اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ25%

اہل بیت کے شیعہ مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 142

اہل بیت کے شیعہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 142 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42368 / ڈاؤنلوڈ: 3315
سائز سائز سائز
اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ٹھیک ہے ورنہ اس کے دل سے روح ایمان نکل جائے گی اور وہ میری ولایت و محبت سے خارج ہو جائیگا اور ہماری ولایت میں اس کا کوئی حصہ نہیں رہے گا اور اس سے میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں ۔( ۱ )

صوری کی کتاب قضاء الحقوق میں روایت ہے کہ امیر المومنین نے شہر اہواز کے قاضی رفاعہ بن شداد بجلی کو ایک خط کے ذیل میں وصیت فرمائی : جہاں تک تم سے ہو سکے مومن کی مدارات کرو کہ خدا نے اس کی حمایت کی ہے اور اس کا وجود خدا کے نزدیک معزز ہے اس کے لئے خدا کا ثواب ہوتا اور اس پر ظلم کرنے والاخدا کا دشمن ہے اس لئے تم خدا کے دشمن نہ بنو۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : مومن کو جب اپنے بھائی کی حاجت معلوم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے بھائی کو مانگنے کی تکلیف نہیں دیتا ہے ۔( ۲ )

مومن، مومن کے لئے ایک بدن کی مانندہے

امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر چیز کے لئے کوئی چیز آرام کا باعث ہو تی ہے ، مومن اپنے مومن بھائی کے پاس اسی طرح آرام محسوس کرتا ہے جس طرح پرندے کو اپنی ہی جنس کے پرندے کے پاس آرام ملتا ہے ۔( ۳ )

امام محمد باقر سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن نیکی ، رحم اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے کے لحاظ سے ایک بدن کی مانند ہیں ۔ اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو بیدار رہنے اور حمایت کرنے کے لئے سارے اعضاء متفق ہو جاتے ہیں ۔( ۴ )

____________________

(۱)اختصاص : ص ۲۲۷ بحار الانوار: ج ۷۴ ص ۲۳۰

(۲)اختصاص: ص ۲۲۷

(۳)بحار الانوار: ج۷۴ ص ۲۳۴

(۴)گذشتہ حوالہ

۶۱

معلی بن خنیس نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:اپنے مسلمان بھائی کے لئے اسی چیز کو پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہواور اگر تمہیں کوئی حاجت ہو تو اس سے سوال کرو اور اگر وہ تم سے سوال کرے تو اسے عطا کرو ،نہ تم اسے کار خیر میں ملول کرو اور وہ تمہیں کار خیر میں ملول نہیں کریگا، اس کے پشت پناہ بن جائو کہ وہ تمہارا پشت پناہ ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرو اور اگر موجود ہو تو اس سے ملاقات کرو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو کیونکہ وہ تم سے ہے اور تم اس سے ہو اگروہ تم سے ناراض ہو جائے تو اس سے جدا نہ ہونایہاں تک کہ اس کی کدورت رفتہ رفتہ ختم ہو جائے۔ اگر اس کو کوئی فائدہ پہنچے تو اس پر خد اکا شکر ادا کرو اوراگر وہ کسی چیز میں مبتلا ہو تو اس کو عطا کرو اوراس کا بوجھ ہلکا کرو اور اس کی مدد کرو۔( ۱ )

عام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک

اس بات پر اہل بیت نے بہت زور دیا ہے اوراپنے شیعوں کو یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ خود کوملت اسلامیہ کے معتدل راستہ سے جدا کریں کیونکہ وہ اس امت کا ایسا جزء ہیں جس کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اصول و فروع اور محبت و نسبت میں اختلاف اس بات کو واجب قرار دیتا ہے کہ تمام مسلمانوں سے قطع تعلقی نہ کی جائے کیونکہ یہ امت اپنے عقائد و نظریات میں اختلاف کے باوجود ایک امت ہے :( إنَّ هٰذِهِ أمَّتُکُمْ أمَّةً وَاحِدَةً وَ أنَا رَبُّکُمْ فَاْعبُدُونِ ) بیشک یہ تمہاری امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو۔ اس امت کو روئے زمین پر عظیم ترین امت سمجھا جاتا ہے ، اس کے سامنے بڑے

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۷۴ ص ۲۳۴۔

۶۲

بڑے چیلنج ہیں اور ان چیلنجوں کا مقابلہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب ساری امت ایک محاذ پر ایک صف میں کھڑی ہو جائے۔

ائمہ اہل بیت امت ہی کے ساتھ اور مسلمانوں کے درمیان زندگی گزارتے تھے۔ تمام مذاہب و مکاتب کے مسلمان ان کے پاس آتے تھے، ان کی مجلس و بزم میں حاضر ہوتے تھے، ان سے علم حاصل کرتے تھے اگر ہم ان علماء کے نام جمع کریں کہ جنہوں نے امام محمد باقر و امام جعفر صادق سے علم حاصل کیا ہے تو صاحبانِ علم کی عظیم تعداد ہو جائے گی، ائمہ اہل بیت کی مجلس و بزم مسلمانوں کے فقہاء و محدثین اور ہر شہر و دیار کے صاحبان علم سے بھری رہتی تھی۔

اس بات سے ہر وہ شخص آگاہ ہے جو ائمہ اہل بیت کی حدیث اور ان کی سیرت سے واقف ہے،یہ ہر قسم کے مذہبی اختلاف سے محفوظ باہم زندگی گزارنے کا مثبت طریقہ ہے،اس کے ساتھ ساتھ اہل بیت اپنے شیعوں اور عام مسلمانوں کے لئے اصول و فروع میں پوری صراحت کے ساتھ صحیح فکری نہج کو بیان کرتے تھے۔

اہل بیت کی حدیثوں میں مسلمانوں کے ساتھ اس مثبت ، محبت آمیزاور تعاون کی زندگی بسر کرنے کی واضح دعوت موجود ہے اس سلسلہ میں اہل بیت کی چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں۔

محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں صحیح سند کے ساتھ ابو اسامہ زید شحام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: امام جعفر صادق نے فرمایا: ان شیعوں میں سے جس کو تم میری اطاعت کرتے اور میری بات پر عمل کرتے ہوئے دیکھو اسے میر اسلام کہنا۔ میں تمہیں خدا کا تقویٰ اختیار کرنے اور اپنے دین میں ورع، خدا کے لئے جانفشانی کرنے، سچ بولنے ، امانت ادا کرنے،طویل سجدے کرنے اور نیک ہمسایہ بننے کی وصیت کرتا ہوں یہی چیز محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمائی ہے : اگر کسی شخص نے تمہارے پاس امانت رکھی ہے تواسے اس کی امانت واپس کر دو خواہ وہ نیک چلن ہو یا بدکار، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سوئی دھاگہ کو بھی واپس کرنے کا حکم دیتے تھے۔

۶۳

اپنے خاندان والوں کے حقوق ادا کرو، کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے دین میں ورع سے کام لے گا اور سچ بولے گا اور امانت ادا کرے گا اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیگا تو کہا جائیگا یہ جعفری ہے، اس طرح وہ مجھے خوش کرے گا اور اس سے مجھے مسرت ہوگی۔ اور یہ کہا جائے گا یہ ہے جعفرکا اخلاق وادب ،اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ مجھے بدنام کرے گا اورمجھے اپنی بلا میں مبتلا کرے گا اور پھر یہ کہا جائیگا یہ ہے جعفرکا اخلاق و ادب ،خدا کی قسم میرے والدنے مجھ سے بیان کیا ہے کہ قبیلہ میں اگر علی کا ایک شیعہ ہو تو وہ پورے قبیلہ و خاندان کی عزت و زینت ہے وہ ان میں زیادہ امانت ادا کرنے والا، سب سے زیادہ حقوق پورے کرنے والا۔ اور سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہوگااور لوگ اس کے پاس اپنی امانتیں رکھیں گے اس سے وصیتیں کریں گے جب اس کے بارے میں خاندان میں سوال کیا جائیگا تو کہا جائیگا ،ا س کے مثل کون ہے؟ وہ امانت دار اور ہم سب سے سچا ہے ۔( ۱ )

صحیح سند کے ساتھ معاویہ بن وہب سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: ہم اپنے اور اپنی قوم کے اوپرکیسے احسان کریں اور اپنے ہمنشینوں سے کیسے پیش آئیں ؟ آپ نے فرمایا: ان کی امانتوں کو ادا کرو، ان کے حق میں اور ان کے خلاف گواہی دو، ان کے بیماروں کی عیادت کرو اور اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرو۔( ۲ )

____________________

(۱)وسائل الشیعة : ج ۸ ص ۳۹۸ کتاب الحج آداب احکام العشیرة پہلا باب پہلی حدیث ۔

(۲)گذشتہ حوالہ دوسری حدیث ۔

۶۴

نیز صحیح سند کے ساتھ معاویہ بن وہب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کیا: ہم اپنی قوم والوں اور ان ہمنشینوں کے ساتھ کیسے پیش آئیں جو کہ ہمارے مذہب پر نہیں ہیں ؟ فرمایا: اس سلسلہ میں تم اپنے ائمہ کا طریقہ دیکھو، جن کی تم اقتدا ء کرتے ہو، وہ جس کام کو انجام دیتے ہیں اسی کو تم بجالائو، خدا کی قسم وہ ان کے مریضوں کی عیادت کرے ہیں ، ان کے مرنے والوں کے جنازوں میں شرکت کرتے ہیں اور حق کے لحاظ سے ان کے موافق اور ان کے خلاف گواہی دیتے ہیں ۔( ۱ )

کلینی نے کافی میں صحیح سند کے ساتھ حبیب الحنفی سے ایک اور روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں :

میں نے امام جعفر صادق سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں : تمہارے لئے لازم ہے کہ تم کوشش و جانفشانی سے کام لو اور ورع اختیار کرو، جنازوں میں شرکت کرو، مریضوں کی عیادت کرو اور اپنی قوم والوں کے ساتھ ان کی مسجدوں میں جائو اور لوگوں کے لئے وہی چیز پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو، کیا تم میں سے اس شخص کو شرم نہیں آتی کہ جس کا ہمسایہ اس کا حق پہچانتا ہے لیکن وہ اس کا حق نہیں پہچانتا ہے ۔( ۲ )

صحیح سند کے ساتھ مرازم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: امام صادق فرماتے ہیں : تمہارے لئے لازم ہے کہ تم مسجدوں میں نماز پڑھو، لوگوں کے لئے اچھے ہمسایہ بنو، گواہی دو، ان کے جنازوں میں شرکت کرو، تمہارے لئے لوگوں کے ساتھ رہنا ضروری ہے .تم میں سے کوئی بھی اپنی حیات میں لوگوں سے مستغنی و بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔ تمام لوگ ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔( ۳ )

____________________

(۱)وسائل الشیعہ: ج ۸ ص ۳۹۹ کتاب الحج آداب احکام العشیرة پہلا باب پہلی حدیث ۔

(۲) گذشتہ حوالہ چوتھی حدیث

(۳) گذشتہ حوالہ پانچویں حدیث ۔

۶۵

اعتدال و میانہ روی اور موازنہ

اہل بیت کے شیعوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر چیز میں اعتدال سے کام لیتے ہیں ، افراط و تفریط سے بچتے ہوئے میانہ روی کو اپنا شعار بناتے ہیں ، عقل و فہم میں توازن رکھتے ہیں ، غلو و زیادتی اور افراط و تفریط سے پرہیز کرتے ہیں ان کے اندر محبت و ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے ۔

عمر بن سعید بن ہلال سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام باقر کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت ہماری ایک جماعت تھی، آپ نے فرمایا: تمہیں میانہ رو ہونا چاہئے کہ حد سے آگے بڑھنے والا تمہاری طرف لوٹے گا اور پیچھے رہ جانے والا تم سے ملحق ہوگا ،اے اہل بیت کے شیعو! جان لو کہ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ خدا پر ہماری کوئی حجت ہے اور نہ طاعت کے بغیر خدا سے قریب ہوا جا سکتا ہے پھر جو خدا کا مطیع ہوگا اس کو ہماری ولایت فائدہ پہنچائے گی اور جو نافرمان ہوگا اسے ہماری ولایت کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی۔ اس کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ایک دوسرے کو دھوکا نہ دینا اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہونا۔( ۱ )

____________________

(۱)بحار الانوار: ج ۶۸ منقول از مشکوٰة الانوار: ص ۶۰

۶۶

حفاظتی اور سیاسی ضوابط

اہل بیت کے شیعوں نے اموی اور عباسی عہد حکومت میں بہت سخت زندگی بسر کی ہے ،ان سخت حالات کا اقتضا یہ تھا کہ شیعہ ایک حفاظتی اورسیاسی نظم و ضبط کے بہت زیادہ پابند ہو جائیں اور حفاظتی تعلیمات کا بھرپور طریقہ سے خیال رکھیں۔

اہل بیت بھی اپنے شیعوں کو حفاظتی دستورات پر عمل کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔ اگر اہل بیت کی تعلیمات نہ ہو تیں اور اہل بیت ان تعلیمات کا التزام نہ کرتے تو بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت اہل بیت کے مکتب فکر کو اسی وقت ختم کر دیتی اور یہ مکتب اپنی ثقافتی، فکری اور تشریعی میراث کے ساتھ اس عہدتک نہ آتا۔

ان ضوابط کی ایک اہم شق تقیہ ہے ، اور راز کو چھپانا ،گفتگو میں احتیاط سے کام لینا، خاموش رہنا ،تغافل سے کام لینا انہی تعلیمات کی اہم شقوں میں سے تھا۔

جو لوگ فردی و اجتماعی طور پر ان تعلیمات پر عمل نہیں کرتے تھے ان کی وجہ سے مکتبِ اہل بیت اور ان کے شیعوں کو نقصان پہنچتا تھا۔

اہل بیت نے اپنے شیعوں کو جو سیاسی وحفاظتی تعلیمات دی تھیں ہم اس کے کچھ نمونے بیان کرنا چاہتے ہیں : امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعوں کو نمازکے اوقات میں آزمائو کہ وہ کیسے اس کی پابندی کرتے ہیں ؟ اور ہمارے دشمن سے ہمارے راز کو کس طرح محفوظ رکھتے ہیں ۔( ۱ )

سلیمان بن مہران سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ کے پاس کچھ شیعہ موجود تھے اورآپ یہ فرما رہے تھے: ہمارے لئے باعث زینت بنو باعث ننگ و عار نہ بنو، اے شیعو! اپنی زبانوں پر قابو رکھو، فضول باتیں نہ کیا کرو۔( ۲ )

امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے شیعوں کی دو خصلتوں کو ختم کرنے میں اپنے ہاتھ کا گوشت فدیہ میں دے دیتا۔

____________________

(۱)بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۴۹

(۲) گذشتہ حوالہ ص ۱۵۱۔

۶۷

امام صادق ہی فرماتے ہیں : کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں ان کا امام ہوں ، خدا کی قسم میں ان کا امام نہیں ہوں کیونکہ میں نے جتنے پردے ڈالے تھے انہوں نے سب کو چاک کر دیاہے۔ میں کہتا ہوں ایسا ہے وہ کہتے ہیں ایسا ہے ۔( ۱ )

امام محمد باقر سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: اے میسر! کیا میں تمہیں اپنے شیعوں کے بارے میں بتائوں ؟ میں نے عرض کیا: میں قربان ضرور بتائیے ؛فرمایا: وہ مضبوط قلعے ہیں ، محفوظ سر حدیں ہیں ، قوی العقل ہیں وہ رازوں کو افشا نہیں کرتے ہیں وہ کھرّے اور اجڈ نہیں ہیں ، شب کے راہب اور دن کے شیر ہیں ۔( ۲ )

امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا سے ڈرو! اور تقیہ کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت کرو۔( ۳ ) آپ ہی کا ارشاد ہے : خدا کی قسم کسی چیز سے خدا کی عبادت نہیں کی گئی کہ جو خبٹی سے زیادہ خدا کے نزدیک محبوب ہو، دریافت کیا گیا کہ خبٹی کیا ہے ؟ فرمایا: تقیہ۔( ۴ )

امام زین العابدین نے فرمایا: خدا کی قسم میری تمنا ہے کہ اپنے شیعوں کی دو خصلتوں کے لئے میں اپنے بازو کے گوشت کے برابر فدیہ کروں .ایک ان کا طیش اور دوسرے، راز کو کم پوشیدہ رکھنا۔( ۵ )

امام جعفر صادق نے فرمایا: لوگوں کو دو خصلتوں کا حکم دیا گیا تھا لیکن انہوں نے انہیں ضائع کر دیا۔ پس ان کے پاس کوئی چیز نہ رہی اور وہ ہیں صبر اور راز چھپانا۔( ۶ )

سلمان نے خالد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: امام جعفرصادق نے فرمایا:

اے سلمان تمہارے پاس ایک دین ہے جو اسے ( مخالفوں اور دشمنوں سے) چھپائے

____________________

(۱) بحار الانوار: ج ۲ ص ۸۰

(۲) بحار الانوار: ج ۶۸ ص ۱۸۰

(۳) امالی مفید: ص ۵۹

(۴) اصول کافی: ج۲ ص ۲۱۸

(۵)اصول کافی: ج۲ ص ۲۲۱ بحار الانوار: ج ۷۵ ص ۷۲ خصال صدوق: ص ۴۴

(۶)اصول کافی: ج۲ ص ۲۲۲

۶۸

گا ، خدا اسے عزت عطا کرے گا اور جو اس راز کو فاش کرے گا خدا اسے ذلیل کرے گا۔( ۱ )

امام محمد باقر سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم مجھے اپنے اصحاب میں وہ بہت زیادہ محبوب ہے جو ان میں زیادہ پاک دامن ، زیادہ سمجھ دار اور فقہ کا زیادہ جاننے والا اور ہماری باتوں کو زیادہ چھپانے والا ہے ۔( ۲ )

امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم وہی کہو جو ہم نے بیان کیا ہے اور جس کے بارے میں ہم نے لب کشائی نہیں کی ہے اس کے بارے میں تم بھی زبان نہ کھولو۔

آپ ہی کا ارشاد ہے : جس شخص نے ہماری باتوں اور حدیثوں کا راز فاش کر دیا اس نے ہمیں غلطی و خطا سے قتل نہیں کیا ہے بلکہ ہمیں جان بوجھ کر قتل کیا ہے ۔یہ عجیب تعبیر ہے جو انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔( ۳ )

جو لوگ دنیائے اسلام میں بسنے والے اہل بیت کے پیرئوں کے راز کو فاش کرتے تھے اور یہ کام وہ اس وقت انجام دیتے تھے جب بنی عباس کی حکومت کا ظلم اپنے عروج پر تھا گویا یہ جان بوجھکر حکومت کو شیعوں کی طرف متوجہ کرتے تھے۔اگر چہ یہ کام وہ غلط نیت سے انجام نہیں دیتے تھے بلکہ وہ لوگوں سے اہل بیت کی حدیثیں بیان کرتے تھے تاکہ لوگ اہل بیت سے وابستہ ہو جائیں اور ان کے مکتب کو تسلیم کر لیں اور شیعیت پھیل جائے ،یہ سب محبت و عقیدت ہی میں ہوتا تھا ،لیکن ان چیزوں کی نشر و اشاعت ان کی ذمہ داری نہیں تھی۔

____________________

(۱)اصول کافی: ج ۲ ص ۲۲۶

(۲)بحار الانوار: ج۷۵ ص ۷۶

(۳) بحار الانوار: ج۲ ص ۷۴

۶۹

اہل بیت کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں

انشاء اللہ ہم عنقریب اہل بیت کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ فقرے بیان کریں گے اور ان فقروں کو اہل بیت کی زیارت سے اخذ کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ جو زیارتیں اہل بیت سے مروی ہیں وہ ان کی محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کے مفہوم سے بھری پڑی ہیں ۔ زیارت کے متن میں غور و فکر کر کے ہم محبت و بیزاری کے مکمل نظریہ کو ثابت کر سکتے ہیں ، لیکن فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں ہے اور نہ ہی اس مقالہ میں محبت و برات کی تحقیق اور ان سے متعلق نظریہ کی تشکیل کی گنجائش ہے، ہم تو یہاں زیارتوں اور اہل بیت کی دوسری حدیثوں سے کچھ ایسے فقرے پیش کرنا چاہتے ہیں جو محبت و عقیدت سے متعلق ہیں ۔

مفہوم ولاء

یہ عناصر ولاء کا پہلا عنصر ہے اور جتنی معرفت ہوتی ہے اسی تناسب سے ولاء کی قیمت ہوتی ہے اور انسان جس قدر مفہوم ولاء کو اچھے طریقہ سے سمجھتا ہے اسی لحاظ سے وہ ولاء میں قوی اور راسخ ہوگا۔

زیارت جامعہ میں آیا ہے :

''اُشهِد اللّٰه و أشهد کم أنی مؤمن بکم و بما آمنتم به، کافر بعدوّکم و بماکفرتم به، مستبصر بشأنکم، و بضلالة من خالفکم، مؤمن بسرکم و علانیتکم، و شاهدکم و غائبکم'' ۔

میں خدا کو گوا ہ قرار دیتا ہوں اور آپ حضرات -اہل بیت -کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آپ پر اور ہر اس چیز پر ایمان لایا ہوں کہ جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں ، میں آپ کے دشمن کا منکر ہوں اور ہر اس چیز کا دشمن ہوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ہے ، آپ کی عظمت و شان کا اور آپ کی مخالفت کرنے والے کی گمراہی کی بصیرت رکھنے والا ہوں ، آپ کے پوشیدہ و عیاں اور آپ کے حاضر و غائب پر ایمان رکھتا ہوں ۔

۷۰

ہم اس معرفت پراور اس اپنے اعتماد و ایمان پر خدا اور اہل بیت کو گواہ قرار دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں ہمیں قطعاً شک نہیں ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالا فقرہ میں ولاء کے دو پہلو ہیں :

ایک مثبت: میں آپ پر اور ہر اس چیز پر ایمان رکھتا ہوں جس پرآپ کا ایمان ہے ۔

دوسرا منفی: وہ ہے بیزاری، میں آپ کے دشمن کا منکر ہوں ا ور ہر اس چیز سے بیزار ہوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ہے ، یہاں کفر کے معنی ٹھکرانے اور انکار کرنے کے ہیں تو اس لحاظ سے مذکورہ فقرے کے یہ معنی ہوں گے، میں نے آپ کے دشمنوں کو چھوڑ دیا ہے بلکہ ہر اس چیز کو چھوڑ دیا ہے جس کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرات نے چھوڑ دیا ہے ۔

اس سے پہلے والے جملہ میں اور اس جملہ میں ولاء کی قیمت اثبات و نفی کے ایک ساتھ ہونے میں ہے۔ ایک کو قبول کرنے میں اور دوسرے کو چھوڑنے میں ہے انسان کو اکثر صرف قبول کرنے کی زحمت نہیں دی گئی ہے بلکہ اس کے ساتھ کسی چیز کو چھوڑ نے کی بھی تکلیف دی گئی ہے۔

اور قبول و انکار کو بصیرت و ذہانت کے ساتھ ہونا چاہئے ،تقلید کی بنا پر نہیں جیسا کہ لوگ ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہیں ،مستبصر بشأنکم و بضلالة من خالفکم ۔

میں آپ کی عظمت و رفعت اورآپ کے مخالف کی ضلالت اور گمراہی کی بصیرت رکھتا ہوں اس جملہ میں درجِ ذیل تین نکات ہیں ۔

۱۔ قبول عام ہے : ''مؤمن بسرکم و علانیتکم'' میں آپ کے پوشیدہ و ظاہر پر ایمان رکھتا ہوں ۔

۲۔ انکار و ترک، اہل بیت کے تمام دشمنوں اور ان کی ٹھکرائی ہوئی تمام چیزوں کو شامل ہے۔ ''کافر بعدوکم و بما کفرتم بہ'' میں نے آپ کے دشمنوں اور آپ کی ٹھکرائی ہوئی تمام چیزوں کو ٹھکرا دیا ہے ۔

۳۔ یہ قبول وانکاربصیرت و معرفت ہی سے مکمل ہوتا ہے۔''مستبصر بشأنکم و بضلالة من خالفکم' 'میں آپ کی عظمت و رفعت کی اور آ پ کے مخالف کی ضلالت کی معرفت و بصیرت رکھتا ہوں ۔

۷۱

تصدیق

ولاء تصدیق سے جدا نہیں ہو سکتی ، ولاء کے لئے شک و شبہ سے زیادہ تباہ کن کوئی چیز نہیں ہے ۔ خدا وند عالم نے راہِ ولاء میں کوئی پیچیدگی نہیں رکھی ہے ۔ بیشک رب کریم نے ولاء کو توحید سے جوڑا ہے اور ولاء کو فرد و امت کا محور قرار دیا ہے، چنانچہ توحید کے بعد اسی کی طرف لوگوں کی رغبت دلائی ہے ؛فرماتا ہے :( إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰهُ وَ رُسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا ) اور فرماتا ہے :( أطِیْعُوْا اللّٰهَ وَ أطِیعُوْا الرَّسُولَ وَ أوْلِیْ الأمْرِ مِنْکُم ) اللہ کی اطاعت کرو، اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ ولاء تک پہنچنے کے راستہ کو واضح ہونا چاہئے تاکہ ولاء کے سلسلہ میں لوگوں کے پاس دلیل و حجت ہو ،اسی لئے ولاء تصدیق سے جدا نہیں ہے اور تصدیق یقین سے ہوتی ہے اور یقین دلیل و حجت سے ہوتا ہے ۔

اور زیارت جامعہ میں اہل بیت کو اس طرح مخاطب قرار دیا ہے:''سعد من والاکم ، و هلک من عاداکم ، و خاب من جحد کم و ضلّ من فارقکم و فاز من تمسّک بکم، و أمن من لجأ الیکم و سلم من صدقکم و هدی من اعتصم بکم''

جو آپ کی ولاء سے سر شار ہوا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ سے عداوت کی وہ ہلاک ہو گیا۔ جس نے آپ کا اور آپ کے حق کا انکار کیا اس نے گھاٹا اٹھایا اور جس نے آپ کو چھوڑ دیا وہ گمراہ ہو گیا اور جس نے آپ سے تمسک کیا اس نے اپنے مقصد کو پا لیا۔ اور جس نے آپ کی طرف پناہ لی وہ امان میں رہا اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ صحیح و سالم رہا اور جو آپ سے وابستہ ہو گیا و ہ ہدایت پا گیا۔

عضوی نسبت

۱۔ ہم ان عناصر سے بحث کریں گے جن سے ولاء وجود میں آتی ہے اس کے لئے ضروری ہے پہلے اس لفظ کے حروف کی وضاحت کی جائے جیسا کہ اس عہد میں ہمارے ادبیات کا شیوہ ہے اور یہ بہت اہم بات ہے معمولی نہیں ہے۔ اجتماعی ربط و ضبط اور رسم و راہ سے ہمارے عہد کا ادب اس لفظ کے معنی کو بیان کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ایک طرف تو ہم خط افقی کے نہج سے لوگوں کے درمیان بحث کا اس جیسا رشتہ نہیں پاتے اور دوسری طرف خط عمودی کے اعتبار سے سیاسی قیادت ،اور ثقافتی مرجعیت اور طاعت و پیروی ہے جیسے ولاء اوران دونوں خطوں کے لحاظ سے ولا کا تعلق امت سے منفرد ہے :

۷۲

۱۔ خدا و رسول اور صاحبان امر سے امت کا ربط خط عمودی کے اعتبار سے ہے، جو کہ طاعت ، محبت ، مدد ، خیر خواہی اور اتباع کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اس ربط کااوپر سے سلسلہ شروع ہوتا ہے : جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( أطِیْعُوْا اللّٰهَ وَ أطِیعُوْا الرَّسُولَ وَ أوْلِیْ الأمْرِ مِنْکُمْ ) اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو اور تم میں سے جولوگ صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو اور نیچے کی طرف سیادت و حاکمیت اور اطاعت ہے جیسا کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :( إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰهُ وَرُ سُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا الَّذِینَ یُقِیْمُونَ الصَّلٰاةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَ هُم رَاکِعُونَ ) یہ خط عمودی ہے اس کا سلسلہ او پرسے شروع ہوتا ہے ۔

خط صعودی سے ہماری مراد امت کا اپنے صاحبان امر سے محبت کرنا ہے اور خط نزولی سے مراد صاحبان امر کا امت سے محبت کرنا ہے ، اس کے ایک سرے پر حاکمیت اور دوسرے پر رعایہ ہے

۲۔خط افقی، یعنی لوگوں کا اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے سے محبت کرنا۔ اسی کو قرآن مجید نے اختصار کے سا تھ اس طرح بیان کیا ہے ''نما المؤمنون اخوة'' امام حسن عسکری نے آبہ اور قم والوں کے سامنے اس لفظ کی وضاحت اس طرح فرمائی،''المؤمن أخو المؤمن لأمه و أبیه'' ( ۱ ) یعنی مومن، مومن کا مادری و پدری بھائی ہے ،یہ ایک ایسا لگائو اور محبت ہے کہ جس کی مثال دوسری امتوں ، اور شریعتوں میں نہیں ملتی ہے۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : مومنین بھائی بھائی ہیں ان کا خون برابر ہے اور وہ اپنے غیر کے لئے ایک ہیں ۔ اگر ان کا چھوٹا کسی کو پناہ دیتا ہے تو سب اس کا خیال رکھتے ہیں ۔( ۲ )

____________________

(۱)بحار الانوار: ج ۵ ص ۳۱۷

(۲)امالی مفید: ص ۱۱۰۔

۷۳

امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ ''مومن ، مومن کا بھائی ہے دونوں ایک بدن کے مانند ہیں کہ اگر بدن کے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کا دکھ پورے بدن کو ہوتا ہے ۔ ''( ۱ )

امام جعفرصادق مومنوں کو وصیت فرماتے ہیں : ایک دوسرے سے ربط و ضبط رکھو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرو، ایک دوسرے پررحم کرو، اور بھائی بھائی بن جائو جیسا کہ خدا وند کریم نے تمہیں حکم دیاہے( ۲ ) یہ ہے ولاء کا خط افقی۔

اس سے قوی، متین اور مضبوط رشتہ میں دوسری امتوں میں کوئی نظر نہیں آتا ہے ۔ اس وضاحت کے اعتبار سے ولاء عبارت ہے اس عضوی نسبت سے جو کہ ایک رکن کو خاندان سے ہوتی ہے ایک رکن وستون پوری عمارت کو روکے رکھتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے سیسہ پلائی ہوئی عمارت ،جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، ایک خاند ان کے افراد کا آپس میں جو رشتہ ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بدن کے اعضاء کا ہوتاہے،یہ اخوت کا رشتہ اس رشتہ سے کہیں مضبوط ہوتا ہے جو ایک خاندان کے افراد کے درمیان ہوتا ہے ۔

اس صورت میں یہ محبت اور لگائو ارتباط و علاقہ سے جدا ایک رشتہ ہے جوامت میں داخل ہے جس کو عضوی نسبت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جیسے فرد کا رشتہ خاندان سے اور عضو کا بند سے ہوتا ہے ۔

اور جب ولاء کا دارومدار خط افقی میں تعاون، ایک دوسرے سے ربط و ضبط، خیر خواہی ، نیکی، بھائی چارگی، احسان و مودت، ایک دوسرے کی مدد، ایک دوسرے کی ضمانت اور

____________________

(۱)بحار الانوار: ج۷۴ ص ۲۶۸

(۲) اصول کافی: ج ۲ ص ۱۷۵

۷۴

تکامل وغیرہ پر ہے ۔ تو خط عمودی میں ولا کا دار و مدار، طاعت، تسلیم و محبت ، نصرت و پیروی ، وابستگی، اتباع، تمسک اور ان سے اور ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے قطع تعلقی اور برات و بیزاری کرنے پر ہے ۔

اس نکتہ کے آخر میں ہم یہ بیان کر دیں کہ، محبت کرنا اور بیزار ہونا کوئی تار یخی قضیہ نہیں ہے کہ جو ہماری سیاسی زندگی اور آج کی تہذیب سے جدا ہو۔

اور امام جعفر صادق نے ولاء کی جو تعریف کی ہے اس کے لحاظ سے وہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں ہے جس کا ہماری اس سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے جس میں زندگی گزارتے ہیں ۔امام کا ارشاد یہ ہے : جتنی اہمیت ہم ولا کو دیتے ہیں اتنی کسی چیز کو نہیں دیتے ہیں ۔

ولاء یعنی طاعت، محبت، نسبت،بیزاری ، صلح و سلامتی اور جنگ اور ہماری موجودہ سیاسی و اجتماعی موقف ہے۔

جب تک کہ ولاء وبیزاری ہمارے عقائد کو حرکت و عمل کی طرف نہ بڑھائے اور شرعی ولایت کے طول میں سیاسی میدان میں جنگ و صلح میں نمایاں نہ ہواس وقت تک ولاء و بیزاری کی وہ اہمیت نہیں ہوگی جو کہ ہم اہل بیت سے وارد ہونے والی نصوص میں بیان ہوئی ہے ۔

اب ہم انشاء اللہ ولاء سے متعلق ان فقروں کو اختصار کے ساتھ بیان کریں گے جو زیارتوں میں اہل بیت سے نقل ہوئے ہیں یہ زیارات ولاء کے مفہوم سے معمور ہیں ۔

۷۵

برات و بیزاری

ولاء و محبت کا ایک پہلو، برات و بیزاری ہے اور ولاء و برات ایک ہی قضیہ کے دو رخ ہیں اور وہ نسبت ہے اوراور یہ برات قضیہ کی نسبت میں بہت ہی دشوارپہلو ہے اور برات کے بغیر ولاء ناقص ہے ، ایک شخص نے امیر المومنین کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ سے بھی محبت کرتا ہوں اور آپ کے دشمن سے بھی محبت کرتا ہوں ۔ ( یہی ناقص ولاء ہے جس کو ہم بیان کر چکے ہیں ) امیر المومنین نے اس سے فرمایا: تو اس صورت میں تم بھینگے ہو( بھینگے کو پوری چیز نظر نہیں آتی ہے) اگر تم اندھے ہو( اس صورت میں برات و بیزار ی کے ساتھ ولاء بھی ختم ہو جاتی ہے) یا تم دیکھتے ہو ( تو ولاء و برات جمع ہو جاتی ہیں )۔

زیارت جامعہ میں آیا ہے : میں خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں اور آپ حضرات کو گواہ بناتا ہوں کہ آپ پر ایمان لایا اور ہر اس چیز پر ایمان لایا ہوں جس پر آپ کا ایمان ہے ، آپ کے دشمن سے بیزار ہوں اور ہر اس چیز سے بیزار ہوں جس کو آپ نے ٹھکرا دیا ہے، میں آپ کی عظمت کی اور آپ کے مخالف کی گمراہی کی بصیرت رکھتاہوں ، میں آپ کا دوست اور آپ کے دوستوں کا دوست ہوں ،میں آپ کے دشمنوں سے بغض رکھنے والا ہوں اور ان کا دشمن ہوں ۔

زیارت عاشورہ میں تو خدا کے دشمنوں سے کھلم کھلا اور شدت کے ساتھ بیزاری کا اظہار ہوا ہے:

''لعن اللّٰه أمة قتلتکم ، و لعن اللّٰه الممهدین لهم بالتمکین لقتالکم برئت الیٰ اللّٰه و الیکم منهم و من أشیاعهم و أتباعهم و أولیائهم'' ۔

خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے آپ کو قتل کیا، خدا لعنت کرے ان لوگوں پر کہ جنہوں نے جنگ کرنے کے لئے زمین ہموار کی، میں خدا کی بارگاہ میں اور آپ کی خدمت جناب میں ان سے ، ان کے پیروئوں ، ان کا اتباع کرنے والوں اور ان کے دوستوں سے بیزار ہوں ۔

۷۶

اس زیارت میں صرف خدا کے دشمنوں ہی سے بیزاری کا اظہار نہیں ہوا ہے بلکہ خدا کے دشنوں کی پیروی واتباع کرنے والوں اور ان سے خوش ہونے والوں سے بھی بیزاری ہے اور جس طرح ہم اولیاء خدا کی محبت کے ذریعہ خدا سے قریب ہوئے ہیں اسی طرح ہم خدا کے دشمنوں اور ان کے دوستوں کی دشمنی سے بھی خدا سے قریب ہوتے ہیں ۔ زیارت عاشورہ ہی میں ہے :

''انی اتقرب الیٰ اللّٰه و الیٰ رسوله بموالاتکم وبالبرائة ممن قاتلک و نصب لک الحرب وبالبرائة ممن أسس أساس ذلک و بنیٰ علیه بنیانه''

میں آپ کی محبت و دوستی کے ذریعہ خدااور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تقرب حاصل کرتا ہوں اور ان لوگوں سے کہ جنہوں نے آپ سے قتال و جنگ کی ہے ان سے بیزارہوں اور جس نے اس کی بنیاد رکھی اور پھر اس کی عمارت بنائی اس سے بھی بیزاری کے ساتھ خدا کا تقرب چاہتا ہوں ۔

ولاء اور توحید کا ربط

ولاء توحید ہی کے تحت ہے اس کو ہم پہلے بھی کئی بار بیان کر چکے ہیں ،اسلام میں ولاء کی قیمت یہ ہے کہ اس کا سوتا توحید کے چشمہ سے پھوٹتا ہے اور توحید کے طول میں آتی ہے ، کسی غیرِ خدا سے کوئی محبت نہیں ہے مگر یہ کہ خدا کے اذن اور اس کے حکم سے کی جا سکتی ہے خدا وند عالم فرماتا ہے :( أللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا ) خدا ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے ہیں ۔ اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور صاحبان امر کی ولایت خدا کے حکم سے واجب ہوتی ہے، جس نے خدا سے محبت کی اس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کی اور جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کی اس نے صاحبان امر سے محبت کی، واضح رہے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولایت کو خدا کی ولایت سے اور اہل بیت کی ولایت کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولایت سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔

۷۷

خدا وند عالم فرماتا ہے :( إنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِینَ آمَنُوْا الَّذِیْنَ یُقِیمُوْنَ الصَّلاةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَ ) ( ۱ )

تمہارا ولی صرف خدا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواة دیتے ہیں ۔

روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ''( یقیمون الصلٰوة و یؤتون الزکٰوة و هم راکعون ) ''سے حضرت علی ہی مراد ہیں ۔

یہ ولایت، خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان لوگوں کی ہے جو ایمان لائے ہیں اور جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکواة دیتے ہیں وہی مسلمانوں کے ولی امر ہیں ۔

اس لحاظ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کی ولایت خدا کی ولایت ہی کی کڑی ہے جیسا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد مسلمانوں کے ولی امر کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت ہی کی کڑی ہے ۔ اور ولایت و طاعت ہی کی طرح محبت بھی ہے۔

____________________

(۱) سورہ مائدہ: ۵۵ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے اس کو فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں سورہ مائدہ کی آیہ انما ولیکم اللہ کے ذیل میں بیان کیا ہے اور شبلخجی نے نور الابصار ص ۱۷۰ پر زمخشری نے کشاف میں سورہ مائدہ میں مذکورہ آیت کے ذیل میں ابو السعود نے مذکورہ آیت کے ذیل میں اسی طرح بیضاوی نے اس کو متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے سیوطی نے در منثور میں اسی آیت کے سلسلہ میں متعدد طریقوں سے روایت کی ہے واحدی نے اسباب النزول ص ۱۴۸ پر ،متقی نے کنزل العمال ج۶ ص ۳۱۹ پر اور ج ۷ ص ۳۰۵ پر ہیثمی نے مجمع الزوائد: ج۷ ص ۱۷ پر، طبری نے ذخائر العقبیٰ ج۸ ص۱۰۲ پر اور فیروز آبادی نے فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ ج۲ ص ۱۸ و ۲۴ پر اس کی روایت کی ہے.

۷۸

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: خدا سے اس لئے محبت کرو کہ اس نے تمہیں اپنی نعمتوں سے سر شار کیا ہے اور مجھ سے خدا کی محبت کی بدولت محبت کرو اور میرے اہل بیت سے میری محبت کے باعث محبت کرو۔( ۱ )

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کا ارشاد ہے : خدا سے محبت کرو کہ اس نے تمہیں اپنی نعمت سے سرشار کیا ہے اور مجھ سے خدا کی محبت کی وجہ سے محبت کرو اور میرے اہل بیت سے میری محبت کے سبب محبت کرو۔( ۲ )

بنا بر ایں جو شخص خدا سے محبت کرے گا وہ ان حضرات سے بھی محبت کرے گا اور جو خدا کی اطاعت کرے گا وہ ان کی اطاعت کرے گا اور جو خدا سے محبت کرے گا وہ ان سے محبت کرے گا۔

یہ توحیدی میزان کا ایک پلہ اور دوسرا پلہ یہ ہے کہ جو ان سے تولیٰ کرے گا وہ خدا سے تولیٰ کرے گا اور جو ان کی اطاعت کرے گادر حقیقت وہ خدا کی اطاعت کرے گا اور جو ان سے محبت کرے گا وہ در حقیقت خدا سے محبت کرے گا۔ اس طرح یہ دوستی وولاء اور توحید کے پلے برابر ہو جائیں گے۔

اس سلسلہ میں درج ذیل روایتوں کو ملاحظہ فرمائیں جو کہ ترازو کے دوسرے پلے کی طرف اشارہ کرتی ہیں :

____________________

(۱) صحیح ترمذی: ج ۱۳ ص ۲۶۱ تاریخ بغداد: ج۴ ص ۱۶۰ اور اس کو ان دونوں سے علامہ امینی نے اپنی گراں قیمت کتاب سیرتنا و سنتنا میں تحریر کیا ہے.

(۲)صحیح ترمذی کتاب المناقب باب مناقب اہل البیت مستدرک حاکم: ج۳ ص ۱۴۹ اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے.

۷۹

زیارت جامعہ میں آیا ہے :

'' من والاکم فقد و ال اللّٰه ،و من عاداکم فقد عادی اﷲ''

جس نے آپ سے محبت کی در حقیقت اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے دشمنی کی اس نے خدا سے دشمنی کی۔

اسی زیارت میں آیا ہے :

''من أطاعکم فقد أطاع اللّٰه و من عصاکم فقد عصی اﷲ''

جس نے آپ کی اطاعت کی در حقیقت اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے آپ کی نافرمانی کی در حقیقت اس نے خدا کی نافرمانی کی۔

اسی زیارت میں آیا ہے :

''من أحبکم فقد احب اﷲ و من أبغضکم فقد أبغض اللّٰه''

جس نے آپ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا۔

اور ہم ان کی محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کے ذریعہ خداسے قریب ہوتے ہیں ۔ چنانچہ زیارت عاشورہ میں ہے :

'' انی اتقرب الیٰ اللّٰه بموالاتکم و بالبرائة ممن قاتلک و نصب لک الحرب''

میں آپ کی محبت اور اس شخص سے بیزاری کے ساتھ خدا کاتقرب چاہتا ہوں کہ جس نے آپ سے قتال کیا اور آپ سے جنگ کی۔

۸۰

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''من أطاعنی فقد أطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه و من عصی علیاً فقد عصانی'' ۔( ۱ )

جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی( اسی طرح ) جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے علی! میں دنیا و آخرت میں سید و سردار ہوں تمہارا دوست میرا دوست ہے اور میرا دوست خدا کا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے۔( ۲ )

اسلام میں تولیٰ اور تبری کے مفہوم کے باریک نکات میں سے یہ بھی ہے کہ ہم ولایت خدا اور ولایت اہل بیت کے درمیان جومحکم توحیدی ربط ہے اسے دقیق طریقہ سے سمجھیں اور دونوں ولایتوں کے درمیان توحیدی توازن کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ اسلام میں جو بھی ولایت ہے وہ خد اکی ولایت کے تحت ہی ہوگی ورنہ وہ باطل ہے اور جو بھی اطاعت ہے اسے بھی خدا کی اطاعت ہی کے تحت ہونا چاہئے اور اگر خدا کی طاعت کے تحت نہیں ہے تو وہ باطل ہے اور ہر محبت کو خدا کی محبت کے تحت ہوناچاہئے ورنہ خدا کے میزان میں اس کی کوئی قیمت و حیثیت نہیں ہوگی۔

____________________

(۱) حاکم نے مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۱۲۱و ۱۲۸ پر بیان کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے. ریاض النضرة محب الطبری ج۲ ص ۱۶۷ فیروز آبادی کی فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ ج۲ ص ۱۱۸

(۲) مستدرک الصحیحین ج۳ ص ۱۲۷ اور حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے خطیب نے تاریخ بغداد: ج ۳ ص ۱۴۰ پر ابن عباس سے سے پانچ طریقوں سے اس کی روایت کی ہے. اور لکھتے ہیں :من احبک فقد احبنی و حبی حب اللہ جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور میری محبت خدا کی محبت ہے اور محب نے ریاض النضرة ج۲ ص ۱۶۶ پر فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ للفیروز آبادی ج۲ ص ۲۴۴ پر اور اس حدیث کے متعدد طرق نقل کئے ہیں

۸۱

اس سیاق میں یہ بھی ہے کہ اہل بیت خدا کی طرف راہنمائی کرنے والے اور اس کی طرف بلانے والے ہیں اور اس کے امر سے حکم کرنے والے ہیں ، اس کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اورخداکے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں ۔

یہ قضیہ کا ایک پہلو ہے ، اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کو چاہتا ہے اور اس کے راستہ، اس کی مرضی اور اس کے حکم و حدود کو دوست رکھتا ہے اسے اہل بیت کے راستہ پرچلنا چاہئے اور انکے عمل کو اختیار کرنا چاہئے ،اس توحیدی معادلہ کے دونوں اطراف کو ملاحظہ فرمائیں:

زیارت جامعہ میں آیا ہے : الیٰ اللّٰہ تدعون و علیہ تدلون و بہ تؤمنون ولہ تسلمون و بأمرہ تعملون و الیٰ سبیلہ ترشدون و بقولہ تحکمون۔

آپ اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اسی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اسی کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے راستہ کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور اس کے قول کے مطابق حکم دیتے ہیں ۔

یہ قضیہ کا ایک سرا ہے اور اس کا دوسرا سرا یہ ہے :

''من اراد اللّٰه بدء بکم و من وحده قبل عنکم و من قصده توجه بکم''

اس کی تاکید ایک بار پھر کردوں کہ ہم ولاء کو خدا کی ولایت کے تحت اسی توحیدی طریقہ سے سمجھ سکتے ہیں ، اگر اہل بیت کی ولایت ، طاعت اور محبت ولایت خدا کے تحت نہیں ہے تو وہ اہل بیت کی تعلیم اور ان کے قول کے خلاف ہے ۔

۸۲

سلام و نصیحت

یہ بھی ولاء کے دو رخ ہیں یعنی صاحبان امر کے ساتھ کس طرح پیش آئیں ،سلام اس لگائو کا سلبی رخ ہے اور نصیحت اس لگائو کا ایجابی رخ ہے ،اس کی تشریح ملاحظہ فرمائیں:

صاحبان امر(رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اہل بیت)پر سلام بھیجنا جیسا کہ زیارات کی نصوص میں وارد ہوا ہے یہ سلام مقولہ خطاب سے نہیں ہے بلکہ سلام کا تعلق مقولۂ ارتباط و علاقہ سے ہے اور خطاب کو علاقہ اور ارتباط سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

صاحبانِ امر پر جو سلام بھیجا جاتا ہے اس کے باریک معنی یہ ہیں کہ ہم انہیں اپنے افعال و اعمال کے ذریعہ اذیت نہ دیں کیونکہ وہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں جیساکہ سورۂ قدر اور دوسری روایات اس کی گواہی دے رہی ہیں ۔

ان کے دوستوں کے برے اعمال اور ان کا گناہوں اور معصیتوں میں آلودہ ہونا انہیں تکلیف پہنچاتا ہے اسی طرح ان دو فرشتوں کو رنجیدہ کرتا ہے جو ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے دوستوں کے نیک و صالح اعمال انہیں خوش کرتے ہیں ،ہم صاحبان امر پر سلام والی بحث کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے ہیں ۔

ان پر سلام سے متعلق زیارتیں معمور ہیں ، زیارت جامعہ غیر معروفہ میں ،کہ جس کو شیخ صدوق نے ( کتاب من لا یحضرہ الفقیہ )میں امام رضا سے نقل کیا ہے ، سلاموں کا سلسلہ ہے ہم ان میں سے ایک حصہ یہاں نقل کرتے ہیں :

''السلام علیٰ أولیاء اللّٰه و أصفیائه ، السلام علیٰ أمناء اللّٰه و أحبّائه، السلام علیٰ أنصار اللّٰه و خلفائه، السلام علیٰ محالّ معرفة اللّٰه، السلام علیٰ مساکن ذکر اللّٰه، السلام علیٰ مظهر أمر اللّٰه و نهیه، السلام علیٰ الدعاة الیٰ اللّٰه، السلام علیٰ المستقرّین فی مرضاة اللّٰه، السلام علیٰ المخلصین فی طاعة اللّٰه، السلام علیٰ الأدلاّء علیٰ اللّٰه، السلام علیٰ الذین من والاهم فقد والیٰ اللّٰه، و من عاداهم فقد عادی اللّٰه، و من عرفهم فقد عرف اللّٰه، و من جهلهم فقد جهل اللّٰه، و من اعتصم بهم فقد اعتصم باللّٰه، و من تخلی عنهم فقد تخلیٰ عن اللّٰه ۔''

۸۳

سلام ہو خدا کے دوستوں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر، سلام ہو خدا کے امین اور اس کے احباء پر ، سلام ہو خدا کے انصار اور اس کے خلفاء پر ، سلام ہو معرفتِ خداکے مقام پر سلام ہو، ذکرِ خدا کی منزلوں پر ،سلام ہو خدا کے امرو نہی کے ظاہر کرنے والوں پر، سلام ہو خدا کی طرف بلانے والوں پر، سلام ہو خدا کی خوشنودی کے مرکزوں پر، سلام ہو طاعتِ خدا میں خلوص کرنے والوں پر، سلام ہو خدا کی طرف راہنمائی کرنے والوں پر، سلام ہو ان لوگوں پر کہ جو ان سے محبت کرے تو وہ محبت در حقیقت خدا سے ہو اور جو ان سے دشمنی کرے تو اصل میں اس کی دشمنی خدا سے ہو، جس نے انکو پہچان لیا اس نے خد اکو پہچان لیا اور جس نے ان کو نہ پہچانا اس نے خدا کو نہ پہچانا ، جو ان سے وابستہ ہو گیا وہ خدا سے وابستہ ہو گیا اور جس نے ان کو چھوڑ دیا اس نے خدا کو چھوڑ دیا۔

نصیحت

نصیحت صاحبانِ امر سے محبت و عقیدت کا دوسرا رخ ہے صاحبانِ امر کا خیر خواہ ہونا مقولۂ توحید سے ہے یہ بھی خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخلصانہ محبت کے تحت آتا ہے، یہ ان تین سیاسی قضیوں میں سے ایک ہے جن کا اعلان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع کے موقعہ پر عام مسلمانوں کے سامنے مسجد خیف میں کیا تھا۔

شیخ صدوق نے اپنی کتاب خصال میں امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حجة الوداع کے موقعہ پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منی کے میدان میں مسجدِ خیف میں خطبہ دیا پہلے خدا کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: خد ا شاداب و خوش رکھے اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا اور محفوظ رکھا اور پھر اس بات کو اس شخص تک پہنچایا جس نے وہ بات نہیں سنی تھی کیونکہ بہت سے فقہ کے حامل فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقہ کے حامل اس شخص تک اسے پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے ،تین چیزوں سے مسلمان کا دل نہیں تھکتا ہے :

۸۴

۱۔ خدا کے لئے خلوص عمل سے۔

۲۔ مسلمانوں کے ائمہ کی خیر خواہی سے۔

۳۔ اور اپنی جماعت کے ساتھ رہنے سے۔

اس لئے کہ ان کی دعوت انہیں گھیرے ہوئے ہے ۔

اور مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ،ان کا خون ایک ہی ہے اور ان کے ذمہ چیزوں کی ان کا چھوٹا بھی پابندی کرتا ہے اور وہ اپنے مخالف کے لئے ایک ہیں ۔( ۱ )

اور صاحبانِ امر اور مسلمانوں کے ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ مسلمان ان کی مدد کرے، ان کی پشت پناہی کرے ،انہیں محکم و مستحکم کرے، ان کا دفاع کرنے کی کوشش کرے، انہیں خیر خواہانہ مشورہ دے ان کی حفاظت کرے ان کے سامنے مسلمانوں کی مشکلیںاور رنج و غم کو بیان کرے یہ اس کی محبت و لگائو کا مثبت پہلو ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار: ج۲۷ ص ۶۷۔

۸۵

نمونۂ عمل اور قیادت

ولاء کے مفردات میں سے اہل بیت کی تاسی کرنا بھی ہے۔

بیشک خد اوند عالم نے پہلے ابراہیم کو اور ان کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کے لئے بہترین نمونہ عمل قرار دیا تھا اور لوگ ان دونوں کی اقتداء کرتے تھے اور خود کو ان کے لحاظ سے دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( قَد کَانَتْ لَکُمْ أسْوَة حَسَنَة فِی بْراهِیمَ وَ الَّذِینَ مَعَهُ ) ( ۱ )

یقینا ابراہیم میں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ان میں تمہارے لئے اچھا نمونہ ہے۔ نیز فرماتاہے:

( لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰهِ أُسوَة حَسَنَة ) ( ۲ )

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلفاء ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں ، ہم اپنی زندگی میں ، اپنی محبت میں ،اپنی عائلی زندگی میں ، اپنے اہل و عیال سے محبت کرنے میں اور خود سے محبت کرنے میں اور ان سب سے پہلے خدا سے محبت کرنے میں ہم انہیں کی پیروی کرتے ہیں ۔

واضح رہے کہ تاسی، تعلم نہیں ہے ، اہل بیت ہمارے معلم اور نمونۂ عمل ہیں ، ہم ان کی توجیہات اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ، ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ، ان کے راستہ پر گامزن ہوتے ہیں اور زندگی میں انہیں کی رسم و راہ اختیار کرتے ہیں ،ایسی زندگی گزارتے ہیں جیسی انہوں نے گزاری ہے ، عام لوگوں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ ایسے ہی رہتے ہیں جیسے وہ رہتے تھے۔

بیشک ائمہ اہل بیت معصوم ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انسانیت کے لئے کامل

____________________

(۱) سورہ ممتحنہ: ۴ (۲)سورہ احزاب: ۲۱

۸۶

نمونہ ہیں ، خدا نے انہیں میزان و معیار قرار دیا ہے ، ہم خود کو انہیں کے معیار پر پرکھتے ہیں پس ہماری جو گفتار و کردار، ہماری خاموشی اور ہماری حرکت و سکون اور ہمارا اٹھنا بیٹھا ان کی گفتار و کردار اور ان کے حرکت و سکون کے مطابق ہوتا ہے وہ صحیح ہے اور جو ان سے مختلف ہے وہ غلط ہے ، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ اس میں کوئی فرق نہیں ہے ، اور زیارت جامعہ میں نقل ہونے والے درج ذیل جملے کے یہی معنی ہیں :

''المتخلف عنکم هالک و المتقدم لکم زاهق واللازم لکم لاحق''

آپ سے روگردانی کرنے والا فانی اور آپ سے آگے بڑھنے والا مٹ جائیگا اور آپ کا اتباع کرنے والا آپ سے ملحق ہوگا ۔

ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اہل بیت کی سیرت اورسنتوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہمارا کرداران کے کردار کے مطابق ہو جائے ،حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں : تم میں اس کی طاقت نہیں ہے لیکن تم ورع و کوشش سے میری مدد کرو۔

زیارت جامعہ میں ائمہ کی توصیف میں بیان ہوا ہے : وہ بہترین نمونے ہیں اور بہترین نمونے ہی معیار ہیں اور جہاں تک ہو سکے لوگ خود کو ان ہی معیاروں پر پرکھیں۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت نے حضرت ابراہیم اور خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اقدار و اخلاق، عبودیت و اخلاص اور طاعت و تقویٰ کی میراث پائی ہے ۔

جو شخص انبیاء کی ہدایت پانا اور ان کے راستہ پر چلنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اہل بیت کی اقتدا ء کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے۔

زیارت جامعہ میں یہ دعا ہے :

''جعلنی اللّٰه ممن یقتصّ آثارکم و یسلک سبیلکم و یهتدی بهداکم''

خدا مجھے ان لوگوں میں قرار دے کہ جو آپ کے راستہ پر چلتے ہیں اور آپ کی ہدایت سے ہدایت پاتے ہیں ۔

۸۷

رنج و مسرت

رنج و مسرت ولاء کی دو حالتیں ہیں اور یہ دونوں محبت کی نشانیاں ہیں کیونکہ جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کے غمگین ہونے سے غمگین ہوتا ہے اور اس کے خوش ہونے سے خوش ہوتا ہے ۔ امام صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ ہم ہی میں سے ہیں انکو وہی چیز رنجیدہ کرتی ہے جو ہمیں رنجیدہ کرتی ہے اور انہیں وہی چیز خوش کرتی ہے جو ہمیں خوش کرتی ہے ۔( ۱ )

صحیح روایت میں ریان بن شبیب معتصم عباسی کے ماموں سے نقل ہوا کہ امام رضا نے اس سے فرمایا: اے شبیب کے بیٹے اگر تم جنتوں کے بلند درجوں میں ہمارے ساتھ رہنا پسند کرتے ہو تو ہمارے غم میں غم اور ہماری خوشی میں خوشی منائو اور ہماری ولایت سے متمسک ہو جائو کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت کرے گا تو خدا قیامت کے دن اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔( ۲ )

____________________

(۱)امالی طوسی: ج ۱ ص ۳۰۵

(۲) امالی صدوق: ص ۷۹ مجلس ۲۷

۸۸

مسمع سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا: اے مسمع! تم عراقی ہو! کیا تم قبرِ حسین کی زیارت کرتے ہو؟ میں نے عرض کی: نہیں ، میں بصری مشہور ہوں ، ہمارے یہاں ایک شخص ہے جو خلیفہ کی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے اورناصبی اور غیر ناصبی قبائل میں سے بہت سے لوگ ہمارے دشمن ہیں مجھے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ لوگ سلیمان کے بیٹے سے میری شکایت نہ کر دیں او روہ میرے در پے ہو جائیں، آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں یاد ہے کہ اس پر کیا احسان کیا ہے ؟ میں نے کہا: ہاں۔ پھر فرمایا: کیا تم اس پر غم کا اظہار کرتے ہو؟ میں نے عرض کی : جی ہاں۔

میں اس پر اس قدر آنسو بہاتا ہوں کہ میرے اہل و عیال میرے چہرہ پر اس کا اثر دیکھتے ہیں ۔ میں کھانا نہیں کھاتاخدا آپ کے آنسوئوں پر رحم کرے

جو ہماری خوشی میں خوشی اور ہمارے غم میں غم مناتے ہیں اور ہمارے خوف میں خوف زدہ ہوتے ہیں اور جب ہم امان میں ہوتے ہیں تو وہ خودکوامان میں محسوس کرتے ہیں ۔ تم مرتے دم دیکھوگے کہ تمہارے پاس میرے آباء و اجدادآئے ہیں اور تمہارے بارے میں ملک الموت کو تاکید کر رہے ہیں اور تمہیں ایسی بشارت دے رہے ہیں کہ جس سے مرنے سے پہلے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ نتیجہ میں ملک الموت تمہارے لئے اس سے زیادہ مہربان ہو جائے گا کہ جتنی شفیق ماں بیٹے پر مہربان ہوتی ہے۔( ۱ )

ابان بن تغلب سے مروی ہے انہوں نے امام جعفرصادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) کامل الزیارات: ص ۱۰۱

۸۹

ہمارے اوپر ہونے والے ظلم پر رنجیدہ ہونے والے کی سانس تسبیح ،ہمارے لئے اہتمام کرنا عبادت اور ہمارے راز کو چھپانا راہِ خدا میں جہاد ہے ۔( ۱ )

ہم اسی خاندان سے ہیں ،ہم عقیدہ ، اصول، محبت، بغض ، ولاء اور برأت میں ان کی طرف منسوب ہوتے ہیں ۔ اور اس محبت و ولاء کی علامت ان کی خوشی و غم میں خوش اور غمگین ہونا ہے ۔لیکن ہم اپنے اس رنج و مسرت کو کیوں ظاہر کرتے ہیں اور اس کو دل و نفس کی گہرائی سے نکال کر نعرہ زنی کی صورت میں کیوں لاتے ہیں اور اس کو معاشرہ میں دوستوں اور دشمنوں کے در میان کیوں ظاہر کرتے ہیں ۔

اور اہل بیت کی حدیثوں میں اس رنج و بکا خصوصاً مصائب حسین کے اظہار کی کیوں تاکید کی گئی ہے ۔

بکر بن محمد ازدی نے امام جعفرصادق سے روایت کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فضیل سے فرمایا: تم لوگ بیٹھتے اور گفتگو کرتے ہو؟ عرض کی: میں آپ پر قربان، ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں ۔ فرمایا: میں ان مجلسوں کو پسند کرتا ہوں لہٰذا تم ( ان مجلسوں میں ) ہمارے امر کو زندہ کرو، خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے ہمارے امرکو زندہ کیا۔( ۲ )

یہ اظہارغم اور نعرہ زنی ہماری ایمانی کیفیت کا اعلان ہے ( یہ ہماری تہذیبی، سیاسی اور ثقافتی وابستگی کا اظہار ہے ) یہ اعلان و اظہار اور نعرہ زنی اہل بیت سے ہماری وابستگی کا اعلان ہے۔یہ وہ چیز ہے جس کی ہم نے مرور زمانہ میں حفاظت کی ہے جس کو ہم نے سیاسی و ثقافتی حملوں سے آج تک بچایا ہے ۔

____________________

(۱)امالی مفید: ص ۲۰۰ بحار الانوار: ج ۴۴ ص ۲۷۸

(۲)بحار الانوار: ج ۴۴ ص ۲۸۲

۹۰

ہمراہی اور اتباع

شاید لفظ ہمراہی و معیت مکتب اہل بیت سے منسوب ہونے کے لئے بہترین لفظ ہے، خوشحالی و بدحالی ،تنگی و کشادگی،اور صلح و جنگ میں ہم انہیں کے ساتھ ہیں ،یہ لفظ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے گویا ترانۂ ولاء کا ایک جملہ ہے ''معکم معکم لا مع عدوکم..'' میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ، آپ کے دشمن کے ساتھ نہیں ہوں زیارت کا یہ ٹکڑا بعض روایاتوں میں وارد ہوا ہے : لا مع غیرکم -اوریہ جملہ لا مع عدوکم '' کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہے ۔

ثقافتی اتباع

ولاء میں اتباع کا مفہوم زیادہ وسعت رکھتا ہے ۔

یہ مفہوم جنگ و صلح، محبت و عداوت، فکر و ثقافت اور معرفت و فقہ میں اتباع کو شامل ہے۔

ہم اس سلسلہ میں آزاد ہیں کہ مشرق و مغرب میں جہاں بھی ہمیں علم ملے اسے حاصل کریں لیکن یہ بات جائز ہے اور نہ صحیح ہے کہ ہم سر چشمہ وحی کو چھوڑ کر معرفت و ثقافت دو سرے مرکز سے حاصل کریں اور اہل بیت نے معرفت و ثقافت کو وحی کے چشمے سے حاصل کیا ہے، کیوں نہ ہو وہ نبوت کے اہل بیت اور رسالت کی منزل ہیں ، فرشتوں کی آمد و رفت کامرکز ہیں ،وحی کے اترنے کی جگہ ہیں اور علم کے خزینہ دار ہیں جیسا کہ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے ۔

ثقافت اور علم کے درمیان فرق ہے علم براہ راست انسان کے چال چلن، عقیدہ ، طرز فکر، طریقہ ٔ عبادت، محبت، معاشرت، تحرک، اجتماعی و سیاسی سر گرمی و فعالیت وغیرہ پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے ،لیکن ثقافت انسان کے چال چلن اس کے افکار، طریقۂ معیشت و معاشرت اور عبادت، خدا، کائنات اور انسان سے متعلق نظریہ و تصور پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔

۹۱

اورعلوم بے پناہ ہیں ، جیسے ، دوا سازی و دوا فروشی ،تجارت، اقتصاد یات، محاسبہ، ریاضیات، انجینئری و معماری، الکٹرون ، ایٹم ، جراحت، طبابت ، میکانک، فزکس وغیرہ، لوگ آزاد ہیں کہ جہاں بھی انہیں علم ملے اسے حاصل کر لیں، یہاں تک کہ کافر سے بھی حاصل کر سکتے ہیں ، کیونکہ علم ایک قسم کا اسلحہ اور طاقت ہے اور مومنین کو چاہئے کہ وہ کافروں اور اپنے دشمنوں سے اسلحہ و طاقت لے لیں ۔

ثقافت جیسے اخلاق ، عرفان، فلسفہ، فقہ و عقیدہ، دعا، تربیت، تہذیب، طرزمعاشرت اجتماعی معیشت و کردار کے زاوئے اور ادب وغیرہ۔

ثقافت علم کی مانند نہیں ہے اور نہ ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ہم ثقافت (معرفت) وحی کے سرچشمہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ حاصل کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ثقافت انسان کے چال چلن اور کردار، اس کے طرز فکر، اس کی معیشت ، خدا اور لوگوں اوراپنے نفس اور دوسری چیزوں سے محبت و لگائو کی کیفیت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔ ثقافت علم کو محدود رکھتی ہے خصوصاً جب علم صالح ثقافت سے متصل نہ ہو۔ ممکن ہے علم تخریب و فساد کا آلۂ کار بن جائے۔ جبکہ ہدایت کرنے اور راہ دکھانے والی ثقافت علم کو لگام لگاتی ہے اور اس سے انسان کی خدمت کے لئے مفید و نفع بخش کام لیتی ہے۔

قرآن مجید، انسان کی زندگی میں ،کتاب( ثقافت و معرفت) ہے ، جس کو خدا نے انسان کی فکر و کردار کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے ۔ یہ کتاب علم نہیں ہے، اگر چہ علماء نے قرآن مجید میں فلک ، نجوم ، نباتات ، حیوانات، طب اور فلسفہ سے متعلق بے پناہ علوم پائے ہیں ۔ اس کے باوجود قرآن کتابِ ثقافت و ہدایت ہی رہا ۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم قرآن کے ساتھ کتاب علم کا سا سلوک کریں گو یا وہ علم کی کتاب ہے جس کو خدا نے اس لئے نازل کیا ہے کہ لوگ اس کے ذریعہ فزکس، کیمیا اور نباتات وغیرہ کا علم حاصل کریں۔ بلکہ وہ ثقافت و معرفت کی کتاب ہے ، جس کو خدا نے اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ ہمیں طرز زندگی ، خدا، کائنات اور انسان کی معرفت کا طریقہ، تصور خدا اور تصور کائنات و انسان کی کیفیت بتائے کہ ہم خدا، لوگوں ،اپنے نفسوں اور دوسری اشیاء کے ساتھ کس طرح پیش آئیں اور اشیاء کی بلندیوں اور افکار و افراد کا کیسے اندازہ لگائیں۔

۹۲

خداوند عالم فرماتاہے :

( شَهرُ رَمَضَانَ، الَّذِی أُنزِلَ فِیهِ القُرآنُ، هُدًی لِلنَّاسِ، وَ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الهُدیٰ وَ الفُرقَانِ ) ( ۱ )

رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے ، جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کے ساتھ حق و باطل کے امتیاز کی نشانیاں بھی ہیں ۔

دوسری جگہ فرماتا ہے :

( وَاذْکرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیکُمْ ، وَمَا أنْزِلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکْمَةِ، یَعِظُکُمْ بِهِ ) ( ۲ )

اور تمہارے اوپر خدا نے جو نعمتیں نازل کی ہیں ان کو یاد کرو اور تمہارے اوپر کتاب و

____________________

(۱)البقرة : ۱۸۵

(۲)البقرة: ۲۳۱

۹۳

حکمت نازل کی ہے جس کے ذریعہ وہ تمہیں نصیحت کرتاہے۔

نیز فرماتا ہے :

( هٰذا بَیَان لِلنَّاسِ وَ هُدیً وَّ مَوعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ ) ( ۱ )

یہ لوگوں کیلئے ایک بیان ہے اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت و نصیحت ہے ۔

نیزفرماتا ہے :

( یَا أیُّهَا النَّاسُ قَد جَائَ کُم بُرهَان مِّن رَّبِّکُم، وَ أنزَلنَا لَیکُم نُورًا مُبِینًا ) ( ۲ )

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی ہے اورہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے ۔

نیز فرماتا ہے:

( وَ لَقَد جِئْنَاهُم بِکِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلیٰ عِلْمٍ، هُدیً وَّ رَحْمَةً لِقَومٍ یُؤمِنُونَ ) ( ۳ )

ہم تمہارے پاس ایسی کتاب لائے جس کی ہم نے علم کے لحاظ سے تفصیل کی ہے اور یہ ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے ۔

پھر فرماتا ہے :

( هٰذا بَصَائِر مِن رَّبِّکُمْ وَ هُدیً وَّ رَحْمَة لِقَومٍ یُؤمِنُونَ ) ( ۴ )

یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے دلائل اور ایمان لانے والوں کے لئے

____________________

(۱) آل عمران : ۱۳۸

(۲)سورة النسائ: ۱۷۴

(۳)سورہ الاعراف: ۵۲(۴)سورہ الاعراف: ۲۰۳

۹۴

ہدایت و رحمت ہے۔تو قرآن کتاب ثقافت ہے اور لوگوں کی زندگی میں نور ہے، لوگوں کے لئے دلائل ، ہدایت اور نصیحت ہے اور ہمارے لئے یہ صحیح ہے کہ ہم کسی بھی سر چشمہ سے علم حاصل کر سکتے ہیں اور کسی بھی ذریعہ سے علم حاصل کر سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی علم حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم معصوم کے سر چشمہ کے علاوہ کسی اور سے ثقافت لیں کہ وہ اس ثقافت کو ہماری طرف وحی کے سر چشمہ سے نقل کرتا ہے کیونکہ ثقافت میں ذرہ برابر بھی خطا مشقت کا باعث ہے جبکہ علم ایسا نہیں ہے ۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معصوم، سر چشمہ ہیں ان پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ اسے ہم تک پہنچاتے ہیں ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدوحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت کے خلفاء کو ، جو کہ قرآن کے ہم پلہ ہیں ، ہمارے درمیان اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے ، اہل بیت نے ثقافت و معرفت کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سے لیا ہے اور معرفت و ثقافت، خدا کے حدود و احکام، حلال و حرام، سنن آداب و اخلاق اور اصول و فروع کی میراث آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سے پائی ہے اور ان چیزوں میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اپنے بعد نسلاً بعد نسل مسلمانوں کا مرجع اور قرآن کا ہم پلہ قرر دیا ہے یہاں تک کہ خدا وند عالم انہیں زمین اور روئے زمین کی تمام چیزوں کا وارث بنا ئیگا اور اس کا ثبوت حدیث ثقلین ہے جو فریقین کے نزدیک صحیح ہے۔ اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ میرے بعد تم قیامت تک قرآن اور اہل بیت سے رجوع کرنا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں سے تمسک کرنے کو گمراہی و ضلالت سے امان قرار دیا ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱) مسلم نے اپنی صحیح میں فضائل صحابہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے اور ترمذی نے اپنی صحیح میں ج ۲ ص۳۰۸ احمد نے اپنی مسند میں متعدد مقامات پر اس حدیث کو نقل کیا ہے دارمی نے اپنی سنن کی ج۲ ص۴۳۱ پر کئی سندوں سے نقل کیا ہے حاکم نے مستدرک میں اسے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے اور شیخین کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے. ج۳ ص ۱۰۹ سنن بیہقی ج۲ ص ۱۴۸ ج۷ ص۳۰ صواعق محرقہ ص ۸۹ اس نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اصحاب اسد الغابہ ج۲ ص ۱۲ وغیرہ نے بھی اس کو نقل کیا ہے اس حدیث کی سند بیان کر کے ہم اپنی بات کو طول نہیں دینا چاہتے کیونکہ امر اس سے کہیں زیادہ اہم ہے. اس سلسلہ میں صحیح مسلم و ترمذی ہی کافی ہیں

۹۵

نص حدیث یہ ہے:

''نی تارک فیکم الثّقلین کتاب اللّٰہ و عترتی أہل بیتی، و أنّھما لن یفترقا، حتی یردا علیّ الحوض، ما ن تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی''۔

میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا، دوسری میری عترت جو کہ میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہوگے اس وقت تک میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔

کتابوں میں اس حدیث کے الفاظ ملتے جلتے ہیں ، جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اختلاف ہے اس حدیث کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہت سے موقعوں پر بیان فرمایا ہے انہیں میں سے غدیر خم بھی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں زید بن ارقم سے نقل ہے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''مثل أهل بیت مثل سفینة نوح من رکبها نجا، و من تخلّف عنها غرق'' ۔

میرے اہل بیت کی مثال کشتیِ نوح کی سی ہے جو اس پر سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ ڈوب گیا۔( ۱ )

نیز فرمایا:''اهل بیت امان لأمتي من الإختلاف'' ۔

____________________

(۱) اس کو حاکم نے مستدرک ج۲ ص ۳۴۳ پر نقل کیا ہے اور مسلم کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے کنز العمال ج۶ ص ۲۱۶ مجمع الزوائد ہیثمی ج ۹ ص ۱۸ حلیة الاولیاء ابو نعیم ج۴ ص ۳۰۶ تاریخ بغداد خطیب : ج ۱۲ ص ۱۹ درمنثور سیوطی سورہ بقرہ کی درج ذیل آیت: و اذ قلنا ادخلوا ہذہ القریة فکلوا منہا حیث شئتم، کشف الحقائق مناودی ص ۱۳۲ صواعق محرقہ طبری فضائل الخمسہ فیروزآبادی ج۲ ص ۶۷ تا ۷۱

۹۶

میرے اہل بیت میری امت کے لئے اختلاف سے امان میں رہنے کا باعث ہیں ۔( ۱ )

اس کے علاوہ اوربہت سی حدیثیں ہیں جن کی صریح اور واضح دلالت اس بات پر ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کو یہ وصیت فرماتے تھے کہ میرے بعد تم میرے اہل بیت سے رجوع کرنا اور اپنے دین کے دستور و معارف انہیں سے لینا، اسی طرح خداکے بیان کردہ حدود، اس کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت اور حلال و حرام انہیں سے معلوم کرنا۔

فیروز آبادی نے اپنی گرانقدر کتاب''فضائل الخمسة من الصحاح الستة'' میں ان حدیثوں میں سے کچھ حدیثیں بیان کی ہیں ، بحث طویل ہو جانے کے خوف سے ہم ان سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

بیشک اہل بیت، مرکز رسالت، ملائکہ کی جائے آمد و رفت، وحی اترنے کی منزل ، علم کے خزینہ دار ،تاریکی میں چراغ، تقوے کی نشانیاں، ہدایت کے امام، انبیاء کے وارث اور دنیا والوں پر خدا کی حجت ہیں ۔ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے : وہ معروف خدا کے مرکز، حکمتِ خداکے معادن، کتاب خدا کے حامل ، اس کی حجت، اس کی صراط اور اس کا نور و برہان ہیں جیساکہ زیارت جامعہ میں وار دہواہے ۔

اس صورت میں جو بھی ان سے جدا ہوگا وہ لا محالہ بھٹک جائیگا،خواہ وہ ان سے آگے بڑھ جائے یا ان سے پیچھے رہ جائے کیونکہ خدا کی صراط ایک ہے متعدد نہیں ہے، پھر جو ان کے راستہ پر چلے گا وہ خدا کی طرف ہدایت پائے گا اور جو را ہ میں ان سے اختلاف کرے گا وہ اس

____________________

(۱)مستدرک صحیحین ج ۳ ص ۱۴۹ اور انھوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے صواعق محرقہ: ص ۱۱۱۱ مجمع الزوائد ہیثمی: ج ۹ ص ۱۷۴ فیض القدیر مناوی ج۶ ص ۲۹۷ کنز العمال متقی: ج۷ ص ۲۱۷ فیروز آبادی فضائل الخمسة من الصحاح الستہ ج۲ ص ۷۱ تا ۷۳ اس کو بہت سے طریقوں سے نقل کیا ہے.

۹۷

منزل تک نہیں پہونچ پائیگا جس کو خدا چاہتا ہے، اس بات کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کئی موقعوں پر اعلان فرمایا ہے ان میں سے ہم نے ایک حدیث ثقلین میں بیان کیا ہے۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک و وابستہ رہوگے اس وقت تک گمراہ نہ ہوگے۔

یہ کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں بعض لوگ ہدایت پا جاتے ہیں اور بعض لوگ بھٹک جاتے ہیں ،ہدایت یافتہ کو دوہرا ثواب دیتا ہے اورخطا کرنے والے کو ایک ہی دیتا ہے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں ۔

نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کرنا صحیح نہیں ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں نص فرمائی ہے کہ میرے بعد جس چیز میں تمہارے درمیان اختلاف ہو اس میں تم میرے اہل بیت سے رجوع کرنا۔ زیارت جامعہ میں آیا ہے ۔

''فالراغب عنکم مارق و اللازم لکم لاحق ، و المقصّر ف حقّکم زاهق، و الحقّ معکم و فیکم و منکم والیکم و أنتم معدنه و فصل الخطاب عندکم، و آیات اللّٰه لدیکم، و نوره و برهانه عندکم'' ۔

آپ سے رو گردانی کرنے والا دین سے خارج ہے اور آپ کا اتباع کرنے والا آپ سے ملحق ہے اور آپ کے حق میں کو تاہی کرنے والا مٹ جانے والا ہے، حق آپ کے ساتھ، آپ کے درمیان ، آپ سے اور آپ کے لئے ہے ، اورآپ حق کے معدن ہیں ، فصل خطاب آپ کے پاس ہے ، ..خدائی آیتیں آپ کے پاس ہیں ، اور اس کا نور و برہان آپ کے پاس ہے ۔

پس جو شخص خدا کی رضا، اس کا طریقہ ، اس کی ہدایت اور اس کا راستہ چاہتا ہے وہ لامحالہ انہیں سے لے گا اور انہیں کے راستہ پر چلے گا، کیونکہ اہل بیت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نہیں بلاتے ہیں اور نہ غیر کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اسی زیارت میں وارد ہوا ہے :

''الیٰ اللّٰه تدعون، و علیه تدلون و به تؤمنون، و له تسلمون، و بأمره تعملون، والیٰ سبیله ترشدون، و بقوله تحکمون، سعد من والاکم، و هلک من عاداکم، و خاب من جحدکم، و ضلّ من فارقکم، و فاز من تمسک بکم، و امن من لجأ الیکم، و سلم من صدقکم، و هدی من اعتصم بکم'' ۔

۹۸

آپ خد اکی طرف دعوت دیتے ہیں ، اسی کی طرف راہنما ئی کرتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اس کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے راستہ کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور اس کے قول کے موافق حکم دیتے ہیں ، جس نے آپ سے محبت کی اس کی قسمت سنور گئی اور جس نے آپ سے دشمنی کی وہ ہلاک ہو گیا، جس نے آپ کا انکار کیا وہ گھاٹے میں رہا اور جس نے آپ کو چھوڑ دیا وہ گمراہ ہو گیا اور جس نے آپ سے تمسک کیاوہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ کے پاس پناہ لے لی وہ محفوظ رہا، جس نے آپ کی تصدیق کی و ہ صحیح وسالم رہا اور جس نے آپ کا دامن تھام لیا وہ ہدایت پاگیا۔

۹۹

طاعت و تسلیم

طاعت و تسلیم ولاء کا جوہر ہے ۔اگر بر محل طاعت ہوتی ہے تو اس کی بڑی قیمت ہے اور اگر اپنی جگہ نہ ہو تو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، عصیان و سرکشی اورانکارکی بھی قیمت ہوتی ہے جب کہ ان کا تعلق شیطان سے ہے ،لیکن اگر ان کا تعلق خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہل بیت اور مسلمانوں کے صاحبانِ امر سے ہو تو یہ قیمت کی ضد قرار پائیں گے۔چنانچہ سورۂ زمر کی آیت ۱۷ میں ان دونوں قیمتوں کو جمع کر دیا گیاہے ۔ ارشاد ہے :

( وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُواْ الطَّاغُوتَ أن یَعبُدُوهَا ، وَ أنَابُوا لیٰ اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشریٰ )

اور جو لوگ طاغوت کی پرستش کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور خدا سے لولگاتے ہیں ان کے لئے بشار ت ہے، اور سورۂ نحل میں ارشاد ہے:

( أنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الْطَّاغُوتَ ) ( ۱ )

تم خدا کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔

طاعت و عبادت، انکار و اجتناب ایک چیز ہے اور خدا نے ہمیں اپنی ، اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اولی الامر کی طاعت کا حکم دیا ہے :

( أطِیعُوا اللّٰهَ وَأطِیعُوا الرَّسُولَ وَ أولِی الأمرِ مِنکُم )

دوسری طرف ہمیں شیطان وطاغوت کی نافرمانی کرنے اور اس کے انکار کرنے کا حکم دیا ہے ۔

( یُرِیدُونَ أن یَّتَحَاکَمُوا لیٰ الطَّاغُوتِ وَقَد أمِرُوا أن یَکفُرُوا بِهِ ) ( ۲ )

وہ لوگ طاغوت کو اپنا حاکم بنانا چاہتے ہیں جبکہ انہیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ائمہ اہل بیت ہی اولی الامر ہیں لہذا ان کی طاعت واجب ہے اور جو وہ حکم دیں اس کو بجالانا فرض ہے :

''فهم ساسة العباد و أرکان البلاد و هم حجّج اللّٰه علیٰ هل الدنیا''

وہ بندوں کے سر براہ اور شہروں کے ارکان اور وہ دنیا والوں پر خدا کی حجتیں ہیں ۔

____________________

(۱)النحل: ۳۶

(۲)النسائ: ۶۰

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142