تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 77273
ڈاؤنلوڈ: 3728

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 77273 / ڈاؤنلوڈ: 3728
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

شیعی قیام

شیعی قیام درج ذیل ہیں : قیام توّابین اور قیام مختار، ان دو قیام کا مقام ومرکز عراق میں شہر کوفہ تھا اور جو فوج تشکیل پائی تھی وہ شیعیان امیرالمو منین کی تھی سپاہ مختار میں شیعہ غیر عرب بھی کافی موجود تھے ۔

توابین کے قیام کی ماہیت میں کوئی ابہام نہیں ہے یہ قیام صحیح ہدف پر استوار تھا جس کا مقصد صرف خون خواہی امام حسین اور حضرت کی مدد نہ کرنے کے گناہ کو پاک کرنے اور ان کے قاتلوں سے مقابلہ کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، توابین کوفہ سے نکلنے کے بعد کربلا کی طرف امام حسین کی قبر کی زیارت کے لئے گئے اور قیام سے پہلے اس طرح کہا:

پروردگارا!ہم فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد نہ کر سکے ہمارے گنا ہوں کو معاف فرما، ہماری توبہ کو قبول فرما ، امام حسین کی روح اور ان کے سچّے ساتھیوں پر رحمت نازل کر، ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم اسی عقیدہ پر ہیں جس عقیدہ پر امام حسین قتل ہوئے، پروردگارا!اگر ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کیا اور ہم پر لطف وکرم نہیں کیا تو ہم بد بخت ہو جائیں گے۔(١)

مختار نے مسلم بن عقیل کے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد ان کی مدد کی جس کی وجہ سے عبید اللہ بن زیادکے ذریعہ دستگیر ہوئے اور زندان میں ڈال د یئے گئے اور واقعہ عاشورہ کے بعداپنے بہنوئی عبداللہ بن عمر کے توسط سے آزاد ہوئے وہ ٦٤ھ میں کوفہ آئے اور اپنے قیام کو قیام توابین کے بعد شروع کیا اور یا لثارات الحسین کے نعرہ کے

____________________

(١)ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ ، ج ٤ ص ١٥٨۔١٨٦

۱۲۱

ذریعہ تمام شیعوں کو جمع کیا وہ اس منصوبے اور حوصلہ کے ساتھ میدان عمل میں وارد ہوئے کہ امام حسین کے قاتلوں کوان کے عمل کی سزادیں اور اس طرح سے ایک روز میں (٢٨٠) ظالموں کو قتل کیا اور فرار کرنے والوں کے گھروں کو ویران کیا، من جُملہ محمّد بن اشعث کے گھر کو خراب کیا اور اس کی باقیات (ملبہ و اسباب) سے علی کے وفادار ساتھی حجر بن عدی کا گھر بنوایا جس کو معاویہ نے خراب کر دیا تھا۔(١)

جناب مختار کے بارے میں اختلاف نظرہے بعض ان کو حقیقی شیعہ اور بعض انہیں جھوٹا جانتے ہیں ، ابن داؤد نے رجال میں مختار کے بارے میں اس طرح کہا ہے:

مختار ابو عبیدثقفی کا بیٹا ہے بعض علماء شیعہ نے ان کو کیسانیہ سے نسبت دی ہے اور اس بارے میں امام سجّاد کا مختار کا ہدیہ رد کرنے کوبطور دلیل پیش کیا گیا ہے لیکن یہ اس کی رد پر دلیل نہیں ہو سکتی ،کیونکہ امام محمّد باقر نے ان کے بارے میں فرما یا : مختار کو برا نہ کہو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا ہے اور اس نے نہیں چاہا کہ ہمارا خون پامال ہو ،ہماری لڑکیوں کی شادی کرائی اور سختی کے موقع پر ہمارے درمیان مال تقسیم کیا ۔

جس وقت مختار کا بیٹا ابو الحکم امام باقر کے پاس آیا امام نے اس کا کافی احترام کیا ابو الحکم نے اپنے باپ کے بارے میں معلوم کیا اور کہا :لوگ میرے باپ کے بارے میں کچھ باتیں کہتے ہیں لیکن آپ کی جو بات ہو گی وہ صحیح میرے لئے معیار ہوگی اس وقت امام نے مختار کی تعریف کی اور فرمایا :

'' سُبحان اللہ میرے والد نے مجھ سے کہا: میری ماں کا مہر اس مال میں سے تھا جو

____________________

(١)مقتل الحسین ، منشورات المفید ، قم ، ج ٢ ص ٢٠٢

۱۲۲

مختار نے میرے والد کو بھیجا تھا اور چند بار کہا: خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل کرے اس نے ہمارے حق کو ضائع نہیں ہونے دیا ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارا خون پامال نہیں ہونے دیا ''۔

امام صادق نے بھی فرمایا : ''جب تک مختار نے امام حسین کے قاتلوں کے سرقلم کر کے ہم تک نہیں بھیجااس وقت تک ہمارے خاندان کی عورتوں نے بالوں میں کنگھا نہیں کیا اور بالوں کو مہندی نہیں لگائی '' ۔

روایت میں ہے جس وقت مختار نے عبید اللہ ابن زیاد ملعون کا سر امام سجّاد کے پاس بھیجا امام سجدہ میں گر پڑے اور مختار کے لئے دعائے خیر کی، جو روایتیں مختار کی سرزنش میں ہیں وہ مخالفین کی بنائی ہوئی روایتیں ہیں ۔(١)

مُختار کی کیسانیہ سے نسبت کے بارے میں یا فرقۂ کیسانیہ کی ایجادمیں ، مختار کے کردار کے بارے میں آیةاللہ خوئی مختار کے دفاع اور کیسانیہ سے ان کی نسبت کی رد میں لکھتے ہیں :

بعض علماء اہل سنّت مختار کو مذہب کیسانیہ سے نسبت دیتے ہیں اور یہ بات قطعاً باطل ہے کیونکہ محمد حنفیہ خود مدعی امامت نہیں تھے کہ مختار لوگوں کو ان کی امامت کی دعوت دیتے مختار مُحمّد حنفیہ سے پہلے قتل ہو گئے اور محمّد حنفیہ زندہ تھے، اور مذہب کیسا نیہ محمّد حنفیہ کی موت کے بعد وجود میں آیا ہے لیکن یہ کہ مختار کو کیسانیہ کہتے تھے اس وجہ سے نہیں کہ ان کا مذہب کیسانی ہے اور بالفرض اس لقب کو مان لیا جائے تو یہ وہ روایت ہے کہ امیرالمومنین نے ان سے دو مرتبہ فرمایا:( یاکیس یا کیس) اسی کو صیغئہ تثنیہ میں کیسان کہنے لگے ۔(٢)

____________________

(١)رجال ابن دائود ، منشورات الرضی ، قم ص ٢٧٧

(٢)آیة اللہ سید ابو القاسم خوئی ،معجم رجال الحدیث، بیروت، ج ١٨، ص ١٠٢۔١٠٣

۱۲۳

مروانیوں کی حکومت ( سخت دور)

جیسا کہ بیان کر چکے امام سجّاد کے دور کا دوسرامرحلہ مروانی حکومت دور تھا بنی مروان نے عبداللہ بن زبیر کے قتل کے بعد ٧٣ ھ(١) میں اپنی حکومت کومستحکم کر لیا تھا ، اس نے اور اس دور میں ظالم و جابرحجّاج بن یوسف کے وجود سے فائد ہ اُٹھایاوہ دشمن کو ختم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی یہاں تک کہ کعبہ کو بھی مورد حملہ قرار دیا اس پر آگ کے گولے برسائے اور اس کو ویران کردیا اور بنی امیہ کے مخالفین کوچاہے وہ شیعہ ہو ں یا سُنّی جہاں کہیں بھی پایا فوراان کو قتل کردیا٨٠ ھ میں ابن اشعث نے قیام کیا مگر اس قیام سے بھی حجاج کو کوئی نقصان نہیں پہونچا(٢) ٩٥ ھ تک حجاز اور عراق میں اس کی ظالم

____________________

(١)ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ،منشورات الشریف الرضی ، قم، ١٤١٤ھ ج ٢ ص ٢٦٧

(٢)٨٠ھ میں با وجود اس کے کہ حجاج ، عبد الرحمن بن اشعث سے خوش نہیں تھا مگر سیستان اور زابلستان کا حاکم بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ رتبیل کو کہ جس نے سیستان پر حملہ کیا تھا اسے باہر بھگا دے ، عبد الرحمن جب وہاں پہونچا تو حملہ آوروں کو ٹھکانے لگادیا شہر میں امن و امان قائم کیا اس کے بعد بھی چونکہ حجاج نے مطالبہ تھاکہ دشمن کا تعاقب کرے جسے عبد الرحمن اور اس کے فوجیوں نے حجاج کی چال سمجھا لہٰذا وہ دشمن سے لڑنے کے بجائے حجاج پر ہی حملہ کرنے کے لئے عراق روانہ ہو گیا خوزستان کے علاقہ میں حجاج اور عبد الرحمن میں جنگ ہوئی، پہلے تو حجاج کے سپاہیوں کو شکست ہوئی عبد الرحمن نے اپنے کو عراق پہنچا دیا اور کوفہ پر قابض ہو گیا بصرہ کے بہت سے لوگوں نے بھی اس کی مدد کی، حجاج نے عبد الملک سے مدد طلب کی، شام سے لشکر اس کی مدد کے لئے روانہ ہوا لشکر کے پہنچنے پر حجاج نے دوبارہ حملہ کیا یہ شدید جنگ( دیر الجماجم )کے نام سے مشہور ہے، بصرہ اور کوفہ کے لوگ یہاں تک کہ قاریان و حافظان قرآن جو حجاج کے دشمن تھے عبد الرحمن کی نصرت کی، عبد الرحمن کے پاس اتنی بڑی فوج تھی کہ خود

عبد الملک کو خوف ہونے لگا اس نے لوگوں سے کہا : اگر لوگحجاج کو معزول کرنا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں لیکن عراق والوں نے اس کی سازش قبول نہ کی اور عبد الملک کو ہی معزول کر دیا، بڑی شدید جنگ ہوئی عبد الملک نے عبد الرحمن کے کچھ فوجیوں کو فریب دیا اورشب خون مار ا، ابن اشعث کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ فرار ہونے پر مجبور ہوئے اور رتبیل کے پاس پناہ حاصل کی، بعد میں رتبیل نے حجاج کے فریب اور لالچ میں آکر اسے قتل کر دیا اور سر کو حجاج کے پاس بھیجا ( مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت ، ١٤١٤ھ ق ، ج ٣ ص ١٤٨۔١٤٩، و شہیدی ، دکتر سید جعفر ، تاریخ اسلام تا پایان امویان ، مرکز نشر دانشگاہ تہران ، طبع ششم ، ١٣٦٥ھ ش، ص ١٨٥۔١٨٦

۱۲۴

حکومت قائم رہی۔(١)

امام سجّاد نے ایسے حالات میں زندگی گذاری اور دعائوں کے ذریعہ اسلامی معارف کو شیعوں تک منتقل کیا، ایسے وقت میں شیعہ یا تو فرار تھے یا زندان میں زندگی بسر کر رہے تھے یا حجاج کے ہا تھوں قتل ہورہے تھے یا تقیہ کرتے تھے اس بنا پر لو گو ں میں امام سجّاد سے نزدیک ہو نے کی جرأت نہیں تھی اورحضرت کے مددگار بہت کم تھے ، مرحوم علّا مہ مجلسی نقل کرتے ہیں : حجّاج بن یو سف نے سعید بن جبیر کو اس وجہ سے قتل کیا کہ اس کا ارتباط امام سجّاد سے تھا ۔(٢)

البتہ اس زمانے میں شیعوں نے سختیوں کی وجہ سے مختلف اسلامی سر زمینوں کی

____________________

(١) مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذہب ، ص ١٨٧

(٢)شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ، معروف بہ رجال کشی، موسسہ آل البیت ، لاحیاء التراث، قم ١٤٠٤ھ ج١ ص ٣٣٥

۱۲۵

طرف ہجرت کی جو تشیع کے پھیلنے کا سبب بنی، اسی زمانے میں کوفہ کے چند شیعہ قم کی طرف آئے اور یہا ں سکونت اختیار کر لی اور وہ تشیع کی ترویح کا سبب بنے۔(١)

امام محمد باقرکی امامت کا ابتدائی دور بھی حکومت امویان سے متصل تھا اس دور میں ہشّام بن عبد الملک حکومت کرتا تھاجو صاحب قدرت اور مغرور بادشاہ تھا، اس نے ا مام محمدباقر کو امام صادق کے ساتھ شام بلوایا اور ان کو اذیت وآزار دینے میں کسی قسم کی کو تاہی نہیں کی۔(٢)

اسی کے زمانے میں زید بن علی بن الحسین نے قیام کیا اور شہید ہو گئے اگرچہ عمر بن عبد العزیز کے دور میں سختیوں میں بہت کمی آگئی تھی لیکن اس کی مدت خلافت بہت کم تھی وہ دو سال اور کچھ مدت کے بعدسرّی طور پر(اس کو موت ایک معمہ رہی ) اس دنیا سے چلا گیا ، بنی امیہ اس قدر فشار اور سختیوں کے باوجود نور حق کو خاموش نہ کر سکے اور علی ابن ابی طالب کے فضائل ومناقب کومحو نہ کر سکے چونکہ یہ خدا کی مرضی تھی، ابن ابی الحدید کہتا ہے : ''اگر خدانے علی میں سر(راز) قرار نہ دیا ہوتاتوایک حدیث بھی ان کی فضیلت و منقبت میں موجودنہ ہوتی''اس لئے کہ حضرت کے فضائل نقل کرنے والوں پر مروانیوں کی طرف سے بہت سختی تھی۔(٣)

____________________

(١)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبد اللہ ، معجم البلدان ، دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت طبع اول ١٤١٧ھ ، ج ٧ ص ٨٨

(٢)طبری، محمد بن جریر بن رستم ، دلائل الامامہ منشورات المطبعة الحیدریہ، نجف ، ١٣٨٣ھ ص ١٠٥

(٣)محمد عبدہ ، شرح نہج البلا غہ، دار احیاء الکتب العربیہ، قاہرہ، ج ٤ ص ٧٣

۱۲۶

عباسیوں کی دعوت کا آغاز اورشیعیت کا فروغ

سن ١١١ھ سے عباسیو ں کی دعوت شروع ہو گئی(١) یہ دعوت ایک طرف تو اسلامی سر زمینوں میں تشیع کے پھیلنے کا سبب بنی تو دوسری طرف سے بنی امیہ کے مظالم سے نجات ملی جس کے نتیجہ میں شیعہ راحت کی سانس لینے لگے ،ائمہ معصومین علیہم السّلام نے اس زمانے میں شیعہ فقہ وکلام کی بنیاد ڈالی تشیّع کے لئے ایک دور کا آغاز ہوا ، کلّی طور پرامویوں کے زمانے میں فرزندان علی اور فر زندان عبّاس کے درمیان دو گا نگی کا وجود نہیں تھا کوئی اختلاف ان کے درمیان نہیں تھا جیسا کہ سیّد محسن امین اس سلسلے میں کہتے ہیں : ''ابنائِ علی اور بنی عباس، بنی امیہ کے زمانے میں ایک راستے پر تھے، لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ بنی عباس، بنی امیہ سے زیادہ خلافت کے سزا وار ہیں اور ان کی مدد کرتے تھے کہ نبی عباس لوگ شیعیان آل محمد کے نام سے یاد کئے جاتے تھے اس زمانے میں فر زندان علی و فرزندان عبّاس کے درمیان نظریات و مذہب کا اختلاف نہیں تھا لیکن جس وقت بنی عباس حکومت پر قابض ہوئے شیطان نے ان کے اور فرزندان علی کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا، انہوں نے فرزندان علی پر کا فی ظلم وستم کیا،(٢) اسی سبب سے داعیان فرزندان عبّاس لوگوں کو آل محمّد کی خشنو دی کی طرف دعوت دیتے تھے اور خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مظلومیت بیان کرتے تھے ۔

ابو الفرج اصفہانی کہتا ہے: ولید بن یزید کے قتل اور بنی مروان کے درمیان

____________________

(١) ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، ج ٢ ص ٣١٩

(٢)سید محسن امین ، اعیان الشیعہ ،دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ، ج ١ص ١٩

۱۲۷

اختلاف کے بعد بنی ہاشم کے مبلّغین مختلف جگہوں پرتشریف لے گئے اورانہوں نیجس چیز کا سب سے پہلے اظہار کیا وہ علی ابن ابی طالب اور ان کے فرزندوں کی فضیلت تھی،وہ لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ بنی امیہ نے اولاد علی کو کس طرح قتل کیا اور ان کو کس طرح دربدر کیا ہے،(١) جس کے نتیجہ میں اس دور میں شیعیت قابل ملاحظہ حد تک پھیلی یہا ں تک امام مہدی سے مربوط احادیث مختلف مقامات پر لوگوں کے درمیان کافی تیزی سے منتشر ہوئی داعیان عبّاسی کی زیادہ تر فعالیت وسر گرمی کا مرکز خراسان تھا اس بنا پر وہاں شیعو ں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ۔

یعقوبی نقل کرتا ہے : ١٢١ھ میں زید کی شہادت کے بعدشیعہ خراسان میں جوش وحرکت میں آگئے اور اپنی شیعیت کو ظاہرکرنے لگے بنی ہاشم کے بہت سے مبلّغین ان کے پاس جاتے تھے اور خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بنی امیہ کی طرف سے ہونے والے مظالم کو بیان کرتے تھے، خراسان کاکوئی شہر بھی ایسا نہیں تھا کہ جہاں ان مطالب کو بیان نہ کیا گیا ہواس بارے میں اچھے اچھے خواب دیکھے گئے ،جنگی واقعات کو درس کے طور پر بیان کیا جانے لگا ۔(٢)

مسعودی نے بھی اس طرح کے مطلب کو نقل کیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خراسان میں کس طرح شیعیت پھیلی وہ لکھتا ہے کہ١٢٥ھمیں یحییٰ بن زید جو زنجان میں قتل ہوئے تو لوگوں نے اس سال پیدا ہونے والے تمام لڑکوں کا نا م یحییٰ رکھا۔(٣)

____________________

(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ، ١٤١٦ھ ص ٢٠٧

(٢) ابن واضح ، ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، ج ٢ ص٣٢٦

(٣) مروج الذھب منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١٧ھ ج٣ ص ٢٣٦

۱۲۸

اگر چہ خراسان میں عبّاسیوں کا زیادہ نفوذتھا چنانچہ ابو الفرج، عبداللہ بن محمد بن علی ابی طالب کے حالات زندگی میں کہتا ہے: خراسان کے شیعو ں نے گمان کیا کہ عبداللہ اپنے باپ محمّد حنفیہ کے وارث ہیں کہ جو امام تھے اور محمد بن علی بن عبداللہ بن عبّاس کو اپنا جانشین قرار دیا اورمحمدکے جانشین ابراہیم ہوئے اور وراثت کے ذریعہ امامت عباسیوں تک پہونچ گئی۔(١)

یہی وجہ ہے کہ عباسیوں کی فوج میں اکثر خراسانی تھے اس بارے میں مقدسی کا کہنا ہے : جب خدا وند عالم نے بنی امیہ کے ذریعہ ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھا تو خراسان میں تشکیل پانے والے لشکر کو رات کی تاریکی میں ان پر مسلط کردیا حضرت مہدی کے ظہور کے وقت بھی آپ کے لشکر میں خراسانیوں کے زیادہ ہونے کا احتمال ہے ۔(٢)

بہر حال اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کالوگوں کے درمیان ایک خاص مقام تھا چنانچہ عباسیوں کی کامیابی کے بعد شریک بن شیخ مہری نامی شخص نے بخارا میں خانوادہ پیغمبر پر عباسیوں کے ستم کے خلاف قیام کیا اور کہا :ہم نے ان کی بیعت اس لئے نہیں کی ہے کہ بغیر دلیل کے ستم کریں اورلوگوں کا خون بہائیں اور خلاف حق کام انجام دیں چنانچہ یہ ابومسلم کے ذریعہ قتل کردیا گیا ۔(٣)

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی ،مقا تل الطالبین ، منشورات ؛شریف الرضی ، قم ١٤١٦ ص ١٣٣

(٢)مقدسی ، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ، ترجمہ دکتر علی نقی منزوی ، شرکت مولفان و مترجمان ایران ، ج٢ ص ٤٢٦۔٤٢٧

(٣) تاریخ یعقوبی، منشورات الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج ٢ ص ٣٤٥

۱۲۹

(ج) تشیع عصرامام باقر اور امام صادق علیہما السّلام میں

امام محمد باقر ـ کی امامت کا دوسرا دور اور امام صادق علیہما السّلام کی امامت کا پہلا دور عباسیوں کی تبلیغ اور علویو ں کے قیام سے متصل ہے علویوں میں جیسے زید بن علی ، یحییٰ بن زید ، عبداللہ بن معاویہ کہ جوجعفر طیّار کے پوتے ہیں ۔(١)

عباسیوں میں رہبری کا دعوی کرنے والے ابو مسلم خراسانی کا خراسان میں قیام جو لوگوں کو بنی امیہ کے خلاف ابھاررہے تھے۔(٢)

دوسری طرف بنی امیہ آپس میں اپنے طرفداروں کے درمیان مشکلات واختلافات کاشکار تھے اس لئے کہ بنی امیہ کے طرفداروں میں مصریوں اور یمنیوں کے درمیان بہت زیادہ اختلاف تھا، یہ مشکلات اور گرفتاریا ں سبب واقع ہوئیں کہ بنی امیہ شیعوں سے غافل ہو گئے جس پر شیعیوں نے سکون کا سانس لیا اور شدید تقیہ کی حالت سے باہر آئے تاکہ اپنے رہبروں سے رابطہ برقرار کر یں اور دوبارہ منظم ہوں ،یہ وہ دور تھا کہ جس میں لوگ امام باقر کی طرف متوجہ ہوئے اور ان نعمتوں سے بہرہ مند ہوئے کہ جس سے برسوں سے محروم تھے، حضرت نے مکتب اہل بیت کو زندہ رکھنے کے لئے قیام کیا اور لوگوں کی ہدایت کے لئے مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں درسی نششتیں اورجلسے تشکیل دیئے جو کہ لوگوں کے رجوع کرنے کا محل قرار پایا ان کی علمی اور فقہی مشکلات کواس طرح حل کرتے تھے کہ جو ان کے لئے حجت ہو ،قیس بن ربیع نقل کرتے ہیں کہ میں

____________________

(١) مقاتل الطالبین، منشورات الشریف الرضی ، قم ،ج٢ ص ٣٣٢

(٢)تاریخ یعقوبی، منشورات الشریف الرضی ، قم ،ج٢ ص ٣٣٣

۱۳۰

نے ابواسحاق سے نعلین پرمسح کرنے کے متعلق سوال کیا اس نے کہا :میں بھی تمام لوگوں کی طرح نعلین پر مسح کرتا تھا یہاں تک کہ بنی ہاشم کے ایک شخص سے ملاقات کی کہ میں نے ہر گز اس کے مثل نہیں دیکھا تھا اوراس سے نعلین پر مسح کرنے کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے مجھے اس کام سے منع کیا اور فرمایا امیر المو منین نعلین پر مسح نہیں کرتے تھے اس کے بعد میں نے بھی ایسا نہیں کیا ، قیس بن ربیع کہتے ہیں : یہ بات سننے کے بعد میں نے بھی نعلین پر مسح کرنا ترک کردیا۔

خوارج میں سے ایک شخص امام مُحمّد باقر کی خدمت میں آیا اور حضر ت کو مخاطب کر کے کہا: اے ابا جعفر !کس کی عبادت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: خُدا کی عبادت کرتا ہوں ،اس شخص نے کہا :کیا اس کو دیکھا ہے؟ فرمایا: ہاں لیکن دیکھنے والے اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے بلکہ بہ چشم قلب حقیقت ایمان سے اس کو دیکھا جا سکتا ہے، قیاس سے اس کی معرفت نہیں ہو سکتی حواس کے ذریعہ اس کو درک نہیں کیاجا سکتا،وہ لوگوں کی شبیہ نہیں ہے،وہ خارجی شخص امام کی بارگا ہ سے یہ کہتا ہوا نکلا کہ خُدا خوب جانتا ہے کہ رسالت کو کہاں قرار دے ۔

عمر و بن عبید ،طاؤس یمانی ،حسن بصری ، ابن عمرکے غلام نافع ،علمی وفقہی مشکلات کے حل کے لئے امام کی خدمت میں حاضر ہو تے تھے۔(١)

امام محمد باقر علیہ السلام جس وقت مکہ میں آتے تھے تو لو گ حلال و حرام کو جاننے کے لئے امام کے پاس آتے تھے اور حضرت کے پاس بیٹھنے کی فرصت کو غنیمت شمار کرتے تھے اور اپنے علم ودانش میں اضافہ کرتے تھے۔ سر زمین مکہ پر آپ کے حلقہ درس

____________________

(١)حیدر ، اسد،امام صادق و مذاہب اربع، دار الکتاب العربی ، طبع سوم ، ج١ ص ٤٥٢۔٤٥٣

۱۳۱

میں طالب علموں کے علاوہ اس زمانہ کے دانشمند بھی شریک ہوا کرتے تھے۔(١)

جس وقت ہشام بن عبد الملک حج کے لئے مکہ آیااور حضرت کے حلقۂ درس کو دیکھا تو اس پر یہ بات گراں گذری اس نے ایک شخص کو امام کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ امام سے یہ سوال کرے کہ لوگ محشر میں کیا کھائیں گے؟ امام نے جواب میں فرمایا: محشر میں درخت اور نہریں ہوں گی جس سے لوگ میوہ کھائیں گے اور نہر سے پانی پئیں گے یہاں تک کہ حساب و کتاب سے فارغ ہوجائیں ،ہشام نے دوبارہ اس شخص کو بھیجا کہ وہ امام سے سوال کرے کہ کیامحشر میں لوگوں کو کھانے پینے کی فرصت ملے گی ؟ امام نے فرمایا:جہنم میں بھی لوگوں کو کھانے پینے کی فرصت ہوگی اور اللہ سے پانی اور تمام نعمتوں کی درخواست کریں گے۔

زُرارہ کا بیان ہے امام باقرکے ہمراہ کعبہ کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا امام روبقبلہ تھے اور فرمایا: کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے اس وقت ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کعب الاحبارکا کہنا ہے کہ کعبہ بیت المقدس کو ہر روز صبح کو سجدہ کرتا ہے، حضر ت نے فرمایا: تم کیا یہ کہتے ہو اس شخص نے کہا :کعب سچ کہتا ہے، ا مام ناراض ہو گئے اور فرمایا: تم اور کعب دونوں جھو ٹ بو لتے ہو ۔(٢)

حضرت کے محضراقدس میں بزرگ علمائ،فقہا اور محدّثین نے تربیت پائی ہے جیسے زُرارہ بن اعین کہ جن کے بارے میں امام صادق نے فرمایاہے: اگر زُرارہ نہ

____________________

(١)علامہ مجلسی ، محمد باقر ،بحار الانوار،مکتبة الاسلامیہ، ج ٢٦، ص ٣٥٥

(٢)حیدر ، اسد ، امام صادق و مذاھب اربعہ ، دار الکتاب العربی ، طبع سوم ، ج ١ ص ٤٥٢۔ ٤٥٣

۱۳۲

ہوتے تو میر ے والد کی احادیث کے ختم ہو جانے کا احتمال تھا۔(١)

محمدبن مسلم نے امام محمد باقرسے تیس ہزار حدیثیں سنی تھیں(٢) ابو بصیر جن کے بارے میں امام صادق ـنے فرمایا:اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو آثار نبوت پرانے ہو جاتے یا قطع ہو جاتے(٣) اور دوسرے بزرگ جیسے یزید بن معاویہ عجلی ،جابر بن یزید ، حمران بن اعین ، ہشّام بن سالم حضر ت کے مکتب کے تربیت یافتہ تھے ، شیعہ علماء کے علاوہ بہت سے علمائے اہل سنّت بھی امام کے شاگرد تھے اور حضرت سے روایتیں نقل کی ہیں ، سبط ابن جوزی کہتا ہے :جعفر اپنے باپ کے حوالے سے حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نقل کرتے تھے، اسی طرح تا بعین کی کچھ تعداد نے جیسے عطا بن ابی رباح، سفیان ثوری ، مالک بن انس (مالکی فرقہ کے رہنما) شعبہ اور ابو ایوب سجستانی نے حضرت کی طرف سے حدیثیں نقل کی ہیں(٤) خلاصہ یہ کہ حضرت کے مکتب سے علم فقہ وحدیث کے ہزاروں علماء و ماہرین نے کسب فیض کیا اور ان کی حدیثیں تمام جگہ پھیلیں بزر گ محدّث جابر جعفی نے ستّر ہزارحدیثیں حضرت سے نقل کی ہیں(٥) حضرت نے ١١٤ھ میں ساتویں ذی الحجہ کوشہادت پائی ۔(٦)

____________________

(١)شیخ طوسی اختیارمعرفة الرجال،ج ١ ص ٣٤٥

(٢)شیخ طوسی ، اختیا ر معرفة الرجال ،ج ١ ص ٣٨٦

(٣)شیخ طوسی ، اختیا ر معرفة الرجال ،ج ١ ص٣٩٨

(٤) ابن جوزی ، تذکرة الخواص ، منشورات شریف الرضی ، قم ، ١٣٧٦ھ ش، ١٤١٨ھ ص ٣١١

(٥) تاریخ الشیعہ ، ص ٢٢

(٦)کلینی، اصول کافی ،دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ١٣٦٣ھ ش، ج١ ص ٧٢

۱۳۳

جعفریہ یونیورسٹی

امام صادق کوایک مناسب سیاسی موقع فراہم ہوا تھا کہ جس میں انہوں نے اپنے والد کی علمی تحریک کو آگے بڑھایا اور ایک عظیم یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی کہ جس کی آوازپورے آفاق میں گونج گئی ۔

شیخ مفید لکھتے ہیں : حضرت سے اتنی مقدار میں علوم نقل ہوئے کہ زبان زدخلائق تھے امام کی آواز تمام جگہ پھیل گئی تھی، خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے کسی فرد سے اتنی مقدار میں علوم نقل نہیں ہوئے ہیں ۔(١)

امیر علی حضرت کے بارے میں لکھتے ہیں : علمی مباحث اور فلسفی مناظروں نے تمام مراکز اسلامی میں عمومیت پیدا کرلی تھی اور اس سلسلے میں جو رہنمائی اور ہدایت دی جاتی تھی وہ فقط اس یونیورسٹی کی مرہون منت تھی جو مدینہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے زیر نظر تھی ،آپ امیر المومنین کی اولاد میں سے تھے نیز ایک عظیم وبزرگ دانشور تھے کہ جن کی نظر دقیق اور فکر عمیق تھی اس دور میں تمام علوم کے متبحرتھے، در حقیقت اسلام میں دانشکدئہ شعبۂ معقولات کے بانی تھے۔(٢)

اس بنا پر علم و دانش کے چاہنے والے اور معارف محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تشنہ لب افراد جوق در جوقمختلف اسلامی سر زمینوں سے امام کی طرف آتے اور تمام علوم و حکمت کے

____________________

(١)شیخ مفید ، الارشاد ، ترجمہ ، محمد باقر ساعدی ، خراسانی ، کتاب فروشی الاسلامیہ ،تہران ١٣٧٦ھ ش ، ص ٥٢٥

(٢) امیر علی ، تاریخ عرب و اسلام،ترجمہ فخر داعی گیلانی ،انتشارات گنجینہ ، تہران ، ١٣٦٦ ھ ،ش، ص ٢١٣

۱۳۴

چشمہ سے بہرہ مند ہوتے تھے ، سید الاہل کہتے ہیں :

کوفہ، بصرہ، واسط اور حجاز کے ہر قبیلہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو جعفر بن محمد کی خدمت میں بھیجا عرب کے اکثر بزرگان اور فارسی دوست بالخصوص اہل قم حضر ت کے علم کدے سے شرفیاب ہوئے ہیں ۔(١)

مرحوم محقق، معتبر میں لکھتے ہیں :امام صادق کے زمانے میں اس قدر علوم منتشر ہوئے کہ عقلیں حیران ہیں ، رجا ل کی ایک جماعت میں چار ہزار افراد نے حضرت سے روایتیں نقل کی ہیں اور ان کی تعلیمات کے ذریعہ کافی لوگوں نے مختلف علوم میں مہارت پیدا کی ، یہا ں تک کہ حضر ت کے جوابات اورلوگوں کے سوالات سے چارسو کتابیں معرض وجود میں آگئیں کہ جن کو اصولاربعہ ماة کا نام دیا گیا ۔(٢)

شہید اوّل بھی کتاب ذکریٰ میں فرماتے ہیں : امام صادق علیہ السلام کے جوابات لکھنے والے عراق و حجاز اور خُراسان کے چار ہزار افراد تھے۔(٣)

حضرت کے مکتب کے برجستہ ترین دانشمند جو مختلف علوم منقول و معقول کے ماہر تھے جیسے ہشّام بن حکم ، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم ، مومن طاق مفضل بن عمر ،جابر بن حیا ن و غیرہ ۔

ان کی تصنیف جو اصول اربع مائةکے نام سے مشہور ہے جو کافی، من لا یحضر ہ الفقیہ،تہذیب،استبصار کی اساس و بنیاد ہے ۔

____________________

(١)حیدر ، اسد،الامام الصادق والمذاہب الاربعة، طبع سوم ، ١٤٠٣ ھ، ق

(٢)المعتبر ،طبع سنگی، ص ٤۔٥

(٣)ذکری،طبع سنگی ، ص ٦

۱۳۵

امام صادق کے شاگر د صرف شیعہ ہی نہیں تھے بلکہ اہل سنّت کے بزرگ دانشوروں نے بھی حضرت کی شاگردی اختیارکی تھی، ابن حجر ہیثمی اہل سنّت کے مصنف اس بارے میں لکھتے ہیں : فقہ وحدیث کے بزرگ ترین پیشوا جیسے یحییٰ بن سعد ، ابن جریح مالک ، سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ، ابو حنیفہ، شعبی وایوب سجستانی وغیرہ نے حضرت سے حدیثیں نقل کی ہیں ۔(١)

ابو حنیفہ حنفی فرقہ کے پیشوا کہتے ہیں : ایک مدت تک جعفر بن محمد کے پاس رفت و آمدکی، میں ان کوہمیشہ تین حالتوں میں سے کسی حالت میں ضرور دیکھتا تھا یا نماز میں مشغول ہو تے تھے یا روزہ دار ہواکرتے تھے یا تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہتے تھے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے بغیر وضو کے حدیث نقل کی ہو ،(٢) علم وعبادت اور پرہیزگاری میں جعفر بن محمد سے بر تر نہ آنکھوں نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی کے بارے میں دل میں ایسا تصور پیدا ہوا ۔(٣)

آپ کے درس میں صرف وہی لوگ شریک نہیں ہوئے کہ جنہوں نے بعد میں مذاہب فقہی کی بنیا د رکھی بلکہ دور ودراز کے رہنے والے فلاسفرا ور فلسفہ کے طالب علم آپ کے درس میں حاضرہوتے تھے، انہوں نے اپنے امام سے علوم حاصل کرنے کے بعداپنے وطن ایسی درسگاہیں تشکیل دیں کہ جس میں مسلمان ان کے گرد جمع ہوتے تھے

____________________

(١)الصواعق المحرقة ، مکتبة القاہرہ ، ١٣٨٥ھ ،ص ٢٠١

(٢)ابن حجر عسقلانی ، تہذیب ، دار الفکر ، بیروت ، طبع اول ، ١٤٠٤ھ ،ق ،ج ١ ص ٨٨

(٣)حیدر ، اسد ،الامام الصادق و المذاھب الاربعہ،دار الکتب العربیہ ، بیروت، ج١ ص ٥٣

۱۳۶

اور یہ لوگ معارف اہل بیت سے لوگوں کو سیراب کرتے تھے اور تشیع کو فروغ دیتے تھے، جس وقت ابان بن تغلب مسجد بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تشریف لاتے تو لوگ اس ستون کو کہ جس سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تکیہ لگا تے تھے ان کے لئے خالی کردیتے تھے اور وہ لوگوں کے لئے حدیث نقل کرتے تھے، امام صادق نے ان سے فرمایا: آپ مسجد نبوی میں بیٹھ کے فتویٰ دیجیے میں دوست رکھتا ہو ں کہ میرے شیعوں کے درمیان آپ جیسے شخص دیکھنے میں آئیں ۔

ابان پہلے شخص ہیں جنہوں نے علوم قرآن کے بارے میں کتاب تالیف کی ہے اور علم حدیث میں بھی انہیں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ آپ مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تشریف فرما ہوتے اور لوگ آآکر آپ سے طرح طرح کے سوالات کرتے تھے اور مختلف جہت سے ان کے جوابات دیتے تھے مزید احادیث اہل بیت کوبھی ان کے درمیان بیان کرتے تھے ،(١)

ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں : ابان کے مثل افراد جو تشیع سے متہم ہیں اگر ان کی حدیث رد ہو جائے تو کافی آثار نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ختم ہو جائیں گے ۔(٢)

ابو خالد کابلی کا بیان ہے: ابو جعفر مومن طاق کو مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بیٹھے ہوئے دیکھا مدینہ کے لوگوں نے ان کے اطراف میں ہجوم کر رکھا تھا، لوگ ان سے سوال کر رہے تھے، اور وہ جواب دے رہے تھے۔(٣)

____________________

(١)حیدر ، اسد، الامام الصادق و المذاھب الاربعہ، ج١ ص ٥٥

(٢)ذہبی ، شمس الدین محمد بن احمد ،میزان الاعتدال ، دار المعرفة، بیروت ،ج١ ص ٤

(٣)شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال ، ج ٢ ص ٥٨١

۱۳۷

شیعیت اس دور میں اس قدر پھیلی کہ بعض لوگوں نے اپنی اجتماعی حیثیت کے چکر میں اپنی طرف سے حدیث جعل کرنا شروع کردیا اور احادیثِ ائمہ طاہرین کی بیجاتاویل کرنے لگے نیزاپنے نفع میں روایات ائمہ کی تفسیر کر نے لگے ،جیسا کہ امام صادق نے اپنے صحابی فیض ابن مختار سے اختلاف احادیث کے بارے میں فرمایا :وہ ہم سے حدیث اور اظہار محبت میں رضائے خُدا طلب نہیں کرتے بلکہ دنیا کے طالب ہیں اور ہر ایک اپنی ریاست کے چکر میں لگا ہوا ہے۔(١)

شیعہ عبّاسیو ں کے دور میں

شیعیت ١٣٢ ھ یعنی عباسیوں کے آغازسے غیبت صُغریٰ کے آخریعنی ٣٢١ ھ تک امویوں کے دور کی بہ نسبت زیادہ پھیلی، شیعہ دور و دراز کے علاقہ میں منتشر اوربکھرے ہوئے تھے جیسا کہ ہارون کے پاس امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شکایت کی جاتی تھی کہ دنیا کے مشرق ومغرب سے آپ کے پاس خُمس آتا ہے،(٢) جس وقت امام رضا نیشا پورآئے دو حافظان حدیث جن میں ابو زرعہ رازی اور محمد بن مسلم طوسی اور بے شما رطالبان علم حضرت کے ارد گرد جمع ہو گئے اور امام سے خواہش ظاہرکی کہ اپنے چہرئہ انور کی زیارت کرائیں اس کے بعد مختلف طبقات کے لوگ جو ننگے پائوں کھڑے ہوئے تھے ان کی آنکھیں حضرت کے جمال سے روشن ہوگئیں ، حضرت نے حدیث سلسلة الذہب ارشاد فرمائی بیس ہزار کاتب اور صاحبان قلم نے اس حدیث کو لکھا۔(٣)

____________________

(١)شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ، ج ٢ ص٣٤٧

(٢) شیخ مفید ،الارشاد،ترجمہ محمد باقر ساعدی ، خراسانی ، کتاب فروشی اسلامیہ ، ١٣٧٦ھ، ص ٥٨١

(٣)شیخ صدوق ، عیون اخبار الرضا ،طبع قم ، ١٣٧٧ ھ ق، ج٢ ص ١٣٥

۱۳۸

اسی طرح امام رضا نے ولی عہدی قبول کر نے کے بعد مامون سے کہ جو حضرت سے بہت کچھ توقع رکھتاتھا،اس کے جواب میں فرمایا: اس ولی عہد ی نے میری نعمتو ں میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے جب میں مدینہ میں تھا تو میرالکھاہوا شرق وغرب میں اجر ا دہوتا تھا۔(١)

اسی طرح ابن داؤد جو فقہا ئے اہل سنّت میں سے تھا اور شیعوں کا سرسخت مخالف اور دشمن تھا اس کا اعتراف کر نا بھی اہمیت کا حامل ہے اس سے پہلے کہ معتصم عباسی چور کے ہاتھ کاٹنے کے بارے میں امام جواد کی رائے کو فقہا ئے اہل سنت کے مقابلہ میں قبول کرے ،ابن داؤد تنہائی میں اس کومشورہ دیتا ہے کہ کیوں اس شخص کی بات کو کہ آدھی امت جس کی امامت کی قائل ہے درباریوں ، وزیروں ،کاتبوں اور تمام علما ئے مجلس کے سامنے ترجیح دیتے ہیں ،(٢) یہا ں تک کہ شیعیت حکومت بنی عباس کے فرمانروائوں اور حکومت کے لوگوں کے درمیان بھی پھیل گئی تھی جیسا کہ یحییٰ بن ہر ثمہ نقل کرتا ہے۔

عباسی خلیفہ متوکل نے مجھے امام ہادی کو بلانے کے لئے مدینہ بھیجا جس وقت میں حضرت کو لے کر اسحاق بن ابراہیم طاہری کے پاس بغداد پہنچا جو اس وقت بغداد کا حاکم تھاتو اس نے مجھ سے کہا: اے یحییٰ! یہ شخص رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خُدا کا فرزند ہے ،تم متوکل کو بھی پہچانتے ہو اگر تم نے متوکل کو ان کے قتل کے لئے برانگیختہ کیا تو گویا تم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خُدا سے دشمنی کی، میں نے کہا: میں نے اس سے نیکی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ،اسکے بعد میں

____________________

( ١) علامہ مجلسی ،بحار الانوار،مکتبة الاسلامیہ ،تہران ، ١٣٥٨ھ ق ،ج٤٩،ص ١٥٥

(٢) علّامہ مجلسی ،بحارر الانوار، ج٠ ٥، ص٦

۱۳۹

سامرہ کی طرف روانہ ہو ا جس وقت میں وہاں پہونچا سب سے پہلے وصیف ترکی کے پاس گیا اس نے بھی مجھ سے کہا،(١) اگر اس شخص کے سر کا ایک با ل بھی کم ہو گیا تو تم میرے مقابلہ میں ہو۔(٢)

سیّد محسن امین نے اپنی کتاب کی پہلی جلد میں عباسی حکومت کے چند افراد کو شیعوں میں شمار کیا ہے منجملہ ان میں سے ابو سلمہ خلال ہیں(٣) کہ جو خلافت عباسی کے پہلے وزیر تھے اور وزیر آل محمد کے لقب سے مشہور تھے ، ابو بجیر اسدی بصری منصور کے زمانے میں بزرگ فرمانروائوں میں محسوب ہوتے تھے، محمد بن اشعث ہارون رشیدکے وزیر تھے اور امام کاظم کی گرفتاری کے وقت اسی شخص سے منسوب داستان ہے جو اس کے شیعہ ہونے پر دلالت کرتی ہے، علی بن یقطین ہارون کے وزیروں میں سے تھے،اسی طرح یعقوب بن داؤد مہدی عباسی کے وزیر اور طاہر بن حسین خزاعی مامون کے دور میں خراسان کے حاکم اور بغداد کے فاتح تھے ،اسی وجہ سے حسن بن سہل نے ان کو ابی السرایا کی جنگ میں نہیں بھیجا۔(٤)

اسی طرح بنی عباس کے دور میں من جملہشیعہ قاضیوں کی فہرست یوں ہے:

____________________

(١)ترک کے سردار وں میں سے

(٢) مسعودی، مروج الذھب ، منشورات موسسئہ الا علمی للمطبوعات، بیروت ، طبع اول ، ج ٤، ص ١٨٣

(٣) البتہ کچھ صاحبان نظر اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر ابو سلمہ کے شیعہ ہونے کی دلیل وہ خط ہے کہ جو امام صادق کی خدمت لکھا گیا تھاتویہ دلیل نہیں ہے کیو نکہ اس اقدام کو ایک سیاسی اقدام تصور کیاگیا ہے ، رجوع کیا جائے پیشوائی ،مہدی ، سیرئہ پیشوایان ،موسسئہ امام صادق ، طبع چہارم ، ١٣٧٨، ص٣٧٨

(٤)اعیان الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات ، بیروت ،ج ١ ص ١٩١

۱۴۰