شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 79067
ڈاؤنلوڈ: 2853

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79067 / ڈاؤنلوڈ: 2853
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

مضبوط فوج تیار کرنا، مختلف ممالک میں سفیر بھیجنا اور اس زمانے کے بادشاہوں کو خبردار کرنا، نیز ان سے خط و کتابت کرنا ساتھ ہی ساتھ شہروں کے گورنر اور حکام معین کرنا اور ایسے ہی دوسرے امور کا انجام دینا اگر سیاست نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کے علاوہ خلفائے راشدین کا کردار اور خاص طور پرحضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ـ کا طرز عمل بھی شیعوں اور اہل سنت دونوں فرقوں کیلئے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست دین سے جدانہیں ہے.دونوں اسلامی فرقوں کے علماء نے حکومت

قائم کرنے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مفصل دلیلیں بیان کی ہیں نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

ابوالحسن ماوردی نے اپنی کتاب ''احکام سلطانیہ'' میں یوں لکھا ہے:

''المامة موضوعة لخلافة النبّوة ف حراسة الدین و سیاسة الدنیا و عقدها لمن یقوم بها ف الأمة واجب بالجماع'' ( ۱ )

امامت کو نبوت کی جانشینی کے لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دین کی حفاظت کی جاسکے اور دنیا کی سیاست و حکومت کا کام بھی چل سکے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی حکومت قائم کرنااس شخص پر واجب ہوجاتا ہے جو اس کام کو انجام دے سکتا ہو۔

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۱

اہل سنت کے مشہور عالم ماوردی نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کی دلیلیں پیش کی ہیں :

۱۔ عقلی دلیل

۲۔ شرعی دلیل

عقلی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''لما فى طباع العقلاء من التسلیم لزعیم یمنعهم من التظالم و یفعل بینهم فى التنازع والتخاصم ولولا الولاة لکانوا فوضیٰ مهملین همجاً مضاعین'' ( ۱ )

کیونکہ یہ بات عقلاء کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی رہبر کی پیروی کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرنے سے روکے اور اختلاف اور جھگڑوں کی صورت میں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرے اور اگر ایسے حکام نہ ہوتے تولوگ پراگندہ اور پریشان ہوجاتے اور پھر کسی کام کے نہ رہ جاتے.

اور شرعی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''ولکن جاء الشرع بتفویض الأمور اِلی ولیه فى الدین قال اللّه عزّوجلّ (یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۲

اَطِیعُوا ﷲ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُوْلِى الْاَمْرِ مِنْکُم )ففرض علینا طاعة أولى الأمر فینا وهم الأئمة المأتمرون علینا'' ( ۱ )

لیکن شرعی دلیل میں یہ ہے کہ دین کے امور کو ولی کے سپرد کردیا گیا ہے خداوندکریم فرماتا ہے:ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں .پس خداوند نے ہم پرصاحبان امر کی اطاعت کو واجب کردیا ہے اور وہ ہمارے امام ہیں جو ہم پر حکومت کرتے ہیں

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضل بن شاذان سے ایک روایت نقل کی ہے جو ہمارے آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا ـ کی طرف منسوب ہے اس طولانی روایت میں امام ـ نے حکومت قائم کرنے کو ایک لازمی امر قرار دیا ہے ہم اس روایت کے چند جملے ذکر کرتے ہیں :

''انّا لا نجد فرقة من الفرق ولا ملة من الملل

بقوا و عاشوا اِلاّ بقیّم و رئیس، لما لابدّ لهم

منه من أمر الدین والدنیا، فلم یجزفحکمة

الحکیمأن یترک الخلق لما یعلم انه لابدّ لهم منه

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۳

والقوام لهم لاّ به فیقاتلون به عدوهم و یقسمون به فیئهم و یقیمون به جمعتهم و جماعتهم و یمنع ظالمهم من مظلومهم ''( ۱ )

ہمیں کوئی ایسی قوم یا ملت نہیں ملے گی جو اس دنیا میں باقی رہی ہواور اس نے زندگی گزاری ہو سوائے یہ کہ اس کے پاس ایک ایسا رہبر اور رئیس رہا ہو جس کے وہ لوگ دین اور دنیا کے امور میں محتاج رہے ہوں پس خداوند حکیم کی حکمت سے یہ بات دور ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز عطا نہ فرمائے جسکے وہ لوگ محتاج ہیں اور اسکے بغیر باقی نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے رہبر ہی کی ہمراہی میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے مال غنیمت کو تقسیم کرتے ہیں اور اس کی اقتداء میں نماز جمعہ اور بقیہ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور رہبر ہی ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا ہے.

اس سلسلے میں وارد ہونے والی ساری روایتوں کی تشریح کرنا اور تمام مسلمان فقہاء کے اقوال کا جائزہ لینا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے اس کام کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے۔اسلامی فقہ کا دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ شریعت کے بہت سے قوانین ایسے ہیں جو ایکمضبوط حکومت کے بغیر نافذ

____________________

(۱) علل الشرائع باب ۱۸۲ حدیث نمبر۹ ص ۲۵۳

۱۴۴

نہیں کئے جاسکتے ہیں

اسلام ہمیں جہاد اور دفاع کرنے ، ظالم سے انتقام لینے اور مظلوم کی حمایت کرنے، شرعی حدود اور تعزیرات جاری کرنے، امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دینے، ایک مالی نظام برقرار کرنے اور اسلامی معاشرے میں وحدت قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ اہداف ایک مضبوط نظام اور حکومت کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے کیونکہ شریعت کی حمایت اور اسلام سے دفاع کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی طاقتور فوج تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اور اسی طرح فرائض کی پابندی اور گناہوں سے دوری کے لئے حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا اور ظالموں سے مظلوموں کا حق لینا ایک حکومت اور نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر قوی حکومت نہ پائی جاتی ہو تو معاشرہ فتنہ اور آشوب کی آماجگاہ بن جائے گا اگرچہ حکومت قائم کرنے کے لازمی ہونے کے سلسلے میں ہماری ان دلیلوں کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں لیکن ان دلیلوں ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دین سیاست سے جدا نہیں ہے بلکہ شریعت کے قوانین کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرنا ایک لازمی امر ہے جو کہ اس دنیا میں پائے جانے والے ہر اسلامی معاشرہ کے لئے ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

۱۴۵

بائیسواں سوال

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟

جواب: تفسیر، تاریخ اور روایات کی کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف شیعہ ہی یہ نظریہ نہیں رکھتے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سارے مسلمان محققین چاہے وہ کسی بھی اسلامی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، اسی نظرئیے کو قبول کرتے ہیں

اب ہم قرآن مجید، احادیث اور مشہور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں اس مسئلے کے دلائل کو بیان کریں گے :

قرآن مجید کی ایک اصل یہ ہے کہ اس نے ایک انسان کی نسل سے پیدا ہونے والی اولاد کو اسی انسان کی اولاد قرار دیا ہے اس اعتبار سے ایک انسان کی بیٹی یا اس کے بیٹے سے پیدا ہونے والی اولاد قرآن مجید کی نگاہ میں اس انسان کی اولاد ہے.

قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس حقیقت کے متعلق بہت سے شواہد موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔مندرجہ ذیل آیت میں قرآن مجید نے حضر ت عیسیٰ ـ کو حضرت ابراہیم ـ کی اولاد میں شمار کیاہے جبکہ حضرت عیسیٰ ـ حضرت مریم کے بیٹے ہیں اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم ـ تک پہنچتا ہے:

(وَوَهَبْنَا لَهُا ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا هَدَیْنَا وَنُوحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِ الْمُحْسِنِینَ ٭ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی )( ۱ )

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب دیئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھرابراھیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ، اور ہارون قراردئیے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں اور (اسی طرح ابراہیم کی اولاد میں سے) زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ ہیں .مسلمان علماء اس آیۂ شریفہ کو اس بات پر شاہد قرار دیتے ہیں کہ امام حسن اور امام حسین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولاد اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں نمونے کے طور پر ہم

____________________

(۱)سورہ انعام آیت : ۸۴ اور ۸۵

۱۴۶

یہاںان علماء میں سے ایک عالم کے کلام کو پیش کرتے ہیں :

جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :

''أرسل الحجاج اِلی یحییٰ بن یعمر فقال: بلغنى أنک تزعم أن الحسن والحسین من ذریة النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تجده فى کتاب اللّه و قد قرأته من أوله اِلیٰ آخره فلم أجده قال : ألست تقرأ سورة الانعام (وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ) حتی بلغ یَحْیَیٰ وَعِیسَیٰ ؟ قال بلیٰ قال: ألیس عیسیٰ من ذریة اِبراهیم و لیس له أب؟ قال: صدقتَ'' ( ۱ )

حجاج نے یحییٰ بن یعمرکے پاس پیغام بھیجا اور ان سے یہ کہا :مجھے خبر ملی ہے کہ تم یہ گمان کرتے ہو کہ حسن اور حسین نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں کیا تم نے اس بات کو کتاب خدا سے حاصل کیا ہے جبکہ میں نے قرآن مجید کو اول سے آخرتک پڑھا ہے لیکن میں نے کوئی ایسی بات اس میں نہیں دیکھی ہے.

یحییٰ بن یعمر نے کہا کیا تم نے سورہ انعام نہیں پڑھا ہے جس میں یہ ہے''وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ '' یہاں تک کہ خدا فرماتا

____________________

(۱)تفسیر در المنثور جلد۳ ص۲۸ طبع بیروت سورہ انعام کی ۸۴ اور ۸۵ آیت کی تفسیر کے ذیل میں

۱۴۷

ہےو یَحْیَی وَعِیسَی ؟''حجاج نے کہا کیوں نہیں پڑھی ہے یحییٰ نے کہا کیا حضرت عیسیٰ ـ حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے نہ تھے جب کہ ان کا کوئی باپ نہ تھا (اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے) حجاج نے جواب میں کہا کہ تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو

مذکورہ آیت اور مفسرین کے اقوال سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ نہ صرف شیعہ بلکہ تمام مسلمان علماء امام حسن اور امام حسین کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت اور اولاد سمجھتے ہیں

۲۔ اس قول کے صحیح ہونے پر ایک بہت ہی واضح دلیل آیہ مباہلہ ہے اب ہم اس آیت کو مفسرین کے اقوال کے ساتھ پیش کرتے ہیں :

(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَاَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲِ عَلَی الْکَاذِبِین )( ۱ )

(اے پیغمبر)علم کے آجانے کے بعد جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے بیٹوں ، اپنی اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں

____________________

(۱) سورہ آل عمران آیت : ۶۱

۱۴۸

مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت ''مباہلہ'' کے نام سے مشہور ہے یہ آیت عیسائیوں کے سرداروں سے مناظرہ کرنے کے سلسلہ میں اس وقت نازل ہوئی جب وہ کٹ حجتی سے باز نہ آئے اور آنحضرت حکم خدا سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ٪کی ہمراہی میں مباھلہ کے لئے تشریف لے گئے اور جب نصاری کے بزرگوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت ٪ کی یہ شان اور ہیبت دیکھی تو وہ سب خوفزدہ ہوگئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آکر یہ التماس کرنے لگے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان پر لعنت نہ کریں آنحضرت نے ان کی درخواست قبول کر لی اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے اس قصے کو ختم کردیا شیعہ اور سنی علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ مباہلہ کے دن حضرت امیرالمومنین ، حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور

۱۴۹

حضرت امام حسین ٪ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھے اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ''ابنائنا''(یعنی ہمارے فرزند) سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد امام حسن اور ، امام حسین ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ آیہ مباہلہ نے بھی حضرت امام حسن اور امام حسین کو رسول خدا کا فرزند قرار دیا ہے

یہاں پر اس نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مفسرین نے آیہ مباہلہ کے ذیل میں بہت سی روایات ذکر کرنے کے بعد اس قول کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض مفسرین کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف: جلال الدین سیوطی نے حاکم، ابن مرودیہ ،اور ابونعیم سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے : وہ کہتے ہیں :( أنفسنا و أنفسکم )رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علی ،''ابنائنا''الحسن والحسین و ''نسائنا ''فاطمه.( ۱ )

(انفسنا)''(یعنی ہماری جانوں ) سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی ـ ہیں اور (ابنائنا)(یعنی ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین ہیں اور(نسائنا)(ہماری عورتوں ) سے مراد فاطمہ زہرا ہیں

ب:فخر رازی اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :

واعلم ان هذه الروایة کالمتفق علیٰ صحتها بین اهل التفسیر والحدیث ( ۲ )

جان لو کہ یہ روایت ایسی حدیث ہے کہ جس کے صحیح ہونے پر اہل تفسیر اور اہل حدیث کااتفاق ہے۔

اور پھر اس کے بعد یوں کہتے ہیں

''المسألة الرابعة: هذه الآیة دالة علی أن الحسن والحسین کانا ابن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وعد أن یدعوا أبنائه فدعا الحسن والحسین فوجب أن یکون ابنیه'' ( ۳ )

____________________

(۱) تفسیر در المثور جلد ۲ ص ۳۹ طبع بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

(۳)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

۱۵۰

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن اور حسین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے طے یہ ہوا تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بیٹوں کو بلائیں پس آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسن و حسین ہی کو بلایا تھا پس یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دونوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے ہیں ۔

ج:ابو عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ :

(أبنائنا)دلیل علیٰ أن أبناء البنات یسمون أبناء اً .( ۱ )

کلمہ ابنائنا دلیل ہے کہ بیٹی سے ہونے والی اولاد بھی انسان کی اولاد کہلاتی ہے۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال شاہد ہیں کہ امام حسن اور امام حسین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے.یہاں پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صرف دو اقوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسن اور حسین کے متعلق فرماتے ہیں :

هذان ابناى مَن أحبهما فقد أحبن .( ۲ )

حسن اور حسین میرے دو فرزند ہیں جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی

ب:پیغمبر اسلام نے حسن اور حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

ان بنّى هٰذین ریحانتى من الدنیا .( ۳ )

میرے یہ دو بیٹے اس دنیا سے میرے دو پھول ہیں

____________________

(۱)الجامع لاحکام القرآن جلد ۴ ص ۱۰۴طبع بیروت.

(۲)تاریخ مدینہ دمشق مصنفہ ابن عساکر ترجمة الامام الحسین ـ ص۵۹حدیث ۱۰۶طبع اول بیروت ۰ ۱۴۰ھ.

(۳)گذشتہ حوالہ ص۶۲ حدیث نمبر ۱۱۲.

۱۵۱

تیئیسواں سوال

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟

جواب: یہ واضح ہے کہ اسلام ایک ہمیشہ رہنے والا عالمی دین ہے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں آپ ہی امت کے رہبر اور ہادی تھے لیکن آپ کی رحلت کے بعد ضروری تھا کہ جو سب سے زیادہ لائق فرد ہو اسے امت اسلامیہ کی رہبری سونپ دی جائے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلیفہ، نص کے ذریعہ معین کیا جائے گا(یعنی خدا اور رسول ہی اپنا خلیفہ معین فرمائیں گے )یا یہ کہ خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے ؟ اس سلسلہ میں چند نظریے پائے جاتے ہیں شیعوں کا اعتقاد ہے کہ منصب خلافت نص کے ذریعہ معین ہوتا ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی جانب سے معین کیا جائے

جب کہ اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ منصب خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے اور ضروری ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت، مملکت کے امور کو چلانے کے لئے کسی ایک شخص کو خلیفہ چن لے.

۱۵۲

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے.

شیعہ علماء نے عقائد کی کتابوں میں خلیفہ کے نص کے ذریعہ معین کئے جانے کے بارے میں بہت سے دلائل بیان کئے ہیں لیکن وہ دلیل جسے یہاں بیان کیا جاسکتا ہے اور جس سے شیعوں کا عقیدہ بھی واضح ہوجاتا ہے وہ عصر رسالت کے حالات کا صحیح تجزیہ ہے.

عصر رسالت میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست کا یہ تقاضا تھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی طرف سے خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ معین کیا جائے کیونکہ مسلمانوں کو ہر لحظہ تین بڑی طاقتوں (روم کی سلطنت، ایران کی بادشاہت اور منافقین حجاز کی سازشوں ) کی طرف سے شکست اور نابودی کا خطرہ لاحق تھا اسی طرح امت کی کچھ مصلحتیں بھی تقاضا کررہی تھیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا خلیفہ معین کر کے ساری امت کو بیرونی دشمن کی طاقت کے مقابلے میں ایک صف میں کھڑا کردیں اور اس طرح ملت اسلامیہ کو ان داخلی اختلافات سے بچالیں جن سے دشمنوں کے نفوذ اور تسلط کا موقع فراہم ہوسکتا ہے

اس کی وضاحت

ان تین خطرناک طاقتوں میں سے ایک طاقت روم کی بادشاہی تھی جس سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی زندگی کے آخری لمحات تک فکر مند رہے ہجرت کے آٹھویں سال فلسطین کی سرزمین پرمسلمانوں اور روم کے عیسائیوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی تھی اس جنگ میں اسلامی فوج کے تین کمانڈر ''جعفر طیار'' ''زید بن حارثہ''اور ''عبداللہ بن رواحہ'' شہید ہوئے تھے اور سپاہ اسلام کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا

۱۵۳

کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی اس شکست سے قیصر روم کی فوج کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ہر وقت اس بات کاڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ اسلام کے مرکزی علاقوں پر حملہ آور نہ ہوجائیں

اسی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے نویں سال مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کو شام کے اطراف میں بھیجا تھا اور ارادہ یہ تھا کہ اگر جنگ کی نوبت آگئی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود لشکر اسلام کی رہبری فرمائیں گے اس درد و رنج والے سفر میں سپاہ اسلام نے اپنی سابقہ شوکت پھر سے حاصل کی اور اسے اس کا سیاسی مقام و منصب دوبارہ مل گیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فتح کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیماری سے چند دن پہلے مسلمانوں کی فوج کو ''اسامہ'' کی قیادت میں شام کی طرف جانے کا حکم دیا.

عصر رسالت میں مسلمانوں کی دوسری دشمن طاقت ایران کی بادشاہی تھی یہاں تک کہ ایران کے بادشاہ نے انتہائی غصے سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خط کو پھاڑ دیا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کو توہین کے ساتھ باہر نکال دیا تھا اور نیز یمن کے گورنر کو خط لکھا تھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرفتار کرلے اورممانعت کی صورت میں انہیں قتل کرڈالے

۱۵۴

اگرچہ ایران کا بادشاہ خسرو پرویز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے ہی میں مر گیا تھا لیکن مدتوں سے ایران کے زیر اقتدار رہنے والے ملک یمن کا مسلمانوں کے ذریعہ استقلال حاصل کرلینا ایرانی بادشاہوں کو شدید ناگوار گزرا اس وجہ سے ایران کی سطوت شاہی کے لئے اسلام کی طاقت کو پھلتا پھولتا دیکھنا برداشت کے قابل نہیں تھا

مسلمانوں کو تیسرا خطرہ منافقین کے گروہ سے تھا منافقوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے ذریعہ فتنہ و فساد پیدا کریں ان لوگوں کے نفاق اور کینہ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تبوک سے مدینہ کے راستے میں حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے اسلام کی تحریک ختم ہوجائے گی اور وہ لوگ آسودہ خاطر ہوجائیں گے منافقین کے عزائم اور ان کی سازشوں کو آشکار کرنے کے لئے قرآن مجید نے ان سورتوں : آل عمران ، نساء ، مائدہ، انفال ، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح،مجادلہ، حدید، منافقین اور حشر میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے.( ۱ )

اسلام کے ایسے سرسخت اور خطرناک دشمنوں کی موجودگی میں کیا یہ صحیح تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تازہ مسلمانوں کے دینی اور سیاسی امور کی رہبری کے لئے اپنا کوئی جانشین معین نہ فرماتے؟

اس وقت کے اجتماعی حالات کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ضروری تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد اپنا جانشین معین کرکے ہر قسم کے اختلاف کا سد باب کردیتے اور ایک مستحکم دفاعی نظام تشکیل دیتے ہوئے اسلامی وحدت کو دوام بخشتے اگر

____________________

(۱)فروغ ابدیت ، مولف استاد جعفر سبحانی(اقتباس)

۱۵۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا کوئی خلیفہ معین نہ فرماتے تو عالم اسلام کو شدید قسم کے ناگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجة ہر گروہ یہ کہنے لگتا کہ خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہئے.

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں

اجتماعی حالات کے تقاضوںاور چند دوسری وجوہات کی بنیاد پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اول بعثت سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنی جانشینی کے مسئلے کو بیان فرمایا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ میں جہاں اپنی رسالت کا اعلان فرمایا وہیں اپنے جانشین کو بھی معین فرما دیا تھا اور اسی طرح اپنی زندگی کے آخری ایام میں حجة الوداع سے لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں اپنے جانشین کا اعلان فرمایا تھا اورنہ صرف ان دو مقامات پر بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی ساری زندگی کے دوران مختلف مقامات پر اپنے جانشین کی شناخت کراتے رہے مزید تفصیلات کے لئے اسی کتاب میں تیسرے سوال کے جواب کا مطالعہ فرمائیں ہم نے وہاں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثوںکے تین ایسے نمونے ذکر کئے ہیں جن میں آنحضرت کے جانشنین کا تذکرہ ہے وہاں ہم نے ان حدیثوں کے ماخذ بھی ذکر کئے ہیں

صدر اسلام کے حالات اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان حدیثوں (جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے) کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ خلیفہ خدا و رسول ہی کی طرف سے معین ہوتا ہے۔

۱۵۶

چوبیسواں سوال

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟

جواب: لفظ توحید اور شرک کے معنی جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی آیات اورحدیثوںکا مطالعہ کیا جائے کیونکہ قرآن مجید اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق کو باطل سے اور توحید کو شرک سے جدا کرنے کا بہترین معیار ہیں

اس بنیاد پر بہتر ہے کہ ہر قسم کے نظریہ اور عمل کو قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روشنی میں زندہ اور بے تعصب ضمیر کے ساتھ پرکھیں اب ہم یہاں پر قرآن و سنت سے غیر خدا کی قسم کھانے کے جائز ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے :

۱۔قرآن مجید میں چند محترم مخلوقات جیسے''پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''اور ''روح انسان'' ''قلم'' ''سورج'' ''چاند'' ''ستارے'' ''دن اور رات'' ''آسمان اور زمین'' ''زمانے'' ''پہاڑ اور سمندر'' وغیرہ کی قسم کھائی گئی ہے یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

الف: (لَعَمْرُکَ ِانَّهُمْ لَفِى سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ حجر آیت ۷۲

۱۵۷

(پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !) آپ کی جان کی قسم یہ لوگ اپنی خواہش نفس کے نشے میں اندھے ہورہے ہیں

ب: (وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ ِاذَا تَلاَهَا وَالنَّهَارِ اِذَا جَلاَّهَا وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشَاهَا وَالسَّمَائِ وَمَا بَنَاهَا وَالَْرْضِ وَمَا طَحَاهَا وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ... )( ۱ )

آفتاب اور اس کی روشنی کی قسم. اور چاند کی قسم جب وہ اس کے پیچھے چلے. اور دن کی قسم جب وہ روشنی بخشے.اور رات کی قسم جب وہ اسے ڈھانک لے اور آسمان کی قسم اور جس نے اسے بنایا. اور زمین کی قسم اور جس نے اسے بچھایا اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا. پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے.

ج: (وَالنَّجْمِ اِذَا هَوَی )( ۲ )

قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا.

د: (وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ )( ۳ )

____________________

(۱)سورہ شمس آیت ۱ تا ۸

(۲)سورہ نجم آیت:۱

(۳)سورہ قلم آیت:۱

۱۵۸

ھ: (وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنسَانَ لَفِى خُسْرٍ )( ۱ )

قسم ہے عصر کی بے شک انسان خسارے میں ہے.

و: (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ )( ۲ )

قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی.

ز: (وَالطُّورِ وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ فِى رَقٍّ مَنْشُورٍ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِة وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُور )( ۳ )

طور کی قسم. اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم جو کشادہ اوراق میں ہے اور بیت معمور کی قسم اور بلند چھت (آسمان)کی قسم. اور بھڑکتے ہوئے سمند ر کی قسم.

اسی طرح ان سورتوں '' نازعات'' ''مرسلات '' ''بروج'' ''طارق'' ''بلد'' ''تین'' ''ضحی'' میں بھی دنیا کی مختلف اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں

اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہوتا تو اس قرآن مجید میں جو توحید کا مظہر ہے ، ہر گز غیر خدا کی قسمیں نہ کھائی جاتیں اور اگر اس قسم کی قسمیں کھانا صرف خداوند کی

____________________

(۱)سورہ عصر آیت ۱ ا ور۲.

(۲)سورہ فجر آیت : ۱ اور ۲.

(۳)سورہ طور آیت نمبر ۱ سے ۶ تک.

۱۵۹

خصوصیات میں سے ہوتا تو قرآن مجیدمیں ضرور اس بات کی طرف متوجہ کرادیا جاتا تاکہ بعدمیں کسی کو دھوکہ نہ ہو

۲۔دنیا کے سارے مسلمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے لئے اسوہ عمل سمجھتے ہیں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو حق اور باطل کی شناخت کے لئے میزان قرار دیتے ہیں

عالم اسلام کے محققین اور اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں کے مؤلفین نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی ایسی قسموں کو نقل کیا ہے جو حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غیر خدا کے نام سے کھائی تھیں.

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں روایت کی ہے :

''فلعمر لأن تتکلم بمعروف و تنهیٰ عن منکر خیر من أن تسکت'' ..( ۱ )

میری جان کی قسم ! تمہارے خاموش رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ تم امر بمعروف اور نھی از منکر کرو.

مسلم بن حجاج کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے کہ :

جاء رجل اِلی النبى فقال: یا رسول اللّه أّ الصدقة أعظم أجرًا؟ فقال: أما و أبیک لتنبأنّه أن تصدق و أنت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمل البقائ .....( ۲ )

____________________

(۱)مسند احمد جلد ۵ ص ۲۲۴ اور ۲۲۵ حدیث بشیر ابن خصاصیہ سدوسی.

(۲)صحیح مسلم، جزء سوم ، طبع مصر ، کتاب الزکاة، باب بیان ان افضل الصدقة ، صدقة الصحیح الشحیح، ص ۹۳ اور ۹۴

۱۶۰