نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر0%

نماز کی تفسیر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

نماز کی تفسیر

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 74881
ڈاؤنلوڈ: 3673

تبصرے:

نماز کی تفسیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74881 / ڈاؤنلوڈ: 3673
سائز سائز سائز
نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر

مؤلف:
اردو

جو شخص بھی چالیس رات دن اپنے تمام کاموں کو عبادت و خلوص کا رنگ دے تو پروردگار عالم حکمت کے چشمے اس کے دل اورزبان پر جاری کر دیتا ہے ۔

جی ہاں خلوص دل سے عبادت وہ یونیورسٹی ہے جو چالیس روز کے اندر تعلیم سے فارغ ہونے و الوں کو ایسا حکیم بناتی ہے جو حکمت کو الٰہی سر چشمہ سے حاصل کرکے اسے دوسروں کی طرف منتقل کرتے رہتے ہیں ۔

ایمان و عبادت کا ایک دوسرے میں اثر

جس طرح سے ایمان انسان کو عبادت کی طرف کھینچتا ہے عبادت بھی ایمان کو عمیق بنانے میں مؤثر ہے جیسا کہ درخت کی جڑیںپتوں کو کھانا اور پانی پہنچاتی ہیں اور پتے جڑوں کی طرف گرمی اور نور منتقل کرتے ہیں ۔

ہاں عبادت جتنی اچھی اور زیادہ ہوگی، معبود سے انسان کی محبت و انس بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

قرآن مجید میں عبادت کا فلسفہ

قرآن کی نظر میں نماز کا فلسفہ یاد خدا ہے

(اقم الصلاة لذکر )(١)

اور خدا کا ذکر دلوں کے سکون کا باعث ہے

(الا بذکر الله تطمئن القلوب )(٢)

اور قلبی سکون کا نتیجہ عالم ملکوت میں پرواز ہے

____________________

١۔ طہ ١٤.

٢۔ رعد ٢٨.

۲۱

(یا ایتها النفس المطمئنة ارجع الی ربّک )(١)

دوسرے مقام پر قرآن نے عبادت کی وجہ شکر پروردگار قرار دیا ہے۔

( أعبدوا ربّکم الذ خلقکم )(٢)

اپنے پروردگار کی عبادت کرو کہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے ۔

(فلیعبدوا ربّ هذا البیت الذ اطعمهم من جوع و آمَنَهم من خوف )(٣)

پس اس گھر(خانہ کعبہ ) کے پروردگار کی عبادت کریں کہ اس نے انہیں بھوک و پیاس سے نجات دی ۔

بعض آیتوں میں یہ اشارہ ہے کہ نماز تربیت کا کام کرتی ہے ۔

(انّ الصلاة تنهیٰ عن الفحشاء و المنکر )(٤)

بیشک نماز برائیوں اور منکرات سے روکتی ہے ۔

نماز پڑھنے والا مجبور ہے کہ نماز کے صحیح اور قبول ہونے کے لئے کچھ دینی احکام کی رعایت کرے ۔ یہی رعایت سبب بنتی ہے کہ انسان گناہ اور برائیوں سے دور رہے ۔ ظاہر ہے کہ جو سفید کپڑا پہنے ہوگا وہ فطری طور پر گندی اور آلودہ جگہ پر نہیں بیٹھے گا۔

قرآن مجید نماز کی تاکید کرنے کے بعد فرماتا ہے :

(ان الحسنات یذهبن السیّئات )(٥)

بیشک اچھے کام گناہوں کو ختم کردیتے ہیں ۔

پس اس لحاظ سے نماز گزشتہ گناہوں سے ایک عملی توبہ ہے اور پروردگار عالم اس آیت کے ذریعہ گنہگاروں کو امید دلا تا ہے کہ اگر اچھے کام ، جیسے نماز و عبادات بجا لاؤ گے تو خدا تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا ۔

____________________

١۔فجر ٢٨

٢۔ نساء ١.

٣۔ قریش ٢.

٤۔ عنکبوت ٤٥.

٥۔ ہود١١٤.

۲۲

نماز؛ امام علی ـ کی زبانی

حضرت علی ـ نے متعدد بار نہج البلاغہ میں نماز اور یاد خدا کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے جو کتاب '' نماز در نہج البلاغہ '' میں موجود ہے ۔ کچھ جملے جو عبادت اور ذکر و یاد خدا کا فلسفہ بتاتے ہیں اور ان کا سب سے اہم مصداق نماز ہے انھیں ہم یہاں پر حضرت علی ـ سے نقل کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں :''انّ الله جعل الذکر جلائً للقلوب تسمع به بعد الوقَرة و تبصر به بعد العشوة '' (١)

پروردگار نے اپنے ذکر اور اپنی یاد کو روحوں کا صیقل قرار دیا ہے ( یعنی روح پر ذکر خدا کے ذریعہ صیقل ہوتی ہے ) تاکہ کم سننے والے کان سننے لگیں اور بند آنکھیں دیکھنے لگیں۔

اس کے بعد آپ نماز کی برکتوں کے بارے میں فرماتے ہیں : '' قد حفت بھم الملائکة و نزلت علیھم السکینة و فتحت لھم ابواب السماء و اعدت لھم مقاعد الکرامات '' عبادت کرنے والوں کو فرشتے گھیر لیتے ہیں ان کے اوپر سکون نازل ہوتا ہے آسمان کے دروازے ان کے لئے کھلتے ہیں اور ان کے لئے اچھی جگہ تیار کی جاتی ہے ۔

آپ ایک دوسرے خطبہ میں فرماتے ہیں : ''و انها لتحت الذنوب حت الورق و

____________________

١۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٢٢.

۲۳

تطلقها اطلاق الرَّبَق ''(١)

نماز گناہوں کو سوکھے پتوں کی طرح گرادیتی ہے اور انسان کی گردن کو گناہ کی رسی سے آزاد کر دیتی ہے ۔ اس کے بعد آپ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک حسین تشبیہ نقل کرتے ہیں کہ نماز ایک پانی کی نہرکی طرح ہے۔ انسان اس میں ہر روز پانچ مرتبہ اپنے کو پاک کرتا ہے، دھوتا ہے ، کیا اس کے بعد بھی گندگی باقی رہے گی ؟

نہج البلاغہ خطبہ نمبر ١٩٦ میں تکبر و سرکشی اور ظلم جیسے اخلاقی مفاسد کا ذکر کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں : ان تمام برائیوں کی دوا نماز ، روزہ اور زکات ہے ۔ اس کے بعد آپ نے نماز کے اثرات کا یوں ذکر کیا ہے : ''تسکینا لاطرافهم تخشیعا لابصارهم ، تذلیلا لنفوسهم ، تخفیضا لقلوبهم ، ازالة للخیلاء عنهم ان اوحشتهم الوحشة آنسهم ذکرک ''نماز انسان کے پورے وجود کو سکون بخشتی ہے ، آنکھوں کو خاشع و خاضع کرتی ہے ، سرکش نفوس کو رام کرتی ہے ، دلوں کو نرم کرتی ہے ، غرور و تکبر کو ختم کرتی ہے ، وحشت و اضطراب اور تنہائی میں ( اے خدا تیری یاد ) انس و الفت کا سبب بنتی ہے ۔

البتہ واضح ہے کہ سارے لوگ نماز کے ان فوائد سے استفادہ نہیں کرسکتے بلکہ ان تمام فوائد کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو نماز اور یاد خدا کو دوست رکھتے ہیں اور ایسے عاشق ہیں کہ اس کو پوری دنیا کے عوض میں بھی نہیں چھوڑ سکتے ۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٩٩

۲۴

عبودیت و بندگی کے اثرات و برکات

١۔ احساس سر بلندی اور افتخار

امام زین العابدین ـ اپنی مناجات میں فرماتے ہیں: ''الٰه کفیٰ ب عزّا انْ اکون لک عبدا ''(١)

پروردگارا ! میری عزت و افتخار کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں ۔

اس سے بڑا کون سا افتخار ہوگا کہ انسان اپنے خالق سے کلام کرے اور خالق انسان کے کلام کو سنے اور قبول بھی کرلے ۔

اس حقیر دنیا میں ! اگر انسان کا مخاطب کوئی بڑا آدمی یا کوئی معروف دانشمند ہو تو انسان اس سے بات کرنے کے بعدغرور کا احساس کرتا ہے یا یہ کہ ہم کسی وقت فلاں کے شاگرد تھے اس سے اپنی بڑائی جتاتا ہے ۔

٢۔ احساس قدرت

جس وقت بچے کا ہاتھ اپنے قوی اور مہربان باپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو وہ قدرت و طاقت کا احساس کرتا ہے لیکن اگر اکیلا ہو تو ہر وقت خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے اذیت پہنچائے۔

جس وقت انسان خدا سے متصل ہو جاتا ہے ، دنیا کی طاقتوں ، طاغوتوں اور متکبرین کے سامنے قدرت و طاقت کا احساس کرتا ہے ۔

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٧٧ صفحہ ٤۰٢.

۲۵

٣۔ احساس عزت

عزت کے معنی : جس میں کسی کا اثر اور نفوذ نہ ہو ۔ انبیاء کے مکتب میں تمام عزتوں کا مالک خدا ہی ہے کیونکہ تمام قدرتوں کا مالک وہی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ لوگ جو غیر خدا کی تلاش میں ہیں قرآن حکیم ان پر تنقید کرتا ہے ! کیا غیر خدا سے عزت چاہتے ہو؟(١)

یہ طبیعی ہے کہ عزیز مطلق اور تمام قدرتوں سے بالاتر قدرت سے اتصال ، انسان کو عزت بخشتا ہے ۔ اسی وجہ سے '' اللہ اکبر '' جیسے کلمات ، طاغوت کو انسان کے نزدیک حقیر و ذلیل اور انسان کو اس کے مقابلہ میں عزیز کرتے ہیں۔

لہٰذا قرآن کریم ہم کو حکم دیتا ہے کہ سختی و مشکلات میں نماز و عبادت کے ذریعہ قدرت و قوت حاصل کرو ۔

(و استعینوا بالصبر و الصلوٰة )(٢)

اولیائے خدا بھی حساس مواقع پر نماز کے ذریعہ اپنے کو تقویت دیتے تھے ۔ نو محرم کو عصر کے وقت یزیدی لشکر نے امام حسین ـ کے خیام پر حملہ کیا تو امام نے فرمایا کہ ایک رات جنگ میں تاخیر کرو ، ہم نماز کو زیادہ دوست رکھتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آج کی شب ، صبح تک خدا کی عبادت میں بسر کریں ۔(٣)

خدا کے صالح بندے فقط نماز واجب کو ہی نہیں چاہتے بلکہ مستحب نمازوں سے بھی محبت رکھتے ہیں ۔نافلہ نماز ، نماز سے عشق کی پہچان ہے ۔ ممکن ہے انسان واجب نماز کو خدا کے ڈر سے

____________________

١۔ نساء ١٣٩.

٢۔ بقرہ ٤٥

٣۔ مقتل الشمس صفحہ ١٧٩.

۲۶

پڑھتا ہو لیکن مستحب نمازوں میں کو ئی ڈرا ور خوف نہیں ہوتا بلکہ اس میں عشق خدا ہوتا ہے ۔

ہاں اگر کوئی کسی کو چاہتا ہے تو اس کا دل یہ بھی چاہتا ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ ہم کلام ہو ، اس سے جدا ہونا نہیں چاہتا ۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان یہ دعویٰ کرے کہ وہ خدا کو دوست رکھتا ہے لیکن اس سے بات کرنے کی تمنا نہ کرے۔

البتہ نافلہ نماز سے بے دلی بلاوجہ نہیں ہے بلکہ روایتوں کے مطابق رات دن کے گناہ نماز شب اور نافلہ صبح کی توفیق سلب کر لیتے ہیں ۔(١)

بہرحال جو شخص نوافل نہیں پڑھتا ہے وہ ایسی کوئی فضیلت نہیں رکھتا جس سے خداوند عالم کے فضل وکرم کی امید رکھے ، چونکہ جو خود صالح ہوتا ہے وہ مصلح کا انتظار کرتا ہے ۔

نافلہ نمازیں واجب نمازوں کے نقا ئص کو پورا کرتی ہیں ۔(٢)

ایک شخص نے امام ـ سے سوال کیا کہ نماز میں ہمارا ذہن حاضر نہیں رہتا اور ہم نماز کی برکتوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے ، ہم کیا کریں ؟ امام ـ نے فرمایا : واجب نماز کے بعد نافلہ نماز بھی پڑھا کرو۔ نافلہ ، واجب نماز کے نقا ئص کو پورا کرتی ہیں اور یہ نماز کی قبولیت کا سبب بنتی ہیں ۔

نماز کے انہیں آثار و برکات کی وجہ سے اولیائے اللہ نہ صرف نماز واجب بلکہ مستحبی نمازوں پر بھی زیادہ توجہ رکھتے تھے اور جو چیز بھی اس کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے اور معنوی تکامل نیزروحی پرواز میں مانع ہوتی ہے ، اس سے پرہیز کرتے تھے، جیسے زیادہ کھانا ، زیادہ بات کرنا ، زیادہ سونا ، لقمۂ حرام کھانا ، لہو و لعب میں مصروف ہونا یاجو چیز بھی انسان کو عبادت کے لطف سے رو کے اور نماز کو اس کے اوپر بوجھ بنائے ۔ چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے :

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨٣ صفحہ ١٧٩.

٢۔ تفسیر اطیب البیان جلد ١ صفحہ ١٦١.

۲۷

(و انّها لکبیرةا ِلا علی الخاشعین )(١)

بیشک نماز سنگین ہے لیکن خدا کے سامنے خشوع کرنے والوں پر نہیں ۔

٤۔ تربیت کا سبب

اگرچہ نماز ایک روحی اور معنوی ربط ہے اور اس کا مقصد خدا کو یاد کرنا ہے لیکن اسلام چاہتا ہے کہ اس روح کو تربیتی نظام کے سانچے میں ڈھال دے، اسی لئے نماز کے لئے کافی شرائط رکھے گئے ہیں یعنی نماز کے صحیح ہونے کے شرائط ، اس کے قبول ہونے کی شرطیں اس کے کمال کے شرائط ، جیسے جسم و لباس کا پاک ہونا ، قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہونا ، کلمات کا صحیح تلفظ کرنا ، نمازی کی جگہ اور لباس کا مباح ہونا ۔ یہ سب نماز کے صحیح ہونے کے شرائط ہیں ان کا تعلق نمازی کے جسم سے ہے نہ کہ اس کی روح سے ۔

اسلام نے عباد ت کو ایسے لباس میں ضروری قرار دیا تاکہ مسلمانوں کو صفائی و نظافت ، استقلال اور دوسروں کے حقوق کی رعایت کا درس دے جس طرح توجہ ، حضور قلب ، معصوم اماموں کی رہبری کو قبول کرنا ، مالی واجبات کی ادائیگی جیسے خمس و زکات ، یہ نماز کے قبول ہونے کی شرطیں ہیں ۔ نماز کا اوّل وقت ادا کرنا ، مسجد میں اور جماعت سے پڑھنا ، صاف ستھرے اور عطر لگے ہوئے کپڑے پہننا ، دانتوں کو صاف کر کے نماز پڑھنا ، صفوں کی ترتیب کی رعایت کرنا اور اس جیسی بہت سی چیزوں کی رعایت کرنا یہ کمال نماز کے شرائط ہیں ۔ ان شرائط میں غورکرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک شرط انسانوں کی تربیت میں بہتر ین کردار کی حامل ہے ۔

ہم نماز میں جس طرف بھی رخ کرلیں اللہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہیں قرآن مجید کہتا ہے:

____________________

١۔ بقرہ ٤٥.

۲۸

(فأینما تُولّوا فثَمّ وجه الله )(١)

لیکن قبلہ کو اس لئے معین کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ اسلامی سماج کا ایک جہت رکھنا ضروری ہے اور اس سے وحدت و بھائی چارگی کا درس ملتا ہے ۔ لہذا حکم دیا گیا کہ سب لوگ ایک طرف رخ کر کے کھڑے ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایک سمت جس کا حکم ہوا کیوں وہ صرف کعبہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کعبہ وہ پہلا مرکز ہے جو عبادت کے لئے بنایا گیاہے

(انّ اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکاً )(٢)

دوسری طرف پوری تاریخ میں اس کے بنانے اور تعمیر کرنے والے انبیا ء رہے ہیں لہذا کعبہ کی طرف رخ کرنا تاریخی طور پردین سے ایک طرح کا رشتہ جوڑنا ہے ۔ دوسری طرف کعبہ استقلال کا راز ہے اس لئے کہ جب مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے اوپر احسان جتاتے تھے اور کہتے تھے کہ تم لوگ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو پس تم لوگ استقلال نہیں رکھتے ۔ قرآن کریم کافی واضح الفاظ میں فرماتا ہے :

(لئلا یکون للناس علیکم حجة )(٣)

ہم نے کعبہ کو تمہارا قبلہ قرار دیا ہے تاکہ لوگ تم پر حجت نہ رکھیں ۔ خلاصہ یہ کہ قبلہ استقلال ، وحدت و ہمدلی کا راز ہے ۔ یہ نماز کے تربیتی درس ہیں ۔

٥۔ ارواح کا احضار

آج کل دنیا میں '' Hypnotism '' اور احضار روح کے بازار نے رونق حاصل کر رکھی

____________________

١۔ بقرہ ١١٥.

٢۔ آل عمران ٩٦.

٣۔ بقرہ ١٥۰.

۲۹

ہے ۔ لیکن یہاں پر یہ بحث ہمارا مقصد نہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ نماز کے ذریعہ سے اپنی بھاگی ہوئی روح کو خالق کے سامنے پیش کرکے اور اس کلاس کے فراری کو درس میں حاضر کریں ۔

نماز کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ نماز سرکش و فراری روح کو خدائے تعالیٰ کے حضور حاضر کرتی ہے ۔ امام زین العابدین ـ مناجات الشاکین میں پروردگار کی بارگاہ میں اپنے نفس کا یوں گلہ کر رہے ہیں :

'' خدا وندا ! ہم اپنے نفس کا تجھ سے گلہ و شکوہ کرتے ہیں یہ نفس ہویٰ و ہوس کی طرف رغبت رکھتا ہے اور حق سے بھاگتا ہے ۔'' یہی نفس ہے جو گناہ کو انسان کے سامنے شیرین و آسان بنا کر پیش کرتا ہے اور اس کی اس طرح توجیہ کرتا ہے کہ بعد میں توبہ کر لینا ، سبھی لوگ یہ کام کرتے ہیں ۔ نفس ، بچے کے کھیل کی طرح ہے اگر اس کا باپ اس کی مخالفت نہ کرے بچہ اپنے ہاتھ کو باپ کے ہاتھ سے چھڑا کر جدھر دل چاہے چلا جاتا ہے اور ہر گھڑی اس کے لئے خطرہ رہتا ہے ۔ اس نفس کے کنٹرول کا بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان چند بار اس کو خدا وند عالم کی بارگاہ میں حاضر کرے اور غفلت کا خاتمہ کرے تاکہ مادیات کے سمندر میں اسے غرق ہونے سے نجات دلاسکے ۔

۳۰

عالم ہستی پر اختیار

نماز کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ بھی ہے کہ انسان آہستہ آہستہ ، قدم با قدم عالم ہستی پر تسلط پیدا کر لیتا ہے ۔

پہلا قدم: قرآن فرماتا ہے کہ تقویٰ انسان کو نورانیت و بصیرت دیتا ہے یعنی انسان کو ایسی روشنی عطا کرتا ہے کہ وہ حق و باطل کو پہچان سکے (انْ تتقوا الله یجعل لکم فرقانا )(١)

____________________

١۔ انفال ٢٩.

۳۱

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے (یجعل لکم نورا )(١) پس تقویٰ جس میں سب سے اہم چیز خدا کی بندگی و نماز ہے یہ نورانیت و بصیرت کے حصول کی طرف ایک قدم ہے ۔

دوسرا قدم : جن لوگوں نے اللہ کی ہدایت کو قبول کر لیا اور حق کے محور پرآگئے ہیں پروردگار ان کی ہدایت کو زیادہ کر دیتا ہے (والذین اهتدوا زادهم هدی )(٢) ان کی ہدایت رکتی نہیں ہے بلکہ وہ تسلیم و بندگی کی وجہ سے ہمیشہ تقرب اور تر قی کی منزلوں میں ہیں اور ان کے وجود کی شعاعیں اور تیز ہوجاتی ہیں ۔

تیسرا قدم : یہ لوگ چونکہ خدا کے راستے میں زحمت و مشقت برداشت کرتے ہیں پروردگار ان لوگوں کے لئے کمال تک پہنچنے کے تمام راستے کھول دیتا ہے (و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا )(٣)

چوتھا قدم : جس وقت ان لوگوں کو شیطان چھونا بھی چا ہتا ہے تویہ فوراً سمجھ جاتے ہیں اور خدا سے طلب استغفار کرتے ہیں (اذا مسهم طائف من الشیطان تذکروا )(٤)

پانچواں قدم : خود سازی کرنے اور فحشاء و منکرات سے دور رہنے کا بہترین عامل نماز ہے:(انّ الصلاة تنهیٰ عن الفحشاء و المنکر )(٥)

ان اقدامات کے بعد انسان اپنے نفس پر تسلط حاصل کر لیتا ہے، نفس کو کنٹرول کرتا ہے، کسی

وسوسہ اور لغزش کا شکار نہیں ہوتا بلکہ جب کبھی وسوسہ اور بیرونی طاغوت کا دباؤ بڑھ جاتا ہے تو نماز اور

____________________

١۔ حدید ٢٨.

٢۔ محمد ٢٧.

٣۔ عنکبوت ٦٩.

٤۔ اعراف ٢۰١.

٥۔ بقرہ ٤٥.

۳۲

صبر کے ذریعہ مدد حاصل کرتا ہے : (واستعینوا بالصبر و الصلوٰة )(١)

چھٹا قدم : تقویٰ رکھنے والے افراد جن کا وجود نور الہی سے روشن ہو جاتا ہے وہ ہر نماز میں ایک قدم آگے بڑھتے ہیں ، اس لئے کہ نماز تکرار نہیں بلکہ معراج ہے ۔ ایک سیڑھی کے سارے زینے ایک جیسے ہیں لیکن سیڑھی کا ہر زینہ انسان کو اوپر کی طرف پہنچاتا ہے ۔ جیسے کہ کوئی شخص کنواں کھود تا ہے کہ بظاہر وہ ایک کام کی تکرار کرتا ہے ، مستقل پھاوڑا چلاتا رہتا ہے لیکن حقیقت میں ہر پھاوڑا مارنے کے بعد وہ مزید گہرائی کی طرف جاتا ہے۔

نماز کی رکعتیں ظاہراً تکراری چیز ہیں لیکن یہ کمال کی بلندیوں پر جانے کے زینے ہیں اور ایمان و معرفت کی گہرائی ہیں ۔

نماز پڑھنے والا ہرگز راضی نہیں ہوتا کہ اس کی عمر شیطان کی چراگاہ اور اس کی ٹھوکروں میں رہے۔

امام زین العابدین ـ دعا ئے'' مکارم الاخلاق '' میں خداوند عالم سے اس طرح سوال کرتے ہیں :

''خداوندا ! اگر ہماری عمر شیطان کی چراگاہ ہے تو اس کو ختم کر دے ۔ ''

صرف شیطان ہی نہیں کبھی کبھی وہم وخیال بھی انسان کی روح کو پامال کرتے ہیں اور انسان کو حق و حقیقت سے غافل کردیتے ہیں ۔

جی ہاں ! رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سوتے وقت بھی بیدار رہتے تھے اور ہم لوگ بیداری ، حتی نماز کی حالت میں بھی سوتے رہتے ہیں اور ہماری روح شیطان اوروہم و خیال کا کھلو نا بنی ہو ئی ہے ۔

____________________

١۔ عنکبوت ٤٥.

۳۳

بقول مولاناروم :

گفت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہ عینای َ ینام

لاینام القلب عن ربّ الانام

چشم تو بیدار و دل رفتہ بہ خواب

چشم من خفتہ دلم در فتح باب

''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کہ ہماری آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ہمارا دل خدا کی یا د سے غافل نہیں ہے ۔ لیکن تمہاری آنکھیں کھلی ہیں اور تمہار دل سو رہا ہے ، ہماری آنکھیں بند ہیں اور دل خدا کی یاد میں بیدار ہے''۔ مولانا روم ایک اور مقام پر کہتے ہیں :

گفت پیغمبر کہ دل ہمچوں پری است

در بیابانی اسیر صرصری است

باد پر راہر طرف راند گزاف

گہ چپ و گہ راست با صد اختلاف

''پیامبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے کہ دل ایسے پتےّ کی مانند ہے جو بیابان میں ہواکے دوش پر ہے یہ ہوا اسے ہر طرف اڑائے پھرتی ہے کبھی دائیں اور کبھی بائیں اڑا دیتی ہے ''۔

یہ نفس اگر کنٹرول نہ کیا جا ئے تو ہر گھڑی انسان کو فساد کی طرف کھینچتا ہے (انّ النفس لأمارة بالسوء الا ما رحم رب )(١)

اسی وجہ سے قرآن مجید جنت کو ان سے مخصوص قرار دیتا ہے جو لوگ صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ دل میں بھی برتری حاصل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور فکر فساد سے دور رہتے ہیں۔(٢) بہشت ان کاملجأ و ماویٰ ہے جو اپنے نفس کو ہوس سے روکتے ہیں ۔(٣)

اولیائے خدا اپنے افکار و خیا لات کے اوپر حاکم ہیں نہ کہ ان کے محکوم ۔ یہ لوگ خدا کی عبادت کی وجہ سے اس طرح اپنے نفس پر مسلط ہیں کہ وہ اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے کہ حتی وسوسہ ان کے دل میں داخل ہوجائے۔

____________________

١۔ یوسف ٥٣.

٢۔ قصص ٨٣.

٣۔ نازعات ٤١.

۳۴

من چو مرغ او جم اندیشہ مگس

کی بود بر من مگس را دسترس

یعنی میں ایک پر ندے کی طرح ہوں اور مکھی سے فکر و خیالات کے بلندیاں بھلا مکھی کے لئے مجھ تک رسا ئی کہا ممکن ہے ۔

انسان جب نور خدا اور معرفت و آگاہی حاصل کرلیتا ہے اور عارفانہ و عاشقانہ نماز کے ذریعہ اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور روح کو رضائے الہی کی سمت میں لگاکر اپنے نفس پر مسلط ہو جاتا ہے تو اس کے بعد عالم ہستی پر بھی حاکم ہو جاتا ہے ۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ خدائی کام انجام دیتا ہے ۔

انبیاء کے معجزات یہی ہیں کہ یہ لوگ عالم ہستی میں تصرف کا اختیار اور کائنات پر تسلط رکھتے ہیں جو چاہیں اللہ کے حکم سے انجام دیتے ہیں ۔ ''العبودیة جوهرة کنهها الربوبیة '' یعنی خالص عبادت ایک ایساجوہر ہے جس کی حقیقت ربوبیت ہے ۔ اس کا مطلب اسی عالم ہستی پر تسلط ہے جوخدائے تعالیٰ کی بندگی سے حاصل ہوتا ہے ۔

حدیث میں ہے کہ پروردگار فرماتا ہے :انسان مستحب کاموں کے ذریعہ قدم باقدم مجھ سے نزدیک ہوتا ہے یہاں تک کہ میرا محبوب ہو جاتا ہے اور جس وقت وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس وقت میں اس کی آنکھیں ، اسکے کان ، اس کی زبان اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں ۔ اس کی ساری حرکات خدائی ہو جاتی ہیں اور پھر وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ ابراہیم خلیل ـ کی طرح کہتا ہے :

(انّ صلات و نسک و محیا و ممات ﷲ ربّ العالمین )(١)

میری نماز و عبادت ، موت و حیات تمام کی تمام عالمین کے پروردگار کے لئے ہیں۔

اس کے بعدجب بھی وہ دعا یاسوال کرے گا تو ہم قبول کریں گے ۔(٢)

____________________

١۔ انعام ١٦٢.

٢۔ بحار الانوار جلد ٧۰ صفحہ ٢٢

۳۵

تصویر نماز

نماز کے بارے میں جتنا بھی لکھا اور پڑھا جائے پھر بھی اس کا حق ادا نہیں ہوگا ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ دین کا ستون ،اسلام کا پر چم ، تمام ادیان و انبیاء کی یادگار ، تمام اعمال کی قبولیت کا محور چند جملوں میں بیان ہوجائے ؟

٭ نماز ہر صبح و شام کا عمل ہے ۔ صبح کا سب سے پہلا واجب کام نماز اورشام کا آخری واجب نماز ہے یعنی ہر روز کا آغاز و انجام خدائے تعالیٰ کی یاد کے ساتھ ہے اور خدا کے لئے ہے ۔

٭ سفر میں ہویا وطن میں ، زمین پر ہو یا ہوا میں ، فقیری میں ہو یا امیری میں ، ہر جگہ نماز کا راز یہ ہے کہ تم جہاں بھی ہو اور جو کچھ بھی ہو خدا کے مطیع رہو نہ غیر خدا کے ۔

٭ نماز مسلمانوں کی وہ عملی آئیڈیالوجی ہے جس میں وہ اپنے عقائد و افکار، اپنی چاہت اور اپنا آئیڈیل بیان کرتے ہیں ۔

٭ نماز؛ اقدار کو استحکام عطا کرنا اور سماج کی ہر فرد کی شخصیت کو مجروح ہونے سے محفوظ رکھنا ہے۔ اگر کسی مکان کا تعمیری مسالہ اور سامان کمزور ہو تو وہ مکان گر جاتا ہے ۔

٭ نماز کی اذان، توحید کا وہ بگل ہے جو اسلام کی متفرق فو ج کو ایک صف اور ایک پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دیتا ہے اور ان سب کو امام عادل کے پیچھے کھڑا کر دیتا ہے ۔

٭ امام جماعت ایک ہوتا ہے اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پوری قوم کا امام بھی ایک ہو تاکہ معاشرے کے امور میں مرکزیت رہے۔

۳۶

٭ امام جماعت نماز میں ضعیف ترین لوگوں کی رعایت کرے تاکہ اس کے لئے یہ درس ہو کہ معاشرتی امور کا فیصلہ کرتے وقت بھی محروم طبقات کی رعایت کی جائے ۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز کی حالت میں کسی بچہ کے رونے کی آواز سنی تو نماز کو جلدی تمام کردیا تاکہ اگر اس کی ماں نماز جماعت میں شریک ہو تو وہ اپنے بچہ کو چپ کرلے ۔(١)

٭ انسان کی تخلیق کے بعد سب سے پہلا حکم سجدہ کا تھاجو فرشتوں کو دیا گیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔(٢)

٭ زمین کاسب سے پہلا ٹکڑا ( مکہ و کعبہ ) جو پانی سے باہر آیا اور خشکی بنا وہ عبادت کی جگہ قرار پایا ۔(٣)

٭ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سب سے پہلا کام تعمیرِ مسجد تھا ۔

٭ نماز ،امر بالمعروف بھی ہے اور نہی عن المنکربھی۔ ہم ہر روز اذان اور اقامت میں کہتے ہیں : '' حّ علی الصلاة ، حّعلی الفلاح ، حّعلی خیر العمل '' اور یہ جملا ت کہنا اعلیٰ ترین معروف یعنی نماز کا حکم ہے ۔

دوسری طرف نماز انسان کو تمام برائیوں سے روکتی ہے : (انّ الصلاة تنهیٰ عن الفحشاء و المنکر )(٤)

نماز ایک ایسی حرکت ہے جو آگاہی او رشناختِ خدا سے پیدا ہوتی ہے ۔ خداوند عالم کی ایسی شناخت کہ جس میں ہم اس کے حکم سے ، اس کے لئے اور اس کے اُنس میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے مستی(٥) ا ورسستی(٦) کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے تاکہ جو کچھ بھی ہم نماز میں کہیں وہ توجہ اور آگاہی کے ساتھ ہو ۔

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨٨ صفحہ ٤١ و ٩٣

٢۔ بقرہ ٣٤.

٣۔ آل عمران ٩٦

٤۔ عنکبوت ٤٥

٥۔ نساء ٤٣

٦۔ نساء ١٤٢.

۳۷

٭ نماز آگاہی دیتی ہے ۔ ہر ہفتہ ،جمعہ کے روز نماز جمعہ قائم ہوتی ہے اور نماز جمعہ سے پہلے دو خطبے پڑھے جاتے ہیں ۔ یہ دو خطبے دو رکعت نماز کی جگہ پر ہیں یعنی نماز کا جزء ہیں ۔ اورامام رضا کے ارشاد کے مطابق یہ خطبے اس طرح پڑھے جائیں کہ ان میں دنیا کے مسائل بیان ہوں۔(١)

دونوں خطبوں کو سننا اس کے بعد نماز پڑھنا یعنی عالمی مسائل سے آگاہ ہونا اور اس کے بعد نماز پڑھنا ۔

نماز انانیت سے نکل کرخدائے تعالیٰ کی طرف پرواز کرنا ہے ۔ قرآن مجید فرماتا ہے :

(و مَن یخرج من بیته مهاجرا الی الله و رسوله ثم یدرکه الموت فقد وقع اجره علی الله )(٢)

جو شخص خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ہجرت کے لئے اپنے گھر سے نکلے اور اس کو موت آجائے تو اس کا اجر خدا پر ہے ۔

امام خمینی فرماتے ہیں: خانہ ٔدل سے خدا کی طرف ہجرت کرنا بھی اس آیت کا ایک مصداق ہے، خود پسندی ، خود خواہی او رخود بینی سے خدا پرستی ا ور خدا خواہی کی طرف ہجرت ،سب سے بڑی ہجرت ہے ۔(٣)

٭ نماز کی منزلت اسم اعظم جیسی ہے بلکہ خود نماز اسم اعظم ہے ۔

٭ نماز میںخدائے تعالیٰ کی عزت اور بندہ کی ذلت کابیان ہے اور یہ سب سے بڑا مقام ہے۔

٭ نماز پرچم اسلام ہے ''عَلَمُ الاسلام الصلوٰة ''(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨٩ صفحہ ٢۰١

٢۔ ء نساء ١۰۰.

٣۔ اسرار الصلاة صفحہ ١٢

٤۔ کنز العمال حدیث ١٨٨٧۰

۳۸

جس طرح کو ئی جھنڈا اور پرچم نشانی ہو تاہے اسی طرح نماز بھی مسلمان کی نشانی اور پہچان ہے ۔ جس طرح پرچم لائق احترام ہے ، پرچم کی توہین ایک قوم او رملک کی توہین ہے اسی طرح نماز کی توہین اور اس سے بے توجہی پورے دین سے بے توجہی ہے ۔ جس طرح پرچم کے لہرانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیاست زندہ ہے ، اورقدرت و طاقت باقی ہے اسی طرح نماز کے قیام میں بھی یہی چیز پائی جاتی ہے ۔

نماز اور قرآن

کچھ جگہوںپر قرآن کریم و نماز کا ایک ساتھ ذکر ہوا ہے ، جیسے

(یتلون کتاب الله و اقاموا الصلاة )(١)

قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ۔

دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے

(یُمَسّکون با لکتاب و اقاموا الصلاة )(٢)

قرآن سے تمسک کرتے ہیں اور نمازقائم کرتے ہیں ۔

کبھی قرآن مجیدا ور نماز کے لئے ایک ہی صفت بیان ہوئی ہے جیسا کہ کلمہ ذکر قرآن کے لئے بھی کہا گیا ہے (انا نحن نزّلنا الذکر )(٣) ہم نے ذکر کو نازل کیا ہے ۔

اور اسی صفت کو نماز کا فلسفہ بھی قرار دیا ہے (اقم الصلاة لذکر )(٤) نماز کو ہماری یاد کے لئے قائم کرو۔

____________________

١۔ فاطر ٢٩

٢۔ اعراف ١٧۰.

٣۔ حجر ٩

٤۔ طہٰ ١٤

۳۹

عجیب بات تو یہ ہے کہ کبھی لفظ نماز کہ بجائے قرآن کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے (انّ قرآن الفجر کان مشہوداً )(١) کہا یہی جاتا ہے کہ '' قرآن الفجر '' سے مراد نماز صبح ہے ، اس سے اہم بات یہ ہے کہ نماز میں قرآن کوحمد و سورہ کی شکل میں پڑھنا واجبات نماز میں سے ہے ۔ نماز کا تذکرہ قرآن کریم کے اکثر سوروں میں موجود ہے جیسے قرآن کے سب سے بڑے سورے، سورئہ بقرہ اور سب سے چھوٹے سورہ کوثر میں نماز کا ذکر موجود ہے۔

نماز اور قصاص

صرف دین اسلام میں نہیں بلکہ تمام ادیان الٰہی میں قصاص کا حکم موجود ہے اور قصاص گناہ کے مطابق ہوتا ہے ۔ جیسے اگر کسی کا کان کاٹا ہے تو اس کی سزا میں بھی کان ہی کاٹا جائے۔ اگر کسی نے دانت توڑا ہے تو اس کا بھی دانت توڑا جائے تاکہ عدالت قائم ہو ۔

انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ چور کا ہاتھ کا ٹ دیا جا ئے البتہ اس کی ہتھیلی باقی رہے کیونکہ قرآن فرماتا ہے:

(و انّ المساجد لله )(٢) مساجد ( سجدہ کی جگہیں ) خدا کے لئے ہیں ۔

چونکہ سجدہ کے وقت ہاتھ کی ہتھیلی زمین پر رکھنا واجب ہے لہذا چور کی سزا میں نماز او رسجدہ کے مسئلہ پر توجہ رہے اور اس کی ہتھیلی نہ کاٹی جائے تاکہ حق عبادت حتی چور کے لئے بھی محفوظ رہے ۔ ؟

عبادت و امامت

عبادت کی اہمیت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سطحی نہ ہو بلکہ آسمانی رہبر اور اس کی

____________________

١۔ اسرائ٧٨.

٢۔ جن ١٨

۴۰