نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر0%

نماز کی تفسیر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 179

نماز کی تفسیر

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محسن قرائتی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 66469
ڈاؤنلوڈ: 2548

تبصرے:

نماز کی تفسیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 66469 / ڈاؤنلوڈ: 2548
سائز سائز سائز
نماز کی تفسیر

نماز کی تفسیر

مؤلف:
اردو

غلط نیت کے اثرات

نیت کی بحث کے خاتمہ پر اس کی آفتوں کے بارے میں بھی اشارہ کرتے چلیں جیسا کہ سالم نیت کی برکتوں کے بارے میں بھی اشارہ کر چکے ہیں ۔

١) دعا کا قبول نہ ہونا : امام سجاد ـ فرماتے ہیں : بری نیت دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے۔(١)

اگرنیت خدا کے لئے نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ وہ اس کام کو الٰہی رنگ و عبادت سے دور کرتی ہے بلکہ اگر نیت خراب ہو تو وہ انسان کو خطروں سے بھی دو چار کرتی ہے ۔ امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص قرض لے اور اس کا مقصد یہ ہو کہ اس کو ادا نہیں کرے گاتو وہ چور کے برابر ہے۔(٢)

اسی طرح اگر کوئی شادی کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ مہر نہ دے گاتو خدا کے نزدیک وہ زنا کرنے والے کے برابر ہے ۔(٣)

٢) رزق سے محرومیت : امام صادق ـ ارشاد فرماتے ہیں : اگر مومن گناہ کی نیت کرے توپروردگار اس کو رزق سے محروم کردیتا ہے ۔

اس حدیث کی حقیقی مثال ایک باغ کا قصہ ہے جو قرآن میں آیا ہے ۔ قرآن میں سورہ قلم آیت ١٦ سے ٣۰ تک کچھ لوگوں کا واقعہ ہے جن لوگوں کے پاس ایک باغ تھا انہوں نے ارادہ کیا کہ اس کے پھل چننے کے لئے رات میں جائیں تاکہ فقیروں کو خبر نہ ہو اور ان کو کچھ نہ دینا پڑے ۔ سحر کے

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٧۰ صفحہ ٣٧٥۔

٢۔ وسائل جلد ١٢ صفحہ ٨٦۔

٣۔ وسائل جلد ١٥ صفحہ ٢٢۔

۸۱

وقت جب وہ باغ میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ جل کر راکھ ہوچکا ہے ۔ پہلے ان لوگوں نے یہ خیال کیا کہ شاید وہ راستہ بھٹک گئے ہیں ۔ لیکن ان میں سے ایک شخص جو دوسروں کی نسبت زیادہ عقل مند تھا اس نے کہا : کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ایسی نیت نہ کرو ۔ تم لوگوں نے فقیروں کو اس سے محروم کرنے کی نیت کی تو خدا نے تم کو ہی اس سے محروم کر دیا ۔ قرآن کریم کے اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی خدا ،نیت کی بنیاد پر ہم لوگوں کو سزا دیتا ہے(١)

اگرچہ یہ بات ایک کلی قاعدہ نہیں ہے ۔

٣) بری نیت شقاوت کا سبب بنتی ہے ۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں :

''مِن الشقاء فساد النیة ''(٢)

بری نیت سنگدلی کی علامت ہے ۔

٤) زندگی میں برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ حضرت علی ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :

''عند فساد النیة ترتفع البرکة ''(٣)

جس کی نیت سالم نہیں ہوتی خدا اس سے برکت چھین لیتا ہے اور وہ خدا کی نعمتوں سے اچھی طرح فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔

کہا جاتا ہے کہ کسی سے کہا گیا کہ تمہارے فلاں اچھے کام کی بنا پر تمہاری تین دعائیں قبول ہوں گی ۔ وہ شخص خوش ہوگیا اس نے کہا خدایا ہماری بیوی کو دنیا کی خوبصورت ترین عورت بنادے ۔ اس کی بیوی حَسین ہوگئی ۔ لیکن اس سے اس کی زندگی تلخ ہوگئی ۔ اس لئے کہ اس نے دیکھا کہ سارے لوگ اس کی بیوی پرفریفتہ ہوگئے ہیں ۔ اس نے اپنی دوسری دعا سے فائدہ اٹھایا اور کہا کہ خدایا میری بیوی کو بدصورت ترین عورت کر دے ۔ اس کی دعا قبول ہوگئی ۔ لیکن ایسی عورت کے ساتھ زندگی گذارنا مشکل تھا ۔ لہٰذا اس نے اپنی تیسری دعا سے کام چلایا اور کہا خدایا میری بیوی کو پہلے کی طرح کر دے۔ دعا قبول ہوگئی ۔ اس کی بیوی اپنی پہلی حالت پر پلٹ گئی ۔ اس نے اپنی تینوں دعاؤں کو استعمال کر ڈالا لیکن نتیجہ میں کچھ ہاتھ نہ لگا ۔ یہ ہے برکت کے اٹھ جانے کا مطلب کہ انسان وسائل ہوتے ہوئے بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔

____________________

١۔ ایک شخص نے مجھ سے کہا ، میں نے ایک جنگی مجروح کو دیکھا جو ویل چئر wheel chair پر بیٹھا ہوا تھا ۔میں اسکے نزدیک گیا ۔ اسکا ماتھا چوما ۔ وہ میرے عطر کی خوشبو کو سمجھ گیا اور مجھ سے کہا '' عطر کی شیشی ہم کو دیدو '' میں نے کہا : '' میں تمہارے لئے عطر خرید کر لاؤں گا یہ شیشی میرے لئے رہنے دو ۔ بہرحال عطر کی شیشی اس کو نہیں دی ۔ اس سے رخصت ہوا ۔ تھوڑی دیر بعد استنجاء کرنے گیا ۔ وہ عطر کی شیشی لیٹرین کے اندر گر گئی ۔ یکبارگی متوجہ ہوا کہ یہ سزا اس کنجوسی کی وجہ سے ملی ہے اسی جگہ پر اپنے اوپر رونے لگا ۔جی ہاں قیامت کے دن یہ پشیمانی و حسرت ہوگی کہ خدا کے لئے کیوں نہ کوئی کام انجام دیا !

٢۔ غرر الحکم حدیث نمبر ١٦١۰.٣۔ غرر الحکم حدیث نمبر ١٦١٥.

۸۲

تیسرا باب

تکبیرة الاحرام

اللہ اکبر

حجاج کرام کے اوپر سب سے پہلا واجب '' لبیک'' کہنا ہے ۔ اس کلمہ کو اپنی زبان سے ادا کرکے وہ اعمال حج میں داخل ہوتے ہیں اور کچھ چیزیں ان پر حرام ہو جاتی ہیں ۔

نماز بھی '' اللہ اکبر '' کہنے سے شروع ہوتی ہے اور نماز پڑھنے والے پر بھی کچھ چیزیں تکبیر کہتے ہی حرام ہو جاتی ہیں ۔ جیسے کھانا ، پینا ، گفتگو کرنا ، اسی لئے نماز کی پہلی تکبیر کو تکبیرة الاحرام کہتے ہیں ۔حاجی حضرات پورے راستہ ہر بلندی یا پستی پر پہونچتے وقت اورہر نشیب و فراز پر '' لبیک '' کی تکرار کرتے ہیں اور یہ تکرار مستحب ہے۔ نماز پڑھنے والے کے لئے بھی اٹھتے بیٹھتے یا جھکتے وقت مستحب ہے کہ ''اللہ اکبر '' کی تکرار کرے ۔ اللہ اکبر صبح کا سب سے پہلا واجب کلمہ ہے ۔

تکبیر سب سے پہلا کلمہ ہے جس کو ہر مسلمان بچہ پیدا ہوتے ہی اذان و اقامت کے عنوان سے سنتا ہے اور یہ آخری کلمہ ہے جو مسلمان کی میت پر نماز میت میں پڑھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اسے قبر میں لٹایا جاتا ہے ۔

صرف یہ ایک ایسا ذکر ہے جو نماز میں واجب بھی ہے اور نماز کا رکن بھی ہے ۔

یہ مسلمانوں کے ترانے یعنی اذان کا سب سے پہلا جملہ ہے ۔

یہ ایک ایسا ذکر ہے جو نماز سے پہلے اور نماز کے دوران اور تعقیبات میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے ۔ اس طرح کہ ایک مسلمان ایک دن میں صرف پانچ وقت کی ( واجب ) نمازوں میں تقریبا ً ٣٦۰ مرتبہ اس کی تکرار کرتا ہے ۔

جس کی تفصیل یہ ہے :

١) پانچ وقت کی نمازوں کے لئے پانچ مرتبہ اذان کہے اور ہر اذان میں ٦ مرتبہ '' اللہ اکبر '' کہے ( کل ٣۰ مرتبہ )

٢) پانچ وقت کی نمازوں کو اقامت سے شروع کرے اور ہر اقامت میں ٤ مرتبہ '' اللہ اکبر '' کہا جاتا ہے ( کل ٢۰ مرتبہ )

٣ )پانچ وقت کی ہر نماز میں تکبیرة الاحرام سے پہلے چھ تکبیریں مستحب ہیں اور ساتویں تکبیر وہی تکبیرة الاحرام ہے جو واجب ہے ( کل ٣۰ مرتبہ )

۸۳

٤) نماز کے شروع میں تکبیرة الاحرام کے طور پر پانچ نمازوں کی٥ تکبیریں ۔

٥) ١٧ رکعتوں میں ہر رکوع سے پہلے ایک تکبیر ( کل ١٧ تکبیریں )

٦) ١٧ رکعتوںمیں ہر رکعت میں دو سجدہ ہیں ہر سجدے میں دو تکبیریں ہیں ۔ ایک سجدہ سے پہلے اور ایک سجدہ کے بعد (کل ٦٨ تکبیریں )

٧) ہر نماز میں ایک قنوت ہے ہر قنوت سے پہلے ایک تکبیر مستحب ہے ( کل ٥ تکبیریں)

٨) ہر نماز پنجگانہ کے آخر میں ٣ تکبیریں مستحب ہیں ۔ ( کل ١٥ تکبیریں )

٩) ہر نماز کے بعد تسبیح حضرت زہرا کے عنوان سے ٣٤ مرتبہ تکبیر کہتے ہیں ۔ (کل ١٧۰ تکبیریں )

لیکن افسوس ہے کہ ہم نے پوری زندگی میں ایک بار بھی توجہ کے ساتھ '' اللہ اکبر '' نہیں کہا۔

اگر انسان مکمل ایمان اور پوری توجہ کے ساتھ ہر روز ٣٦۰ مرتبہ سے زیادہ کہے کہ : اللہ سب سے بڑا ہے ۔تو پھر اس کے بعد دنیا کی کسی قدرت ، سپر پاور اور سازش سے نہیں ڈرے گا۔

۸۴

دوسری نمازوں میں تکبیر

عید فطر و عید قربان کی صرف نماز ہی میں نہیںبلکہ ان نمازوں سے پہلے اور نمازوں کے بعد بھی تمام دعاؤںمیں تکبیریں ہیں ۔

نماز آیات میں ٥ رکوع ہیں اور ہر رکوع کے لئے تکبیر وارد ہوئی ہے ۔ نماز میت میںتو ٥ تکبیریں رکن نماز ہیں ۔

نماز میں کس طرح سے تکبیر کہیں ؟

اسلام نے ہر کام کے لئے کچھ آداب اور اصول بیان کئے ہیں ۔ '' اللہ اکبر'' کہتے وقت بھی کچھ آداب کی رعایت ہونی چاہئے ۔ ان میں سے بعض یہ ہیں :

١) نماز میں تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھ کان تک بلند کریں ، اس طرح سے کہ ہاتھ جب کان تک پہنچیں تو تکبیر ختم ہو جانی چاہئے ۔ امام رضا ـ نے فرمایا : ہاتھوں کی حرکت؛ حضور قلب اور خدا کی طرف توجہ میں اثر انداز ہوتی ہے ۔(١)

٢ ) ہاتھ کی انگلیاں تکبیر کے وقت آپس میں چپکی ہوئی ہوں اور اوپر کی طرف اٹھیں ۔

٣) ہاتھوں کی ہتھیلیاں قبلہ کی طرف ہوں ۔

روایتوں میں تکبیر کے وقت ہاتھوں کو بلند کرنے کو نماز کی زینت کہا گیا ہے ۔(٢)

تکبیر کے معانی

اللہ اکبر : یعنی خدا تمام حسی ، ذہنی ، ملکی اور ملکوتی موجودات سے بڑا ہے ۔

اللہ اکبر : یعنی خدا اس سے بزرگ وبرتر ہے کہ کوئی اسکی تعریف کرسکے ۔

____________________

١۔ وسائل جلد ٤ صفحہ ٧٢٧.

٢۔ بحار جلد ٨٤ صفحہ٣٥١.

۸۵

ای برتر از خیال و قیاس و گمان و وھم

و زھر چہ گفتہ ایم و شنیدیم و خواندہ ایم

مجلس تمام گشت و بہ پایان رسید عمر

ما ھمچنان در اول وصف تو ماندہ ایم

یعنی خدا ہر خیال و قیاس اور گمان سے بڑا ہے ۔نیز ہم نے جو بھی کہا ، سنا اور پڑھا ،وہ ان سب سے بھی بڑا ہے،مجلس ختم ہوگئی اور عمر بھی آخر کو پہنچی لیکن خدا کی تعریف کی ابھی شروعات ہی ہے۔

امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ جس وقت تکبیر کہو ،تو خدا کے علاوہ تمام چیزیں تمہاری نظر میں چھوٹی ہوجانی چاہئیں ۔(١) ایسا نہ ہو کہ انسان منہ سے تکبیر کہے اور دل کسی اور سے لگا ہو۔ ایسا کرنے والا جھوٹا اور بہانے باز ہے اسی وجہ سے خدا اپنے ذکر کی لذت اس سے چھین لیتا ہے ۔

تکبیر ، اسلامی تمدن میں

نہ فقط نماز بلکہ بہت سارے حساس مقامات پر اللہ اکبر کہنا وارد ہوا ہے ۔ لہذا صدر اسلام میں مسلمان ہر سختی اور خوشی کے موقعہ پر تکبیر کہتے تھے ۔ ہم ان میں سے چند واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

١) جنگ خندق میں ، خندق کھودتے وقت مسلمانوں کے سامنے ایک مضبوط پتھر آیا جس کدال ( گینتی) سے پتھر توڑ رہے تھے وہ خود ٹوٹ گیا لیکن پتھر نہیں ٹوٹا، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے۔ آپ نے ایک ہی مرتبہ میں پتھر کو توڑ دیا ۔ مسلمانوں نے ایک ساتھ تکبیر کہی اور اس جگہ پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا کہ : میں نے اس پتھر سے اٹھنے والی چنگاریوں میں روم و ایران کے قلعوں کو

____________________

١۔ سر الصلاة صفحہ ٢٨.

۸۶

گرتے ہوئے دیکھا ہے۔(١)

٢) جنگ صفین میں حضرت علی ـ جب کسی کو قتل کرتے تھے تو تکبیر کہتے تھے ۔ مسلمان آپ کی تکبیروں کوگن کر پتہ لگاتے تھے کہ آپ نے کتنے دشمنوں کو قتل کیا ہے ۔(٢)

٣) جس رات حضرت فاطمہ زہرا کو حضرت علی بن ابی طالب ـ کے گھر لے جا رہے تھے تو تکبیر کہتے ہوئے ستر ہزارفرشتے زمین پر نازل ہوئے ۔(٣)

٤) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب فاطمہ بنت اسد کے جنازے پر چالیس تکبیریں(٤) اور اپنے چچا حضرت حمزہ کے جنازے پر ستر تکبیریں کہیں۔(٥)

٥) حج کے اعمال میں مستحب ہے کہ شیطان کو کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری پھینکتے ہوئے تکبیر کہی جائے ۔(٦)

٦) حضرت زہرا کی تسبیح میں ، جس کا ثواب ہزار رکعت مستحبی نماز وںکے برابر ہے ، ٣٤ مرتبہ تکبیر آئی ہے ۔(٧)

٧) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب پیدا ہوئے تو سب سے پہلا کلمہ جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک پر آیا وہ اللہ اکبر تھا ۔(٨)

٨) جس روز مسلمانوں کے ہاتھوں مکہ فتح ہوا ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں داخل ہوئے ، حجر اسود کی طرف اشارہ کیا اور تکبیر کہی ،آپ کے ہمراہ مسلمانوں نے بھی بلند آواز میں ایسی تکبیر کہی کہ مشرکین کے دل دہل گئے ۔(٩)

____________________

١۔ بحار جلد ٢۰ صفحہ ١٩.

٢۔ بحار جلد ٣٢ صفحہ ٦۰.

٣۔ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ١۰٤.

٤۔ بحار جلد ٣٥ صفحہ ٧۰.

٥۔ بحار الانوار جلد ٢۰ صفحہ ٦٣.

٦۔ بحار الانوار جلد ١١ صفحہ ١٦٨.

٧۔ بحار الانوار جلد ١٥ صفحہ ٢٦٨.

٨۔ بحار الانوار جلد ١٥ صفحہ ٢٧٣.

٩۔ تفسیر نمونہ جلد ٢٧ صفحہ ٤۰٧

۸۷

٩) روایتوں میں ہے کہ جس وقت کوئی تعجب آور چیز دکھائی دے تو تکبیر کہو(١)

١۰ ) جنگ اُحد میں کفار کی فوج کے ایک پہلوان نے اپنا مدّ مقابل چاہا ۔ حضرت علی ـ آگے بڑھے اوراسے ایسی ضربت ماری کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام مسلمانوں نے بلند آواز میں تکبیر کہی۔(٢)

١١) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ سے فرمایا : ہر وقت چاند یا آئینہ دیکھو یا کوئی مشکل پیش آئے تو تین مرتبہ تکبیر کہو ۔(٣)

١٢) امام سجاد ـ کے بیٹے جناب زید نے بنی امیہ کی حکومت کے خلاف قیام کیا تو ان کا نعرہ ہی اللہ اکبر تھا ۔(٤)

١٣) جنگ بدر میں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن کے سرداروں میں سے نوفل نام کے ایک سردار کی ہلاکت کے انتظار میں تھے، اتنے میں خبر پہنچی کہ حضرت علی ـ نے اس کو قتل کر دیا ۔ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تکبیر کہی ۔(٥)

١٤) جس وقت حضرت علی ـ حضرت زہرا سے شادی کے سلسلے میں تشریف لائے تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ٹھہرو ہم اپنی بیٹی فاطمہ کے سامنے اس مسئلہ کو رکھیں۔ لیکن حضرت زہرا خاموش رہیںاور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ نہ کہا ۔تو پیغمبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ''اللہ اکبر سکوتھا اقرارھا ''(٦)

١٥) خوارج سے جنگ میں جب ان کا سپہ سالار ہلاک ہوا تو حضرت علی ـ نے تکبیر کہی

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٩٢ صفحہ ١٢٧.

٢۔ بحار الانوار جلد ٢۰ صفحہ ١٢٦.

٣۔ بحار الانوار جلد ٩٢ صفحہ ١٢٧.

٤۔ کتاب زید بن علی ـ صفحہ ١٨٦.

٥۔ بحار الانوار جلد ١٩ صفحہ ٢٨١.

٦۔ بحار جلد ٤٣ صفحہ ٩٣.

۸۸

اور سجدہ کیا اور تمام لوگوں نے تکبیر کہی ۔(١)

١٦) یہودیوں کا ایک گروہ مسلمان ہوا ۔ ان لوگوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ سابقہ انبیائ کے جانشین تھے آپ کا وصی کون ہے ؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی '' ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں '' ۔(٢)

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ مسجد کی طرف چلیں ۔ جس وقت آپ مسجد میں داخل ہوئے ، توآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ ایک فقیر ہے جو خوشحال ہے اور حضرت علی ـ نے رکوع کی حالت میں اس کو انگوٹھی دی ہے ۔ اس وقت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تکبیر کہی ۔(٣)

١٧) ائمہ ٪ کے روضہ میں داخل ہوتے وقت تکبیر کہنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ چنانچہ ہم زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے تین مرحلوں میں ١۰۰ مرتبہ تکبیر پڑھتے ہیں ۔ مرحوم مجلسی کے بقول ان تکبیروں کے پڑھنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ائمہ ٪ کے سلسلے میں زیارت جامعہ کے جملوں سے تم غلو میں نہ پڑ جاؤ ۔(٤)

١٨) حضرت علی ـ اپنے فیصلوں میں جب مجرم کا پتہ لگا لیتے تھے تو تکبیر کہتے تھے ۔(٥)

١٩) میثم تمار جو حضرت علی ـ کی محبت میں ابن زیاد کے حکم سے سولی پر چڑھائے گئے اور نیزے سے ان پر حملہ کیا گیا، شہادت کے وقت جناب میثم کے منہ سے خون نکل رہا تھا اوروہ تکبیر کہہ رہے تھے ۔(٦)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٤١ صفحہ ٣٤١.

٢۔ مائدہ ٥٥.

٣۔ بحار الانوار جلد ٣٥ صفحہ ١٨٣.

٤ بحار الانوار جلد ١٦ صفحہ ٩٩

٥۔ بحار الانوار جلد ٤۰ صفحہ ٢٦۰

٦۔ بحار الانوار جلد ٤٢ صفحہ ١٢٥.

۸۹

٢۰) شب ِ معراج پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر آسمان سے گزرتے وقت تکبیر کہہ رہے تھے۔(١)

٢١) حضرت جبرئیل رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس تھے ، حضرت علی ـ داخل ہوئے۔ جبرئیل نے کہا : اے محمد ! اس خدا کی قسم جس نے آپ کو پیغمبری کے لئے منتخب کیا ، علی ـ کو آسمانوں کے لوگ زمین کے لوگوں سے زیادہ پہچانتے ہیں ۔ جس وقت علی ـ جنگوں میں تکبیر کہتے ہیں ہم فرشتے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہتے ہیں ۔(٢)

٢٢) جنگ خیبر میں جس وقت مسلمان قلعہ کے اندر داخل ہوئے ،تو وہ ایسی تکبیر یںکہہ رہے تھے کہ یہودی بھاگ کھڑے ہوئے ۔(٣)

____________________

١۔ بحار الانوار جلد ٨٦ صفحہ ٢۰٧.

٢۔ بحار الانوار جلد ٣٩ صفحہ ٩٨.

٣۔ پیامبری و حکومت صفحہ ١٤٦.

۹۰

چوتھا باب

سورئہ حمد

تکبیرة الاحرام کہنے کے بعد سورئہ حمد پڑھنا ضروری ہے اور اگر نماز میں یہ سورہ نہ پڑھا جائے تو نماز باطل ہے '' لا صلاة الا بفاتحة الکتاب ''(١)

اس سورہ کا دوسرا نام فاتحة الکتاب ہے اس لئے کہ قرآن کریم اسی سورہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس سورہ میں سات آیتیں ہیں ۔(٢) جابر بن عبد اللہ انصاری کی روایت کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے: قرآن کے سوروں میں سب سے بہترین سورہ ،سورۂ حمد ہے۔(٣)

صرف سورئہ حمد ایک ایسا سورہ ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ہر روز کم از کم دس مرتبہ اپنی پنجگانہ نمازوں میں اس کو پڑھے ۔ اس سورہ کی اہمیت میں اتنا کافی ہے کہ روایتوں میں آیا ہے اگر سترّ مرتبہ اس کو مردہ پر پڑھو اور وہ زندہ ہو جائے تو تعجب نہ کرنا ۔(٤)

اس سورہ کا نام فاتحة الکتاب رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں تمام آیتوں کو جمع کر کے کتاب کی شکل دی گئی ہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے اس سورہ کو کتاب کے شروع میں رکھا گیا ہے ۔ سورۂ مبارکۂ حمد کی آیتیں ، خدا اور اس کے صفات ، قیامت ، راہ حق پر چلنے کی درخواست ؛ خدا وند عالم کی حاکمیت و ربوبیت کے قبول کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ اسی طرح ہم اس سورہ میں اولیائے خدا کے راستے پر چلنے کا شوق ، اور گمراہوں نیز جن پر غضب الٰہی

____________________

١۔ مستدرک الوسائل حدیث ٤٣٦٥. ٢۔ سات کا عدد : آسمان سات ہیں ، ہفتہ کے دن سات ہیں ، اسی طرح طواف، صفا اور مروہ کے درمیان سعی (کے چکر)،نیز شیطان کو جو کنکریاں ماری جاتی ہیں ان سب کی تعدادسات ہے۔

٣۔ تفسیر کنز الدقائق

٤۔ بحار الانوار جلد ٩٢ صفحہ ٢٥٧.

۹۱

نازل ہوا ان سب سے نفرت و بیزاری کو ظاہر کرتے ہیں ۔

سورئہ حمد شفاء کا ذریعہ ہے ، جسمانی درد کی بھی شفاء اور روحانی بیماریوں کی بھی شفائ۔ مرحوم علامہ امینی نے اس موضوع پراپنی کتاب '' تفسیر فاتحة الکتاب '' میں کافی روایتیں نقل کی ہیں ۔

سورئہ حمد میں تربیت کے سبق

١) انسان سورئہ حمد میں( بسم الله ) کہنے کے بعد غیر خدا سے امید ختم کر دیتا ہے ۔

٢) ( ربّ العالمین)و (مالک یوم الدین) کہنے والا ،خداکا بندہ اور مملوک و مربوب ہونے کا احساس کرتا ہے ۔

٣) انسان کلمۂ (ربّ العالمین ) سے اپنے اور عالم ہستی کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے ۔

٤) (الرحمن الرحیم ) سے اپنے کو اس کے وسیع لطف کے سایہ میں دیکھتا ہے ۔

٥) (مالک یوم الدین ) سے قیامت سے غافل نہیں رہتا ہے ۔

٦) (ایاک نعبد ) سے خود خواہی و شہرت طلبی سے دور ہو جاتا ہے ۔

٧) (ایاک نستعین ) سے خدا کے علاوہ دوسروں سے مدد حاصل کرنے کی فکرمیں نہیں پڑتا ۔

٨) (انعمت علیهم ) کے بعد یہ سمجھ جاتا ہے کہ نعمتوں کی تقسیم اس کے ہاتھ میں ہے لہذا حسد سے الگ رہناچاہیئے کہ حسد کرنے والا خدا کی روزی کی تقسیم پر راضی نہیں ہے ۔

٩) انسان (اهدنا الصراط المستقیم ) کہہ کر راہِ حق پر چلنے کی درخواست کرتا ہے۔

١۰) انسان (صراط الذین انعمت علیهم ) کے ذریعہ خدا کے پیروکاروں سے دلبستگی اور ہم دلی کا اعلان کرتا ہے ۔

١١ ) اور آخر میں (غیر المغضوب علیهم و لا الضآلین ) سے باطل او راہل باطل سے نفرت و بیزاری کرتا ہے ۔

۹۲

بسم الله الرحمن الرحیم

مختلف قوموں اور لوگوں کے درمیان یہ رسم ہے کہ لوگ اپنے اہم کاموں کو اپنے ان بزرگوں کے نام سے شروع کرتے ہیں ، جن کا وہ احترام کرتے ہیں اور ان سے رغبت رکھتے ہیں ، تاکہ وہ کام مبارک و با برکت ہو جائے اور بخوبی انجام تک پہنچے ۔

البتہ ہر شخص اپنے صحیح یا غلط عقیدہ کے تحت عمل کرتا ہے ۔ بعض لوگ بت یا طاغوت کے نام سے اور بعض لوگ خدا کے نام سے اور اولیائے خدا کے ہاتھوں سے اپنے کام کو شروع کرتے ہیں ۔ جیسا کہ آج کل رسم ہوگئی ہے کہ اہم عمارت کی بنیاد کے لئے پہلا پھاؤڑا کوئی اہم شخص مارتا ہے(۱) ۔ جنگ خندق میں خندق کو کھودنے کے لئے سب سے پہلا پھاؤڑا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زمین پر مارا تھا ۔

بسم اللہ :سے اللہ کی کتاب کا آغاز ہوتا ہے ۔

بسم اللہ : صرف قرآن کریم کے شروع میں ہی نہیں بلکہ تمام آسمانی کتابوں کے شروع میں تھا۔

بسم اللہ : تمام انبیاء کے اعمال کی شروعات ہے ۔ جس وقت جناب نوح ـ کی کشتی طوفان کی موجوں کے درمیان چلی تو حضرت نوح نے اپنے ساتھیوں سے کہا سوار ہو جاؤ (بسم الله مجریٰها و مرسیٰها )(٢) کشتی کا چلنا اور رکنا خدا کے نام سے ہے ۔

____________________

١۔ یہ ایران کی رسم ہے جبکہ ہمارے یہاں اس کے بجائے عمارت کا سنگ بنیاد رکھوایا جاتا ہے.(مترجم)

٢۔ ہود٤١.

۹۳

حضرت سلیمان ـ نے جب ملکہ ٔسبا کو خدا کی طرف دعوت دی تو اپنے خط کو (بسم اللہ الرحمن الرحیم ) کے جملہ سے شروع کیا ۔

حضرت علی ـ نے فرمایا کہ ( بسم اللہ ) برکت کی بنیاد ہے ۔ اگر اس کو نہ کہا جائے تو کام کی عاقبت بخیر نہیں ہوتی ۔(١)

اسی طرح ایک شخص ( بسم اللہ ) لکھ رہا تھا آپ نے فرمایا '' جودّھا '' اس کو خوبصورت طریقہ سے لکھو ۔(٢)

ہر کام شروع کرنے سے پہلے ( بسم اللہ ) کہنے کی تاکید کی گئی ہے ۔جیسے کھانا، سونا ، سواری پر سوار ہونا ، نکاح و ہمبستری اور اس کے علاوہ دوسرے تمام کام حتی اگر جانور کو بغیر ( بسم اللہ) کے ذبح کیا جائے تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے ۔ یہ اس بات کا راز ہے کہ توحید پرست انسان کی خوراک الٰہی مقصد رکھتی ہو ۔

کیوں ہر کام کو ( بسم اللہ ) سے شروع کریں ؟

جس طرح سے ایک کارخانہ کی بنی ہوئی چیزوں پر اس کی ایک مخصوص علامت '' ٹریڈ مارک'' ہوتی ہے مثلاً چینی کے برتن بنانے والا کارخانہ تمام برتنوں پر اپنا نشان لگاتا ہے ،چاہے چھوٹے برتن ہوں یا بڑے یا ہر ملک اپنا مخصوص جھنڈا رکھتا ہے جو گورنمنٹ کی عمارتوں، پولیس اسٹیشنوں اور فوجی مراکز پر لہراتا ہے ۔ یہ جھنڈا پانی کے جہاز پر بھی ہوتا ہے اور سرکاری میزوں پر بھی۔

اسی طرح خدا کا نام اور اس کی یاد بھی ہر مسلمان کی علامت ہے اور جملہ ٔ(بسم الله )

____________________

١۔ بحار جلد ٧٦ صفحہ ٣٨٥.

٢۔ کنز العمال حدیث ٢٩٥٥٨.

۹۴

مسلمان کی علامت اور پہچان ہے اور ہر کام چاہے وہ چھوٹاہویا بڑا، ہر جگہ چاہے وہ مسجد ہو یا فیکٹری ، ہر وقت چا ہے صبح ہو یا شام یہ مبارک کلام ہر مسلمان کی زبان پر جاری ہے ۔

اسی لئے ہم حدیث میں پڑھتے ہیں کہ ( بسم اللہ ) کو فراموش نہ کرو حتی ایک شعر لکھنے میں بھی اور جو شخص پہلی بار بچہ کو ( بسم اللہ ) سکھا تا ہے اس کے ثواب کے سلسلے میں بھی کافی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔(١)

کیا( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) سورئہ حمد کا جز اور ایک مستقل آیت ہے ؟ اگر چہ بعض لوگوں نے ( بسم اللہ ) کو سورہ کا جز نہیں سمجھا یا نماز میں اس کو ترک کیا ہے لیکن مسلمانوں نے ان پر اعتراض کیا جیسا کہ ایک روز معاویہ نے نماز میں ( بسم اللہ )کو نہیں پڑھا تو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور کہا '' اسرقت ام نسیت؟ '' تم نے آیت کی چوری کی ہے یا بھول گئے ہو؟(٢)

فخر رازی نے اپنی تفسیر میں ١٦ دلیلیں پیش کی ہیں کہ ( بسم اللہ ) سورئہ حمد کا جز ہے ۔ آلوسی بھی اپنی تفسیر میں یہی نظر یہ رکھتے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل اپنی مستدرک میں لکھتے ہیں کہ (بسم اللہ) سورئہ حمد کا جز ہے ۔

اہل بیت رسول اللہ جنکا دور اہل سنت کے فقہی اماموںسے سو سال پہلے شروع ہوا ہے، جو راہِ خدا میں شہید ہوگئے اور قرآن میں ان کی عصمت و طہارت کی تصریح ہوئی ہے ان کا نظریہ ،یہ ہے کہ جملہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم ) ایک مستقل آیت اور سورہ کا جز ہے ۔

ائمہ معصومین ٪ ہمیشہ یہ اصرار کرتے تھے کہ نماز میں ( بسم اللہ ) بلند آواز میں کہی جائے۔ امام محمد باقر ـ نے ان لوگوں کے بارے میں جو نماز میں ( بسم اللہ ) نہیں پڑھتے

____________________

١۔ تفسیر برہان جلد ١ صفحہ ٤٣.

٢۔ مستدرک حاکم جلد ٣ صفحہ ٢٣٣.

۹۵

تھے یا اسے سورہ کا جز نہیں سمجھتے تھے ارشاد فرمایا ''سرقوا اکرم آیة '' (١) انہوں نے قرآن کریم کی بہترین آیت کی چوری کی ہے۔

علامہ شہید مطہری نے سورئہ حمد کی تفسیر میں ابن عباس ، عاصم ، کسائی ، ابن عمر، ابن زبیر ، عطاء ، طاؤوس، فخر رازی اور سیوطی کے نام ان لوگوں کی فہرست میںذکرکئے ہیں جو ( بسم اللہ ) کو سورہ کا جز سمجھتے ہیں ۔ البتہ سورۂ برائت ( سورۂ توبہ ) کی ابتدا میں (بسم اللہ ) نہیں آئی ہے ۔

حضرت علی ـ کے ارشاد کے مطابق اس لئے نہیں آئی کہ (بسم اللہ ) امان و رحمت کا کلمہ ہے جومشرکین سے اعلان برائت میں مناسب نہیں ہے۔

بسم اللہ : رنگ الہی کی پہچان ہے اور ہمارے توحیدی انداز کا بیان ہے ۔

بسم اللہ :توحید کی علامت ہے اور دوسروں کا نا م کفر کی علامت ہے اور خدا کے نام کے ساتھ کسی اورکا نام بھی ہو تو یہ شرک کی علامت ہے ۔ نہ تو خدا کے نام کے ساتھ دوسرے کا نام پکارو اور نہ ہی خدا کے نام کے بجائے کسی دوسرے کا نام لو ۔ ( سبح اسم ربک ) کے یہی معنی ہیں کہ حتی خدا کا نام بھی ہر شرک سے پاک رہے ۔

بسم اللہ :بقاء و دوام کی علامت ہے جس میں خدا کا نام نہ پایا جائے وہ فنا ہونے والا ہے۔(٢)

بسم اللہ :خدا سے عشق اور اس پر توکل کا راز ہے ۔

بسم اللہ :تکبر سے دوری کی علامت ہے اور خدا کی بارگاہ میں عاجزی کا اظہار ہے ۔

بسم اللہ : اپنے کاموں کو خدا کے نام کے ذریعے محفوظ کرلینے کا راز ہے ۔

____________________

١۔ مسند احمد جلد ٣ صفحہ ١٧٧ ، و جلد ٤ صفحہ ٨٥.

٢۔ (کلّ شیئٍ هالک الاَّ وجهه ) قصص ٨٨.

۹۶

بسم اللہ :اپنے کاموں کو تقدس بخشنے کا راز ہے ۔

بسم اللہ :خدا کا ذکر اور اس کو ہمیشہ یاد کرنے کا راز ہے کہ خدایا ! ہم تجھے کسی بھی حال میں فراموش نہیں کریں گے ۔

بسم اللہ :انسان کے ہدف و مقصد کو بیان کرنے والی آیت ہے کہ پروردگارا ! تو ہی میرا مقصود ہے، میرا مقصد نہ لوگ ہیں ، نہ دنیا اور نہ ہوس ہے ۔

بسم اللہ :یعنی صرف اور صرف اسی سے مدد چاہتے ہیں نہ دوسروں سے ۔

بسم اللہ :یہ بیان کرتی ہے کہ سورہ کے مطالب و مفاہیم بارگاہ حق تعالیٰ ا ور مظہر رحمت سے نازل ہوئے ہیں ۔

لفظ اللہ

بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ اللہ '' الہٰ '' سے نکلا ہے اس کے معنی '' عبد '' ہیں اور اللہ یعنی وہ معبود واقعی اور وہ ہستیجو تمام کمالات کی حامل ہو لیکن بعض نے کہا ہے کہ لفظ اللہ '' وَلَہ '' سے نکلا ہے یعنی دل دے بیٹھنا ، عشق ، حیرت ۔ پس اس لحاظ سے اللہ! یعنی ایسی مقدسذات کہ جس کی جاذبیت نے سب کو متحیر اور اپنا فریفتہ کر لیا ہو ۔

اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ کلمہ '' خدا '' یا '' خداوند'' اللہ کا کامل ترجمہ نہیں ہے اس لئے کہ خدا اصل میں '' خود آی '' تھا جس کا استعمال فلسفہ میں واجب الوجود کی بحث میں کیا جاتا ہے اور کلمہ ''خداوند '' کے معنی'' صاحب ''ہے ۔ جیسا کہ ادبیاتِ فارسی میں کہتے ہیں '' خداوند خانہ '' یعنی صاحب خانہ۔

یہ بات واضح ہے کہ صاحب یا واجب الوجود '' اللہ '' کے کامل معنیٰ نہیں ہیں بلکہ '' اللہ '' یعنی ایک ایسی ذات جو عشق و عبادت کے لائق ہو اس لئے کہ اس میں سارے کمالات پائے جاتے ہیں۔

قرآن مجید میں خدا کے تقریبا ً سو نام آئے ہیں ان میں سے '' اللہ '' سب سے جامع ہے ۔ اصولی طور پر خدا کے سارے نام اس کی ایک صفت کی طرف اشارہ کرتے ہیں نہ یہ کہ وہ خدا کے لئے کوئی پہچان یاعلامت ہوں ۔

۹۷

جبکہ انسانوں کے نام مختلف قسم کے ہو تے ہیں بعض نام صرف پہچان کے طور پر ہیں جن میں اس لفظ کے معنیٰ پر نظر نہیں ہوتی اور نہ ہی نام کے معنیٰ اور اس شخص کے صفات میں کوئی مطابقت پائی جاتی ہے بلکہ کبھی نام ،صاحب نام کی صفات سے بالکل مختلف ہوتا ہے ، جیسے زیادہ جھوٹ بولنے والے شخص کا نام صادق ہو۔

لیکن اس کے برعکس کبھی نام اس فرد کی صفت بھی ہو تا ہے جو اس کے صفات و کمالات کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے سچے انسان کا نام صادق ہو۔

مثال کے طور پرکچھ نام صرف گھڑی کے الارم کی طرح ہیں جو وقت کے آنے کی پہچان ہیں۔ لیکن بعض نام مؤذن کی آواز کی طرح ہیں جو پہچان بھی ہے اور معنی دار بھی ۔

قرآن ارشاد فرماتا ہے :

(و لله الاسماء الحسنیٰ )

اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہیں ۔(١)

روایتوں میں خدا کے٩٩ نام آئے ہیں جن کو اسمائے حسنیٰ کہا جاتا ہے ۔روایتوں میں ہے کہ جو شخص بھی خدا کو ان ناموں سے پکارے گااس کی دعا قبول ہوگی ۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں ہم خدا

کو ایک ہزار اوصاف کے ساتھ پکارتے ہیں ۔

____________________

١۔ اعراف ١٨۰.

٢۔ تفسیر نمونہ جلد ٧ آیہ ٢٧.

۹۸

اللہ کے بعد دو کلموں ( رحمن) اور ( رحیم ) کا آنا اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنے کام کو لطف و رحمت الہی سے شروع کرے اور یہ جان لے کہ تمام امیدوں اور رحمت کا سرچشمہ خدائے تعالیٰ ہے ۔

اپنے کام کو رحمت کے الفاظ سے شروع کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کی سنت لطف اور رحمت ہے اور مناسب یہی ہے کہ انسان اس کی رحمت کے سرچشمہ سے مدد حاصل کرے ۔

رحمن ؛ خدا کا مخصوص نام ہے اس لئے کہ صرف اس کی رحمت وسیع و عریض او رہمیشہ رہنے والی ہے۔ دوسروں کے یہاں یا تو رحمت نہیں ہے یا اس میں وسعت نہیں ہے ۔اس کے علاوہ اگر کوئی کسی کو کوئی چیز دیتا ہے تو اس کے عوض دنیاوی یا اخروی جزا کا امیدوار ہوتا ہے ۔ جیسے ہم گا ئے کو اسی لئے گھاس دیتے ہیں تاکہ اس کا دودھ دوہیں ۔

لفظ '' الرحمن '' اور '' الرحیم '' کے سلسلہ میں (الرحمن الرحیم ) کی آیت کے ذیل میں مزیدگفتگو کریں گے ۔

۹۹

الحمد للہ

حمد ، مدح ، شکر کے کلمات ولو ظاہراً ایک ہی معنیٰ میں ہیں لیکن ہر ایک کا استعمال خاص جگہ پر ہوتا ہے ۔ جیسے لفظ مدح کے معنیٰ تعریف کے ہیں چاہے سچی تعریف ہو اور چاہے ناحق اور چاپلوسی کی وجہ سے تعریف ہو ۔ یہ تعریف چاہے کسی کے کمالات کی خاطر ہو یا ڈر اور لالچ کی بنا پر سامنے والے کو دھوکہ دینے کی وجہ سے یا چرب زبانی کی وجہ سے ہو۔

لفظ شکر کے معنیٰ اس خیر و نیکی کے مقابلہ میں شکریہ ادا کرنا ہے جو دوسروں سے انسان تک پہنچی ہے ۔ لیکن لفظ '' حمد '' میں تعریف و شکر کے علاوہ دوسرے معانی بھی پوشیدہ ہیں اور وہ معانی عبادت ا ور پرستش کے ہیں ۔یعنی ایسا شکرا ور تعریف جو عبادت کی حد تک پہنچے وہ حمد ہے پس مد ح و شکر دوسروں کے لئے جائز ہے لیکن حمد فقط خدا سے مخصوص ہے اس لئے کہ عبادت فقط خدا سے مخصوص ہے ۔

اگر چہ ( الحمد للہ ) کے بعد خدا کی چار صفتیں آئی ہیں ۔رب العالمین ، الرحمن ، الرحیم ، مالک یوم الدین ۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ انسان خدا کی عظمت و الطاف کی خاطر ہمیشہ اس کی حمد کرے ۔ لیکن ان سب سے پہلے '' للہ '' آیا ہے یعنی حمد صرف خدا کے لئے ہے ۔ اگر فرض کریں کہ خدا کی یہ صفتیں حمد کے ساتھ نہ بھی آئی ہوتیں تو بھی حمد، اللہ ہی کے لئے ہے کیونکہ وہی عبادت کے لائق ہے ۔

۱۰۰