے ۔

(الله الصمد ) صرف وہ بے نیاز ہے اور بقیہ سب اس کے نیاز مند ہیں اور وہ اپنی بے نیازی میں بھی یکتا ہے ۔

____________________

١۔ لقمان ١٣

۱۲۸

(لم یلد ) اس نے کسی کو جنم نہیں دیا کہ شبیہ و نظیر رکھتا ہو ۔

(ولم یولد ) وہ ازلی و ابدی ہے ، حادث نہیں ہے کہ کسی چیز سے پیدا ہوا ہو ۔

(ولم یکن له کفواً احد ) اور اس کا کوئی کفو اور نظیر نہیں ہے اور نہ شبیہ ہے نہ شریک۔

یہ سورہ ؛ خدا کی ذات اقدس سے شرک ، خرافات ، اوہام ، منحرف عقائد کی تمام جڑوں اور بنیاد وں کی نفی کرتا ہے اور ہمارے لئے خالص اور پاک توحید پیش کرتا ہے ۔

روایتوں کے مطابق اس سورہ کی تمام آیتیں ایک دوسرے کی تفسیر ہیں ۔(١)

پہلا مرحلہ : ( قل ہو ) کہو وہ ہمارا خدا ہے ۔

وہ جو بشر کی عقل اور فکر سے بالا اور آنکھوں سے غائب و پوشیدہ ہے ۔ اس مرحلہ میں تمام توجہ اس کی ذات پرہے نہ کہ اس کی صفات پر ۔ خود اس کی ذات محبوب اور معبود ہونے کے لئے کافی ہے ۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں''و کمال الاخلاص نف الصفات عنه '' (٢) اخلاص کامل یہ ہے کہ اس کی صفتوں پر توجہ کئے بغیر اس کی ذات کو دیکھو ۔ خدا کی عبادت ،خدا کے لئے کرو ، نہ اس لئے کہ اس نے تم کو فراواں نعمتیں دی ہیں ۔

دوسرا مرحلہ : ( قل ہو )وہ اللہ ہے ، ایسا معبود ہے جس میں تمام کمالات پائے جاتے ہیں ۔

اس مرحلے میں ذات و صفات ایک ساتھ آئے ہیں ۔ '' اللہ '' ایسی ذات ہے جس میں تمام نیک صفات پائی جاتی ہیں ، اسی لئے وہ عبادت کی شائستگی رکھتا ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے :

____________________

١۔ تفسیر نور الثقلین جلد ٥ صفحہ ٧١٤

٢۔ نہج البلاغہ خطبہ توحید

۱۲۹

(و للّٰه الاسماء الحسنیٰ فادعوه بها )(١)

تمام اچھے نام اور اچھی صفتیں اس کے لئے ہیں پس اس کو انہیں ناموں سے یاد کرو ۔

خدا کو اس کے صفات کے ذریعہ سے پہچاننا دوسرے مرحلہ میں ہے '' اللّٰہ '' ان تمام صفتوں کا مجموعہ ہے ۔

صفات کے ذریعہ سے خدا کی طرف توجہ ایسا راستہ ہے جو دعاؤں میں ، خصوصا دعائے جوشن کبیر میں جلوہ گر ہے ۔ ہم اس میں خدا وند متعال کو ہزار صفتوں سے یاد کرتے ہیں ۔

تیسرا مرحلہ : ( احد ) وہ یکتا ہے اور یکتائی میں یگانہ وبے مثال ہے ۔

اس مرحلہ میں توحید ِ ذات و صفات پیش ہو رہی ہے ۔ اس کی ذات بھی یگانہ و بے مثل ہے اور اس کی صفتیں بھی بے مثل و بے نظیر ہیں ۔ اس کی ذات و صفات ایک ہیں نہ یہ کہ اس کی صفتیں اس کی ذات سے الگ ہوں ۔

وہ ایسا واحد ہے جس کا دوسرا و تیسرا نہیں ، '' واحد '' اور '' احد '' میں فرق ہے ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ''کو ئی ایک بھی نہیں آیا''یعنی کو ئی نہیں آیا '' لیکن اگر کہیں کہ ''ایک نہیں آیا''یعنی ہو سکتا ہے کہ دویا اس سے زیادہ لو گ آگئے ہوں۔ قرآن حکیم فرماتا ہے کہ وہ '' احد '' ہے نہ کہ '' واحد '' ۔ وہ یکتا ہے نہ کہ ایک جس کا دوسرا اور تیسرا بھی ممکن ہے ۔

چوتھا مرحلہ : ( اللّٰہ الصمد ) خدا بے نیاز ہے ۔

اس مرحلہ میں بے نیازی جو خدا کی ذات و صفات کا محور ہے جو خدا کی سب سے اہم صفت کے عنوان سے بیان ہو رہی ہے وہ بھی خبر کی صورت میں نہیں جو فرمائے : (اللّٰه صمد )

____________________

١۔ اعراف ١٨۰۔

۱۳۰

بلکہ اللہ کے لئے مستقل اور دائمی صفت کی صورت میں ہے ۔ لہذا لفظ اللہ کی تکرار ہوئی (الله الصمد )

وہ یکتا ہے لیکن بے نیاز ۔ اس کے علاوہ بہت ہیں لیکن سراسر نیاز مند اور تمام نیاز مندوں کی

نظریں صرف اسی بے نیاز کی طرف ہیں ۔

پانچواں مرحلہ : (لم یلد و لم یولد و لم یکن له کفواً احد )

روایتوں کے مطابق یہ مرحلہ (الله الصمد ) کی تفسیر ہے ۔ وہ بے نیاز ہے نہ اولاد کی ضرورت رکھتا ہے کہ اس کو پیدا کرے ۔ نہ ماں باپ کا محتاج ہے جو اسے پیدا کریں نہ اسے بیوی اور نظیر و معاون کی ضرورت ہے جو اس کے کاموں میں اس کی مدد کرے ۔

اگر وہ پیدا ہو تو ازلی نہیں ہے اور اگر پیدا کرے تو ابدی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ کمی و ضعف کی طرف جائے گا اور اگر اپنی طرح اور اپنے جیسا کوئی مثل رکھتا ہو تو بے مقابل اور بغیر رقیب کے نہیں اور خدا ان تمام امور سے پاک و منزہ ہے (سبحان الله عما یشرکون )(١)

____________________

١۔ طور ٤٣۔

۱۳۱

چھٹا باب

رکوع اور سجدے

رکوع

ارکان نماز میں سے ایک رکن ، رکوع ہے بھولے سے یا جان بوجھ کر اگر رکن میں کمی یا زیادتی ہوجائے تو نماز باطل ہے لفظ '' رکعت '' جو نماز کے حصوں کی گنتی کے لئے بولا جاتا ہے وہ اسی لفظِ رکوع سے بنا ہے ۔قبیلہ ٔبنی ثقیف نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ نماز میں رکوع و سجود نہ ہوں اور وہ یہ کہتے تھے کہ جھکنا ہمارے لئے ننگ و عارہے ۔ تو آیت نازل ہوئی :

(و اذا قیل لهم ارکعوا لا یرکعون )(١)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تورکو ع نہیں کرتے ہیں(٢)

دوسرے لوگ اپنی طرح کے انسانوں کے سامنے جھکتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہیں لیکن آپ صرف اپنے خالق کے سامنے خم ہوں اور اسی کی تعظیم کریں ۔ جیسا کہ جب یہ آیت (فسبّح باسم ربک العظیم )(٣) نازل ہوئی توپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ رکوع میں خدا کی تعظیم کرو اور رکوع میں اس ذکر ''سبحان رب العظیم و بحمده ''(٤) کو کہو ۔

ہم روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ رکوع خدا کے سا منے ادب کی علا مت اور پہچان ہے اور سجود قرب خدا کی پہچان ۔لہٰذا جب تک ہم اچھی طرح اس کا ادب اور احترام نہ کریں اس کی قربت کے

____________________

١۔ مرسلات ٤٨.

٢۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١١۰

٣۔ واقعہ ٤٧.

٤۔ جامع الاحادیث جلد ٢ صفحہ ٩٢٢.

۱۳۲

لا ئق نہیں ہو سکتے ۔(١)

رکوع، خدا سے توبہ و استغفار اور معذرت خواہی کا راستہ ہے (فاستغفر ربّه و خرّ راکعاً و اناب )(٢)

رکوع کے اثرات

امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں : '' جو شخص اپنے رکوع کو اچھی طرح انجام دے وہ قبر کی وحشت سے امان میں ہے ۔ ''(٣)

ہم خدا کے حضور جتنی دیر تک خم ہوں گے شیطان اور شیطان صفت لو گوں سے مقابلہ کرنے کی اتنی ہی زیادہ قدرت رکھیں گے ۔

امام صادق ـ فرماتے ہیں : '' طویل رکوع اور سجود سے ابلیس غصہ میں آکر کہتا ہے مجھ پر وائے ہو ! یہ لوگ ، ایسی بندگی کی وجہ سے میری اطاعت نہیں کرتے ۔ !!(٤) پروردگار متعال فرشتوں سے کہتا ہے دیکھو ہمارے بندے کس طرح سے ہماری تعظیم کرتے ہیں اور ہمارے سامنے رکوع کرتے ہیں ۔ میں بھی ان لوگوں کو بزرگ کروں گا اور ان لوگوں کو عزت و عظمت بخشوں گا ۔(٥)

امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :

طولانی رکوع اور سجود عمر کے طولانی ہونے میں مؤثر ہیں ''(٦)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١۰٨.

٢۔ ص ٢٤

٣۔ وسائل جلد صفحہ ٩٢٨.

٤۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٢٨.

٥۔ جامع احادیث جلد ٥ صفحہ ٢۰٣

٦۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٢٨

۱۳۳

آداب رکوع

ہم روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکوع میں اپنی کمر کو ایسے کھینچتے تھے اور اسے اس طرح سیدھا رکھتے تھے کہ اگر پانی کا قطرہ کمر پر ڈالا جاتا تو کمر کے بیچ میں ٹھہر جاتا اور کسی طرف نہ بہتا۔(١)

تاکید ہوئی ہے کہ رکوع میں اپنی گردن سید ھی رکھو تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہم ایمان لائے ہیں چاہے ہماری گردن اس کی راہ میں چلی جائے ۔(٢)

رکوع کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ مرد اپنی کہنیوں کو پرندوں کے پروں کی طرح پھیلائیں نہ یہ کہ اپنی بغل میں چپکائیں ۔ ہاتھ کی ہتھیلی کو زانو پر رکھیں اور ہاتھ کی انگلیوں کو کھولیں ۔ دونوں پیر برابر ہوں یعنی آگے یا پیچھے نہ ہوں اور دونوں پیروں کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ ہو ۔

رکوع کرتے وقت نظر دونوں پیروں کے درمیان ہو اور ذکر رکوع کے بعد رکوع ہی کی حالت میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمد علیہم السلام پر صلوات پڑھیں ۔ البتہ ذکر رکوع کے بارے میں تاکید ہے کہ کم از کم تین بار پڑھا جائے ۔(٣)

اولیائے خدا کا رکوع

امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :

حضرت علی ـ اپنے رکو ع کو اتنا طول دیتے تھے کہ آپ کی پنڈلی سے پسینہ بہنے لگتا

____________________

١۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٤٢

٢۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٤٢.

٣۔ یہ تمام آداب رکوع ،وسائل جلد چہارم میںصفحہ ٩٢۰ سے ٩٤٣ تک آئے ہیں ۔.

۱۳۴

تھا۔ ''(١)

خود حضرت علی ـ نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

خدا کے ایسے فرشتے ہیں جوہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتے ہیں اورکبھی کھڑے نہیں ہوتے۔

البتہ فرشتوں کے یہاں تھکن اور بھوک نہیں پائی جاتی اسی لئے عارف و عاشق لوگ جب ایسے طولانی رکوع کرتے ہیں تو فرشتے ان کی تعریف و تمجید کرنے لگتے ہیں ۔ یہ اولیائے خدا کی حالت ہے لیکن ہماری حالت کیسی ہے ؟ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے ، ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نماز کے لئے کھڑا ہوا لیکن رکوع اور سجود کو ادھورا اور جلدی بجا لایا ۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اس نے کوّے کی طرح چونچ ماری اور چلا گیا ۔ اگر وہ اس نماز کے ساتھ دنیا سے چلا جائے تو میرے دین پر نہیں مرے گا ۔(٢)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١١۰.

٢۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٢٢

۱۳۵

سجدے

سجدہ کی تاریخ

حضرت آدم ـ کی خلقت کے بعد خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں ۔(۱) ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ۔ خدا وند متعال نے اس کو اسی نافرمانی کی بنا پر اپنی بارگاہ سے نکال دیا ۔

قرآن مجید نے اس واقعہ کی بار بار تکرار کی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن کریم کی تکرار

____________________

۱۔ البتہ سجدہ خدا سے مخصوص ہے انسان صرف فرشتوں کا قبلہ قرار پایا

۱۳۶

بلا و جہ نہیں ہے گویا کہنا یہ چاہتا ہے کہ اے انسان ! تمام فرشتے تمہاری وجہ سے سجدہ میں گرے ۔ کیوں تم خداوندِ خالق کے سامنے سجدہ نہیں کرتے ؟ اے انسان ! ابلیس تمہارے سجدہ کے انکار کی وجہ سے نکالا گیا تو اب تم خدا کے سجدہ سے انکار کرنے کی صورت میں کیا امید رکھتے ہو ؟ ۔

ابلیس نے تمہارا سجدہ نہیں کیا اور وہ یہ کہتا تھا کہ میں انسان سے افضل ہوں ۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو ؟ کہ ہم خدا سے افضل ہیں ؟ تم ایک وقت کچھ بھی نہیں تھے اور جب دنیا میں آئے تو تمہارا پورا بدن ضعیف و ناتوان اورعاجز تھا اور آخر میں اسی عاجزی کے ساتھ دنیا سے جاؤ گے ۔ خالق ہستی کے سامنے کس لئے تکبر کرتے ہو ؟!

بہرحال بشر کی خلقت کے بعد سب سے پہلا حکم الٰہی سجدہ کا حکم تھا ۔

سجدہ کی اہمیت

سجدہ : خدا کے سامنے انسان کی بہترین حالت ہے ۔

سجدہ : خدا سے تقرب کا بہترین راستہ ہے (و اسجد و اقترب )(١)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وفادار ساتھیوں کی نشانی یہ ہے کہ ان کے چہروں پرسجدہ کے اثرات دکھائی دیں (سیما هم ف وجوههم من اثر السجود )(٢)

سجدہ : انسان کو عالم ہستی کے ہم رکاب اور اس سے ہم آہنگ بنا دیتا ہے اس لئے کہ آسمان و زمین کی تمام موجودات ، ستاروں سے لے کر سبزے تک سب خدا کی بارگاہ میں ساجد و خاضع ہیں (و لله یسجد ما ف السمٰوات و ما ف الارض )(٣) (و النجم و الشجر یسجدان )(٤)

____________________

١۔ یہ سورئہ علق کی آخری آیت ہے یہ ان چار آیتوں میں سے ہے جن کو پڑھنے کی و جہ سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے

٢۔ فتح ٢٩.

٣۔ نحل ٤٩.

٤۔ رحمن ٦

۱۳۷

سجدہ : فرشتوں کے ساتھ ہم آہنگی ہے ۔ حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں : آسمان کے طبقوں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں ہے جس پر فرشتوں کا ایک گروہ سجدے کی حالت میں نہ ہو ۔(١)

سجدہ : عبودیت و بندگی کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے اس لئے کہ انسان اپنا سب سے بلند مقام یعنی پیشانی کو خاک پر رگڑتا ہے اور خدائے عزیز و قادر کے سامنے ذلت و عاجزی کا اظہار کرتا ہے ۔

سجدہ : دنیا کے بلند مرتبہ مردوں اور عورتوں کا سب سے بڑا مقام و مرتبہ ہے ۔ خدا اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سجدے کا حکم دیتا ہے وہ صرف دن میں ہی نہیں بلکہ رات میں بھی۔

(و من اللیل فاسجد له و سبحه لیلا طویلا )(٢) پاک اور عابدہ خاتون حضرت مریم سے خطاب ہوا (یا مریم اقنت لربک و اسجد )(٣)

جو سجدہ رکوع کے بعد ہو وہ اس سے کامل تر و بالا تر مرحلہ ہے اور نماز پڑھنے والے کو خضوع کی آخری بلندی تک پہنچاتا ہے ۔

اسی لئے قرآن کریم میں یہ دونوںمعمولاً ایک دوسرے کے ساتھ ذکر ہو ئے ہیں (یاایها الذین آمنوا ارکعواواسجدوا )(٤)

(تریٰهم رکعاًسجداً )( ٥)

سجدہ : خدا وند عالم کی نشانیوں پر ایمان کی علامت ہے۔

(انما یومن بآیاتنا الذین اذا ذکروا بهاخروا سجداً )(٦)

رات کے سجدے : خدا کے صالح بندوں کی نشانی ہیں (عباد الرحمن و الذین یبیتون لربهم سجدا ً و قیاماً )(٦)

____________________

١۔ نہج البلاغہ خطبہ ٩١

٢۔نسان ٢٦.

٣۔ آل عمران ٤٣.

٤۔ حج ٧٧

٥۔ فتح ٢٩

٦۔ سجدہ ١٥

٧۔ فرقان ٦٤.

۱۳۸

سجدہ : نماز کی زینت ہے لہذا اس کو اچھی طرح بجالائیں ۔

امام صادق ـ فرماتے ہیں :

نماز پڑھتے وقت اس کے رکوع و سجود کو اچھی طرح انجام دیاکرو کیو نکہ خدا وند عالم اس کی جزا سات سو گنابلکہ اس سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے ۔

سجدہ : کی وجہ سے خدا فرشتوں پر افتخارکرتاہے لہذا خدا کی عنایت اس کے ساتھ ہے ۔ یہاں تک کہ ہر سجدہ میں ایک گناہ ختم اور عظیم جزا ( سجدہ کرنے والے کے نام ) لکھی جاتی ہے ۔(١)

حضرت علی ـ نے فرمایا : اگر انسان یہ جان لے کہ سجدہ کے وقت کتنی رحمتوں نے ا سے ڈھانپ رکھا ہے تو وہ کبھی بھی سجدہ سے سر نہ اٹھائے گا ۔(٢) سجدہ: خود خواہی اور غرور کو ختم کر دیتا ہے اور انسان کو تکبر سے نجات دیتا ہے ۔(٣)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ہم اپنے امتیوں کو قیامت کے روز ان کی پیشانی پر مو جو د سجدہ کے اثرات سے پہچانیں گے ۔(٤) اور وہ زمین جس پر سجدہ ہوا ہے وہ انسان کی عبادت کی گواہی دے گی(٥) اور دنیا میں بھی اس جگہ سے آسمان کی طرف ایک نور جاتا ہے(٦) رکوع کی طرح طولانی سجدے بھی انسان کی نعمت کی بقا اور عمر کے طولانی ہونے کا سبب ہیں ۔(٧)

سجدہ اتنا اہم ہے کہ پروردگار ،حضرت ابراہیم ـ جیسے عظیم الشان پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ مسجد الحرام کو ، طواف ، قیام ، رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک کرو ۔(٨)

____________________

١۔ جامع احادیث جلد ٥ صفحہ ٤٦٦.

٢۔ جامع الاحادیث ج ٥ ص ٤٨٢

٣۔ جامع الاحادیث ج ٥ ص ٤٥٣

٤۔ مسند احمد حنبل جلد ٤ صفحہ ١٨٩

٥۔ جامع الاحادیث جلد ٥ صفحہ ١٨٩.

٦۔ مستدرک الوسائل جلد ٤ صفحہ ٤٨٥

٧۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٢٨

٨۔ بقرہ ١٢٥

۱۳۹

سجدہ کی حکمتیں

لوگوں نے امیر المومنین حضرت علی ـ سے سجدہ کی حکمتوں کے بارے میں سوال کیا حضرت نے فرمایا : پہلا سجدہ ، یعنی شروع میں خاک تھا اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے ہو یعنی خاک سے دنیا میں آئے ہو۔ دوسرا سجدہ یعنی دوبارہ خاک میں پلٹ کر جاؤ گے اور اس سے سر اٹھانا یعنی قیامت کے دن قبر سے اٹھو گے اور محشور ہو گے ۔(١)

امام صادق ـ فرماتے ہیں : '' چونکہ سجدہ خدا کے لئے ہے لہذا کھانے اور پینے والی چیزوں پر جو دنیا والوں کی توجہ کی چیز ہے سجدہ نہیں کرنا چاہیئے ۔ سجدہ انسان کو خدا کی طرف متوجہ کرے نہ کہ پیٹ اور لباس یا مادّی چیزوں کی طرف(٢)

ہم حدیث میں پڑھتے ہیںہر کمی و زیادتی یا بے جا کلام یاقیام اور قعود کی بنا پر اس لئے سجد ٔہ سہو کیا جاتا ہے کہ ابلیس نے تمہاری توجہ کو ہٹا دیا اور تمہاری نماز میں خلل ڈال دیا پس نماز کے بعد تم دو سجدئہ سہو بجا لاؤ تاکہ اس کی ناک مٹی میں رگڑ جائے اور وہ جان لے کہ وہ تمہارے اندر جو بھی لغزش پیداکرے گا تم دوبارہ خدا کے سا منے سجدہ کر لوگے(٣)

حضرت علی ـ فرماتے ہیں کہ : سجدہ کا ظاہر ، اخلاص و خشوع کے ساتھ پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے لیکن اس کا باطن ، تمام فنا ہونے والی چیزوں سے رشتہ توڑلینا اور عالم آخرت و بقا سے لو لگانا ہے ۔ اسی طرح یہ تکبر ، تعصّب اور دنیا سے ہر قسم کی وابستگی سے رہائی ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١٣٩

٢۔ الفقیہ جلد ١ صفحہ ٢٧٢.

٣۔ وافی جلد ٨ صفحہ ٩٩٢

۱۴۰