شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95373 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اختیار کرنے والوں کی دوقسمیں ہیں :

پہلی قسم

وہ ایسے اصحاب ہیں جن کی قرآن مجید کی آیتیں مدح و ستائش کرتی ہیں اور انہیں شوکت اسلام کا بانی قرار دیتی ہیں یہاں پر ہم صحابہ کرام کے ایسے گروہ سے متعلق چند آیتوں کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے

(وَالسَّابِقُونَ الْاَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَالْاَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِىَ ﷲ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِى من تَحْتِهَا الْاَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا َبَدًا ذَٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ )( ۱ )

اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اورخدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے.

____________________

(۱) سورہ توبہ آیت:۱۰۰

۱۰۱

۲۔درخت کے نیچے بیعت کرنے والے

(لَقَدْ رَضِىَ ﷲ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیبًا )( ۱ )

یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جوان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی.

۳۔مہاجرین

(لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِینَ الَّذِینَ ُخْرِجُوا مِنْ دِیارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ ﷲِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُونَ ﷲ وَرَسُولَهُا ُوْلٰئِکَ هُمْ الصَّادِقُونَ )( ۲ )

یہ مال ان مہاجر فقراء کے لئے بھی ہے جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کے اموال سے انہیں دور کردیا گیا اور وہ

صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خدا اور رسول کی مدد کرنے والے ہیں یہی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ہیں

____________________

(۱)سورہ فتح آیت:۱۸

(۲)سورہ حشر آیت:۸

۱۰۲

۴۔اصحابِ فتح

(مُحَمَّد رَسُولُ ﷲِ وَالَّذِینَ مَعَهُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ ﷲِ وَرِضْوَانًا سِیمَاهُمْ فِى وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ )( ۱ )

محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں تم ان کودیکھو گے کہ بارگاہ احدیت میں سرخم کئے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل وکرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں کثرت سجود کی وجہ سے ان کے چہروں پر سجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیں

____________________

(۱)سورہ فتح آیت:۲۹

۱۰۳

دوسری قسم

بزم رسالت میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جنہیں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت تو حاصل ہوئی

تھی مگر وہ یا تو منافق تھے یا پھر ان کے دل میں مرض تھا قرآن مجید نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایسے افراد کی حقیقت کو نمایاں کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ تاکید کی ہے کہ ان سے محتاط رہیں یہاں پر ہم اس سلسلے میں نازل ہونے والی آیتوں کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

۱۔معروف منافقین

اذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ اِنَّکَ لَرَسُولُ ﷲِ وَﷲ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُولُهُ وَﷲ یَشْهَدُاِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ )( ۱ )

اے پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں

۲۔غیر معروف منافقین

(وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنْ الْاَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ---- الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لاَتَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ )( ۲ )

____________________

(۱)سورہ منافقون آیت:۱

(۲)سورہ توبہ آیت: ۱۰۱

۱۰۴

اور تم لوگوں کے گرد، دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم لوگ ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں

۳۔دل کے کھوٹے

(وَاِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِى قُلُوبِهِمْ مَرَض مَا وَعَدَنَا ﷲ وَرَسُولُها ِلاَّ غُرُورًا )( ۱ )

اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور رسول نے ہم سے صرف دھوکا دینے والا وعدہ کیا ہے.

۴۔گناہ گار

(وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَی ﷲ اَنْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ اِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم )( ۲ )

اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کہ انہوں نے نیک اور بد اعمال مخلوط کردئیے ہیں عنقریب خدا

____________________

(۱)سورہ احزاب آیت :۱۲.

(۲)سورہ توبہ آیت : ۱۰۲.

۱۰۵

ان کی توبہ قبول کر لے گا وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.

قرآن مجید کی آیات کے علاوہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی بعض صحابہ کی مذمت میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے ہم صرف دو روایتوں کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :

۱۔ابوحازم،سہل بن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا :

''أنا فرطکم علیٰ الحوض مَن ورد شرب و مَن شرب لم یظمأ أبداً و لیردنّ علّ أقوام أعرفهم و یعرفونن ثم یحال بین و بینهم.''

میں تم سب کو حوض کی طرف بھیجوں گا جو شخص بھی اس حوض تک پہنچے گا وہ اس میں سے ضرور پئے گا اور جو بھی اس سے پئے گا پھر وہ تاابد پیاس محسوس نہیں کرے گا پھر ایک گروہ میرے پاس آئے گا جسے میں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے اس کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے جدا کردیا جائے گا .''

۱۰۶

ابو حازم کا بیان ہے کہ جس وقت میں نے نعمان ابن ابی عیاش کے سامنے یہ حدیث پڑھی تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تم نے یہ حدیث سھل سے اسی طرح سنی ہے ؟ میں نے کہا ہاں اس وقت نعمان بن ابی عیاش نے کہا کہ ابوسعید خدری نے بھی اس حدیث کو ان کلمات کے اضافے کے ساتھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

''اِنهم من فیقال: نک لاتدر ما أحدثوا بعدک فأقول سحقًا سحقًا لمن بدل بعد'' ( ۱ )

یہ افراد مجھ سے ہیں پس کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کام انجام دیئے ہیں ! پس میں کہوں گا ایسے لوگوں سے خدا کی رحمت دور ہوجائے جنہوں نے میرے بعد (احکام دین میں ) تبدیلی کی.

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث میں ان دو جملوں'' جنہیں میں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وہ سب بھی مجھے پہچانتے ہونگے ''اور ''میرے بعد تبدیلی کی'' سے صاف واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد آپکے وہ اصحاب ہیں جو کچھ مدت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ رہے ہیں (اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے بھی نقل کیاہے)

۲۔بخاری اور مسلم ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے:

''یرد علَّ یوم القیامة رهط من أصحاب أو قال من أمت فیحلون عن الحوض فأقول یاربى أصحابى فیقول اِنّه لاعلم لک بما أحدثوا بعدک أنهم ارتدوا علیٰ أدبارهم القهقری . ''( ۲ )

____________________

(۱)جامع الاصول (ابن اثیر) جلد۱ ۱ کتاب الحوض فی ورود الناس علیہ ص ۱۲۰ حدیث نمبر ۷۹۷۲.

(۲)جامع الاصول جلد ۱۱ ص ۱۲۰ حدیث ۷۹۷۳

۱۰۷

قیامت کے دن میرے اصحاب میں سے یا فرمایا میری امت میں سے ایک گروہ میرے پاس آئے گاپس ان کو حوض کوثر سے دور کردیا جائے گا اس وقت میں کہوں گا اے میرے پروردگار! یہ میرے اصحاب ہیں تو خدا فرمائے گا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیسے کیسے کام انجام دئیے ہیں بے شک یہ لوگ اپنی سابقہ حالت (زمانہ جاہلیت) پر لوٹ کر مرتد ہوگئے تھے.

نتیجہ:قرآنی آیات اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب اور وہ افراد جنہیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے وہ سب ایک ہی درجہ کے نہیں تھے ان میں بعض ایسے بلند مقام افراد تھے جن کی خدمات نے اسلام کے پھیلانے میں انتہائی مؤثر کردار ادا کیا ہے لیکن بعض ایسے بھی تھے جو ابتداء ہی سے منافق، دل کے مریض اور گمراہ تھے.( ۱ )

اسی بیان کے ساتھ صحابۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں شیعوں کا نظریہ (جو درحقیقت قرآن اور سنت کا نظریہ ہے) واضح ہوجاتا ہے۔

____________________

(۱) اس بارے میں مزید وضاحت کے لئے سورہ منافقون ملاحظہ کریں.

۱۰۸

اٹھارہواں سوال

متعہ کیا ہے اور شیعہ اسے کیوں حلال سمجھتے ہیں ؟

جواب:نکاح، مرد اور عورت کے درمیان ایک ارتباط کا نام ہے بعض اوقات یہ ارتباط دائمی ہوتا ہے اور عقد پڑھتے وقت اس میں زمانے کی کوئی قید ذکر نہیں کی جاتی لیکن بسا اوقات یہی ارتباط ایک معین مدت کے لئے انجام پاتا ہے یہ دونوں ہی عقد شرعی نکاح کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے درمیان صرف ''دائمی'' اور ''موقت'' کا فرق ہوتا ہے لیکن یہ دونوں باقی خصوصیات میں مشترک ہیں اب ہم یہاں نکاح ''متعہ'' کی ان شرائط کا ذکر کریں گے جو نکاح ''دائم'' کی طرح معتبر ہیں :

۱۔مرد اور عورت کے درمیان آپس میں کوئی نسبی و سببی اور کوئی شرعی مانع نہ ہو ورنہ ان کا عقد باطل ہے

۲۔ طرفین کی رضامندی سے معین کئے جانے والے مہرکا تذکرہ عقد میں ہونا چاہئے

۳۔نکاح کی مدت معین ہونی چاہئے.

۴۔شرعی طریقے سے عقد پڑھا جانا چاہئے.

۵۔ان دونوں سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ شرعی طور پر ان دونوں کی شمار ہوگی اور جس طرح نکاح دائم سے پیدا ہونے والی اولاد کانام شناختی کارڈ وغیرہ میں درج ہوتا ہے اسی طرح عقد متعہ سے پیدا ہونے والی اولاد کا نام بھی شناختی کارڈ میں شامل کیا جاتا ہے.

۶۔اس اولاد کا نان ونفقہ والد کے ذمے ہے اور یہ اولاد ماں اور باپ دونوں سے میراث پائے گی.

۱۰۹

۷۔جس وقت عقد متعہ کی مدت ختم ہوجائے تو اگر عورت یائسہ نہ ہو تو وہ شرعی طور پر عدہ گزارے گی اور اگراثنائے عدت میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے تو وضع حمل سے پہلے کسی بھی قسم کا عقد نہیں کرسکتی. اسی طرح نکاح دائم کے باقی احکام بھی متعہ میں جاری ہوں گے ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ چونکہ عقد متعہ چند ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے حلال کیا گیا ہے لہذا اس عورت کا نان ونفقہ مرد کے ذمے نہیں ہے اور اگر عقد متعہ پڑھتے وقت عورت کی طرف سے میراث لینے کی شرط نہ لگائی جائی تو یہ عورت شوہر کی میراث نہیں پائے گی واضح ہے کہ ان دو فرقوں سے نکاح کی حقیقت میں کوئی اثر نہیں پڑتا۔

ہم سب اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام ایک دائمی شریعت اور آخری شریعت ہے لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ انسانوں کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اب یہاں پر اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ایک ایسا جوان شخص جو کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی دوسرے شہر یا ملک میں زندگی بسر کررہا ہو اور محدود وسائل کی وجہ سے دائمی عقد نہ کرسکتا ہو اسکے سامنے صرف تین راستے ہیں اور ان میں سے وہ کسی ایک کا انتخاب کرے گا۔

الف:کنوارہ ہی رہے.

ب:گناہ اور آلودگی کی دلدل میں دھنس جائے.

ج:گذشتہ شرائط کے ساتھ ایک ایسی عورت کے ساتھ ایک محدود اور معین مدت کے لئے شادی کر لے جس سے شرعا عقد جائز ہو پہلی صورت کے بارے میں یہ کہنا چاہئے اس میں اکثر افراد شکست کھاجاتے ہیں اگرچہ بعض ایسے انگشت شمار اشخاص ضرور مل جائیں گے جو اپنی خواہشات کو دبا کر صبر کا دامن تھام لیتے ہیں لیکن اس روش پر عمل پیرا ہونا سب کے بس کی بات نہیں ہے

۱۱۰

دوسرے راستے کو اختیار کرنے والوں کا انجام تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا اور اسلام کی نگاہ میں بھی یہ ایک حرام عمل ہے.اس فعل کو فطری تقاضے کا نام دے کر صحیح قرار دینا ایک غلط فکر ہے

اب صرف تیسرا راستہ بچتا ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور یہی مناسب اور صحیح بھی ہے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا ہے اس مسئلے میں اختلاف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد پیدا ہوا ہے

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ وہ لوگ جو عقد متعہ سے خوف وہراس رکھتے ہیں انہیں اس بات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ تمام اسلامی مجتہدین اور محققین نے اس متعہ کو معنوی اعتبار سے نکاح دائم میں بھی اس طرح میں قبول کیا ہے کہ جب مرد اور عورت آپس میں عقد دائم تو کریں لیکن ان کی نیت یہ ہو کہ ایک سال کے بعد یا اس سے کمتر یا بیشتر مدت میں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے تو وہ طلاق کے ذریعہ جدا ہو سکتے ہیں

واضح ہے کہ اس قسم کی شادی ظاہری اعتبار سے تو دائمی ہے لیکن حقیقت میں معین وقت کے لئے ہے اور اس قسم کے دائمی نکاح اور عقد متعہ کے درمیان صرف یہ فرق ہے کہ عقد متعہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے معین وقت کے لئے ہوتا ہے جبکہ اس قسم کا دائمی نکاح ظاہری طور پر تو ہمیشہ کے لئے ہے لیکن باطنی طور پر ایک محدود وقت کے لئے انجام پایا ہے.

وہ لوگ جو اس قسم کے دائمی نکاح کو جائز سمجھتے ہیں جیسا کہ اس کو تمام مسلمان فقہاء جائز قرار دیتے ہیں تووہ عقد متعہ کو حلال سمجھنے میں کیوں خوف وہراس محسوس کرتے ہیں .یہاں تک ہم نے عقد متعہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کی اب ہم دلیلوں کی روشنی میں اس کے جواز کو ثابت کریں گے اس سلسلے میں ہم دو مرحلوں میں بحث کریں گے:

۱۔صدر اسلام میں عقد متعہ کا شرعا جائز ہونا.

۲۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اس حکم شرعی کا منسوخ نہ ہونا.

۱۱۱

عقد متعہ کا جواز اس آیۂ شریفہ سے ثابت ہوتا ہے :

(فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ اُجُورَهُنَّ فَرِیضَة )( ۱ )

پس جب بھی تم ان عورتوں سے متعہ کرو تو انکی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دو.

اس آیہ شریفہ کے الفاظ اچھی طرح اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ آیۂ کریمہ نکاح موقت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ :

اول :اس آیت میں استمتاع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے ظاہری معنی نکاح موقت ہیں .اور اگر اس سے مراد دائمی نکاح ہوتا تو اس کیلئے قرینہ لایا جاتا.

دوم:اس آیت میں کلمہ ''اجورھن'' (ان کی اجرت) ہے اور یہ اس بات کا گواہ ہے کہ اس آیت سے مراد عقد متعہ ہے کیونکہ نکاح دائم میں لفظ ''مہر'' اور لفظ ''صداق'' استعمال کئے جاتے ہیں

سوم: شیعہ اور سنی مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیۂ شریفہ عقد متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر درالمنثور میں ابن جریر اور سدی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ کے بارے میں ہے( ۲ )

اسی طرح ابوجعفر محمد بن جریرطبری اپنی تفسیر میں سدی اور مجاہد اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت نکاح موقت کے بارے میں ہے( ۳ )

____________________

(۱)سورہ نساء آیت:۲۴.

(۲)تفسیر درالمنثور جلد۲ ص۱۴۰ سورہ نساء کی ۲۴ویں آیت کے ذیل میں

(۳)جامع البیان فی تفسیر القرآن جزء ۵ ص۹.

۱۱۲

چہارم:صاحبان صحاح و مسانیداور احادیث کی کتابوں کے مولفین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے بعنوان مثال مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ اور سلمہ بن اکوع سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

خرج علینا مناد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال:ا ن رسول اللّه قد أذن لکم أن تستمتعوا یعنى متعة النسائ .( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منادی نے ہمارے پاس آکر کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں کو استمتاع کی اجازت دی ہے یعنی عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی ہے.عقد متعہ سے متعلق صحاح اور مسانید میں جو روایات آئی ہیں ان سب کو اس کتاب میں بیان نہیں کیا جاسکتا البتہ ان سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عالم اسلام کے تمام علماء اور مفسرین نے آغاز اسلام میں اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں عقد متعہ کے جائز ہونے کوتسلیم کیا ہے:( ۲ )

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۴ ص ۱۳۰ طبع مصر

(۲)نمونے کے طور پر ہم ان منابع میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

صحیح بخاری باب تمتع۲مسند احمد جلد۴ ص۴۳۶ اور جلد ۳ ص ۳۵۶

الموطا مالک جلد۲ ص ۳۰سنن بہیقی جلد۷ ص ۳۰۶

تفسیر طبری جلد ۵ ص ۹

نہایہ ابن اثیر جلد۳ ص ۲۴۹

تفسیر رازی جلد۳ ص ۲۰۱

تاریخ ابن خلکان جلد۱ ص ۳۵۹

احکام القرآن جصاص جلد ۲ ص ۱۷۸

محاضرات راغب جلد۲ ص ۹۴

الجامع الکبیر سیوطی جلد۸ ص ۲۹۳

فتح الباری ابن حجر جلد۹ ص ۱۴۱

۱۱۳

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس آیت کا حکم منسوخ ہوا ہے یا نہیں ؟شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں متعہ کے شرعا جائز ہونے کے بارے میں تردید کرے بحث اس بارے میں ہے کہ یہ حکم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں باقی تھا یا منسوخ ہوگیا تھا؟تاریخ اسلام اور روایات کے مطابق خلیفہ دوم کے زمانے تک مسلمان اس حکم الہی پر عمل کرتے تھے اور سب سے پہلے خلیفہ دوم نے چند مصلحتوں کی بنا پر اس حکم پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو روکا تھا مسلم بن حجاج اپنی کتاب صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ جب ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعة النساء اور متعہ حج کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا تو جابر ابن عبداللہ نے کہا :

''فعلنا هما مع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثم نهانا عنهما عمر فلم نعدلهما'' ( ۱ )

____________________

(۱)سنن بیہقی جلد۷ ص۲۰۶ اور صحیح مسلم جلد۱ ص۳۹۵

۱۱۴

ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ متعة النساء اور متعہ حج کو انجام دیتے تھے اور پھر عمر نے ہمیں ان دونوں کاموں سے روک دیا اس کے بعد سے ہم نے ان دونوں کو انجام نہیں دیا ہے.

جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور ابو داؤد اور ابن جریر سے اور ان سب نے ''حکم'' سے روایت کی ہے کہ جب حکم سے آیۂ متعہ کے بارے میں سوال کیاگیا کہ کیا یہ آیت منسوخ ہوئی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں منسوخ نہیں ہوئی ہے اور حضرت علی ـ نے فرمایا ہے:

''لولا أن عمر نهیٰ عن المتعة مازنیٰ لاّ شق'' ( ۱ )

اگر عمر نے متعہ سے منع نہ کیا ہوتا تو سوائے بدبخت کے کوئی زنا نہ کرتا.

نیز علی بن محمد قوشچی کہتے ہیں کہ عمربن خطاب نے منبر پر بیٹھ کر کہا :

''أیّها الناس ثلاث کنّ علی عهد رسول اللّه وأنا أنهیٰ عنهنّ و أحرمهن و أُعاقب علیهنّ وهمتعة النساء و متعة الحج و حَّ علیٰ خیر العمل''( ۲ )

اے لوگو! تین چیزیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں تھیں لیکن میں ان سے منع کرتا ہوں اور انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور جو کوئی بھی

____________________

(۱)تفسیر درالمنثور جلد۲ ص۱۴۰ سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)شرح تجرید قوشچی بحث امامت ص۴۸۴.

۱۱۵

انہیں انجام دے گا، میں اسے سزا دوں گا وہ تین چیزیں یہ ہیں :متعة النساء اور متعة الحج اورحی علی خیر العمل .

عقد متعة کے جائز ہونے کے بارے میں اس قدر روایات ہیں کہ ان کو ذکر کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے.زیادہ معلومات کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں( ۱ )

اب یہ مان لینا چاہیے کہ متعہ نکاح ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ نکاح کی دو قسمیں ہیں :دائمی اور موقت اور وہ عورت جس کے ساتھ نکاح موقت کیا جائے وہ اس مرد کی

____________________

(۱)مسند احمد جلد۳ ص۳۵۶

البیان والتبیین جاحظ جلد۲صفحہ ۲۲۳

احکام القرآن جصاص جلد۱ ص ۳۴۲

تفسیر قرطبی جلد۲ ص ۳۷۰

المبسوط سرخسی حنفی کتاب الحج باب القرآن

زادالمعاد ابن قیم جلد۱ ص۴۴۴

کنزالعمال جلد۸ ص۲۹۳

مسند ابی داؤد طیالسی ص۲۴۷

تاریخ طبری جلد۵ ص۳۲

المستبین طبری

تفسیر رازی جلد۳ص۲۰۰سے ۲۰۲ تک

تفسیر ابوحیان جلد۳ ص ۲۱۸

۱۱۶

زوجہ شمار ہوتی ہے اور وہ مرد بھی اس عورت کا شوہر کہلاتا ہے اس اعتبار سے فطری طور پر اس قسم کی شادی بھی نکاح سے متعلق آیتوں کے ذیل میں آئے گی مثال کے طور پر قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ ہو :

(وَالَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ اِلاَّ عَلَی اَزْوَاجِهِمْ وْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُهُم )( ۱ )

اور مومنین اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنیوالے ہیں علاوہ اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی کنیزوں کے.

اب تمام گزشتہ شرائط کے ساتھ جس عورت سے متعہ کیا جائے وہ '' ِلاَّ عَلَی َزْوَاجِہِم ْ''(سوائے اپنی بیویوں کے)کا ایک مصداق قرار پائے گی یعنی یہ عورت

اس مرد کی زوجہ کہلائے گی اور لفظ '' َزْوَاجِہِم ''اس کو بھی اپنے اندر شامل کرے گا.سورہ مومنون کی یہ آیت جنسی عمل کو فقط دو قسم کی عورتوں یعنی بیویوں اور کنیزوں کے ساتھ جائز قرار دیتی ہے اور وہ عورت جس سے متعہ کیا گیا ہو وہ پہلی قسم کی عورتوں (یعنی اپنی بیویوں) میں شامل ہے.

یہاں پر بعض لوگوں کا یہ کلام تعجب خیز ہے کہ سورہ مومنون کی یہ آیت سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کیلئے ناسخ ہے جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ناسخ آیت کو منسوخ ہونے والی آیت کے بعد نازل ہونا چاہیے اور یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے سورہ مومنون جسکی

____________________

(۱)سورہ مومنون آیت :۵اور ۶

۱۱۷

آیت کو ناسخ تصورکیا جارہاہے وہ مکی ہے (یعنی یہ سورہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے قبل مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے) اور سورہ نساء جس میں آیۂ متعہ ہے مدنی ہے (یعنی یہ سورہ مدینۂ منورہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے) اب سوال یہ ہے کہ مکی سورہ میں آنے والی آیت مدنی سورہ میں آنے والی آیت کیلئے کیسے ناسخ بن سکتی ہے؟

اسی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں آیہ متعہ کے منسوخ نہ ہونے کی ایک اور واضح دلیل وہ کثیر روایات ہیں جن کے مطابق یہ آیت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں منسوخ نہیں ہوئی تھی ایسی روایتوں میں سے ایک روایت تو وہی ہے جسے جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درالمنثور میں ذکر کیا ہے اور جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے( ۱ )

آخر میں ہم اس نکتے کا ذکر کردیں کہ وہ ائمہ معصومین ٪ جو حدیث ثقلین کے مطابق امت کے ہادی اور قرآن کے ہم پلہ ہیں انہوں نے عقد متعہ کے شرعاجائز ہونے اور اس کے منسوخ نہ کئے جانے کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے.( ۲ )

ساتھ ہی ساتھ اسلام چونکہ ہرزمانے میں انسانوں کی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا اس نے بھی چند ذکر شدہ شرائط کی رعایت کے ساتھ اس قسم کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ آج کی اس گمراہ کن دنیا میں جوانوں کو تباہی کے دلدل سے نجات دینے کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے متعہ۔

____________________

(۱) تفسیر درالمنثور جلد۲ ص ۱۴۰ اور ص ۱۴۱ سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)وسائل الشیعہ جلد۱۴ کتاب النکاح ابواب متعہ باب اول ص ۴۳۶.

۱۱۸

انیسواں سوال

شیعہ خاک پر کیوں سجدہ کرتے ہیں ؟

جواب:بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ خاک یا شہیدوں کی تربت پر سجدہ کرنا ان کی عبادت کرنے کے برابر ہے اوریہ ایک قسم کا شرک ہے اس سوال کے جواب میں اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ان دو جملوں ''السجود للّہ''و ''السجود علیٰ الأرض'' میں بڑا فرق ہے اور اس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا ان دو جملوں کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھ پایا ہے.

السجود للّہ کے معنی یہ ہیں کہ سجدہ خدا کے لئے ہوتا ہے اور السجود علیٰ الأرضیعنی سجدہ زمین پر ہوتا ہے.بہ الفاظ دیگر ہم زمین پر خدائے عظیم کا سجدہ بجا لاتے ہیں اصولی طور پر دنیا کے سارے مسلمان کسی نہ کسی چیز کے اوپر سجدہ کرتے ہیں جبکہ وہ خدا کا سجدہ کرتے ہیں مسجد الحرام میں بھی لوگ پتھروں پر سجدہ کرتے ہیں جبکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا کا سجدہ کررہے ہیں

اس بیان کے ساتھ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خاک یا پتوں یا کسی اور چیز پر سجدہ کرنا ان چیزوں کی عبادت نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ خدائے عظیم کے سامنے خود کو خاک سمجھتے ہوئے اس کے لئے سجدہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خاک شفا پر سجدہ کرنا خاک شفا کو سجدہ کرنا نہیں ہے.قرآن مجید فرماتا ہے:

۱۱۹

(وَلِلَّهِ یَسْجُدُ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْأرْض )( ۱ )

اللہ ہی کو زمین و آسمان میں رہنے والے سب سجدہ کرتے ہیں

نیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام فرماتے ہیں :

''جُعِلَتْ لى الأرض مسجدًا وطهورًا'' ( ۲ )

زمین میرے لئے جائے سجدہ اور پاک کرنے والی قرار دی گئی ہے.

لہذا ''خد اکے لئے سجدہ '' اور ''زمین یا خاک شفا پر سجدہ'' کے درمیان آپس میں پوری طرح سازگاری ہے کیونکہ خاک اور پتوں پر سجدہ کرنا خدائے عظیم کے سامنے انتہائی درجہ کے خضوع کی علامت ہے اس بارے میں شیعوں کے نظرئیے کی وضاحت کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم امام صادق ـ کے اس گہر بار ارشاد کو پیش کریں:

''عن هشام ابن الحکم قال قلت لأبى عبداللّه ـ اخبرنى عما یجوز السجود علیه و عما لایجوز

____________________

(۱)سورہ رعد آیت: ۱۵

(۲)صحیح بخاری کتاب الصلوة ص۹۱

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296