شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95467 / ڈاؤنلوڈ: 4188
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

مضبوط فوج تیار کرنا، مختلف ممالک میں سفیر بھیجنا اور اس زمانے کے بادشاہوں کو خبردار کرنا، نیز ان سے خط و کتابت کرنا ساتھ ہی ساتھ شہروں کے گورنر اور حکام معین کرنا اور ایسے ہی دوسرے امور کا انجام دینا اگر سیاست نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کے علاوہ خلفائے راشدین کا کردار اور خاص طور پرحضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ـ کا طرز عمل بھی شیعوں اور اہل سنت دونوں فرقوں کیلئے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست دین سے جدانہیں ہے.دونوں اسلامی فرقوں کے علماء نے حکومت

قائم کرنے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مفصل دلیلیں بیان کی ہیں نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

ابوالحسن ماوردی نے اپنی کتاب ''احکام سلطانیہ'' میں یوں لکھا ہے:

''المامة موضوعة لخلافة النبّوة ف حراسة الدین و سیاسة الدنیا و عقدها لمن یقوم بها ف الأمة واجب بالجماع'' ( ۱ )

امامت کو نبوت کی جانشینی کے لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دین کی حفاظت کی جاسکے اور دنیا کی سیاست و حکومت کا کام بھی چل سکے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی حکومت قائم کرنااس شخص پر واجب ہوجاتا ہے جو اس کام کو انجام دے سکتا ہو۔

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۱

اہل سنت کے مشہور عالم ماوردی نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کی دلیلیں پیش کی ہیں :

۱۔ عقلی دلیل

۲۔ شرعی دلیل

عقلی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''لما فى طباع العقلاء من التسلیم لزعیم یمنعهم من التظالم و یفعل بینهم فى التنازع والتخاصم ولولا الولاة لکانوا فوضیٰ مهملین همجاً مضاعین'' ( ۱ )

کیونکہ یہ بات عقلاء کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی رہبر کی پیروی کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرنے سے روکے اور اختلاف اور جھگڑوں کی صورت میں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرے اور اگر ایسے حکام نہ ہوتے تولوگ پراگندہ اور پریشان ہوجاتے اور پھر کسی کام کے نہ رہ جاتے.

اور شرعی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''ولکن جاء الشرع بتفویض الأمور اِلی ولیه فى الدین قال اللّه عزّوجلّ (یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۲

اَطِیعُوا ﷲ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُوْلِى الْاَمْرِ مِنْکُم )ففرض علینا طاعة أولى الأمر فینا وهم الأئمة المأتمرون علینا'' ( ۱ )

لیکن شرعی دلیل میں یہ ہے کہ دین کے امور کو ولی کے سپرد کردیا گیا ہے خداوندکریم فرماتا ہے:ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں .پس خداوند نے ہم پرصاحبان امر کی اطاعت کو واجب کردیا ہے اور وہ ہمارے امام ہیں جو ہم پر حکومت کرتے ہیں

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضل بن شاذان سے ایک روایت نقل کی ہے جو ہمارے آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا ـ کی طرف منسوب ہے اس طولانی روایت میں امام ـ نے حکومت قائم کرنے کو ایک لازمی امر قرار دیا ہے ہم اس روایت کے چند جملے ذکر کرتے ہیں :

''انّا لا نجد فرقة من الفرق ولا ملة من الملل

بقوا و عاشوا اِلاّ بقیّم و رئیس، لما لابدّ لهم

منه من أمر الدین والدنیا، فلم یجزفحکمة

الحکیمأن یترک الخلق لما یعلم انه لابدّ لهم منه

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۳

والقوام لهم لاّ به فیقاتلون به عدوهم و یقسمون به فیئهم و یقیمون به جمعتهم و جماعتهم و یمنع ظالمهم من مظلومهم ''( ۱ )

ہمیں کوئی ایسی قوم یا ملت نہیں ملے گی جو اس دنیا میں باقی رہی ہواور اس نے زندگی گزاری ہو سوائے یہ کہ اس کے پاس ایک ایسا رہبر اور رئیس رہا ہو جس کے وہ لوگ دین اور دنیا کے امور میں محتاج رہے ہوں پس خداوند حکیم کی حکمت سے یہ بات دور ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز عطا نہ فرمائے جسکے وہ لوگ محتاج ہیں اور اسکے بغیر باقی نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے رہبر ہی کی ہمراہی میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے مال غنیمت کو تقسیم کرتے ہیں اور اس کی اقتداء میں نماز جمعہ اور بقیہ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور رہبر ہی ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا ہے.

اس سلسلے میں وارد ہونے والی ساری روایتوں کی تشریح کرنا اور تمام مسلمان فقہاء کے اقوال کا جائزہ لینا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے اس کام کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے۔اسلامی فقہ کا دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ شریعت کے بہت سے قوانین ایسے ہیں جو ایکمضبوط حکومت کے بغیر نافذ

____________________

(۱) علل الشرائع باب ۱۸۲ حدیث نمبر۹ ص ۲۵۳

۱۴۴

نہیں کئے جاسکتے ہیں

اسلام ہمیں جہاد اور دفاع کرنے ، ظالم سے انتقام لینے اور مظلوم کی حمایت کرنے، شرعی حدود اور تعزیرات جاری کرنے، امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دینے، ایک مالی نظام برقرار کرنے اور اسلامی معاشرے میں وحدت قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ اہداف ایک مضبوط نظام اور حکومت کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے کیونکہ شریعت کی حمایت اور اسلام سے دفاع کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی طاقتور فوج تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اور اسی طرح فرائض کی پابندی اور گناہوں سے دوری کے لئے حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا اور ظالموں سے مظلوموں کا حق لینا ایک حکومت اور نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر قوی حکومت نہ پائی جاتی ہو تو معاشرہ فتنہ اور آشوب کی آماجگاہ بن جائے گا اگرچہ حکومت قائم کرنے کے لازمی ہونے کے سلسلے میں ہماری ان دلیلوں کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں لیکن ان دلیلوں ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دین سیاست سے جدا نہیں ہے بلکہ شریعت کے قوانین کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرنا ایک لازمی امر ہے جو کہ اس دنیا میں پائے جانے والے ہر اسلامی معاشرہ کے لئے ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

۱۴۵

بائیسواں سوال

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟

جواب: تفسیر، تاریخ اور روایات کی کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف شیعہ ہی یہ نظریہ نہیں رکھتے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سارے مسلمان محققین چاہے وہ کسی بھی اسلامی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، اسی نظرئیے کو قبول کرتے ہیں

اب ہم قرآن مجید، احادیث اور مشہور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں اس مسئلے کے دلائل کو بیان کریں گے :

قرآن مجید کی ایک اصل یہ ہے کہ اس نے ایک انسان کی نسل سے پیدا ہونے والی اولاد کو اسی انسان کی اولاد قرار دیا ہے اس اعتبار سے ایک انسان کی بیٹی یا اس کے بیٹے سے پیدا ہونے والی اولاد قرآن مجید کی نگاہ میں اس انسان کی اولاد ہے.

قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس حقیقت کے متعلق بہت سے شواہد موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔مندرجہ ذیل آیت میں قرآن مجید نے حضر ت عیسیٰ ـ کو حضرت ابراہیم ـ کی اولاد میں شمار کیاہے جبکہ حضرت عیسیٰ ـ حضرت مریم کے بیٹے ہیں اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم ـ تک پہنچتا ہے:

(وَوَهَبْنَا لَهُا ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا هَدَیْنَا وَنُوحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِ الْمُحْسِنِینَ ٭ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی )( ۱ )

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب دیئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھرابراھیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ، اور ہارون قراردئیے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں اور (اسی طرح ابراہیم کی اولاد میں سے) زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ ہیں .مسلمان علماء اس آیۂ شریفہ کو اس بات پر شاہد قرار دیتے ہیں کہ امام حسن اور امام حسین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولاد اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں نمونے کے طور پر ہم

____________________

(۱)سورہ انعام آیت : ۸۴ اور ۸۵

۱۴۶

یہاںان علماء میں سے ایک عالم کے کلام کو پیش کرتے ہیں :

جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :

''أرسل الحجاج اِلی یحییٰ بن یعمر فقال: بلغنى أنک تزعم أن الحسن والحسین من ذریة النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تجده فى کتاب اللّه و قد قرأته من أوله اِلیٰ آخره فلم أجده قال : ألست تقرأ سورة الانعام (وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ) حتی بلغ یَحْیَیٰ وَعِیسَیٰ ؟ قال بلیٰ قال: ألیس عیسیٰ من ذریة اِبراهیم و لیس له أب؟ قال: صدقتَ'' ( ۱ )

حجاج نے یحییٰ بن یعمرکے پاس پیغام بھیجا اور ان سے یہ کہا :مجھے خبر ملی ہے کہ تم یہ گمان کرتے ہو کہ حسن اور حسین نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں کیا تم نے اس بات کو کتاب خدا سے حاصل کیا ہے جبکہ میں نے قرآن مجید کو اول سے آخرتک پڑھا ہے لیکن میں نے کوئی ایسی بات اس میں نہیں دیکھی ہے.

یحییٰ بن یعمر نے کہا کیا تم نے سورہ انعام نہیں پڑھا ہے جس میں یہ ہے''وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ '' یہاں تک کہ خدا فرماتا

____________________

(۱)تفسیر در المنثور جلد۳ ص۲۸ طبع بیروت سورہ انعام کی ۸۴ اور ۸۵ آیت کی تفسیر کے ذیل میں

۱۴۷

ہےو یَحْیَی وَعِیسَی ؟''حجاج نے کہا کیوں نہیں پڑھی ہے یحییٰ نے کہا کیا حضرت عیسیٰ ـ حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے نہ تھے جب کہ ان کا کوئی باپ نہ تھا (اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے) حجاج نے جواب میں کہا کہ تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو

مذکورہ آیت اور مفسرین کے اقوال سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ نہ صرف شیعہ بلکہ تمام مسلمان علماء امام حسن اور امام حسین کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت اور اولاد سمجھتے ہیں

۲۔ اس قول کے صحیح ہونے پر ایک بہت ہی واضح دلیل آیہ مباہلہ ہے اب ہم اس آیت کو مفسرین کے اقوال کے ساتھ پیش کرتے ہیں :

(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَاَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲِ عَلَی الْکَاذِبِین )( ۱ )

(اے پیغمبر)علم کے آجانے کے بعد جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے بیٹوں ، اپنی اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں

____________________

(۱) سورہ آل عمران آیت : ۶۱

۱۴۸

مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت ''مباہلہ'' کے نام سے مشہور ہے یہ آیت عیسائیوں کے سرداروں سے مناظرہ کرنے کے سلسلہ میں اس وقت نازل ہوئی جب وہ کٹ حجتی سے باز نہ آئے اور آنحضرت حکم خدا سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ٪کی ہمراہی میں مباھلہ کے لئے تشریف لے گئے اور جب نصاری کے بزرگوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت ٪ کی یہ شان اور ہیبت دیکھی تو وہ سب خوفزدہ ہوگئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آکر یہ التماس کرنے لگے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان پر لعنت نہ کریں آنحضرت نے ان کی درخواست قبول کر لی اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے اس قصے کو ختم کردیا شیعہ اور سنی علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ مباہلہ کے دن حضرت امیرالمومنین ، حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور

۱۴۹

حضرت امام حسین ٪ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھے اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ''ابنائنا''(یعنی ہمارے فرزند) سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد امام حسن اور ، امام حسین ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ آیہ مباہلہ نے بھی حضرت امام حسن اور امام حسین کو رسول خدا کا فرزند قرار دیا ہے

یہاں پر اس نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مفسرین نے آیہ مباہلہ کے ذیل میں بہت سی روایات ذکر کرنے کے بعد اس قول کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض مفسرین کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف: جلال الدین سیوطی نے حاکم، ابن مرودیہ ،اور ابونعیم سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے : وہ کہتے ہیں :( أنفسنا و أنفسکم )رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علی ،''ابنائنا''الحسن والحسین و ''نسائنا ''فاطمه.( ۱ )

(انفسنا)''(یعنی ہماری جانوں ) سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی ـ ہیں اور (ابنائنا)(یعنی ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین ہیں اور(نسائنا)(ہماری عورتوں ) سے مراد فاطمہ زہرا ہیں

ب:فخر رازی اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :

واعلم ان هذه الروایة کالمتفق علیٰ صحتها بین اهل التفسیر والحدیث ( ۲ )

جان لو کہ یہ روایت ایسی حدیث ہے کہ جس کے صحیح ہونے پر اہل تفسیر اور اہل حدیث کااتفاق ہے۔

اور پھر اس کے بعد یوں کہتے ہیں

''المسألة الرابعة: هذه الآیة دالة علی أن الحسن والحسین کانا ابن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وعد أن یدعوا أبنائه فدعا الحسن والحسین فوجب أن یکون ابنیه'' ( ۳ )

____________________

(۱) تفسیر در المثور جلد ۲ ص ۳۹ طبع بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

(۳)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

۱۵۰

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن اور حسین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے طے یہ ہوا تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بیٹوں کو بلائیں پس آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسن و حسین ہی کو بلایا تھا پس یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دونوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے ہیں ۔

ج:ابو عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ :

(أبنائنا)دلیل علیٰ أن أبناء البنات یسمون أبناء اً .( ۱ )

کلمہ ابنائنا دلیل ہے کہ بیٹی سے ہونے والی اولاد بھی انسان کی اولاد کہلاتی ہے۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال شاہد ہیں کہ امام حسن اور امام حسین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے.یہاں پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صرف دو اقوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسن اور حسین کے متعلق فرماتے ہیں :

هذان ابناى مَن أحبهما فقد أحبن .( ۲ )

حسن اور حسین میرے دو فرزند ہیں جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی

ب:پیغمبر اسلام نے حسن اور حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

ان بنّى هٰذین ریحانتى من الدنیا .( ۳ )

میرے یہ دو بیٹے اس دنیا سے میرے دو پھول ہیں

____________________

(۱)الجامع لاحکام القرآن جلد ۴ ص ۱۰۴طبع بیروت.

(۲)تاریخ مدینہ دمشق مصنفہ ابن عساکر ترجمة الامام الحسین ـ ص۵۹حدیث ۱۰۶طبع اول بیروت ۰ ۱۴۰ھ.

(۳)گذشتہ حوالہ ص۶۲ حدیث نمبر ۱۱۲.

۱۵۱

تیئیسواں سوال

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟

جواب: یہ واضح ہے کہ اسلام ایک ہمیشہ رہنے والا عالمی دین ہے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں آپ ہی امت کے رہبر اور ہادی تھے لیکن آپ کی رحلت کے بعد ضروری تھا کہ جو سب سے زیادہ لائق فرد ہو اسے امت اسلامیہ کی رہبری سونپ دی جائے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلیفہ، نص کے ذریعہ معین کیا جائے گا(یعنی خدا اور رسول ہی اپنا خلیفہ معین فرمائیں گے )یا یہ کہ خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے ؟ اس سلسلہ میں چند نظریے پائے جاتے ہیں شیعوں کا اعتقاد ہے کہ منصب خلافت نص کے ذریعہ معین ہوتا ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی جانب سے معین کیا جائے

جب کہ اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ منصب خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے اور ضروری ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت، مملکت کے امور کو چلانے کے لئے کسی ایک شخص کو خلیفہ چن لے.

۱۵۲

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے.

شیعہ علماء نے عقائد کی کتابوں میں خلیفہ کے نص کے ذریعہ معین کئے جانے کے بارے میں بہت سے دلائل بیان کئے ہیں لیکن وہ دلیل جسے یہاں بیان کیا جاسکتا ہے اور جس سے شیعوں کا عقیدہ بھی واضح ہوجاتا ہے وہ عصر رسالت کے حالات کا صحیح تجزیہ ہے.

عصر رسالت میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست کا یہ تقاضا تھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی طرف سے خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ معین کیا جائے کیونکہ مسلمانوں کو ہر لحظہ تین بڑی طاقتوں (روم کی سلطنت، ایران کی بادشاہت اور منافقین حجاز کی سازشوں ) کی طرف سے شکست اور نابودی کا خطرہ لاحق تھا اسی طرح امت کی کچھ مصلحتیں بھی تقاضا کررہی تھیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا خلیفہ معین کر کے ساری امت کو بیرونی دشمن کی طاقت کے مقابلے میں ایک صف میں کھڑا کردیں اور اس طرح ملت اسلامیہ کو ان داخلی اختلافات سے بچالیں جن سے دشمنوں کے نفوذ اور تسلط کا موقع فراہم ہوسکتا ہے

اس کی وضاحت

ان تین خطرناک طاقتوں میں سے ایک طاقت روم کی بادشاہی تھی جس سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی زندگی کے آخری لمحات تک فکر مند رہے ہجرت کے آٹھویں سال فلسطین کی سرزمین پرمسلمانوں اور روم کے عیسائیوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی تھی اس جنگ میں اسلامی فوج کے تین کمانڈر ''جعفر طیار'' ''زید بن حارثہ''اور ''عبداللہ بن رواحہ'' شہید ہوئے تھے اور سپاہ اسلام کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا

۱۵۳

کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی اس شکست سے قیصر روم کی فوج کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ہر وقت اس بات کاڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ اسلام کے مرکزی علاقوں پر حملہ آور نہ ہوجائیں

اسی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے نویں سال مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کو شام کے اطراف میں بھیجا تھا اور ارادہ یہ تھا کہ اگر جنگ کی نوبت آگئی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود لشکر اسلام کی رہبری فرمائیں گے اس درد و رنج والے سفر میں سپاہ اسلام نے اپنی سابقہ شوکت پھر سے حاصل کی اور اسے اس کا سیاسی مقام و منصب دوبارہ مل گیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فتح کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیماری سے چند دن پہلے مسلمانوں کی فوج کو ''اسامہ'' کی قیادت میں شام کی طرف جانے کا حکم دیا.

عصر رسالت میں مسلمانوں کی دوسری دشمن طاقت ایران کی بادشاہی تھی یہاں تک کہ ایران کے بادشاہ نے انتہائی غصے سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خط کو پھاڑ دیا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کو توہین کے ساتھ باہر نکال دیا تھا اور نیز یمن کے گورنر کو خط لکھا تھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرفتار کرلے اورممانعت کی صورت میں انہیں قتل کرڈالے

۱۵۴

اگرچہ ایران کا بادشاہ خسرو پرویز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے ہی میں مر گیا تھا لیکن مدتوں سے ایران کے زیر اقتدار رہنے والے ملک یمن کا مسلمانوں کے ذریعہ استقلال حاصل کرلینا ایرانی بادشاہوں کو شدید ناگوار گزرا اس وجہ سے ایران کی سطوت شاہی کے لئے اسلام کی طاقت کو پھلتا پھولتا دیکھنا برداشت کے قابل نہیں تھا

مسلمانوں کو تیسرا خطرہ منافقین کے گروہ سے تھا منافقوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے ذریعہ فتنہ و فساد پیدا کریں ان لوگوں کے نفاق اور کینہ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تبوک سے مدینہ کے راستے میں حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے اسلام کی تحریک ختم ہوجائے گی اور وہ لوگ آسودہ خاطر ہوجائیں گے منافقین کے عزائم اور ان کی سازشوں کو آشکار کرنے کے لئے قرآن مجید نے ان سورتوں : آل عمران ، نساء ، مائدہ، انفال ، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح،مجادلہ، حدید، منافقین اور حشر میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے.( ۱ )

اسلام کے ایسے سرسخت اور خطرناک دشمنوں کی موجودگی میں کیا یہ صحیح تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تازہ مسلمانوں کے دینی اور سیاسی امور کی رہبری کے لئے اپنا کوئی جانشین معین نہ فرماتے؟

اس وقت کے اجتماعی حالات کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ضروری تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد اپنا جانشین معین کرکے ہر قسم کے اختلاف کا سد باب کردیتے اور ایک مستحکم دفاعی نظام تشکیل دیتے ہوئے اسلامی وحدت کو دوام بخشتے اگر

____________________

(۱)فروغ ابدیت ، مولف استاد جعفر سبحانی(اقتباس)

۱۵۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا کوئی خلیفہ معین نہ فرماتے تو عالم اسلام کو شدید قسم کے ناگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجة ہر گروہ یہ کہنے لگتا کہ خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہئے.

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں

اجتماعی حالات کے تقاضوںاور چند دوسری وجوہات کی بنیاد پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اول بعثت سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنی جانشینی کے مسئلے کو بیان فرمایا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ میں جہاں اپنی رسالت کا اعلان فرمایا وہیں اپنے جانشین کو بھی معین فرما دیا تھا اور اسی طرح اپنی زندگی کے آخری ایام میں حجة الوداع سے لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں اپنے جانشین کا اعلان فرمایا تھا اورنہ صرف ان دو مقامات پر بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی ساری زندگی کے دوران مختلف مقامات پر اپنے جانشین کی شناخت کراتے رہے مزید تفصیلات کے لئے اسی کتاب میں تیسرے سوال کے جواب کا مطالعہ فرمائیں ہم نے وہاں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثوںکے تین ایسے نمونے ذکر کئے ہیں جن میں آنحضرت کے جانشنین کا تذکرہ ہے وہاں ہم نے ان حدیثوں کے ماخذ بھی ذکر کئے ہیں

صدر اسلام کے حالات اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان حدیثوں (جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے) کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ خلیفہ خدا و رسول ہی کی طرف سے معین ہوتا ہے۔

۱۵۶

چوبیسواں سوال

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟

جواب: لفظ توحید اور شرک کے معنی جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی آیات اورحدیثوںکا مطالعہ کیا جائے کیونکہ قرآن مجید اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق کو باطل سے اور توحید کو شرک سے جدا کرنے کا بہترین معیار ہیں

اس بنیاد پر بہتر ہے کہ ہر قسم کے نظریہ اور عمل کو قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روشنی میں زندہ اور بے تعصب ضمیر کے ساتھ پرکھیں اب ہم یہاں پر قرآن و سنت سے غیر خدا کی قسم کھانے کے جائز ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے :

۱۔قرآن مجید میں چند محترم مخلوقات جیسے''پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''اور ''روح انسان'' ''قلم'' ''سورج'' ''چاند'' ''ستارے'' ''دن اور رات'' ''آسمان اور زمین'' ''زمانے'' ''پہاڑ اور سمندر'' وغیرہ کی قسم کھائی گئی ہے یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

الف: (لَعَمْرُکَ ِانَّهُمْ لَفِى سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ حجر آیت ۷۲

۱۵۷

(پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !) آپ کی جان کی قسم یہ لوگ اپنی خواہش نفس کے نشے میں اندھے ہورہے ہیں

ب: (وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ ِاذَا تَلاَهَا وَالنَّهَارِ اِذَا جَلاَّهَا وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشَاهَا وَالسَّمَائِ وَمَا بَنَاهَا وَالَْرْضِ وَمَا طَحَاهَا وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ... )( ۱ )

آفتاب اور اس کی روشنی کی قسم. اور چاند کی قسم جب وہ اس کے پیچھے چلے. اور دن کی قسم جب وہ روشنی بخشے.اور رات کی قسم جب وہ اسے ڈھانک لے اور آسمان کی قسم اور جس نے اسے بنایا. اور زمین کی قسم اور جس نے اسے بچھایا اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا. پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے.

ج: (وَالنَّجْمِ اِذَا هَوَی )( ۲ )

قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا.

د: (وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ )( ۳ )

____________________

(۱)سورہ شمس آیت ۱ تا ۸

(۲)سورہ نجم آیت:۱

(۳)سورہ قلم آیت:۱

۱۵۸

ھ: (وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنسَانَ لَفِى خُسْرٍ )( ۱ )

قسم ہے عصر کی بے شک انسان خسارے میں ہے.

و: (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ )( ۲ )

قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی.

ز: (وَالطُّورِ وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ فِى رَقٍّ مَنْشُورٍ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِة وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُور )( ۳ )

طور کی قسم. اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم جو کشادہ اوراق میں ہے اور بیت معمور کی قسم اور بلند چھت (آسمان)کی قسم. اور بھڑکتے ہوئے سمند ر کی قسم.

اسی طرح ان سورتوں '' نازعات'' ''مرسلات '' ''بروج'' ''طارق'' ''بلد'' ''تین'' ''ضحی'' میں بھی دنیا کی مختلف اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں

اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہوتا تو اس قرآن مجید میں جو توحید کا مظہر ہے ، ہر گز غیر خدا کی قسمیں نہ کھائی جاتیں اور اگر اس قسم کی قسمیں کھانا صرف خداوند کی

____________________

(۱)سورہ عصر آیت ۱ ا ور۲.

(۲)سورہ فجر آیت : ۱ اور ۲.

(۳)سورہ طور آیت نمبر ۱ سے ۶ تک.

۱۵۹

خصوصیات میں سے ہوتا تو قرآن مجیدمیں ضرور اس بات کی طرف متوجہ کرادیا جاتا تاکہ بعدمیں کسی کو دھوکہ نہ ہو

۲۔دنیا کے سارے مسلمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے لئے اسوہ عمل سمجھتے ہیں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو حق اور باطل کی شناخت کے لئے میزان قرار دیتے ہیں

عالم اسلام کے محققین اور اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں کے مؤلفین نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی ایسی قسموں کو نقل کیا ہے جو حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غیر خدا کے نام سے کھائی تھیں.

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں روایت کی ہے :

''فلعمر لأن تتکلم بمعروف و تنهیٰ عن منکر خیر من أن تسکت'' ..( ۱ )

میری جان کی قسم ! تمہارے خاموش رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ تم امر بمعروف اور نھی از منکر کرو.

مسلم بن حجاج کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے کہ :

جاء رجل اِلی النبى فقال: یا رسول اللّه أّ الصدقة أعظم أجرًا؟ فقال: أما و أبیک لتنبأنّه أن تصدق و أنت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمل البقائ .....( ۲ )

____________________

(۱)مسند احمد جلد ۵ ص ۲۲۴ اور ۲۲۵ حدیث بشیر ابن خصاصیہ سدوسی.

(۲)صحیح مسلم، جزء سوم ، طبع مصر ، کتاب الزکاة، باب بیان ان افضل الصدقة ، صدقة الصحیح الشحیح، ص ۹۳ اور ۹۴

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

نبی ؐ سے ملاقات کرو ۔(1)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر معاویہ کے پاس آئے،معاویہ نے ان کا خیر مقدم کیا،اور اپنے قریب بلا کر اپنے تخت پر بٹھایا پھر معاویہ نے کہا:اے ابوخبیب!اپنی حاجتیں بیان کرو انہوں نے معاویہ سے کچھ مانگا،پر معاویہ نے کہا:اس کے علاوہ بھی کچھ مانگو،انہوں نے کہا:ہاں،مہاجرین و انصار کا وظیفہ انھیں واپس دیدو اور ان کے بارے میں وصیتِ پیغمبر ؐ کی پابندی کرو،ان کے نیکوکاروں کو قبول کر اور ان میں جو غلط ہیں انہیں معاف کردو،معاویہ نے کہا:افسوس،بھیڑیں،بھیڑیوں سے نہیں بچ سکتیں وہ تو ان کی آنتیں بھی کھاچکا ہے ۔(2)

بنوامیہ،صحابہ کی اسلامی خدمات سے لوگوں کو بےخبر رکھنا چاہتے تھے

بنوامیہ کے دور میں بات یہاں تک پہنچی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صحابہ کے گذشتہ اسلامی خدمات سے لوگوں کو واقف کرایا جائے بلکہ کوشش یہ تھی کہ صحابہ کے کارناموں کا تذکرہ ہی نہ ہو ۔

ایک مرتبہ انصار کا وفد معاویہ کے دروازے پر حاضر ہوا،معاویہ کا حاجب ابودرّہ ان کے پاس آیا،انصار نے کہا:معاویہ سے ہمارے لئے اجازت لیکر آؤ،وہ معاویہ کے پاس واپس گیا،اس وقت اس کے پاس عمروعاص بیٹھا تھا،عمروعاص وہی شخص ہے جسے سقیفہ کے بعد انصار سے تکلیف پہنچی تھی اور انصار نے امیرالمومنین ؑ کی نصرت کی تھی جس کی وجہ سے عمروعاص کو مدینہ چھوڑنا پڑا تھا،بہرحال حاجب نے آکے کہا کہ معاویہ صاحب آپ کے دروازے پر انصار آئے ہیں،عمروعاص نے جب سنا کہ معاویہ کے ہاں انصار آئے ہیں،انصار کا لقب تو مدینہ والوں کو قران مجید اور سنتِ شریفہ سے ملا تھا اور مسلمانوں کے درمیان یہ لوگ انصار ہی کے لقب سے مشہور تھے،عمروعاص کو یہ بات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاستیعاب ج:3ص:1421سیراعلام نبلاء ج:2ص:453۔454،شعب الایمان ج:6ص:56۔57،الجامع المعمر بن راشد ج:11ص:60۔61،تاریخ دمشق ج:34ص:295۔296،حالات عبدالرحمٰن بن حسان ج:67ص:151،تاریخ الخلفاء ج:1ص:201 (2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:141

۲۸۱

کیسے برداشت ہوتی کہ انصار کو انصار کو کہا جائے،اس سے کتابِ خدا اور سنتِ پیغمبر ؐ کی پیروی ہورہی تھی،اس لئے جب حاجب نے انھیں ملقب کرکے معاویہ کو خبر دی تو عمروعاص نے کہا:یہ کیا لقب ہے جس کو وہ لوگ نسب کے طور پر استعمال کر رہے ہیں انھیں ان کے نسب کی طرف پلٹاؤ،معاویہ نے اس کو سمجھایا کہ اس سے ہمیں پر الزام آئے گا،اس نے کہا:الزام کیا آئے گا یہ تو ایک بات کی جگہ دوسری بات ہے،اس کو پلٹانا ناممکن نہیں،معاویہ نے عمروعاص کی بات مان لی اور اپنے حاجب سے کہا کہ جا کے آواز دو کہ عمرو بن عامر کے بیٹوں کو بلایا گیا ہے،حاجب گیا اور اس نے آواز دی عمرو بن عامر کے بیٹوں کے لئے اجازت ہے،پس عمرو بن عامر کی اولاد داخل ہوئی لیکن ان میں جو انصار تھے وہ نہیں گئے،معاویہ نے حاجب سے کہا:اب جا کے آواز دو کہ اوس و خزرج کی اولاد کو بھی بلایا گیا ہے،پس اسنے باہر نکل کر یہی آواز لگائی،یہ سن کر نعمان بن بشیر انصاری کو بہت برا لگا،وہ آگے بڑھے اور یہ اشعار پڑھنے لگے ۔

ترجمہ اشعار اے سعد!ہمیں بار بار مت پکارو ہمارا سب سے نجیب نسب صرف یہ ہے کہ ہم انصار ہیں،یہ وہ نسب ہے جو ہماری قوم کے لئے اللہ نے اختیار کیا ہے اور یہ نسب کافروں پربہت بھاری ہے،تم لوگوں میں جو بدر کے میدان میں ہمارے ہاتھوں موت کی نیند سلا دیئے گئے،وہ قیامت کے دن جہنم کا ایندھن ہوں گے،یہ اشعار پڑھنے کے بعد نعمان بن بشیر غصہ میں کھڑے ہوگئے اور جانے لگے معاویہ نے انھیں واپس بلایا اور خوشامد کر کے راضی کرلیا،پھر ان کی اور ان کے ساتھ انصاریوں کی حاجتیں پوری کیں ۔(1)

امویوں کے دل میں بغض صحابہ جڑ پکڑ چکا تھا،مروان بن حکم کو یہ بھی گوارہ نہیں تھا کہ سرکار دو عالم ؐ نے جو پتھر عثمان بن مظعون کی قبر پر رکھا تھا اس کو وہ برقرار رکھتا،عثمان بن مظعون وہ پہلے مہاجر تھے جن کی وفات مدینہ میں ہوئی تھی،انھیں سرکار دو عالم ؐ نے جن البقیع میں دفن کرایا اور اپنے ہاتھوں سے اس قبر پر نشانی کے لئے پتھر رکھ دیا،اہل بیت ؑ پیغمبر ؐ میں سے جو بھی مرتا تھا انھیں کی قبر کے پاس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الاغانی،ج: 16 ص: 56 ،اور ص: 50 ۔ 51

۲۸۲

دفن کیا جاتا تھا،جب مروان بن حکم معاویہ کی طرف سے مدینہ کا گورنر ہوا اس پتھر کے پاس سے گذرا اور اسے اپنے ہاتھ اٹھا کے پھینک دیا اور کہنے لگا،عثمان بن مظعون کی قبر پر کوئی ایسا پتھر نہیں ہونا چاہئے جس کی وجہ سے ان کی پہچان ہو،بنوامیہ اس کے پاس آئے اور کہا کہ تو نے برا کیا ہےہ تو نے اس پتھر کو اٹھا کر پھینک دیا ہے جسے نبی ؐ نے اپنے ہاتھ سے رکھا تھا،تو نے بہت برا کام کیا،حکم دے کہ وہ پتھر وہاں واپس رکھ دیا جائے اس نے کہا،خدا کی قسم جس کو میں نے پھینک دیا وہ واپس نہیں ہوسکتا(1)

زبیر بن بکار کہتے ہیں کہ جب سلیمان بن عبدالملک ولی عہد سلطنت تھا تو ایک دن وہ مدینہ آیا اور ابان بن عثمان کو حکم دیا کہ وہ نبی ؐ کی سیرت اور آپ کے غزوات پر ایک کتاب لکھے،ابان نے کہا کہ ہمارے پاس ایک ایسی کتاب پہلے سے موجود ہے جسے ہم نے جن لوگوں کو قابل اعتبار سمجھا ہے ان سے تصحیح بھی کرالی ہے سلیمان بن عبدالملک نے کہا کہ ٹھیک ہے اسی کو لے آؤ سلیمان نے اس کام کے لئے دس کاتب مقرر کئے اور انھوں نے بہت محنت سے وہ کتاب لکھی،جب سلیمان کے سامنے وہ کتاب لائی گئی تو اسنے دیکھا کہ اس کتاب میں دونوں وادیوں(عقبی اولیٰ و عقبہ ثانیہ)میں انصار کے کارناموں کے بارے میں لکھا ہوا ہے پھر بدر میں انصار ہی کی نصرت کا تذکرہ ہے،سلیمان بن عبدالملک نے جب یہ دیکھا تو بھڑک اٹھا اور کہنے لگا یہ لوگ میری نظر میں اتنے صاحب فضیلت تو نہیں تھے اگر ان میں سے کچھ لوگ ہمارے گھر والے بھی ہیں تو ان کو ہلکا کر کے دکھایا ہے حالانکہ وہ لوگ ایسے ہیں نہیں،سنو!مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں یہ کتاب لکھواؤں اور امیرالمومنین(عبدالملک مروان)سے اس کا تذکرہ کروں،وہ تو اس کتاب کی مخالفت کریں گے بس اس نے اس کتاب کو جلا دینے کا حککم دیا اور وہ جلا دی گئی پھر سلیمان اپنے باپ کے پاس واپس ہوا اور اس واقعہ کے بارے میں اسے بتایا،عبدالملک نے کہا:ایسی کتاب جس میں ہم لوگوں کی کوئی فضیلت ہی نہیں لکھی ہے اس کو آگے بڑھانے کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ المدینہ ج:1ص:101۔102

۲۸۳

اس کتاب کو پڑھ کر تو اہل شام وہ سب جان جائیں گے جس سے ہم ان کو ناواقف رکھا چاہتے ہیں،سلیمان نے کہا:اے امیرالمومنین یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کو جلانے کا حکم دیا،جتنا بھی لکھا جاچکا تھا سب جلادیا گیا عبدالملک نے یہ سن

کے اس کی رائے کو صحیح قرار دیا(1)

اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑدی تھی جس کی وجہ سے واقعہ حرہ ہوا مدینہ کو تباہ کیا گیا اور لوٹا گیا،خلع بیعت کا سبب ہی یہی تھا کہ اہل مدینہ اپنے بزرگوں کی پیروی میں امویوں کے مخالف تھے اور بنوامیہ کے دلوں میں اہل مدینہ کے خلاف شدید بغض تھا ۔

بنوامیہ اور حقیقتوں کو بدلنے کی کامیاب کوشش

یہ عجیب بات ہے کہ بنوامیہ حقائق کو بدلنے کی کوشش میں کامیاب رہے جس کے نتیجہ میں آج اہل سنت معاویہ اور عمروعاص جیسے مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں،ان کی حمایت میں کتاب لکھتے ہیں،تقریریں کرتے ہیں اور اسی طرح ان کا احترام کرتے ہیں جیسے ایک صحابہ کا احترام ہونا چاہئے،شیعہ جب ان جیسے لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں تو اہل سنت احتجاجاً ان کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابی کو برا نہیں کہنا چاہئے بلکہ شیعوں کو یہ کہہ کر بدنام کرتے ہیں کہ یہ لوگ صحابہ کا احترام نہیں کرتے اور انھیں لعن و طعن کرتے ہیں،وجہ صرف یہ ہے کہ امویوں نے حقائق کو بگاڑ کے پیش کیا ہے،اور اپنے دور میں صحابیت کی جو تعریف بتائی ہے وہ صرف انھیں پر صادق آتی ہے،اہل سنت بھائیوں کو اموی پروپیگن ڈ ے نے یہ جاننے کی مہلت ہی نہیں دی کہ حقیقت کیا ہے؟اور صحابہ بنوامیہ کے کتنے مخالفت دشمنی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الموفقیات ص: 331 ۔ 334

۲۸۴

معاویہ کی ہلاکت کے بعد اہل بیتؑ کے بارے میں صحابہ کا نظریہ

ہم اپنے سلسلہ بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے اب یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام کا نظریہ معاویہ کی ہلاکت کے بعد کیا تھا؟تاریخ کا مطالعہ کریں تو صحابہ کو اہل بیت ؑ کے ساتھ ساتھ پائیں گے،(معاویہ کے مرنے کے بعد اب وہ سیاست مرچکی تھی،جسے اخلاقیات کے علما صاف لفظوں میں مکاری اور روباہی کہتے ہیں نتیجہ میں صحابہ کو اپنا موقف بیان کرنے کی کچھ آزادی ملی اور صحابہ اہل بیت ؑ کے ساتھ ہوگئے،ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو ابوعبداللہ الحسین ؑ کے ساتھ عراق چلے گئے اور امام حسین ؑ مظلوم کی نصرت میں ؤپ کے سامنے جام شہادت سے سیراب ہوئے،ان میں انصاریوں کا ایک گروہ بھی تھا،انھیں میں انس بن مالک کاہلی بھی تھے جنھوں نے بدر سے حنین تک ہر جہاد میں نبی ؐ کی نصرت کی تھی،اور انھیں سے یہ حدیث بھی ہے جو کربلا کی طرف اشارہ کتی ہے،حضور سرور کائنات ؐ نے انھیں سے یہ فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا حسین ؑ اس جگہ شہید کیا جائےگا جس کا نام کربالا ہے جو تم میں اسے اس وقت موجود ہوا سے چاہئے کہ اس کی(حسین ؑ کی)نصرت کرے ۔(1)

جب کربلا کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت انس بن مالک بہت بوڑھے ہوچکے تھے آنکھوں پر لٹکی ہوئی بھنووں کو عمامہ کے نیچے ایک عصابہ(پٹی)سے باندھ رکھا تھا جب امام حسین ؑ مظلوم نے آپ کو اس حال میں دیکھا تو رونے لگے،اور فرمایا اے شیخ!خدا آپ کی کوششوں کو مشکور قرار دے انس بن مالک نے اس بڑھاپے میں اٹھارہ یزیدیوں کو جہنم واصل کیا،پھر آپ شہید ہوگئے،رضوان اللہ علیہ ۔(2) اس طرح بہت سے صحابہ تھے جنھوں نے اہل بیت ؑ کا دامن تھام لیا تھا،اہل بیت ؑ کے لئے قربانیاں دے رہے تھے،اور اہل بیت ؑ کے دشمنوں سے کھلی ہوئی دشمنی کررہے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الاصابہ ج: 1 ص: 121 تاریخ دمشق ج: 14 ص: 224 ،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 199 ،ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 8

( 2) مقتل الحسین للمقرم ص: 313

۲۸۵

مناقب اہل بیتؑ بیان کرنے اور نص کی روایت کرنے میں صحابہ کی کوشش

صحابہ کی کثیر تعداد نے تو اپنا یہ فرضیہ بنالیا تھا کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں نصوص نبوی ؐ کی تبلیغ کرتے رہیں اور مسلمانوں کے درمیان نص کے ساتھ ہی فضائل و مناقب اہل بیت ؑ کی نشر و اشاعت کرتے رہیں،وہ مسلسل امت کو اہل بیت ؑ کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے اور اہل بیت ؑ سے کسی بھی لمحہ غلفت نہیں کرتے تھے ۔

آپ کے سابقہ چوتھے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ابوایوب انصاری کے ساتھ انصار کی ایک جماعت نے امیرالمومنین ؑ کو مولا کہہ کے سلام کیا تا کہ حدیث غدیر کی تجدید ہوسکے،جس حدیث غدیر کو شیعہ،امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر نص صریح مانتے ہیں،یہ اقدام شاید اس لئے بھی کیا گیا تھا کہ امیرالمومنین ؑ نے لوگوں کو قسم دی تھی کہ جو واقعہ غدیر میں موجود تھا وہ کھڑا ہوا اور جو کچھ سنا اور دیکھا تھا بیان کرے،صحابہ کی ایک جماعت نے اس آواز پر لبیک کہا اور کھڑے ہوکے گواہی دی ایک چھوٹی سی جماعت نے شہادت سے گریز بھی کیا لیکن اتنی بڑی جماعت کی گواہی کا یہ فائدہ ہوا کہ حدیث غدیر کی نشر و اشاعت اور شہرت ہوگئی کتابوں میں نقل کی گئی اور صحابہ نے کثرت سے اس کی روایت کی ۔

امام حسینؑ نے صحابہ کو اہل بیتؑ کا حق ثابت کرنے کے لئے جمع کیا

سلیم بن قیس ہلالی کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ معاویہ کے آخری اوقات میں حج کے لئے تشریف لائے اس وقت مہاجرین و انصار کے نمایاں افراد جو باقی بچ رہے تھے وہ بھی آئے ہوئے تھے وہ لوگ بھی تھے جنہیں صالح اور عبادت گذار سمجھا جاتا تھا اور زمین کے مختلف گوشوں سے سمٹ کے مکہ میں آگئے تھے،یہ تھا مجمع یعنی سامعین اور خطیب تھے امام حسین ؑ آپ نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:مسلمانو!اس سرکش(معاویہ)نے ہمارے ساتھ اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور کررہا ہے اسے

۲۸۶

آپ دیکھ رہے ہیں اور شاہد ہیں،میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں اگر میں سچ کہوں تو آپ میری تصدیق کریں گے اور اگر میں جھوٹ بولوں تو آپ میری تکذیب کردیجئے گا،میں آپ سے اللہ کا اور اللہ کے رسول ؐ کا اور پیغمبر ؐ سے اپنی قرابت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جب آپ یہاں سے جائیں تو میری باتیں لیتے جائیں اور ان لوگوں کو میری طرف سے دعوت دین جو آپ کے قبیلہ میں آپ کے ناصر ہیں اور جن پر آپ اعتماد کرتے ہیں،آپ ہمارے حق کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں انھیں جاکے بتائیں کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ اَمر مٹ نہ جائے،حق تباہ اور مغلوب نہ ہوجائے حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہےگا چاہے کافروں کو ناگوار گذرے))پھر قرآن میں اہل بیت ؑ کے بارے میں جتنی آیتیں نازل ہوئیں تھیں آپ نے ایک ایک آیت کی تلاوت کی اور سرکار دو عالم ؐ نے آپ کے والد ماجد آپ کی مادر گرامی آپ کے بھائی اور خود آپ کے بارے میں جو حدیثیں ارشاد فرمائی تھیں سب کو دہرایا،صحابہ کو جو مجمع وہاں موجود تھا آپ کے ہر جملہ پر کہہ رہا تھا،اللہ(برائے خدا)ہاں ہم نے سنا اور ہم گواہ ہیں اور جو تابعی تھے وہ کہہ رہے تھے بخدا ہم سے یہ حدیثیں صحابہ کے اس گروہ نے بیان کی ہیں جن کی صداقت و امانتداری کے ہم معترف ہیں ۔

پھر آپ نے فرمایا:میں آپ لوگوں کو خدا کی قسم دے کے کہتا ہوں یہ باتیں صرف ان لوگوں سے بیان کیجئے گا جن کے اوپر اور جن کے دین پر آپ بھروسہ کرتے ہیں پھر سب متفرق ہوگئے(1) جابر بن عبداللہ انصاری حدیث لوح کے راوی ہیں اللہ نے اپنے نبی ؐ پر ایک تختی نازل کی تھی جس میں بارہ اماموں کے نام لکھے ہوئے تھے ۔(2)

حق تو یہ ہے کہ اگر صحابہ نہیں ہوتے تو ہم تک اس وافر مقدار میں نصوص نبی نہیں پہنچتی،یہ تمام فضائل و مناقب اہل بیت ؑ اور مولائے کائنات ؑ کی امامت پر متواتر نصوص صحابہ کی ہی فیضان ہے،صحابہ نے صرف فضائل اہل بیت ؑ ہی پہنچانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دشمنان اہل بیت ؑ کی مذمت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)کتاب سلیم بن قیس الہلالی ص:320۔323

(2)بحارالانوار ج:36ص:201۔202

۲۸۷

میں حدیثیں اور ان کی گذری سیرت کی نقاب کشائی بھی انھیں صحابہ کرام کے ہاتھوں ہوئی،خاص طور سے صحابہ کرام اس وقت کھل کے سامنے آگئے جب حکومت کی طرف سے سنت نبوی ؐ کی نشر و اشاعت پر عائد کردہ پابندیاں ہٹ گئیں،ان پابندیوں کی طرف ہم آپ کے ساتویں سابقہ سوال کے جواب میں اشارہ کرچکے ہیں ۔

آخر ابوبکر اور عمر نے سنت نبوی کی اشاعت پر پابندی کیوں لگادی تھی؟

کبھی آپ نے غور فرمایا ہے کہ آخر عمر اور ابوبکر سنت نبوی ؐ کا شیاع کیوں نہیں چاہتے تھے؟حدیث پیغمبر ؐ کی روایت کرنے سے کیوں منع کرتے تھے؟عمر نے اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدینہ سے نکلنے پر پابندی کیوں عائد کردی تھی؟صرف اس خوف سے کہ اگر حدیث نبوی کی روایت کی اجازت دیدی گئی تو صحابہ مولا کی خلافت پر نص کرنے والی حدیثیں بھی بیان کرجائیں گے،اگر صحابہ مختلف شہروں میں آنے جانے لگے تو مسلمانوں کو مناقب و فضائل اہل بیت ؑ سے واقف کردیں گے،نتیجہ ہماری حکومت کے لئے بہت خراب ہوگا اور ہماری حکومت کا نگاہ عوام میں اعتبار شرعی مجروح ہوجائےگا حکومت یہ اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ صحابہ کی اکثریت کے دل اہل بیت ؑ کی طرف متوجہ ہیں،وہ علی ؑ کی خلافت منصوصہ پر ایمان رکھتے ہیں،وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ اور اہل بیت ؑ ہی حکومت اور خلافت کے حق دار ہیں،جیسا کہ میں نے ابھی کچھ صفات پہلے شواہد کے ساتھ یہ بات عرض کی ہے ۔

حاصل گفتگو یہ کہ صحابہ کی اکثریت جن میں مہاجرین و انصار کے سابقون اولون بھی شامل ہیں،اہل بیت ؑ اور امیرالمومنین علی ؑ کے ساتھ تھی یہ لوگ اس وقت بھی امیرالمومنین ؑ کو حقدار خلافت سمجھتے تھے،جب آپ کی عام بیعت نہیں ہوئی تھی اور آپ کی ظاہری خلافت کے دور میں بھی ان کا نظریہ یہی تھا اور آپ کی شہادت کے بعد بھی وہ اسی نظریہ پر باقی رہے ۔

۲۸۸

اکثر صحابہ کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ مولائے کاتناتؑ کی امامت کے حق ہونے کا اعتراف کرتے تھے

چونکہ اکثر صحابہ اس بات کے معترف تھے کہ امامت امیرالمومنین ؑ کا حق ہے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ روز اول ہی سے امام برحق مولائے کائنات ؑ ہیں اسی لئے وہ اپنے نظریہ کا اعلان مختلف موقعوں پر کرتے رہے تھے،ظاہر ہے کہ مولائے کائنات ؑ سے ان کی یہ یگانگت اور مولائے کائنات ؑ کو حقدار سمجھنا،دوسروں کو مولائے کائنات ؑ پر مقدم نہ کرنا،یہ تمام باتیں بےبنیاد تو نہیں تھیں،بلکہ مولائے کائنات ؑ کی ذات پر اس لئے متفق تھے کہ وہ اس نص سے واقف تھے جو مولیٰ علی علیہ السلام کی خلافت پر قائم ہوچکی تھی ۔

حضرت علیؑ کی بیعت ہوئی تو اکثر صحابہ نے یہ سمجھا کہ اب حق،حقدار تک پہنچا

میرے مندرجہ بالا دورے پر اگر کسی کو ذرا بھی شبہ ہو تو اسے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے،میری بات تاریخ سے ثابت ہوجائے گی کہ جب امیرالمومنین ؑ کی بیعت ہوچکی تو صحابہ کی اکثریت اور عام لوگوں نے یہی سمجھا کہ گذشتہ حکومت کے مقابلے میں مولائے کائنات ؑ اولی بالامر ہیں اور آج حق،حقدار تک پہنچ گیا ہے،جیسا کہ خود امیرالمومنین ؑ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے اور ابوجعفر اسکافی کا قول بھی اس دعوے کی دلیل میں گذشتہ صفحات میں پیش بھی کیا جاچکا ہے،جہاں اسکافی لکھتے ہیں کہ عثمان کے قتل کے بعد صحابہ مسجد نبوی میں جمع ہوئے تو خلافت کے بارے میں مشورہ ہونے لگا اور انھوں نے امیرالمومنین ؑ کے فضائل کا ذکر کیا،کچھ تو یہ کہہ رہے تھے کہ امیرالمومنین ؑ اپنے اہل زمانہ سے افضل ہیں اور کچھ کیا یہ خیال تھا کہ امیرالمومنین ؑ ہر دور کے مسلمانوں سے افضل ہیں،ظاہر ہے کہ صحابہ کی موخَرُ الذکر جماعت،جس کا خیال تھا کہ آپ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ امیرالمومنین ؑ ہی ولی امر اور اولیٰ بالامر ہیں ۔

۲۸۹

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ امیرالمومنین ؑ کی جب بیعت ہوچکی تو آپ نے پہلا خطبہ جو بیعت کے بعد دیا ہے اس میں اپنے حق کو ثابت کرتے ہوئے کچھ ایسے کلمات ارشاد فرمائے ہیں جو میرے دعوے پر دلیل ہیں،آپ فرماتے ہیں تم نے توبہ کو پس پشت ڈ ال دیا تم نے وہ امور انجام دیئے جو میرے خلاف ہے،میرے نزدیک ان غلطیوں کی وجہ سے تم نہ قابل تعریف تھے نہ صحیح راستے پر تھے ۔

جناب حذیفہ کا بیان بھی گذرچکا ہے،جب آپ نے سنا کہ امیرالمومنین ؑ اہل بصرہ کے خلاف مدد چاہتے ہیں تو حذیفہ نے اعلان کردیا((بے شک حسن ؑ اور عمار ؑ آئے ہیں کہ تمہیں نصرت پر تیار کریں،تو سنو!جو برحق اور حقیقی امیرالمومنین ؑ کی نصرت کرنا چاہتا ہے وہ جا کر علی ؑ کے لشکر میں شامل ہوجائے ۔(1)

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ جب امیرالمومنین ؑ کی بیعت ہوگئی تو انصار کی ایک قوم نے تقریریں کیں ان میں سب سے پہلے ثابت ابن فقیس بن شماس انصاری نے تقریر کی،وہ انصار کے مشہور خطیب تھے،انھوں نے کہا:اے امیرالمومنین ؑ خدا کی قسم آپ سے پہلے جنھوں نے حکومت حاصل کی وہ حکومت میں آپ سے مقدم ہیں لیکن دین میں نہیں،اگر انھوں نے آپ سے سبقت کی تو آج آپ نے انھیں پیچھے چھوڑدیا حالانکہ خود آپ اور وہ لوگ بھی آپ کے مرتبہ سے ناواقف نہیں تھے اور آپ کی منزلت سے جاہل بھی نہیں تھے،وہ لوگ اپنی جہالت(لاعلمی)کی وجہ سے آپ کے محتاج تھے،لیکن آپ اپنے علم کی وجہ سے کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔(2)

حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں کہ خزیمہ بن ثابت انصاری نے امیرالمومنین ؑ کی بیعت کے وقت یہ اشعار پڑھے:

ترجمہ اشعار:جب ہم نے ابوالحسن ؑ کی بیعت کرلی تو وہ دہشت ناک فتنوں میں ہمارے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) انساب الاشراف ج: 2 ص: 366

( 2) تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 179 ،خلافت امیرالمومنینؑ کے بیان میں

۲۹۰

لئے کافی ہے،ہم نے علی ؑ کو سب سے زیادہ کتاب و سنت کا پابند پایا،جس دن اونٹوں کی دوڑ کا مقابلہ ہوگا اس دن قریش اس کے اٹھائے ہوئے غبار کو شق نہیں کرسکیں گے،علی ؑ تو وہ ہیں کے جن کے اندر غیروں کی نیکیاں بھی پائی جاتی ہیں،لیکن غیروں میں علی ؑ کی نیکیاں نہیں پائی جاتی ہیں(غیروں میں جتنا بھی حسن عمل ہے وہ سب علی ؑ میں پایا جاتا ہے لیکن علی ؑ کا حسن عمل غیروں میں نہیں پایا جاتا ۔(1)

ظاہر ہے کہ قریش کے لوگ اگر چہ امیرالمومنین ؑ کی بیعت سے زیادہ خوش نہیں تھے لیکن بیعت کے وقت کسی نے آپ سے نزاع بھی نہیں کیا اس لئے خذیمہ بن ثابت نے یہ اشعار))قریش کے فیصلہ پر(جس میں انھوں نے نااہل لوگوں کو مولائے کائنات ؑ کے مقابلے میں مقدم کرکے ان کی بیعت کرلی تھی)اعتراض کے طور پر پڑھے ہیں بلکہ خذیمہ کے اشعار یہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ شاعر مقام ولایت میں مولائے کائنات ؑ کو گذشتہ حاکموں پر بھی مقدم سمجھتے ہیں اور مولائے کائنات ؑ کے علاوہ کسی کی بھی(عمر،ابوبکر کی)حکومت کو ناجائز اور غلط سمجھتے ہیں ان اشعار میں جس عقیدے کا اعلان کیا گیا ہے اس کا زیادہ واضح اعلان ان اشعار میں ملتا ہے جو ہیں تو خذیمہ بن ثابت ہی کے لیکن جناب سید مرتضی ؒ نے ان کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو ۔

ترجمہ اشعار:پیغمبر ؐ کے اہل بیت ؑ میں پیغمبر ؐ کا وصی اور آپ کا زمانہ گذشتہ میں شہسوار،سوائے خیرالنسا خدیجہ الکبری ؐ کے نبی ؐ کے ساتھ سب سے پہلے نماز پڑھنے والا نعمتوں والے خدا کی قسم علی ؑ جس کے سینہ میں ایک شجاع دل ہے اور ہر جنگ میں جس کو قوم کی سرداری حاصل رہی یہی وہ ہے جس کا نام امام سمجھ کے انگلیوں میں پڑھا جاتا رہے گا،یہاں تک کہ میں کفن میں منھ چھپالوں ۔(2)

اور حسن بن سلمہ کی حدیث میں ہے کہ((جب مولائے کائنات ؑ کو یہ معلوم ہوا کہ طلحہ زبیر اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 124 ،کتاب معرفت صحابہ مناقب امیرالمومنینؑ،الاصابۃ ج: 2 ص: 278 ،حالات خزیمہ بنت ثابت بن فاکہ میں۔( 2) الفصول المختارۃ،ص: 267

۲۹۱

عائشہ مکہ سے بصرہ کی طرف(فساد کی نیت سے)چل پڑی ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ نماز جماعت کا اعلان کردیا جائے،جب لوگ جمع ہوئے تو آپ نے خدا کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا:اما بعد جب خداوند عالم نے اپنے نبی ؐ کو اپنے پاس بلالیا تو ہم نے((جو آپ کے اہل بیت اہل خاندان،وارث آپ کےاولیا اور مخلوقات خدا میں آپ کے سب سے زیادہ حقدار تھے))یہ سونچا کہ لوگ ہم سے نبی کا حق نہیں چھینیں گے ابھی ہم یہ سونچ ہی رہے تھے کہ منافقین اپنی سازش میں کامیاب ہوگئے اور ہمارے نبی ؐ کا اقتدار ہم سے غصب کرکے ہمارے غیر کو سونپ دیا،خدا کی قسم ہم سب کی آنکھیں اس واقعہ پر بہت روئیں اور ہمارے دل اس ظلم کی وجہ سے ٹوٹ گئے،بہرحال لوگ حاکم ہوئے اور اپنی موت مرگئے آخر خدا نے حکومت ہمیں واپس دلادی یہ دونوں آدمی یعنی طلحہ اور زبیر بھی جب ہماری بیعت ہورہی تھی تو بیعت کرنے والوں میں تھے پھر بصرہ جا کے ہمارےخلاف اٹھ کھڑےہوئے تا کہ جماعت میں تفرتقہ پیدا کریں اور تمہاری طاقت کو آپس میں لڑا کے تقسیم کردیں،پالنے والے ان دونوں سے مواخذہ کر اس لئے کہ انھوں نے اس امت کو دھوکا دیا ہے اور عامۃ المسلمین پر بری نظر ڈ الی ہے ۔

یہ سن کر ابوھیثم بن تیہان کھڑے ہوئے اور کہنے لگے((امیرالمومنین ؑ قریش کے لوگ آپ سے دو وجہوں سے حسد کرتے ہیں،قریش کے منتخب افراد تو اس لئے آپ سے حسد کرتے ہیں کہ آپ درجے میں ان سے بلند ہیں اور قریش کے اشرار آپ سے حسد کرتے ہیں جس کی وجہ سے خدا نےان کے اعمال حبط کر لئے ہیں اور ان کے پشت پر گناہوں کا بار کچھ اور بڑھادیا ہے وہ تو آپ سے برابری کا برتاؤ کرنے پر تیار نہیں تھے اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ ان سے آگے بڑھ گئے ہیں اس وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوگئے ہیں اور کشتی ہار گئے ہیں آپ قریش پر قریش سے زیادہ حق رکھتے ہیں پھر انھوں نے چند اشعار پڑھے جن کا ترجمہ حاضر ہے ۔

ترجمہ اشعار:(اے امیرالمومنین ؑ )بےشک اس قوم نے آپ سے بغاوت کی اور آپ پر عیب لگانے کی کوشش کی انھوں نے امور قبیحہ آپ کی طرف منسوب کرنے چاہے حالانکہ وہ بے پرکی اڑاتے ہیں ایسی باتیں جن کے پاس اڑنے کے لئے مچھر کے برابر بھی پر نہیں بلکہ پرکا دسواں حصہ بھی نہیں،

۲۹۲

روا بھی نہیں ہے کہ باتیں پھیل سکیں(آپ پر حملے کی وجہ یہ ہے کہ)انھوں نے آپ کے اوپر اللہ کی نعمتوں کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا آپ کو انھوں نے ایک شاندار پر گوشت صاحب نعمت سمجھا انھوں نے دیکھا کہ آپ ایسے امام ہیں جن کے دامن میں تمام امور پناہ لیتے ہیں اور ایسی لجام ہیں کہ جن سے منھ زور گھوڑ بھی رام ہوجاتے ہیں ایسے حاکم ہیں جن کے اندر امامت،ہاشمیت اور بطحا کی عزت مرتکز ہے،اے نبی ؐ کے وصی ہم آپ کی سرکردگی میں حق کے ساتھ اسی طرح متصل ہیں جیسے چراغ سے چراغ کی روشنی متصل ہوتی ہے)) ۔(1)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کا خطبہ اور اس کے بعد ابن تیھان کے اشعار،یہ تمام چیزیں میرے دعوے پر دلیل ہیں،ابن تیھان کے مندرجہ ذیل اشعار بھی میرے دعوے پر دلیل ہیں

ترجمہ اشعار:جاکے طلحہ اور زبیر سے کہہ دو کہ ہم انصار ہیں انصار ہمارا نام ہی نہیں طریقہ عمل بھی ہے ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کے کارنامے جنگ بدر کے میدان میں قریش دیکھ چکے ہیں،جب وہ کافر تھے،ہم اپنے نبی ؐ کے شعار اور ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں(یعنی خدا کے بعد پیغمبر اسلام ؐ کو ہمارے اوپر بھروسہ تھا اور ہم ہی ان کے مددگار تھے)ہم اپنی آنکھیں اور اپنی جانیں نبی ؐ پر قربان کرتے رہے ہیں بے شک وصی پیغمبر ؐ ،علی ؑ ہمارے امام اور ولی امر ہیں اب تو پردے اٹھ چکے ہیں اور راز ظاہر ہوچکے ہیں))(2)

مولائے کائنات ؑ کی جب بیعت ہورہی تھی تو عبدالرحمٰن بن جعیل نے یہ اشعار پڑھے ۔

ترجمہ اشعار:میری جان کی قسم آج تم نے اس کی بیعت کی جو دین کا زبردست محافظ،صاحب عفت اور توفیقات کا مرکز ہے اس علی ؑ کی بیعت کی جو محمد مصطفیٰ ؐ کا وصی،ان کا چچازاد بھائی،دین اور تقویٰ کا بھائی سب سے پہلا نمازی ہے))(3) ان قصائد کے اشعار یہ اعلان کررہے ہیں کہ مسلمان شروع ہی سے مولائے کائنات ؑ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) امالی شیخ مفید ص: 154 ۔ 156 (2) شرح نہج البلاغہ ج: 1 ص: 143 ۔ 144 ( 3) شرح نہج البلاغہ ج: 1 ص: 143

۲۹۳

غیروں پر مقدم سمجھتے تھے ابوبکر اور عمر کس شمار میں ہیں ۔

ایک واقعہ اور ملاحظہ فرمائیے،مولائے کائنات ؑ نے شریح بن ہانی کو عمرو بن عاص کے پاس بھیجا کہ وہ جا کر اس کو سمجھائیں اور ہدایت کریں شریح کہتے ہیں میں نے مولائے کائنات ؑ کا پیغام عمروعاص کو سنایا اس کے چہرے کا رنگ سیاہ ہوگیا اور وہ کہنے لگا میں نے علی ؑ کا مشورہ قبول کب کیا ہے جو آج قبول کروں میں ان کی رائے کو کسی شمار میں نہیں رکھتا شریح کہتے ہیں میں نے کہا اے نابغہ کے بیٹے تجھ سے بہتر تھے(یعنی ابوبکر و عمر)وہ ہی ان سے مشورہ لیتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتےتھے کہنے گا میرے جیسے تجھ جیسے سے بات نہیں کرتے میں نے کہا اچھا یہ بتا تو اپنے ماں باپ میں سے کس کی وجہ سے میری بات میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے،اپنے کمینہ باپ کی وجہ سے یا نابغہ ماں کی وجہ سے وہ یہ سن کر اٹھا اور چلا گیا ۔(1)

صحابہ کو پختہ یقین تھا کہ امیرالمومنینؑ ہی وصی پیغمبرؐ ہیں

بہت سے صحابہ جن کی تعداد بیس سے کچھ زیادہ ہے اور تابعین جو مولائے کائنات ؑ کے دور میں تھے ان کے اشعار خطبہ اور حدیثیں اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ انھیں علی ؑ کے وصی پیغمبر ؐ ہونے کا پختہ(پکا)یقین تھا اور وصی کا مطلب ہے امت میں نبی ؐ کا قائم مقام،جس طرح ہر نبی ؐ کا وصی اس کا قائم مقام ہوتا ہے،اس لئے کہ مولا علی ؑ کا وصی پیغمبر ؐ ہونا خود سرکار دو عالم ؐ کی بہت سی حدیثوں میں وارد ہوا ہے ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وقعۃ صفین ص:543،ینابیع المودۃج:2ص:23

(2)فتح الباری ج:8ص:150،مجمع الزوائد ج:7ص:237،اور،ج:8ص:253،کتاب علامات نبوۃج:9ص:165،معجم الکبیر ج:3ص:57،ج:4ص:171،ج:6ص:221،معجم الاوسط ج:6ص:327،فضائل الصحابہ ج:2ص:615،الفردوس بما ثور الخطاب ج:3ص:336،کنز العمال ج:11ص:605،حدیث:32923 الکامل فی الضعفاء الرجال ج:4ص:14،الموضوعات ج:1ص:369۔374،تاریخ دمشق ج:42ص:130،392،حالات علی بن ابی طالبؑ،شرح نہج البلاغہ ج:13ص:210،المناقب للخوارزمی ص:147۔58،ینابیع المودۃ ج:1ص:235۔239۔241،ج:2ص:79۔163۔280۔279۔267۔232،ج:3ص:264۔291۔384

۲۹۴

میری مراد وصایت سے ذاتی امور میں وصایت نہیں ہے بلکہ وصی بمعنی جانشین ہے اگر چہ وصایت کے اس معنی میں بھی شخصی امور میں وصایت آہی جاتی ہے ۔

وہ لوگ جن کا عقیدہ ہے کہ حقدار خلافت ابوبکر و عمر تھے،اس دعویٰ وصایت کو خفیف(ہلکا)سمجھتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ شیخین کو خلیفہ مانتے ہیں انکے سامنے وصایت کا دعویٰ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا اور وہ ایسی حدیثوں کا انکار کرتے ہیں ۔

ملاحظہ ہو،اسود سے روایت ہے عائشہ کے سامنے یہ ذکر آیا کہ نبی ؐ نے مولائے کائنات علی ؑ کو اپنا وصی بنایا تھا،عائشہ نے کہا کون کہتا ہے میں نبی ؐ کے پاس تھی اور میرے سینہ سے آپ ٹیک لگائے بیٹھے تھے پھر آپ نے ایک تشت منگایا پھر جھک گئے اور وفات پاگئے،میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نبی ؐ نے علی ؑ کو وصی کب بنایا تھا؟(1)

آپ کے آٹھویں سوال کے جواب میں اس موضوع پر بھی گفتگو کی جائے گی انشااللہ تعالی ۔

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن اوفیٰ سے پوچھا:کیا نبی ؐ نے وصیت کی تھی کہنے لگے کہ نہیں میں نے کہا پھر رسول ؐ نے لوگوں پر وصیت کیسے واجب کردی؟اور خود وصیت نہیں کی؟کہنے لگے حضور ؐ نے کتاب خدا کے بارے میں وصیت کی تھی،(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:4ص:1619،کتاب المغازی،باب علالت و وفات نبیؐ(انک میت و انھم میتون ثم انکم یوم القیامۃ عند ربکم تختصمون)صحیح مسلم ج:3ص:1257،مسند احمد ج:6ص:32)اور اسی طرح دوسرے مدارک

(2)صحیح بخاری ج:4ص:1918،کتاب فضائل قرآن،باب وصیت،اور اسی طرح ج:3ص:1006،کتاب وصایا،باب وصیت،ج:4ص:1619،کتاب المغازی،باب نبیؐ کا علیل ہونا اور ان کی وفات و قول پروردگار(انکم میت و انھم میتوں ثم انکم یوم القیامۃ عند ربکم تختصمون)السنن الکبریٰ للبیھقی ج:6ص:266،کتاب الوھایا،مسند ابی عوانہ ج:3ص:475

۲۹۵

مالک بن معول نے کہا:مجھ سے طلحہ نے کہا میں نے عبداللہ بن اوفیٰ سے سوال کیا،کیا رسول خدا ؐ نے وصیت کی تھی؟کہنے لگےنہیں میں نے پوچھا پھر دوسروں پر وصیت کیوں واجب کردی جب خود وصیت نہیں کی،کہنے لگے قرآن کے بارے میں وصیت کی تھی ۔ ہزیل بن شرحبیل نے کہا:ابوبکر خلیفہ پیغمبر ؐ پر حاکم بن بیٹھے وہ سمجھتے تھے گویا رسول خدا ؐ کی طرف سے انھیں یہ عہدہ ملا ہے اور وہی ان کی ناک میں خلافت کا موتی(بیر) ڈ ال گئے ہیں ۔(1)

اب ابن کثیر نے جو تحریر کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں،حالانکہ ان کی تحریر محض تعصب اور جذباتیت کا نتیجہ ہے لکھتے ہیں کہ:اور شیعوں کی جاہل اکثریت غلط گو قصہ خوان جو یہ کہتے ہیں کہ سرکار دو عالم ؐ نے علی ؑ خلافت کے بارے میں وصیت کی تھی،یہ جھوٹ،بہتان اور عظیم افترا ہے،اس سے بڑی غلطی لازم آتی ہے یعنی صحابہ خائن قرار پاتے ہیں اور یہ الزام بھی آتا ہے کہ انھوں نے پیغمبر ؐ کی وصیت کا نفاذ ترک کردیا،نبی ؐ کے بعد آپ کی وصیت کو نہیں تسلیم کیا،معمولی قصہ گو،جو یہ کہانیاں بازاروں میں اور عوام کے درمیان گڑھ کے بیان کرتے رہتے ہیں کہ نبی ؐ نے آداب و اخلاق میں علی ؑ کو اپنا وصی قرار دیا تھا یہ بھی من گھڑت ہی ہے،بلکہ بعض کمینے جاہلوں کی ایجاد ہے،اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور اس سے دھوکا نہیں کھایا جاسکتا مگر جو بالکل ہی جاہل اور غبی ہو ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند ابی عوانہ ج:3ص:476،اور اسی طرح،ص:475،پر کتاب وصیت کے آغاز میں اس واضح خبر کے بیان میں کہ نبیؐ نے کسی کے لئے کوئی بات بعنوان وصیت نہیں کی ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ انھوں نے مال میں کوئی وصیت نہیں کی ہے اس لئے کہ آپ نے بعنوان میراث کوئی مال نہیں چھوڑا ہے بلکہ واجبات کا بیان کیا ہے،سنن دارامی،ج:2ص:496،کتاب الوصایا میں باب من لم یوص،مسند البراز،ج:8ص:297۔298،جو کچھ عبداللہ بن ابی اوفیٰ نے روایت کی ہے م فتح الباری،ج:5ص:361،البدایۃ و النہایۃ ج:5ص:251،طلحہ بن مصرف کے حالات میں الریاض النضرۃ،ج:2ص:197،تیرہویں فصل خلافت اور جو صحابہ سے متعلق ہے کے بیان میں،تاریخ الخلفاءج:1ص:7الفائق فی غریب الحدیث،ج:2ص:29،خزم کے مادہ میں،ج:5ص:149،وثب کے مادہ میں لسان العرب مادہ وثب اور مادہ خزم،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:3ص:212۔213،ابوبکر صدیق کی حدیث کے ضمن میں

(2)البدایۃ و النہایۃ ج:7ص:225۔226

۲۹۶