شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 79083
ڈاؤنلوڈ: 2853

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79083 / ڈاؤنلوڈ: 2853
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

اختیار کرنے والوں کی دوقسمیں ہیں :

پہلی قسم

وہ ایسے اصحاب ہیں جن کی قرآن مجید کی آیتیں مدح و ستائش کرتی ہیں اور انہیں شوکت اسلام کا بانی قرار دیتی ہیں یہاں پر ہم صحابہ کرام کے ایسے گروہ سے متعلق چند آیتوں کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے

(وَالسَّابِقُونَ الْاَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَالْاَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِىَ ﷲ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِى من تَحْتِهَا الْاَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا َبَدًا ذَٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ )( ۱ )

اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خدا سے راضی ہیں اورخدا نے ان کے لئے وہ باغات مہیا کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے.

____________________

(۱) سورہ توبہ آیت:۱۰۰

۱۰۱

۲۔درخت کے نیچے بیعت کرنے والے

(لَقَدْ رَضِىَ ﷲ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیبًا )( ۱ )

یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جوان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی.

۳۔مہاجرین

(لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِینَ الَّذِینَ ُخْرِجُوا مِنْ دِیارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ ﷲِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُونَ ﷲ وَرَسُولَهُا ُوْلٰئِکَ هُمْ الصَّادِقُونَ )( ۲ )

یہ مال ان مہاجر فقراء کے لئے بھی ہے جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کے اموال سے انہیں دور کردیا گیا اور وہ

صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خدا اور رسول کی مدد کرنے والے ہیں یہی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ہیں

____________________

(۱)سورہ فتح آیت:۱۸

(۲)سورہ حشر آیت:۸

۱۰۲

۴۔اصحابِ فتح

(مُحَمَّد رَسُولُ ﷲِ وَالَّذِینَ مَعَهُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ ﷲِ وَرِضْوَانًا سِیمَاهُمْ فِى وُجُوهِهِمْ مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ )( ۱ )

محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں تم ان کودیکھو گے کہ بارگاہ احدیت میں سرخم کئے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل وکرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں کثرت سجود کی وجہ سے ان کے چہروں پر سجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیں

____________________

(۱)سورہ فتح آیت:۲۹

۱۰۳

دوسری قسم

بزم رسالت میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جنہیں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت تو حاصل ہوئی

تھی مگر وہ یا تو منافق تھے یا پھر ان کے دل میں مرض تھا قرآن مجید نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایسے افراد کی حقیقت کو نمایاں کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ تاکید کی ہے کہ ان سے محتاط رہیں یہاں پر ہم اس سلسلے میں نازل ہونے والی آیتوں کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

۱۔معروف منافقین

اذَا جَائَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ اِنَّکَ لَرَسُولُ ﷲِ وَﷲ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُولُهُ وَﷲ یَشْهَدُاِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ )( ۱ )

اے پیغمبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں

۲۔غیر معروف منافقین

(وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنْ الْاَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ---- الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لاَتَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ )( ۲ )

____________________

(۱)سورہ منافقون آیت:۱

(۲)سورہ توبہ آیت: ۱۰۱

۱۰۴

اور تم لوگوں کے گرد، دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم لوگ ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں

۳۔دل کے کھوٹے

(وَاِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِى قُلُوبِهِمْ مَرَض مَا وَعَدَنَا ﷲ وَرَسُولُها ِلاَّ غُرُورًا )( ۱ )

اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور رسول نے ہم سے صرف دھوکا دینے والا وعدہ کیا ہے.

۴۔گناہ گار

(وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَی ﷲ اَنْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ اِنَّ ﷲ غَفُور رَحِیم )( ۲ )

اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کہ انہوں نے نیک اور بد اعمال مخلوط کردئیے ہیں عنقریب خدا

____________________

(۱)سورہ احزاب آیت :۱۲.

(۲)سورہ توبہ آیت : ۱۰۲.

۱۰۵

ان کی توبہ قبول کر لے گا وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.

قرآن مجید کی آیات کے علاوہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی بعض صحابہ کی مذمت میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ان میں سے ہم صرف دو روایتوں کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :

۱۔ابوحازم،سہل بن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا :

''أنا فرطکم علیٰ الحوض مَن ورد شرب و مَن شرب لم یظمأ أبداً و لیردنّ علّ أقوام أعرفهم و یعرفونن ثم یحال بین و بینهم.''

میں تم سب کو حوض کی طرف بھیجوں گا جو شخص بھی اس حوض تک پہنچے گا وہ اس میں سے ضرور پئے گا اور جو بھی اس سے پئے گا پھر وہ تاابد پیاس محسوس نہیں کرے گا پھر ایک گروہ میرے پاس آئے گا جسے میں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے اس کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے جدا کردیا جائے گا .''

۱۰۶

ابو حازم کا بیان ہے کہ جس وقت میں نے نعمان ابن ابی عیاش کے سامنے یہ حدیث پڑھی تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تم نے یہ حدیث سھل سے اسی طرح سنی ہے ؟ میں نے کہا ہاں اس وقت نعمان بن ابی عیاش نے کہا کہ ابوسعید خدری نے بھی اس حدیث کو ان کلمات کے اضافے کے ساتھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

''اِنهم من فیقال: نک لاتدر ما أحدثوا بعدک فأقول سحقًا سحقًا لمن بدل بعد'' ( ۱ )

یہ افراد مجھ سے ہیں پس کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کام انجام دیئے ہیں ! پس میں کہوں گا ایسے لوگوں سے خدا کی رحمت دور ہوجائے جنہوں نے میرے بعد (احکام دین میں ) تبدیلی کی.

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث میں ان دو جملوں'' جنہیں میں اچھی طرح پہچانتا ہوں گا اور وہ سب بھی مجھے پہچانتے ہونگے ''اور ''میرے بعد تبدیلی کی'' سے صاف واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد آپکے وہ اصحاب ہیں جو کچھ مدت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ رہے ہیں (اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے بھی نقل کیاہے)

۲۔بخاری اور مسلم ،پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے:

''یرد علَّ یوم القیامة رهط من أصحاب أو قال من أمت فیحلون عن الحوض فأقول یاربى أصحابى فیقول اِنّه لاعلم لک بما أحدثوا بعدک أنهم ارتدوا علیٰ أدبارهم القهقری . ''( ۲ )

____________________

(۱)جامع الاصول (ابن اثیر) جلد۱ ۱ کتاب الحوض فی ورود الناس علیہ ص ۱۲۰ حدیث نمبر ۷۹۷۲.

(۲)جامع الاصول جلد ۱۱ ص ۱۲۰ حدیث ۷۹۷۳

۱۰۷

قیامت کے دن میرے اصحاب میں سے یا فرمایا میری امت میں سے ایک گروہ میرے پاس آئے گاپس ان کو حوض کوثر سے دور کردیا جائے گا اس وقت میں کہوں گا اے میرے پروردگار! یہ میرے اصحاب ہیں تو خدا فرمائے گا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیسے کیسے کام انجام دئیے ہیں بے شک یہ لوگ اپنی سابقہ حالت (زمانہ جاہلیت) پر لوٹ کر مرتد ہوگئے تھے.

نتیجہ:قرآنی آیات اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اصحاب اور وہ افراد جنہیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا ہے وہ سب ایک ہی درجہ کے نہیں تھے ان میں بعض ایسے بلند مقام افراد تھے جن کی خدمات نے اسلام کے پھیلانے میں انتہائی مؤثر کردار ادا کیا ہے لیکن بعض ایسے بھی تھے جو ابتداء ہی سے منافق، دل کے مریض اور گمراہ تھے.( ۱ )

اسی بیان کے ساتھ صحابۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں شیعوں کا نظریہ (جو درحقیقت قرآن اور سنت کا نظریہ ہے) واضح ہوجاتا ہے۔

____________________

(۱) اس بارے میں مزید وضاحت کے لئے سورہ منافقون ملاحظہ کریں.

۱۰۸

اٹھارہواں سوال

متعہ کیا ہے اور شیعہ اسے کیوں حلال سمجھتے ہیں ؟

جواب:نکاح، مرد اور عورت کے درمیان ایک ارتباط کا نام ہے بعض اوقات یہ ارتباط دائمی ہوتا ہے اور عقد پڑھتے وقت اس میں زمانے کی کوئی قید ذکر نہیں کی جاتی لیکن بسا اوقات یہی ارتباط ایک معین مدت کے لئے انجام پاتا ہے یہ دونوں ہی عقد شرعی نکاح کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے درمیان صرف ''دائمی'' اور ''موقت'' کا فرق ہوتا ہے لیکن یہ دونوں باقی خصوصیات میں مشترک ہیں اب ہم یہاں نکاح ''متعہ'' کی ان شرائط کا ذکر کریں گے جو نکاح ''دائم'' کی طرح معتبر ہیں :

۱۔مرد اور عورت کے درمیان آپس میں کوئی نسبی و سببی اور کوئی شرعی مانع نہ ہو ورنہ ان کا عقد باطل ہے

۲۔ طرفین کی رضامندی سے معین کئے جانے والے مہرکا تذکرہ عقد میں ہونا چاہئے

۳۔نکاح کی مدت معین ہونی چاہئے.

۴۔شرعی طریقے سے عقد پڑھا جانا چاہئے.

۵۔ان دونوں سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ شرعی طور پر ان دونوں کی شمار ہوگی اور جس طرح نکاح دائم سے پیدا ہونے والی اولاد کانام شناختی کارڈ وغیرہ میں درج ہوتا ہے اسی طرح عقد متعہ سے پیدا ہونے والی اولاد کا نام بھی شناختی کارڈ میں شامل کیا جاتا ہے.

۶۔اس اولاد کا نان ونفقہ والد کے ذمے ہے اور یہ اولاد ماں اور باپ دونوں سے میراث پائے گی.

۱۰۹

۷۔جس وقت عقد متعہ کی مدت ختم ہوجائے تو اگر عورت یائسہ نہ ہو تو وہ شرعی طور پر عدہ گزارے گی اور اگراثنائے عدت میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے تو وضع حمل سے پہلے کسی بھی قسم کا عقد نہیں کرسکتی. اسی طرح نکاح دائم کے باقی احکام بھی متعہ میں جاری ہوں گے ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ چونکہ عقد متعہ چند ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے حلال کیا گیا ہے لہذا اس عورت کا نان ونفقہ مرد کے ذمے نہیں ہے اور اگر عقد متعہ پڑھتے وقت عورت کی طرف سے میراث لینے کی شرط نہ لگائی جائی تو یہ عورت شوہر کی میراث نہیں پائے گی واضح ہے کہ ان دو فرقوں سے نکاح کی حقیقت میں کوئی اثر نہیں پڑتا۔

ہم سب اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام ایک دائمی شریعت اور آخری شریعت ہے لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ انسانوں کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اب یہاں پر اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ایک ایسا جوان شخص جو کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی دوسرے شہر یا ملک میں زندگی بسر کررہا ہو اور محدود وسائل کی وجہ سے دائمی عقد نہ کرسکتا ہو اسکے سامنے صرف تین راستے ہیں اور ان میں سے وہ کسی ایک کا انتخاب کرے گا۔

الف:کنوارہ ہی رہے.

ب:گناہ اور آلودگی کی دلدل میں دھنس جائے.

ج:گذشتہ شرائط کے ساتھ ایک ایسی عورت کے ساتھ ایک محدود اور معین مدت کے لئے شادی کر لے جس سے شرعا عقد جائز ہو پہلی صورت کے بارے میں یہ کہنا چاہئے اس میں اکثر افراد شکست کھاجاتے ہیں اگرچہ بعض ایسے انگشت شمار اشخاص ضرور مل جائیں گے جو اپنی خواہشات کو دبا کر صبر کا دامن تھام لیتے ہیں لیکن اس روش پر عمل پیرا ہونا سب کے بس کی بات نہیں ہے

۱۱۰

دوسرے راستے کو اختیار کرنے والوں کا انجام تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا اور اسلام کی نگاہ میں بھی یہ ایک حرام عمل ہے.اس فعل کو فطری تقاضے کا نام دے کر صحیح قرار دینا ایک غلط فکر ہے

اب صرف تیسرا راستہ بچتا ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور یہی مناسب اور صحیح بھی ہے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا ہے اس مسئلے میں اختلاف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد پیدا ہوا ہے

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ وہ لوگ جو عقد متعہ سے خوف وہراس رکھتے ہیں انہیں اس بات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ تمام اسلامی مجتہدین اور محققین نے اس متعہ کو معنوی اعتبار سے نکاح دائم میں بھی اس طرح میں قبول کیا ہے کہ جب مرد اور عورت آپس میں عقد دائم تو کریں لیکن ان کی نیت یہ ہو کہ ایک سال کے بعد یا اس سے کمتر یا بیشتر مدت میں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے تو وہ طلاق کے ذریعہ جدا ہو سکتے ہیں

واضح ہے کہ اس قسم کی شادی ظاہری اعتبار سے تو دائمی ہے لیکن حقیقت میں معین وقت کے لئے ہے اور اس قسم کے دائمی نکاح اور عقد متعہ کے درمیان صرف یہ فرق ہے کہ عقد متعہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے معین وقت کے لئے ہوتا ہے جبکہ اس قسم کا دائمی نکاح ظاہری طور پر تو ہمیشہ کے لئے ہے لیکن باطنی طور پر ایک محدود وقت کے لئے انجام پایا ہے.

وہ لوگ جو اس قسم کے دائمی نکاح کو جائز سمجھتے ہیں جیسا کہ اس کو تمام مسلمان فقہاء جائز قرار دیتے ہیں تووہ عقد متعہ کو حلال سمجھنے میں کیوں خوف وہراس محسوس کرتے ہیں .یہاں تک ہم نے عقد متعہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کی اب ہم دلیلوں کی روشنی میں اس کے جواز کو ثابت کریں گے اس سلسلے میں ہم دو مرحلوں میں بحث کریں گے:

۱۔صدر اسلام میں عقد متعہ کا شرعا جائز ہونا.

۲۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اس حکم شرعی کا منسوخ نہ ہونا.

۱۱۱

عقد متعہ کا جواز اس آیۂ شریفہ سے ثابت ہوتا ہے :

(فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ اُجُورَهُنَّ فَرِیضَة )( ۱ )

پس جب بھی تم ان عورتوں سے متعہ کرو تو انکی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دو.

اس آیہ شریفہ کے الفاظ اچھی طرح اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ آیۂ کریمہ نکاح موقت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ :

اول :اس آیت میں استمتاع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے ظاہری معنی نکاح موقت ہیں .اور اگر اس سے مراد دائمی نکاح ہوتا تو اس کیلئے قرینہ لایا جاتا.

دوم:اس آیت میں کلمہ ''اجورھن'' (ان کی اجرت) ہے اور یہ اس بات کا گواہ ہے کہ اس آیت سے مراد عقد متعہ ہے کیونکہ نکاح دائم میں لفظ ''مہر'' اور لفظ ''صداق'' استعمال کئے جاتے ہیں

سوم: شیعہ اور سنی مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیۂ شریفہ عقد متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر درالمنثور میں ابن جریر اور سدی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ کے بارے میں ہے( ۲ )

اسی طرح ابوجعفر محمد بن جریرطبری اپنی تفسیر میں سدی اور مجاہد اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت نکاح موقت کے بارے میں ہے( ۳ )

____________________

(۱)سورہ نساء آیت:۲۴.

(۲)تفسیر درالمنثور جلد۲ ص۱۴۰ سورہ نساء کی ۲۴ویں آیت کے ذیل میں

(۳)جامع البیان فی تفسیر القرآن جزء ۵ ص۹.

۱۱۲

چہارم:صاحبان صحاح و مسانیداور احادیث کی کتابوں کے مولفین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے بعنوان مثال مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ اور سلمہ بن اکوع سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

خرج علینا مناد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال:ا ن رسول اللّه قد أذن لکم أن تستمتعوا یعنى متعة النسائ .( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منادی نے ہمارے پاس آکر کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں کو استمتاع کی اجازت دی ہے یعنی عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی ہے.عقد متعہ سے متعلق صحاح اور مسانید میں جو روایات آئی ہیں ان سب کو اس کتاب میں بیان نہیں کیا جاسکتا البتہ ان سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عالم اسلام کے تمام علماء اور مفسرین نے آغاز اسلام میں اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں عقد متعہ کے جائز ہونے کوتسلیم کیا ہے:( ۲ )

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۴ ص ۱۳۰ طبع مصر

(۲)نمونے کے طور پر ہم ان منابع میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

صحیح بخاری باب تمتع۲مسند احمد جلد۴ ص۴۳۶ اور جلد ۳ ص ۳۵۶

الموطا مالک جلد۲ ص ۳۰سنن بہیقی جلد۷ ص ۳۰۶

تفسیر طبری جلد ۵ ص ۹

نہایہ ابن اثیر جلد۳ ص ۲۴۹

تفسیر رازی جلد۳ ص ۲۰۱

تاریخ ابن خلکان جلد۱ ص ۳۵۹

احکام القرآن جصاص جلد ۲ ص ۱۷۸

محاضرات راغب جلد۲ ص ۹۴

الجامع الکبیر سیوطی جلد۸ ص ۲۹۳

فتح الباری ابن حجر جلد۹ ص ۱۴۱

۱۱۳

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس آیت کا حکم منسوخ ہوا ہے یا نہیں ؟شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں متعہ کے شرعا جائز ہونے کے بارے میں تردید کرے بحث اس بارے میں ہے کہ یہ حکم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں باقی تھا یا منسوخ ہوگیا تھا؟تاریخ اسلام اور روایات کے مطابق خلیفہ دوم کے زمانے تک مسلمان اس حکم الہی پر عمل کرتے تھے اور سب سے پہلے خلیفہ دوم نے چند مصلحتوں کی بنا پر اس حکم پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو روکا تھا مسلم بن حجاج اپنی کتاب صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ جب ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعة النساء اور متعہ حج کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا تو جابر ابن عبداللہ نے کہا :

''فعلنا هما مع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثم نهانا عنهما عمر فلم نعدلهما'' ( ۱ )

____________________

(۱)سنن بیہقی جلد۷ ص۲۰۶ اور صحیح مسلم جلد۱ ص۳۹۵

۱۱۴

ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ متعة النساء اور متعہ حج کو انجام دیتے تھے اور پھر عمر نے ہمیں ان دونوں کاموں سے روک دیا اس کے بعد سے ہم نے ان دونوں کو انجام نہیں دیا ہے.

جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور ابو داؤد اور ابن جریر سے اور ان سب نے ''حکم'' سے روایت کی ہے کہ جب حکم سے آیۂ متعہ کے بارے میں سوال کیاگیا کہ کیا یہ آیت منسوخ ہوئی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں منسوخ نہیں ہوئی ہے اور حضرت علی ـ نے فرمایا ہے:

''لولا أن عمر نهیٰ عن المتعة مازنیٰ لاّ شق'' ( ۱ )

اگر عمر نے متعہ سے منع نہ کیا ہوتا تو سوائے بدبخت کے کوئی زنا نہ کرتا.

نیز علی بن محمد قوشچی کہتے ہیں کہ عمربن خطاب نے منبر پر بیٹھ کر کہا :

''أیّها الناس ثلاث کنّ علی عهد رسول اللّه وأنا أنهیٰ عنهنّ و أحرمهن و أُعاقب علیهنّ وهمتعة النساء و متعة الحج و حَّ علیٰ خیر العمل''( ۲ )

اے لوگو! تین چیزیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں تھیں لیکن میں ان سے منع کرتا ہوں اور انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور جو کوئی بھی

____________________

(۱)تفسیر درالمنثور جلد۲ ص۱۴۰ سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)شرح تجرید قوشچی بحث امامت ص۴۸۴.

۱۱۵

انہیں انجام دے گا، میں اسے سزا دوں گا وہ تین چیزیں یہ ہیں :متعة النساء اور متعة الحج اورحی علی خیر العمل .

عقد متعة کے جائز ہونے کے بارے میں اس قدر روایات ہیں کہ ان کو ذکر کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے.زیادہ معلومات کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں( ۱ )

اب یہ مان لینا چاہیے کہ متعہ نکاح ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ نکاح کی دو قسمیں ہیں :دائمی اور موقت اور وہ عورت جس کے ساتھ نکاح موقت کیا جائے وہ اس مرد کی

____________________

(۱)مسند احمد جلد۳ ص۳۵۶

البیان والتبیین جاحظ جلد۲صفحہ ۲۲۳

احکام القرآن جصاص جلد۱ ص ۳۴۲

تفسیر قرطبی جلد۲ ص ۳۷۰

المبسوط سرخسی حنفی کتاب الحج باب القرآن

زادالمعاد ابن قیم جلد۱ ص۴۴۴

کنزالعمال جلد۸ ص۲۹۳

مسند ابی داؤد طیالسی ص۲۴۷

تاریخ طبری جلد۵ ص۳۲

المستبین طبری

تفسیر رازی جلد۳ص۲۰۰سے ۲۰۲ تک

تفسیر ابوحیان جلد۳ ص ۲۱۸

۱۱۶

زوجہ شمار ہوتی ہے اور وہ مرد بھی اس عورت کا شوہر کہلاتا ہے اس اعتبار سے فطری طور پر اس قسم کی شادی بھی نکاح سے متعلق آیتوں کے ذیل میں آئے گی مثال کے طور پر قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ ہو :

(وَالَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ اِلاَّ عَلَی اَزْوَاجِهِمْ وْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُهُم )( ۱ )

اور مومنین اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنیوالے ہیں علاوہ اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی کنیزوں کے.

اب تمام گزشتہ شرائط کے ساتھ جس عورت سے متعہ کیا جائے وہ '' ِلاَّ عَلَی َزْوَاجِہِم ْ''(سوائے اپنی بیویوں کے)کا ایک مصداق قرار پائے گی یعنی یہ عورت

اس مرد کی زوجہ کہلائے گی اور لفظ '' َزْوَاجِہِم ''اس کو بھی اپنے اندر شامل کرے گا.سورہ مومنون کی یہ آیت جنسی عمل کو فقط دو قسم کی عورتوں یعنی بیویوں اور کنیزوں کے ساتھ جائز قرار دیتی ہے اور وہ عورت جس سے متعہ کیا گیا ہو وہ پہلی قسم کی عورتوں (یعنی اپنی بیویوں) میں شامل ہے.

یہاں پر بعض لوگوں کا یہ کلام تعجب خیز ہے کہ سورہ مومنون کی یہ آیت سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کیلئے ناسخ ہے جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ناسخ آیت کو منسوخ ہونے والی آیت کے بعد نازل ہونا چاہیے اور یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے سورہ مومنون جسکی

____________________

(۱)سورہ مومنون آیت :۵اور ۶

۱۱۷

آیت کو ناسخ تصورکیا جارہاہے وہ مکی ہے (یعنی یہ سورہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے قبل مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے) اور سورہ نساء جس میں آیۂ متعہ ہے مدنی ہے (یعنی یہ سورہ مدینۂ منورہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے) اب سوال یہ ہے کہ مکی سورہ میں آنے والی آیت مدنی سورہ میں آنے والی آیت کیلئے کیسے ناسخ بن سکتی ہے؟

اسی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں آیہ متعہ کے منسوخ نہ ہونے کی ایک اور واضح دلیل وہ کثیر روایات ہیں جن کے مطابق یہ آیت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں منسوخ نہیں ہوئی تھی ایسی روایتوں میں سے ایک روایت تو وہی ہے جسے جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درالمنثور میں ذکر کیا ہے اور جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے( ۱ )

آخر میں ہم اس نکتے کا ذکر کردیں کہ وہ ائمہ معصومین ٪ جو حدیث ثقلین کے مطابق امت کے ہادی اور قرآن کے ہم پلہ ہیں انہوں نے عقد متعہ کے شرعاجائز ہونے اور اس کے منسوخ نہ کئے جانے کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے.( ۲ )

ساتھ ہی ساتھ اسلام چونکہ ہرزمانے میں انسانوں کی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا اس نے بھی چند ذکر شدہ شرائط کی رعایت کے ساتھ اس قسم کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ آج کی اس گمراہ کن دنیا میں جوانوں کو تباہی کے دلدل سے نجات دینے کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے متعہ۔

____________________

(۱) تفسیر درالمنثور جلد۲ ص ۱۴۰ اور ص ۱۴۱ سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)وسائل الشیعہ جلد۱۴ کتاب النکاح ابواب متعہ باب اول ص ۴۳۶.

۱۱۸

انیسواں سوال

شیعہ خاک پر کیوں سجدہ کرتے ہیں ؟

جواب:بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ خاک یا شہیدوں کی تربت پر سجدہ کرنا ان کی عبادت کرنے کے برابر ہے اوریہ ایک قسم کا شرک ہے اس سوال کے جواب میں اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ان دو جملوں ''السجود للّہ''و ''السجود علیٰ الأرض'' میں بڑا فرق ہے اور اس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا ان دو جملوں کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھ پایا ہے.

السجود للّہ کے معنی یہ ہیں کہ سجدہ خدا کے لئے ہوتا ہے اور السجود علیٰ الأرضیعنی سجدہ زمین پر ہوتا ہے.بہ الفاظ دیگر ہم زمین پر خدائے عظیم کا سجدہ بجا لاتے ہیں اصولی طور پر دنیا کے سارے مسلمان کسی نہ کسی چیز کے اوپر سجدہ کرتے ہیں جبکہ وہ خدا کا سجدہ کرتے ہیں مسجد الحرام میں بھی لوگ پتھروں پر سجدہ کرتے ہیں جبکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا کا سجدہ کررہے ہیں

اس بیان کے ساتھ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خاک یا پتوں یا کسی اور چیز پر سجدہ کرنا ان چیزوں کی عبادت نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ خدائے عظیم کے سامنے خود کو خاک سمجھتے ہوئے اس کے لئے سجدہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خاک شفا پر سجدہ کرنا خاک شفا کو سجدہ کرنا نہیں ہے.قرآن مجید فرماتا ہے:

۱۱۹

(وَلِلَّهِ یَسْجُدُ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْأرْض )( ۱ )

اللہ ہی کو زمین و آسمان میں رہنے والے سب سجدہ کرتے ہیں

نیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام فرماتے ہیں :

''جُعِلَتْ لى الأرض مسجدًا وطهورًا'' ( ۲ )

زمین میرے لئے جائے سجدہ اور پاک کرنے والی قرار دی گئی ہے.

لہذا ''خد اکے لئے سجدہ '' اور ''زمین یا خاک شفا پر سجدہ'' کے درمیان آپس میں پوری طرح سازگاری ہے کیونکہ خاک اور پتوں پر سجدہ کرنا خدائے عظیم کے سامنے انتہائی درجہ کے خضوع کی علامت ہے اس بارے میں شیعوں کے نظرئیے کی وضاحت کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم امام صادق ـ کے اس گہر بار ارشاد کو پیش کریں:

''عن هشام ابن الحکم قال قلت لأبى عبداللّه ـ اخبرنى عما یجوز السجود علیه و عما لایجوز

____________________

(۱)سورہ رعد آیت: ۱۵

(۲)صحیح بخاری کتاب الصلوة ص۹۱

۱۲۰