نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر0%

نماز کی تفسیر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

نماز کی تفسیر

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 66455
ڈاؤنلوڈ: 2547

تبصرے:

نماز کی تفسیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66455 / ڈاؤنلوڈ: 2547
سائز سائز سائز
نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر

مؤلف:
اردو

ولایت کی پہچان اور اپنے مخصوص آداب نیزخشوع کے ساتھ ہو ۔

حضرت علی ـ کچھ خشک مقدس نماز پڑھنے والوں میں پھنس گئے تھے جو تاریخ میں مارقین و خوارج کے نام سے مشہور ہیں ، جن کی پیشانیوں پر زیادہ اور طویل سجدوںکی وجہ سے گھٹّے پڑے ہوئے تھے لیکن یہی لوگ حضرت علی ـ کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے اوپر تلوار کھینچ لی ، روایت میں آیا ہے کہ جب امام زمانہ ـ ظہور کریں گے اس وقت کچھ سجدہ کرنے والے آپ کی مخالفت کریں گے ۔

یہ گمان ہرگز نہ ہو کہ وہ لوگ جو امام حسین ـ کو شہید کرنے کے لئے آئے تھے وہ نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ وہ لوگ نمازجما عت پڑھا تے تھے ۔ خود یزیدا ور معاویہ بھی پیش نماز تھے۔

جی ہاں! اگر عبادت جہالت کے ساتھ ہو توانسان ، محراب عبادت میں عالمین کے سب سے بڑے عابد کو قتل کرنے کو سب سے بڑی عبادت سمجھنے لگتا ہے اور قصد قربت کے ساتھ شبِ قدر میں حضرت علی کو شہید کرنے کے لئے جاتا ہے ۔

صرف نماز ہی نہیں بلکہ ساری عبادتیں رہبر حق کی معر فت اور اس کی اطاعت کے ساتھ ہونی چاہئیں لہٰذا روایتوں میں آیا ہے کہ خداوند عالم نے حج کو واجب کیا تاکہ لوگ خانہ کعبہ کے گرد جمع ہوں اور اس اجتماع کے مقام پر معصوم اماموں سے را بطہ قا ئم کریں ، لیکن آج کل لا کھوں لو گ خانۂ کعبہ کے گرد جمع ہو تے ہیں مگر الٰہی رہبر سے تمسک نہ ہونے کی بنا پر ایک دوسرے سے جدا رہتے ہیں۔ مرکز وحدت اور اقتصادی خزانوں اور تجارتی منڈیوںکے مالک ہونے کے باوجود مٹھی بھر یہودیوں کے ہاتھوں ذلیل ہیں ۔

وا قعاًاسلام ایک ایسا مجموعہ ہے جس کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جا سکتا ۔ ولایت کو قبول کئے بغیر نماز قبول نہیں ، زکات ادا کئے بغیر نماز قبول نہیں، جس طرح انفاق بھی بغیر نماز کے قبول نہیں ہے۔

اسلام کے احکام بدن کے اعضاء کی طرح ہیں کہ ایک عضو دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا ۔ آنکھ کان کا کام نہیں انجام دے سکتی اور کان ہاتھ کا کام نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح اسلام میں نماز پڑھنا زکات کی جگہ نہیں لے سکتا یا نماز و زکات خدا کی راہ میں جہاد کی جگہ پُر نہیں کر سکتے بلکہ ان سب کے مجموعے کا نام اسلام ہے ۔

۴۱

نماز اور رہبری

اگر الٰہی رہبر کے ذریعہ نماز قائم ہو تو ظلم وجور کا تختہ پلٹ جائے گا ۔ امام رضا ـ کی نمازِ عید اس ہیبت و عظمت سے شروع ہوئی کہ ظالم حکومت لرز اٹھی اور ظالم سمجھ گئے کہ اگر یہ نماز پڑھا دی گئی تو بنی عباس کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا ۔ لہذا مامون نے حکم دیا کہ امام کو راستہ ہی سے واپس بلا لیں ۔

آج کل کے مسلمانوں کی نماز میں کوئی اثر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے کچھ حصہ پر عمل ہوتا ہے اور کچھ پر نہیں ۔ قرآن کریم فرماتا ہے

(واقیموا الصلاة و آتوا الزکاة و اطیعوا الرسول )(١)

نماز پڑھو زکات دو اور رسول کی اطاعت کرو ۔

لیکن آج کل بعض لوگ نماز پڑھتے ہیں اور زکات نہیں دیتے اور بعض لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں زکات بھی دیتے ہیں لیکن کفار کی حاکمیت قبول کئے ہوئے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں خدا پر ایمان رکھتے ہیں لیکن طاغوت سے دوری اختیار نہیں کرتے ہیں اور یہ ایمان ناقص ہے ۔جبکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

____________________

١۔ نور ٥٦

۴۲

(فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن بالله فقد استمسک بالعروة الوثقی )(١)

''اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسی سے متمسک ہوگیا ''یعنی طاغوت سے دوری بھی لازم ہے اور خدا پر ایمان بھی ۔ لیکن آج کل مسلمانوں نے طاغوت و کفر سے برائت کو فراموش کر دیا ہے لہذا جو لوگ طاغوت کے گرد گھومتے ہیں قرآن مجید ان کے بارے میں فرماتا ہے : وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں ۔

(أ لم تر الی الذین یزعمون أنّهم آمنوا )(٢)

عبادت کے درجات

اگر آپ کسی بچے سے یہ سوال کریں کہ تم اپنے ماں باپ کو کس لئے چاہتے ہو ؟

وہ کہتا ہے : اس لئے کہ وہ ہمارے لئے مٹھائی ،کپڑے اور جوتے خریدتے ہیں ۔ لیکن اگر یہی سوال کسی جوان سے کریں کہ اپنے والدین کو کس لئے چاہتے ہو ؟

تو وہ کہے گا اس لئے کہ والدین ہماری حیثیت و مقام کی علامت ہیں، وہ ہمارے مربی اور ہمارے دل سوز ہیں۔

اگر بچہ سمجھ دار اور بالغ ہو جائے تواس کے لئے والدین سے اُنسیت اور محبت زیادہ لذت بخش ہوتی ہے۔ پھر وہ جوتے اورکپڑوں کی فکر میں نہیں رہتا بلکہ اس سے زیادہ والدین کی خدمت کو قرب و کمال کا وسیلہ سمجھتا ہے اور مادیات سے بالاتر فکر کرتا ہے ۔

____________________

١۔ بقرہ ٢٥٦.

٢۔ نساء ٦۰

۴۳

اللہ کی عبادت بھی اسی طرح ہے کہ ہر شخص اپنی دلیل اور سوچ کے مطابق خدا کی عبادت کرتا ہے ۔ مختصر یہ کہ عبادت کے بھی چند مرحلے ہیں۔

پہلا قدم : بعض لوگ خدا کی نعمت کی خاطر اس کی عبادت کرتے ہیں تاکہ اس کا شکر بجا لائیں جیسا کہ قرآن مجید عام انسانوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے :

(فلیعبدواربّ هذاالبیت الذ اطعمهم من جوع وآمنهم من خوف )(١ )

لہٰذا انھیں چاہئے کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں سیر کیا ہے اور خوف سے محفوظ رکھا ہے ۔

پہلی منزل کی عبادت جس کو ہم عبادت ِ شکر کہتے ہیں۔ وہ ایسے ہی ہے جیسے اس بچہ کی محبت جو اپنے والدین کو چاکلیٹ ، بستہ اور جوتا خریدنے کی وجہ سے چاہتا ہے ۔

دوسرا قدم : اس منزل میں انسان نماز کے اثرات اور اس کی برکات کی وجہ سے خدا کی عبادت کرتا ہے اس کی پوری توجہ نماز کے روحانی و معنوی اثرات پر ہوتی ہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے :

(انّ الصلاة تنهیٰ عن الفحشاء و المنکر )(٢)

بیشک نماز انسان کو گناہ اور بری باتوں سے روکتی ہے ۔

اس مرحلہ کی عبادت کو عبادت ِ رُشد و ترقی کہتے ہیں ۔ اس طرح کی عبادت اس جوان کی طرح ہے جو اپنے والدین کو اس لئے چاہتا ہے کہ وہ لوگ اس کے معلم اور اس کی تربیت کرنے والے ہیں اور انحرافات و خطرات سے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اسی لئے وہ ان کا احترام کرتا ہے ۔

____________________

١۔ قریش ٣ و٤.

٢۔ عنکبوت ٤٥

۴۴

تیسرا قدم : یہ پہلی منزلوں سے بالاتر ہے یہ منزل ایسی ہے کہ خداوند عالم حضرت موسیٰ ـ سے فرماتا ہے :

(ا قم الصلاة لذکری )(١)

ہم کو یاد کرنے کے لئے نماز پڑھو ۔

جناب موسیٰ کھانے اور پانی کے لئے نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی گناہ اور غلط باتوں سے بچنے کے لئے نماز پڑھتے تھے۔ اس لئے کہ وہ اصولاً شکم پرستی اور برائیوںسے دور تھے۔ وہ اولو االعزم پیغمبر تھے ۔ وہ نماز کو خدا کی محبت اور اس کے لئے پڑھتے تھے ۔

اولیائے خدا کے یہاںخدا سے انس و محبت ہی عبادت کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔

جی ہاں ! یہ بچے ہوتے ہیں جو کسی پروگرام میں سب سے آگے بزرگوں کے پاس اس لئے آ بیٹھتے ہیں تاکہ ان کی خاطر داری اچھی طرح ہو لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو بزرگوں کے پاس معنوی فائدہ حاصل کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں انہیں اپنی خاطر داری سے مطلب نہیں ہوتا ۔ ان کے لئے علماء اورعقل مند وں سے محبت ہی قابل قدر ہے ۔

چوتھا قدم : یہ منزل عبادت کی سب سے اہم اور اعلیٰ ترین منزل ہے ۔یہ عبادت ؛ شکر و رُشد اور محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ قرب خدا کے لئے ہے ۔ تقرب الہی کے سلسلے میں قرآن مجید میں چار آیتیں ہیں ۔ جو شخص ان آیتوں کو پڑھ لے اس پر سجدہ کرنا واجب ہو جاتا ہے ،ان میں سے ایک آیت میں آیا ہے کہ تقرب ،عبادت سے حاصل ہوتا ہے خدا فرماتا ہے :

(و اسجد و اقترب )(٢)

سجدہ کرو اوراس کی قربت حاصل کرو ۔

بہرحال عبادت کے کچھ درجات اور مراتب ہیںجن میںلوگوںکے ایمان اور معرفت کے درجات کی بنا پر فرق ہوتا رہتاہے ۔

____________________

١۔ طہٰ ١٤

٢۔ سورہ علق آخری آیت.

۴۵

تصویر عبادت

٭ عبادت و بندگی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو معراج پر پہنچایا :

(سبحان الذ أسریٰ بعبده لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ )(١)

پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔

٭ عبادت فرشتوں کے نزول کا پیش خیمہ ہے

(نزّلنٰا علی عبدنا )(٢)

ہم نے اپنے بندے پر ( فرشتوں کے ذریعہ ) وحی نازل کی ۔

٭ عبادت انسان کی دعا مستجاب کرتی ہے اس لئے کہ نماز خدا سے عہد و پیمان ہے(٣) اور جو بھی پیمان خدا کو وفا کرے گاتوخدائے تعالیٰ بھی اس کے پیمان پر وفادار ہے۔

(أوفوا بعهد اوف بعهدکم )(٤)

____________________

١۔ اسرائ١.

٢۔ بقرہ ٢٣

٣۔ا لم ا عهد الیکم یا بن آدم انْ لا تعبدوا الشیطان انّه لکم عدو مبین و انْ اعبدون هٰذا صراط مستقیم '' یس ٦۰ ، ٦١ ٤۔ بقرہ٤۰

۴۶

عبادت کے بغیر انسان جمادات اور پتھر سے بھی بدتر ہے اس لئے کہ قرآن مجید فرماتا ہے :

(و انّ من الحجارة لما یهبط من خشیة الله )(١)

اللہ کے خوف سے بعض پتھر زمین پر گر جاتے ہیں لیکن بعض انسان خالق دنیا و آخرت کے سامنے اپنی گردن تک نہیں جھکاتے ۔

عبادت انسان کے ارادہ ا ور اسکی شخصیت کی پہچان ہے چونکہ انسان چاہتوںاور تمایلات کے درمیان ہے لہٰذا اگر وہ خواہشات اور جذبات سے منہ موڑ لے اور خداکی طرف چلا جائے تو اہمیت رکھتا ہے ۔ ورنہ فرشتے شہوت و غضب نہیں رکھتے اورہمیشہ عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔

٭ عبادت زمین کے گمنام لوگوں کو آسمان کے مشہور ترین لوگ بنا دیتی ہے ۔

٭ عبادت انسان کے وجود کے چھوٹے سے جزیرے کو عالم ہستی کے سرچشمہ سے ملا دیتی ہے۔

٭ عبادت ، یعنی پوری کائنات پر اوپر سے ایک نظر ۔

٭ عبادت یعنی انسان کے اندر چھپی ہوئی عرفانی اورروحانی استعدادوں کی نشو و نما ۔

٭ عبادت ایسی قدر ہے جس کو انسان اپنے ارادہ و اختیار سے حاصل کرتا ہے بر خلاف خاندانی اقدار یا اندرونی استعداد کے ،جو اختیاری و اکتسابی نہیں ہیں ۔

٭ عبادت خدا سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو تازہ کرنا اورروحانی زندگی کو زندہ رکھنا ہے ۔

٭ عبادت ، گناہ کے لئے رکاوٹ اور اس کے اثرات کو ختم کر دیتی ہے ۔ وہ خدا کی یاد اور اس کا ذکر ہے جو گناہ سے روکتا ہے نہ فقط گناہ کا علم۔

٭ عبادت ، روح کے خالی ظرف کو یاد خدا سے پرُ کرنا ہے۔ اگر یہ ظرف غیر خدا سے پر ہو تو گوہر انسانیت پر ظلم ہے ۔

____________________

١۔ بقرہ ٧٤.

۴۷

٭ عبادت ، اس خاکِ زمین کو اتنی اہمیت دیتی ہے کہ اس زمین میں طہارت کے بغیر داخلہ ممکن نہیں جیسے مسجد ، کعبہ اور بیت المقدس ۔

٭ عبادت و بندگی ٔخدا، خود ایک قدر ہے اگرچہ ہماری دعا و حاجات پوری نہ بھی ہوں ۔

٭ عبادت خوشی میں بھی ہے اور غمی میں بھی ۔ جہاں پر خدا ؛ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوثر عطا کر رہا ہے وہاں نماز کی بھی تاکید کر رہا ہے :

(انّا اعطیناک الکوثر فصلِّ لرِبک )(١)

ہم نے تم کوخیر کثیر عطا کیا پس خدا کی عبادت (نماز) بجا لاؤ ۔

اسی طرح مشکلات میں بھی نماز کی تاکید کی گئی ہے :

(و استعینوا بالصبر و الصلاة )(٢)

مشکل کشا نمازیں

اسلام تاکید کرتا ہے کہ جس وقت کوئی حاجت یا مشکل پیش آئے تو مخصوص نمازوں کو پڑھ کر اپنی مشکلوں کو حل کرو ۔ یہاں پر مناسب ہے کہ ان مخصوص نمازوں میں سے ایک نمونہ آپ کے سامنے پیش کردیں :

نماز جعفر طیّار

جناب جعفر طیار حضرت علی ـ کے بھائی ہیں ۔جنھوں نے حبشہ میں اپنی ہجرت کے دوران اپنے مناسب استدلال و کردار سے نجاشی اور ایک کثیر تعداد کے دلوں کو اسلام کی طرف

____________________

١۔کوثر١.

٢۔ بقرہ٤٥.

۴۸

جذب کیا اور براعظم افریقہ میں اسلام کے بانی بنے ۔اور جنگ موتہ میں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا میں دے دیئے ۔ خداوند عالم نے ان دونوں ہاتھوں کی جگہ آپ کو جنت میں دو پر عطا کئے اسی وجہ سے آپ جعفر طیّار کے نام سے مشہور ہوگئے ( طیّار یعنی اڑنے والا ) ۔

جس وقت جعفر حبشہ سے واپس آئے تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا :کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک قیمتی ہدیہ دیدوں ؟ لوگوں نے خیال کیا کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو سونا یا چاندی یا کوئی دوسری قیمتی چیز عطا کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی خیال سے سب لوگ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد جمع ہوگئے تاکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہدیہ دیکھیں ۔ لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ ہم تم کوایک نماز ہدیہ کر رہے ہیں اگر ہر روز اس کو پڑھو گے تو دنیا اور دنیا میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے اور اگر ہر روز یا ہر جمعہ یا ہر ماہ یا ہر سال بجا لاؤ تو پر وردگار دو نمازوں کے بیچ کے سارے گناہ ( ولو دو نمازوں میں ایک سال کا فاصلہ ہو ) بخش دے گا۔(١)

امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ جس وقت بھی کوئی مشکل یا حاجت پیش آئے تو نماز جعفر طیّار پڑھنے کے بعد دعا کرو انشاء اللہ دعا مستجاب ہوگی ۔

یہ نماز شیعہ اور سنی دونوں کے یہاں معتبر سندوں سے نقل ہوئی ہے اور اس کا نام '' اکثیر اعظم'' و '' کبریت احمر'' پڑ گیا(٢)

اس نماز کے پڑھنے کا طریقہ مفاتیح الجنان کے شروع میں روز جمعہ کے اعمال میں ائمہ معصومین کی نمازوں کے بعد موجود ہے ۔ البتہ یہ ان دسیوں نمازوں میں سے ایک ہے جو مشکلات کو دورکرنے کے لئے وارد ہوئی ہیں ۔ حال ہی میں ایک کتاب ، مستحبی نمازوں کے عنوان سے نشر ہوئی ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ١٨ صفحہ ٤٢١.

٢۔ بحار الانوار جلد ٩١ باب فضل صلاة جعفر

۴۹

جس میں تقریباً ٣٥۰ مستحبی نمازوں کو ان کے نام اوران کے پڑھنے کے طریقہ کے ساتھ جمع کیا گیا ہے ۔ اتنی قسم کی نمازیں اور ہر مناسبت سے متعلق ایک نماز یہ خود نماز کی ایک اہمیت ہے ۔

نماز کا تقدس

نماز کا تقدس اتنا زیادہ ہے کہ بعض دینی مراسم کے وقت جیسے قسم یا گواہی دینے سے پہلے نماز پڑھی جائے اس کے بعد قسم کھائی جائے یا گواہی دی جائے ۔

قرآن مجید سورئہ مائدہ آیت ١۰٦ میں فرماتا ہے :

جس وقت کوئی سفر میں بیمار ہو جائے اور موت کے قریب پہنچ جائے تو دو مسلمان یا غیر مسلم افراد کو اپنی وصیت پر گواہ بناؤ اور یہ گواہی نماز کے بعد انجام پائے یعنی یہ دو لوگ نماز پڑھنے کے بعد قسم کھا کر کہیں کہ فلاں مسلمان نے سفر میں یہ وصیت کی ہے ۔

آج کل رواج ہے کہ قسم کھانے کی رسم قرآن مجید کو سامنے اور اس پر ہاتھ رکھ کر انجام پاتی ہے لیکن خود قرآن کریم اس بارے میں فرماتاہے کہ شرعی قسم کے مراسم نماز کے بعد انجام دیئے جائیں ۔

۵۰

جامعیّت ِ نماز

پروردگار عالم نے کائنات کی خلقت اوراپنی شریعت کے احکام بنانے میں عالی ترین اور کامل ترین امور کو استعمال کیا ہے جیسے ماں کا دودھ ایسا بنایا ہے کہ بچہ کو جتنے وٹامنز کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب ماں کے دودھ میں جمع کر دیئے ہیں ۔

اسی طرح انسان کی خلقت کو اگر دیکھیں تو جو بھی کائنات میں موجود ہے انسان کے اندر ان ساری چیزوں کو جمع کیا ہے ۔

اگر کائنات میں بجلی کی کڑک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان میں چیخ و پکار ہے ۔

اگر کائنات میں گھاس پھوس اور درخت ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو انسان میں بالوں کی نمو ہے ۔

اگر کائنات میں دریا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان کے اندر موٹی اور باریک رگیں ہیں ۔

اگر کائنات میں میٹھا و کھارا پانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان میں کھارے آنسو اور میٹھا لعاب دہن ہے ۔

اگر کائنات میں دھاتیں کثرت سے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انسان میں کثرت سے صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔

اس شعر میں جس کی نسبت حضرت علی ـ کی طرف دی جاتی ہے ، آپ فرماتے ہیں :

اتزعم أنّک جرم صغیر و فیک انطویٰ العالم الاکبر

'' اے انسان تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا وجود ہے جب کہ اتنی بڑی دنیا تیرے اندر چھپی ہوئی ہے ۔ ''

نماز بھی خدا کی ہنر نمائی کا کرشمہ ہے کہ پروردگار نے تمام اقدار و کمالات کو اس کے اندر جمع کردیا ہے ۔ کون سا ایسا کمال ہے جو کمال توہو مگر وہ نماز میں نہ پایا جاتا ہو ؟ !

خدا کی یاد ایک بیش قیمت شے ہے اور فقط اسی کے ذریعہ دلوں کو سکون و آرام حاصل ہوتا ہے اور نماز یاد خدا ہے ( اللہ اکبر ! )

یاد قیامت ایک بیش قیمت شے ہے جو گناہ و فساد سے روکتی ہے اور نماز ''یوم الدین ''کو یاد دلانے والی ہے ۔

انبیاء و شہداء و صالحین کا راستہ ایک بیش قیمت شے ہے اور ہم نماز میں خدا سے کہتے ہیں کہ ہمیں ''صراط الذین انعمت علیهم '' پر قرار دے ۔

۵۱

ظالم اور گمراہوں سے نفرت و برائت کا اعلان اس جملہ '' غیر المغضوب علیھم و لا الضآلین '' کے ذریعہ کرتے ہیں ۔

عدالت جو تمام اقدار سے بالاتر ہے امام جماعت کی شرطوں میں سے ہے ۔ نماز میں امام جماعت کی پیروی ایک قابل قدر معاشرتی قانون ہے ۔ یعنی ہمیں خود سری اور خود روی کے بجائے ایک عادل رہبر کا تابع ہونا چاہئے ۔

امام جماعت کا انتخاب ہمیشہ تمام اقدار پر توجہ کے ساتھ ہو :جیسے سب سے زیادہ عادل ہو ، سب سے زیادہ فقیہ ہو ، سب سے زیادہ فصیح ہو وغیرہ ۔

قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہونا بہت سی اقدار کی یاد آوری ہے ، مکہ ؛ حضرت بلال کی شکنجہ گاہ ، حضرت اسماعیل ـ کی قربان گاہ ، حضرت علی بن ابیطالب ـ کی جائے ولادت ، قیام مہدی کا مرکز ، حضرت ابرہیم ـ کی امتحان گاہ اور تمام انبیاء و اولیاء کی عبادت گاہ ہے ۔

نماز میں جو کچھ بھی ہے تحرک ہے ہر صبح و شام ، رکوع و سجود اور قیام میں ، مسجد و جامع مسجد کی طرف جانے میں ہر جگہ حرکت ہی حرکت ہے ، پس خاموش اور گوشہ نشین نہ بنو بلکہ ہمیشہ متحرک رہو اور کوشش میں لگے رہو لیکن یہ تمام حرکتیں خدا کے لئے اور اسی کی طرف ہوں ۔

نماز میں انسان کی روح و جان کی دھول صاف ہوتی ہے ۔ نماز غرور و تکبر کی دھول کو صاف کر دیتی ہے ، اس لئے کہ انسان رات دن میں دسیوں مرتبہ اپنے بدن کے سب سے اعلیٰ مقام (پیشانی) کو زمین پر رگڑتا ہے ۔ خاک پر سجدہ پتھر پرسجدہ کرنے سے بہتر ہے اس لئے کہ پیشانی کو خاک پر رگڑنے میں اظہار ذلت زیادہ ہے ۔

زمین ،یا جو چیززمین پر اگتی ہے اس پر سجدہ کرو اس شرط کے ساتھ کہ وہ چیز کھائی نہ جاتی ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ پیٹ کی فکر میں ان پر گر پڑو۔

۵۲

پاک زمین پر سجدہ کرو اس لئے کہ ناپاکی کے ذریعہ پاکیزگی کے سرچشمہ تک نہیں پہنچ سکتے۔

خوف خدا سے رونا ایک قیمتی چیزہے اور قرآن مجید نے گریہ و زاری کے ساتھ کئے جانے والے سجدہ کی تعریف کی ہے :

(سُجّداً و بُکیاً )(١)

نماز وہ الٰہی راستہ ہے جو پیدائش سے لیکر موت تک ہمارے لئے بنایا گیا ہے ۔

جب بچہ پیدا ہو تو اس کے داہنے اور بائیں کان میں اذان و اقامت کہو جو نماز کی تاکید ہے ''حّ علی الصلاة '' اور جب مرجائے تو نماز میت پڑھ کر دفن کرو ( یعنی پیدائش کے وقت اذان و اقامت اور مرنے پر نماز ) نیز ساری زندگی عبادت و پرستش خدا میں گزارو ''و اعبد ربّک حتی یأتیک الیقین ''(٢)

نماز ، انسان اورکائنات کا پیوند ہے ۔ نماز کا وقت جاننے کے لئے خصوصاً صبح اور ظہر میں ضروری ہے کہ سورج کو دیکھو ۔ ( جس سے نماز کا وقت پتہ چلے ) قبلہ معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ستاروں کو دیکھو ۔ مہینہ کے متبرک ایام کی مستحبی نمازوں کو پڑھنے کے لئے چاند کی حرکت پر دھیان رکھو۔ وضو و غسل کے لئے پانی اور تیمم کے لئے خاک کی طرف متوجہ ہو۔

نماز اور چاند ، سورج ، ستارے ،پانی اور مٹی کے درمیان موجود یہ رابطہ کس کی منصوبہ بندی اور کس صانع حکیم کی حکمت ہے ؟

اسی طرح دین کے دوسرے واجبات بھی کسی نہ کسی طرح نماز میں موجود ہیں ۔

نماز پڑھنے والا روزہ دار کی طرح کھانے پینے اور تسکین شہوت کا حق نہیں رکھتا ۔

____________________

١۔ مریم ٥٨.

٢۔ حجر ٩٩

۵۳

نماز پڑھنے والے کے لئے ، حج کرنے والے کی طرح کعبہ اور قبلہ محور ہے ۔

نماز پڑھنے والا جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ لیکن جہاد اکبر جو جہاد بالنفس ہے۔

خود نماز سب سے بڑا امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے ۔

ہجر ت ،دین میں سب سے بڑی اقدار میں سے ہے اور حضرت ابراہیم ـ نے نماز کے لئے ہجرت کی، اپنی بیوی اوربچہ کو کعبہ کے پاس چھوڑ دیا اور کہا :

(ربّنا ان اسکنت من ذریت بوادٍ غیر ذی زرع ربّنا لیقیموا الصلاة )(١)

پروردگار میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ نماز قائم کریں ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ـ یہ نہیں کہتے کہ میں نے حج کے لئے ہجرت کی بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ نماز قائم کرنے کے لئے ہجرت کی ہے ۔

بہرحال پروردگار نے تمام اقدار اور کمالات کو نماز میں ، نماز کے ساتھ اور نماز کے لئے قرار دیا ہے ۔

اگر زینت و صفائی اچھی چیز ہے تو اسلام نماز کے لئے اس کی تاکید کرتا ہے :

(خذوا زینتکم عند کل مسجد )(٢)

مسجدوں میں جانے کے لئے اپنے کو مزین کرو ،صاف ستھرے اورپاک و پاکیزہ کپڑے پہن کر ، عطر لگا کر مسجد میں جاؤ ۔

عورتوںکے لئے حکم ہواکہ نمازمیںاپنے زیور پہنے رہیںاوراپنے زیورسے اپنی

____________________

١۔ ابراہیم ٣٧.

۲۔ اعراف ٣١

۵۴

زینت کریں ۔(١)

حتی مسواک پر بھی توجہ دی گئی ہے ۔ روایتوں میں آیا ہے مسواک کرکے پڑھی جانے والی نماز بغیر مسواک کی ٧۰ نمازوں کے برابر ہے(٢) اور فرمایا پیاز و لہسن کھا کر مسجد میں نہ جاؤ(٣) تاکہ تمہارے منہ کی بد بو دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے اور لوگ مسجد سے نہ بھاگیں ۔

بہرحال یہ اسلام کی نماز ہے اور یہ ہماری نماز ہے ۔ یا تو پڑھتے ہی نہیں اور یا بے توجہی سے اور غلط پڑھتے ہیں ۔ یا بغیر جماعت کے پڑھتے ہیں یا آخر ی وقت میں پڑھتے ہیں ۔

وہ مسجدیں جن کے خادم کسی وقت ابراہیم ـ و زکریا ـ تھے حضرت مریم کی ماں نے یہ نذر کی تھی کہ ہمارا بچہ مسجد کا خادم ہوگا، لیکن آج کل مسجدوں کے خادم زیادہ تر وہ ہوتے ہیںجو کوئی کام نہ کر سکتے ہوں یعنی بوڑھے ، مریض ، فقیر ، جاہل اور کبھی بد اخلاق ہوتے ہیں۔ کیوں امام رضا ـ کے روضہ کی گرد و خاک صاف کرنا باعث فخر ہے ؟ کیا خدا کے گھر کی صفائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ؟

کیوں ہماری مسجدیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو بھی اس میں داخل ہو غم و اندوہ و سستی اس کو جکڑ لے ؟ ! کیا مسجد عزا خانہ ہے ؟! یا مسجد ہمیشہ مجلس اور فاتحہ خوانی کے لئے ہے جو مسجد کے دروازے پر ہمیشہ کالا کپڑا لگا رہتا ہے ؟

البتہ الحمد للہ چند سال سے مسجدوں کے سلسلے میں بیداری پیدا ہوئی ہے ۔ کافی ایسی مسجدیں ہیں جن میں کتابخانہ ، صندوق قرض الحسنہ اور دوسرے رفاہی امور پائے جاتے ہیں۔

کتنی اچھی ہے وہ حدیث جس میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن تین چیزیں لوگوں کی

شکایت کریں گی۔

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨۰ صفحہ ١٨٨.

٢۔ بحار الانوار جلد ٧٣ صفحہ ١٣٣.

٣۔ رسالہء امام خمینی مسئلہ ٩١٥.

۵۵

پہلے :وہ عالم کہ جس کی طرف لوگ رجوع نہیں کرتے ہیں ۔

دوسرے:وہ قرآن کریم جو گھر میں ہو اور اس کی تلاوت نہ ہو ۔

تیسرے : وہ مسجد جس کی طرف سے لوگ بے توجہ ہوں۔(١)

مسجد کے بارے میںاہم باتیں تو بہت ہیں بلکہ ابھی حال ہی میں ایک کتاب '' سیمای مسجد'' کے نام سے دو جلدوں میں چھپی ہے جو اسلامی معاشرے میں مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو روشن کرتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ مسجد ، صدر اسلام میں فیصلوں اور مشورے کے لئے مسلمانوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی ، علم و دانش حاصل کرنے کی جگہ تھی ، مجاہدین کی چھاؤنی تھی ، فقراء اور بیماروں کی مشکلات کے حل کا مرکز تھی ، ظالم حکومتوں کے خلاف قیام کرنے اور ان کے اوپر اعتراض آمیز خطبوں کا مرکز تھی ۔

مسجد کا یہی وہ اعلیٰ مقام تھا جس کی بنا پر پوری تاریخ میں مسلمانوں نے اس کے لئے بہترین فن معماری سے کام لیا اور مسجد کے اخراجات کے لئے کافی اموال وقف کئے تاکہ مسجد ہمیشہ آباد اور خود مختار رہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٢ صفحہ ٤١.

۵۶

دوسرا باب

نیت

نیت: نماز کا سب سے پہلا رکن ہے ۔

نیت: یعنی ہم یہ جان لیں کہ کیا کر رہے ہیں ، کیا کہہ رہے ہیں ، کس کے لئے کر رہے ہیں اور کیا کام انجام دے رہے ہیں ۔

ہر کام کی اہمیت اس کی نیت اور قصد کی وجہ سے ہے نہ کہ صرف عمل ۔ لہٰذا اگر کوئی نظم و ضبط کی حفاظت کے خیال اور قانون کے احترام کی خاطر چوراہے کی لال لائٹ ( Red light ) پر ٹھہرے اور کوئی پولیس اور جرمانہ کے ڈر سے رکے ، تو ان دونوں میں بیحد فرق ہے ۔ تمام عبادتوں میں خصوصاً نماز میں نیت کا ایک خاص مقام ہے ۔ اصولی طورپر وہ چیز جو کسی کام کو عبادت بناتی ہے ، نیت الٰہی ہے، کہ اگر وہ نیت نہ ہو تو وہ کام ظاہراً چاہے جتنا بھی اچھا ہو لیکن عبادت کہے جانے کے لائق نہیں ہے ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام اس بارے میں فرماتے ہیں : '' انّما الاعمال بالنیات ''(١) تمام کام قصد و نیت کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور نیت پر تولے جاتے ہیں ۔

جی ہاں ! کسی کام کے مادّی یا معنوی ہونے کا انحصار نیت اور مقصد کے تفاوت پر ہے ۔

خالص نیت

خالص نیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان فقط خدا کے لئے کام کرے اور اس کے دل و جان کی گہرائی میں خدا کی خوشنودی ہو ، خدا ہی اس کے مدّ نظر ہو اور وہ لوگوں سے اس کے صلہ اور شکریہ کا منتظر نہ ہو ۔(٢)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٧۰ صفحہ ٢١۰

٢۔ سورۂ انسان ٩

۵۷

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت نے تین روز لگا تار یتیم و اسیر اور فقیر کو جو روٹیاں دیں ، مادّی لحاظ سے ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن چونکہ نیت خالصانہ تھی لہذاخدائے تعالیٰ نے اس کے عوض میں ایک سورہ نازل فرما دیا(١)

اس سلسلے میں عطار نیشاپوری کہتے ہیں

گذشتہ زین جھان ، وصف سنانش

گذشتہ ز آن جھان ، وصف سہ نانش

ہم تاریخ میں پڑھتے رہتے ہیں کہ ایک شخص جو محاذ جنگ میں قتل ہوگیاتھا لوگ اس کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ شہید ہوگیا ہے لیکن حضرت نے فرمایا کہ وہ '' قتیل الحمار ''' ہے ۔ یعنی گدھے کی راہ میں قتل ہوا ۔ لوگوں نے تعجب کیا۔ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگ میں اس کے آنے کا مقصد خدا نہیں تھا بلکہ اس نے دیکھا کہ دشمن کافی اچھے گدھے پر سوار ہے اوراس نے اپنے آپ سے کہا کہ چلتے ہیں اس کو قتل کر دیں گے اور اس کا گدھا مال غنیمت میں لے جائیں گے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا بلکہ اس کافر نے ہی اس مسلمان کو قتل کر دیا لہٰذایہ '' قتیل الحمار '' گدھے کی راہ میں قتل ہواہے ۔(٢)

نیت کا خالص کرنا بہت نازک اور مشکل کام ہے ۔ کبھی خدا کے علاوہ دوسری فکریں انسان کے دماغ میں اس طرح نفوذ کرتی ہیں کہ وہ خودبھی ان سے بے خبر رہتا ہے ۔ لہذا روایت میں آیا ہے کہ ریا و شرک رات کے اندھیرے میں کالے پتھر پر کالی چیونٹی کی حرکت سے زیادہ دقیق و آہستہ ہے(٣) بہت سے لوگ اپنے خیال میں تو قربت خدا کا قصد کرتے ہیں لیکن حالات کے نشیب و فراز کے وقت پتہ چلتا ہے کہ ان کی نیت سو فیصد خالص نہیں ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ دہر.

٢۔ محجة البیضاء جلد ٨ صفحہ ١۰٤.

٣۔ بحار الانوار جلد ٧٢ صفحہ ٩٣.

۵۸

علامہ شہید مطہری کے بقول : نیت یعنی خود شناسی ۔ عبادت کی قدر و قیمت معرفت و آگاہی سے ہے ۔حتی کہ روایتوں میں وارد ہوا ہے :

''نیة المؤمن خیر من عمله ''(١)

مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ۔

جس طرح سے جسم و روح کے موازنہ میںروح، جسم سے زیادہ اہم ہے اور انسان کی انسانیت اس کی روح کی وجہ سے ہے ، نیت و عمل کے موازنہ میں بھی، نیت، عمل سے اہم ہے اس لئے کہ نیت روحِ عمل ہے ۔ نیت اتنی اہم ہے کہ اگر انسان عمل خیر کو انجام نہ دے سکے لیکن کار خیر کی نیت رکھتا ہو کہ مثلاً فلاں کام کو کرے گا تو بھی خدا اس کو اجر دے گا ۔(٢)

قصد قربت

قصد قربت یعنی بارگاہ پروردگار سے قرب ۔ مثلاً جب لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص حکومت کے فلاں بڑے عہدہ دار سے بہت نزدیک ہے تو سورج کی روشنی کی طرح واضح ہے کہ اس کا مطلب مکانی اور جسمانی قربت نہیں ہوتی ورنہ اس کے نوکر اور خدمت کرنے والے سب سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں ۔لہٰذا اس سے مکانی اور جسمانی قربت مراد نہیں ہے بلکہ معنوی ، مقام ومرتبہ اور اُنس کی قربت مراد لی جاتی ہے ۔

پروردگار عالم کی خوشنودی کے لئے کسی کام کو انجام دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا وند عالم کے اوپر ہمارے کاموں کا اثر پڑتا ہے اور ان کاموں کی وجہ سے اس کی حالت بدل جائے، اس صورت وہ محل حوادث (جس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے)ہو جائے گا بلکہ خدائے تعالیٰ سے قربت کا مطلب یعنی وجود کے زینہ سے روح کا بلندی پر جانا ہے جس کے نتیجے میں انسان عالم ہستی

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٧۰ صفحہ ٢١۰.

٢۔ محجة البیضاء جلد ٨ صفحہ ١۰٤.

۵۹

میں تسلط اور نفوذ حاصل کرتا ہے یعنی سرچشمہ ہستی سے نزدیک ہوتا ہے اور اس کو اپنے دل کے اندر محسوس کرتاہے۔

جس طرح سے وجود کے مراتب ؛ جمادات ، نباتات، حیوانات اور انسانوں میں مختلف ہیں۔ اسی طرح انسانوں کے درمیان قرب خداوند کے مراتب بھی مختلف ہیں ۔ انسان میںاتنی صلاحیت و استعداد ہے کہ وہ خدا سے اتنا قرب حاصل کر لے کہ اس کی بارگاہ کے مقرب ترین لوگوں میں قرار پاجائے اور زمین پر اس کا خلیفہ بن جائے ۔

قربت کے قصد سے انجام پانے والی عبادت ، انسان کو نورانی اور کامل تر بنا دیتی ہے اور اس کے وجود کی ظرفیت بڑھ جاتی ہے ۔ اس سلسلہ میں ساری عبادتیں خصوصاً مستحبی نمازیں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں ۔ حدیث شریف میں آیا ہے :

''لا یزال العبد یتقرب الّ بالنوافل ''(١)

انسان مستحبی نمازوں کے ذریعہ خدا وند عالم سے قریب ہوتا ہے ۔ واجب نمازیں ممکن ہیں دوزخ کے ڈر سے یا خدا کے خوف سے پڑھی جائیں لیکن نافلہ نمازیں عشق کی نشانی اور معبود سے انس و محبت کی پہچان ہیں ۔

تقرب الٰہی کے درجات

قرآن مجید میں لفظ '' درجات'' متعدد بار ذکر ہوا ہے اور مختلف تعبیروں کے ساتھ استعمال ہوا ہے ۔اور اس میں کافی لطیف نکتے پائے جاتے ہیں ۔ بعض کے لئے فرماتا ہے:

(لهم درجات )(٢)

ان کے لئے درجات ہیں ۔

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٧٥ صفحہ ١٥٥.

٢۔ انفال ٤.

۶۰