شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 79070
ڈاؤنلوڈ: 2853

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79070 / ڈاؤنلوڈ: 2853
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

علیه؟ قال : السجود لایجوز لاّعلی الأرض أو ما أنبتت لاّرض الا ماأکل أو لبس فقلت له:جعلت فداک ماالعلّة ف ذلک؟ قال: لأن السجود هو الخضوع للّه عزّوجلّ فلا ینبغ أن یکون علیٰ ما یؤکل و یلبس لأن أبناء الدنیا عبید ما یأکلون و یلبسون والساجد ف سجوده ف عبادة اللّه عزّوجلّ فلا ینبغ أن یضع جبهته ف سجوده علیٰ معبود أبناء الدنیا الذین اغتروا بغرورها والسجود علیٰ الأرض أفضل لأنه أبلغ ف التواضع والخضوع للّه عزّوجلّ'' ( ۱ )

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق ـ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ رہنمائی فرمائیں کہ کن چیزوں پرسجدہ کرنا صحیح ہے اور کن چیزوں پر صحیح نہیں ہے؟ امام ـ نے فرمایا سجدہ صرف زمین اور اس سے اگنے والی اشیاء پر ہوسکتا ہے لیکن کھانے اور پہننے والی اشیاء پر سجدہ نہیں کیا جاسکتا میں نے عرض کی : میں آپ پرقربان ہوجاؤں اس کا کیا سبب ہے؟ امام نے فرمایا: سجدہ خداوند عزوجل کے لئے خضوع کا نام ہے پس یہ صحیح نہیں ہے کہ

____________________

(۱)بحارالانوار جلد ۸۵ ص۱۴۷ ''علل الشرائع'' سے نقل کرتے ہوئے.

۱۲۱

کھانے اور پہننے والی چیزوں پر سجدہ کیا جائے کیونکہ دنیا پرست افراد خوراک اور لباس کے بندے ہیں جبکہ انسان سجدے کی حالت میں اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے.پس یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنی پیشانی اس چیز پر رکھے جس کو دنیا پرست اپنا معبود سمجھتے ہیں اور وہ دنیا کے دھوکہ میں آگئے ہیں اور زمین پر سجدہ کرنا افضل ہے کیونکہ اس سے خدا کی بارگاہ میں زیادہ خضوع کا اظہار ہوتا ہے

امام کا یہ کلام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ خاک پر سجدہ اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ یہ کام خدا کی بارگاہ میں تواضع کو ظاہر کرنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے.

یہاں پرایک اور سوال بھی سامنے آتا ہے کہ شیعہ صرف خاک اور بعض پتوں ہی پر کیوں سجدہ کرتے ہیں اور باقی چیزوں پرسجدہ کیوں نہیں کرتے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح یہ ضروری ہے کہ ہر عبادت کا حکم شریعت کی طرف سے ہم تک پہنچے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے تمام شرائط ، اجزاء ، اور اس کا طریقہ بھی شریعت کو بیان کرنے والی شخصیت یعنی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال اور کردار کے ذریعے ہم تک پہنچے کیونکہ قرآن کے حکم کے مطابق تمام مسلمانوں کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل فقط پیغمبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے

۱۲۲

اب ہم چند ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں جو اس بارے میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو بیان کرتی ہیں یہ حدیثیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاک پر اور زمین سے اگنے والی بعض چیزوں جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ فرماتے تھے اور آج شیعہ بھی اسی چیز کا عقیدہ رکھتے ہیں بہت سے مسلمان محدثین نے اپنی صحاح ومسانید میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زمین کو اپنے لئے سجدہ کے عنوان سے پہچنوایا تھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

''جعلت لى الأرض مسجدًا و طهورًا'' ( ۱ )

زمین میرے لئے جائے سجدہ اور پاک کرنے والی قرار دی گئی ہے.

۱)اس حدیث میں لفظ ''جعلت ''قانون گزاری کے معنی میں ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ دین اسلام کی پیروی کرنے والوں کے لئے ایک حکم الہی ہے اس حدیث سے خاک، پتھر اور ہر اس چیز پر سجدے کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے کہ جس کو زمین کہا جاسکے.

۲)بعض دوسری روایات اس نکتے پردلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانیوں کو خاک پر رکھا کریں جیسا کہ

____________________

(۱)سنن بیہقی جلد۱ ص ۲۱۲(باب التیمم بالصعید الطیب)صحیح بخاری جلد۱ کتاب الصلوة ص۹۱ اقتضائ

الصراط المستقیم (ابن تیمیہ) ص ۳۳۲.

۱۲۳

زوجہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ام سلمہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''ترِّب وجهک للّه'' ( ۱ )

اللہ کے لئے اپنے چہرے کو خاک پر رکھو.

اس حدیث میں ''ترب'' کے لفظ سے دو نکتے سمجھ میں آتے ہیں ایک یہ ہے کہ انسان کو سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی کو خاک پر رکھنا چاہیے دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ''ترب'' صیغہ امر ہے لہذا خاک پر سجدہ کرنا واجب ہے.

۳)خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمل بھی خاک پر سجدے کے صحیح ہونے کا بہترین گواہ ہے وائل بن حجر کہتے ہیں :

''رأیت النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِذا سجد وضع جبهته و أنفه علیٰ الأرض'' ( ۲ )

میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے کہ جب آپ سجدہ کرتے تھے تو اپنی پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھتے تھے.

انس بن مالک اور ابن عباس اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج جیسے عائشہ اور ام سلمہ اور بہت سے محدثین نے اس طرح روایت کی ہے:

''کان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یصل علیٰ الخمرة'' ( ۳ )

____________________

(۱)کنزالعمال جلد۷ ص ۴۶۵ حدیث نمبر ۱۹۸۰۹ کتاب الصلوة السجود و مایتعلق بہ.

(۲) احکام القرآن (جصاص حنفی جلد۳ ص۲۰۹ باب السجود علی الوجہ)

(۳)سنن بیہقی جلد۲ ص۴۲۱ کتاب الصلوة علی الخمرہ.

۱۲۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے تھے (ایسی چٹائی جوکہ کھجور کی پتیوں سے تیار کی جاتی تھی)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ابوسعید کہتے ہیں کہ:

''دخلت علیٰ رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وهو یصل علیٰ حصیر'' ( ۱ )

میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہواتو اس وقت آپ چٹائی پر نماز پڑھ رہے تھے

یہ بات شیعوں کے نظرئیے کے صحیح ہونے کی گواہی دیتی ہے کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ زمین سے اگنے والی ان اشیاء پر سجدہ صحیح ہے جو نہ تو کھائی جاتی ہوں اور نہ ہی پہنی جاتی ہوں.

۴)پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اور تابعین کی سیرت اور ان کے اقوال بھی اس بارے میں آنحضرت کی سنت کو بیان کرتے ہیں :جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں :

''کنت أصل الظهر مع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فأخذ قبضة من الحصاء لتبرد ف کف أضعها لجبهت أسجد علیها لشدة الحرّ'' ( ۲ )

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ

(۲) سنن بیہقی جلد۱ ص۴۳۹کتاب الصلوة باب ماروی فی التعجیل بھا فی شدة الحر.

۱۲۵

جب میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نماز ظہر پڑھتا تھا تو اپنی مٹھی میں سنگ ریزے اٹھا لیتا تھا تاکہ وہ میرے ہاتھ میں ٹھنڈے ہو جائیں اور انہیں سجدہ کے وقت اپنی پیشانی کے نیچے رکھ سکوں کیونکہ گرمی بہت شدید تھی.

اور پھر خود راوی نے اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ اگر اپنے کپڑوں پر سجدہ کرنا جائز ہوتا تویہ سنگریزوں کے اٹھانے اور انہیں سنبھالنے سے آسان تھا

ابن سعد (وفات ۲۰۹ ھ) اپنی کتاب ''الطبقات الکبری'' میں یوں لکھتے ہیں :

''کان مسروق اِذا خرج یخرج بلبنةٍ یسجد علیها فى السفینة'' ( ۱ )

مسروق ابن اجدع جس وقت سفر کے لئے نکلتے تھے تواپنے ساتھ ایک کچی اینٹ رکھ لیتے تھے تاکہ کشتی میں اس پر سجدہ کرسکیں

مسروق بن اجدع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تابعین اورابن مسعود کے اصحاب میں سے تھے،

کتاب ''الطبقات الکبری'' کے مؤلف ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں :

'' وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اہل کوفہ میں سے طبقہ اول کے لوگوں میں سے تھے اور انہوں نے ابوبکر ، عمر، عثمان، علی اور عبداللہ بن مسعود سے روایتیں نقل کی ہیں .''

اس کلام سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مٹی کی سجدہ گاہ کا ہمراہ رکھنا ہرگز شرک یا

____________________

(۱)''الطبقات الکبری''جلد ۶ ص۷۹ طبع بیروت مسروق بن اجدع کے حالات کو بیان کرتے ہوئے.

۱۲۶

بدعت نہیں ہے کیونکہ صحابۂ کرام بھی ایسا کرتے تھے( ۱ )

نافع کہتے ہیں :

'' ان ابن عمرکان اذا سجد و علیه العمامة یرفعها حتیٰ یضع جبهته بالأرض'' ( ۲ )

عبد اللہ بن عمر سجدہ کرتے وقت اپنے عمامے کو اوپر کرلیا کرتے تھے تاکہ اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ سکیں.

رزین کہتے ہیں :

''کتب اِلّى علّى بن عبداللّه بن عباس أن أبعث الَّى بلوح من أحجار المروة أسجد علیها ''( ۳ )

علی بن عبداللہ بن عباس نے مجھے لکھا کہ مروہ پہاڑ کے ایک پتھر کی تختی میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اس پر سجدہ کرسکوں.

۵)دوسری طرف سے مسلمان محدثین نے کچھ روایتیں نقل کی ہیں جن کے مطابق پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسے افراد کو ٹوکا ہے جو سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی اور زمین کے درمیان عمامے کے کپڑے کو حائل کرلیا کرتے تھے

____________________

(۱)اس سلسلے میں مزید شواہد کے لئے علامہ امینی کی کتاب ''سیرتنا'' کی طرف مراجعہ فرمائیں.

(۲)سنن بیہقی جلد۲ ص۱۰۵( مطبوعہ حیدرآباد دکن) کتاب الصلوة باب الکشف عن السجدة فی السجود

(۳)ازرقی ،اخبار مکہ جلد ۳ ص۱۵۱

۱۲۷

صالح سبائی کہتے ہیں :

''اِنّ رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رأی رجلاً یسجد علیٰ جنبه و قد اعتم علیٰ جبهته فحسر رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیٰ جبهته'' ( ۱ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے پاس ایک ایسے شخص کو سجدہ کرتے دیکھا جس نے اپنی پیشانی پر عمامہ باندھ رکھا تھا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے عمامے کو ہٹا دیا

عیاض بن عبداللہ قرشی کہتے ہیں :

''رأی رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رجلاً یسجد علیٰ کور عمامته فأوما ٔ بیده ارفع عمامتک وأومأ الیٰ جبهته'' ( ۲ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے عمامے کے ایک گوشے پر سجدہ کررہا تھا تو آپ نے اس کی طرف ہاتھ اٹھا کر پیشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اپنے عمامے کو اوپر اٹھاؤ.

ان روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں زمین پر

____________________

(۱)سنن بیہقی جلد۲ ص ۱۰۵

(۲)گذشتہ حوالہ.

۱۲۸

سجدہ کرنا ایک لازمی امر تھا اور جب بھی کوئی شخص عمامے پر سجدہ کرتا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اس کام سے روکتے تھے

۶)شیعوں کے ائمہ اطہار ٪ جوکہ حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن مجید سے کبھی جدا نہ ہوںگے اور دوسری طرف وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہیں انہوں نے زمین پر سجدہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے امام صادق ـ فرماتے ہیں :

''السجود علیٰ الأرض فریضة و علیٰ الخمرة سنة'' ( ۱ )

زمین پر سجدہ کرنا حکم الہی ہے اور چٹائی پرسجدہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے.

اور ایک مقام پر فرماتے ہیں :

''السجود لایجوز اِلاعلیٰ الأرض أو علیٰ ما أنبتت الأرض اِلا ما أکل أو لبس'' ( ۲ )

سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے سوائے زمین یا اس سے اگنے والی اشیاء پر لیکن کھائی اور پہننے والی اشیاء پر سجدہ نہیں ہوسکتا.

نتیجہ:گزشتہ دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف اہل بیت ٪ کی روایات بلکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اور تابعین کی سیرت اس

____________________

(۱)وسائل الشیعہ جلد۳ ص۵۹۳ کتاب الصلوة ابواب ما یسجد علیہ ،حدیث نمبر ۷.

(۲)وسائل الشیعہ جلد۳ ص۵۹۱ کتاب الصلوة ابواب ما یسجد علیہ ،حدیث نمبر ۱.

۱۲۹

بات کی گواہ ہیں کہ سجدہ صرف زمین یا اس سے اگنے والی اشیاء (سوائے کھانے اور پہنے جانے والی اشیاء کے) پر ہی کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ بقیہ دوسری چیزوں پر سجدے کے جائز ہونے کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے لہذا اس احتیاط پر عمل کرتے ہوئے نجات اور کامیابی کی راہ صرف یہ ہے کہ ان چیزوں پر سجدہ کیا جائے

جن پر سب کا اتفاق ہے آخر میں ہم اس نکتے کی یاد آوری ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ بحث صرف ایک فقہی مسئلہ ہے اور اس قسم کے جزئی مسائل کے بارے میں مسلمان فقہاء کے درمیان بہت اختلافات ہیں لیکن اس قسم کے اختلافات کوکسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بننا چاہیے کیونکہ اس قسم کے فقہی اختلافات اہل سنت کے چار فرقوں کے درمیان فراوان ہیں مثال کے طورپر مالکی کہتے ہیں کہ ناک کو سجدہ گاہ پر رکھنا مستحب ہے جب کہ حنبلی کہتے ہیں کہ یہ عمل واجب ہے اور اسے چھوڑنے کی صورت میں سجدہ باطل ہوجائے گا۔( ۱ )

____________________

(۱) الفقہ علی المذاہب الاربعة جلد۱ ص ۱۶۱ طبع مصر کتاب الصلوة ، بحث سجود.

۱۳۰

بیسواں سوال

شیعہ حضرات زیارت کرتے وقت حرم کے دروازوں اور دیواروں کو کیوں چومتے ہیں اور انہیں باعث برکت کیوں سمجھتے ہیں ؟

جواب:اولیائے الہی سے منسوب اشیاء کو اپنے لئے باعث برکت سمجھنا کوئی ایسا جدید مسئلہ نہیں ہے جو مسلمانوں کے درمیان آج پیدا ہوا ہو بلکہ اس کی بنیادیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے صحابہ کے زمانے میں دکھائی دیتی ہیں اس عمل کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب ہی نے انجام نہیں دیا ہے بلکہ گزشتہ انبیاء بھی ایسا ہی کرتے تھے اب ہم آپ کے سامنے اس عمل کے جائز ہونے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چنددلیلیں پیش کرتے ہیں :

۱۳۱

۱۔قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ جس وقت حضرت یوسفـ نے اپنے بھائیوں کے سامنے خود کو پہچنوایا اور ان کے گناہوں کو معاف کردیا تو یہ فرمایا:

(اِذْهَبُوا بِقَمِیصِى هَذَا فَاَلْقُوهُ عَلیٰ وَجْهِا َبِى یَاْتِ بَصِیرًا )( ۱ )

میری یہ قمیص لے کر جاؤ اورمیرے بابا کے چہرے پر ڈال دو کہ انکی بصارت پلٹ آئے گی.

اور پھرقرآن فرماتا ہے:

(فَلَمَّا َنْ جَائَ الْبَشِیرُ َلْقَاهُ عَلَیٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا )( ۲ )

اور اس کے بعد جب بشارت دینے والے نے آکر قمیص کو یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ دوبارہ صاحب بصارت ہوگئے

قرآن مجید کی یہ آیتیں گواہی دے رہی ہیں کہ ایک نبی (جناب یعقوبـ) نے دوسرے نبی (جناب یوسفـ) کی قمیص کو باعث برکت سمجھا تھا اور یہی نہیں بلکہ حضرت یعقوبـ کا یہ عمل ان کی بصارت کے لوٹنے کا سبب بنا تھا. کیا یہاں پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان دو انبیاء کے اس عمل نے انہیں توحید اور عبادت خدا کے دائرے سے خارج کردیا تھا!؟

۲۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت انہوں نے جواب دیا:

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت:۹۳

(۲)سورہ یوسف آیت:۹۶

۱۳۲

''رایت رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یستلمه و یقبله ''( ۱ )

میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے کہ وہ حجر اسود کو سلام کررہے تھے اور بوسے دے رہے تھے.

اگر ایک پتھر کو سلام کرنا اور بوسے دینا شرک ہوتا تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرگز اس عمل کو انجام نہ دیتے.

۳۔صحیح، مسنداور تاریخی کتابوںمیں بہت سی ایسی روایات ہیں جن کے مطابق صحابۂ کرام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منسوب اشیاء جیسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لباس، آپ کے وضو کا پانی اور برتن وغیرہ کو باعث برکت سمجھتے تھے اگر ان روایات کا مطالعہ کیا جائے تو اس عمل کے جائزہونے میں کسی بھی قسم کی تردید باقی نہیں رہے گی.

اگرچہ اس بارے میں وارد ہونے والی روایات کی تعداد زیادہ ہے اور سب کو اس مختصر کتاب میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی یہاں ہم ان میں سے بعض روایتوں کو نمونہ کے طور پر پیش کررہے ہیں :

الف: بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب کے خصوصیات کو بیان کرنے والی ایک طولانی روایت کے ضمن میں یوں نقل کیا ہے:

''واذا توضّأ کادوا یقتتلون علیٰ وضوئه'' ( ۲ )

____________________

(۱)صحیح بخاری جزئ۲ کتاب الحج باب تقبیل الحجر ص ۱۵۱ اور ص ۱۵۲ طبع مصر.

(۲)صحیح بخاری جلد۳ باب مایجوز من الشروط ف الاسلام باب الشروط ف الجہاد والمصالحة ص ۱۹۵

۱۳۳

جس وقت پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وضو کرتے تھے تو نزدیک ہوتا تھا کہ مسلمان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وضوکے پانی کو حاصل کرنے کے لئے آپس میں جنگ شروع کردیں.

ب:ابن حجر کہتے ہیں کہ:

''اِنّ النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کان یؤت بالصبیان فیبرک علیهم'' ( ۱ )

بے شک نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بچوں کو لایا جاتا تھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے وجود کی برکت سے انہیں بھی بابرکت بنا دیتے تھے.

ج:محمد طاہر مکی کہتے ہیں : ام ثابت سے روایت ہوئی ہے وہ کہتی ہیں : کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور آپ نے دیوار پر آویزاں ایک مشک کے دھانے سے کھڑے ہو کر پانی نوش فرمایا یہ دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اٹھی اور میں نے اس مشک کے دھانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا اور پھر اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : اسی حدیث کو ترمذی نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح اور حسن ہے اور کتاب ریاض الصالحین میں اس حدیث کی شرح میں کہا گیا ہے کہ ام ثابت نے مشک کے دھانے کو اس لئے کاٹ لیا تھا تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے پاس محفوظ کرلیں جہاں سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا کیونکہ وہ اسے باعث برکت سمجھتی تھیںاسی طرح صحابہ کی بھی یہی کوشش رہتی تھی کہ وہ اس جگہ سے پانی پئیں جہاں سے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پانی پیا ہو.( ۲ )

____________________

(۱)الاصابة جلد۱ خطبہ کتاب ص۷ طبع مصر

(۲)تبرک الصحابہ (محمد طاہر مکی) فصل اول ص۲۹ترجمہ انصاری.

۱۳۴

''کان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِذا صلیٰ الغداة جاء خدم المدینة بآنیتهم فیها الماء فما یُؤتی بانائٍ اِلا غمس یده فیها فربما جاؤوه فى الغداة الباردة فیغمس یده فیها ''( ۱ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نماز صبح سے فارغ ہوجاتے تو مدینہ کے خادم پانی کے برتن لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سب برتنوں میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے تھے بعض اوقات تو وہ لوگ ٹھنڈک والی صبح میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ جاتے تھے لیکن پھربھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے برتنوں میں ہاتھ ڈبو دیتے تھے.( ۲ )

گذشتہ دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اولیائے الہی سے منسوب اشیاء کو باعث برکت قرار دینا ایک جائز عمل ہے اور وہ لوگ جو شیعوں پر اس عمل کی وجہ سے تہمت لگاتے ہیں وہ توحید اور شرک کے معنی کو اچھی طرح سے سمجھ نہیں پائے ہیں کیونکہ شر ک کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی عبادت کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی خدا سمجھا جائے یا یہ عقیدہ ہو کہ خدائی امور اس کے سپرد کردئیے گئے ہیں اور وہ اپنے وجود اور

____________________

(۱)صحیح مسلم جزء ۷ کتاب الفضائل باب قرب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من الناس و تبرکھم بہ، ص۷۹.

(۲)مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں:

صحیح بخاری، کتاب اشربہ ،مؤطا مالک جلد۱ ص۱۳۸ باب صلوة علی النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اسدالغابة جلد۵ ص۹۰، مسند احمد جلد۴ ص ۳۲، الاستیعاب (الاصابة) کے حاشیے میں جلد۳ ص ۶۳۱، فتح الباری جلد۱ صفحہ ۲۸۱ اور ۲۸۲.

۱۳۵

تاثیر رکھنے میں خدا سے بے نیاز ہے.

جبکہ شیعہ اولیائے الہی اور ان سے متعلق اشیاء کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہیں اور وہ اپنے اماموں اور دین کے پرچمداروں کے احترام اور ان سے سچی محبت کے اظہار کے لئے ان بزرگوں کو باعث برکت قرار دے کر ان سے فیض حاصل کرتے ہیں

شیعوں کا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت ٪ کے حرم میں جاکر ان کی ضریح مقدس کو بوسہ دینا یا حرم کے در ودیوار کو مس کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے دل پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی عترت کے عشق سے سرشار ہیں اور یہ عشق ہر انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے اور یہ ایک انسانی محبت کاجذبہ ہے جو ہر محبتی انسان کے اندر ظاہر ہوتا ہے : اس بارے میں ایک شاعر کہتا ہے:

أمر علیٰ الدیار دیار سلمیٰ

اقبل ذاالجدار و ذالجدار ا

وما حُبّ الدیار شغفن قلب

ولکن حُبّ مَن سکن الدیارا

میں جب سلمیٰ کے دیار سے گزرتا ہوں تو اس دیوار اور اس دیوار کے بوسے لیتا ہوںاس دیار کی محبت نے میرے دل کولبھایا نہیں ہے بلکہ اس دیار کے ساکن کی محبت نے میرے قلب کو اسیر کرلیا ہے۔

۱۳۶

اکیسواں سوال

کیا اسلام کی نگاہ میں دین سیاست سے جدا نہیں ہے؟

جواب: اس سوال کے جواب سے قبل بہتر یہ ہے کہ پہلے سیاست کے معنی کو واضح کردیا جائے تاکہ دین اور سیاست کا رابطہ سمجھ میں آسکے یہاں سیاست کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں

۱۔سیاست کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کے وسیلے کو اختیار کیا جائے چاہے وہ وسیلہ دھوکہ اور فریب کاری ہی کیوں نہ ہو (یعنی مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی چیز کو وسیلہ بنایا جاسکتا ہے) واضح ہے کہ اس قسم کی سیاست دھوکے اور فریب سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اور ایسی سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے.

۲۔سیاست کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ اسلامی اصولوں کے مطابق انسانی معاشرے کے نظام کو چلایا جائے اس قسم کی سیاست کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے نظام کو قرآن اور سنت کی روشنی میں چلایا جائے ایسی سیاست دین کا حصہ ہے اور ہرگز اس سے جدا نہیں ہے.

۱۳۷

اب ہم یہاں پر سیاست اور دین کے درمیان رابطے اور حکومت کو تشکیل دینے سے متعلق چند دلیلیں پیش کریں گے : اس سلسلے میں واضح ترین گواہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمل ہے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال اور کردار کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دعوت اسلام کے آغاز ہی سے ایک ایسی مضبوط حکومت قائم کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس کی بنیاد خدا پر ایمان کے محکم عقیدہ پر استوار تھی اور جو اسلام کے مقاصد کو پورا کرسکتی تھی یہاں پر بہتر ہے کہ ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عزم و ارادہ کے سلسلے میں چند شواہد پیش کریں:

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی حکومت کے بانی ہیں

۱۔جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم ملا کہ لوگوں کو کھلم کھلا طریقے سے اسلام کی دعوت دیں تو اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف طریقوں سے جہاد و ہدایت کے زمینے کو ہموار کیا اور اسلامی سپاہیوں کی تربیت اور ان کی آمادگی کا بیڑا اٹھایا اس سلسلے میں آپ نزدیک اور دور سے زیارت کعبہ کے لئے آنے والے افراد سے ملاقات کرتے تھے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے اسی دوران آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینے کے دو گروہوں سے عقبہ کے مقام پر ملاقات کی اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ لوگ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے شہر میں بلائیںگے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کریں( ۱ ) اور اس طرح اسلامی حکومت قائم

____________________

(۱) سیرہ ہشام جلد۱ ص۴۳۱ مبحث عقبہ اولی طبع دوم مصر

۱۳۸

کرنے کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیاست کا آغاز ہوا

۲۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ایک ایسی مضبوط فوج تیار کی جس نے بیاسی جنگیں لڑیں اور ان جنگوں میں کامیابی حاصل کر کے اسلامی حکومت کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا.

۳۔مدینے میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس زمانے کی سیاسی اور اجتماعی بڑی طاقتوں کے پاس اپنے سفیراور خطوط بھیج کر ان سے رابطہ قائم کیا اور بہت سے قبیلوں کے سربراہوں سے اقتصادی ،سیاسی اور فوجی معاہدے کئے تاریخ نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان خطوط کی خصوصیات و تفصیلات کو بیان کیا ہے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایران کے شہنشاہ ''کسریٰ'' ، روم کے بادشاہ ''قیصر'' ، مصر کے بادشاہ ''مقوقس''، حبشہ کے بادشاہ ''نجاشی'' اور دوسرے بادشاہوں کو بھیجے تھے بعض محققین نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان خطوط کو اپنی مستقل کتابوں میں جمع کیا ہے( ۱ )

۴۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام کے مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اسلامی حکومت کے استحکام کے لئے بہت سے قبیلوں اور شہروں کے لئے حکام معین فرمائے تھے ہم یہاں اس سلسلے میں بطور مثال ایک نمونے کا ذکر کرتے ہیں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رفاعہ بن زید کو اپنا نمائندہ بنا کرانھیں ان کے اپنے قبیلے کی طرف روانہ کیا اور خط میں یوں تحریر فرمایا :

''بسم الله الرحمن الرحیم ، (هذا کتاب) من

____________________

(۱)جیسے کہ''الوثائق السیاسیہ'' (مؤلفہ محمد حمید اللہ) ''مکاتیب الرسول''(مؤلفہ علی احمدی) ہیں

۱۳۹

محمد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لرفاعة بن زید بعثته اِلیٰ قومه عامة و من دخل فیهم یدعوهم اِلیٰ اللّه والیٰ رسوله فمن اقبل منهم فف حزب اللّه و حزب رسوله و من أدبر فله أمان شهرین'' ( ۱ )

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت ہی رحم کرنے والا ہے محمد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے یہ نوشتہ رفاعہ بن زید کے نام، بے شک میں انہیں ان کی قوم کے عام لوگوں اور قوم میں شامل ہوجانے والوں کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ انہیں خدا اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیں پس جس نے ان کی دعوت کو قبول کیا وہ خدا اور اس کے رسول کے گروہ میں شامل ہو گیا.اور جو ان کی دعوت سے روگردانی کرے گا اس کے لئے صرف دو ماہ کی امان ہے.

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اقدامات سے بخوبی یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعثت کے آغاز ہی سے ایک ایسی مضبوط حکومت بنانا چاہتے تھے کہ جس کے سائے میں انسانی معاشرے کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق، اسلام کے احکام کونافذ کیا جاسکے، اب سوال یہ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مختلف گروہوں اور قدرتمند قبیلوں سے معاہدہ کرنا ،ایک

____________________

(۱) مکاتیب الرسول جلد ۱ ص ۱۴۴.

۱۴۰