اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ0%

اہل بیت کے شیعہ مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 142

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف: آیة اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 142
مشاہدے: 35413
ڈاؤنلوڈ: 2502

تبصرے:

اہل بیت کے شیعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 142 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35413 / ڈاؤنلوڈ: 2502
سائز سائز سائز
اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف:
اردو

رافضی کون ہیں

روایت ہے کہ ایک روز عمار کسی گواہی کے سلسلہ میں کوفہ کے قاضی ابن ابی لیلیٰ کے پاس گئے۔ قاضی نے ان سے کہا: اے عمار تم اٹھو! حقیقت یہ ہے کہ ہم تمہیں پہچان گئے ہیں تمہاری گواہی قبول نہیں کی جائیگی کیونکہ تم رافضی ہو، (یہ سن کر) عمار کھڑے ہو گئے اوران پر رقت طاری ہوگئی اور ان کا جوڑ جوڑ کانپنے لگا۔

ابن ابی لیلیٰ نے ان سے کہا: آپ تو عالم ومحدث ہیں اگر آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کو رافضی کہا جائے تو رفض کو چھوڑ دیں، پھر تم ہمارے بھائی ہو۔ عمار نے اس سے کہا: جو تمہارا مسلک ہے وہی میرا مسلک ہے، لیکن مجھے اپنے اور تمہارے اوپر رونا آ رہا ہے ، اپنے اوپر تو میں اس لئے رو رہا ہوں کہ جس عظیم رتبہ کی طرف تونے مجھے نسبت دی ہے میں اس کا اہل نہیں ہوں ، تم نے یہ گمان کیا ہے کہ میں رافضی ہوں وائے ہو تم پر،(امام جعفر صادق نے فرمایاہے : سب سے پہلے ان جادوگروں کو رافضی کہا گیا تھا جو عصا میں حضرت موسیٰ کا معجزہ دیکھ کر ان پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کی اور فرعون کے حکم کو ٹھکرا دیااور اپنے فائدہ کی ہر چیز کو قبول کر لیا تو فرعون نے انہیں رافضی کا نام دیا کیونکہ انہوں نے فرعون کے دین کو ٹھکرا دیا تھا تو اس

۲۱

دیا تھا تو اس لحاظ سے رافضی وہ شخص ہے جو ان تمام چیزوں کو ٹھکرا دے جن کو خدا پسند نہیں کرتا ہے اور جس چیز کا خدا نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرے، تو اس زمانہ میں ایسا کون ہے ؟) اور اپنے اوپر اس لئے بھی رو رہا ہوں کہ مجھے خوف ہے اگر خدا کو میرے دل کی کیفیت کا علم ہو گیا جبکہ میں نے معزز لقب پایا ہے تو میرا پروردگار مجھے سرزنش کرے گا اور فرمائے گا: اے عمار کیا تم باطل چیزوں کو ٹھکرا ئے تھے اور طاعات پر عمل کرتے تھے جیسا کہ تمہیں لقب ملا ہے ؟ اگر اس مدت میں میں سہل انگاری سے کام لونگاتو اس سے میرے درجات کم ہو جائیں گے، اور میرے اوپر شدید عقاب ہوگا مگر یہ کہ ہمارے مولا و آقااپنی شفاعت کے ذریعہ ہماری مدد کریں۔

اورتمہارے اوپر اس لئے رو رہا ہوں کہ تم نے میرا ایسا نام رکھا ہے جس کا میں اہل نہیں ہوں مجھے ڈر ہے کہ تمہارے اوپر خدا کا عذاب نہ آجائے کہ تم نے شریف ترین نام رکھا ہے اور اس کو پست ترین خیال کیا ہے تمہارا بدن اس بات کے عذاب کو کیسے برداشت کرے گا؟

امام جعفر صادق فرماتے ہیں : اگر عمار کے اوپر آسمانوں اور زمینوں سے بھی زیادہ گناہ ہوتے تو ان کی اس گفتگو کے سبب ان سب کو محو کر دیا جاتا۔ یہ کلمات ان کے پروردگار کی بارگاہ میں ان کے حسنات میں اضافہ کریں گے ،یہاں تک کہ ان کے کلام کا معمولی حصہ بھی اس دنیا سے ہزار گنابڑا ہوگا۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار: ج۶۸ ص ۱۵۶ و ۱۵۷

۲۲

ہرمحبت کا دعویدار شیعہ نہیں ہے

امام موسیٰ کاظم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ہم لوگوں کا گزر بازار میں اس شخص کے پاس سے ہوا جو یہ کہہ رہا تھا میں محمد و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مخلص شیعہ ہوں وہ اپنا کپڑا فروخت کرنے کی غرض سے یہ آواز دے رہا تھا کہ کون زیادہ مہنگا خریدے گا؟ امام موسیٰ کاظم نے فرمایا:

''ما جهل ولا ضاع امرؤ عرف قدر نفسه، أتدرون ما مثل هذا؟ هذا شخص قال أنا مثل سلمان ، و أبی ذر ، و المقداد، و عمّار، و هو مع ذلک یباخس فی بیعه و یدلس عیوب المبیع علیٰ مشتریه، و یشتری الشیء بثمن، فیزاید الغریب، یطلبه فیوجب له ثم اذا غاب المشتری قال لا أریده لا بکذا بدون ما کان طلبه منه ، أیکون هذا کسلمان و أبی ذر و المقداد و عمّار؟ حاش اللّٰه ان یکون هذا کهم، ولکن ما یمنعه من أن یقول نی من محبی محمد و آل محمد و من یوالی أولیائه و یعادی أعدائهم'' ۔

کیا تم جانتے ہو کہ اس کی مثال کیا ہے ؟ یہ شخص کہہ رہا تھامیں سلمان ، ابو ذر، مقداد اور عمار یاسر کے مثل ہوں اس کے با وجوداپنی چیز کو کم ناپتاہے اور خریدار سے اپنی اس چیز کا عیب چھپاتا ہے جس کو فروخت کر رہا ہے۔ اور معمولی قیمت میں ایک چیز خریدتا ہے اور اجنبی کو گراں قیمت پر فروخت کرتا ہے اور جب وہ چلا جاتا ہے تو اس کی برائی کرتا ہے ۔

کیا یہ شخص سلمان و ابو ذر اور مقداد و عمار جیسا ہو سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں ، ان جیسا نہیں ہوسکتا ،وہ کیا چیز ہے جس نے اسے یہ کہنے سے باز رکھا کہ میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمد کے شیعوں میں سے ہوں یا ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں ۔( ۱ )

مومنین اہل جنت کے لئے ایسے ہی درخشاں ہیں جیسے آسمان پر ستارے

امیر المومنین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: یقیناً جنت والے ہمارے شیعوں کی طرف ایسے ہی دیکھیں گے جیسا کہ انسان آسمان کے ستاروں کو دیکھتا ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۶۸ و ۱۵۷

(۲) بحار الانوار: ج۶۸ ص ۱۸ خصال الصدوق ۱۶۷۔

۲۳

امام صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: آسمان والوں کے لئے مومنین کا نور ایسے ہی چمکتا ہے جیسے زمین والوں کے لئے آسمان کے ستارے روشن ہیں ۔( ۱ )

امام موسیٰ کاظم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: امام صادق کے چاہنے والوں کی ایک جماعت چاندنی رات میں آپ کی خدمت میں حاضر تھی ان لوگوں نے کہا: فرزندِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کتنا اچھا ہوتا کہ یہ آسمان اور یہ ستاروں کا نور ہمیشہ رہتا۔ امام صادق نے فرمایا: یہ نظم و نسق برقرار رکھنے والے چار فرشتے ، جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت زمین کی طرف دیکھتے ہیں تو تمہیں اور تمہارے بھائیوں کو زمین کے گوشہ و کنار میں دیکھتے ہیں جبکہ تمہارا نور آسمانوں میں ہوتا ہے اور ان کے نزدیک یہ نور ستاروں سے زیادہ اچھا ہے اور وہ بھی اسی طرح کہتے ہیں جیسے تم کہتے ہو: ان مومنوں کا نور کتنا اچھا ہے ۔(۲)

وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں

ابن ابی نجران سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابو الحسن سے سنا کہ فرماتے ہیں : جو ہمارے شیعوں سے عداوت رکھتا ہے در حقیقت وہ ہم سے دشمنی رکھتا ہے اور جو ان سے محبت کرتا ہے در حقیقت وہ ہم سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ ہم میں سے ہیں وہ ہماری ہی طینت سے پیدا کئے گئے ہیں پس جو ان سے محبت کرے گا وہ ہم میں سے ہے اور جو ان سے عداوت رکھے گا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہمارے شیعہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں اور خدا کی رحمت میں کروٹیں لیتے ہیں اور اس کی کرامت سے سرفراز رہتے ہیں اور ہمارے شیعوں

میں جس کو بھی کوئی غم ہوتا ہے اس کے غم میں ہم بھی غمگیں ہوتے ہیں اور اس کے خوش ہونے سے ہم بھی خوش ہو تے ہیں ۔(۳)

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۷۴ ص ۲۴۳ اصول کافی: ج ۲ ص ۱۷۰ سے منقول

(۲) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۲۴۳ عیون اخبار رضا سے منقول

(۳) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۷ صفات الشیعہ ص ۱۶۲ سے منقول

۲۴

شیعہ اہل بیت کی نظر میں

اہل بیت اپنے شیعوں سے محبت کرتے ہیں

جس طرح اہل بیت کے شیعہ اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اسی طرح اہل بیت بھی اپنے شیعوں سے شدید طور پر محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان کی خوشبو اور روحوں سے بھی محبت کر تے ہیں ان کے دیدار و ملاقات کو بھی دوست رکھتے ہیں وہ اسی طرح ان کے مشتاق رہتے ہیں جس طرح دو محبوب ایک دوسرے کے مشتاق رہتے ہیں اور یہ فطری بات ہے کیونکہ محبت کا تعلق طرفین سے ہوتا ہے ایک طرف سچی محبت ہوگی تو دوسری طرف بھی سچی محبت ہوگی۔

اسحق بن عمار نے علی بن عبد العزیز سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابوعبد اللہ سے سنا کہ فرماتے ہیں : خدا کی قسم مجھے تمہاری خوشبو، تمہاری روحیں، تمہارا دیدار اور تمہاری ملاقات بھی محبوب ہے اور میں دینِ خدا اور دینِ ملائکہ پر ہوں پس اس سلسلہ میں تم ورع کے ذریعہ میری مدد کرو کیونکہ میں مدینہ میں شعیر کی مانند ہوں ۔ میں گھومتاہوں لیکن جب تم میں سے کوئی نظر آجاتا ہے تو مجھے سکون ہو جاتا ہے ۔(۱)

جس طرح کالے بالوں میں سفید بال قلیل ہوتے ہیں اسی طرح میں مدنیہ میں تنہا ہوں ، میں مدینہ میں گھومتا رہتا ہوں شاید تم میں سے کوئی نظر آجائے اور میں اس کے پاس آرام کروں ۔

____________________

(۱) المحاسن : ص ۱۶۳ بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۲۸

۲۵

عبد اللہ بن ولیدسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابو عبد اللہ سے سنا کہ فرماتے ہیں :ہم ایک جماعت ہیں خدا کی قسم میں تمہارے دیدار کو پسند کرتا ہوں اور تمہاری گفتگو کا اشتیاق رکھتا ہوں ۔( ۱ )

نصر بن مزاحم نے محمد بن عمران بن عبد اللہ سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے جعفر بن محمدعلیہما السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے والد مسجد میں داخل ہو ئے تووہاں ہمارے کچھ شیعہ بھی موجود تھے آپ ان کے قریب گئے انہیں سلام کیا اور ان سے فرمایا: خدا کی قسم میں تمہاری خوشبو اور روحوں کو دوست رکھتا ہوں ، اور میں دینِ خدا پر ہوں ۔

پس ورع و کوشش کے ذریعہ میری مدد کرو اور تم میں سے جو کسی کو اپنا امام بنائے اس کو اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے، تم خدا کے سرباز ہوتم خدا کے اعوان ہو، تم خدا کے انصار ہو۔( ۲ )

محمد بن عمران نے اپنے والد سے انہوں نے ابو عبد اللہ، سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک روز میں اپنے والد کے ساتھ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ منبر و قبر -رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم -کے درمیان آپ کے اصحاب کی ایک جماعت بیٹھی ہے میرے والد ان کے قریب گئے انہیں سلام کیا اور فرمایا: خدا کی قسم میں تمہاری خوشبو اور روحوں کو دوست رکھتا ہوں ۔ تو اس سلسلہ میں تم ورع و جانفشانی کے ذریعہ میری مدد کرو۔( ۳ )

یہ دو کلمات انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں :

۱۔ میں تمہاری خوشبو اورروحوں سے محبت کرتا ہوں ۔

۲۔ ورع و کوشش کے ذریعہ تم میری مدد کرو۔

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۲۹

(۲) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۴۳ و ۴۴ بشارت المصطفیٰ ص ۱۶۔

(۳) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۶۵ و ص ۱۱۸۔

۲۶

پہلا جملہ محبت و شوق کے اعلیٰ مراتب کا غماز ہے کہ امام کو اتنا اشتیاق و عشق ہے کہ وہ اپنے شیعوں میں جنت کی خوشبو محسوس کرتے ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کہ محبت کے بارے میں اس سے زیادہ بلیغ اور واضح تعبیر استعمال ہوئی ہوگی۔

دوسرا جملہ اس محبت کے ضوابط کو بیان کرتا ہے کیونکہ یہ محبت لوگوں کی ایک دوسرے سے محبت کے فرق سے بدلتی رہتی ہے یہ بھی محبتِ خدا میں سے ہے اوریہ محبت کا بلند ترین درجہ ہے لیکن طاعت وعبودیت اور ورع و تقوی میں اس کا پلہ بھاری رہے گا اور ورع و تقوے کے جتنے پلے بھاری ہوں گے اسی تناسب سے محبت میں استحکام و بلندی پیدا ہوگی۔ اسی لئے امام نے اپنے شیعوں سے یہ فرمایا ہے کہ مجھے تم سے جو محبت ہے اس میں ورع ، تقویٰ اور خدا کی طاعت و عبودیت کے ذریعہ میری مدد کرو۔

بیشک وہ لوگ امام کے شیعہ تھے اور اہل بیت جانتے ہیں کہ شیعہ ان سے کتنی محبت رکھتے ہیں اہل بیت اس محبت کے عوض ان کو اتنی ہی یا اس سے زیادہ محبت دینا چاہتے ہیں ، لہٰذا اہل بیت نے اپنے شیعوں سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے نفسوں کو اس محبت کا اہل بنا لیںاوریہ اہلبیت ورع و تقویٰ اور طاعت و عبودیت سے پیدا ہوگی اور اس وقت اہل بیت کی اپنے شیعوں سے محبت خدا کی محبت ہی کی ایک کڑی ہوگی۔

اس طرح شیعوں سے اہل بیت کی محبت ایسی ہی ہوگی جیسے باپ اپنے بیٹے سے محبت کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ بیٹا اپنے اخلاق و عادات اور کردار و آداب میں اس محبت کا اہل ہو اور وہ ایسا کام نہ کرے کہ جس سے باپ کی عزت پر حرف آئے اور اس کے دل سے بیٹے کی محبت نکل جائے اوروہ اسے عاق کر دے۔

جس نے ان کے شیعوں سے عداوت کی اس نے ان سے دشمنی کی اور جس نے ان کے شیعوں سے محبت کی اس نے ان سے محبت کی۔

۲۷

جس طرح بغض و محبت کا تعلق طرفین سے ہوتاہے یعنی ایک طرف کی محبت اسی وقت سچی ہو سکتی ہے جب دوسری طرف بھی سچی محبت ہو اسی طرح تو لا و تبریٰ بھی ہے پس جس طرح ہم اہل بیت کے دشمنوں کو دشمن سمجھتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے دوستوں سے محبت کرتے ہیں اسی طرح اہل بیت بھی اس شخص کو دشمن سمجھتے ہیں جو ان کے شیعوں سے عداوت رکھتا ہے اوراس شخص سے محبت کرتے ہیں جو ان کے دوستوں سے محبت کرتا ہے۔

ابن ابی نجران سے روایت ہے کہ انہوں کہا،میں نے ابو الحسن سے سنا ہے :

جس نے ہمارے شیعوں سے دشمنی کی در حقیقت اس نے ہم سے دشمنی کی اور جس نے ان سے محبت کی حقیقت میں اس نے ہم سے محبت کی، کیونکہ وہ ہم میں سے ہیں وہ ہماری طینت سے پیدا کئے گئے ہیں لہٰذاجو بھی ان سے محبت کرے گا وہ ہم میں سے ہے اور جو ان سے دشمنی رکھے گا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمارے شیعہ نورِ خداسے دیکھتے ہیں وہ خدا کی رحمت میں چلتے پھرتے ہیں اور اس کی کرامت سے سرفراز و کامیاب ہوتے ہیں ۔( ۱ )

ابو الحسن سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے ہمارے شیعوں سے عداوت کی اس نے ہم سے عداوت کی اور جس نے ان سے محبت کی اس نے ہم سے محبت کی کیونکہ وہ ہم ہی میں سے ہیں وہ ہماری طینت سے خلق کئے گئے ہیں جس نے ان سے محبت کی وہ بھی ہم میں سے ہے اور جس نے ان سے دشمنی کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہمارے شیعہ نورِ خداسے دیکھتے ہیں اور اسکی رحمت میں چلتے پھرتے ہیں اور اس کی کرامت سے سر فراز ہوتے

____________________

(۱) بحار الانوار: ۶۸ ص ۱۶۸

۲۸

ہیں اگر ہمارے شیعوں میں سے کسی کوکوئی مرض لاحق ہوتا ہے تو اس کے مرض سے ہم بھی متأثر ہوتے ہیں ۔

اور اگران میں سے کوئی غمگین ہوتا ہے تو اس کے غم سے ہمیں بھی رنج ہوتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی خوش ہوتا ہے تو اس کی خوشی سے ہم بھی خوش ہوتے ہیں اور ہمارا کوئی شیعہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہے خواہ وہ مشرق و مغرب میں کہیں بھی ہو اوراس کے اوپر کچھ قرض ہو تو ہمارے ذمہ ہے اور اگر اس نے مال چھوڑا ہو تو وہ اس کے وارث کا ہے ۔

ہمارے شیعہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں ، زکواة دیتے ہیں ، خانہ خدا کا حج کرتے ہیں ، ماہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں ،اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے دشمنوں سے بیزار رہتے ہیں یہی لوگ صاحبان ایمان و تقویٰ اور یہی اہل زہد و ورع ہیں ،جس نے ان کی بات کو رد کر دیا اس نے خدا کے حکم کو رد کر دیا اور جس نے ان پر طعن کیااس نے خدا پر طعن کیا کیونکہ یہی خدا کے حقیقی بندے ہیں ، یہی اس کے سچے دوست ہیں ،خدا کی قسم اگر ان میں سے کوئی ربیعہ و مضر کے قبیلے کے برابر لوگوں کی شفاعت کرے گا تو خدا اس کی اس عظمت کی بنا پر جواس کی نظر میں ہے ا ن کے بارے میں اس کی شفاعت کو قبول کرے گا۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۸ صفات الشیعہ ۱۶۳

۲۹

اہل بیت کے شیعوں پر اور شیعوں کے اہل بیت پر حقوق

صرف اہل بیت ہی اپنے شیعوں سے اور ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت وبیزاری نہیں کرتے ہیں بلکہ جس طرح شیعوں پر اہل بیت کے حقوق ہیں کہ وہ خدا کی طرف ان کی ہدایت و راہنمائی کریں اور ان کو حدود خدا کی تعلیم دیں اور انہیں عبودیت کے آداب سکھائیں اسی طرح ان کے شیعوں پربھی لازم ہے کہ ان سے سیکھیں۔

ابو قتادہ نے امام جعفرصادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعوں کے حقوق ہم پر زیادہ واجب ہیں بہ نسبت ہمارے حقوق کے جوان کے ذمہ ہیں ۔ عرض کیا گیا کہ فرزندِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ کیسے؟ فرمایا: اس لئے کہ ان پر ہماری وجہ سے مصیبت پڑی ہے مگر ان کی وجہ سے ہم پر مصیبت نہیں پڑتی۔

۳۰

اہل بیت سے محبت اور نسبت کے شرائط

اہل بیت سے محبت و نسبت کے عام شرائط اور ان کی محبت کی قیمت کے بارے میں کہ جس کو ہم نے بیان کیا ہے کچھ عام شرطیں ہیں اہل بیت سے یہ نسبت و محبت اسی وقت ثمر بخش ہوتی ہے جس وقت یہ شرائط پورے ہوتے ہیں ،ان شرائط میں سے ایک شرط تفقہ ، تعبد، تقویٰ، ورع، مومنوں اور مسلمانوں سے میل ملاپ ،نظم و ضبط ،لوگوں کے ساتھ نیک برتائو امانتداری اور سچ گوئی بھی ہے۔

ان شرائط کے بغیر محبت حقیقی نہیں ہو سکتی ، بیشک حقیقی محبت اہل بیت کے سچے اتباع ہی میں ہے ۔

یہ نکات اہل بیت کی ان تعلیمات سے ماخوذ ہیں جو انہوں نے اپنے شیعوں اور اپنی پیروی کرنے والوں کودی تھیں ملاحظہ فرمائیں:

''کونوا لنا زیناً ولا تکونوا علینا شیناً' 'ہمارے لئے باعث زینت بنو ننگ و عار کا سبب نہ بنو۔

ائمہ اہل بیت اپنے شیعوں سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کے لئے زینت کا باعث بنیں ننگ و عار کا سبب نہ بنیں کیونکہ جب وہ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں گے اور اسلامی ادب سے سنور جائیں گے تو لوگ اہل بیت کی مدح کریں گے اور یہ کہیں گے انہوں نے اپنے شیعوں کی کتنی اچھی تربیت کی ہے اور جب لوگ شیعوں کے لین دین ،بد اخلاقی ان کے غلط برتائو، حدودِ خدا اور اس کے حلال و حرام سے ان کی لاپروائی کو دیکھیں گے تو ،ان کی وجہ سے وہ اہل بیت پر بھی نکتہ چینی کریں گے۔

۳۱

سلیمان بن مہران سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں جعفر بن محمد صادق کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ کے پاس کچھ شیعہ بھی موجود تھے اور آپ فرما رہے تھے: اے شیعو! ہمارے لئے باعثِ زینت بنو اور ننگ و رسوائی کا سبب نہ بنو لوگوں سے نیک بات کہو، اپنی زبان پر قابو رکھو اسے بری بات اور فضول کہنے سے باز رکھو۔( ۱ )

امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: اے شیعو! تم کوہم سے نسبت دی جاتی ہے پس تم ہمارے لئے باعثِ زنیت بنو، ہمارے لئے ننگ و عار کا سبب نہ بنو( ۲ )

آپ ہی کا ارشاد ہے : خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے لوگوں کے درمیان ہمیں محبوب بنا یااوران کے درمیان ہمیں مبغوض و منفور نہیں بنایا ۔ خدا کی قسم اگر وہ ہمارے کلام کے محاسن دیکھ لیتے تو اس کے ذریعہ انہیں اور عزت ملتی اور کوئی شخص کسی بھی چیز کے ذریعہ ان پر فائق نہ ہوتا۔( ۳ )

آپ ہی کا قول ہے : خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کی اور ان میں ہماری طرف سے بغض نہیں پیدا کیا خدا کی قسم اگر وہ ہمارے کلام کے محاسن دیکھ لیتے تو یہ ان کے لئے زیادہ باعث عزت ہوتا اور پھر کوئی بھی شخص کسی بھی چیز کے ذریعہ ان پر فوقیت حاصل نہ کر پاتا لیکن اگر ان میں سے کوئی شخص ہماری کوئی بات سن لیتا تو اس میں دس کا اور اضافہ ہوتا ۔( ۴ )

آپ ہی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: اے عبد الاعلیٰانہیں ( یعنی شیعوں کو) ہمار اسلام کہہ دیناخد ان پر رحم کرے اور یہ کہہ دینا کہ امام نے یہ کہا ہے : خدا رحم کرے اس

____________________

(۱)امالی طوسی : ج۲ ص ۵۵ بحار الانوار : ج ۶۸ ص ۱۵۱

(۲)مشکاة الانوار: ص ۶۷

(۳)مشکاة الانوار: ص ۱۸۰

(۴) روضة الکافی: ص ۲۹۳

۳۲

بندے پر کہ جس نے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف بھی مائل کیا اور ہماری طرف بھی اور وہ ان کے سامنے ایسی ہی چیز کو بیان کرتاہے جس کو اچھا سمجھتے ہیں اور ان کے سامنے ایسی چیز کا اظہار نہیں کرتا جس کو برا سمجھتے ہیں ۔( ۱ )

امام جعفر صادق ہی فرماتے ہیں : اے شیعو! ہمارے لئے باعث زینت بنو، سببِ ذلت و رسوائی نہ بنو، لوگوں سے اچھی اور نیک بات کہو اور اپنی زبانوں کی حفاظت کرو اور اسے فضول وبری بات کہنے سے باز رکھو۔( ۲ )

اہل بیت خدا سے شفاعت کریں گے اور اس سے بے نیاز نہیں ہیں

بیشک اہل بیت خداکے ذریعہ بے نیاز ہیں ، خدا سے بے نیاز نہیں ہیں وہ خدا کے اذن سے خدا سے شفاعت کریں گے، اس کی اجازت کے بغیر وہ کسی کی شفاعت نہیں کرے گے۔

پس جو شخص اہل بیت کی محبت و ولایت اور ان سے نسبت کے ذریعہ خدا کی عبادت و طاعت اور تقویٰ و ورع سے بے نیاز ہوناچاہتا ہے وہ مسلکِ اہل بیت سے ہٹ گیا ہے اس نے غیروں کا مذہب اختیار کر لیا ہے اور اس کو اہل بیت کی محبت و مودت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

عمرو بن سعید بن بلال سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام محمد باقر کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت ہماری ایک جماعت تھی۔آپ نے فرمایا:تم معتدل بن جائو یعنی میانہ روی اختیار کر لو کہ اس سے آگے بڑھ جانے والا تمہاری طرف پلٹ آئیگا اور پیچھے

____________________

(۱) بحار الانوار: ج۲ ص ۷۷

(۲) بحار الانوار: ج ۷۱ ص ۳۱۰

۳۳

رہ جانے والا تم سے ملحق ہوجائیگااور اے آل محمد کے شیعو! یہ جان لو کہ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ ہی خدا کے اوپر ہماری کوئی حجت ہے اور طاعت کے علاوہ کسی اور چیز کے ذریعہ خد اکا تقرب حاصل نہیں کیا جا سکتا پھر جو خدا کا مطیع و فرمانبردار ہوگا اس کو ہماری ولایت سے فائدہ پہنچے گا لیکن جو عاصی و نافرمان ہوگا اس کو ہماری ولایت سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اس کے بعد ہماری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: دھوکا نہ دو اور افتراء پردازی نہ کرو۔( ۱ )

اب جو بھی اہل بیت کو چاہتا ہے اور ان کے مکتب سے منسوب ہونا چاہتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے اسے یہ جان لینا چاہئے کہ خدا کے اذن کے بغیر اہل بیت کسی کوکوئی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں ، وہ بندے ہیں خدا کی مخلوق ہیں ۔ خدا کے مقرب ہیں ۔ پس جوبھی اہل بیت کو چاہتا ہے اور ان کی محبت کے ذریعہ خدا کا تقریب حاصل کرنا چاہتا ہے اور خدا کی بارگاہ میں شفاعت کا طلبگار ہے اسے خدا سے ڈرنا چاہئے، اور صالحین کے راستہ پر چلنا چاہئے۔

حضرت علی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا سے ڈرو! تمہیں کوئی دھوکا نہ دے اور کوئی شخص تمہیں نہ جھٹلائے،کیونکہ میرا دین وہی دین ہے جو آدم کا دین تھا جس کو خدا نے پسند کیاہے اور میں بندہ و مخلوق ہوں خدا کی مشیت کے علاوہ میں اپنے نفع و ضرر کا بھی مالک نہیں ہوں اور میں وہی چاہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۷۸

(۲)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۸۹ محاسن برقی سے منقول ہے ۔

۳۴

تقویٰ اور ورع

اہل بیت نے اپنے شیعوں کو جو وصیتیں کی ہیں ان میں سب سے زیادہ تقوے اور

ورع کی وصیتیں ہیں ،ان کے شیعہ وہی لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔ جس شیعہ کا تقویٰ اور ورع زیادہ ہوگا اہل بیت کے نزدیک اس کی قدر و منزلت بھی زیادہ ہوگی ،کیونکہ تشیع کا جوہر ، اتباع، تاسی اور اقتدا ہے اور جو شخص اہل بیت کی اقتدا کرنا چاہتا ہے ان کی اقتداء کے لئے طاعتِ خد ا ، تقویٰ اور ورع کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ملے گا۔

ابو الصباح کنانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ، میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: ہم کوکوفہ میں آپ کی وجہ سے ذلیل سمجھا جاتا ہے لوگ ہمیں جعفری کہتے ہیں ، یہ سن کر امام جعفرصادق غضب ناک ہوئے اور فرمایا: تم میں سے جعفر کے اصحاب بہت کم ہیں ، جعفر کے اصحاب تو وہی ہیں کہ جن کی پاکدامنی زیادہ اور جن کا عمل اپنے خالق کے لئے ہے ۔( ۱ )

عمرو بن یحییٰ بن بسام سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفرصادق سے سنا کہ فرماتے ہیں : لوگوں کے درمیان آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوران کے شیعہ ورع و پاک دامنی کے زیادہ حقدار ہیں ۔( ۲ )

امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ ورع و جانفشانی کے اہل ہیں ، وہ وقار و امانتداری کے اہل ہیں ،وہ زہد و عبادت کے اہل ہیں ، شب و روزمیں اکیاون رکعت نما زپڑھتے ہیں ،راتوں کو عبادت کرتے ہیں ، دن میں روزہ رکھتے ہیں ، خانۂ خدا کا حج کر تے ہیں اور ہر حرام چیز سے پرہیز کرتے ہیں ۔( ۳ )

____________________

(۱)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۶

(۲)بشارت المصطفیٰ ص ۱۷۱

(۳)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۸

۳۵

آپ ہی کا ارشاد ہے : خدا کی قسم علی کا شیعہ تو بس وہی ہے جس نے اپنے شکم و شرمگا ہ کو پاک رکھا ،اپنے خالق کے لئے عمل کیا ،اس کے ثواب کا امیدوار رہا اور اس کے عذاب سے ڈرتا رہا۔( ۱ )

آپ ہی سے مروی ہے : اے آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیعو! سن لو کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جوغیظ و غضب کے وقت اپنے نفس پر قابو نہ رکھے اور اپنے ہمنشین کے لئے اچھا ہمنشین ثابت نہ ہو اور جو اس کی ہمراہی اختیار کرے یہ اس کے لئے اچھا ساتھی ثابت نہ ہواور جو اس سے صلح کرے تو یہ اس سے بہترین صلح کرنے والا ثابت نہ ہو۔( ۲ )

امام جعفرصادق کاارشادہے :وہ ہمارا شیعہ نہیں ہے جو کسی شہرمیں ہو اور اس شہر میں ہزاروں لوگ ہوں اور اس شہرمیں کوئی اس سے زیادہ پاک دامن ہو۔( ۳ )

کلیب بن معاویہ اسدی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے امام صادق سے سنا کہ فرماتے ہیں : خدا کی قسم تم خدااور فرشتوں کے دین پر ہو پس ورع و کوشش اور جانفشانی کے ذریعہ میری مدد کرو۔( ۴ )

کلیب اسدی ہی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام صادق سے سنا کہ فرماتے ہیں : خدا کی قسم تم لوگ خدا اور اس کے فرشتوں کے دین پر ہو پس اس سلسلہ میں تم ورع و کوشش کے ذریعہ میری مدد کرو، تمہارے لئے نمازِ شب اور عبادت ضروری ہے اور تمہارے لئے ورع لازم ہے ۔( ۵ )

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ

(۲)بحار الانوار: ج ۷۸ ص ۲۶۶۔

(۳) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۴ ۔

(۴) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۴۔

(۵)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۷۸ بشارة المصطفیٰ ص ۵۵ ص ۱۷۴

۳۶

صاحبِ بصائر الدرجات نے مرازم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا میں مدینہ گیا تھا، جس گھر میں میراقیام تھا اس میں میں نے ایک کنیز کو دیکھا وہ مجھے بہت پسند آئی لیکن اس نے میرے ساتھ نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں رات کا ایک تہائی حصہ گزرنے کے بعد واپس آیا، در وازہ کھٹکھٹا یاتو اسی کنیز نے دروازہ کھولا، میں نے اپنا ہاتھ اس کے سینہ پر رکھ دیا، اس نے بھی کچھ حرکت کی یہاں تک کہ میں گھر میں داخل ہو گیا، اگلے دن میں ابو الحسن کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اے مرازم وہ ہمارا شیعہ نہیں ہے جس نے تنہائی میں ورع سے کام نہیں لیا۔( ۱ )

ایک شخص نے رسول کی خدمت میں عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلاں شخص اپنے ہمسایہ کی ناموس کو دیکھتا ہے اگر اسے مل جائے تو وہ پاک دامنی کا خیال نہیں کرے گا، یہ سن کر رسول کو غیظ آ گیا، تو دوسرے آدمی نے کہا: وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اور علی سے محبت رکھتا ہے اور آپ دونوں کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہے،وہ آپ کاشیعہ ہے، تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ نہ کہو کہ وہ ہمارا شیعہ ہے وہ جھوٹ کہتا ہے ہمارا شیعہ تو بس وہی ہے جو ہمارے اعمال میں ہمارا اتباع کرتا ہے اور جس شخص کا تم نے ذکر کیا ہے اس نے ہمارے اعمال میں ہمارا اتباع نہیں کیا ہے۔( ۲ )

ایک شخص نے امام حسن سے عرض کی: میں آپ کا شیعہ ہوں ، امام حسن نے فرمایا: اے خدا کے بندے اگرتم ہمارے اوامر میں ہمارے تابع ہواور جن چیزوں سے ہم نے روکا ہے ان میں ہمارے مطیع ہو تو تم سچے ہو اور اگر تمہارا عمل اس کے بر خلاف ہے توتمہارے گناہوں کے ساتھ اس دعوے سے تمہارے مرتبہ میں اضافہ نہ ہوگا تم اس کے اہل نہیں ہواور یہ نہ کہو کہ

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۵۳ بصار الدرجات ص ۲۴۷

(۲)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۵۵۔

۳۷

میں آپ کا شیعہ ہوں ہاں یہ کہو: میں آپ کے دوستوں میں سے ہوں اور آپ کا محب ہوں اور آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں ۔( ۱ )

ایک شخص نے امام حسین سے عرض کی: فرزندِ رسول میں آپ کا شیعہ ہوں ،آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر قسم کے مکرو فریب اور خیانت وکینہ سے محفوظ ہیں ۔( ۲ )

ابو القاسم بن قولویہ کی کتاب سے اور انہوں نے محمد بن عمر بن حنظلہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: امام صادق نے فرمایا: جو اپنی زبان سے خود کو ہمارا شیعہ کہتا ہے اور ہمارے اعمال و احکام میں مخالفت کرتا ہے وہ ہماراشیعہ نہیں ہے، ہمارے شیعہ وہ ہیں جو اپنی زبان اور اپنے دل سے ہماری موافقت کرتے ہیں اور ہمارے احکام میں ہمارا اتباع کر تے ہیں اور ہمارے اعمال کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ یہی ہمارے شیعہ ہیں ۔( ۳ )

____________________

(۱)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۵۶ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ ۔

(۳)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۴ج ۱۳ ۔

۳۸

تعبدو بندگی

ابو المقدام سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: مجھ سے امام محمد باقر نے فرمایا: اے ابو المقدام علی کے شیعہ تو بس وہی ہیں بھوک کے سبب جن کے چہرے مر جھائے ہوئے، بدن دبلے پتلے اورنحیف ولاغر، ہونٹ سوکھے ہوئے، شکم پشت سے چپکے ہوئے ،رنگ اڑے ہوئے اورچہرے زردہوتے ہیں ، رات ہوتی ہے تو وہ زمین ہی کو اپنا فرش و بستر بنا لیتے ہیں ،اپنی پیشانیوں کو زمین پر رکھتے ہیں ،ان کے سجدے زیادہ، اشک فشانی زیادہ،ان کی دعا زیادہ

اور ان کا رونا زیادہ ہوتاہے ، جب لوگ خوش ہوتے ہیں تو یہ مخزون ہوتے ہیں ۔( ۱ )

روایت ہے کہ ایک رات امیر المومنین مسجد سے نکلے ، رات چاندنی تھی آپ قبرستان میں پہنچے، آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک جماعت بھی آپ کے پاس پہنچ گئی آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا:

اے امیر المونین ہم آپ کے شیعہ ہیں آ پ نے ان کی پیشانیوں کوغو ر سے دیکھا اور فرمایا: مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمہارے اندر شیعوں کی کوئی علامت نہیں پاتا ہوں ؟ انہوں نے کہا: اے امیر المومنین شیعوں کی علامت کیا ہے ؟ فرمایا: بیدار رہنے کی وجہ سے ان کے رنگ زرد، رونے کے سبب ان کی آنکھیں کمزور، مستقل کھڑے رہنے کے باعث کمر ٹیڑھی اور روزہ رکھنے کی وجہ سے ان کے شکم پشت سے چپکے ہوئے اور دعا کے سبب ہونٹ مرجھائے ہوتے ہیں اور ان پر خاشعین کی گرد پڑی ہوتی ہے۔( ۲ )

ابو نصیر سے اور انہوں نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ پاک دامن، زحمت کش، وفادار و امین ، عابد و زاہد، شب و روز میں اکیاون رکعت نماز پڑھنے والے، راتوں میں عبادت میں مشغول ر ہنے والے، دنوں میں روزہ رکھنے والے اپنے اموال کی زکواة دینے والے خانہ کعبہ کا حج کرنے والے اور ہر حرام چیز سے پر ہیز کرنے والے ہیں ۔( ۳ )

شیخ صدوق نے ''صفات الشیعہ''میں اپنی اسناد سے محمد بن صالح سے انہوں نے ابوالعباس دینوری سے انہوں نے محمد بن حنفیہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جب علی

____________________

(۱) خصال : ج ۲ ص ۵۸ بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۴۹ و ۱۵۰

(۲)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۵۰ و ۱۵۱ امالی طوسی : ج ۱ ص ۲۱۹۔

(۳)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۷ صفات الشیعہ ۱۶۲ ۔ ۱۶۴

۳۹

اہل جمل سے جنگ کے بعد بصرہ تشریف لائے تو احنف بن قیس نے آپ کی اور آپ کے اصحاب کی دعوت کی کھاناتیارکیااوراحنف نے کسی کو آپ کو اورآ پ کے اصحاب کوبلانے کے لئے بھیجاآپ تشریف لائے اورفرمایا:اے احنف میرے اصحاب سے کہدو اندر آجائں، تو آپ کے پاس خشک مشکیزہ کی طرح خاشع و انکسارپرور ایک گروہ آیا: احنف بن قیس نے عرض کی: اے امیر المومنین ! یہ ان کاکیا حال ہے؟ کیا کم کھانے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے؟یا جنگ کے خوف کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ہے ؟!

آپ نے فرمایا: نہیں !اے احنف بیشک خدا وند عالم کچھ لوگوں کو دوست رکھتا ہے کہ وہ اس کیلئے اس دنیا میں عبادت کر تے رہیں ]کیونکہ ان کی عبادت[ان لوگوں کی عبادت کی طرح ہے کہ جن پرقیامت کے قریب ہونے کے علم کی وجہ سے ہیجانی کیفیت طاری ہے اورقبل اس کے کہ وہ قیامت کودیکھیں انہوں نے اسکے لئے مشقت اٹھاکرخودکوتیارکیاہے اورجب وہ اس صبح کویادکرتے ہیں کہ جس میں خداکی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جائیںگئے تووہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کی آگ سے ایک بڑاشعلہ نکلے گااورتمام مخلوق کوان کے پروردگارکے سامنے اکٹھاکرے گااورلوگوں کے سامنے ان کے نامہ اعمال کوپیش کیاجائے گااوران کے گناہوں کی برائیاںآشکارہوجائیںگئی یہ سب سوچ کرقریب ہے کہ ان کی جانیںپگھل کرپانی پانی ہوجائیںاورانکے قلوب خوف کے پروں سے پروازکرنے لگیںاورجب خود کو بارگاہ الھی میں تنہا محسوس کرتے ہیں تودیگ کے کھولتے ہوئے پانی کی طرح کھولنے لگتے ہیں اورانکی عقلیں ان کاساتھ چھوڑدیتی ہیں ۔

۴۰