اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ0%

اہل بیت کے شیعہ مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 142

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف: آیة اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 142
مشاہدے: 34827
ڈاؤنلوڈ: 2439

تبصرے:

اہل بیت کے شیعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 142 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34827 / ڈاؤنلوڈ: 2439
سائز سائز سائز
اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف:
اردو

وہ رات کی تاریکی میں مصیبت زدہ لوگوں کی طرح آواز بلند کرتے ہیں اور اپنے نفس کے کرتوت پر غمگین رہتے ہیں لہذا ان کے بدن لاغر، ان کے دل مغموم و مخزون، ان کے چہرے کرخت، ہونٹ مر جھائے ہو ئے اور شکم پتلے ہیں ، انہیں دیکھو گے تو ایسا لگے گا جیسے وہ نشہ میں ہوں ، رات کی تنہائی میں بیدار رہتے ہیں ، انہوں نے اپنے ظاہری و باطنی اعمال کو خدا کے لئے خالص کر لیا ہے ، ان کے دل اس کے خوف سے بے پروا نہیں ہیں اگر تم انہیں رات میں اس وقت دیکھو کہ جب آنکھیں سورہی ہوں ، آوازیں خاموش ہو گئی ہوں اور گردش رک گئی ہوتو اس وقت قیامت کاخوف انہیں سونے سے باز رکھتا ہے ، خدا وند عالم کا ارشاد ہے : کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہمارا عذاب ان پر رات میں آ جائے جب سورہے ہوں ۔( ۱ )

اور وہ گھبرا کر اٹھتے ہیں اور بآواز بلند روتے ہوئے نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر کبھی گریہ کرنے لگتے ہیں اور کبھی تسبیح پڑھتے ہیں اورکبھی اپنے محراب عبادت میں چیخ مارکر روتے ہیں ،وہ تاریک رات کاانتخاب کرتے ہیں تاکہ صف باندھ کر خاموشی سے روئیں،اے اخنف اگر تم ان کو راتوں میں دیکھو کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں توتم ان کو اس حالت میں پائوگے کہ کمریں جھکی ہوئی ہیں اور اپنی نمازوں میں قرآن کے پاروں کی تلاوت کررہے ہیں ، ان کے رونے اور ہائے ویلا کرنے میں شدت پیدا ہو گئی ہے جب وہ سانس لیتے ہیں تم یہ گمان کرتے ہو کہ ان کے گلے میں آگ بھری ہوئی ہے اور جب وہ گریہ کرتے ہیں توتم یہ خیال کرتے ہو کہ ان کی گردنوں کو زنجیروں میں جکڑدیا گیا ہے۔

اگر تم انہیں دن میں دیکھو گے تو تم انہیں ایسا پائو گے کہ وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور لوگوں سے اچھی بات کہتے ہیں : اور'' جب ان سے جاہل مخاطب ہوتے ہیں تووہ کہتے ہیں تم سلامت رہو''( ۲ ) ،اور'' جب وہ کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو احتیاط و بزرگی سے گزر

____________________

(۱) سورہ اعراف: ۷ ۔

(۲)الفرقان۶۳۔

۴۱

جاتے ہیں ''۔( ۱ )

اپنے قدموں کو انہوں نے تہمت والی باتوں کی طرف بڑھنے سے روک رکھا ہے اور اپنی زبانوں کو لوگوں کی عزت وآبرو پر حملہ کرنے سے گنگ بنا رکھاہے اور انہوں نے اپنے کانوں کو دوسروں کی فضو ل با توں کوسننے سے روک رکھا ہے ۔

اور اپنی آنکھوں میں گناہوں سے بچنے کا سرمہ لگا رکھا ہے اور انہوں نے دار السلام میں داخل ہونے کا قصدکررکھاہے اوریہ دارالسلام وہ جو اس میں داخل ہو گا وہ شک اور رنج و محن سے امان میں رہے گا۔( ۲ )

امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: امام زین العابدین اپنے گھر میں تشریف فرما تھے کہ کچھ لوگوں نے دروازہ پر دستک دی۔ آپ نے ایک کنیز سے فرمایا: دیکھو دروازہ پر کون ہے؟ انہوں نے کہا: آپ کے شیعہ ہیں ، یہ سن کر آپ درواز کی طرف اتنی تیزی سے گئے قریب تھا کہ آپ گر پڑیں ،لیکن جب دروازہ کھول کر ان لوگوں کو دیکھا تو واپس لوٹ گئے اور فرمایا جھوٹ بولتے ہیں ،ان کے چہروں پرشیعہ کی علامت کہاںہے؟ عبادت کا اثر کہاں ہے؟ پیشانی پر سجدہ کا نشان کہاں ہے؟ ہمارے شیعہ تو بس اپنی عبادتوں اوراپنی پریشاں حالی سے پہچانے جاتے ہیں ، کثرت عبادت سے ان کی ناک زخمی ہو گئی ہے ان کی پیشانی اور اعضاء سجدہ پرگٹھے پڑ گئے ہیں ، ان کا پیٹ پتلا ہو گیا ہے، ہونٹ مرجھا گئے ہیں ، عبادت کی وجہ سے ان کے چہرے مرجھا گئے ہیں ، راتوں کی بیداری نے ان کی جوانی کو متغیرکردیا ہے اور دن کی گرمی نے ان کے بدن کو پگھلا دیا ہے ، یہ وہ ہیں کہ جب لوگ خاموش ہو تے ہیں تو یہ تسبیح کرتے ہیں اور جب لوگ سوتے ہیں تو یہ نماز پڑھتے ہیں اور جب لوگ خوش ہوتے ہیں تویہ

____________________

(۱)الفرقان:۷۲

(۲) بحار الانوار : ج ۶۸ ص ۱۷۰ و ۱۷۱ منقول از صفات الشیعہ ۱۸۳

۴۲

محزون ہوتے ہیں ۔( ۱ )

نوف بن عبد اللہ بکائی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مجھ سے علی نے فرمایا: اے نوف ہم پاک طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور ہمارے شیعہ ہماری ہی طینت سے پیدا ہوئے ہیں اور روز قیامت وہ ہم ہی سے ملحق ہو جائیں گے۔

نوف نے کہا:اے امیر المومنین مجھے اپنے شیعوں کے صفات بتایئے پس آپ اپنے شیعوں کو یاد کرکے روئے اور فرمایا: اے نوف خدا کی قسم ہمارے شیعہ حلیم و بردبار، خدااور اس کے دین کی معرفت رکھنے والے، اس کے حکم پر عمل کرنے والے ، اس کی محبت کی وجہ سے ہدایت یافتہ، عبادت کی وجہ سے نحیف و لاغر اور دنیا سے بے رغبتی کے سبب خرقہ پوش، نماز شب برپا رکھنے کے باعث ان کے چہروں کے رنگ زرد، رونے کے سبب آنکھیں چند ھیائی ہو ئیں اور ذکر خدا کی کثرت سے ہونٹ سوکھے ہوئے۔بھوکا رہنے کے باعث پیٹ کمر سے لگے ہوئے، ان کے چہروں سے ربّانیت اور ان کی پیشانیوں سے رہبانیت آشکار ہے وہ ہر تاریکی کا چراغ ہیں ، ہر اچھی جماعت کا پھو ل ہیں ، ان کی برائیاں ناپید، ان کے دل محزون، ان کے نفس پاک، ان کی حاجتیں کم ، ان کے نفس مشقت میں اور لوگ ان سے راحت میں ہیں وہ عقل کے جام اورنجیب و خالص، اگر وہ سامنے ہوتے ہیں تو پہچانے نہیں جاتے اور وہ لا پتا ہو جاتے ہیں تو کسی کو ان کی تلاش کی فکر نہیں ہوتی یہ ہیں میرے بہترین شیعہ اور معزز و محترم بھائی مجھے ان سے ملاقات کا بڑا اشتیاق ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۹ ح ۳۰

(۲) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۷۷ امالی طوسی: ج ۲ ص ۱۸۸

۴۳

رات کے عابد دن کے شیر

نوف ایک رات کا قصہ بیان کرتے ہیں وہ حضرت علی کے ساتھ آپ کے گھر کی چھت پر سو رہے تھے، امام نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور ایک مشتاق کی طرح آسمان کے ستاروں کو دیکھا پھر فرمایا: اے نوف تم سو رہے ہو یا بیدار ہو۔؟انہوں نے کہا: بیدار ہوں ۔ فرمایا: اے نوف! کیا تم میرے شیعہ کو جانتے ہو؟ میرے شیعہ وہ ہیں کہ جن کے ہونٹ سو کھے ہوئے ، شکم کمر سے لگے ہوئے، ربانیت اور رہبانیت ان کے چہروں سے آشکار ہے ، وہ رات کے عابد اور دن کے شیر ہیں ۔ جب رات چھا جاتی ہے تو وہ ایک چادر کو لنگی کی طرح باندھ لیتے ہیں اور دوسری کو اوڑھ لیتے ہیں ۔

وہ صف بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں ، اپنی پیشانیوں کو زمین پر رکھ دیتے ہیں ، ان کی آنکھوں سے ان کے رخساروں پر آنسو بہتے ہیں اور وہ خدا سے اپنی نجات کی دعا کرتے ہیں اور دن میں وہ حلیم و بردبار، عالم و ابرار اور پرہیز گار ہیں ۔( ۱ )

مذکورہ حدیث میں رات کے راہب اور دن کے شیر بہترین تعبیر ہے جو ان کے رات دن کے حالات کو بیان کرتی ہے ،وہ شب کی سلطنت کے بادشاہ ہیں ، جب رات ہو جاتی ہے تو تم انہیں رکوع، سجود اور بارگاہِ خدا میں خشوع کرتے ہوئے دیکھوگے ،خدا کی بارگاہ میں جہنم سے نجات کیلئے تضرع و زاری کرتے ہوئے پائو گے۔ اور جب دن نکل آتا ہے تو وہ میدانِ مقابلہ میں علماء اوربردبار ومتقی ہوتے ہیں ، محکم، ثابت قدم ،صابراور مقاومت کرنے والے ہیں ۔

____________________

(۱)بحار الانوار : ج ۶۸ ص ۱۹۱۔

۴۴

سمة العبید من الخشوع علیهم

للّه، أن ضمتهم الأسحار

فاذا ترجلت الضحی شهد لهم

بیض القواضب أنّهم احرار

ترجمہ: جب رات ان کو اپنے دامن میں لے لیتی ہے تو ان کے اندر خدا کے بندوں کی

علامت خشوع پیدا ہو جاتی ہے اور جب دن نکل آتا ہے تو تیز تلواروں کی چمک گواہی دیتی ہے کہ یہ آزاد ہیں ۔

رات میں ذکرخدااوردن میں تقوی انکی زندگی میں شب وروزکی روح کاشعار ہے۔

شب و روز میں اکیاون رکعت نماز پڑھتے ہیں

امام صادق سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ ورع و جانفشانی سے کام لینے والے ہیں وہ با وفا، امانتدار اور زاہد و عبادت گزار ہیں ، شب وروز میں اکیاون رکعت نماز پڑھتے ہیں ، دن میں روزہ رکھتے ہیں ، اپنے اموال کی زکواة دیتے ہیں ، خانہ خدا کا حج کرتے ہیں اور ہر حرام چیزسے پرہیز کرتے ہیں ۔( ۱ )

امام محمد باقر فرماتے ہیں : ہمارے شیعہ تو وہی ہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں وہ اپنی خاکساری، خشوع، امانت کی ادائیگی اور ذکرِ خدا کی کثرت سے پہچانے جاتے ہیں( ۲ )

امام صادق فرماتے ہیں : ہمارے شیعوں کے پیٹ خالی، ہونٹ مر جھائے ہوئے اور وہ نحیف و لاغر ہوتے ہیں ،جب رات ہو تی ہے تو وہ آہ و زاری کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں ۔( ۳ )

ابو حمزہ ثمالی نے یحییٰ بن ام الطویل سے روایت کی ہے کہ انہوں نے خبر دی اور انہوں نے نوف بکائی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: مجھے حضرت امیر المومنین سے کوئی کام تھا، لہٰذا میں ، جندب بن زہیر ربیع بن خیثم اور ان کے بھانجے ہمام بن عبادہ بن خیثم آپ

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۷

(۲) تحف العقول: ص ۲۱۵

(۳) بحار الانوار : ج۶۸ ص ۱۸۶۔

۴۵

کے پاس گئے، دیکھا کہ آپ مسجد کی طرف جا رہے ہیں ۔ ہم اعتماد کے ساتھ آپ سے ملاقات کے لئے بڑھے۔

جب انہیں امیر المومنین نظر آئے تو وہ کھڑے ہو کر آپ کی طرف دوڑے، آپ کی خدمت میں سلام بجالائے آپ نے ان کا جواب دیا پھر فرمایا: یہ کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے بتایا: اے امیر المومنین یہ آپ کے شیعہ ہیں ، آپ نے ان کے لئے نیک بات کہی پھر فرمایا: اے لوگو! مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تم میں اپنے شیعوں کی کوئی علامت نہیں پاتا ہوں اور اہل بیت کے محبوں کی نشانی نہیں دیکھتا ہوں ، اس سے ان لوگوں کو شرم آ گئی۔

نوف کہتے ہیں : جندب اور ربیع آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور دونوں نے کہا: اے امیر المومنین آپ کے شیعوں کی علامت اور ان کی صفت کیا ہے ؟ آپ نے تھوڑی دیرکے بعد ان دونوں کا جواب دیا ،فرمایا: تم دونوں خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور نیکی کرو کیونکہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکیاں انجام دیتے ہیں ۔

اس وقت ایک بڑے عبادت گزار، ہمام بن عبادہ نے کہا: میں آپ سے اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے آپ اہل بیت کو سر فراز کیا، آپ کو مخصوص قرار دیا۔ اور آپ کو بہت سی فضیلتوں سے نوازا، مجھے اپنے شیعوں کے صفات بتایئے، آپ نے فرمایا:قسم نہ دو میں تمہیں سارے صفات بتائوں گا آپ ہمام کا ہاتھ پکڑ کر مسجد میں داخل ہوئے اوردو رکعت نمازمختصر و مکمل طور پر بجالائے پھربیٹھ گئے اورہماری طرف متوجہ ہوئے اس وقت بہت سے لوگ آپ کے چاروں طرف جمع ہو گئے تھے آپ نے خدا کی حمد و ثنا کی ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود بھیجا پھر فرمایا:

۴۶

امابعد: بیشک اللہ جلّ ثناؤہ و تقدّست أسماؤہ نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کے لئے عبادت کو لازمی قرار دیا اور طاعت کو فرض کیا اور ان کے درمیان ان کی معیشت و روزی کو تقسیم کیا اور ان کے لئے دنیا میں ان کے مناسب حال ایک منزل قرار دی ،جبکہ وہ ان سے بے نیاز تھا ،نہ کسی طاعت کرنے والے کی طاعت اس کو فائدہ پہنچاتی ہے اور نہ کسی نافرمان کی نافرمانی اس کو نقصان پہنچاتی ہے ،لیکن خدا وند عالم کو یہ علم تھا کہ یہ لوگ اس چیز میں کوتاہی کریںگے جس سے ان کے حالات کی اصلاح ہو سکتی ہے اور دنیاوآخرت میں ان کے مصائب کم ہو سکتے ہیں ۔پس اس نے اپنے علم سے انہیں اپنے امر و نہی میں باندھ دیا، اختیار کے ساتھ انہیں حکم دیا اور تھوڑی سی تکلیف دی اور اس پر زیادہ ثواب دیا۔ خدا نے اپنے عدل و حکمت کی بنیاد پر اپنی محبت اور رضا کی طرف تیزی سے بڑھنے والے اور اس میں سستی کرنے والے اور اس کی نعمت سے گناہ میں مدد لینے کے درمیان میں فرق قائم کیا چنانچہ خدا وند عالم کا قول ہے :

( أمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئاتِ أنْ نَجعَلَهُم کَالَّذِینَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَحْیَاهُم وَ مَمَاتُهُم سَآئَ مَا یَحْکُمُونَ ) ( ۱ )

کیا ان لوگوں نے کہ جنہوں نے گناہ کئے ہیں یہ گمان کیا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کے برابر کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیئے کہ سب کی موت و حیات ایک جیسی ہو یہ ان لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے ۔

اس کے بعد امیر المومنین نے ہمام بن عبادہ کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:آگاہ ہو جائو !وہ شخص جس نے ان اہل بیت کے شیعوں کے بارے میں سوال کیا ہے۔ اہل بیت کہ جن کو خدا نے اپنی کتاب میں اپنے نبی کے ساتھ اس طرح پاک رکھنے کا اعلان کیا ہے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے ، ان کے شیعہ، خدا کی معرفت رکھنے والے اس کے حکم پر عمل کرنے والے اوروہ فضائل و کمالات کے مالک ہیں اور ان کی گفتگو صحیح، ان کا لباس اوسط درجہ کاہوتا ہے اور

____________________

(۱) سورہ جاثیہ: ۲۱۔

۴۷

وہ خاکساری کے ساتھ چلتے ہیں ، وہ خدا کی طاعت میں خود کوہلاک کر لیتے ہیں اور اس کی عبادت کر کے اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں ، خدا نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ ان سے آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں ، اپنے کانوں کو انہوں نے علم دین سننے کے لئے وقف کر دیا ہے، مصائب و آلام میں ان کے نفس ایسے ہی رہتے ہیں جیسے آرام و سکون میں ، وہ خدا کے فیصلہ پر راضی رہتے ہیں اگر خدا نے ان کی مدت حیات مقرر نہ کی ہوتی تو ثواب کے شوق میں اور عذاب کے خوف میں ان کی روحیں چشم زدن کے لئے بھی ان کے بدنوں میں نہ ٹھہرتیں۔

خالق ان کی نظر میں اس قدر عظیم ہے کہ دنیا کی ہر چیز ان کی نظر میں حقیر ہو گئی ہے، جنت ان کی آنکھوں کے سامنے ہے گویا وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ جنت کی مسندوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور جہنم کو اس طرح دیکھ رہے ہیں کہ جیسے اس میں ان کو عذاب دیا جا رہاہے ، ان کے دل رنجیدہ اور( لوگ) ان کے شر سے امان میں ہیں ، ان کے بدن لاغر اور ان کی خواہشیں بہت کم اوران کے نفس پاک و پاکیزہ ہیں ، اسلام میں ان کی مدد بہت عظیم ہے، انہوں نے دنیا میں چند دن تکلیف اٹھائی ، یہ نفع بخش تجارت ہے جو ان کے خدا نے ان کے لئے میسر کرائی ہے، یہ ذہین ترین لوگ ہیں ۔دنیا نے انہیں بہت لبھا یا لیکن وہ اسے خاطر میں نہیں لائے، دنیا نے انہیں طلب کیا مگر انہوں نے اسے عاجز کر دیا۔

راتوں میں وہ مصلائے عبادت پر کھڑے رہتے ہیں ، ٹھہرٹھہرکر قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور اس سے اپنے نفسوں کومحزون رکھتے ہیں اور اسی سے اپنا علاج کرتے ہیں جب کسی ایسی آیت پران کی نگاپڑتی ہے جس میں جنت کی ترغیب دلائی گئی ہو تو اس کی طمع میں اُدھرجھک پڑتے ہیں اوراس کے اشتیاق میں ان کے دل بے تابانہ کھنچتے ہیں اوریہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ]پرکیف [منظران کی نظروں کے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پران کی نظرپڑتی ہے کہ جس میں ]دوزخ سے[ڈرایاگیاہو تو اس کی جانب دل کے کانوں کوجھکادیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آوازاوروہاں کی چیخ پکاران کے کانوں میں پہنچ رہی ہے ،وہ رکوع میں اپنی کمریں جھکائے اورسجدہ میں اپنی پیشانیوں ، ہتھیلیوں اور گھٹنوں کو زمین پر رکھے ہوئے ہیں اورجبارِ عظیم کی تمجید کرتے ہیں اور پروردگار سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ان کی گردنوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے یہ ہے ان کی رات

۴۸

دن میں یہ بردبار، علماء ودانشور، نیک کردار اور پرہیزگار ہیں جیسے انہیں خوف خدا نے تیر وں کی طرح تراش دیا ہے ، دیکھنے والا انہیں دیکھ کر بیمار سمجھتا ہے حالانکہ وہ بیمار نہیں ہیں ، ان کی باتوں کو سن کر کہتا ہے کہ ان کی باتوں میں فتور ہے جب کہ ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک عظیم چیز نے مدہوش بنا رکھا ہے اس کا تسلط و بادشاہت ایک عظیم شیٔ پرہے اس نے ان کے دلوں کو غافل اور ان کی عقلوں کو حیران کر رکھا ہے ۔

جب اس سے فرصت ملتی ہے تو خدا کی بارگاہ میں نیک اعمال بجالانے کی طرف بڑھتے ہیں یہ قلیل عمل سے خوش نہیں ہوتے اور نہ اس کا زیادہ اجر چاہتے ہیں ، ہمیشہ اپنے نفسوں کو متہم کرتے رہتے ہیں اور اپنے اعمال ہی سے خوف زدہ رہتے ہیں اور جب ان کی تعریف کی جاتی ہے تو اس سے ڈرتے ہیں اورکہتے ہیں : میں اپنے نفس کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہوں اور میرا پروردگار مجھے سب سے بہتر جانتا ہے ۔ اے اللہ! مجھ سے ان کی باتوں کا حساب نہ لینا اور مجھے ان کے گمان و خیال سے بہتر قرار دینا اور میرے ان گناہوں کو بخش دینا جن کو یہ نہیں جانتے بیشک تو غیب کا عالم اور عیوب کو چھپانے والا ہے۔

اور ان میں سے ایک کی علامت یہ ہے کہ تم دیکھو گے، وہ دین میں قوی ہے اور نرمی میں شدید احتیاط ہے ،یقین میں ایمان ہے ، علم کے بارے میں حرص ہے، اپنی فقہ میں سمجھ دار ہے ، حلم علم ہے ، مالداری میں میانہ روی ہے ، محتاجی میں خود داری ہے ، سختی میں ثابت قدم و صابر ہے ، عبادت میں خاشع ہے ، عطا کرنے میں برحق ہے ۔ کمانے میں نرمی، حلال کی طلب، ہدایت میں نشاط، شہوت میں گناہ سے حفاظت اور استقامت میں نیک ہے ۔

جس چیز کو وہ نہیں جانتا وہ اسے دھوکا نہیں دے سکتی اور جس نیک کام کو انجام دے چکا ہے اس کو شمار میں نہیں لاتا، غلط کام میں اس کا نفس سست، بلکہ نیک کام بھی انجام دیتا ہے تو ڈرتے ہوئے۔

۴۹

صبح میں وہ ذکرِ خدا کر تا ہے اور شام کے وقت توشکرِ خدا کی فکر ہوتی ہے ، غفلت کی اونگھ سے ڈرتے ہوئے رات بسر کرتے ہیں اور ملنے والے فضل و رحمت کی خوشی میں صبح کرتے ہیں اگر ان کا نفس کسی ناگوار چیز کے لئے سختی بھی کرتا ہے تو اس کے مطالبہ کو پورا نہیں کرتے ہیں ان کی رغبت باقی رہنے والی اور ان کا پرہیز فنا ہونے والی چیزوں میں ہے۔ اور عمل کو علم سے اور علم کو حلم سے متصل کیا گیا ہے ۔ اس کا نشاط دائمی اس کی سستی اس سے دور، اس کی امید قریب، اس کی لغزش کم ، اپنی اجل کا منتظر، اس کا دل خاشع، اپنے رب کو یاد کرنے والا، اس کا نفس قانع، اس کا جہل غائب ، اس کا دین محفوظ، اس کی شہوت بے جان، اپنے غصہ کو پینے والا، اس کی خلقت صاف ستھری، اس کا ہمسایہ اس سے محفوظ، اس کا کام آسان ، اس کا تکبر معدوم ،اس کا صبر آشکار، اس کا ذکر بے شمار، وہ دکھاوے کے لئے کوئی نیک کام نہیں کرتا ہے اور نہ شرم کی وجہ سے کسی نیک کام کو ترک کرتا ہے؛ (لوگ) اس سے نیکی کی امیدکرتے اور اس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں اگر یہ غافلوں میں نظر آئیں تو بھی ذکر خدا کرنے والوں میں شمار ہوں گے اور اگر ذکر خدا کرنے والوں میں دیکھے جائیں تو غافلوں میں شمار نہیں ہوں گے، جو ان پر ظلم کرتا ہے یہ اسے معاف کر دیتے ہیں اور جو انہیں محروم رکھتا ہے یہ اسے عطا کرتے ہیں اور جس نے ان سے قطع رحمی کی یہ اس سے تعلقات رکھتے ہیں ۔ ان کی نیکی قریب، ان کا قول سچا ہے، ان کا فعل اچھا، خیر ان کی طرف بڑھتا ہوا، شر ان سے ہٹتاہوا، مکروہات ان سے غائب، زلزلوں میں باوقار، سختیوں میں صابر، آسانیوں میں شکر گزار، دشمنوں پر ظلم نہیں کرتے اور جوچیز ان کے خلاف ہوتی ہے اس کا انکار نہیں کرتے ہیں ، گواہی طلب کئے جانے سے پہلے ہی حق کا اعتراف کر لیتے ہیں اور امانتوں کو ضائع نہیں کرتے ہیں ،ایک دوسرے کو برے القاب سے نہیں پکارتے ہیں ، کسی پر زیادتی نہیں کرتے، ان پرحسد غالب نہیں آتا، ہمسایہ کو نقصان نہیں پہنچاتے، اورمصیبتوں میں کسی کو طعنہ نہیں دیتے، امانتوں کو ادا کرتے ہیں ، طاعت پر عمل کرتے ہیں ، نیکیوں کی طرف دوڑتے ہیں ، برا ئیوں سے بچتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں ، برائی سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے باز رہتے ہیں ، وہ نادانی کی وجہ سے کوئی کام انجام نہیں دیتے ہیں اور عجز کی وجہ سے حق سے خارج نہیں ہوتے۔ اگر خاموش رہتے ہیں تو ان کی خاموشی انہیں عاجز نہیں کرتی ہے اور بولتے ہیں تو ان کی گویائی انہیں عاجز نہیں کرتی ہے اور اگر ہنستے ہیں تو آواز بلند نہیں ہوتی جو ان کے لئے مقدر کر دیا گیا ہے

۵۰

اسی پر قناعت کرتے ہیں ،نہ ان کو غصہ آتا ہے اور نہ خواہش نفس ان پرغلبہ کرتی ہے، ان پر بخل تسلط نہیں پاتا ہے ،وہ لوگوں سے علم کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں اور صلح و سلامتی کے ساتھ ان سے جدا ہوتے ہیں ، فائدہ رسانی کے لئے گفتگو کرتے ہیں ، سمجھنے کے لئے سوال کرتے ہیں ، ان کا نفس ان کی وجہ سے رنج و محن میں اور لوگ ان سے راحت و امن میں رہتے ہیں ، اپنے نفس سے لوگوں کو آرام پہنچاتے ہیں اور آخرت کے لئے اسے تھکاتے ہیں ۔

اگر کوئی ان پر زیادتی کرتا ہے تو وہ صبرکرتے ہیں تاکہ خدا اس سے انتقام لے، گذشتہ اہل خیر کی اقتداء کرتے ہیں پس وہ اپنے بعد والے کے لئے نمونہ ہیں ۔

یہی لوگ خدا کے کارندے ہیں اور اس کے امر و طاعت کے حامل ہیں ،یہی اس کی زمین اور اس کی مخلوق کے چرا غ ہیں ، یہی ہمارے شیعہ اور ہمارے محب ہیں ، یہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں ۔ مجھے ان سے ملنے کا کتنا اشتیاق ہے ۔

یہ سن کر ہمام بن عبادہ نے ایک چیخ ماری اور ان پر بیہوشی طاری ہو گئی ، لوگوں نے انہیں حرکت دی تو معلوم ہوا کہ وہ دنیا سے جا چکے ہیں خدا ان پر رحم کرے۔ ربیع نے روتے ہوئے کہا: اے امیر المومنین آپ کے وعظ نے میرے بھتیجے پر کتنی جلد اثر کیا ہے ، میں چاہتا تھا کہ اس کی جگہ میں ہوتا۔

امیر المونین نے فرمایا: نصیحت اپنے اہل پر اسی طرح اثر کرتی ہے خدا کی قسم مجھے اسی کا خوف تھا اس وقت کسی نے کہا:اے امیر المومنین اس نصیحت نے آپ پر کیوں نہ اثر کیا؟ آپ نے فرمایا: خدا تیرا برا کرے موت کا وقت معین ہے جس سے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا اوراس کا ایک سبب ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی، خبردار اب ایسی بات نہ کہنا، اصل میں تیری زبان پر شیطان نے اپنا جادو پھونک دیا ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۹۲ و ۱۹۵ سید رضی نے اس روایت کو نہج البلاغہ میں تھوڑے سے اختلاف سے نقل کیا ہے ۔

۵۱

آپس میں ملاقات و محبت

ان شرطوں میں سے ایک دوسرے سے تعلق رکھنا اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنا اور ایک دوسرے کا تعاون کرنا بھی ہے ۔ ایک د وسرے کا جتنا زیادہ تعاون کریں گے اورآپس میں تعلق بڑھا ئیں گے اتنا ہی خدا ان کو دوست رکھے گا اور ان کو ان کے دشمنوں سے بچائے گا، ان کی حفاظت کرے گا اور ان کی مدد کرے گا، ان کے ہاتھ پراوران کے ہاتھ کے ساتھ خدا کا ہاتھ ہے بشرطیکہ ان کے ہاتھ جمع ہوں یعنی ان میں اتحاد ہو۔

سدیر صیرفی امام جعفرصادق کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ کے کچھ اصحاب بھی آپ کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ نے فرمایا: اے سدیر ہمارے شیعوں کی اس وقت تک رعایت، حفاظت، پردہ پوشی کی جائے گی جب تک وہ ایک دوسرے کے بارے میں حسن نظر اور خدا کے بارے میں حسن ظن رکھیں گے اور اپنے ائمہ کے بارے میں صحیح نیت رکھیں گے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کریں گے، اپنے کمزور افراد پر مہربانی کریں گے اور محتاجوں کی مالی مدد کریں گے کیونکہ ہم ظلم کرنے کا حکم نہیں دیتے ہیں لیکن تمہیں ورع اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں اور تمہیں اپنے بھائیوں کی مالی مدد کرنے کا حکم دیتے ہیں ، اس لئے کہ اولیاء خدا خلقت آدم سے آج تک کمزورہیں ۔( ۱ )

محمد بن عجلان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام جعفر صادق کے ساتھ تھاکہ ایک شخص آیا اور سلام کیا آپ نے اس سے سوال کیا کہ تم نے اپنے بھائیوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ اس نے ان کی تعریف و توصیف کی، آپ نے فرمایا: ان کے مالدار اپنے ناداروں کی کتنی مدد کرتے ہیں ؟اس نے کہا: بہت کم پھر فرمایا: ان کے مالداروں کا ناداروں سے کیسا برتائو ہے ؟ اس نے کہا:آپ ایسے اخلاق کا ذکر کر رہے ہیں جو ان لوگوں میں نہیں پایا جاتا جو ہمارے یہاں ہیں ۔فرمایا: تو وہ اپنے کو ہمارا شیعہ کیسے سمجھتے ہیں ؟( ۲ )

امام حسن عسکری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: علی کے شیعہ وہی ہیں جو اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ راہِ خدا میں موت ان پر آپڑے گی یا وہ موت پر جا پڑیں گے ، علی کے شیعہ وہ ہیں جو اپنے بھائیوں کو خود پر مقدم کرتے ہیں خواہ ان کو اس کی ضرورت ہی ہو، یہی وہ

____________________

(۱)المحاسن: ۱۵۸ بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۵۳ و ص ۱۵۴۔

(۲)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۶۸

۵۲

ہیں جن کو خدا اس چیز میں ملوث نہیں دیکھتا جس سے اس نے ڈرایا ہے ، اوریہ اس چیز کو ترک نہیں کرتے ہیں جس کا خدا نے حکم دیا ہے، علی کے شیعہ وہی ہیں جو اپنے مومن بھائیوں کے اکرام میں علی کی اقتداء کرتے ہیں ۔( ۱ )

امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کرواورایک دوسرے پر احسان کرو اور ایسے نیک بھائی بن جائو جیسے خدا نے تمہیں حکم دیا ہے ۔( ۲ )

آپ ہی کا ارشاد ہے: خدا سے ڈرو نیک بھائی بن جائو، ایک دوسرے سے خدا کے لئے محبت کرو، ایک دوسرے سے ربط و ضبط رکھو، آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرو ۔( ۳ )

علاء بن فضیل نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: امام محمد

باقر فرمایا کرتے تھے؛ اپنے دوستوں کی تعظیم کرو ایک دوسرے پر حملہ نہ کرو ،ایک دوسرے کو ضرر نہ پہنچائو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ،خبردار بخل نہ کرنا، خدا کے مخلص بندے بن جائو۔( ۴ )

ابو اسماعیل سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام محمد باقر کی خدمت میں عرض کیا : ہمارے یہاں شیعوں کی کثیر تعداد ہے ۔ آپ نے دریافت کیا: کیا مالدار نادار کا خیال رکھتا ہے؟ اس پر مہربانی کرتا ہے ؟ کیا نیکی کرنے والا گناہگار سے در گزر کرتا ہے اورکیا وہ لوگ ایک دوسرے کی مالی مدد کرتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا:نہیں ۔ آپ نے فرمایا: وہ شیعہ نہیں ہیں ۔ شیعہ وہ ہے جو مذکورہ افعال کو انجام دیتا ہے ۔( ۵ )

____________________

(۱)میزان الحکمة : ج ۵ ص ۲۳۱

(۲)اصول کافی: ج ۲ ص ۱۷۵

(۳)اصول کافی : ج ۲ ص ۱۲۰

(۴)اصول کافی: ج۲ ص ۱۷۳

(۵) بحار الانوار: ج ۷۴ ص ۲۵۴

۵۳

ایک دوسرے پر مومنین کے حقوق

ثقة الاسلام کلینی نے ابو المامون حارثی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: ایک مومن کا دوسرے مومن پر کیا حق ہے ؟ فرمایا: مومن کا مومن پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے دل میں اس کی محبت رکھتا ہو اور اپنے مال سے اس کی مدد کرتا ہو اور اس کی عدم موجودگی میں اس کے اہل و عیال میں اس کا جانشین ہو، اس پر ظلم ہو تو اس کی مدد کرے ،اگر مسلمانوں میں کوئی چیز تقسیم ہو رہی ہو اور وہ موجود نہ ہو تو اس کے لئے اس کا حصہ لے اور مر جاے تو اس کی قبر پر جائے، اس پر ظلم نہ کرے اور اس کو دھوکا نہ دے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے اور اس کا ساتھ نہ چھوڑے، اس کی تکذیب نہ کرے اس کے سامنے اف بھی نہ کہے، اگر اف کہدیا تو ان کے درمیان ولایت کا رشتہ ختم ہو جائیگا اور اگر ایک نے دوسرے سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے دشمن ہو تو ان میں سے ایک کافر ہو گیا اور اگر اس پر تہمت لگا دیتا ہے تو اس کے دل میں ایمان اس طرح گھل جاتا ہے جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے ۔( ۱ )

کلینی نے ہی ابان بن تغلب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام جعفر صادق کے ساتھ طواف کر رہا تھا کہ ہمارے ساتھیوں میں سے ایک شخص میرے سامنے آیا وہ یہ چاہتا تھا کہ اس کو جو کام ہے اس کے لئے میں بھی اس کے ساتھ جائوں ، اس نے مجھے اشارہ کیا ، مجھے یہ بات پسند نہ آئی کہ میں امام کو چھوڑ کر اس کے پاس جائوں ، میں ایسے ہی طواف میں مشغول رہا، اس نے مجھے پھر اشارہ کیا تو آپ نے اسے دیکھ لیا۔ فرمایا؛ اے ابان کیاوہ تمہیں بلا رہا ہے ؟ میں نے عرض کیا: ہاں۔ فرمایا: وہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا: ہمارے اصحاب ہی میں

____________________.

(۱) اصول کافی :ج۲ ص ۱۷۱ بحار الانوار: ج۷۴ ص ۲۴۸

۵۴

سے ایک شخص ہے آپ نے فرمایا: تو اس کے پاس جائو، میں نے عرض کیا: میں طواف کو قطع کردوں ؟ فرمایا: ہاں!میں نے عرض کیا خواہ طواف واجب ہی ہو، فرمایا: ہاں۔ راوی کہتاہے کہ میں اس کے ساتھ چلا گیا۔

پھر میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے یہ بتائیے کہ مومن کا مومن پر کیا حق ہے؟ فرمایا: اے ابان اس کو واپس نہ لوٹائو، میں نے عرض کیا:میں آپ پر قربان ٹھیک ہے ۔ فرمایا: اے ابان اسے واپس نہ لوٹائو، میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ٹھیک ہے میں نے اسے کبھی واپس نہیں کیا ہے ۔ فرمایا: اے ابان اپنا نصف مال اسے دے دو ،راوی کہتا ہے کہ پھر امام نے میری طرف دیکھا اور میری حالت کو ملاحظہ کیا، پھر فرمایا: اے ابان کیا تمہیں نہیں معلوم اپنے اوپر دوسروں کو مقدم کرنے والوں کا خدا نے ذکر کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا: میں آپ کا فدیہ قرار پائوں معلوم ہے ، فرمایا: اگر تم نے اس کو نصف مال دیدیا تو اس کو اپنے اوپر مقدم نہیں کیا اس کے لئے ایثار نہیں کیا بلکہ تم اور وہ دونوں برابر ہوگئے، ایثار تو اس صورت میں ہوگا جب تم اس کو باقی ماندہ نصف بھی دیدوگے۔( ۱ )

امام رضا سے سوال کیا گیا کہ مومن کا مومن پر کیا حق ہے ؟ فرمایا: مومن کا مومن پر یہ حق ہے کہ اس کے دل میں اس کی محبت ہو، اپنے مال سے اس کی مدد کرتا ہو، اس پر ظلم ہو تو اس کی مدد کرتاہو ،اگر مسلمانوں میں فئی تقسیم ہو رہی ہو اور وہ موجود نہ ہو تو اس کے لئے اس کا حصہ لے وہ مر جائے تو اس کی قبر پر جائے، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو فریب نہ دے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس کا ساتھ نہ چھوڑے ،اس کی غیبت نہ کرے،اس کی تکذیب نہ کرے اور اس کے سامنے اف تک نہ کہے اور اگر اف کہہ دیا تو ان دونوں کے درمیان سے ولایت و محبت

____________________

(۱) اصول کافی: ج۲ ص ۱۷۱ بحار الانوار: ج ۷۴ ص ۲۴۹ ۔

۵۵

ختم ہو جائے گی اور اس کے د ل میں ایمان ایسے ہی گھل جائیگا جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔

جو شخص کسی مومن کو کھانا کھلاتا ہے تو یہ غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے اور اگر کوئی کسی مومن کو پیاس میں پانی پلاتا ہے تو خدا اسے مہر بند جام سے سیراب کرے گا اور جو شخص مومن کو کپڑا پہناتا ہے اسے خدا جنت کے سند س و حریر کالباس عطا کرے گا اور جو شخص خدا کے لئے کسی مومن کو قرض دیتا ہے اسے صدقہ میں شمارکیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اسے ادا کر دے اور جو مومن دنیا کے کرب و الم سے نجات دلاتا ہے خدا اسے آخرت کے کرب و الم سے نجات عطا کرے گا اور جو شخص مومن کی حاجت روائی کرے گا تو یہ اس کے روزہ اور مسجد الحرام میں اعتکاف کرنے سے بہتر ہے۔ مومن ( مومن کے لئے) ایسا ہی ہے جیسے بدن کے لئے پنڈلی ہوتی ہے۔

بیشک امام محمد باقرنے خانہ ٔ خدا کعبہ کا رخ کیا اور کہا: ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے کہ جس نے تجھے عظمت و بزرگی عطا کی اور تجھے لوگوں کے جمع ہونے کی اور امن کی جگہ قرار دیا ۔ خدا کی قسم مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔

اہل جبل میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ کو سلام کیا، جب وہ جانے لگا تو اس نے عرض کیا کہ مجھے کچھ وصیت و نصیحت فرما دیجئے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ خدا سے ڈروا! اپنے مومن بھائی کی مدد کرو اور اس کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اگر وہ تم سے سوال کرے تو اسے پورا کرو اور اس کے لئے بازو بن جائو اگر وہ ستم ظریفی بھی کرے تو بھی اس سے جدا نہ ہونا یہاں تک کہ اس کے دل سے کینہ نکال دو۔ اگر وہ موجود نہ ہوتو اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرو اور موجود ہو تو اسے اپنے میں شامل کرو، اس کے بازو اور پشت کو مضبوط کرو اور اس کی عزت کرو، اس پر

۵۶

مہربانی کرو کیونکہ وہ تم سے اور تم اس سے ہو، اور تمہارا اپنے مومن بھائی کو کھانا کھلانا اور اسے خوش کرنا روزہ رکھنے سے افضل ہے اور اس کا عظیم اجر ہے ۔( ۱ )

امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن شکم سیر نہیں ہوسکتا جبکہ اس کا بھائی بھوکا ہو اور وہ سیراب نہیں ہو سکتا جبکہ اس کا بھائی پیاسا ہو، وہ کپڑا نہیں پہن سکتا جب کہ اس کا بھائی برہنہ ہو ،اگر تمہیں کوئی حاجت در پیش ہو تو اس سے سوال کرو اور اگر وہ تم سے سوال کرے تو اسے عطا کرو ،تم اس سے نہ اکتائو وہ تم سے نہ اکتا ئے ، تم اس کے پشت پناہ بن جائو کیونکہ وہ تمہارا پشت پناہ ہے ۔ اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کی عدم موجودگی میں تم اس کی حفاظت کرو اور اگر وہ موجود ہو تو اس سے ملاقات کرو اور اس کی عزت و اکرام کرو کیونکہ وہ تم سے اور تم اس سے ہو۔ اگر وہ تمہیں سر زنش بھی کرے تو بھی اس سے جدا نہ ہونا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کا غصہ ختم ہو جائے اگر اسے کوئی فائدہ ہو تو تم خدا کا شکر ادا کرو اور اگر وہ کسی چیز میں مبتلا ہو جائے تو اس کی مدد کرو ،اگر اسے کسی چیز کی ضرورت و طلب ہو تو اس کی اعانت کرو کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے دینی بھائی یادوست سے اف کہتا ہے تو ان کے درمیان سے محبت و اخوت کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی دوسرے سے یہ کہتا ہے کہ تم میرے دشمن ہو تو ان میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں ایمان اس طرح گھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔( ۱ )

معلی بن خنیس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: مومن کا مومن پر کیا حق ہے ؟ فرمایا: سات حق واجب ہیں : ان میں سے ہر ایک حق اس پر واجب ہے اگر وہ اس کی مخالفت کرے گا تو خدا کی ولایت سے نکل جائیگا اور اس کی طاعت کو چھوڑ دے گا اور اس سے خدا کا تعلق نہیں رہے گا۔ میں نے عرض کیا: میں

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۷۴ ص ۲۳۴ ۔

۵۷

قربان! بتائیے وہ حقوق کیا ہیں ؟ فرمایا: اے معلی مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم انہیں ضائع نہ کردو، اور معلوم کر کے ان پر عمل نہ کرو، میں نے عرض کیا: خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قدرت نہیں ہے ۔

فرمایا: ان میں سے آسان ترین حق یہ ہے کہ اس کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اس کیلئے اس چیز کو اچھا نہ سمجھو جس کو اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتے ہو۔

دوسرا حق :یہ ہے کہ تم اس کی حاجت روائی کے لئے جائو اور اس کی رضا طلب کرو ، اس کی بات کی مخالفت نہ کرو۔

تیسرا حق: یہ ہے کہ تم اپنی جان و مال، ہاتھ، پیر اور زبان سے اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

چوتھا حق :یہ ہے کہ تم اس کی آنکھ ، اس کے راہنما اور اس کا آئینہ بن جائو۔

پانچواں حق: یہ ہے کہ اگر وہ بھوکا ہے تو کھانا نہ کھائو ،اگر وہ ننگا ہے تو کپڑا نہ پہنو ،اگر وہ پیاسا ہے تو تم سیراب نہ ہو۔

چھٹا حق : ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ تمہارے پاس بیوی ہو اور تمہارئے بھائی کے پاس بیوی نہ ہو اور تمہارے پاس نوکر و خادم ہو او ر تمہارے بھائی کے پاس نہ ہو، اگر ایسا ہے تو خدمتگار کو بھیج دیا کرو تاکہ وہ اس کے کپڑے دھوئے ، اس کا کھانا پکا دے ، اس کا بستر بچھا دے کہ یہ حق خدا نے تمہارے اور اس کے درمیان قرار دیا ہے ۔

۵۸

ساتواں حق: اس کو اس کی قسم سے بری کر دو، اس کی دعوت کو قبول کرو ،اس کے جنازہ میں شرکت کرو، وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور اس کی حاجت روائی میں پوری کوشش کرو اور یہ نوبت نہ آنے دو کہ وہ تم سے سوال کرے اور اگر سوال کرے تو اس کی حاجت روائی کے لئے دوڑو! اگر تم نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا تو تم نے اپنی ولایت کو اس کی ولایت سے اور اس کی ولایت کو خدا کی ولایت سے متصل کر دیا۔( ۱ )

امیر المومنین سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن کو جب اپنے بھائی کی حاجت کا علم ہو جاتا ہے تو وہ اسے یہ تکلیف نہیں دیتا ہے کہ وہ اس سے سوال کرے، ایک دوسرے سے ملاقات کرو، ایک دوسرے پر مہربانی کرو، ایک دوسرے پر خرچ کرو، منافق کی طرح نہ ہو جائو کہ جو وہ کہتا ہے انجام نہیں دیتا ہے ۔( ۲ )

محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میرے پاس اہل جبل میں سے ایک شخص آیا میں اس کے ساتھ امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے رخصت ہوتے وقت امام سے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت و وصیت فرما دیجئے تو آپ نے فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ خداسے ڈرو! اور اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ نیکی سے پیش آئو اور اس کے لئے وہی چیز پسند کرو جوا پنے لئے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے اس چیز کو پسند نہ کرو جس کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے اگر وہ سوال کرے تو اسے عطا کرو اگر وہ تمہیں دینے سے ہاتھ کھیچ لے تو تم اس کے سامنے پیش کرو تم اس کے ساتھ کاکرِ خیر کرتے رہو وہ بھی تمہارے ساتھ کار خیر کرے گا۔

اس کے بازو بن جائو کیونکہ وہ تمہارا بازو ہے اور وہ تمہارے خلاف ہو جائے توتم اس سے جدا نہ ہونا یہاں تک کہ اس کی کدورت بر طرف ہو جائے، اگر وہ کہیں چلا جائے تو اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرو اور اگر موجود ہو تو اس کی مدد کرو، اس کے بازو مضبوط کرو اس کی پشت پناہی کرو اس سے نرمی سے پیش آئو، اس کی تعظیم و تکریم کرو کیونکہ وہ تم سے اور تم اس سے ہو۔( ۳ )

جابر نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: تمہارے قوی کو تمہارے

____________________

(۱)الخصال: ج ۲ ص ۶

(۲) الخصال : ج ۲ ص ۱۵۷

(۳)امالی طوسی: ج۱ ص ۹۵

۵۹

کمزور کی اعانت کرنا چاہئے اور تمہارے مالدار کو تمہارے غریب و نادار پر مہربانی کرنا چاہئے اور انسان کو چاہئے کہ وہ بھائی کا ایسا ہی خیر خواہ ہو جیسا کہ اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اور دیکھو! ہمارے اسرار کو پوشیدہ رکھنا، لوگوں کو ہماری گردن پر سوار نہ کرنا۔( ۱ )

مومن کی حرمت اور اس کی محبت و خیر خواہی

امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی چیز کے ذریعہ خدا کی عبادت نہیں کی گئی جو کہ مومن کا حق ادا کرنے سے افضل ہو۔ نیز فرمایا: بیشک خدا وند عالم کی بہت سی حرمتیں ہیں مثلاً کتابِ خدا کی حرمت، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حرمت، بیت المقدس کی حرمت اور مومن کی حرمت ۔( ۲ )

عبد المومن انصاری سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں ابو الحسن موسیٰ بن جعفر کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کے پاس محمد بن عبد اللہ بن محمد جعفی بھی موجود تھے، میں انہیں دیکھ کر مسکرایا تو آپ نے فرمایا: کیا تم انہیں دوست رکھتے ہو؟ میں نے عرض کی: ہاں، اور میں ان سے آپ ہی حضرات کی وجہ سے محبت کرتا ہوں ۔ فرمایا: یہ تمہارے بھائی ہیں ۔اور وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا اور انہیں بتا دو کہ خدا نے ان کو ان کی نیکیوں کی وجہ سے بخش دیا ہے اور ان کی برائیوں سے در گزر کیا ہے ، آگاہ ہو جائو جس شخص نے میرے دوستوں میں سے میرے کسی دوست کو اذیت دی یا پوشیدہ طریقہ سے اس کے خلاف سازش کی تو اس کو اس وقت تک نہیں بخشے گا جب تک کہ وہ اس سے معافی نہیں مانگے گا پھر اگر اس سے معانی مانگ لی تو

____________________

(۱)امالی طوسی: ج۱ ص ۲۳۶۔

(۲)بحار الانوار: ج۷۴ ص ۲۳۲۔

۶۰