تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 75985
ڈاؤنلوڈ: 3630

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 75985 / ڈاؤنلوڈ: 3630
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

شریک بن عبداللہ نخعی کوفہ کے قاضی اورواقدی مشہور مورّخ جو مامون کے دور میں قاضی تھے ،(١) یہاں تک کہ تشیع ان مناطق میں کہ جہاں پر عباسیوں کارسوخ و نفوذ تھااس قدر پھیل گئی تھی کہ ان کو بڑا خطرہ لا حق ہونے لگاتھا جیسا کہ امام کاظم کی تشییع جنازہ کے موقع پر سلیمان بن منصورکہ جوہارون کا، چچا تھااس نے شیعوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جوکافی تعداد میں جمع تھے آپ کے جنازہ میں پا برہنہ شرکت کی۔(٢)

اسی طرح جس وقت امام جواد شہید ہوئے وہ چاہتے تھے کہ ان کو مخفی طور پر دفن کردیں لیکن شیعہ باخبر ہو گئے اور بارہ ہزار افراد مسلح ہوکرہاتھوں میں تلوار لئے گھروں سے باہر آگئے اور عزت و احترام کے ساتھ حضرت کے جنازہ کی تشییع کی(٣) امام ہادی کی شہادت کے موقع پر بھی شیعوں کی کثرت کی بنا پر اور بہت کافی گریہ و بکا کی وجہ سے مجبور ہوئے کہ حضرت کو ان کے گھر میں دفن کردیں ۔(٤)

امام رضاعلیہ السلام کے دور کے بعدعباسی خُلفا نے فیصلہ کیا کہ ائمہ طاہرین کے ساتھ اچھی رفتار سے پیش آئیں تاکہ شیعوں کے غصّہ کا سبب نہ بنیں ، اسی بنا پرمام رضا کو ہارون کے دور میں نسبتاً آزادی حاصل تھی اور آپ نے شیعوں کے لئے علمی ا و رتبلیغی

____________________

(١) اعیان الشیعہ، دار التعارف ، للمطبوعات ،بیروت ،ص١٩٢۔١٩٣ ،( البتہ واقدی کامحققین کے درمیان تشیع کے بارے میں اختلاف ہے )

(٢) امین، سید محسن،اعیان شیعہ ،دارالتعارف للمطبوعات ،بیروت ،ج ١ ،ص ٢٩

(٣) حیدر، اسد، الامام الصادق والمذاہب ا لا ربعہ ، دار الکتاب عربی، بیروت ،طبع سوم، ج١ ، ص٢٢٦

(٤)ابن واضح، تاریخ یعقوبی، منشورات شریف الرضی ، قم ،ج٢ ،ص٤٨٤

۱۴۱

فعالیت وسر گرمیاں بھی انجام دیں نیز اپنی امامت کا کھل کر اعلان کیا اور تقیہ سے باہر آئے مزید دوسرے تمام فرق و مذاھب کے اصحاب سے بحث وگفتگو کی، اور ان میں سے بعض کوجواب سے مطمئن کیا جیسا کہ اشعری قمی نقل کرتا ہے: امام کاظم اور امام رضا کے زمانے میں اہل سنّت فرقہ سے مرحبۂ اور زیدیوں کے چند افراد شیعہ ہو گئے اور ان دو اماموں کی امامت کے قائل ہوگئے۔(١)

بعض خُلفائے عباسی کی کوشش یہ تھی کہ ائمہ طاہرین کو اپنی نظارت میں رکھیں تاکہ ان پر کنٹرول کر سکیں ، ان حضرات کو مدینہ سے لاتے وقت اس بات کی کوشش کی کہ ان کو شیعہ نشین علاقہ سے نہ گذارا جائے ،اسی وجہ سے امام رضا کو مامون کے دستور کے مطابق'' بصرہ'' ،''اہواز'' اور'' فارس'' کے راستے سے مرو لے گئے نہ کہ کوفہ،جبل ا ور قم کے راستے سے کیونکہ یہ شیعوں کے علاقے تھے۔(٢)

یعقوبی کے نقل کے مطابق جس وقت امام ہادی علیہ السلام کو متوکل عباسی کے دستور کے مطابق سامرّہ لے جایا گیا توجس وقت آپ بغداد کے نزدیک پہنچے تب اس بات سے باخبر ہوئے کہ کافی تعداد میں لوگ امام کے دیدار کے منتظر ہیں یہ لوگ وہیں ٹھہر گئے اور رات کے وقت شہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے سامرہ گئے ،(٣)

عباسیوں کے دور میں شیعہ حضرات ،دور د ر از اور مختلف مناطق میں پراگندہ

____________________

(١)المقا لات و الفرق، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی ، تہران ، ص٩٤

(٢)پیشوائی ، مھدی ،سیرئہ پیشوایان ، موسسئہ امام صادق ، طبع ھشتم، ١٣٧٨ھ ش ، ص ٤٧٨

(٣)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، ج ٢، ص ٥٠٣

۱۴۲

تھے ائمہ طاہرین نے وکالت کے نظام کی داغ بیل ڈالی اور مختلف مناطق اور شہروں میں اپنے نائب اور وکیل معین کئے تاکہ ان کے اور شیعوں کے درمیان رابطہ قائم ہوسکے، یہ مطلب امام صادق کے زمانے سے شروع ہوا اس وقت خلفا کا کنٹرول ائمہ طاہرین پر جتنا شدید ہو تا گیا اتنی ہی شیعو ں کی دسترسی اماموں تک مشکل ہوتی گئی اور اسی اعتبار سے وکالت اور وکیلوں کے نظام کی اہمیت میں اضافہ ہوتاگیا ، کتاب تاریخ عصر غیبت میں آیا ہے کہ مخفی کمیٹیو ں کے پھیلنے اورتقویت پانے کا سب سے اہم ترین سبب وکلا ہیں ،یہ نظام امام صادق کے زمانے سے شروع ہوا اور عسکریین کے دور میں اس میں بہت زیادہ ترقی اور وسعت ہوئی۔(١)

استاد پیشوائی اس بارے میں لکھتے ہیں : شیعہ ائمہ جن بحرانی شرائط سے عباسیوں کے زمانے میں رو برو تھے وہ سبب بناکہ ان کی پیروی کرنے والوں کے درمیان رابطہ برقرار کرنے کے لئے نئے وسائل کی جستجوکی جائے اور ان کی بروئے کار لایا جائے اور یہ وسائل وکالت کے ارتباط اور نمائندوں سے رابطہ نیز وکیلوں کا تعین کرنا مختلف مناطق میں امام کے توسط سے تھا، وکلا اورنمائندوں کے معین کرنے کا مقصد مختلف مناطق سے خمس و زکوٰة،ہدایا اورنذورات کی رقم کا جمع کرنا تھا اور وکلاکے توسط سے لوگوں کی طرف سے ہونے والی فقہی مشکل اور عقیدتی سوالات کا امام کو جواب دینا تھا چنانچہ اس طرح کی کمیٹیاں امام کے مقاصدکوآگے بڑھانے میں کافی مؤثر رہیں ۔(٢)

____________________

(١) پور طبا طبائی ،سید مجید ، تاریخ عصر غیبت ، مرکز جہانی علوم اسلامی ، ص ٨٤

(٢)پیشوائی ، مہدی،تاریخ عصر غیبت ،ص ٥٧٣

۱۴۳

وہ مناطق اور علاقے کہ جہاں امام کے وکیل ا و ر نائب ہوا کرتے تھے وہ مندرجہ ذیل ہیں ، کوفہ ، بصر ہ ، بغداد قم،و ا سط، اہواز ،ہمدان ،سیستان ، بست ،ری ، حجاز ، یمن ، مصر ا و رمدائن ۔(١)

شیعہ مذہب چوتھی صدی ہجری میں ،شرق وغرب اور اسلامی دنیا کے تمام مناطق میں اتنی اوج اور بلندی پیدا کر چکا تھا کہ اس کے بعد اور اس سے پہلے ایسی وسعت دیکھنے میں نہیں آئی مقدسی نے شیعہ نشین شہروں کی فہرست اس دور کے اسلامی سر زمین میں جو پیش کی ہے وہ اس مطلب کی طرف نشاندہی کرتی ہے ، ہم اس کی کتاب سے وہ عبارت نقل کرتے ہیں جس میں اس نے ایک جگہ کہا ہے: یمن ، کرانہ ، مکہ اور صحار میں اکثر قاضی معتزلی اور شیعہ تھے۔(٢)

جزیرة العرب میں بھی کافی شیعیت پھیلی ہوئی تھی،(٣) اہل بصرہ کے ارد گردرہنے والوں کے بارے میں ملتا ہے کہ اکثر اہل بصرہ قدری ،شیعہ ، معتزلی یاپھر حنبلی تھے(٤) کوفہ کے لوگ بھی اس صدی میں کناسہ کے علاوہ سب شیعہ تھے ،(٥)

____________________

(١)رجال نجاشی،دفتر نشر فرہنگ اسلامی ،وابستہ جامع مدر سین ،قم ،١٤٠٤ھ ص ٣٤٤، ٧٩٧، ٨٠٠، ٨٢٥،٨٤٧

(٢) مقدسی ، ابو عبداللہ محمد بن احمد ، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم،ترجمہ منذوی، شرکت مؤلفان ، ومترجمان، ایران، ١٣٦١ ،ج ١ ،ص ١٣٦

(٣)احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ،ص ١٤٤

(٤)گزشتہ حوالہ ،ص١٧٥

(٥)گزشتہ حوالہ ،ص ١٧٤

۱۴۴

موصل کے علاقوں میں بھی کچھ شیعہ موجود تھے ،(١) اہل نابلس ، قدس اور عُمان میں بھی شیعوں کی اکثریت تھی ،(٢) قصبہ فسطاط او ر صند فا کے لوگ بھی شیعہ ہی تھے(٣) سندہ کے شہر ملتان میں بھی شیعہ تھے کہ جو اذان واقامت میں ہرفقرے کو دو بار پڑھتے ہیں ۔(٤)

اہواز میں شیعہ اور سنی کے درمیان حالات کشیدہ رہے اورجنگ تک نوبت پہونچ گئی۔(٥)

مقریزی نے بھی حکومت آل بویہ اور مصری فاطمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے رافضی مذہب مغرب کے شہروں میں شام ، دیار بکر ، کوفہ ، بصرہ ، بغداد ، پورے عراق، خراسان کے شہر، ماوراء النہراور اسی طرح حجاز، یمن، بحرین، میں پھیل گیا ، ان کے اور اہل سنت کے درمیان اس قدر جنگیں ہوئیں کہ جن کو شمارنہیں کیا جا سکتا ،(٦) اس صدی میں بغداد میں بھی اکثر شیعہ ہی تھے جب کہ بغدادبنی عباس کی خلافت کا مرکز تھا اور جتنا ہو سکتا تھا روز عاشو را کھل کر آزادانہ طور پر عزاداری کرتے تھے ،جیسا کہ ابن کثیر کا بیان ہے شیعوں کی کثرت اورحکومت آل بویہ کی حمایت کی بنا پر اہل سنت ان کو اس

____________________

(١)گزشتہ حوالہ ، ص ٢٠٠

(٢) گزشتہ حوالہ ، ص ٢٢٠

(٣) گزشتہ حوالہ ، ص٢٨٦

(٤) گزشتہ حوالہ،ج٢ ،ص ٧٠٧

(٥) احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ،ج٢ ،ص ٦٢٣

(٦)مقریزی ،تقی الدین ابن العباس احمد بن علی ، المواعظ و الاعتبار بذکر الخطط و الآثار ''المعروف با لخطط المقریزیہ ''دار الکتب العلمیہ ، بیروت ،طبع اوّل ، ١٤١٨،ج ٤ ،ص ١٩١

۱۴۵

عزاداری سے نہیں روک سکے،(١) اس زمانے میں شیعوں کے لئے اتنا زیادہ راستہ ہموار ہو گیا تھا کہ اکثر اسلامی سرزمینیں شیعہ حاکموں کے زیر تسلط تھیں ، ایران کے شمال میں ، گیلان اور مازندران میں طبرستان کے علوی حکومت کرتے تھے ،مصر میں فاطمی ، یمن میں زیدی ، شمال عراق او ر سوریہ میں حمدانی اور ایران وعراق میں آل بویہ حکومت کرتے تھے ، البتہ بعض عباسی خلفا جیسے مھدی ، امین ، مامون، معتصم واثق اور منتصر ان کے زمانے میں شیعہ نسبتاً عملی طورسے آزاد تھے، ان خلفا کے زمانے میں پہلے کی بہ نسبت سخت گیری کم ہو گئی تھی ، یعقوبی کے نقل کے مطابق مھدی عباسی نے طالبیان او ر شیعوں کو کہ جو زندان میں تھے آزاد کر دیا تھا ۔(٢)

امین کی پنج سالہ دور حکومت میں بھی عیش ومستی اور اپنے بھائی مامون سے جنگ میں مشغول ہونے کی وجہ سے شیعوں پر سختی کم تھی مامون ، معتصم، واثق ، اور معتضدعباسی بھی شیعیت کی طرف مائل تھے ،لیکن متوکل خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شیعوں کا سخت ترین دشمن تھا اگر چہ اس کے دور میں شیعہ کنٹرول کے قابل نہیں تھے اس کے باو جود بھی و ہ زیارت قبر امام حسین علیہ السلا م سے روکتا تھا ۔(۳)

ابن اثیرکا کہناہے: متوکل اپنے سے پہلے خلفا، جیسے مامون ، معتصم ، واثق جو علی ا و ر خاندان علی سے محبت کا اظہار کرتے تھے ان سے دشمنی رکھتا تھا اور جن کا شمار دشمنان علی میں

____________________

(١)البدایہ والنھایہ، بیروت ، ١٩٦٦، ج ١١، ص٢٤٣

(٢) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی ، منشورات شریف الرضی ، قم ، ج ٢ ، ص ٤٠٤

(٣)طبری ،محمد بن جریر ،تاریخ طبری، دارالکتب العلمیة ،بیروت،ج٥ ص٣١٢

۱۴۶

ہوتاتھا مثلاً شامی شاعر علی بن جہم ، عمر بن فرج ، ابو سمط اور مروان بن ابی حفصہ کی اولادیں کہ جو بنی امیہ کا دم بھرتی تھیں اسی طرح عبداللہ بن محمد بن داؤد ھاشمی کہ جو ناصبی اور دشمن علی تھا اس کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا(١) اس دور میں ناصبی اور بے دین شاعروں میں متوکل سے نزدیکی کی وجہ سے یہ جرأت پیدا ہوگئی تھی کہ خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اشعار کہنے لگے، لیکن متوکل کے جانشین منتصر نے اس روش کے خلاف کام کیا اور شیعوں کو عملی آزادی دی اور قبر امام حسین کی تعمیر کرائی اور زیارت کی ممانعت کو بر طرف کر دیا ۔(٢)

اس دور کے شاعر بحتری نے اس طرح کہا ہے:

انّ علیاًلاولی بکم

وازکی یداًعند کم من عمر(٣)

عمر کی بہ نسبت حضرت علی علیہ السلام زیادہ مقرب و مقدس ہیں ۔

عبّاسی خلفاء کی شیعہ رہبروں پرکڑی نظر

عباسی حکومت نے ٣٢٩ھ تک کلی طور پر ایرانی وزرا ء اور افسروں نیزترک فوجیوں کی برتری کے دو دور گذارے ہیں ، اگر چہ ترکوں کے دور میں خلافت کی باگ ڈور ضعیف رہی

____________________

(١)الکامل فی التاریخ،دار صادر ، بیروت ، ١٤٠٢ھ ، ج ٧ ، ص٥٦

(٢) مسعودی ، علی بن حسین ، مروج الذھب ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ ، ج ٤ ، ص١٤٧

(٣)مسعودی ، علی بن حسین ، مروج الذھب ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ، ج ٤ ، ص١٤٧

۱۴۷

اورزیادہ تر عباسی خلفاکے افسر اور نمائندے ترک تھے ،اور کلی طور پر حکومت کی سیاست شیعوں کے خلاف تھی عباسیوں کے دور میں تشیّع کے زیادہ پھیلنے کی بنا پر عباسی خُلفا کی سیاست یہ تھی کہ شیعہ قائدین پر سخت نظر رکھی جائے ،اگر چہ شیعوں کے سلسلہ میں خلفاکا رویہ ایک دوسرے سے مختلف تھا بعض ان میں سے جیسے منصور ،ہادی ،رشید ، متوکل ، مستبدحددرجہ سخت گیر اور خون بہانے والے تھے ان میں سے بعض دوسر ے جیسے مہدی عباسی ، مامون واثق اپنے پہلے خلفا کی طرح بہت زیادہ سخت گیر نہیں تھے اور ا ن کے زمانہ میں شیعہ کسی حد تک آرام کی سانس لے رہے تھے،جس وقت منصور عباسی نے محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کی طرف سے خطرہ کا احساس کیا تو اس نے ان کے باپ ، بھائیوں اور چچاؤں کو گرفتار کیا اور زندان میں ڈال دیا ۔(١)

منصور نے بارہا امام صادق ـ کو دربار میں بلوایا اور حضرت کے قتل کا ارادہ کیا لیکن خُدا کاارادہ کچھ اور ہی تھا ،(٢)

____________________

(١)مسعودی ، علی بن حسین ، مروج الذھب ،منشورات الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ج ٣ ،ص ٣٢٤

(٢)ابن جوزی نقل کرتا ہے جس وقت منصور مکہ کے ارادے سے مدینہ میں وارد ہو ا ،ربیع حاجب سے کہا ،جعفر بن محمد کو حاضر کرو خُدا مجھ کو مار ڈالے اگر میں ان کو قتل نہ کروں ، ربیع نے حضرت کے حاضر کرنے میں سُستی برتی ،منصور کے فشار کی وجہ سے ربیع نے حضرت کو حاضر کیا ،جس وقت امام حاضر ہوئے اس وقت آپ نے آہستہ آہستہ اپنے لبوں کو حرکت دی،جب منصور کے نزدیک پہنچے اور آپ نے سلام کیا تو منصور نے کہا: اَے خُدا کے دشمن !نابود ہوجا، ہماری مملکت میں خلل واقع کرتا ہے خُدا مجھ کو مارڈالے اگر میں تم کو قتل نہ کروں ،امام صادق نے فرمایا :سُلیمان پیغمبرکوسلطنت ملی انہوں نے خدا کا شکرادا کیا ،ایوب نے مصیبت دیکھی اور صبر کیا ،یوسف مظلوم واقع ہوئے ظالموں کو بخش دیا ،تم ان کے جانشین ہوبہتر ہے کہ ان سے عبرت حاصل کرو ،منصور نے اپنے سر کو نیچے جھکالیا دوسری بار اپنے سر کو اُٹھا کر یہ کہا: آپ ہمارے قرابت داروں اور رشتہ داروں میں سے ہیں اس کے بعد اس نے حضرت کو عزّت دی، معانقہ کیا اور آپ کو اپنے نزدیک بٹھاکر آپ سے بات کرنے میں مشغول ہوگیا ،پھر ربیع سے کہا : جتنی جلدی ہوسکے انعام واکرام اورجعفر بن محمد کے لباس کو لے آئواوران کو رخصت کرو،جس وقت حضرت باہر نکلے ربیع آپ کے پیچھے پیچھے آیااور آپ سے کہا :میں تین دن سے آپ کی طرف سے دفاع اورمدار اکر رہاتھاآپ جب آئے تومیں نے دیکھا کہ آپ کے لب حرکت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے منصور آپ کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکا چونکہ میں سُلطان کا کارندہ ہوں اِس دُعا کا محتاج ہوں چاہتاہوں کہ آپ مجھ کو یہ دُعا تعلیم فرمائیں حضرت نے فرمایا : یہ کہہ :

((اَللّهمّ احرِ سنی بِعینِکٔ الّتِی لَا تنام وَ اَکنِفنِی بکنَفِکٔ الّذِی لَا یرامُ اَو یَضامُ وَ اغْفِر لِی بِقْدرَتِکَٔ عَلیَّ وَ لا اَهْلِکٔ وَ اَنْتَ رَجَائیِ اللّهُمَ اِنَّکَٔ اَکْبَرُ وَ اَجَلُّ مِمَّنْ اخَافُ وَ اَحذَرُ اَللّهُمَ بِکَٔ اَدفَعُ فِی نَحْرِ هِ و َ اَ سْتعِیذ ُ بِکَٔ مِنْ شَرِ ه ))

بارالٰہا! تیری آنکھوں کی قسم! کہ جوسوتی نہیں میری حفاظت کر اورتجھے اس قدرت کا واسطہ ! کہ جو ہدف ِ بلا قرارنہیں پاتی مجھے اس چیز سے محفوظ رکھ اور میں ہلاک نہ کیاجائوں کیونکہ توہی میری اُمید کا سر چشمہ ہے ، بارالٰہا! وہ فراوان نعمتیں کہ جوتونے مجھے دی ہیں میں ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکااور تونے مجھ کو ان نعمتوں سے محروم نہیں کیابہت سی وہ بلائیں کہ جس میں تو نے مجھے مبتلا کیا اور میں نے کم صبری کا مظاہرہ کیا اس سے تومجھے نجات دے ،بار الٰہا! تیری قدرت کے دفاع اور پشت پناہی سے ہی اس کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہوں اور اس کے شر سے تجھ سے پناہ چاہتاہوں ۔(تذکرة الخواص ، منشورات المطبعة الحیدریہ ومکتبتھا ، النجف الاشرف ،١٣٨٣ ھ ،ص ٣٤٤ )

۱۴۸

خلفائے عباسی کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ شیعہ رہنمائوں کو جو ان کے رقیب ہوا کرتے تھے ان کو راستے سے ہٹادیا جائے یہاں تک کہ منصور نے ابن مہاجر نام کے ایک شخص کو کچھ رقم دیکر مدینہ بھیجا تاکہ وہ عبداللہ ابن حسن اور امام صادق علیہ السّلام اور بعض دوسرے علویوں کے پاس جائے اور ان سے کہے کہ میں خراسان کے شیعوں کی طرف سے آیا ہوں اور اس رقم کو ان کے حوالہ کر کے ان سے دستخط لے لے، امام صادق نے اس کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ تم کو منصور نے بھیجا ہے اور اس سے تاکید کی کہ منصور سے جاکرکہنا :علویوں کو ابھی کچھ عرصہ سے مروانی حکومت سے نجات اور راحت ملی ہے اورانہیں ابھی اس کی ضرورت ہے، ان کے ساتھ حیلہ اور فریب نہ کر۔(١)

اسدحیدر کہتے ہیں : منصورنے اما م صا دق کو ختم کرنے کے لئے مختلف وسیلوں کا سہارا لیا اور شیعوں کی طرف سے ان کو خط لکھوایا اور ان کی طرف سے آپ کی خدمت میں کچھ مال بھیجا لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ۔(٢)

جس وقت منصور کوامام صادق علیہ السّلام کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے مدینہ کے حاکم محمد بن سلیمان کوخط لکھا کہ اگر جعفر بن محمد نے کسی معین شخص کو اپنا وصی قرار دیا ہے تو اس کو پکڑ لیا جائے اور اس کی گر دن اُڑادی جائے، تو مدینہ کے حاکم نے اس کے جواب میں لکھا : جعفر بن محمد نے ان پانچ افراد کو اپنا وصی قرار دیا ہے ، ابو جعفر منصور ،محمد بن سلیمان عبداللہ ، موسیٰ اور حمیدہ ،اس وقت منصور نے کہا:تب ان کو قتل نہیں کیا جاسکتا ،(٣)

____________________

(١) ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ،موسسئہ انتشارات علامہ، قم ، (بی تاج ٤ ص ٢٢٠

(٢)الامام الصادق و المذاھب الاربعہ،دار الکتاب العربی ، بیروت ، طبع سوم ، ١٤٠٣ھ ج١، ص ٤٦

(٣) طبرسی ، ابو علی فضل بن حسین ، اعلام الوریٰ موسسة احیا ء التراث ، قم ، ١٤١٧ ج ٢ ،ص ١٣

۱۴۹

مہدی عباسی اپنے باپ کی طرح شیعو ں اور علویوں کے لئے سخت گیر نہیں تھا ۔

یعقو بی نقل کرتا ہے: مہدی جب خلیفہ ہوا تواس نے دستور دیا جتنے بھی علوی زندان میں ہیں ان کو آزاد کردیا جائے ،(١) اس وجہ سے اس کے زمانے میں کوئی بھی علوی قیام وجود میں نہیں آیا ، ابوالفرج اصفہانی نے فقط دو کا ذکر کیا ہے کہ جو اس کے زمانے میں مارے گئے ایک علی عبّاس حسنی کہ جن کو زہر کے ذریعہ قتل کیا گیا دوسرے عیسیٰ بن زیدکہ جن کی نا معلوم طریقہ سے موت واقع ہوئی وہ منصور کے زمانے سے پوشیدہ طور پر زندگی بسر کررہے تھے۔(٢)

ہادی عباسی کے زمانے میں علویوں اور شیعوں کے بڑے قائدین پر شدید فشار تھا جیسا کہ یعقوبی نے لکھا ہے:ہادی نے شیعوں اور طالبیوں پر بہت سختی کر رکھی تھی اور ان کو بہت زیادہ ڈرا رکھا تھا اور وہ وظائف او رحقوق کہ جو مہدی نے اپنے زمانے میں ان کے لئے مقرر کئے تھے ان کو قطع کر دیا اور شہروں کے حاکم ا و ر فرمانروائوں کو یہ لکھ بھیجا کہ طالبیوں کا تعاقب کریں اور ان کو گرفتار کر لیں ،(٣) اس غلط رویے کے خلاف اعتراض کرتے ہوئے حسین بن علی کہ جو سادات حسنی سے تعلق رکھتے تھے( شہید فخ ) نے قیام کیااور اس جنگ میں حسین کے علاوہ بہت سے علوی قتل ہوئے۔(٤)

____________________

(١) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، منشورات شریف الرضی ، قم ، ١٤١٤ ھ ، ج ٢ ،ص ٣٩٤

(٢) ابو الفرج ،اصفہانی ، مقاتل الطالبین ،منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٦ ھ ،ص ٣٤٢ ۔ ٣٦١

(٣) ابن واضح، تاریخ یعقوبی ،ص٤٠٤

(٤)ابو الفرج ،اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات شریف الرضی ، قم ، ١٤١٦ ھ ،ص٣٦٦

۱۵۰

یہ جنگ امام کاظم علیہ السلام پرشدید فشارکا باعث بنی ،ہادی عباسی نے حضرت کوڈرایا اور اس طرح سے کہا :خُدا کی قسم حسین (شہید فخ ) نے موسیٰ بن جعفر کے دستور کی بنا پر میر ے مقابل قیام کیا ہے اوروہ اس نے ان کے تابع اور پیروہیں کیوں کہ اس خاندان کا امام او ر پیشوا موسیٰ بن جعفر کے سوا کوئی اورنہیں ہے، خُدا مجھے موت دیدے اگر میں ان کو زندہ چھوڑدوں ،(١) لیکن وہ اپنی موت کا وقت قریب آنے سے اپنے ارادہ کو نافذ نہ کر سکا ۔

دوسر ی صدی ہجری میں منصور کے بعد ہارون رشید علویوں اور شیعہ قائدین کے لئے سخت تر ین خلیفہ تھا ،ہارون علویوں کے ساتھ بے رحمانہ رفتار رکھتا تھا اس نے یحییٰ بن عبداللہ محمد نفس زکیہ کے بھائی کو امان دینے کے بعد بے رحمانہ طریقہ سے زندان میں ڈالا اور قتل کر وا د یا ۔(٢)

اسی طرح ایک داستان عیون اخبار الرضا میں ذکر ہوئی ہے جو ہارون رشید کی بے رحمی کی حکایت کرتی ہے، حمید بن قحطبہ طائی طوسی نقل کرتا ہے : ہارون نے ایک شب مجھ کو بلوایا اور حکم دیا کہ اس تلوار کو پکڑو اور اس خادم کے دستور پر عمل کرو خادم مجھے ایک گھر کے پاس لایا جس کا دروازہ بند تھا ، اس نے دروازہ کو کھولا اس گھر میں تین کمرے اور ایک کنواں تھا اس نے پہلے کمرہ کو کھولا او ر اس میں سے بیس سیّدوں کو باہرنکا لا جن کے بال بلند اور گھنگھریلے تھے ،ان کے درمیان بوڑھے اور جوان دکھائی دے رہے

____________________

(١) علّامہ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار،ج٤٨، ص١٥١

(٢) ابو الفرج اصفہانی ، مقا تل الطالبین ،منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٦ ھ ، ص ٣٨١ ۔ ٤٠٤

۱۵۱

تھے ان سب کو زنجیر وں میں جکڑا گیا تھا ہارون کے نوکر نے مجھ سے کہا: امیر المومنین کا دستور ہے کہ ان سب کو قتل کردو یہ سب اولاد علی ا و راولاد فاطمہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہیں ، میں ایک کے بعد دوسرے کو قتل کرتا گیا اور نو کر ان کے بدن کو سروں کے بل کنویں میں ڈالتا رہا ،اس کے بعد اس نے دوسر ے کمرہ کو کھولا اس کمرہ میں بھی بیس افراد اولاد علی او راولاد فاطمہ میں سے تھے میں نے ان کو بھی پہلے افراد کی طرح ٹھکانے لگادیا،اس کے بعد تیسرے کمرہ کو کھولا اس میں دوسرے بیس افراد اہل سادات تھے میں نے ان کو بھی پہلے والے چالیس افراد کے ساتھ ملحق کردیا ، صرف ایک بوڑھا شخص باقی رہ گیا تھا وہ میری طرف متوجہ ہوا اور اس نے مجھ سے کہا: اے منحوس آدمی! خُدا تجھے نابود کرے روز قیامت ہمارے جد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خُدا کے سامنے کیا عذر پیش کرے گا اس وقت میرے ہاتھ کانپنے لگے تو نوکر نے غضبناک آنکھوں سے مجھے دیکھا اور دھمکی دی تو میں نے بوڑھے آدمی کوبھی قتل کردیا اور نوکر نے اس کا بدن بھی کنویں میں ڈال دیا ۔(١)

آخر کا ر ہارون رشید نے امام کاظم علیہ السلام کو باوجود اس کے کہ وہ ان کے مقام و مرتبہ کاقائل تھا گرفتار کیا اور زندان مین ڈال دیا اور آ خر میں ز ہر دے کر آپ کو شہید کردیا۔(٢)

امام کاظم علیہ السّلام کی شہادت کے بعد ہارون رشید نے اپنے سرداروں میں سے

____________________

(١) صدوق ، عیون اخبار الرضا ، دار العلم ، قم ، طبع ١٣٧٧ ھ ق ، ص ١٠٩

(٢)طبرسی ، ابو علی فضل بن حسین، اعلام الوریٰ ، موسسئہ آل البیت لا حیاء التراث ، قم ، ١٤١٧ ، ھ ج٢، ص ٣٤

۱۵۲

ایک جلودی نامی شخص کو مدینہ بھیجا تاکہ آل ابی طالب کے گھروں پر حملہ کرے، اورعورتوں کے لباس لوٹ لے ہر عورت کے لئے صرف ایک لباس چھوڑدے امام رضادروازے پر کھڑے ہوگئے اور آپ نے عورتوں کو حکم دیا کہ تم اپنے اپنے لباس ان کے حوالے کر دو۔(١)

مامون ،عباسی خلفا میں سب سے زیادہ سیاست مدارتھا کہ جس نے شیعہ اماموں اور رہبروں پر پابندی کے لئے ایک نئی روش اختیار تاکہ ائمہ اطہار کو زیر نظر رکھ سکے، مامون کے مہم ترین انگیزوں میں سے ایک انگیزہ امام رضا کی ولی عہدی اسی مقصد کے لئے تھی جیسا کہ مامون نے اِس سیاست کو دوسری بار امام جواد کے لئے بھی انجام دیا اور اپنی بیٹی کی شادی آپ کے ساتھ کردی تاکہ مدینہ میں آپ کی فعالیت وسر گرمی پر نظر رکھ سکے مامون کے بعد والے خُلفانے بھی اس روش کو اختیار کیا اور ہمیشہ ائمہ معصومین علیہم السلام حکومت کے جبر سے مرکز خلافت میں زندگی بسر کرتے رہے یہاں تک کہ دسویں اور گیارہویں امام سامرہ میں زندگی گذارنے کی وجہ سے جو ایک فوجی شہر تھا عسکریین کے نام سے مشہور ہو گئے۔

عباسیوں کے زمانے میں شیعوں کی کثرت کے ا سباب

شیعیت عباسیوں کے دور میں روز بروز بڑھتی گئی اس مسئلہ کے کچھ عوامل واسباب ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں :

(١)ہاشمی اور علوی بنی امیہ کے زمانے میں :

بنی امیہ کے دور میں ہاشمی چاہے علوی ہوں یا عباسی متحد تھے اور ہشام کے زمانے سے عباسیوں کی تبلیغ شروع ہوگئی تھی وہ زید اور ان کے فرزند یحییٰ کے قیام کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے تھے انہوں نے تشیع کی بنیاد پر اپنے کام کا آغاز کر دیا تھا جیساکہ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے :

____________________

(١) امین، سید محسن ،ص٢٩

۱۵۳

جس وقت اموی خلیفہ ولید بن یزید قتل ہوااور مروانیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا تو بنی ہاشم کے مبلغین مختلف علاقے میں ہجرت کر گئے اور سب سے پہلے جس چیز کا اظہار کیا وہ حضرت علی کی افضلیت اور ان کے فرزندوں کی مظلومیت تھی ۔

منصور عباسی جو حدیث غدیر کے راویوں میں سے ایک تھا(١) جس وقت عباسی سپاہیوں نے علویوں کے مقابلہ میں ان کی سیاست کو دیکھا تواس کو قبول نہیں کیا اوران کا عباسیوں کے ساتھ اختلاف پیدا ہوگیا، ابو سلمہ خلال جو عراق میں عباسیوں کی جانب لوگوں کو دعوت دینے والا تھا۔(٢)

علویوں کی طرف میلان کی وجہ سے عباسیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا(٣) اگر چہ یہ شخص عقیدہ کے اعتبار سے شیعہ نہیں تھا مگر خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جواس کو لگائو تھا اس سے

انکار نہیں کیا جا سکتا، خاص کرقبیلۂ حمدان سے اور کوفہ کا رہنے والا تھا۔(۴)

____________________

(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، منشوارات شریف رضی، قم ١٤١٦ھ ص ٢٠٧

(٢) خطیب بغدادی،تاریخ بغداد،دارالکتب العلمیہ بیروت طبع اول ١٤١٧ھ ج١٢،ص ٣٤٠

(٣) ابراہیم کی موت کے بعد ابو سلمہ( خلال کہ جو عراقیوں کو عباسیوں کی جانب سے دعوت دینے والا تھااور بعد میں سفاح کا وزیر بھی بنا) عباسیوں سے منصرف ہو گیا اور سادات علوی میں سے جعفر بن محمد الصادق ، عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی اور عمرالاشرف بن زیدالعابدین کے پاس خط لکھا اور اپنے نامہ بر سے کہا: سب سے پہلے جعفر بن محمد کے پاس جانا اگر وہ قبول کرلیں تو بقیہ دونوں خطوط کے لے جانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر وہ قبول نہ کریں تو عبد اللہ محض کے پاس جانا اور اگر وہ بھی قبول نہ کریں تب عمرالاشرف کے پاس جانا ، نامہ بر سب سے پہلے مام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، نامہ دیا امام نے فرمایا : ابو سلمہ دوسروں کا محب اور چاہنے والاہے مجھے اس سے کیا کام ، نامہ بر نے کہا: خط تو پڑھ لیجیے امام نے خادم سے چراغ منگوایا اور خط کو جلا دیا ، نامہ بر نے کہا: جواب نہیں دیجیے گا؟ امام نے فرمایا : جواب یہی ہے جو تم نے دیکھا ہے ، ابو سلمہ کا نمایندہ عبد اللہ بن حسن کے پاس گیا اور خط دیا عبد اللہ نے جیسے ہی خط پڑھا خط کو بوسہ دیا فوراً امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: یہ ہمارے چاہنے والے شیعہ ابو سلمہ کا خط ہے ، خراسان میں مجھے خلافت کی دعوت دی ہے امام نے فرمایا :خراسان کے لوگ کب سے تمہارے چاہنے والے ہو گئے ہیں کیا ابو مسلم کو تم نے ان کی جانب روانہ کیا ہے ؟کیا تم ان میں سے کسی کو پہچانتے ہو؟ تم نہ انہیں جانتے ہو اور نہ وہ تمہیں جانتے ہیں تو پھر وہ کیسے تمہارے چاہنے والے ہیں ؟ !عبد اللہ نے کہا :آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آپ ان ساری باتوں سے واقف ہیں ، امام نے فرمایا :خدا جانتا ہے میں ہر مسلمان کی بھلائی چاہتا ہوں تمہاری بھلائی کیوں نہ چاہوں ، اے عبد اللہ! ان باطل آرزوئوں کو چھوڑ دو اور اس بات کو جان لو! کہ یہ حکومت بنی عباس کی ہے ایسا ہی خط میرے پاس بھی آچکا ہے، عبد اللہ وہاں سے ناراض ہو کر واپس آگئے عمر بن زیدالعابدین نے بھی ابو سلمہ کے خط کو رد کر دیا اور کہا: میں خط بھیجنے والے کو نہیں جانتا کہ جواب دوں (ابن طقطقا ، الفخری ، صادر بیروت ١٣٦٨ھ ص ١٥٤، اور مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذہب ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ج ٤ ، ص ٢٨٠

(۴) امین سید محسن ، اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبو عات ، بیروت ، ج١ ،ص ١٩٠

۱۵۴

قحطانی قبائل کے درمیان قبیلۂ حمدان تشیع میں سب سے آگے تھا چنانچہ سید محسن امین نے اس کو وزراء شیعہ میں شمار کیا ہے،(١) حتیٰ شروع میں خود عباسیوں نے بھی ذریت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت سے انکار نہیں کیا ہے جیسا کہ لکھا ہے :جس وقت بنی امیہ کے آخری خلیفہ مروان بن محمد کا سر ابوالعباس سفاح کے سامنے لایا گیا تو وہ طولانی سجدہ بجالایا اور اس نے سر کو اٹھا کر کہا: حمد اس خدا کی جس نے مجھے تیرے اوپر کامیابی عطا کی، اب مجھے اس بات کاغم نہیں ہے کہ میں مر جائوں کیونکہ میں نے حسین اوران کے بھائی اور دوستوں کے مقابلہ میں بنی امیہ کے دو سوافراد کو قتل کردیا، اپنے چچا کے بیٹے زید بن علی کے بدلے میں ہشام کی ہڈیوں کو جلا دیااور اپنے بھائی ابراہیم کے بدلے میں مروان کو قتل کردیا۔(٢)

جب عباسیوں کی حکومت مضبوط و مستحکم ہوگئی توان کے نیز خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شیعوں کے درمیان فاصلہ ہوگیا،منصور عباسی کے زمانے سے عباسیوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت کے ساتھ بنی امیہ کی روش اختیا ر کی، بلکہ خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی میں بنی امیہ سے بھی آگے بڑھ گئے۔

____________________

(١)امین سید محسن ، اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبو عات ، بیروت ، ج١ ،ص ١٩٠

(٢)مسعودی علی بن حسین ،مروج الذھب، ص ٣٨٣۔٢٨٤

۱۵۵

(٢)بنی امیہ کا خاتمہ اور عباسیوں کا آغاز

اموی دور حکومت کے ختم ہونے اور عباسیوں کی حکومت آنے کے بعداور ان کے درمیان جنگ و جدال کی وجہ سے امام باقر و امام صادق کو فرصت مل گئی انہوں نے تشیع کے مبانی کوپہچنوانے میں غیر معمولی فعالیت وسر گرمی انجام دیں ،خاص طور پر امام صادق نے مختلف شعبوں اور مختلف علوم میں بہت سے شاگردوں کی تر بیت کی ممتاز دانشور جیسے ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ،ابان بن تغلب،ہشام بن سالم مومن طاق ، مفضل بن عمر، جابر بن حیان وغیرہ نے حضرت کے محضر میں تر بیت پائی تھی ،شیخ مفیدکے قول کے مطابق ان کے موثقین (معتمدین )کی تعداد چار ہزار تھی،(١) مختلف اسلامی سر زمین کے لوگ امام کے پاس آتے تھے اور امام سے فیض حاصل کرتے تھے اور اپنے شبہات کو برطرف کرتے تھے ،حضرت کے شاگرد مختلف مناطق اور شہروں میں پھیلے ہوئے تھے، فطری بات ہے کہ یہ لوگ مختلف مناطق میں تشیع کے پھیلانے کا سبب بنے ۔

(٣)علویوں کی ہجرت

عباسیوں کے دور میں تشیع کے پھیلنے کے سلسلہ میں ،سادات اور علویوں کا مختلف مقامات پر ہجرت کرجانا بھی ایک اہم سبب بنا ،ان میں اکثر تشیع نظریات کے حامل تھے اگر چہ ان میں سے کچھ زیدی مسلک کی طرف چلے گئے تھے یہاں تک کہ بعض منابع کے نقل کے مطابق سادات کے درمیان ناصبی بھی موجود تھے۔(٢)

یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سادات میں اکثر شیعہ تھے اورشیعہ مخالف

____________________

(١)شیخ مفید ،الارشاد ،ترجمہ محمد ساعدی خراسانی، کتاب فروشی اسلامیہ ،١٣٦٧ھ ش ،ص ٥٢٥

(٢)ابن عنبہ، عمدة الطالب، مطبعةالحیدریہ نجف١٩٦١ص٧١،٢٢٠۔٢٥٣

۱۵۶

حکومت کے ذریعہ ان پرجو مصیبتیں پڑیں ان کی وجہ بھی واضح ہے،اکثراسلامی سرزمینوں میں سادات تھے، ماوراء النہر اور ہندوستان سے لے کر افریقہ تک پھیلے ہوئے تھے اگر چہ یہ ہجرت حجاج کے زمانے سے شروع ہوگئی تھی عباسیوں کے زما نے میں علویوں کی طرف سے جو قیام ہواان میں سے زیادہ تر میں شکست ہوئی اور بہت نقصان ہوا ، شمال ایران، گیلان ،مازندران نیز خراسان کے پہاڑی اور دور افتادہ علاقہ علویوں کے لئے امن کی جگہ شمار ہوتے تھے ،سب سے پہلی بار ہارون رشید کے زمانے میں یحییٰ بن عبد اللہ حسنی مازندران کی طرف گئے کہ جو اس زمانے میں طبرستان کے نام سے مشہور تھا ،جب انہوں نے قدرت حاصل کرلی اور ان کے کام میں کافی ترقی پیدا ہوگئی توہارون نے اپنے وزیر فضل بن یحییٰ کے ذریعہ امان نامہ لکھ کر صلح کے لئے وادار کیا۔(١)

اس کے بعدوہاں کافی تعداد میں علوی آباد ہوگئے اور روز بروز شیعیت کو فروغ ملتا گیا اور وہاں کے لوگوں نے پہلی بار علویوں کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اورتیسری صدی ہجری کے دوسرے حصہ میں علویوں کی حکومت طبرستان میں حسن بن زید علوی کے ذریعہ تشکیل پائی اس زمانے میں سادات کے لئے یہ جگہ مناسب سمجھی جاتی تھی، جیسا کہ ابن اسفند یار کا بیان ہے کہ اس موقع پر درخت کے پتوں کے مانند علوی سادات اور بنی ہاشم حجازنیز اطراف عراق وشام سے ان کی خدمت میں جمع ہوگئے سبھی کو عزت و شرف سے

____________________

(١)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین،منشورات شریف الرضی ،قم ، پہلی اور دوسری طبع،١٤١٦، ١٣٧٤، ص٣٨٩،٣٩٥

۱۵۷

بہت بہت نوازااور ایساہوگیا تھاکہ جب وہ کہیں جاناچاہتا تھا تین سو شمشیر بکف علوی اس کے ارد گرد صف بستہ ہوتے تھے۔(١)

جس وقت امام رضا مامون کے ذریعہ ولایت عہدی کے منصب پر پہنچے، حضرت کے بھائی اور ان کے قریبی افرادایران کی طرف روانہ ہوئے جیسا کہ مرعشی نے لکھا ہے: سادات نے ولایت کی آواز اور اس عہد نامہ پر کہ جو مامون کی طرف سے آنحضرت کی امامت کا پروانہ تھا اس طرف رخ کیاآنحضرت کے اکیس دوسرے بھائی تھے یہ تمام بھائی اور چچا زاد بھائی حسنی اور حسینی سادات میں سے تھے جہوں نے ری اور عراق میں حکومت کی ، جب سادات نے یہ سنا کہ مامون نے حضرت امام رضا سے غداری کی ہے تو انہو ں نے کوہستان دیلمستان اور طبرستان میں جاکر پناہ لی اور بعض لوگ وہیں شہید ہوگئے ، ان کی قبریں اور مزار مشہور ہیں ،جیسیاہل اصفہان مازندران کہ جنہوں نے شروع میں اسلام قبول کیا تھا وہ سب کے سب شیعہ تھے اور اولاد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حُسن عقیدت رکھتے تھے اور سادات کے لئے وہاں قیام کرنا آسان تھا۔(٢)

شہید فخ کے قیا م کی شکست کے بعد ہادی عباسی کے دور خلافت میں حسین بن علی حسنی، ادریس بن عبد اللہ محمد نفس زکیہ کا بھائی افریقہ گئے تو وہاں پرلوگ ان کے اطراف ہیں جمع ہوگئے اورانہوں نے حکومت ادریسیان کی مغرب میں بنیاد ڈالی، چند روز نہیں گذرے تھے کہ خلافت کے کارندوں کے ذریعہ انہیں زہر دے دیا ہوگیا، لیکن

____________________

(١)تاریخ طبرستان و رویان ، ص ٢٩٠

(٢)مرعشی ،تاریخ طبرستان و رویان و مازندران ،نشتر گسترہ ،تھران ١٣٦٣،٢٧٧ و٢٧٨

۱۵۸

ان کے بیٹوں نے وہاں پرتقریباً ایک صدی حکومت کی،(١) اس طرح سادات نے اس طرف کا رخ کیا اسی وجہ سے متوکل عباسی نے ایک نامہ مصر کے حاکم کو لکھا کہ سادات علوی میں مردوں کوتیس دینار اور عورتوں کو پندرہ دینارکے بدلے نکال باہر کرے لہذایہ لوگ عراق منتقل ہوگئے اور وہاں سے مدینہ بھیج دئے گئے۔(٢)

منتصر نے بھی مصر کے حاکم کو لکھا کہ کوئی بھی علوی صاحب ملکیت نہ ہونے پائے اور گھوڑے پر سوار نہ ہونیز پائے تخت سے کسی دوسرے علاقہ میں کوچ نہ کرنے پائے اور ایک غلام سے زیادہ رکھنے کا انہیں حق حاصل نہ ہو۔(٣)

علویوں نے تیزی سے لوگوں کے درمیان خاص مقام پیدا کر لیا اس حد تک کہ حکومت سے مقابلہ کر سکیں جیسا کہ مسعودی نقل کرتا ہے:

٢٧٠ھ کے آس پاس طالبیوں میں سے ایک شخص بنام احمد بن عبد اللہ نے مصر کے منطقہ صعید میں قیام کیا لیکن آخر میں احمد بن طولان کے ہاتھوں شکست کھائی اور قتل ہوگیا۔(٤)

____________________

(١) ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین،منشورات شریف الرضی ،قم پہلی اور دوسری طبع ١٤١٦، ١٣٧٤، ص٤٠٦،٤٠٩

(٢)ادام تمدن اسلامی در قرن چہارم ہجری،ترجمہ علی رضا ذکاوتی،قرا گزلو،موسسہ انتشارات امیر کبیر،تہران ١٣٦٤ھ،صفحہ٨٣،الولاة والقضاة کندی کے نقل کے مطابق،ص ١٩٨

(٣)الولاة والقضاةکندی،ص ٢٠٣،٢٠٤

(٤)مسعود ی ،علی بن حسین مروج الذہب موسسة الاعلمی للمطبوعات ،بیرو ت ،طبع اول ١٤١١ہجری ج٤، ص ٣٢٦

۱۵۹

یہی وجہ ہے کہ عباسی دور خلافت میں ان کے اہم ترین رقیب اور دشمن علوی شمار ہوتے تھے ٢٨٤ھ میں معتضد خلیفئہ عباسی نے ارادہ کیا کہ یہ دستورصادر کرے کہ منبر پر معاویہ کو نفرین(لعنت )کی جائے اور اس بارے میں اس نے حکم لکھا لیکن اس کے وزیر نے ہنگامہ ہونے سے ڈرایا،معتضد نے کہا: میں ان کے درمیان شمشیر سے کام لوں گاوزیر نے جواب دیا: اس وقت ان طالبیان کے ساتھ کیا کرے گا جو ہر طرف سے نکل رہے ہیں اور خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوستی کی بنا پرلوگ ان کے حامی ہیں ،یہ تیرا فرمان ان کے لئے لائق ستائش اور قابل قبول ہوگا اور جیسے ہی لوگ سنیں گے ان کے طرفداراور حامی ہو جائیں گے۔(١)

علوی جس منطقہ میں بھی رہتے تھے مورد احترام تھے اسی وجہ سے لوگ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی قبروں پر مزار اور روضے تعمیر کرتے تھے اور ان کی زندگی میں ان کے اطراف جمع ہوتے تھے جس وقت محمد بن قاسم علوی معتصم کے دور میں خراسان تشریف لے گئے مختصر سی مدت میں چالیس ہزار افراد اس کے اطراف جمع ہوگئے اور ان کوایک مضبوط قلعہ میں جگہ دی۔(٢)

چونکہ ایک طرف علوی پاک دامن اور پرہیز گار افراد تھے جب کہ اموی اور عباسی حاکموں کا فسق و فجور لوگوں پر روشن تھا دوسری طرف ان کی مظلومیت نے لوگوں کے

____________________

(١)طبری ،ابی جعفر، محمد بن جریر،تاریخ طبری دارلکتب علمیہ بیروت طبع دوم،١٤٠٨ہجری ج، ص٦٢٠۔٦٢٥

(٢)مسعودی،علی بن حسین ،مروج الذھب، ص٦٠

۱۶۰