نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر0%

نماز کی تفسیر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

نماز کی تفسیر

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 66471
ڈاؤنلوڈ: 2548

تبصرے:

نماز کی تفسیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66471 / ڈاؤنلوڈ: 2548
سائز سائز سائز
نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر

مؤلف:
اردو

بعض کے لئے ارشاد ہوتا ہے:

(هم درجات )(١)

وہ لوگ خود درجات ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ہے کہ اگر کسی مجلس میں بزرگ شخصیات پیچھے بیٹھیں تو وہ جگہ صدر مجلس سے زیادہ بلند ہو جاتی ہے ۔ یعنی درجہ و مقام انکو بلند نہیں کرتا بلکہ وہ لوگ خود اس درجہ کومقام بخشنے والے ہیں ۔

یہ معنوی درجہ بندی صرف انسانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ مراتب کا سلسلہ فرشتوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ جیسے جناب جبرئیل کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے :

(مطاعٍ ثم امین )(٢)

یعنی دوسرے فرشتے ان کی اطاعت کرتے ہیں ۔

بہرحال خدا وند عالم کی اطاعت کے اعتبار سے تمام انسانوں کے مراتب فرق رکھتے ہیں ۔

١) کبھی انسان صرف مطیع ہے لیکن خدا کی رضا کے لئے نہیں ۔

٢) کبھی انسان اطاعت کے علاوہ خدا کا محب ہے یعنی خدائے تعالیٰ سے عشق و محبت کی بنیاد پر اطاعت کرتا ہے ۔

٣) کبھی انسان اطاعت و محبت سے بالا تر کامل معرفت کے ساتھ اطاعت کرتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے فقط خدا کو دیکھتا ہے ۔ حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں :

ما رأیت شیئا الا و رأیت الله قبله و بعده و معه ''(١)

____________________

١۔ آل عمران ١٦٣. ۱۔ تکویر ٢١

۲۔ تماشاگہ راز صفحہ ١١٤.

۶۱

خدا کو خدا کے لئے یاد کریں

کہتے ہیں کہ محمود غزنوی اپنے درباریوں کی وفاداری کو آزمانے کے لئے ایک قافلہ لیکر چلا ۔ قافلہ کے ساتھ جواہرات سے بھرا ایک صندوق اونٹ پر لادا گیا ۔ اس صندو ق میں تالا نہیں لگایا گیا تھا ۔ راستے میں جب ایک درّہ پر پہنچے تو اس نے صندوق سے لدے اونٹ کو بھڑکا دیا تو صندوق پہاڑ کے درّے میں جا گرا اور سارے جواہرات بکھر گئے ۔ سلطان نے کہا جوموتی جس کے ہاتھ لگ جائے وہ اسی کا ہے ۔ سارے درباریوں نے سلطان کو چھوڑ دیا اور جواہرات کے چکر میں دوڑ پڑے اسی وقت دیکھا کہ اَیاز جواہرات کو چھوڑ کر سلطان کے پاس آیا ۔ سلطان نے کہا تم کیوں جواہرات کو چھوڑ کر ہمارے پاس چلے آئے ہو؟

اَیاز نے جواب دیا :

منم در قفای تو می تاختم

ز خدمت بہ نعمت نپرداختم

ہم تمہارے پیچھے دیکھ رہے تھے لوگوں نے تمہارا ساتھ چھوڑا مگر ہم نے نعمت کے بدلے خدمت انجام دی ۔

مولاناروم اس واقعہ کے نتیجہ کو اس طرح پیش کرتے ہیں :

اگر از دوست چشمت بہ احسان اوست

تو در بند خویشی نہ در بند دوست

خلاف طریقت بود کاولیائ

تمنّا کنند از خدا جز خدا

۶۲

یعنی اگر تمہاری نگاہیں اپنے دوست کے کرم اور احسان پر ہوں تو تم اپنی (ہوس)کی قید میں ہو نہ کہ دوست کی محبت کی قید میں،یہ راہ طریقت کے سراسر خلاف ہے کہ اولیائے خدا اس سے اس کی ذات کے علاوہ کسی اور چیز کی تمناکریں۔

جو لوگ خدا کو اپنے لئے یاد کرتے ہیں یا صرف مشکلات میں اس کی طرف رخ کرتے ہیں اس کے علاوہ خدا کو فراموش کر دیتے ہیں حتی بعض اوقات خدا کا انکار بھی کردیتے ہیں ؛ قرآن مجید نے ایسے افراد کی شدت سے مذمت کی ہے ۔ارشاد ہوتا ہے :

(فاذا رکبوا فی الفلک دعوا الله مخلصین له الدین فلما نجّا هم الی البر اذا هم یشرکون )(١)

جس وقت کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور کشتی غرق ہونے لگتی ہے تو بڑے خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں لیکن جیسے ہی خشکی میں قدم رکھتے ہیں تومشرک ہو جاتے ہیں ۔

بہرحال جو کام بھی اپنے لئے کیا جائے وہ نفس پرستی ہے ۔ اگر لوگوں کے لئے کیا جائے وہ بت پرستی ہے ۔ اگر خدا اور مخلوق کے لئے ہو وہ دوگانہ پرستی ہے ۔اور اپنا اور مخلوق کا کام خدا کے لئے انجام دینا یہ خدا پرستی ہے ۔ ہم حضرت علی کی مناجات میں پڑھتے ہیں: ''اله ما عبدتک خوفا من نارک و لا طمعا فی جنتک بل وجدتک اهلا للعبادة فعبدتک ''(٢)

خداوندا ! میری عبادت نہ دوزخ کے ڈر سے اور نہ جنت کی لالچ سے ہے بلکہ میری عبادت اس لئے ہے کہ میںنے تجھ کو عبادت و بندگی کے لائق سمجھا لہٰذا میں تیری عبادت کرتا ہوں ۔

ہاں ! یہ تاجر ہیںجو فائدہ کی وجہ سے کام کرتے ہیں اور یہ غلام ہیں جو ڈر کی بنا پرکام کرتے ہیں ،مگر آزاد لوگ خدا کے شکر کے لئے اور اس کی نعمتوں کی وجہ سے اس کی عبادت کرتے ہیں جیسا کہ معصومین کے کلمات میں آیا ہے :

____________________

١۔ عنکبوت ٦٥.

٢۔ بحار الانوار جلد ٧ صفحہ ١٨٦.

۶۳

''انّ قوما عبدوا الله رغبة فتلک عبادة التجار و انّ قوما عبدوا الله رهبة فتلک عبادة العبید و انّ قوما عبدوا الله شکرا فتلک عبادة الاحرار ''(١)

بقول حافظ :

در ضمیر ما نمی گنجد بغیر از دوست کس

ھر دو عالم را بہ دشمن دِہ کہ ما را دوست بس

''ہمارا ضمیر دوست کے علاوہ کسی اور کو قبول نہیں کرتا ۔ دونوں جہاں دشمن کو دے دو ہم کو تو صرف اس کی دوستی ہی کافی ہے ''۔ دنیاوی اور مادّی عشق میں انسان معشوق کو اپنے لئے چاہتا ہے اور معنوی عشق میں انسان اپنے کو معشوق کے لئے چاہتا ہے ۔ حضرت علی ـ دعائے کمیل میں فرماتے ہیں : '' و اجعل قلب بحبک متیما '' پروردگارا میرے قلب کو اپنی محبت سے بھر دے ۔ ''

تقرب الٰہی کے حصول کا راستہ

تقرب الٰہی کے حصول اور قصد قربت کے دو راستے ہیں : ١) پروردگار کی عظمت و مقام کو پہچاننا۔ ٢) خداوند متعال کے علاوہ ہرچیز کی بے اعتباری اور کھوکھلے پن کو جاننا۔

قرآن مجید ہمیشہ خدا کے الطاف اور اس کی نعمتوں کو بیان کرتا ہے تاکہ انسان کو اس کا محب بنائے ۔ اس کی صفتوں کا ذکر ، اس کی خلقت ، اس کی مادّی اور معنوی امداد ، اس کے علاوہ بہت سی چھوٹی اور بڑی نعمتوں کاتذکرہ یہ سب اس لئے ہیں کہ خدا سے ہمارے عشق ومحبت کو زیادہ کریں ۔

دوسری طرف کافی آیتوں میں خدا کے علاوہ بقیہ تمام چیزوں کے ضعف اوران کی بے مائیگی کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے '' خدا کے علاوہ نہ کوئی عزت رکھتا ہے اور نہ قدرت ، اگر سارے

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٤١ صفحہ ١٤.

۶۴

لوگ جمع ہوجائیں اور چاہیں کہ ایک مکھی خلق کریں تو نہیں کر سکتے'' ! ۔ خدا کے علاوہ کون ایسا ہے جو پریشان و درماندہ لوگوں کی فریاد کا جواب دے ؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ہم کسی دوسرے کو خدا کے ساتھ لا کر کھڑا کردیں اور اس کو خدا کا ہم پلّہ اور برابر قرار دیدیں ؟

ایک واقعہ

عالم تشیع کے ایک مرجع تقلید ، حضرت آیة اللہ العظمیٰ آقا ئے بروجردی تھے ۔ آپ محرم کے زمانے میں اپنے گھر پر مجلس عزا کراتے تھے ۔ ابھی ایام عزا ہی تھے کہ بیمار ہوگئے لہذا اپنے خصوصی کمرے میں لیٹے لیٹے مجلس کی آواز سن رہے تھے۔ مجلس میں شرکت کرنے والوں میں سے ایک نے بلند آواز میں کہا کہ : امام زمانہ ـ اور آیة اللہ بروجردی کی سلامتی کے لئے صلوات پڑھیں ''

اتنے میں لوگوں نے دیکھا کہ آیة اللہ العظمیٰ بروجردی اپنے عصا سے دروازے کو پیٹ رہے ہیں ان کے قریب والے لوگ فوراً اندر گئے اور پوچھا۔ کیا کوئی حکم ہے ؟ مرجع بزرگوار نے فرمایا : کیوں ہمارے نام کو امام زمانہ ـ کے ساتھ لیا ؟ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ہمارے نام کو امام ـ کے نام کے ساتھ لو اور دونوں کے لئے صلوات پڑھو۔(١)

یہ دینی مرجع جو نائب امام زمانہ ـ ہیں راضی نہیں ہوئے کہ ان کا نام معصومین کے نام کے ساتھ لیا جائے لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جواتنی کج فہمی اور بد تہذیبی کا شکار ہیں کہ ضعیف اور حقیر مخلوق جو سراپا محتاج و نیاز مند ہے ،اس کو خدائے قادر مطلق کے ساتھ لا کھڑا کرتے ہیں گویا وہ لوگ دونوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں ۔

____________________

١۔ اس واقعہ کو آیة اللہ صافی مد ظلہ نے نقل فرمایا ہے

۶۵

کیفیت یا مقدار؟

اسلام نے کام کی کیفیت پر زیادہ زور دیا ہے کہ کام کیسا ہے اس کا مقصد و ارادہ کیسا ہے ۔

قرآن اچھے عمل کی تعریف کرتا ہے نہ کہ زیادہ عمل کی ، ارشاد ہوتا ہے :

(لیبلوکم ایکم احسن عملاً )(١)

خدا تم کو امتحان میں مبتلا کرتا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ تم میں سے کون ہے جو بہترین عمل بجا لاتا ہے ؟

حضرت علی ـ نے نماز کی حالت میں فقیر کو انگوٹھی دی ۔ آپ کے اس اچھے عمل پر قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی ۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس وجہ سے نازل ہوئی تھی کہ وہ انگوٹھی بہت قیمتی تھی یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس انگوٹھی کی قیمت شامات اور سوریہ کے ٹیکس کے برابر تھی ، جب کہ اتنی قیمتی انگوٹھی علی علیہ السلام کے زہد سے اور حضرت علی ـ کی عدالت سے بھی سازگار نہیں ہے کہ آپ اتنی قیمتی انگوٹھی اپنے ہاتھ میں رکھیں جب کہ کتنے ہی فقیروں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت (انّما ولیکم الله و رسوله و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکاة و هم راکعون )(٢)

کا نزول عمل کی کیفیت کی بنا پر ہے ، اس کی مقدار اور قیمتی ہونے کی بناپر نہیں۔ آپ کے عمل میں نیک قصد اور اخلاص تھا، نہ اس لئے کہ انگوٹھی کا وزن زیادہ تھا یا اس کی قیمت زیادہ تھی ۔

____________________

١۔ ہود ٧.

٢۔ مائدہ ٥٥.

۶۶

یادگار واقعہ

بہلول نے دیکھا کہ کچھ لوگ مسجد بنا رہے ہیں اور ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد خدا کی ہے ۔ بہلول نے ایک پتھر پر لکھا کہ '' اس مسجد کے بانی بہلول ہیں '' ۔ پھر اس پتھر کو رات میں صدر دروازے پر لے جاکر نصب کر دیا ۔ دوسرے روز صبح جب مزدور کام کرنے آئے اور اس پتھر کو جس پر بہلول کا نام لکھا تھا دیکھا تو ہارون رشید سے جا کر ماجرا بیان کیا ۔ ہارون رشید نے بہلول کو بلوایا اور پوچھا کہ : '' مسجد ہم بنا رہے ہیں تم نے اسے اپنے نام کیوں کر لیا ؟ ''

بہلول نے کہا کہ اگر تم خدا کے لئے مسجد بنا رہے ہو تو اس پر میرا نام رہنے دو اس لئے کہ خدا جانتا ہے کہ اس کا بنوانے والا کون ہے ؟۔ خدا اجر و ثواب دینے میں دھوکہ نہیں کھاتا ۔ اگر یہ مسجد خدا کے لئے ہے تو چاہے ہمارا نام ہو یا تمہارا نام ہو یہ کوئی اہم بات نہیں ہے ۔

بہلول نے اپنے اس کام سے اس کو سمجھا دیا کہ اس کی نیت قربت کی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد شہرت اور نام و نمود ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن مجید کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دیتا ہے کہ جودیکھنے میں پانی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے ۔

(و الذین کفروا اعمالهم کسراب بقیعة یحسبه الظمآن مائً )(١)

'' جن لوگوں نے کفر اختیار کر لیا ان کے اعمال اس ریت کی مانند ہیں جو چٹیل میدان میں ہو اور پیاسا اسے دیکھ کراسے پانی تصور کرے ۔ ''

اصولاً اسلام اس عمل کو صالح سمجھتا ہے کہ جس کے چاروں عناصر ترکیبی نیک اور صحیح ہوں ۔ یعنی عمل ، جذبۂ محرکہ ، وسیلہ اور روش ۔

____________________

١۔ نور ٣٩

۶۷

قصد قربت ، کام کے آغاز میں ہی ضروری نہیں ہے بلکہ کام کے آخر تک قصد قربت باقی رہناضروری ہے ورنہ عمل باطل ہے ۔ اگر ہوائی جہاز کا انجن ایک منٹ کے لئے بھی خراب ہو جائے تو اس کا گرنا حتمی ہے ۔ اسی طرح نیت میں شرک و ریا حتی اگر ایک لحظہ کے لئے بھی ہو ں پورے عمل کو نابود کر دیتے ہیں ۔

ایک واقعہ

ایک ہوائی جہاز کے اڑنے کا وقت نزدیک تھامگر اس کے سب مسافروںکو اتار دیا گیا۔ گھنٹوں اس کی اڑان میں دیر ہوگئی ۔ ہم نے اس کی تاخیر کی وجہ دریافت کی ۔ لوگوں نے بتایا کہ جہاز میں ایک چوہا چلا گیا ہے ۔ ہم نے کہا کہ اتنی تاخیر ایک چوہے کی وجہ سے ! کہا، ہاں اس لئے کہ ممکن ہے یہی چوہا کسی تار کو کاٹ دے اور جہاز کا کنٹرول سسٹم خراب ہوجائے اور کوئی حادثہ پیش آجائے۔

بہت سے نیک کام جو خدا کی طرف انسان کی پرواز کا سبب بنتے ہیں ۔ ممکن ہے کسی ایک روحی مرض کی بناء پر انسان کو نہ صرف بلندیوں پر جانے سے روک دیں بلکہ ممکن ہے کہ انسان کے سقوط کا سبب بن جائیں۔

نیت ؛کام کو اہمیت دیتی ہے

فرض کریں ایک شخص نے دوسرے انسان کو ظلم وتجاوز کی نیت سے قتل کر ڈالا بعد میں معلوم ہوا کہ قتل ہونے والا انسان بھی ظالم و جابر تھا اس کو پھانسی دینا ضروری تھا ۔ یہاں پر اگر چہ قتل کرنے والے کا کام مفید اور اچھا تھا لیکن پھر بھی لوگ اس قاتل کی تعریف نہیں کریں گے کیونکہ قتل کرنے والے کی نیت ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنا تھی اور وہ ''مفسد فی الارض '' (فسادی انسان)کو قتل کرنے کی نیت نہیں رکھتا تھا ۔

۶۸

پس ایک کام کامفید ہونا اس بات کے لئے کافی نہیں کہ وہ عمل صالح بھی ہو بلکہ اس کے لئے عمل کے ساتھ ساتھ پاک نیت اور پاک قصد کی بھی ضرورت ہے ۔

قرآن مجید ہر جگہ پر ہر کام میں قصد قربت پر زور دیتا ہے ، چاہے خمس و زکات و خیرات مالی ہو اور چاہے دشمن سے جنگ و جہاد ہو ، قرآن کریم ہمیشہ ان کلمات : (ف سبیل الله )(١) (لوجه الله )(٢) (ابتغاء مرضات الله )(٣) پر انحصار کرتا ہے ۔ یہ قصد قربت کی اہمیت کی علامت ہے ۔

جو لوگ مدرسہ ، اسپتال ، راستہ یا ہاسٹل تعمیر کرتے ہیں یا اس کے علاوہ دوسرے مفید کام کرتے ہیں اگر قصد الٰہی نہ ہو تو انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ، اس لئے کہ ایسے کاموں سے انھیںخود کوئی فائدہ نہیں ہوتا اگرچہ دوسرے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

قرآن مجید ہمیشہ عمل صالح کوجو ایمان کے ساتھ لاتا ہے ۔جیسا ارشاد ہے :

(الذین آمنوا و عملوا الصالحات )

یا دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :

(مَن عمل صالحاً من ذکر او انثیٰ و هو مؤمن )(٤)

اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں صرف فعل کا اچھا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ فعل انجام دینے والے کی نیت کا اچھا ہونا بھی ضروری ہے ۔

____________________

١۔ بقرہ ١٩۰.

٢۔ انسان ٩.

٣۔ بقرہ ٢۰٧.

٤۔ نحل ٩٧.

۶۹

دو واقعات

١) بلال پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے مؤذن تھے یہ ''اشهد ان لا اله لاَّ الله '' میں '' شین '' کے بجائے '' سین '' کہتے تھے اس لئے کہ ان کی زبان لکنت کرتی تھی ۔ لوگ اس کو عیب سمجھتے تھے ۔ لیکن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : بلال کی سین خدا کے نزدیک شین ہے ۔(١) اگرچہ ظاہری طور پر یہ عمل ناقص ہے لیکن قصد قربت اور حسن نیت کی بنا پر اجر کا حامل ہے۔

٢) عبد اللہ بن مکتوم نابینا تھے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت مخلص اورآپ کے چاہنے والے اصحاب میں تھے ۔ ایک دن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ لوگوں سے گفتگو میں مشغول تھے ۔ اسی اثناء میں عبد اللہ بن مکتوم وہاںآئے ۔ عبد اللہ چونکہ نابینا تھے یہ لوگوں کو دیکھ نہیں سکتے تھے لہذا بلند آواز میں بات کرنے لگے ۔ انہیں لوگوں میں سے ایک شخص نے انھیں نفرت بھری نگاہ سے دیکھا اورناراض ہوگیا ۔ اس اظہار نفرت اور ہنسنے سے عبد اللہ پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا کیونکہ وہ نابینا تھے ۔ لیکن اس نفرت کرنے کی وجہ سے قرآن مجید کا ایک پورا سورہ نازل ہوا اور دس آیتوں میںاس مذاق اڑانے والے کو ڈانٹا (عبس و تولی ان جائَ ه الاعمیٰ و ما یدریک لعله یزکیٰ )(٢)

پس کسی عمل کا مفید یا مضر ہونا معیار نہیں ہے کہ دوسروں سے اس کو تولا جائے اور کہا جائے کہ یہ عمل دوسروں کے لئے فائدہ مند ہے یا مضر ہے اور یہ کہ اگر یہ عمل دوسروں کو فائدہ دینے والا ہے تو وہ عمل صالح ہے اور اگر مضر ہے تو عمل غیر صالح ہے ۔ بلکہ عمل اوراس عمل کو انجام دینے والے کے درمیان یہ رابطہ دیکھا جائے کہ اس نے اس کو کس مقصد کے تحت انجام دیا ہے ؟یعنی خود عمل ،

____________________

١۔ مستدرک الوسائل حدیث ٤٦٩٦.

٢۔ سورہء عبس آیت ١ سے ١۰ تک.

۷۰

چاہے دوسروں کے لئے مفیدیا مضر نہ ہو، مگر اس عمل کی نوعیت کیا ہے ؟یہ دیکھا جائے گا۔

جی ہاں ! انبیاء کے مکتب میں اخلاق کی ذاتی اہمیت ہے نہ کہ عرضی ، جیسے کوئی گاہک کو اپنی طرف کھینچنے ، پیداوار کو زیادہ کرنے اور لوگوں کو اپنے قریب جمع کرنے والا کرتا ہے ۔

سورئہ '' عبس'' میں اس پر بات تنقید ہوئی کہ کیوں نابینا سے نفرت کی اوراس کا مذاق اڑایا ؟ چاہے کہ نابینا تم کو نہیں دیکھتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی مؤمن کا مذاق اڑانا ( چاہے وہ نہ دیکھے )یہ ذاتا ایک بُری اور قبیح چیزہے۔

بہرحال قصد قربت یعنی تمام کاموں کو الہی معیار پر انجام دینا اورعمل میں سیاسی و سماجی رد عمل اور دوسروں کی خوشامد کا پہلو نہ ہو ۔

قصد قربت : یعنی عمل کو خدا کے لئے انجام دو لوگوں کی قیل و قال سے نہ ڈرو۔

قرآن مجید حقیقی مومنین کے لئے فرماتا ہے :

(یجاهدون ف سبیل الله و لا یخافون لومة لائمٍ )(١)

خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور لوگوں کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔

قصد قربت : یعنی حق کہو خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرو ۔جیسا قرآن مجید الٰہی اور دینی تبلیغ کرنے والوں کی یوںتعریف کرتا ہے :

(الذین یبلغون رسالات الله و یخشونه و لا یخشون احداً الا الله )(٢)

''وہ لوگ اللہ کے پیغام کو پہونچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ''۔

____________________

١۔ مائدہ ٥٤.

٢۔ احزاب ٣٩.

۷۱

سرگزشت

ایک روز میں امام رضا ـ کے روضہ میں دعا و زیارت میں مشغول تھا ۔اور اس وقت میرے اوپر ایک خاص حالت طاری تھی ۔ ایک زائر بھی میرے پہلو میں آکر بیٹھ گیا ۔ چونکہ ٹیلی ویژن پر شب جمعہ میرا پروگرام آتا ہے ، اس کی وجہ سے وہ مجھے پہچان گیا ۔ اس نے کچھ رقم مجھے دینا چاہی اور کہا کہ قرائتی صاحب ! یہ کسی فقیر کو دے دیجئے گا ۔ میں نے کہا کہ میں بھی تمہاری طرح زائر ہوں۔ میں مشہد میں فقیر وںکو نہیں پہچانتا ۔ تم خود ہی کسی فقیر کو دے دو ۔

تھوڑی دیر گزری ، اس نے پھر اپنی اسی بات کی تکرار کی ۔ میں نے دوبارہ وہی جواب دیا اور دعا پڑھنے میں مشغول ہوگیا ۔ تیسری بار پھر اس نے اپنی بات کی تکرار کی ۔ میں ناراض ہوگیا اور کہا کہ تم ٢۰ تومان کی وجہ سے میری توجہ تین بار دعاسے ہٹا چکے ہو۔ مہربانی کر کے خلل اندازی نہ کرو اورجاؤ تم خود ہی یہ رقم کسی فقیر کو دے دو ۔ اس نے کہا کہ قرائتی صاحب ! یہ ٢۰ تومان نہیں بلکہ ١۰۰۰ تومان ہیں ۔

میں جو ابھی تک یہ سوچ رہا تھا کہ وہ شخص فقیر کے لئے ایک ٢۰ تومان کا نوٹ دے رہا ہے ۔ میں نے تھوڑی دیر فکر کی تو میرا غصہ کافور ہوگیا ۔ میں نے کہا کہ یہاں پر ایک ادارہ ہے جو یتیم بچوں کی مدد کرتا ہے ۔ اس نے کہا کہ آپ خود اختیار رکھتے ہیں ، جہاں مصلحت سمجھیں وہاں خرچ کردیں ۔ اس نے یہ کہہ کر رقم میرے حوالے کی اور چلا گیا ۔

میں نے دعا کی کتاب کو ایک طرف رکھا اور گہری فکر میں ڈوب گیا کہ اگر یہ خدا کے لئے ہے تو ٢۰ تومان اور ١۰۰۰ میں فرق کیا ہے ؟ پھر میںمتوجہ ہوا کہ یہ واقعہ میری آزمائش کے لئے تھا تاکہ مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ قصد قربت ابھی میرے اندر پیدانہیں ہوا ہے ۔

اخلاص کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ انسان کسی کام کی مقدار ، افراد ، جگہ ، کام کی نوعیت و شرائط ، لوگ جانیں یا نہ جانیں ، حمایت کریں یا نہ کریں ، اس میں آمدنی ہو یا نہ ہو ، جیسی چیز وں کے در میان کو ئی فرق نہ کریں بلکہ فقط رضائے الہی ان کے مدنظر ہو ۔

۷۲

البتہ انسان دوستی اور کسی کام کو لوگوں کے لئے انجام دینا خود پرستی سے بہتر ہے لیکن اس کا مقصد رضائے الٰہی نہ ہو تو خدا کے نزدیک اس کی کو ئی اہمیت نہیں ہے ۔

بقول شہید مطہری قصد قربت ذاتی اوراصلی شرط ہے نہ قراردادی و اعتباری ، یہ شرط تخلیقی ہے نہ تشریفی ۔(١) اگر مکہ جانے کی شرط مکہ کے راستے کو طے کرنا ہے تو یہ شرط طبیعی و ذاتی ہے نہ کہ قراردادی۔قرب الہٰی تک پہنچنے کی شرط قصد قربت ہے۔ یہ شرط بھی ذاتی اوراصلی ہے ۔

پاک نیت کے اثرات و برکات

آیات و روایات کی روشنی میں پاک نیت کے اثرات اور برکتیں کافی ہیں جن کو خلاصہ کے طور پر پیش کرتے ہیں :

١) جس کی نیت اچھی ہو اس کے رزق میں فراوانی ہوتی ہے ۔(٢)

غالبا اس حدیث کا مطلب یہ ہو کہ اچھی نیت کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ اس کا کردار اور

سلوک اچھا ہوگا ۔ لہذا لوگ اس کی طرف زیادہ جذب ہونگے اور وہ جو بھی کام کرے گا وہ رونق پائے گا اس طرح اس کی آمدنی بھی زیادہ ہوگی ۔

٢ ) حسن نیت سے انسان کی توفیقات میں اضافہ ہوتا ہے ، زندگی پاک و خوشگوار ہوتی ہے اور انسان کے دوست زیادہ ہوتے ہیں(٣)

____________________

١۔ ولاہا و ولایت ہا٢٩۰ سے ٢٩٣ تک

٢۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٣٩

٣۔ غرر الحکم

۷۳

٣) حسن نیت سے انسان کی عمر طولانی ہوتی ہے ۔ روایتوں میں آیا ہے جس نے حج تمام کر لیا اوروہ اپنے وطن جاتے وقت یہ نیت کر لے کہ اگلے سال بھی آ کر حج کرے گا ، پروردگار اس ارادہ کی بناپر اس کی عمر طولانی کر دیتا ہے ۔(١)

٤) اچھی نیت انسان کی پچھلی کمیوں کو پورا کردیتی ہے ۔ حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں : اگر گنہگار حسن نیت سے توبہ کرے تو خداوند عالم نے جو بھی اس کے گناہ کی سزا کے بدلے میں اس سے لیا تھا اسے واپس کر دیتا ہے اور اس کے کاموں میں جو بھی مشکل در پیش ہو اس کی اصلاح کر دیتا ہے۔

٥) پروردگار کار خیر کی نیت پر ، کار خیر کی جزا عنایت کرتا ہے چا ہے انسان اس کام کے انجام دینے میں کامیاب نہ ہو پائے ۔ نیت اگر سچی ہو تو کام انجام نہ پانے کی صورت میں بھی وہ عمل شمارہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ روایت میں بھی موجود ہے کہ اگر مومن یہ کہے کہ اگرخداوسائل فراہم کرتا تو ہم یہ کرتے وہ کرتے اور یہ سچی آرزو ہو تو جن نیک کاموں کی اس نے نیت کی ہے پروردگار اسے ان کی جزا دے گا(٢) یہاں تک کہ اگر کوئی مخلصانہ طور پر شہادت کی نیت کرے اور خدا سے شہادت کی دعا کرے توخدا اس کو شہیدوں کے درجات عنایت فرمائے گا چاہے وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ دنیا سے جائے ۔(٣)

خدا کا یہی لطف کیا کم ہے کہ وہ صرف نیت پر اس کام کی جزاا ور ثواب دیدیتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر کوئی گناہ کی نیت کرے تو جب تک گناہ انجام نہ دے اس وقت تک اس کی سزا نہیں ملتی۔(٤)

____________________

١۔ وسائل جلد ٨ صفحہ ١۰٧

٢۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٤۰.

٣۔ بحار الانوار جلد ٧۰ صفحہ ٢۰١.

٤۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٤۰.

۷۴

٦) پاک نیت سے انسان کی زندگی کے مادّی ترین کام اس کے لئے قربت خدا کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اسی طرح معنوی ترین کام جیسے سجدہ و گریہ اگر ریا کاری کے سا تھ ہوں تو خدا سے دوری کا سبب بنتے ہیں ۔

روایتوں میں آیا ہے کہ جس طرح جسم ،روح کی وجہ سے پائیدار ہے اسی طرح دین سچی نیت

سبب استوار ہے(١) پاک دل ا و رحسن نیت خدا کے بہترین خزانوں میں سے ہے اور نیت جتنی اچھی ہوتی ہے اس خزانہ کی قدر و قیمت اتنی ہی زیادہ ہو جاتی ہے(٢) نیت اور مصمم قصد و ارادہ انسان کی جسمانی قوت کو کئی گنا کر دیتے ہیں۔

امام جعفر صادق ـ نے فرمایا :

پروردگار، روز قیامت لوگوں کو ان کی نیتوں کی بنیاد پر محشور کرے گا(٣) جس کا مقصد صرف فریضہ کی ادا ئیگی ہو اس کے لئے کام کی نوعیت اور اس کا نتیجہ اہم نہیں ہے ۔

جیسا کہ قرآن مجید ارشاد فرما رہا ہے :

(و مَن یقاتل ف سبیل الله فیُقتل او یغلب فسوف نؤتیه اجرا عظیما )(٤)

اور جو بھی راہ خدا میں جہاد کرے گا وہ قتل ہو جائے یا غالب آجائے دونوں صورتوں میں ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے ۔

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٧٨ صفحہ ٣١٢

٢۔ غرر الحکم

٣۔ قصار الجمل

٤۔ نساء ٧٤.

۷۵

جو چیز اہم ہے وہ خدا کی راہ میں جہاد ہے لیکن اس کا نتیجہ ہار ہو یا جیت اس سے خدا کے اجر و ثواب پر اثر نہیں پڑتا ، دوسری جگہ پر قرآن مجید فرماتا ہے :

(و مَن یخرج من بیته مهاجرا الی الله و رسوله ثم یدرکه الموت فقد وقع اجره علی الله )(١)

اور جو اپنے گھر سے خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکلے گا اس کے بعد اسے موت بھی آجائے گی تو اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے ۔

اس آیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اگر انسان خدا کی خاطر گھر سے نکلے تو چا ہے اپنے مقصد تک نہ پہنچ پائے لیکن وہ اجر رکھتا ہے ۔ کیو نکہ اہم چیز عمل کی نیت ہے نہ خود عمل۔ اہم خدا کی راہ میں قدم بڑھانا ہے نہ کہ مقصد تک پہنچنا ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوذر غفاری سے فرمایا :

کار خیر کا ارادہ کیا کرو چا ہے اس کے بجا لانے کی توفیق حاصل نہ ہو کیونکہ یہ نیک کام کا ارادہ ہی تمہیںغافل لوگوں کے زمرے سے باہر نکالتا ہے(٢)

ایک دوسری حدیث میں آیا ہے :

جو کام نیت الٰہی کے ساتھ ہو وہ کام بڑا ہے اگرچہ سادہ ا ور چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ۔(٣)

جس طرح کوئی اہم کام اگر صحیح نیت کے ساتھ نہ ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ پیغمبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : میری امت کے اکثر شہید اپنے بستر پر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور کتنے زیادہ ہیں وہ لوگ جو محاذ جنگ میں قتل ہوتے ہیں لیکن خدا ان کی نیت سے آگاہ ہے ۔(٤)

____________________

١۔ نساء ١۰۰.

٢۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٨٧۔

٣۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٣٩. ٤۔ محجة البیضاء جلد ٨ صفحہ ١۰٣.

۷۶

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ تبوک کے موقع پر فرمایا :

جو لوگ مدینہ میں ہیں اورہمارے ساتھ جنگ میں شرکت کی آرزو رکھتے ہیں وہ اپنی اس نیت کی بنا پر اس جنگ کے ثواب میں ہمارے ساتھ ہیں ۔(١)

ایک دوسری روایت میں پڑھتے ہیں : جو شخص نماز شب کے لئے بیدار ہو نے کی نیت سے اپنے بستر پر لیٹے اگر نماز شب کے لئے بیدار نہ ہو پائے توخداوند عالم اس کے سونے کو صدقہ اور اس کی سانسوں کو تسبیح ( کے برابر ) قرار دیتا ہے اور نماز شب کا ثواب اس کے لئے لکھا جاتا ہے ۔(٢)

بلا وجہ ہمیں یہ تاکیدنہیں کی گئی ہے حتی سونے اور کھانے پینے میں بھی نیک مقصد پر نگاہ رکھیں۔(٣) اگر کسی شخص کو خدا کی خاطر چاہو اور یہ خیال کرو کہ اچھا انسان ہے اگرچہ وہ دوزخی ہو لیکن تم کو اس کا اجر ملے گا ۔(٤)

عمل پر نیت کی برتری

کسی بھی کام کی نیت اس کام کے او پرجو برتری رکھتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے کام کے انجام دینے میں ریا کاری یا خود نمائی داخل ہو جائے لیکن نیت چونکہ قلب سے تعلق رکھتی ہے اس کا کوئی ظاہری اثر نہیں ہوتا لہذا نیت میں ریا کاری اور دکھاوے کی گنجائش نہیں ہے ۔

عمل پرنیت کی دوسری برتری یہ ہے کہ نیت ہمیشہ اور ہر مقام پر ممکن ہے نیز اس کے لئے کسی خاص شرط کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کسی کام کو انجام دینے کے لئے متعدد ضروریات اور بہت سے وسائل کی ضرورت پڑتی ہے ۔

____________________

١۔ محجة البیضاء جلد ٨ صفحہ ١۰٤۔

٢۔ بحار الانوار جلد ٧۰ صفحہ ٢۰٦.

٣۔ وسائل جلد ١ صفحہ ٣٥.

٤۔ محجة البیضاء جلد ٤ صفحہ ٣٧٤.

۷۷

علم حدیث میں کچھ روایتیں ''روایات مَن بلغ ۔۔۔ '' کے نام سے مشہورہیں ۔ اس قسم کی روایتیں کہتی ہیں کہ اگر کسی نے یہ روایت سنی کہ فلاں کام میں ثواب ہے اور اس شخص نے اس کام کو انجام دیا تو پروردگار اس کو اس کام کا اجر دے گا چاہے وہ روایت صحیح نہ ہو ، اس لئے کہ اس نے اس حدیث پرجو عمل کیا ہے اسے اس نے حسن نیت سے انجام دیا ہے۔

نیت کے درجات

١) کبھی خدا کے غضب کا ڈر اور کبھی اس کے لطف و کرم کی لالچ انسان کو عمل کرنے کے لئے آگے بڑھاتی ہے ، جیسا کہ اس بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے :

(اُدعوه خوفا ً و طمعا ً )(١)

خدا کو ہر حال میں یاد کرو چاہے وہ ڈر کا موقع ہو اور چاہے امید کا اور دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے :

(یدعوننا رغبا و رهبا )(٢)

ہم کو امید یا خوف کی حالت میں یاد کرتے ہیں ۔

٢) اس سے بالاتر مرحلہ وہ ہے کہ انسان اسکے الطاف کا شکریہ ادا کرنے کے لئے کام کرے چاہے اللہ کی طرف سے اس کام میں ثواب یا عذاب نہ ہو ۔ جیسے حضرت علی فرماتے ہیں :

'' لو لم یتوعد الله علی معصیته لکان یجب الا یعصیٰ شکرا لنعمته '' (٣)

اگر پروردگار نے گناہوں پر عذاب کی دھمکی نہ دی ہوتی تب بھی انسان پر ضروری تھا کہ اس کی نعمتوں کے شکر کی وجہ سے اس کی نافرمانی نہ کرے ۔

____________________

١۔ اعراف ٥٦.

٢۔ انبیاء ٩۰.

٣۔ نہج البلاغہ حکمت ٢٩۰.

۷۸

٣) ان سب سے بلند مرحلہ، خدا کی قربت ہے کہ انسان جنت کی امید اور دوزخ کے ڈر کے بغیر خدا کی عبادت کرے ۔ اس لئے کہ صرف خدا کو عبادت و بندگی کے لائق سمجھتا ہے ۔

٤) اس سے بڑا مرحلہ یہ ہے کہ خدا کا عشق انسان کو ہر کام پر آمادہ کردے ۔ جیسے حضرت علی لقائے الٰہی اور موت سے اپنے عشق کو ایک شیر خوار بچے کی اپنی ماں کے پستان سے رغبت سے زیادہ سمجھتے ہیں ۔(١)

حضرت قاسم بن امام حسن مجتبیٰ ـ کربلا میں فرماتے ہیں :

''میرے لئے خدا کی راہ میں موت شہد سے زیادہ شیرین ہے ۔ ''

سزا کے مسائل میں نیت کا اثر

اسلام نے سزا کے مسئلوں میں بھی قصد و نیت کا حساب و کتاب الگ رکھا ہے ۔ اس سلسلے میں دو مثالوں کی طرف اشارہ کریں گے :

١) مسئلہ قتل : اگر کوئی شخص عمداً و قصداً کسی کو قتل کر دے اس کا حساب اس شخص سے جدا ہے جو بغیر قصد کے کسی قتل کا سبب بنے ۔اور ان دونوں کا حکم بھی ایک دوسرے سے الگ ہے ۔(٢)

٢) قرآن مجید قسم کے بارے میں فرماتا ہے :

(لا یؤاخذکم الله با للغو ف ایمانکم )(٣)

خدا تمہاری لغو اور غیر ارادی قَسموں کا مواخذہ نہیں کرتا ۔

لہٰذا اگر کوئی قسم کھائے اوراس نے اس کا قصد و ارادہ نہ کیا تو ایسی قسم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ٥.

٢۔ نساء ٩٢.

٣۔ بقرہ ٢٢٥.

۷۹

معرفت ؛ قصد قربت کا پیش خیمہ ہے

قصدِ قربت اور پاک نیت تک پہنچنے کا بہترین راستہ معرفت اور پہچان ہے ۔

اگرہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگوں کے نزدیک محبوبیت حاصل کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے ۔(١)

اگرہمیں یہ معلوم ہوکہ عزت و قدرت صرف اسی کے ہاتھ میں ہے ۔(٢)

اگرہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمارا فائدہ و نقصان کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔(٣)

اگر ہمیں معلوم ہو کہ خدا کے لئے عمل بجا لانے سے کبھی دو گنا ، کبھی دس گنااور کبھی ستّر گنا اجر و ثواب ملتا ہے تو اس کے غیر کے لئے کوئی کام نہ کریں گے ۔

اگرہمیں یہ معلوم ہو کہ معاشرے میں اونچے مقام پر پہونچ جانے میں کوئی عظمت نہیں ، اس لئے کہ کالا دھواں بھی اونچائی کی طرف جاتا ہے ۔

اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگوں کی نظرا ور توجہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ، اس لئے کہ ایک ہاتھی سڑک پر چلتا ہے تو اس کو بھی سب دیکھتے ہیں ۔

اگر ریاکاری کے خطرات ا ور رسوائی پر توجہ رکھیں ۔

اگرہمیں یہ معلوم ہو کہ ایک ایسا بھی دن آئے گا جب کوئی ایک دوسرے کی فریاد کو نہیں پہنچے گا صرف وہ لوگ نجات پائیں گے جو قلب سلیم رکھتے ہوں گے ۔(٤)

اگر ہمیںیہ معلوم ہوکہ ہم اپنی غلط نیت سے کتنے قیمتی اقدار اور امور کو کھو بیٹھتے ہیں تو اپنے آپ کو قصد قربت اور خالص نیت کے ساتھ عمل کرنے پر آمادہ کریں گے ۔

____________________

١۔ ابراہیم ٣٧. ٢۔ بقرہ١٦٥.

٣۔ مناجات شعبانیہ

٤۔ شعراء ٨٩

۸۰