نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر0%

نماز کی تفسیر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

نماز کی تفسیر

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 66468
ڈاؤنلوڈ: 2548

تبصرے:

نماز کی تفسیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66468 / ڈاؤنلوڈ: 2548
سائز سائز سائز
نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر

مؤلف:
اردو

آداب سجدہ

روایتوں میں جو آداب سجدہ آئے ہیں ان میں سے بعض کی طرف ہم یہاں اشارہ کر رہے ہیں ۔

رکوع کے بعدسجدہ میں جانے کے لئے زانو وںسے پہلے ہاتھوں کو زمین پر رکھیںاور سجدہ کرتے وقت ہاتھ کانوں کے برابر ہوں ۔ مردوں کی کہنیاں زمین پر نہ چپکیں اور دونوں کہنیاں پروں کی طرح کھلی ہوں ۔ فقط پیشانی ہی نہیں بلکہ ناک بھی زمین پر رکھی جائے ۔ جس وقت نماز پڑھنے والا دو سجدوں کے درمیان بیٹھے تو داہنے پیر کے اوپری حصّہ کو بائیں پیر کے تلوے پر رکھے، اس طرح سے کہ بدن کا وزن بائیں پیر پر ہو اس لئے کہ بایاں باطل کی علامت ہے اور داہنا حق کی علا مت ہے ۔

سجدہ میں واجب ذکر کے علاوہ صلوات پڑھے ، دعا کرے اور خوف خدا سے آنسو بہائے ۔ سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیر کہے اور تکبیر کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کرے ۔(١)

خاک کربلا

اگرچہ ہر پاک مٹی پر بلکہ ہر پاک پتھر اور لکڑی پر سجدہ جائز اور صحیح ہے لیکن تربت امام حسین (خاک شفا) فضیلت رکھتی ہے ۔ امام صادق ـ خاک کربلا کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے تھے ۔

خاک کربلا پر سجدہ ؛ ساتوں حجاب پارہ کرتا ہے ، نماز کو بلند کرتا ہے اور اسے قبولیت تک پہنچاتاہے اور نماز پڑھنے والے کو بھی مادّیات کے گڑھے سے باہر نکال کر اسے جہاد اور خون و شہادت سے روشناس کراتا ہے ۔

____________________

١۔ مستدرک الوسائل ج ٤ ص ٤٨٤

۱۴۱

خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی امامت و ولایت کے ساتھ نماز ۔

خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی شہادت کے ساتھ نماز ۔

خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی ان لوگوں کی یاد کو عظیم سمجھنا جن لوگوں نے نماز کے لئے اور نماز کی راہ میں خون دیا ۔

خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی ہر روز عاشورہ ہے اور ہر زمین کربلا ہے ۔

خاک حسین ـ پر سجدہ : یعنی ظلم سے مقابلہ کرنے کے لئے سر اور جان دیدولیکن خود کو ذلت کے حوالے نہ کرو ۔

جی ہاں ! مزار حسین ـ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ اور جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ۔ حضرت کے گنبد کے نیچے دعا مستجاب اور اس جگہ پر نماز محبوب و مقبول ہے ۔

اس خاک سے جو تسبیح بنے اگر وہ ہاتھ میں صرف گھومتی رہے تو اس کے لئے '' سبحان اللہ '' کی تسبیح کا ثواب رکھتی ہے چا ہے زبان سے کچھ نہ کہا جائے اور اگر اللہ کے ذکر کے ساتھ تسبیح گھمائی جائے تو ہر ذکر پر ستّر گناثواب ملتا ہے ۔

واضح رہے کہ خاک کربلا کی جواہمیت نقل ہوئی ہے وہ امام حسین ـ کی قبر کے چار میل کے دائرے تک شامل ہے ۔(١)

____________________

١۔ اس بحث کے مطالب ، کتاب کامل الزیارات میں باب نمبر ٨٩ کے بعد آئے ہیں

۱۴۲

سجدئہ شکر

سجدہ صرف نماز سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ دوسری جگہ بھی ہوتا ہے ۔ حتی کبھی واجب ہوتا ہے جیسے ان چار آیتوں میں سے کسی ایک کی تلاوت کرنے سے جو سجدہ کا سبب بنتی ہیں ۔

شکر کے طریقوں میں سے ایک طریقہ سجدۂ شکر ہے جس کے لئے بہت تاکید ہوئی ہے ۔

سجدئہ شکر : یعنی خدا کی ختم نہ ہونے والی ان نعمتوں پر شکر جو ہمارے اور ہمارے گھر والوں پر نازل ہوئی ہیں ۔

امام صادق ـ فرماتے ہیں :

جس وقت خدا کی کوئی نعمت یاد آئے اپنی پیشانی کو شکر کے لئے زمین پر رکھو اور اگر لوگ تم کو دیکھ رہے ہیں تو اس نعمت کے احترام میں تھوڑا سا خم ہو جاؤ ۔(١)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا گیا کہ آپ اونٹ سے نیچے اترے اور آپ نے پانچ سجدے کئے اور فرمایا : جبرئیل امین میرے اوپر نازل ہوئے اور مجھے پانچ بشارتیں دیں اور میں نے ہر بشارت کے لئے ایک سجدہ کیاہے۔(٢) حضرت علی ـ کبھی سجدئہ شکر میں بیہوش ہو جاتے تھے(٣) اور امام زمانہ ( عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے نقل ہوا ہے کہ لازم ترین سنت سجدئہ شکر ہے ۔(٤) سجدئہ شکر میں ہر ذکر اور دعا جائز ہے لیکن '' شکر اًللہ '' اور '' الحمد للہ '' کہنے اور ولایت اہل بیت ٪ کی عظیم نعمت کو یاد کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔(٥) خداوند عالم فرماتا ہے: جو شخص میرے لئے سجدئہ شکر کرے اس کا انعام یہ ہے کہ ہم بھی اس کا شکریہ ادا کریں ۔(٦)

اگرچہ سجدئہ شکر کے لئے کوئی جگہ اور وقت معین نہیں ہے لیکن اس کا بہترین وقت نماز کے بعد ، تعقیبات ِ نماز کے عنوان سے ہے ۔

____________________

١۔ وافی ج ٨ ص ٨٢٥

٢۔ محجة البیضاء جلد ١ صفحہ ٣٤٦.

٣۔ جامع الاحادیث جلد ٥ صفحہ ٤٥٩.

٤۔ جامع الاحادیث جلد ٥ صفحہ ٤٥٣.

٥۔ جامع الاحادیث جلد ٥ صفحہ ٤٦٩.

٦۔ الفقیہ جلد ١ صفحہ ٣٣٤

۱۴۳

سجدئہ شکر کی برکتیں

روایات میں سجدئہ شکر کی بر کتیں کافی نقل ہوئی ہیں ۔ ہم اختصار کے طور پر ان کی فہرست ذکر کرتے ہیں ۔

اگر نماز میں کو ئی نقص پیدا ہو جائے اور وہ نوافل سے بر طرف نہ ہو تو سجدئہ شکر اس کو پورا کردیتا ہے ۔ سجدئہ شکر کا نتیجہ خدا کی رضایت ہے ،یہ انسان اور فرشتوں کے درمیان فاصلہ کو ختم کرتا ہے ،سجدہ میں دعا مستجاب ہوتی ہے ،دس صلوات کا ثواب ملتا ہے اور دس بڑے گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔

سجدئہ شکر کی فضیلت کے لئے یہی کافی سے ہے کہ خدا وند عالم اس کی وجہ سے فرشتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے ۔(١)

اولیائے خدا کے سجدے

امام صادق ـ فرماتے ہیں : حضرت ابراہیم ـ اس لئے خلیل خدابنے تھے کہ وہ خاک پر سجدہ زیادہ کرتے تھے ۔(٢)

جس رات یہ طے پایا کہ حضرت علی ـ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سو جائیں تاکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمنوں کی تیغ سے محفوظ رہیں ۔ حضرت علی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا : ''اگر میں یہ کام انجام دوں تو کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچ جائے گی ؟ '' جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاں میں جواب دیا تو حضرت علی ـ مسکرائے اور اس توفیق کے شکر میں سجدہ کیا ۔(٣)

____________________

١۔ الفقیہ جلد ١ صفحہ ٣٣١

٢۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١٦٣.

٣۔ وافی جلد ٨ صفحہ ٨٨٢

۱۴۴

جس وقت مشرکین کے لیڈر، ابوجہل کا کٹا ہوا سر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سجدئہ شکر بجا لائے۔(١)

امام سجاد ـ ہر نماز کے بعد ، اس کو بجا لانے کے شکر میں ، سجدہ کرتے تھے اور جب آپ سے کو ئی بلا دور ہو جاتی تھی یا آپ دو مسلمانوں کے درمیان مصالحت کراتے تھے تواسی وقت اس کے شکر کے لئے سجدہ کرتے تھے ۔ آپ اپنے سجدوں کو اتنا طول دیتے تھے کہ پسینہ میں ڈوب جاتے تھے۔(٢)

چند نکتے

١) سجدہ کرنے کی جگہ اتنی اہم ہو جاتی ہے کہ حدیث میں ہے کہ نماز کے بعد سجدہ کرنے کی جگہ پر ہاتھ لگا کر اپنے بدن اور چہرے پر پھیرو تاکہ امراض و آفات اور مشکلات سے محفوظ رہو۔(٣)

٢) کوشش کریں کہ نماز مغرب کے بعد سجدۂ شکر کو فراموش نہ کریں اس میں دعا قبول ہوتی ہے۔(٤)

امام صادق ـ نے فرمایا : جو شخص اذان و اقامت کے درمیان سجدہ کرے اور سجدہ میں کہے کہ '' سجدت ُ لک خاضعا خاشعا ذلیلا '' خدا مؤمنین کے دلوں میں اس کی محبت اور منافقین کے دلوں میں اس کی ہیبت بیٹھادیتا ہے ۔(٥)

٣) سجدہ خدا سے مخصوص ہے اور خدا کے علاوہ کسی کے سامنے جائز نہیں ہے۔(٦)

____________________

١۔ جامع الاحادیث جلد ٥ صفحہ ٤٧٥.

٢۔ بحار الانوار جلد ٨٥ صفحہ ١٣٧.

٣۔ سفینة البحار

٤۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ١۰٥٨.

٥۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٦٣٣.

٦۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩٨٦.

۱۴۵

جس وقت مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی توکفار نے کچھ لو گوںکو نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کو اپنے ملک میں جگہ نہ دے اور ان کو وہاں سے نکال دے ، اس زمانے کی رسم کے مطابق قریش کا نمائندہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے سامنے سجدہ میں گر پڑا لیکن مسلمانوں کا نمائندہ جو حضرت علی ـ کے بھائی جناب جعفر تھے انہوں نے اسے سجدہ نہیں کیا اور کہا کہ ہم خداوند عالم کے علاوہ کسی بھی چیز کے سامنے سجدہ نہیں کرتے ہیں ۔(١)

حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا یوسف کے سامنے سجدہ کرنا ، یوسف کو سجدہ نہیں تھا بلکہ وہ سجدہ خدا کے لئے تھا لیکن وصال یوسف کی نعمت ملنے پرخدا کا شکر تھا (وخرّوا له سجدا )(٢ )

____________________

١۔ مسند احمد حنبل جلد ١ صفحہ ٤٦١.

٢۔ یوسف ١۰۰.

۱۴۶

ساتواں باب

ذکر تسبیح

سبحان اللہ

نماز پڑھنے والا رکوع اور سجود میں خداوند متعال کی تسبیح کرتا ہے ۔ جس وقت آیت (فسبح باسم ربک العظیم )(١) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اس حکم کو اپنے رکوع میں قرار دو اور کہو '' سبحان رب العظیم و بحمدہ '' میرا عظیم پروردگار کہ میں نے جس کی تعریف میں لب ہلائے وہ ہر عیب و برائی سے پاک ہے '' اور جب یہ آیت (سبح اسم ربک الاعلی )(٢) نازل ہوئی تو فرمایا اس کو اپنے سجدہ میں قرار دو اور کہو '' سبحان رب الاعلی و بحمدہ '' '' ہم ہمیشہ اپنے پروردگار کی تسبیح و تعریف کرتے ہیں جو سب سے بڑا اور بزرگ و برتر ہے ۔ ''

تسبیح کا مرتبہ

خدا کی تسبیح و تنزیہ ،اسلام کے سارے صحیح عقائد و افکار کی جڑ ہے ۔

توحید : یعنی خدا کو شرک سے پاک سمجھنا (سبحان الله عما یشرکون )(٣)

عدل : یعنی خدا کو ظلم سے پاک سمجھنا (سبحان الله انا کنا ظالمین )(٤)

نبوت و امامت : یعنی خدا کو بے مقصد ،غیر منظم اور لوگوں کو دریائے ہوس میں چھوڑ دینے سے پاک سمجھنا (و ما قدروا الله حق قدره اذ قالوا ما انزل الله علی

____________________

١۔ واقعہ ٧٤

٢۔ اعلیٰ ١

٣۔ طور ٤٣.

٤۔ قلم ٢٩.

۱۴۷

بشرٍ من شیئٍ )(١)

وہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا در حالیکہ خدا کو اچھی طرح نہیں پہچانتے ہیں۔

معاد : یعنی خدا کو اس سے پاک سمجھنا کہ اس نے دنیا کو عبث اور باطل خلق کیا ہے اور دنیا کے سر انجام کو نابودی قرار دیا ہے (ربّنا ما خلقت هذا باطلا سبحانک )(٢)

(افحسبتم انما خلقنا کم عبثا و انّکم الینا لا ترجعون )(٣) کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے ؟ جی ہاں خداوند عالم اس عبث اور بیہودہ امر سے پاک و منزہ ہے ۔

تسبیح خدا : تسبیح خدا فقط عقائد اسلامی کا سرچشمہ نہیں ہے بلکہ بہت سے روحی و معنوی کمالات ِ کا ذریعہ ہے ۔

سبحان اللہ : رضائے الہی کا سرچشمہ ہے ۔ اگرہم اس کو ہر عیب سے پاک سمجھیں تو اس کے مقدّر ات پر راضی ہوں گے اور اس کی حکیمانہ مشیت کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے ۔

سبحان اللہ : توکل کا سرچشمہ ہے ۔ جو ذات ہرمحتاجی سے دور اور ہر ضعف اور عاجزی سے پاک ہو ، اس پر کیسے انحصار اور توکل نہ کریں ؟ (سبحانه هو الغن )(٤)

سبحان اللہ :خدا سے عشق کی نبیاد ہے جو ہر عیب اور نقص سے پا ک ہے وہ انسانوں کا محبوب ہے اور انسان اسی سے والہٰانہ محبت کر تا ہے ۔

سبحان اللہ : خدا کی حمد و ثنا کی ابتداء ہے ۔ ایسی ذات کی ثنا جس تک کوئی بھی برائی

____________________

١۔ انعام ٩١

٢۔ آل عمران ١٩١.

٣۔ مؤمنون ١١٥.

٤ ١۔ یونس ٦٨

۱۴۸

اورناپسندیدہ چیز نہ پہنچے ۔ اسی لئے تسبیحات اربعہ میں '' سبحان اللہ '' ' الحمد للہ '' سے پہلے آیا ہے ۔

سبحان اللہ : تمام بشری خرافات و توہمات اوربد عتوں سے نجات کی کنجی ہے (فسبحان الله ربّ العرش عمّا یصفون )(١)

شاید یہی وجوہات ہیں کہ قرآن مجید میں تسبیح الہی کا حکم دوسرے اذکار سے زیادہ آیا ہے ۔ تسبیح کا حکم ١٦ مرتبہ ، استغفار کا حکم ٨ مرتبہ ، ذکر خدا کا حکم ٥ مرتبہ اور تکبیر کا حکم ٢ مرتبہ آیا ہے ۔ وہ بھی ہر حال اور ہر وقت تسبیح کا حکم ہے تاکہ انسان ہمیشہ خدا کی طرف متوجہ رہے اور ہمیشہ اس کو ہر عیب اور برائی سے پاک سمجھے ۔

(و سبّح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل غروبها و من آناء اللیل فسبّح و اطراف النهار )(٢)

خوشی اور کامیابی کے موقع پر خدا کی تسبیح کرو (اذا جاء نصر الله و الفتح … فسبح بحمد ربک )(٣)

سختی و مشکلات اور پریشانی میں بھی تسبیح کرو اس لئے کہ تسبیح نجات کا ذریعہ ہے (فلولا انّه کان من المسبحین للبث ف بطنه الی یوم یبعثون )(٤) پھر اگر وہ ( حضرت یونس ) تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی)کے شکم میں رہ جاتے ۔

ہاں انسان اپنی فراواں حد بند یوں کی بنا پر خدا وند متعال کو ہرگز نہیں پہچان سکتا ۔ لہذا بہتریہی ہے کہ وہ اپنے ضعف کا اقرار کرے اور کہے کہ تو فکر و خیال کی رسائی سے پاک ہے اور جو دوسرے لوگ تیری تعریف کرتے ہیں اس سے بلند و بالاتر ہے (سبحانه و تعالیٰ عمّا

____________________

١۔ انبیاء ٢٢

٢۔ طہٰ ١٣۰.

٣۔ سورہء نصر

٤۔ صافات ١٤٣، ١٤٤.

۱۴۹

یقولون علواکبیرا )(١)

صرف اللہ کے مخلص بندے ہیں جو اللہ کی مدد اور رہنمائی کے ذریعہ خدا کو پہچنوا سکتے ہیں (سبحان الله عمّا یصفون الا عباد الله المخلصین )(٢)

تسبیح کا ثواب

امام صادق ـ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جس وقت کو ئی بندہ (سبحان اللہ)کہتا ہے تو جو چیز بھی عرش الٰہی کے نیچے ہے وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور اس لفظ کے کہنے والے کو دس گناجزا ملتی ہے اور جس وقت (الحمد للہ) کہتا ہے توخدا اسے دنیا کی نعمتیں عطا فرماتاہے تاکہ اسی حالت میںخدا سے ملاقات کرے اور آخرت کی نعمتوںمیں داخل ہو جائے۔(٣ )

____________________

١۔اسراء ٤٣ ٢۔ صافات ١٥٩، ١٦۰.

٣۔ وسائل جلد ٧ صفحہ ١٨٧.

۱۵۰

عملی تسبیح

امام صادق ـ نے فرمایا کہ سخت ترین اور اہم ترین کاموں میں سے ایک کام جس کو خدا نے مخلوقات کے اوپر ضروری کیا ہے وہ ذکر کثیر ہے ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ : ذکر سے مراد (سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله و الله اکبر ) نہیں ہے گرچہ یہ بھی اس کا جز ہے لیکن ذکر سے مراد (ذکر الله عند ما احل و حرم ) یعنی کو ئی بھی کام کرتے وقت خدا کو یاد رکھنا ہے ،یعنی اگر خدا کی اطاعت ہے تو اسے انجام دے اور اگر اس کی معصیت ہے تو اس کو انجام نہ دے ۔(۱)

____________________

۱ ۔ کافی جلد ٢ صفحہ ٨۰

۱۵۱

تسبیح کی تکرار

ایک شخص امام صادق ـ کے گھر میں داخل ہوا آپ کو رکوع کی حالت میں دیکھا کہ آپ خدا کی تسبیح میں مشغول ہیں اور آپ نے رکوع میں ٦۰ مرتبہ تسبیح کی تکرار کی اور سجدہ میں ٥۰۰ مرتبہ(١)

تسبیح کی تکرار فقط نماز ہی میں نہیں بلکہ اعمال ِ حج میں بھی ہے ۔ حجر اسود پر نگاہ کرتے وقت ، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے وقت اور دوسری جگہوں پر تسبیح کی تکرار کی تاکید کی گئی ہے ۔

جس طرح نماز میں رکوع و سجود کے علاوہ تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کی تکرار ہے اورشیعہ سنی روایتوں کے مطابق ، سورئہ کہف آیت نمبر ٤٦ میں باقیات الصالحات سے مراد یہی تسبیحات اربعہ ہیں ۔(٢)

حضرت علی ـ کے ارشاد کے مطابق خانہ کعبہ بناتے وقت حضرت ابراہیم ـ کا ذکر (سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله و الله اکبر ) تھا(٣)

ہمارے اسلاف کے تمدّن میں خدا وند عالم کا ذکر

اب یہاں تک بات پہنچ گئی ہے تو بہتر ہے کہ اسلامی تمدن میں ہمارے بزرگوں کے درمیان ذکر خدا کا کیا مقام رہا ہے ، اس پربھی ایک نظر ڈال لیں اور اس کی اہمیت کا پتہ لگائیں ۔

ہمارے مومن ماں باپ تعجب کے وقت کہتے ہیں '' ماشاء اللہ '' '' سبحان اللہ '' گھر کے اندر داخل ہوتے وقت کہتے ہیں '' یا اللہ '' ایک دوسرے سے رخصت ہوتے وقت '' خدا حافظ '' اٹھتے وقت

____________________

١۔ وافی جلد ٢ صفحہ ١۰٧

٢۔ تفسیر المیزان جلد ١٣ صفحہ ٥٤۰

٣۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ١٢۰٧

۱۵۲

'' یا علی '' کام کی تھکن دور کرنے کے لئے '' خدا قوت '' خیریت پوچھنے کے جوا ب میں '' الحمد للہ '' کھانا کھانے کے لئے '' بسم اللہ '' اور کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کی دعا اور شکر ِ خدا ۔

دادی ، نانی قصہ کہانی کو یہاں سے شروع کرتی تھیں کہ '' کوئی تھا کوئی نہ تھا خدا کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا ۔ ''

ظاہر ہے کہ ایسے ماحول اور ایسی آغوش میں تربیت سے ! ہمیشہ اور ہر وقت دلوں میں خدا کی یاد اور زبانوں پر اس کا نام جاری ہو تا رہتاہے ۔ لیکن ہمارے اوپر ایک تاریک دورایسا بھی گزرا ہے کہ جب خدا کے نام کو بھلا دیئے جا نے کے ساتھ ساتھ شہر کے در و دیوار حتی کپڑوں پر اور ہر جگہ مغربی تمدن اور ان کے فلمی ستاروں کی تصویریں تھیں ۔

لیکن انقلاب کے سایہ میں شہروں کے در و دیوار ، سڑکوں اور بورڈوں پر دوبارہ ذکر کی تصویر ابھر کر سا منے آئی ہے ۔

موجودات کی تسبیح

ساری موجودات ، ساتوں آسمان و زمین اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کرنے والے ہیں(١) چاہے جاندار جیسے پرندے ہوں اور چاہے بے جان ہوں جیسے پہاڑ(٢) نیزبجلی اور چمک(٣) وہ بھی ایسی تسبیح جو شعور اور آگاہی کے سا تھ ہو (کل قد علم صلاته و تسبیحه )(٤)

فرشتوں کی تسبیح اتنی زیادہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا آسمانوں پر ایک بالشت جگہ ایسی نہیں ہے جہاں پر فرشتے نماز و تسبیح میں مشغول نہ ہوں ۔(٥)

____________________

١۔ جمعہ ١

٢۔ انبیاء ٧٩.

٣۔ رعد ١٣

٤۔ نور ٤١

٥۔ تفسیر قرطبی جلد ٨ صفحہ ٥٥٨١.

۱۵۳

امام صادق ـ فرماتے ہیں : جس وقت حضرت داؤد ـ زبور پڑھتے تھے تو کوئی پہاڑ ، پتھر اور پرندہ ایسا نہیں تھا جو ان کی آواز سے آواز نہ ملاتا ہو ۔(١)

روایتوں میں ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ جانوروں کے منہ پر نہ مارو اس لئے کہ وہ تسبیح پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں ۔(٢)

گر تو را از غیب چشمی باز شد

با تو ذرّات جھان ھمراز شد

نطق آب و نطق خاک و نطق گل

ھست محسوس حواس اھل دل

جملۂ ذرّات عالم در نھان

باتو می گویند روزان و شبان

ما سمیعیم و بصیریم و ھوشیم

با شما نا محرمان ما خاموشیم

ترجمہ : اگر تیری آنکھ عالم غیب کا مشاہدہ کرلے تو اس عالم کے ذرات بھی تیرے ہم راز ہو جائیں گے۔ پانی کی گفتگو ، خاک کی ہم کلامی اور پھولوں کی نطق بیانی اہل دل کے لئے سب کچھ محسوس و روشن ہے ۔ اس کائنات کے ذرے خا مو شی کے سا تھ تجھ سے ہر روز اور ہر شب کہتے ہیں : ہم تو سنتے بھی ہیں ، دیکھتے بھی ہیں اور ہمارے ہوش و حواس قائم ہیں لیکن تم نا محرموں کے سامنے ہم خاموش اورساکت ہیں ۔

چڑیوں کا ایک جھنڈ، امام سجاد ـ کے سامنے سے چیں چیں کرتا ہوا گزرا ۔ آپ اپنے

____________________

١۔ تفسیر نور الثقلین جلد ٣ صفحہ ٤٤٤

٢۔ تفسیر نور الثقلین جلد ٣ ١٦٨.

۱۵۴

ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : پرندے ہر صبح خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور اپنے دن کی روزی کے لئے خدا سے دعا کرتے ہیں ۔(١) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا حیوانات کی موت اس وقت ہوتی ہے جب وہ تسبیح خدا کو فراموش کر دیتے ہیں ۔(٢)

بعض لو گوں کا کہنا ہے کہ موجودات کی تسبیح اور سجدے مجازی ہیں نہ حقیقی جس طرح ایک اچھی تصویر ، اس تصویر کے بنانے والے کے بھرپور ذوق اورسلیقہ یاا شعارکا دیوان شاعر کی خوش طبعی کی گواہی دیتا ہے اسی طرح موجودات کی اسرار آمیز خلقت خدا کے علم ، قدرت ، حکمت اور اس کی باریک بینی کی گواہی دیتی ہے اور اس کو ہر عیب اور برائی سے دور قرار دیتی ہے اور یہی موجودات کی تسبیح کے معنی ہیں ۔

جبکہ اول تو اس دعو ے کی کوئی دلیل و شاہد نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ تاویل یاتحلیل وہاں پر ہوتی ہے جہاںظاہری معنیٰ محال اورمشکل ہوں جیسے یہ آیت (ید الله فوق ایدیهم )(٣) ہم بخو بی جانتے ہیں کہ خدا وند متعال کا ہاتھ ہونا محال ہے لہذا کہیں گے ( ید اللہ )سے مراد قدرت الٰہی ہے۔ لیکن صرف اس و جہ سے کہ معانی سمجھ میں نہیں آ تے ہمیں اس کی تاویل کا حق حاصل نہیں ہے ، ہم کیسے تاویل کریں گے ؟جبکہ قرآن کریم خود کہہ رہا ہے :

(و ان من شئٍ الا یسبّح بحمده و لکن لا تفقهون تسبیحهم )(٤) اور

کوئی شئے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو۔

ہم کیسے تاویل کر سکتے ہیں ؟ جبکہ قرآن فرماتا ہے(و ما اوتیتم من العلم الا قلیلا )(٥) اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے ۔

____________________

١۔ تفسیر المیزان جلد ١٣ صفحہ ٢۰٦

٢ ۔ تفسیر المیزان جلد ١٣ صفحہ ٢۰٣

٣۔ فتح ١۰

٤۔ اسرائ٤٤

٥۔ اسرائ٨٥

۱۵۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا علم اگرچہ لا محدود علم کے سر چشمہ سے وابستہ ہے اس کے باوجود قرآن حکیم میں آپ کا یہ قول نقل ہو ا ہے(ان ادری )(١) یعنی میں نہیں جانتا ،تو اگر ہم بھی کہہ دیں کہ ہم نہیں جانتے اور ہم نہیں سمجھتے تو کیا ہو جائے گا ؟

مزے کی بات یہ ہے کہ خدا وند عالم نے ہمارے جہل اورنادانی کا صریحا ً اعلان بھی کردیا (ولکن لا تفقهون تسبیحهم ) لیکن مغرور بشراس بات کے لئے حاضر نہیں ہے کہ عالم ہستی کے وہ اسرار جن میں موجودات کی تسبیح بھی ہے ان کے بارے میں یہ اقرار کرلے کہ ہم نہیں سمجھتے ۔

کیا قرآن مجید واضح طور سے نہیں کہہ رہا ہے کہ ہدہد جب قوم سبا کی خورشید پرستی سے آگاہ ہوا تو اس نے اس کی خبر حضرت سلیمان ـ کو دی اور کہا ملک سبا میں ایک عورت ہے جو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہے اور اس کی رعیت سورج کی پوجا کرتی ہے ۔(٢)

کہاں ہدہداور کہاں علاقہ کا نام ، عورت کو مرد سے ، شاہ کو رعیت سے ، توحید کو شرک سے جدا کرنا اور انھیں پہچان لینا؟! یہ سب موجودات کے شعور کی نشانیاں ہیں ۔

کیا قرآن مجید نہیں کہتا ہے ایک چیونٹی نے ساری چیونٹیوں سے کہا : '' اپنے اپنے بلوں میں چلی جاؤ ادھر سے حضرت سلیمان ـ کا لشکر گزرنے والا ہے اور ایسا نہ ہو کہ وہ نا سمجھی میں تمہیں روندھ ڈالیں ۔ ''

ان آیتوں میں انسانوں کی حرکت کی پہچان ، ان کا نام ( سلیمان ) ، ان کا پیشہ ( فوجی ) ، ان کا اپنے پیروں کے نیچے توجہ نہ ہونا اور اس چیونٹی کی دوسری چیونٹیوں کے لئے ہمدردی ، یہ ایسے مسائل ہیں جو ہمارے لئے موجودات اور عالم ہستی کے اندر پائے جانے والے شعور اور ان کے سمجھنے

کی طاقت کو بیان کرتے ہیں ۔

اب اگر ہم ان کے شعور کو قبول کرلیں اور نص قرآن کے مطابق اسے قبول کرناضروری ہے تو اس کے بعد موجودات کی تسبیح کے سلسلے میں کسی توجیہ اور تا ویل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔

____________________

١۔ قرآن میں اس جملہ کی چار مرتبہ تکرار ہوئی ان میں سے ایک سورہء انبیاء آیت ١۰٩بھی ہے.

٢۔ نمل ٢٢ ، ٢٧.

۱۵۶

آٹھواں باب

قنوت

لغت میں قنوت کے معنیٰ ایسی اطاعت کے ہیں جو خضوع کے ساتھ ہو ۔

جیسا کہ خدا وند عالم حضرت مریم ٭ سے خطاب فرماتا ہے (یا مریم اقنت لربک )(١) لیکن نماز میں قنوت سے مراد وہی دعا ہے جسے ہم ہر نماز کی دوسری رکعت میں پڑھتے ہیں۔

حضرت امام صادق ـ اس آیت (تبتل الیه تبتیلا )(٢) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ( تبتل ) یعنی ہاتھوں کو نماز میں دعا کے لئے بلند کریں ۔(٣)

لغت میں '' تبتل '' کے معنیٰ غیر خدا سے قطع امیدکرنا ہے ۔(٤)

قرآن کریم تاکید فرماتا ہے (ادعوا ربکم تضرعا و خفیة )(٥) تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خاموشی سے پکارو ۔پروردگار عالم کی بارگاہ میں ہاتھوں کو بلند کر کے دعا کرنا تضرع و زاری کی نشانی ہے(٦) فقیر انسان اپنے ہاتھ کو بے نیاز مطلق کی طرف پھیلاتا ہے ۔ فقط اسی سے مانگتا ہے اس کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا ۔

اگرچہ نماز میں قنوت مستحب ہے لیکن اس کے اوپر اتنی توجہ دی گئی ہے کہ امام رضا ـ مأمون کو خط میں لکھتے ہیں کہ قنوت رات دن کی ہر نماز میں ایک واجب سنت ہے(٧)

____________________

١۔ آل عمران٤٣

٢۔ مزمل ٨ ۔٨٢ صفحہ١٩٧

٣۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٩١٢

٤۔ مفردات راغب

٥۔ اعراف ٥٥

٦۔ معانی صدوق صفحہ ٣٦٩.

٧ ۔ بحار الانوار جلد ٨٢۔صفحہ١٩٧.

۱۵۷

البتہ اس سے امام کی مراد قنوت کی اہمیت کی و ضا حت ہے ۔ چنانچہ اگر انسان رکوع سے پہلے اس کو بھول جائے تو مستحب ہے کہ رکوع کے بعد اس کی قضا کرے اور اگر سجدہ میں یاد آئے تو سلام کے بعد اس کی قضا کرے ۔

قنوت کے آداب میں آیا ہے کہ ہاتھوں کو چہرے کے برابر تک بلند کریں ۔ ہاتھوں کی ہتھیلی چہرے کے بالکل سامنے اور آسمان کی طرف ہو ۔ دونوں ہاتھوں کو برابر ملائیں اور انگوٹھے کے علاوہ ساری انگلیاں آپس میں چپکی ہوں۔ دعا پڑھتے وقت نظر ہتھیلی پر ہو دعا بلند آواز میں پڑھیں لیکن آواز اتنی بلندنہ ہو کہ امام جماعت کو سنا ئی دے۔(١)

قنوت کی کوئی مخصوص دعا نہیں ہے انسان ہر دعا پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ دعا عربی میں ہو اپنی زبان میں بھی اپنی حاجت کہی جاسکتی ہے ۔ البتہ یہ واضح رہے کہ قرآن کریم کی دعائیں یا وہ دعائیں جو ائمہ معصومین ٪ اپنے قنوت میں پڑھتے تھے ان کی اپنی فضیلت اور اولویت ہے ۔

مختلف نمازوں کے قنوت

نمازوں میں قنوت کی تعداد ایک جیسی نہیں ہے ۔ پنجگانہ نمازوں میں صرف ہر نماز میں ایک قنوت دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے ہے ۔ لیکن نماز جمعہ دو رکعت ہے اور اس میں دو قنوت ہیں ۔ ایک رکعت اوّل میں رکوع سے پہلے دوسرا دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ہے ۔

نماز عید فطر و عید قربان میں دو رکعت میں ٩ قنوت پڑھے جا تے ہیں ۔پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے ٥ قنوت پے در پے ، اسی طرح دوسری رکعت میں ٤ قنوت ۔

____________________

١۔ توضیح المسائل : قنوت کے مسائل

۱۵۸

البتہ ان قنوت کے لئے ایک خاص دعا وارد ہوئی ہیں ۔ حتی نماز آیات جودو رکعت ہے اور اس کی ہررکعت میں ٥ رکوع ہیں ۔ اس میں مستحب ہے کہ دوسرے ، چوتھے ، چھٹے ، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھا جائے اگر چہ صرف دسویں رکوع سے پہلے ایک قنوت بھی کافی ہے ۔

نماز وتر جو ایک رکعت ہے اورنماز شب کے بعد پڑھی جاتی ہے اس کا قنوت طویل ہے اس قنوت میں کافی دعائیں ہیں جن میں ٧۰ مرتبہ استغفار ،٣۰۰ مرتبہ العفو اور چالیس مؤمنوں کے لئے دعا ہے ۔

نماز استسقاء میں بھی نمازعید کی طرح ہے پہلی رکعت میں ٥ قنوت اور دوسری رکعت میں ٤ قنوت ہیں ۔ بہرحال قنوت کو لمبا پڑھنا مستحب ہے جناب ابوذر نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ کون سی نماز اچھی ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ایسی نماز جس کا قنوت طویل ہو اور جو لمبے قنوت پڑھتا ہے اس کے لئے قیامت میں آسانی ہے ۔(١)

معصومین کے قنوت

ابن مسعود اپنے مسلمان ہونے کی وجہ تین شخصیات : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت علی ـ اور حضرت خدیجہ ٭ کی نماز اور ان کے طولانی قنوت کو سمجھتے ہیں ۔(٢)

زیارت آل یٰس میں حضرت مہدی ( عج)کو سلام کرتے ہو ئے ہم یہ کہتے ہیں:

''السلام علیک حین تصل و تقنت ''

آپ پر سلام ہو جب آپ نماز اور قنوت کے وقت کھڑے ہوتے ہیں ۔

ہر معصوم سے قنوت کی بڑی بڑی دعائیں نقل ہوئی ہیں ، جن کے لکھنے کایہاں امکان نہیں

____________________

(١) بحار ج٨٢صفحہ ٢۰۰.

(٢) بحار ج ٣٨ صفحہ ٢٨۰.

۱۵۹

ہے اور اس بات پر تعجب ہے کہ قنوت ، جس کی اتنی برکتیں ہیںوہ اہل سنت کے یہاں سے کیوں ختم ہوگیا ۔ کیا حضرت علی ـ اور خلفاء راشدین نماز میں قنوت نہیں پڑھتے تھے ؟

قنوت میں صرف اپنی اور اپنی حاجت کی فکر میں نہ رہنا چا ہیئے بلکہ حضرت زہرا ٭ سے سبق لینا چا ہئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''الجار ثم الدار ''(١) پہلے پڑوسی کی فکر کرو پھر اپنے گھر والوں کی ۔ '' اس لئے کہ خدا وند متعال نے وعدہ کیا ہے کہ جو دوسروں کے لئے دعا کرے گا خدا اس کی بھی حاجت پوری کرے گا ۔

قنوت میں دشمنان ِ دین کے لئے بد دعا کریں اور اسلام و مسلمین کے لئے دعا کریں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے قنوت میں کچھ لو گوں پر ان کے نام اور ان کی خصوصیات کے ساتھ لعنت کرتے تھے ۔

بہرحال تولّااور تبرّا دین کا جز ہی نہیں بلکہ ہمارے دین کی بنیاد ہے۔

''هل الدین لّا الحبّ و البغض'' (٢)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ٨١ ۔

٢۔ بحار الانوار جلد ٦٨ صفحہ ٦٣ ۔

۱۶۰