نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر0%

نماز کی تفسیر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

نماز کی تفسیر

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 74829
ڈاؤنلوڈ: 3673

تبصرے:

نماز کی تفسیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74829 / ڈاؤنلوڈ: 3673
سائز سائز سائز
نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : نماز کی تفسیر

مؤلف : حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی

مترجم: سید محمد یامین نقوی

تصحیح: سید نجم الحسن نقوی

نظر ثانی: سیدکمیل اصغر زیدی

پیشکش: معاونت فرہنگی، ادارۂ ترجمہ

ناشر: انتشارات مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

طبع اول : ١٤٢٧ھ، ٢۰۰٦ئ

تعداد : ٣۰۰۰

مطبع : اعتماد

۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہلبیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام آقای محسن قرائتی کی گرانقدر کتاب تفسیر نماز کو فاضل جلیل مولانا سید محمد یامین نقوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

پیش لفظ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ ربّ العالمین و صلّی الله علی سیدنا و نبینا محمد و آله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین

ہمیں اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ نئے ہجری شمسی سال یعنی ١٣٧٤ھ ش ( بمطابق ٢١مارچ ١٩٩٦ء ) کے آغاز میں ہم حضرت امام رضا ـ کے روضۂ اقدس کے جوار میں مو جود ہیں اور اس کتاب کو جسکااجمالی خاکہ پہلے سے تیار کر چکے تھے اب سال نو کی تحویل کے بعد لکھنا شروع کیا ہے۔

انقلاب اسلامی کے بعد مدرسوں ، یونیورسٹیوں ، فوجی مراکز اور دوسری عمومی جگہوں پر نماز قائم کرنے کے سلسلہ میں جو کوششیں عمل میں آئیں ، ان کے ساتھ میں نے بھی ''اسرار نماز کی ایک جھلک''،''نماز کے ہمراہ'' اور '' نماز کے سلسلہ میں ایک سو چودہ نکتے '' جیسی کتابیں لکھنے کے بعد یہ پکا ارادہ کرلیا تھا کہ اذکار نماز ؛تکبیر ،حمد وسورہ ،رکوع و سجود، تشہد اور سلام کی تفسیر لکھوں گاتاکہ جو بھی ہم اس سلسلہ میں خدا سے کہتے ہیںاسے اچھی طرح سمجھیں اور معرفت و آگاہی کے ساتھ خدا کی عبادت کریں ۔

اصل بحث کو شروع کرنے سے پہلے ''عبادت و عبودیت ''پر ایک سرسری نظر ڈالتے چلیں جو نماز اور تمام واجب عبادتوں کی روح ہے ،تا کہ ہم اپنی زندگی میں اس کے بلند مقام و مرتبہ کو اچھی طرح سمجھ سکیں ۔

محسن قرائتی

۷

پہلا باب

عبادت و عبودیت

عبادت کیا ہے ؟

ہماری تخلیق کا اصل مقصد عبادت ہے ''و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون (١)

ہم لوگ جو بھی کام انجام دیتے ہیں اگر رضائے پروردگار کی خاطر ہو تو وہ عبادت ہے چاہے وہ کام علم حاصل کرنا ، شادی کرنا یالوگوں کی خدمت کرنا ہو اور یااپنی یا معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خاطر ہو ۔ جو چیز کسی کام کو عبادت بناتی ہے وہ انسان کی مقدس نیت ہے جس کو قرآن مجید کی زبان میں ''صبغة الله ''( ٢) کہتے ہیں یعنی جس میں خدائی رنگ و بو پائی جائے ۔

فطرت و عبادت

ہمارے کچھ کام عادت کی بنا پر ہوتے ہیں اور بعض کام فطرت کی بنا پر انجام پاتے ہیں۔ جو کام عادت کی بنا پر ہوتے ہیں ممکن ہے کہ وہ کسی اہمیت کے حامل ہوں جیسے ورزش کی عادت اور ممکن ہے وہ کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں ، جیسے سگریٹ پینے کی عادت، لیکن اگر کوئی کام فطری ہو یعنی فطرت اور اس پاک سرشت کی بنا پر ہو جو اللہ تعالیٰ نے ہر بشر کے اندر ودیعت کی ہے تو ایسا ہر کام اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔عادت پر فطرت کی فوقیت یہ ہے کہ فطرت میں زمان ، مکان، جنسیت، نسل اورسن و سال مؤثر نہیں ہوتے ۔ ہر انسان اس جہت سے کہ انسان ہے فطرت رکھتا ہے جیسے اولاد سے محبت،کسی خاص نسل یازمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر انسان اپنے بچے

____________________

١۔ ذاریات آیہ ٥٦.

٢۔بقرہ آیہ ١٣٨.

۸

کو چاہتا ہے(١) لیکن لباس اور غذا جیسی چیزیں عادات میں شامل ہیں جن میںزمان و مکان کے اختلاف سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ بعض جگہوں پر کچھ رسم و رواج مو جودہیں لیکن دوسری جگہ پر وہی رسم و رواج نہیں پائے جاتے ہیں۔

عبادت و پرستش بھی ایک فطری امر ہے اسی لئے جتنی بھی قدیم ، خوبصورت اور مضبوط عمارتیں دیکھنے میں آتی ہیں وہ عبادت گا ہیں ، مسجدیا مندر اور چرچ وغیرہ ہیں یا پھر آتش کدے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ عبادت و پرستش کے انواع و اقسام میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو خود معبود میں فرق ؛ یعنی پتھر ، لکڑی اور بت کی عبادت سے لے کر خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت تک۔ اسی طرح عبادت کے طریقوں میں فرق ہے جیسے ناچنے ، مٹکنے سے لے کر اولیاء اللہ کی انتہائی عمیق و لطیف مناجات تک فرق پایا جاتا ہے ۔

انبیاء کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگوں کے اندر خدا کی عبادت و پرستش کی روح پھو نکیںبلکہ انکا اصل مقصد معبو د سے متعلق تصور اور عبادت کے طریقے کو صحیح کرنا تھا ۔

مساجد ، گرجا گھروں اور مندر وغیرہ کی عمارتوں میں اتنا زیادہ پیسہ لگانا ، اپنے وطن کے پرچم کو مقدس سمجھنا ، اپنی قوم کے بزرگوں اور بڑی شخصیتوں کی قدر کرنا ، لوگوں کے کمالات و فضائل کی تعریف کرنا حتی اچھی چیزوں سے رغبت ہو نایہ سب انسان کے وجود میں روحِ عبادت کے جلوے ہیں ۔

جو لوگ خدا کی عبادت نہیں کرتے ہیں وہ بھی مال و اقتدار یا بیوی ، بچوں،سندا ور ڈگری یا

____________________

١۔ سوال: اگر بچے سے محبت کرنا فطری چیز ہے تو پھر کیوں بعض زمانوں ، جیسے دورجاہلیت میں لو گ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ؟ جواب : فطری مسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں جیسے اولاد سے محبت فطری ہے اسی طرح حفظ آبرو بھی فطری ہے ۔عرب کے جاہل لڑکی، کو ذلت کاباعث سمجھتے تھے چونکہ جنگوں میں عورتیں اسیر ہوتی تھیں اور ان سے کوئی اقتصادی فائدہ نہیں ہوتا تھا، لہٰذا آبرو کے تحفظ کے لئے اپنی لڑکیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے تھے ۔ دور جانے کی بات نہیں ہے مال اور جان دونوں سے محبت کرنا فطرت ہے لیکن کچھ لوگ مال کو جان پر اور کچھ لوگ جان کو مال پر قربان کر دیتے ہیں لہٰذا لڑکی کو آبرو پر قربان کرنا اولا د سے محبت کی فطرت کے منافی نہیں ہے۔

۹

فکر و قانون اوراپنے مکتب فکر یا اپنی راہ و روش کی پوجا کرتے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اس راہ میں اتنا زیادہ بڑھ جاتے ہیں کہ دل دے بیٹھتے ہیں اور جانفشانی پر تیار رہتے ہیں ۔ اپنی پوری ہستی کو اپنے معبودپر فدا کر دیتے ہیں ۔ خدا کی عبادت انسان کی فطرت کی گہرا ئیوں میں شامل ہے ، چاہے انسان اس سے غافل ہی ہو جیسے مولاناروم کہتے ہیں :

ہمچو میل کو دکان با مادران

سرّمیل خودنداند درلبان

'' انسان اپنی فطرت کی طرف اس طرح رغبت رکھتا ہے جیسے بچہ اپنی ماں سے ، جبکہ اس کا راز وہ نہیں جانتا''۔

خدائے حکیم نے جس رغبت اور چا ہت کو پیکر انسان میں قرار دیا ہے اس کی تکمیل و تشفی کے اسباب و وسائل بھی فراہم کئے ہیں ۔ اگر انسان کو پیاس لگے تواس کے لئے پانی پیدا کیا ، اگر انسان کو بھوک لگے تو غذا بھی موجود ہے ۔ اگر خداوند عالم نے انسان میں جنسی خو اہش کو رکھا تو اس کے لئے شریک حیات کو بھی خلق کیا،اگر خدا نے قوت شامّہ دی تو اس کے لئے اچھی خوشبوئیں بھی پیدا کیں ۔

انسان کے متعددجذبات میں سے ایک گہرا جذبہ یہ ہے کہ وہ لا متناہی چیز سے رغبت رکھتا ہے ، کمال سے عشق کرتا ہے اور بقاء کو دوست رکھتا ہے ۔ اور ان فطری رجحانات کی تکمیل ، خداوند متعال سے رابطہ اور اس کی پرستش کے ذریعہ ہوتی ہے ،نماز و عبادت ؛ کمال کے سر چشمہ انسان کا ارتباط ، محبوب واقعی سے اُنس اور اس کی قدرت لا متناہی میں احساس امنیت کرنا ہے ۔

عبادت کی بنیاد

ایساکون ہے جو خدا کے لا محدود اور نا متنا ہی اوصاف و کمالات کوپہچان لے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے اور خاضع نہ ہو ؟ قرآن مجید واقعات و تاریخ کے ذریعے پروردگار عالم کی قدرت و عظمت کی نشانیوں کو ہمارے لئے بیان کرتا ہے ۔

۱۰

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ خدا نے کنواری جناب مریم کوبیٹا عنایت کیا۔ دریائے نیل میں جناب موسیٰ ـ کے لئے راستہ بنایا اور فرعون کو اسی میں غرق کر دیا ۔ اپنے نبیوں کو خالی ہاتھ دنیا کی بڑی طاقتوں پر کامیاب کیا اور ظالموں کی ناک مٹی میں رگڑ دی۔

وہ خدا جس نے بے جان مٹی سے تم کو پیدا کیا موت و زندگی ، عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ کون ہے جو اپنے ضعف و ناتوانی، اپنے جہل ،اپنی بے چارگی اور اپنے کو متوقع یا غیر متوقع حوادث و خطرات میں دیکھے لیکن نجات دینے والی قدرت کی ضرورت کااحساس نہ کرے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کرے ؟!

قرآن کریم جگہ جگہ پر انسان کے ضعف و ناتوانی کا ذکر کرتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : تم پیدائش کے وقت کچھ بھی نہیں جانتے تھے کسی چیز سے آگاہ نہ تھے تم سراپا فقر تھے اور طاقت حاصل ہونے کے بعد پھر اسی ضعف و ناتوانی کی طرف جاؤ گے ۔

تم کو ہر وقت مختلف قسم کے خطرے دھمکی دیتے ہیں ۔ اگر زمین کی حرکت کم ہو جائے رات و دن اپنی جگہ پر رک جائیں تو کون ہے جو ان کی حرکت کو بڑھا دے اور تغییر پیدا کرے؟! اگر سارا پانی زمین کے اندر جذب ہوجائے تو تمہارے لئے چشمہ کا پانی کون بہا کر لائے گا ؟(١)

اگر ہم چاہتے تو اسے کھارا بنا دیتے تو پھر تم ہمارا شکریہ کیوں نہیں ادا کرتے ؟(٢)

اگر ہم چاہیں تو درختوں کو ہمیشہ کے لئے خشک کر دیں ۔(٣)

اگر ہم چاہیں تو زمین ہمیشہ لرزہ براندام و متزلزل رہے ۔(٤)

____________________

١۔ ملک آیہ ٣۰.

٢۔ واقعہ آیہ ٧۰

٣۔ واقعہ آیہ ٦٥.

٤۔سبا آیہ ٩

۱۱

یہ اور اس کے علاوہ دسیوں نمونے قرآن بیان فرماتا ہے تاکہ انسان کو غفلت سے بیدار کرے ، اس کے تکبر کو توڑ دے اور پیدا کرنے والے کے سامنے عبادت و تذلل پر آمادہ کرے ۔

عبادت کی گہرائی

عبادت ایک ایسا عمل ہے جسکو ظاہراً خضوع کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ عمیق ہے ۔

عبادت کا مرکز ہماری روح ہے، عبادت کا سر چشمہ معرفت ہے ،عبادت کی بنیادتوجہ ہے، عبادت کی شروعات تقدس سے ہوتی ہے ،آغاز عبادت تعریف و ستائش سے ہے، عبادت دعا ہے ، عبادت میں التجا و استعانت ہے ، عبادت معبود کے کمالات سے عشق کا نام ہے ۔

عبادت ظاہراً ایک آسان کام ہے لیکن عبادت میں اگر مذکورہ بالا چیزیں نہ ہوں تو انسان سے عبادت نہیں ہو سکتی ۔ عبادت یعنی مادّیت سے رغبت کو ختم کر لینا اور اپنی روح کو پروازعطا کرنا۔ قدموں کو دیکھنے اور سننے والی اشیاء سے آگے رکھنا ۔ عبادت انسان کے عشق کی تکمیل کرتی ہے ،جس میں کبھی حمد و تعریف کے ذریعہ ،کبھی تسبیح و تقدیس کے ذریعہ اور کبھی اپنے قیمتی اوقات میں شکر و اظہار تسلیم کے ساتھ ،پروردگار عالم کے تئیں اپنے ادب و احترام کااظہار مقصودہوتا ہے۔

عبادت سے بے توجہی

حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں : اے انسان ! تمہاری آنکھیںاندھی ہوجائیں اگر تم اپنی عمر کے اتنے سال گزارنے کے بعد بھی ( جبکہ تمہارے پاس اتنی استعداد ، قابلیت ، وسا ئل ، عقل ، علم اور وحی احکام الٰہی مو جود ہیں ) حیوانوں کی طرح چراگاہ عالم میں کھاؤ پیواور سو جاؤ ۔(١)

____________________

١۔قرّت اذاً عینه اذا قتدیٰ بعد السنین المتطاوله بالبهیمة الهاملة و السائمة المرعیّة ( نہج البلاغہ مکتوب٤٥ )

۱۲

جی ہاں ! تمدن ، ٹیکنالوجی ، جدید آلات اور پیشرفت نے زندگی کو سکون بخشا اور یہ رفاہ و آسائش کا تحفہ لائیں لیکن کیاانسان کا کمال دنیا کی راحت بخش چیزوں کے حاصل کرنے میں ہے ؟

اگر ایسا ہی ہے تو پھر جانور ، کھانے پینے ، پوشاک ،گھرا ور جنسی تسکین میں انسان سے بھی آگے ہیں۔

جانور انسانوں سے زیادہ اچھا اوربغیر زحمت کے کھاتے ہیں ۔ ان کو کھا نا پکا نے اور تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ انہیں کپڑے سلنے ، دھلنے اور استری کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جانور کسی محنت و مشقت کے بغیر اپنی جنسی خواہش کو پورا کرتے ہیں ۔

کتنے پرندے اور کیڑے مکو ڑے ایسے ہیں جن کے اندر گھر اور گھونسلے بنانے کی مہارت کو دیکھ کر انسان تعجب میں پڑ جاتا ہے ۔ اصولاً کیا یہ ٹیکنالوجی کاارتقاء انسانیت کی ترقی کا سبب بناہے ؟ کیا انفرادی و معاشرتی برائیاں کم ہوگئی ہیں ؟ کیا یہ آسائش ،دل کو سکون بخشتی ہے ؟

بہرحال اگر انسان کے ہاتھ کو معصوم او رعادل رہبر کے ہاتھ میں نہ دیا جائے تو انسانیت پر ظلم ہوگا اگر انسان کا دل پروردگار سے وابستہ نہ ہو تو انسانیت کے مقام و منزلت کی توہین ہوگی ۔

۱۳

رضائے الٰہی محور عبادت ہے

جس طرح سے آسمانی کرات اور کرہ ارضی مختلف ( وضعی و انتقالی ) حرکات کے باوجود ہمیشہ ایک ثابت مدار رکھتے ہیں اسی طرح عبادت بھی ہے اپنی مختلف شکلوںکے با وجود ایک ثابت مدار رکھتی ہے اور وہ رضائے الہی ہے ۔ اگرچہ زمان و مکان اور انفرادی و اجتماعی شرائط اس مدار میں انجام پانے والی حرکتوں کو معین کرتے ہیں ۔ جیسے سفر میں چار رکعتی نماز دو رکعت ہو جاتی ہے اور بیماری میں نماز پڑھنے کی شکل بدل جاتی ہے لیکن دو رکعتی یا قصر نماز ، نماز ہے یہ بھی یاد خداا ور رضائے پروردگار کو انجام دینے کے لئے ہوتی ہے ۔''واقم الصلاة لذکری'' (١)

عبادت کا جذبہ

عبادت روح کی غذا ہے ۔ سب سے اچھی غذا وہی ہوتی ہے جو بدن میں جذب ہو جائے (یعنی بدن کے لئے سود مند ثابت ہو ) نیز بہترین عبادت وہ ہے جو روح میں جذب ہو جائے یعنی خوشی اور حضور قلب کے ساتھ انجام پائے ۔ زیادہ کھانا اچھی بات نہیں ہے بلکہ سود مند غذا کھانا ضروری ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،جابر بن عبد اللہ انصاری سے ارشاد فرماتے ہیں :

'' انّ هذا الدین لمتین فاوغل فیه برفق و لا تبغض الی نفسک عبادة الله'' ۔(٢)

خدا کا دین مستحکم و استوار ہے اس کی نسبت نرم رویہ اختیار کرو ۔(لہٰذا جس وقت روحی اعتبار سے آمادہ نہ ہو اس وقت عبادت کو اپنے اوپر بوجھ نہ بناؤ )کہ تمہارا نفس اللہ کی عبادت سے نفرت کرنے لگے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دوسری حدیث میں ہے :

'' طوبیٰ لمن عشق العبادة و عانقها '' (٣)

وہ شخص خوشحال ہے جو عبادت سے عشق کرتا ہے اور اپنے محبوب کی طرح عبادت کو گلے لگاتا ہے۔

____________________

١۔ طہٰ آیہ ١٤.

٢۔ بحار الانوار جلد ٧١ صفحہ ٢١٢.

٣۔ بحارالانوار جلد ٧١ صفحہ ٢١٢

۱۴

عبادت میں اعتدال

عبادت و پرستش اسی وقت باقی رہ سکتی ہے جب انسان اس کے بجا لانے میں اعتدال سے کام لے ،لہذا حدیث کی کتابوں میں بعض روایات '' باب الاقتصاد فی العبادة'' (عبادت میں میانہ روی کا باب)کے نام سے نقل ہوئی ہیں ۔(١)

انسان اس وقت سالم ہے کہ جب اس کے تمام اعضاء و جوارح متناسب ہوں ، اگر حدّ معمول سے اعضاء چھوٹے یا بڑے ہوں تو وہ ناقص الخلقت کے زمرہ میں آئے گا ۔ اسی طرح انسان عبادت اور معنوی کاموں میں بھی نظم و ضبط پیدا کرے ۔ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لوگوں نے بتایا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت میں سے کچھ لوگ عبادت کی خاطر اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ کر مسجد میں آگئے ہیں ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ میری راہ و روش نہیں ہے ہم خود اپنی بیوی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور گھر میں رہتے ہیں جو شخص بھی ہمارے راستہ سے ہٹ کر عمل کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔(٢)

امام جعفر صادق ـ ایک مسلمان کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مسلمان کا پڑوسی عیسائی تھا یہ عیسائی مسلمان ہوگیا اس مسلمان نے اس تازہ مسلمان کو صبح ،سحر کے وقت جگایا اور اس کو مسجد لایا ۔ اس سے کہا کہ نماز شب پڑھو اس نے نماز شب پڑھی اس کے بعد صبح ہوگئی جب صبح ہوگئی تو کہا کہ نماز صبح پڑھو ۔ اس کے بعد سورج نکلنے تک دعائیں پڑھیں اور سورج نکلنے کے بعد نماز ظہر تک قرآن پڑھا اسی طرح اس مسلمان نے اس بے چارے تازہ مسلمان کو ٢٤ گھنٹے تک مسجد میں پھنسائے رکھا ۔ اب نماز پڑھو ،اب دعا پڑھو، اب قرآن پڑھو ۔ یہ عیسائی جب گھر واپس گیا تو اسلام سے منحرف ہوگیا

____________________

١۔ کافی ج ٢ ص ٨٦. ٢۔ کافی جلد ٥ صفحہ ٤٩٦.

۱۵

اور اس کے بعد دوبارہ مسجد میں قدم نہیں رکھا ۔(١)

جی ہاں ! عبادت میں اس طرح کی افراط و تفریط لوگوں کو عبادت سے دور کردیتی ہے۔

شہید مطہری نقل کرتے ہیں کہ : عمرو عاص کے دو بیٹے تھے ایک حضرت علی ـ کا چاہنے والا تھا اور ایک معاویہ کا طرفدار ہوگیا ۔ ایک روز رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرو عاص کے نیک بیٹے (عبداللہ ) سے فرمایا : ہم نے سنا ہے کہ تم راتیں عبادت میں گزارتے ہو اور دنوں کو روزہ رکھتے ہو ، اس نے کہا جی ہاں یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہم کو یہ روش قبول نہیں ۔(٢)

دوسری روایت میں آیا ہے:

'' انّ للقلوب اقبالا و ادبارا '' (٣)

انسان کی روح لگاؤ اور فرار دونوں رکھتی ہے ۔ جس وقت روح متوجہ اور متمایل ہو اس وقت اس سے فائدہ اٹھاؤ اور جس وقت آمادہ نہ ہو اس کے اوپر دباؤ نہ ڈالو ۔ اس سے خود بخود بر عکس عمل وجود میں آتا ہے ۔

اسلام نے تاکید کی ہے کہ اپنے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرو ان چار حصوں میں سے ایک حصہ کو تفریح و لذت میں گزارو ۔ اگر اس طریقہ پر عمل کرو گے تو دوسرے کاموں کے لئے نشاط حاصل ہوگا ۔(٤)

وہ یہودی جو چھٹی اور آرام کے دن مچھلی کے شکار کے لئے جاتے تھے قرآن مجید نے ان کو زیادتی کرنے والوں میں سے یاد کیا ہے ۔

____________________

١۔ سیری در سیرہ ٔنبوی صفحہ ٢١٣.

٢۔ طہارت روح صفحہ ١٢٢.

٣۔ بحار الانوار جلد ٧٨ صفحہ ٣٥٧، کافی ج ٢ ص ٨٦

٤۔ بحار الانوار جلد ١٤ صفحہ ٤١

۱۶

(و لقد علمنا الذین اعتدوا منکم ف السبت )(١)

تم ان لوگوں کو بھی جانتے ہو جنہوں نے ہفتہ کے معاملہ میں زیادتی سے کام لیا تو ہم نے حکم دے دیا کہ اب ذلّت کے ساتھ بندر بن جائیں ۔

بہرحال عبادت میں نشاط و آمادگی ایک اصل ہے جو اعتدال و میانہ روی کی رعایت کرنے سے حاصل ہوتی ہے ۔

عبادت میں انتظامی صلاحیت

صرف معاشرتی ، اقتصادی اور سیاسی مسائل میں ہی انتظامی صلاحیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ عبادت کے تمام کاموں میں بھی اس کی ضرورت ہے ۔

انتظامی صلاحیت میں جو چیزیں آتی ہیں وہ ہیں ، منصوبہ بندی ، طریقہ ٔکار ، تجربہ کار افراد کا انتخاب ، نظم و ضبط ، نظارت ، کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تمام چیزوں پر کنٹرول رکھنا وغیرہ ۔ عبادت میں بھی انہیں اصولوں کی رعایت کی جائے تاکہ رشد و کمال کا باعث بنے ۔

نماز ایک معین منصوبے کے ما تحت ہے جو تکبیر سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے اس کی رکعتوں اور رکوع و سجود کی تعداد بھی مشخص ہے ، نماز کے اوقات مخصوص ہیں اور اس کی سمت، قبلہ کی طرف ہے ۔

صرف یہ منصوبہ اور خاکہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے پڑھنے اور انجام دینے کے لئے امام جماعت کا انتخاب بھی ضروری ہے جو ہر طریقہ سے کامل ہو اور معاشرے کو پہچانتا ہو ۔ امام جماعت، آداب ، اخلاق ، پاکیزگی ، نماز میں نشاط اور مسجد میں آنے کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے اور

____________________

١۔سورہ بقرہ ٦٥

۱۷

انھیں اس کی ترغیب دلائے ۔ جماعت کی صفوں میں نظم و نسق اور امام جماعت کی اقتداء کی رعایت ہونی چاہئے ۔ بہر حال ایک کامل انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہے تاکہ نماز بہترین طریقے سے انجام پائے۔

عبادت؛ شب و روز کا دواخانہ ہے

ہر شخص ہر وقت ہر حالت میں پہلے سے وقت لئے بغیر اور بلا واسطہ پروردگار عالم سے رابطہ قائم کر سکتا ہے ، اگرچہ مخصوص اوقات میں جیسے سحر کے وقت ، جمعہ کے روز ، سورج ڈوبتے وقت ، نماز جمعہ کے خطبے ختم ہونے کے بعد ، بارش کے وقت یا شب قدر میں دعا ما نگنے اورعبادت کر نے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتاہے ۔ لیکن دعا و مناجات کا کوئی وقت مخصوص نہیں ہے ۔

عبادت ہرحال میں غفلت اور بھول چوک اور گناہوں کی دوا ہے

(اقم الصلاة لذکر )(١)

اللہ کا ذکر اور عبادت دل کو آرام و اطمینان پہنچاتے ہیں اوران سے دل کا اضطراب اورپریشانی ختم ہوجاتی ہے

(الا بذکر الله تطمئن القلوب )(٢)

عبادت سکون کا باعث ہے

آپ بڑے بڑے سرکش ، سرمایہ داروں اور صاحبان علم و صنعت کو پہچانتے ہیں لیکن کیا ان سب کے یہاں قلبی سکون کا سراغ ملتا ہے ؟ !

____________________

١۔ طہ ۔ آیہ ١٤

٢۔ رعد آیہ ٢٨.

۱۸

کیا اہل مغرب کے پاس روحانی ا ور نفسیاتی سکون موجود ہے ؟

کیا قدرت و صنعت اور مال و ثروت آج کے انسان کو صلح و دوستی اوردلی اطمینان و سکون عطا کرسکے ہیں ؟ لیکن خدا کی عبادت و اطاعت سے خدا کے اولیاء کو ایسی کیفیت و حالت حاصل ہوتی ہے کہ کسی بھی حالت میں یہ لوگ مضطرب او رپریشان نہیں ہوتے ۔ یہاں پر مناسب ہے کہ انقلاب اسلامی کے عظیم الشان قائد امام خمینی کے دو واقعے نقل کردیں :

شاہ ایران کے بھاگنے کے بعد اگرچہ شاہ کا بے اختیار نوکر شاہ پور بختیار حکومت کر رہا تھا ، پھر بھی امام خمینی نے یہ فیصلہ کیا کہ ١٥ سال کی جلا وطنی کے بعد اپنے ملک ( ایران ) واپس جائیں ۔ نامہ نگاروں نے آپ سے ہوائی جہاز میں سوال کیا : آپ اس وقت کیا محسوس کر رہے ہیں ؟ امام خمینی نے جواب دیا کچھ بھی نہیں ( یعنی آپ کو ہر اعتبار سے اطمینان تھا ) جبکہ اس وقت ان کے لاکھوں ایرانی عاشقان کی جان کو در پیش خطر ہ کی وجہ سے پریشان تھے مگرامام خمینی بہت اطمینان کے ساتھ ہوائی جہاز کے اندر عبادت و دعا میں مشغول تھے ۔ یہ اطمینان قلب صرف خدا کی یاد سے حاصل ہوتا ہے ۔

دوسرا واقعہ جس کو امام خمینی کے صاحبزادے جناب الحاج سید احمد خمینی سے سنا ہے وہ یہ ہے کہ جس روز شاہ ، ایران سے بھاگا اس روز پیرس میں دسیوںنا مہ نگار اور فوٹو گرافر، ان کی قیام گاہ پر آئے تاکہ اس مسئلہ میں امام کی بات کو دنیا میں پھیلائیں ۔ امام خمینی نے کرسی پر بیٹھ کر چند کلمے کہے پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ : کیا نماز ظہر کا وقت ہوگیا ہے ؟ ہم نے کہا جی ہاں ۔ امام خمینی نے فوراً اپنی بات منقطع کی اور اوّل وقت نماز کے لئے کرسی سے اتر آئے ۔ سارے لوگ پریشان ہوگئے کہ کیا بات ہوگئی ۔ ہم نے کہا کہ امام خمینی نماز کواوّل وقت پڑھتے ہیں۔

۱۹

جو کچھ بھی امام خمینی نے پیرس میں انجام دیا وہ ایک درس تھا جو انہوں نے اپنے امام حضرت علی رضا ـ سے سیکھا تھا ۔ تاریخ میں ہے کہ صابئین (ستارہ پرست )جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے ۔ ان کا ایک عالم بہت مغرور و متعصب تھا ۔ جب بھی وہ امام رضا ـ سے بات چیت کرتا تھاتو کسی بات کو قبول نہیں کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ بحث میں امام نے اس کی فکر کا اس طرح سے قلع قمع کیا کہ اس نے کہا کہ اس وقت میرا دل کچھ نرم ہوا اور تمہاری دلیلوں کو قبول کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں اذان کی آواز آئی ۔ امام نماز پڑھنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ آپ کے دوستوں نے کافی اصرار کیا کہ اگر تھوڑی دیر اس سے آپ اور بات چیت کرلیں تو وہ اور اس کے ساتھی سب مسلمان ہو جائیں گے ۔ امام نے فرمایا اوّل وقت کی نماز اس صابئی کی بحث سے بہتر ہے ۔ اگر وہ لیاقت رکھتا ہے تو نماز کے بعد بھی حق قبول کرسکتا ہے ۔ اس صابئی عالم نے جب یہ ایمانی پختگی اور حق سے عشق دیکھا تو اور زیادہ آپ پر فریفتہ ہوگیا ۔(١)

عبادت کا ما حصل

عبادت ؛ نصرت و الطاف الہی کے حصول کا ذریعہ ہے :

(واعبد ربک حتی یاتیک الیقین )(٢ )

اس قدر عبادت کرو کہ درجہ ٔ یقین پر فائز ہوجاؤ ۔

حضرت موسیٰ ـ آسمانی کتاب توریت کو حاصل کرنے کے لئے چالیس رات دن کوہِ طور پر مناجات میں مشغول رہے اور پیغمبر گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کو حاصل کرنے کے لئے ایک طولانی مدت تک غار حرا میں عبادت کرتے رہے ۔ روایتوں میں آیا ہے : ''مَن اخلص العبادة لله اربعین صباحا ظهرت ینابیع الحکمةمن قلبه علی لسانه'' (٣)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٤٩ صفحہ ١٧٥.

٢۔ حجر آیہ ٩٩

٣۔ بحار الانوار جلد ٥٣ صفحہ ٣٢٦.

۲۰