اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار0%

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 103

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف: آیة اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 103
مشاہدے: 31320
ڈاؤنلوڈ: 2273

تبصرے:

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 31320 / ڈاؤنلوڈ: 2273
سائز سائز سائز
اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف:
اردو

بیشک تحلیل و تجزیہ کا ماحصل جو اس کھیل کی روح رواں ہے، معاشرہ کی زندگی کو مسموم کرنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ وہ سماج جس کے مختلف اجزا تہذیب و تمدن کے مدار اور اس کے محور سے سے جدا ہوکر پورے معاشرتی نظام میں رخنہ ڈال دیتے ہیں۔

وہ عنصر جو مذہبی موثر عناصر سے جدا ہو جاتا ہے اُس کی تشبیہ الکٹران ( Electron ) اور جرثومہ سے دی جاسکتی ہے، جس کا کنٹرول (مہار کرنا) ناممکن ہے؛ اس اعتبار سے کہ یہ عنصر، حاکم نظام سے جدا ہو جائے تو وہ اپنی تخریبی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے اور اس لئے جدا ہوتا ہے، تاکہ اپنے آپ کو مخالف راستے پر لگا لے اور عام نظام کی مخالف سمت اپنا راستہ معین کرلے۔ یہ ثقافتی اور مذہبی جز یا جرثومہ ( Microbe ) یا الکٹران ( Electron ) دوسرے بلند و بالا عناصر اور اجزا سے ارتباط کے وقت مخرب نہیں ہے اس طرح فطرتاً یہ جز یا میکروب ( Microbe ) جو اپنے مدار یا نظام سے الگ ہو گیا ہے یا مذہب کا وہ جز جو اپنی تہذیب اور ثقافت سے جدا ہوگیا ہے، اس وقت تک جب وہ اپنے اصلی نظام کے اندر تھا، اس میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی تھی سوائے اس کے کہ یہ طبیعت اور فطرت اپنے اصلی ارتباط سے جس کے زیر سایہ مکمل طور پر بے ضرر تھی اس سے جدا ہو گئی، اس صورت میں بربادی اور تخریب کاری کی طرف زیادہ مائل ہو گئی۔ ایسے حالات میں ایک شخص کا گوشت دوسرے شخص کے لئے مباح اور موت کا پیغام بن گیا ہے۔''(١)

اس کلام سے وہ نتیجہ جس کو ٹوین بی ( Toynbee ) نکالنے پر کمر بستہ ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی قوم کسی دوسری قوم کی تہذیب اور تمدن کو اپنانا ضروری سمجھتی ہے اور اس کا عقیدہ رکھتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنی شخصیت، اصل حقیقت، مقدسات اور تہذیب و تمدن کو چھوڑنے کے لئے سنجیدگی سے غور و فکر کرے، اور اپنی فکری، اخلاقی، ثقافتی و مذہبی

____________________

(١) Toynbee, The World and West, chapter ۵th

حرکة التجدید الاسلام نامی کتاب سے ماخوذ ہے، مصدر سابق صفحہ ٥٠ و ٥١

۶۱

اور علمی سائنسی اور تکنیکی زندگی میں بالکل اسی قوم کی جیسی ہو جائے جس قوم کو اپنی زندگی کے لئے مثال اور نمونہ بنانا چاہتی ہے۔ اور ان اجزاء اور عناصر کے درمیان فرق پیدا کرکے تہذیب و ثقافت اور تمدن کے لئے مفید اجزاء کو اختیار کرے گا اور وہ اجزا جو غیر مفید اور غیر مطلوب ہوں ان کو چھوڑ دے گا اور یہ محال ہے۔

ٹوین بی ( Toynbee ) کے نظریہ پر تنقیدانہ جائزہ

اس نظریہ پر بہت سے محققین اور صاحبان نظر نے تنقید و تبصرہ کیا ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ دو ثقافتوں کا انتقال اور میل ملاپ، بلا شک و شبھہ ممکن اور فطری عمل ہے اور اس اعتبار سے ثقافتوں اور تمدن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جن کو درج ذیل عبارت سے تعبیر کیا جاتا ہے:

١۔ علمی شعبہ

٢۔ ثقافتی شعبہ۔

١۔ علمی شعبہ :یہ شعبہ ثقافتی شعبہ سے متاثر ہوتا رہتا ہے اور اس کے اثر کو قبول کرتا ہے، ثقافتی شعبہ کے حالات اور موقعیت کے سبب اپنے حقیقی وجود کو حاصل کرلیتا ہے ، جیسا کہ ثقافتی امور، علمی امور کو متاثر کرتے ہیں اور اس کو اپنے ہی رنگ و روپ میں اپنے اعتبار سے ڈھال لیتے ہیں، اسی وجہ سے علمی مسائل مثال کے طور پر جراحی ''آپریشن کرنا، دوائیاں بنانا، طبابت، حساب، ریاضی، مصنوعی بجلی اور برق کے بارے میں معلومات، ذرات اور مختلف مشینوں کے بنانے کا علم، یہ سب کے سب ایسے مسائل ہیں جن کا علم اخلاق، معرفت، عقائد نیز فلسفہ و ادب سے گہرا ربط ہے اور یہ سب انسان کی تمدنی زندگی میں دخیل ہیں، ایسا کہ پہلی قسم (علمی مسائل) کے مسائل دوسری قسم کے مسائل کے سبب وجود میں آتے ہیں، جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، یہ سب ثقافتی مسائل کے ماتحت ہیں۔ اسی وجہ سے علم کیمیا ( Chemistry ) اور دوا بنانے کا علم، ان سب امور میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ صحیح زاویہ نگاہ اور انسانیت کی ترقی میں ان کو استعمال کیا جائے۔ حکمت، طبابت اور زراعت یہ سب کے سب کھانے پینے کے مقصد کے حصول کی راہ میں کام آنا چاہئے، ٹھیک اسی طرح اس بات کا بھی امکان پایا جاتا ہے کہ صحیح آگاہی اور معلومات کے نہ ہونے اور انسانی اقدار اور اخلاقی معیار کے فقدان کے باعث، انسانی اقدار کے خلاف بروئے کار لایا جائے۔ ان جان لیوا گیسوں کو کیمیکل بم بنانے کے کام میں استعمال کیا جائے تو یہ سب انسانی اقدار کے فقدان کا سبب ہیں۔

۶۲

ذرات اور آئیٹم کا بھی یہی حال ہے اس کو بھی صحیح اور مناسب کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے فائدہ حاصل کرنا انسانوں کی سوچ اور ان کی تہذیبوں میں اختلاف کی وجہ سے مختلف ہے، یعنی علمی روابط کے شرائط کا مختلف ہونا جو کبھی قابل اطمنان ہے اور کبھی غیر قابل اطمنان ہے۔

الف: علمی روابط کے ساتھ فضا کا اطمینان بخش ہونا

اس بات سے مندرجہ ذیل نتیجے اخذ کئے جاسکتے ہیں:

اگر کوئی قوم ایسی ثقافتی، مذہبی، اخلاقی اور عقائد کی حقیقت، واقعیت اور اصالت کو محفوظ کرلے، تو علمی روابط اور تہذیبوں کا ایک دوسرے کی طرف منتقل ہونا اسے نقصان نہیں پہونچا سکتا؛ اس لئے کہ جیسے ہی علمی مسائل ایک ثقافت سے رشتہ اور رابطہ توڑکر دوسری ثقافت اور تہذیب میں داخل ہو تے ہیں، تو وہ علم جو اس سے پہلے والی تہذیب و ثقافت کے باعث دوسری والی تہذیب کے متحمل نہیں ہو سکتے اور لوگ بھی دوسری تہذیب و ثقافت سے پوری طرح متاثر ہوئے بغیر صرف اس کے علمی گوشہ کو قبول کر لیں گے۔ درحقیقت تہذیب و ثقافت اور تمدن اس چھننے اور صافی کے مانند ہے جو علمی مسائل سے متعلق ہر چیز کو چھان پھٹک کر صاف و شفاف بنا دیتا ہے؛ اخلاقی حالات سے لیکر قوم و ملت کی موجودیت اور اس کے حضور کے ساتھ ساتھ اجنبی تہذیب و ثقافت کے تمام حالات کو صاف و شفاف بناتا چلا جاتا ہے۔ وہ زہریلے عناصر جو امت مسلمہ کے جسم سے کوئی تال میل نہیں رکھتے ہیں، لیکن ان کی تہذیب اور ثقافت کی ہمراہی کر تے رہتے ہیں اس سے ان لوگوں کو دور رکھتا ہے۔

ب: علمی روابط کے ساتھ فضا کا غیر یقینی ہونا

لیکن اگر کسی ثقافت کو اختیار کرنے والی قوم ضعیف و ناتواں ہو اور اس کے پاس ایسے عناصر کا فقدان ہو جو اخلاقی فکری اور استقامت کے لحاظ سے اجنبی ثقافت سے اسے محفوظ رکھ سکے تو ایسی قوم اگر اپنی زندگی میں بیگانہ اقوام کی ثقافت کے حصول میں اپنے آپ کومشغول کردے یا علمی رابطہ رکھتی ہے تو ان علمی مسائل کے ساتھ اس بیگانہ قوم کی اخلاقی ثقافتی سیاسی حالات و افکار کا منتقل ہونا ناگزیر ہے اور علمی مسائل کو ان ثقافتی مسائل سے علاحدہ کرنا جس کو انتقال تہذیب کے حوالہ سے منتقل کرنے والی قوم کی حمایت حاصل ہے اس کا جدا کرنا محال اور اگر محال بھی نہ ہو تو یہ امر اس کے لئے بس دشوار کام ہوگا۔

۶۳

دو تاریخی تجربے ہمارے لئے اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں:

١۔ اوائل کی کامیابیوں کے تجربے

اور وہ تجربہ روم و ایران کی فتوحات ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ ان کامیابیوں اور فتوحات کے دوران، اداری، دفتری اور عدلیہ کے مختلف مسائل سے لیکر حکمت، طبابت، کیمیا ( Chemistry ) اور علم نجوم کو بغیر اس کے کہ ان اخلاق و آداب، تہذیب و ثقافت نیز ان کے تمدن سے متاثر ہو ں ان کے علوم اور سائنسی معلومات کو ان سے اخذ کیا ہے، بلکہ ان مسائل اور علوم کو اپنی تہذیب میں ڈھالا اور اپنے منشا اور چاہت کے مطابق اس کو استعمال کیا۔

(٢) دور حاضر کی مغرب پرستی کا تجربہ

ا ور وہ تجربہ اس وقت کا تجربہ ہے جب امت مسلمہ مغربی تہذیب و تمدن کو گلے لگا رہی تھی، اس وقت عثمانی حکومت کے خاتمہ کے بادل موت کی طرح اس کے سر پر منڈلا رہے تھے اور لوگ پروانہ وار فرنگی تہذیب و تمدن کے اپنانے میں منہمک تھے۔

تجربی علوم میں بہت سارے مسائل کی ضرورت اور اس کی احتیاج، مسائل ریاضی کے حل کی ضرورت اور اداری امور کی انجام دہی سے متعلق مشکلات اور ضروریات نے ملت اسلامیہ کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ مغربی تہذیب و تمدن کی طرف دست نیاز بڑھائیں اور آہستہ آہستہ ان کے حلقہ بگوش ہو جائیں۔ چونکہ ثقافتی اور مذہبی بنیادیں اتنی مضبوط نہیں تھیں، اس لئے وہ اس پر ثابت قدم بھی نہیں رہ پائے، اور وہ خود اپنی حفاظت پر بھی پورے طور سے قادر نہ تھے، اسی وجہ سے غرب نے اپنی خاص ثقافت اور تہذیب کو ان کے اوپر لاد کر اپنے ہی رنگ و روپ میں ڈھال لیا۔

۶۴

مذہب سے دور کرنے والوں کی کار کردگی

اس تجزیہ اور تحقیق کے بعد اب ہم (ان حکام اور دانشوروں کی) مذہب سے دوری اختیار کرنے کی دعوت دینے اور ان کی کار کردگی کے بارے میں ان لوگوں کی اس کاروائی کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کریں گے، جس کو ان لوگوں نے ارتباطی پلوں کو توڑنے کے لئے انجام دیا ہے تا کہ نسل حاضر کو ان کے دمکتے ہوئے ماضی اور مذہبی مصادر میں خلل پیدا کردیں اور اس کے بعد نسل حاضر اور نسل گذشتہ میں جدائی ڈال دینے کی پوری کوششیں کی ہیں۔

ترکی میں عربی حروف کی جگہ لاتینی رسم الخط کا رواج

''مصطفی کمال آتاترک'' (ترکی کا حاکم) یہ وہ شخص ہے، جس نے عثمانی حکومت کا تختہ پلٹ کر اس کی جگہ پر دین مخالف (لائیک) حکومت کا قیام عمل میںلایا اور اس کے بعد وہاں کے تخت پر اپنا قبضہ جما لیا۔ تخت پر بیٹھنے کے فوراً بعد مغربی رجحان کی طرف لوگوں کو مائل کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی۔ اس نے مغربی تہذیب و ثقافت اور ان کے تمدن کی طرف لوگوں کو دعوت دی؛ اس طرح وہ مسلمانوں کی مذہبی اور تاریخی حقایق اور اس کی بنیادوں کا قلع و قمع کر دینا چاہا تھا۔

ترکی میں رائج لکھے جانے والے حروف (حروف تہجی) بے شک و تردید یہ ان قوی ترین وسائل اور ذرائع میں سے ہیں ، جو مذہبی اور فکری اعتبار سے نسلوں کو آپس میں جوڑتے ہیں ۔ جب کسی قوم کا رسم الخط ہی صفحۂ ہستی سے ختم کر دیاجائے تو آپس میں سب سے زیادہ مضبوط اور ہمارے حال و گذشتہ کو آپس میں تعلق پیدا کرنے میں یہ (رسم الخط) سب سے زیادہ مستحکم اور کار آمد وسیلہ ہے، جس کے ذریعہ دو نسلوں کوایک دوسرے (یعنی نسل حاضر کو ماضی اور مستقبل) سے جوڑا جا سکتا ہے۔

۶۵

اسی وجہ سے مذہب سے دور کرنے والے (اہل کار) لوگ نیز وہ لوگ جو دین کو ظاہری اور اسے (قشری) طور پر باقی رکھنا چاہتے ہیں، یعنی صرف اوپر اوپر سے مانتے ہیں اور دین کو اس سے زیادہ ماننے کے لئے تیار بھی نہیںہیں۔ بہت ہی تیز بینی اور بڑی ہی ہوشیاری اور ظرافت کے ساتھ مذہب سے دور کرنے کی کار ر وائی میں ہمہ تن مشغول ہیں۔ وہ لوگ صرف شاخ و برگ اور تنے کو ہی کاٹنے پر اکتفا نہیں کر رہے تھے، بلکہ مستحکم ترین ارتباطی وسائل کا نشانہ سادھتے اور اس کے بعد آناً فاناً ان کو ختم کردیتے ہیں۔ جیسا کہ ترکی کی عثمانی حکومت کے ختم ہوتے ہی اس وقت کی نسل نو قدیم جاہلیت کے زمانہ کی طرف پلٹ گئی اور اب وہ قرآن مجید، احادیث نبوی، (قدیم) تاریخ، اخلاق اور فقہ اکبر یعنی عقاید اسلامی اور فقہ کو مصادر اور منابع سے مطالعہ کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب ''حاضر العالم الاسلام'' میں لکھا ہے:

''اس مغالطہ کو وقت کے صدر جمہوریہ'' مصطفی کمال آتا ترک'' نے رواج دیا، تاکہ وہ اپنے زعم ناقص میں آہستہ آہستہ عقیدہ ٔ اسلامی سے عوام کو جدا کر دے، اسی طرح عربی بولنے سے بھی ترکوں کو روک دے اسی سبب اس نے ترکی کو ایسے شخص کے طریقہ اور راہ و روش کے حوالہ کر دیا جو اسلامی عقائد کو حکومت کے منافی اور خلاف جانتا تھا، اس کے ذریعہ اس کے خاتمہ کا انتظام کر دیا۔ اس امر میں ترکی کی ''عوامی پارٹی''نے اس (کمال آتا ترک) کا اتباع کیا اور اس کی باتوں کو عملی جامہ پہنا دیا۔ ایسی پارٹی جس کا اگر مجموعی طور پر سرسری مطالعہ کیا جائے تو وہ'' مصطفی کمال آتا ترک'' کے سپاہی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے اور ''سیاسی پارٹی کی بہ نسبت'' اس (سپاہی ہونے) سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ بغیر اس کی اجازت کے کسی بھی سیاہ و سفید کا حق بھی نہیں رکھتی تھی۔''

نتیجتاً ترکی حکومت کے حالات کے تحت، ہر وہ چیز جو اسلام سے متعلق محسوس ہوتی تھی، اس کو بالکل سے ختم کرکے اس کی بساط الٹ دی اور شریعت پر عمل کو باطل اور (غیر قانونی) قرار دیا پھر شرعی عدالت اور محکموں کو ختم کر دیا، اور ایک وزارت جو مشیخة الاسلام کے نام سے جانی جاتی تھی اس کو منحل (ختم) کرکے ایک چھوٹے سے ادارہ کا نام دے کر اس کو داخلی ناظر کمیٹی کے ماتحت اور اس کا جا نشین بنا دیا، جو ترکی زبان میں ''دیانت ایشی'' یعنی (امور دیں داری) کے نام سے مشہور ہے

۶۶

ترکی کے اساسی قانون کی ایک شق جو ''اسلام'' کے نام سے آئی تھی ''صرف وہی برائے نام جو جمہوریۂ ترکی کا تنہا دین اسلام ہے '' آہستہ آہستہ اس کو بھی حذف کر دیا اور ر فتہ رفتہ چند برسوں میں عید قربان و فطر کی نمازوں اور اس کے اجتماع اور جشن وغیر ہ کو بھی بالکل ختم کر دیا اور بڑی ہی آسانی سے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ''ترکی کی حکومت ایسی عیدوں اور اجتماعات کو قانونی نہیں جانتی ہے!۔''

لیکن بعد میں جب اس بات کا بار بار مشاہدہ کیا گیا کہ حکومت کے کارندے اور ان کے اہل کار بھی صدر جمہوریہ کے حکومتی دستور کی اَن سُنی کر رہے ہیں اور عید فطر اور عید قربان کے جشن منا رہے ہیں نیز اس کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں، دونوں عیدوں کے مبارک موقع پر حکومتی اداروں میں بھی چھٹیاں کر رہے ہیں۔ لہٰذا صدر جمہوریہ بھی قہراً اور جبراً عید کی مبارک باد کو قبول کر نے پر مجبور ہی ہو گیا اور خوشی منانے پر رضایت دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی محافل کی خوشیوں میں شرکت کرنے لگا لیکن ترکی مطالب کا لاتین رسم الخط میں لکھا جانا، ویسے ہی بر قرار رہا۔ جب کہ اس کی مخالفت بھی کی گئی، ظاہراً اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ تعلیمی زمانہ کو کم کرنے اور علمی مطالب کو تیزی سے منتقل کرنے کے لئے یہ کام کیا گیا ہے، تاکہ بچے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ معلومات کو حاصل کر لیں اس لئے اس کام کو انجام دیا گیا۔! (اگرچہ مذکورہ سبب خود اس کے رواج دینے والوں کے ضمیر کو مطمئن کرنے سے قاصر ہے۔ مترجم)

لیکن اس کا حقیقی مقصد، ترکوں کو عربوں سے دور کرنا اور آہستہ آہستہ قرآن مجید کی تلاوت کو ختم کرنا اور سب سے بڑھ کر اپنے آقا اور مولا انگریزوں اور یورپ برادری کو خوشحال کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے ترکی کی حکومت سر سے پیر تک انگریزی تہذیب میں ڈوب گئی، اس لئے عدالت اس بات کی مقتضی ہے کہ ترکی کو یورپ برادری میں داخل کر لیا جائے! ٹھیک اسی مقصد کے تحت، ''مصطفی کمال'' نے ترکوں کو ٹوپی پہننے پر مجبور کر دیا، تاکہ ان کا یہ عمل یورپ برادری سے میل جول اور باہمی روابط کو شدت بخشے۔

۶۷

بے شک عربی رسم الخط کو چھوڑ دینے سے علمی، ادبی، اقتصادی، تجارتی اور معیشتی زندگی پر کاری ضرب لگی ہے۔ دوسری جانب سے لاتینی رسم الخط میں ترکی زبان کا لکھا جانا عام لوگوں کے لئے بہت دشوار گذار ہے۔ (مگر یہ کہ بہت تھوڑے سے لوگ جو لکھنے پڑھنے پر قادر ہیں) اور یہ بات سبب بنی کہ ارسال و ترسیل میں غیر معمولی کمی آگئی اور لوگوں میں خط و کتابت کا رواج بہت کم ہو گیا، نیز کتابوں، جرائد اور اخبار کے پڑھنے والوں میں بہت شدت سے کمی واقع ہوئی ہے، وہ اخبار جن کے قاری اور پڑھنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہوا کرتے تھے رسم الخط کی تبدیلی کے بعد اس کے پڑھنے والوں کی تعداد پانچ سو کے آس پاس رہ گئی ہے۔ لہٰذا حکومت نے اس کے ذریعہ ہونے والے اتنے بڑے نقصان کو مجبور اًبرداشت کر لیا؛ نیز ترکی حکومت کو اس کی بھر پائی میں بہت ہی زیادہ دقت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے علاوہ، قانونی اور سرکاری خط و کتابت اور مراسلات میں بھی بہت دشواری اور دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجہ کے طور پر سرکاری اداروں میں عوام کے کاموں میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔ رسم الخط کی تبدیلی سے دسیوں لاکھ جلد کتابیں ضایع ہو گئیں بہت سے ''کتب خانہ'' برباد ہو کر رہ گئے اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا، لیکن اگر اس کا ماہرانہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ لاتینی رسم الخط میں اتنی زیادہ علامتوں کے بڑھا دینے کے با وجود بھی ترکی زبان کے بعض الفاظ صحیح معنی ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ لاتین حروف تہجی متعدد اور مختلف مقامات پر اس ذمہ داری کی ادائیگی میں نا کام رہے ہیں، اس وجہ سے ان علامتوں کے ذریعہ ترکی الفاظ اس طرح اپنی اصل سے جدا ہوگئے ہیں گویا ایک مستقل زبان میں تبدیل ہو گئے ہیں! اور اس سے بھی بڑھ کر، اگر چہ لاتینی حروف کا لکھنا پڑھنا جدا اور منفصل ہونے کی وجہ سے قدرے آسان ہے، اس کے باوجود کاغذ کے صفحہ پر جگہ زیادہ گھیرتے ہیں اور عربی کی بہ نسبت، وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے؛ جبکہ عربی لکھنا خلاصہ نویسی ( Stenography ) سے بہت زیادہ مشابہ اور قریب ہے اور وقت اور جگہ کے اعتبار سے بھی کم خرچ اور دور حاضر کے تحریری اقدار کے اعتبار سے اختصار اور اقتصاد کے لحاظ سے بھی بہت آسان اور مناسب ہے۔

۶۸

اور اس اعتبار سے ترکی میں روز بروز لکھنے کا مسئلہ پریشان کُن بنتا چلا گیا، لیکن سامراج کے ہاتھوں خود فروختہ لوگ لگا تار عوام کو اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کہ لاتینی رسم الخط میں ہی مکاتبات و مراسلات کو جاری رکھیں؛ تاکہ ان کے انگریز اور یورپ کے آقاؤں پر یہ ثابت کریں کہ ہم لوگ اس رسم الخط سے والہانہ محبت اور اس سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان امور سے آگاہی نہیں رکھتے، وہ یہ سوچتے تھے کہ ترکی کی عوام ان کی سرکاری عدالتوں میں حکم شرعی کے عدم نفاذ، اسکول اور اعلیٰ تعلیمی اداروں (کالج) میں دینی تعلیم پر پابندی اور ممنوعیت، زبردستی مسلمان عورتوں کو ان کے حجاب اور پردہ سے روکنا، دانشگاہوں Universities )) میں مردوں اور خواتین کا ایک ساتھ گھل مل جل کر رہنا، لڑکیوں اور لڑکوں کو ایک ساتھ ناچنے ( Dance ) پر زور دینا اسی طرح (یورپ کے انداز پر) ٹوپی پہننے اور لاتینی رسم الخط میں ترکی زبان کے لکھے جانے پر زور اور دوسرے بہت سے امور جن کو ''مصطفی کمال'' نے رائج کیا ہے اس سے یہ لوگ راضی اور خوشنود ہیں! اور وہ لوگ اس راگ کے الاپنے میں مشغول ہیں: ''اگر ترک لوگ ان سب کاموں سے راضی نہ ہوتے تو یہ (ترک) لوگ مخالفتوں کے طوفان اٹھا لیتے اور ایک نیا انقلاب برپا کرد یتے اور ''آتاترک'' کی حکومت کو ہستی سے ساقط کردیتے اور ان حکام کو الٹے پاؤں لوٹ جانے پر مجبور کردیتے!، پھر سے عثمانی حکومت کو مستحکم اور استوار کر دیتے، لیکن ایسا نہ کرنا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ترکی کی عوا م خود ہی عثمانی حکومت کے خاتمہ پر صرف راضی ہی نہیں بلکہ اس بات پر مصر بھی تھی۔

۶۹

لیکن اگر کوئی شخص جن سختیوں کا ترکی کی عوام کو سامنا کرنا پڑرہا ہے اس پر غور و فکر کرے تو اسے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کیوں یہ لوگ معاشرہ کے ان حالات کی سختیوں پر مذہب و مسلک اور اپنی عادت و ذوق کے اختلاف کے با وجود صبر وبرد باری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور کیوں حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کو قیام کرنے پر ترجیح دیتے ہیں اور دشمنوں کے لئے راہ ہموار کریں کہ وہ دوبارہ پلٹ آئیں دوسری عالمی جنگ کے منصوبہ کو عملی شکل دیتے ہوئے ترکی پر حکومت کریں۔

لیکن یہ غیر دینی حکومت (لائیک) ابھی تک اس بات پر قادر نہیں ہوسکی کہ ترکی کے مسلمانوں کے ایمان کو سست اور ضعیف کر سکے، یہ لوگ ابھی بھی اپنے قدیمی دین، دین اسلام سے مستحکم اور بہت گہرا تعلق بنائے ہوئے ہیں۔ استانبول اور ترکی کے دوسرے شہروں میں دینی مظاہر کی موجودگی خود اس مدعا کی بہترین دلیل ہے۔ البتہ وہاں پر یورپ برادری کی تہذیب کے مظاہر بھی کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں، وہ بھی جابجا دیکھنے کو مل جاتے ہیں، جیسا کہ ان لوگوں نے اپنے جرائد اور رسالوں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔

اور اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ ترک معاشرہ کی جانب سے بھی اسلام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، مگر یہ کہ یہی صورتحال طولانی عرصہ تک برقرار رہی اور جدید نسلیں اسلامی تعلیمات سے محروم رہیں اور اسلامی تعلیم (جیسا کہ ابھی تک دینی تعلیم کا فقدان رہا ہے) میں روز بروز اسی طرح سے کمی آتی رہے۔''(١)

____________________

(١)حاضر العالم الاسلام، شکیب ارسلان، ج٣، ص٣٥١سے ٣٥٣ تک۔

۷۰

مصر و ایران میں عربی رسم الخط کے تبدیلی کی جد و جہد

دوسرے مستعار حکام اور اہل قلم حضرات نے بہت زیادہ کدّ و کاوش کی ہے کہ دنیائے اسلام کے مختلف ممالک سے عربی رسم الخط کو مطلق ختم کردیا جائے، اگرچہ ان کی یہ بیہودہ اور واہی کوششیں رنگ نہ لاپائیں اور اس طرح کی تمام کوششیں محکوم بہ شکست اور بھاری ہزیمت سے روبرو ہوگئیں۔

ایران میں، رضا خان (شاہ) پہلوی (مشہورو معروف ڈکٹیٹر) اس مہم کو سر کرنے کی کمر ہمت باندھی۔ اس نے زرخرید اہل قلم کی ایک جماعت کو اس کام کی انجام دہی کے لئے تیار کر رکھا تھا تاکہ وہ لوگ عربی رسم الخط کے نوشتہ جات اور تحریروں کو لاتینی ( Latin ) رسم الخط میں تبدیل کردیں، لیکن اس کام کی انھیں توفیق حاصل نہیں ہوپائی۔

اسی طرح مصر میں بھی بعض اہل قلم اور اخباروں نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا چاہا، و ''مقتطف'' نامی مصری جریدہ نے اس دعوت عام کو اپنے صفحات پر جگہ دی۔ ڈاکٹر محمد محمد حسین نے اپنی کتاب ''الاتجاھات الوطنیة'' میں یوں تحریر کیا ہے:''عبد العزیز فہمی'' مصر کی علمی کمیٹی کے سب سے برجستہ اور اہم رکن کہ جو، (١٩٤٣ کی قائم کردہ ملکی کمیٹی کے تیسرے سربراہ تھے، جنھوں نے ملک گیر پیمانہ پر نمائندہ کمیٹی کو تشکیل دیا تھا۔) جس نے عربی تحریر کو لاتینی رسم الخط میں لکھے جانے کی پیش کش کی اور اس کی منظوری کے لئے لائحۂ عمل پیش کیا، وہ رپورٹیں (گزارشات) جو اس کمیٹی کے تین سال کے متعدد اجلاس میں فیصلہ کے بعد بطور نتیجہ وجود میں آئیں، وہ وہاں کے اخباروں میں چھاپی بھی گئیں اور دوسری مختلف علمی کمیٹیوں کو بھی ارسال کی گئی۔''(١)

____________________

(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٣٣٨۔

۷۱

آتاترک اور مغرب پرستی کی دعوت

یہاں پر ہم نے ''آتاترک'' نامی کتاب کے مختلف حصوں میں سے اقتباس کیا ہے جس کے مصنف ''عرفان اورگا'' نے ''کمال آتاترک'' کی شخصیت اور اس سے والہانہ محبت اور عشق کا اظہار کرنے کے لئے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے یہ مختلف حصّے، حقیقی معنوںمیں یہ اس کے اپنے ذاتی تصورات اور خیالات ہیں، اور یہ ایسے تصورات اور خیالات ہیں جن میں بالکل مبالغہ آرائی اور کمی و زیادتی کا گذر نہیں ہے۔

''اورگا'' تحریر کرتا ہے: ''آتاترک'' نے اس بات پر اطمنان اور یقین کرلیا تھا کہ اس کی جنگ دین سے ہونے چاہئے، اس لئے کہ دین سے جنگ بہت بڑی رقابت کا پیش خیمہ ہے۔ وہ اپنے بچپنے ہی سے اس بات کا معتقد تھا کہ خدا کے وجود کی کوئی ضرورت نہیں ہے، چونکہ خدا کا مفہوم غیر ناطق، گنگ، نامرئی ہے، لوگوں کو دھوکہ میں ڈالنے والا اور ہر حقیقت سے عاری ہے۔ (جیساکہ آتاترک اس بات کا قائل بھی تھا) وہ صرف انھیں محسوسات پر عقیدہ رکھتا تھا جو دیکھنے میں آسکتے ہوں اور عموماً اُن چیزوں کا مشاہدہ ممکن بھی ہو،(۱) اس (کمال آتاترک) کا

____________________

(۱)مؤلف اپنی کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں: آتاترک اپنے عمر کے آخری حصہ میںآسمان کی طرف اپنا ہاتھ بلند کرتا تھا اور تمسخر اور تھدید آمیز انداز میں اس کی طرف اشارہ کرتا تھا۔

۷۲

عقیدہ یہ بھی تھا کہ گذشتہ زمانہ میں اسلام تباہی اور بربادی پھیلانے والا ایک عنصررہا ہے اورترکی کے حق میں بہت بڑی خطا اور جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ اس نے ترکی کو ایسے نقصانات پہونچائے، جن کی بھرپائی ممکن نہیں ہے۔

اس کا عقیدہ تھا کہ عوام الناس اسلام قبول کرنے کی وجہ سے، فکر و عقیدہ کے حوالہ سے اوہام اور جمود کا شکار ہوگئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو قضا و قدر کے حوالہ کردیتا اور یہ کہتا: ''کہ خداوند عالم کا ارادہ یہ ہے'' یا ''یہ چیز ہماری تقدیر میں لکھی ہے'' تو اس سے بڑے ہی بے دردی اور سختی سے پیش آتا تھا، وہ (ملعون) اس بات کا بھی عقیدہ رکھتا تھا کہ نعوذ باللہ خدا ہے ہی نہیں، صرف انسان ہی ہے جو اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے! اس سے بار بار کہتے ہوئے سنا گیا ہے: ''عقل اور حتمی ارادے کی طاقت الٰہی قدرت پرمسلّط اور غالب ہے۔ اگرچہ دیندار لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں: خدا اپنے امور میں جلدبازی سے کام نہیں لیتا۔ اور کسی کو بھی اس کے حال پر نہیں چھوڑتا۔''وہ یہ کہا کرتا تھا: برقی قدرت ( Electric Power ) کے بارے میں، جس نے کاموں کی سرعت رفتار کو تیز سے تیزتر کردیا ہے، کیا یہ دیندار لوگ اس امر سے ناواقف ہیں؟ کہ بجلی ہماری ہی پیداوار ہے!۔''

آتاترک نے یہ مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ جمہوریۂ ترکی میں وہ کوئی ایسا قانون نافذ کرکے دین و مذہب پر پابندی لگادے، اگرچہ ایسا کرنے کے لئے قدرت و طاقت، فریب کاری اور مکاری کی ضرورت تھی۔(١)

''عرفان اورگا'' نے اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے:

____________________

(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٢٣٧، ٢٣٨۔

۷۳

علم النفس ( Psychology ) کے معیار اور اس کے نظریات نیز اس کی حکمت اور فلسفہ یہ سب باتیں ''آتاترک'' کے سامنے ہیچ اور بے معنی تھیں، اسی بنا پر کوئی بھی چیز اس کو اس کے واہی اور بے بنیاد عقیدہ سے روک نہیں سکتی تھی کہ ترکی کے لئے دین کی ضرورت نہیں۔ لیکن وہ چیز جس کو اس نے دین کے نام پر ترکی کی عوام کے لئے پیش کیا ہے، وہ اس کا ایک نیا خدا ''مغربی اور فرنگی تہذیب و تمدن'' ہے۔

اس (عرفان اورگا) نے اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے: ''آتاترک'' بڑی ہی شدت کے ساتھ اسلام اور اس کے صحیح، راسخ ا ور مستحکم عقیدہ رکھنے والوں سے پَکّی دشمنی رکھتا تھا۔ وہ یہ کہا کرتا تھا: ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم زندگی کے مختلف اور تمام پہلوؤں میں، اپنی مردانگی کو ثابت کریں۔ بڑی بڑی مشکلات اور مصیبتیں ہمیں بہت تکلیف دیتی ہیں اور اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گئے ہیں۔ یا پھر ہم نے گوشہ تنہائی اختیار کرلی ہے، لیکن بین الاقوامی سطح پر ان مشکلات کا حل تلاش نہیں کیا ہے۔ ہم کو لوگوں کے بہکانے میں بالکل نہیں آنا چاہئے۔ ہم ایک غنی تہذیب و ثقافت اور تمدن تک پہونچنا چاہتے ہیں، ہم کو اپنے اوپر فخر کرنا چاہئے۔ دنیائے اسلام کے مختلف ممالک کے مسلمانوں کو اپنی نظروں کے سامنے رکھکر دیکھو کہ وہ کتنا زیادہ مصیبتوں، آزمائشوں بلاؤں اور بربادیوں میں مبتلا اور ان کو کتنی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ لوگ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ اپنی عقل کو پیش رفتہ، ترقی یافتہ اور دمکتی ہوئی تہذیب و (مغربی وفرنگی) ثقافت کو اپنی زندگی کے مختلف حصوں میں بروئے کار لائیں۔ یہی چیز سبب بنی کہ ایک طولانی عرصہ تک ہم انحطاط، پستی اور ذلت کا شکار رہے اور آخر کار اس ترقی کے سفر میں ہر قافلہ سے پیچھے رہ گئے، اور انحطاط کے بہت ہی گہرے کھڈ میں جا گرے۔ اگر گذشتہ سالوں میں ہمارا معیار کچھ بلند بھی ہوا ہے اور ہم ترقی کے راستہ پر لگ گئے ہیں تو وہ سب اس بات کے مرہون منت ہیں کہ اب ہمارے سوچنے کے انداز میں بھی کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ لیکن ہم کو اس مقام اور منزلت کے حصول کے بعد اب اسی مقام پر آکر ٹھہر نہیں جانا چاہئے، بلکہ ہمیں قیام کرنا چاہئے اور جد و جہد میں بڑی ہی سنجیدگی سے لگ جانا چاہئے۔ تاکہ ہم ترقی کے راستہ پر مستقل آگے بڑھتے رہیں اور دن دونی رات چوگنی ترقی کا ارتقائی سفر تیزی سے طے کرکے اس کی چوٹی تک پہونچ جائیں؛ جو ہوگا وہ بعد میں دیکھا جائے گا اور اس سے نمٹ لیا جائے گا! اور ہمارے لئے اس راستہ کے علاوہ کوئی اور راستہ اور چارۂ کار بھی نہیں ہے۔ عوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ تہذیب و تمدن ایک بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلہ کے مانند ہیں اور جو بھی اس کے سامنے نرمی کا ثبوت دے گا اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کی لپیٹ سے بچایا نہیں جاسکتا۔ آخر کار وہ اس آگ کے شعلوں میں جل کر خاکستر ہو جائے گا۔''(١)

____________________

(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٢٣٧، ٢٣٨۔

۷۴

عثمانی حکومت کا تختہ پلٹنے میں ''آتاترک'' کا بنیادی کردار

صاحب کتاب ''آتاترک'' نے لکھا ہے: ہر شخص پر یہ بات ظاہر ہے کہ ''مصطفی کمال آتاترک'' کسی بھی دین کا پابند اور پیرو نہیں تھا، اسی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ مشہور ہو گیا تھا کہ خلافت کی بساط جلدی ہی لپیٹ دی جائے گی۔ جب لوگوں کی زبانوں پر یہ بات چل پڑی کہ ''مصطفی کمال'' نے شیخ الاسلام کے سرپر قرآن مجید کو دے مارا، (جو علمائے اسلام کے بزرگوں میں تھے اور عالَم اسلام میں ان کی شخصیت بہت محترم اور بھاری بھرکم تھی) تواس واقعہ کے بعد عوام بہت ہی زیادہ خوفزدہ ہوگئی، اس لئے کہ اس نے ایک ایسا عمل انجام دیا تھا جس کی جزا اس کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی کہ فوری اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ حادثہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ تبدیلی آچکی تھی۔(١)

مؤلف نے تقدس اور عظمت کا معیار، آتاتورک کے احترام محبت، انس اور ایثار نیز مغربی تمدن اور انگریزی تہذیب کی بہ نسبت لوگوں کے لگاؤ اور رجحان کو بتایا ہے۔ اور یہ کہ ''آتا ترک'' کا عشق خلیفہ کے بہ نسبت عوام کے عواطف پر کیسے غالب آگیا، جب کہ

____________________

(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٢٧٦۔

۷۵

ان کے خون اور رگ و پے میں اسلام اور خلافت کا احترام راسخ ہوچکا تھا۔ اس نے لکھا ہے:

''مصظفیٰ کمال'' اپنی عوام اور اپنے خود ساختہ دستور پر بہت زیادہ اعتماد کرتا تھا اور اسی کی طرف اپنے ہر کام کی نسبت دیتا تھا۔ اپنے اس جدید خدا (مغربی تمدن) کا بڑے ہی گرم جوشی اور عشق کے ساتھ ایک وفادار کی طرح پرستش کرتا تھا۔ یہی امر سبب ہوا کہ اس نے عنوان ''تمدن'' ( Civilization ) کو دنیا کے کونے کونے اور دور افتادہ علاقوں تک پہونچانے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی۔

اس وقت جب وہ تمدن کے حوالے سے گفتگو کرتا تھا تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اُٹھتی تھیں۔ جیسے بہشت کی طر ف توجہ کرتے وقت صوفیائے کرام کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں اور نور ان کے چہروں سے عیاں ہونے لگتا ہے۔''(١)

مصطفی کمال ترکی کی عوام سے کہتا رہتا تھا:

یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم متمدن اور ترقی یافتہ لوگوں کا لباس اختیار کرکے اُسے پہنیں، اور ان کی تہذیب کو اپنائیں، یہ بھی ضروری ہے کہ ہم دنیا اور دنیا والوں پر یہ ثابت کردیں کہ ہم عظیم، بزرگ اور ترقی یافتہ قوم ہیں۔ اور وہ لوگ جو ہماری اور ہمارے طرز زندگی کے بارے میں کافی شناخت نہیں رکھتے ہیں، ترکی کے قدیم رسم و رواج کے سبب ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، ہم ان کو کبھی نہیں بخشیں گے۔ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم فکر نو کی موجوں پر زمانہ کے قدم سے قدم ملاکر انہیں کے راستہ پر گامزن رہیں اور کامیابی کے راستہ طے کریں۔''(٢)

____________________

(١)و(٢)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٢٣٣۔

۷۶

مؤلف نے ان باتوں کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

''کمال آتاترک'' چلا گیا تاکہ وہ اپنے نظام کی ان وسعتوں کو جن کے ذریعہ اپنی تحریک کا آغازکیا تھا اس کو انجام تک پہونچائے۔ وہ اس بات کا اقرار کرتا تھا کہ ترکی کے سابقہ متعفن، بدبودار اور فاسد نظام سے جمہوریۂ ترکی کو جدا کردے، تمام وہ ویرانیاں اور برائیاں جو اس نظام کا احاطہ کئے ہوئے تھیں، ان نحوستوں کو اس سے یکسر ختم کرکے ان کی اصلاح کردے۔ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ جب تک اس نے ترکی کے قدیمی ڈھانچے کو بالکل بدل نہیں دیا، چین سے نہیں بیٹھا۔ بادشاہت کو آزاد جمہوریہ سے، شہنشاہیت کو ایک واحد آزاد ملک اور خالص دینی حکومت کو ایک سادی اور معمولی جمہوریت میں تبدیل کردیا ہے اور یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔

اور وہ اس بات کا بھی معترف تھا کہ اس نے بادشاہ (خلیفہ عثمانی) سے حکومت چھین لی اور عثمانی شہنشاہیت سے حالیہ ترکی کے تمام روابط ختم کردیئے اور ابھی بھی پرانی ذہنیت، قدیمی تصورات اور فکر کہن، رسم و رواج، پہناوا، اخلاق و آداب معاشرت اور زمانہ کے نئے نئے رسم و رواج، روز مرہ کی زندگی کی طور طریقہ کو جدید نظام میں تبدیل کر دینا اور ان سب سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا، کسی نئے کام کی انجام دہی اور ازسرنو کسی سیاسی مشن کے وجود میں لانے سے بس دشوار ہے۔

۷۷

آتاترک نے بھی ایسے اقدامات کی معلومات بڑی ہی دشواری سے حاصل کی تھیں، جیسا کہ ایک مرتبہ اس نے یہ کہا بھی تھا: میں اپنے دشمن پر فتحیاب ہو گیا اور اس پر ظفر و کامیابی حاصل کر لی ہے، اور اپنی سر زمین یعنی سرحدوں کو وسیع کرلیا ہے، اب کیا اس بات پر بھی قادر ہوں کہ اپنی عوام پر بھی تسلط حاصل کرپاؤں؟!''(١)

''مصطفی کمال آتا ترک'' نے تین آذار (بہار کا پہلا مہینہ) ١٩٢٤ء میں عثمانی حکومت سے جدید ترکی حکومت میں تبدیلی کا لائحۂ عمل ترکی کی پارلمان ( Turkish Parliament ) کے حوالہ کردیا اور اس کے ساتھ ہی عثمانی حکومت کی بساط الٹ کر رکھ دی۔ اس نے بڑی ہی جرأت اور صراحت کے ساتھ اسی موضوع پر تقریر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کیا ہے:

''چونکہ عثمانی شہنشاہیت کی بنیاد اسلام پر استوار تھی اور اسلام کی سرشت اور اس کے خمیر نیز اس کے افکار و تصورات عربی زبان پر استوار ہیں، انسان کے زندگی بسر کرنے، (پیدائش سے مرنے تک) کے کچھ اصول و ضوابط ہیںجس کو اس نے ایک خاص طریقہ پر استوار کیا ہے۔ اسلام نے اپنی اولادوں کو جاہ طلبی کے خلاف تعلیم دے کر ان میں جاہ طلبی کو بالکل ختم کر دیاہے اور بغاوت، سرکشی اور جارحانہ (تہاجمی) کیفیت پر روک لگادی ہے۔ ہر وہ حکومت جس کا سرکاری مذہب اسلام ہو وہ حکومت نابودی کے دہانے پر کھڑی ہے۔''

اگرچہ ترکی کی پارلمان ''عوامی مجلس'' نے ان چیزوں کی منظور ی بھی دے دی تھی، اسکے با وجود لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف زیادہ مرکوز نہیں کرپایا، در حقیقت یہ منظوری پیکر اسلام پر ایک کاری ضرب تھی جو بالکل صحیح نشانہ پر جا لگی۔ ترکی کی پارلمان کا منظور شدہ قانون یہ تھا کہ تعلیم و تربیت کے نظام کویکجا یعنی لڑکیوں اور لڑکوں کے تعلیمی نظام کو مخلوط کر دیا جائے، اس لئے کہ کسی بھی تہذیب و ثقافت کی ترقی میں نظام تعلیم و تربیت ہی اپنا دائمی اور

____________________

(١) Greywoolf ,ص ٢٨٧۔

۷۸

گہرا اثر چھوڑ تے ہیں۔ اس (کمال آتا ترک) کے اس اقدام سے، وزارت تعلیم نے جمہوری حکومت کے احاطہ میں تمام دوسرے تعلیمی اداروں کو اپنی طرف کھینچ کر اپنے آپ سے مخصوص کرلیا، اور اس طرح دوسرے تعلیمی اداروں پر اپنا تسلط اور اقتدار جمالیا۔ حالات کی تبدیلی اور معلمین و اساتذہ کی سلب آزادی نے اُن کو مفلوج کرکے رکھدیا، اور ان سے اس اختیار کو سلب کرلیا۔

''آتا ترک'' اور اس کے معاصر ''ہٹلر'' کا موازنہ

مشہور و معروف مورخ ''آرنالڈ ٹو ین بی'' ( Toynbee ) اپنی کتاب History) (A Study of مطالعۂ تاریخ میں نہایت ہی فصیح و بلیغ اور مؤثر عبارت کے ضمن میں لکھا ہے: ترکی کے رسم الخط کی تبدیلی اور اس سلسلہ میں ''کمال آتاترک'' کی زیرکی اور فراست نیز اپنے مقصد کے حصول کے لئے بہترین کارروائی کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے ا سطرح کہا ہے:

''لوگوں کے درمیان یہ بات پھیل گئی تھی کہ ''کمال آتاترک'' نے ''اسکندریہ'' کے عظیم کتب خانہ کی کتابوں کو (جو گذشتہ نو صدیوں کا بہت بڑا علمی ذخیرہ تھیں) حمام کے چراغوں کے روشن کرنے اور اس کے پانی کو گرم کرنے کی غرض سے نذر آتش کر دیا۔''(١) (بڑی ہی خوبصورتی سے بہانہ تراشا اور اتنا بڑاقومی سرمایہ نابودی کے گھاٹ اتار دیا۔ تاکہ

____________________

(١)اسکندریہ کے کتب خانہ کی آتش سوزی کی طرف اشارہ ہے ،اس کو ایک شاخسانہ قرار دیا۔ اس افسانہ کا خلاصہ

یہ ہے۔ وہ برابر کہا کرتا تھا کہ ان علمی ذخائر کو میں نے اپنے تئیں برباد نہیں کیا، بلکہ یہ سب خلیفہ کے دستور سے ہوا ہے، حالانکہ تاریخی تحقیق اور جانچ پڑتال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ گڑھا اوربے بنیاد ہے۔ ان علمی ذخیروں کو اس نے خود سرانہ طور پر جلایا ہے۔

۷۹

وہ اس کو نابود کرکے اپنے مقصد کو حاصل کرلے اور اس طرح اپنے اہم مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے یہ کہاکرتا تھا کہ مطبع اور پریس کا لگانا بہت مشکل بلکہ محال کام ہے۔مترجم)

ہمارے زمانہ میں ہٹلر نے بھی تمام کوششیں کر ڈالیںکہ ہر اس علم کو مٹادے جو اس کے خلاف ہو اور اس کی فکر سے تال میل نہ کھائے اور ایسے علمی ذخائر کو نابودی کے گھاٹ اتار دیتا تھا اور اپنے اس عمل میں کامیابی کے حصول کی خاطر یہ کہا کرتا تھا کہ مطبع اور پریس کا لگانا بہت مشکل بلکہ اس امر کو محال سے زیادہ مشابہ بتایا تھا۔ (تاکہ وہ اپنے مقصد کو اس کے ذریعہ اس افسانہ کی آڑ میں حاصل کرلے اور عوام الناس اس پر زیادہ زور اور دباؤ بھی نہ بنا پائیں۔مترجم)

''مصطفی کمال'' (معاصر ہٹلر) نے اپنے دفاع اور عقل کو ایسے راستہ کے حصول میں لگایا جس کے ذریعہ اس کو کامیابی حاصل ہو، آخرکار اس کے ذریعہ اس کو بہت بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

ترکی کے آمر ( Dictator ) نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ ترکوں اور ان کی ذہنیت کو اس تہذیب سے جو اس (آتاترک) کے بقول وحشت گری کا تمدن تھا۔ وہ اپنی پوری قدرت اور تمام کوششوں کو بروئے کار لاکر ترکی کی عوام کو مغربی تمدن کے ثبات، استواری اور استقرا پر کاربند تھا۔ اس نے کتابوں کوجلانے اور نذر آتش کے بجائے! حروف تہجی اور

رسم الخط کی تبدیلی پر ہی اکتفا کیا، اپنے اس اقدام کے ذریعہ اس نے چین کی شہنشاہیت اور عربی خلیفہ کی پیروی سے اپنے کو بے نیاز اور آزاد کرلیا؛ اسی طرح سے فارسی، عربی اور

۸۰