شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں13%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95396 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ایک شخص نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کو نسا صدقہ زیادہ اجر رکھتا ہے ؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ کی قسم یقینا تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ( سب سے زیادہ اجر والا صدقہ) یہ ہے کہ تم صحت مندی، آرزوئے حیات ، خوف فقر اور امید بقاء کے ساتھ صدقہ دو .جو لوگ دنیا کے اکثر مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے مشرک سمجھتے ہیں کہ وہ سب غیر خدا کی قسم کھاتے ہیں تو وہ پیغمبر خدا کے اس عمل کی کیا تاویل کریں گے ؟

۳۔کتاب خدا اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتہائی قریبی اور متعبر اصحاب کی سیرت بھی اس عمل کے جائز ہونے کی بہترین دلیل ہے

عالم اسلام کے عظیم الشأن رہبر حضرت علی بن ابی طالبـ نے اپنے بہت سے گہربار خطبوں اور بیانات میں اپنی جان کی قسم کھائی ہے وہ فرماتے ہیں :

ولعمر لیضعفن لکم التیه من بعد أضعافا ( ۱ )

میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سرگردانی کئی گنا بڑھ جائے گی ۔

ایک جگہ اور فرماتے ہیں :

''ولعمر لأن لم تنزع عن غیک و شقاقک لتعرفنهم عن قلیل یطلبونک'' ( ۲ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ (محمد عبدہ) خطبہ نمبر ۱۶۱.

(۲)نہج البلاغہ (محمد عبدہ) مکتوب نمبر ۹.

۱۶۱

میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اور شقاوت سے دست بردار نہ ہوئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ وہ لوگ تمہیں بھی ڈھونڈ لیں گے.( ۱ )

اب واضح ہے کہ ان سب روایات کے مقابلے میں اجتہاد اور استحسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور کوئی بھی دلیل قرآن مجید کی آیتوں، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت اور معتبر صحابہ کی سیرت کو غلط قرار نہیں دے سکتی اور نہ ہی ان کی طرف شرک کی نسبت دے سکتی ہے.

نتیجہ:گزشتہ دلائل کے مجموعے سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن و سنت اور مومنین کی سیرت کے اعتبار سے غیر خدا کی قسم کھانا ایک جائز اور مسلم اصل کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی بھی طرح عقیدہ توحید سے نہیں ٹکراتا

لہذا اگر کوئی روایت ظاہری طور پر ان یقینی دلیلیوں کی مخالفت کرے تو اس کی تاویل کرنی چاہیے تاکہ وہ قرآن و روایات کی مسلم اصل کے موافق ہوجائے

بعض اوقات ایک ایسی مبہم سی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جس میں اس عمل کی مخالفت کی گئی ہے یہاں ہم اس روایت کو اسکے جواب کے ساتھ بیان کرتے ہیں :

اِن رسول اللّٰه سمع عمر و هو یقول : وأبى،فقال: اِن اللّٰه ینهاکم أن تحلفوا بآبائکم و من کان حالفاً فلیحلف باللّه أو یسکت ( ۲ )

____________________

(۱)اور زیادہ موارد کی آگاہی کے لئے خطبہ نمبر ۱۶۸،۱۸۲،اور ۱۸۷ اورمکتوب نمبر ۶ اور ۵۴ کی طرف رجوع فرمائیے.

(۲)سنن الکبری ، جلد ۱۰ ص ۲۹ اور سنن نسائی جلد۷ صفحہ نمبر۵ اور ۶.

۱۶۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنامیرے باپ کی قسم (یہ سن کر) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا خداوند کریم نے تم لوگوں کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے اور جسے قسم کھانا ہو وہ خدا کی قسم کھائے یا پھر چپ رہے

اگرچہ یہ حدیث قرآن کی ان آیات اور روایات کے مقابلے میں جو غیر خدا

کی قسم کھانے کو جائز قرار دیتی ہیں ، کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن پھر بھی اس حدیث کو آیات اور روایات کے ہمراہ لانے کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر اور ان جیسے افراد کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے اس لئے روکا تھا کہ ان کے باپ مسلمان نہیں تھے اور غیر مسلموں کی قسمیں نہیں کھائی جاسکتیں۔

۱۶۳

پچیسواں سوال

کیا اولیائے خدا سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے؟

جواب:توسل کے معنی یہ ہیں کہ تقرب الہی کے لئے کسی محترم مخلوق کو اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ قرار دیا جائے

ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں :

''توسّل اِلیه بکذا ، تقرب اِلیه بحرمة آصرة تعطفه علیه'' ( ۱ )

اس نے فلان چیز کے ذریعہ اس شخصیت سے توسل کیا یعنی اس نے اس چیز کی حرمت کے ذریعہ اس ذات سے قربت اختیار کی جب کہ اس کی حرمت سے اپنی قلبی محبت کو اپنے اندر محسوس کیا

قرآن مجید فرماتا ہے:

____________________

(۱)لسان العرب، جلد ۱۱ ص ۷۳۴

۱۶۴

(یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا ﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ وَجَاهِدُوا فِى سَبِیلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ )( ۱ )

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ

جوہری ''صحاح اللّغة'' میں ''وسیلہ'' کی تعریف کو یوں بیان کرتے ہیں :

''الوسیلة ما یتقرّب به الی الغیر''

وسیلہ ایسی چیز ہے جسکے ذریعہ کسی دوسرے کے قریب ہوا جائے اس اعتبار سے بعض اوقات انسان کے نیک اعمال اور خدا کی خالص عبادت اس کیلئے وسیلہ بنتے ہیں اور کبھی کبھی خدا کے محترم اور مقدس بندے انسان کے لئے وسیلہ قرار پاتے ہیں

توسل کی قسمیں

توسل کی تین قسمیں ہیں :

۱۔نیک اعمال سے توسل؛

جلال الدین سیوطی نے اس آیت (وَابْتَغُوا ِالَیْهِ الْوَسِیلَةَ ) کے ذیل میں اس روایت کا ذکرکیا ہے:

عن قتادة ف قوله تعالیٰ ''وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ'' قال : تقرّبوا اِلی اللّه بطاعته والعمل بما یرضیه ( ۱ )

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت:۳۵.

(۲)تفسیر درالمنثور جلد۲ ص ۲۸۰مطبوعہ بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں

۱۶۵

(وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ )اس آیت کے متعلق قتادة کا بیان ہے کہ خدا کی اطاعت اور اس کو خوشنود کرنے والے عمل کے ذریعہ خدا سے قربت اختیار کرو

۲۔خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے توسل !

قرآن مجید نے جناب یوسفـ کے بھائیوں اور جناب یعقوب کی گفتگو کو یوں بیان کیا ہے :

(قَالُوا یَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَاا ِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّى اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ )( ۱ )

ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کیلئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے انہوں نے کہاکہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے

اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب یعقوب ـ کے بیٹوں نے اپنے والد کی دعا اور ان کے استغفار سے توسل کیا تھا حضرت یعقوب ـ نے بھی نہ صرف ان کے توسل پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ان سے وعدہ بھی کیا کہ وہ ان کے حق میں دعا اور استغفار کریںگے

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت نمبر ۹۷ اور ۹۸.

۱۶۶

۳۔قرب الہی کے حصول کیلئے خداوند کریم کے محترم اور مقدس بندوں سے توسل:

اس قسم کے توسل کی مثالیں، اوائل اسلام میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی سیرت میں دکھائی دیتی ہیں اب ہم یہاں اس مسئلے کی دلیلوں کو احادیث اور سیرت

صحابہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں

احمدابن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں عثمان بن حنیف سے یہ روایت نقل کی ہے :

اِن رجلاً ضریر البصر أتی النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال ادع اللّه أن یعافینى قال: اِن شئت دعوت لک و اِن شئت أخرت ذاک فهو خیر فقال ادعه فأمره أن یتوضأ فیحسن وضوئه فیصلى رکعتین و یدعو بهذا الدعائ: اللّهم اِنىّ أسئلک و أتوجه اِلیک بنبیک محمدٍ نبّى الرحمة یا محمد اِنىّ توجّهت بک اِلیٰ ربىّ فى حاجتى هذه ، فتقض لى اللّهم شفّعه فّى .( ۱ )

ایک نابینا شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے شفا بخشے آنحضرت نے فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہارے لئے دعا کرتا

____________________

(۱)مسند احمد بن حنبل ، جلد ۴ ص ۱۳۸ روایات عثمان بن حنیف ،مستدرک حاکم ؛ جلد ۱ کتاب صلوة التطوع

طبع بیروت ۳۱۳،سنن ابن ماجہ جلد ۱ ص ۴۴۱طبع دار احیاء الکتب العربیہ، ''التاج '' جلد ۱ ص ۲۸۶،الجامع الصغیر (سیوطی) ص ۵۹،التوسل و الوسیلہ (ابن تیمیہ) ص ۹۸طبع بیروت.

۱۶۷

ہوں لیکن اگر چاہو تو اس سلسلے میں کچھ تاخیر کردی جائے اور یہی بہتر بھی ہے اس نے عرض کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دعا فرمادیں تو پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس شخص کو حکم دیا کہ وہ وضو کو اچھے طریقے سے انجام دے اور پھر دو رکعت نماز بجا لائے اور یہ دعا پڑھے :اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں تیرے پیغمبر نبی رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وسیلے سے اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آپکے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ آپ میری حاجت کو قبول فرمائیں اے معبود ان کو میرے لئے شفیع قرار دے.

محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک میں اس حدیث کا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ'' یہ ایک صحیح حدیث ہے'' ابن ماجہ نے بھی ابو اسحاق سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ :'' یہ روایت صحیح ہے'' اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب ''ابواب الادعیہ'' میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی تائید کی ہے ''محمد بن نسیب الرفاعی '' نے بھی اپنی کتاب ''التوصل الی حقیقة التوسل'' میں یوں بیان کیا ہے

لاشک اِن هذا الحدیث صحیح و مشهور ...و قد ثبت فیه بلا شک ولاریب ارتداد بصر الأعمی بدعاء رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۱ )

____________________

(۱)التوصل الی حقیقة التوسل ص ۱۵۸ طبع بیروت.

۱۶۸

بے شک یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے...بہ تحقیق اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے نتیجے میں اس اندھے شخص کی بصارت لوٹ آئی تھی اس حدیث سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ حاجات کے لئے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وسیلہ بنا کر ان سے توسل کرنا ایک جائز عمل ہے کیونکہ رسول خدا نے اس نابینا شخص کو حکم دیا تھا کہ وہ اس طرح دعا کرے اور حضور(ص) کو اپنے اور پروردگار کے درمیان وسیلہ قرار دے اس طرح یہ حدیث اولیائے الہی سے توسل کو ثابت کرتی ہے

۲۔ابوعبداللہ بخاری کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے :

اِن عمربن الخطاب رضى اللّه عنه کان اِذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبدالمطلب فقال : اللّهم اِن کنّا نتوسّل اِلیک بنبیّنا فتسقینا و اِنّا نتوسّل اِلیک بعمّ نبیّنا فاسقنا: قال، فیُسقون .( ۱ )

جب قحط پڑتا تھا تو عمر ابن خطاب ہمیشہ عباس ابن عبدالمطلب کے وسیلے سے بارش کیلئے دعا کرتے تھے اور کہتے تھے ''خدایا ! پیغمبر کے زمانے میں ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متوسل ہوتے تھے اور تو ہم پر بارش نازل کرتا تھا اب ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا کے وسیلے سے تجھ

____________________

(۱)صحیح بخاری جز ۲ کتاب الجمعہ باب الاستسقاء ص ۲۷ طبع مصر.

۱۶۹

سے توسل کررہے ہیں تاکہ تو ہمیں سیراب کردے '' چنانچہ اس طرح وہ سیراب کردئیے جاتے تھے.

۳۔صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان اولیائے الہی سے توسل اس حد

تک رائج تھا کہ وہ لوگ اپنے اشعار میں بھی حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وسیلہ ہونے کا تذکرہ کرتے تھے بطور مثال سواد ابن قارب کا یہ قصیدہ ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدح سرائی کی ہے :

واشهد أن لاربّ غیره

وأنک مأمون علیٰ کل غالب

و أنک أدنیٰ المرسلین وسیلة

اِلی اللّه یابن الأکرمین الأطائب( ۱ )

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر پوشیدہ چیز کے لئے امین ہیں اور اے مکرم اور پاک طینت افراد کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام نبیوں کے درمیان پروردگار کا نزدیک ترین وسیلہ ہیں

پیغمبر خدا نے سواد بن قارب سے یہ قصیدہ سنا تھا لیکن اس کے اشعار پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور نہ ہی سواد کے اس کام کو شرک و بدعت قرار دیا تھا

امام شافعی نے بھی اپنے ان اشعار میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے :

آل النبّى ذریعت

هم الیه وسیلت

أرجوبهم أعطی غدًا

بید الیمین صحیفت( ۲ )

____________________

(۱) الدر السنیہ ،مؤلفہ سید احمد بن زینی دحلان ص ۲۹ طبرانی سے نقل کرتے ہوئے.

(۲)الصواعق المحرقہ ،مؤلفہ ابن حجر عسقلانی ص ۱۷۸طبع قاہرہ.

۱۷۰

پروردگار تک پہنچنے کے لئے پیغمبر کی آل میرے لئے وسیلہ ہیں میں ان کی وجہ سے امیدوار ہوں کہ میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا.

اولیائے الہی سے توسل کے جائز ہونے کے سلسلے میں بہت سی روایات آئی ہیں اور انہی روایات کی روشنی میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابہ اور علمائے اسلام کا اس موضوع سے متعلق نظریہ معلوم ہوجاتا ہے اور مزید گفتگو کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ہے ۔ ہمارے اسی بیان سے ان لوگوں کا یہ کلام کہ خدا کے محترم بندوں سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے ، باطل ہوجاتا ہے ۔

۱۷۱

چھبیسواں سوال

کیا اولیائے خدا کی ولادت کے موقع پر جشن منانا بدعت یا شرک ہے؟

جواب:خدا کے نیک بندوں کی یاد منانا اور ان کی ولادت کے موقعے پر جشن منانا ، عقلاء کی نظر میں ایک واضح مسئلہ ہے لیکن پھر بھی ہم اس عمل کے جائز ہونے کی دلیلیں اس لئے پیش کررہے ہیں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہ جائے.

۱۔ان کی یاد منانے میں محبت کا اظہار ہوتا ہے.

قرآن مجید نے مسلمانوں کو پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت٪ سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے:

(قُلْ لاَاسْءَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبَیٰ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ شوریٰ آیت :۲۳

۱۷۲

(اے پیغمبر)آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو

اس میں شک نہیں ہے کہ مسلمان اولیاء خد اکی یاد منا کر ان سے اپنی اس

محبت و الفت کا اظہار کرتے ہیں جس کا حکم قرآن مجید نے دیا ہے.

۲۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد منانا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم کا اظہار ہے

قرآن مجید نے رسول خدا کی نصرت کرنے کے علاوہ آپ کے احترام کو بھی کامیابی اور سعادت کا معیار قرار دیا ہے.

(فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى ا ُنزِلَ مَعَهُا ُوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُون )( ۱ )

پس جو لوگ پیغمبر پر ایمان لائے اور ان کا احترام کیا، ان کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کیا جو ان کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں

گزشتہ آیت کی روشنی میں بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام انتہائی پسندیدہ کام ہے اور ان کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنے اور ان کے بلند مقام کی تعظیم کے لئے جشن منانا خداوندعالم کی خوشنودی کا باعث بنتا ہے کیونکہ اس آیت میں

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت: ۱۵۷

۱۷۳

فلاح یافتہ لوگوں کے لئے چار صفات ذکر کی گئی ہیں :

الف:ایمان(الَّذِینَ آمَنُوا بِه ) وہ لوگ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے.

ب:ان کے نور کی پیروی (وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى اُنزِلَ مَعَهُ ) اور اس نور کی پیروی کی جو ان کے ساتھ نازل ہوا.

ج:ان کی نصرت کرنا (وَنَصَرُوہ) اورانہوں نے ان کی نصرت کی.

د:پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم(وَعَزَّرُوه ) اور ان کا احترام کیا.

اس اعتبارسے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانے اور ان کی نصرت کرنے اور ان کے دئیے ہوئے احکام کی پیروی کرنے کے علاوہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم بھی ایک ضروری امر ہے اس لحاظ سے حضور سرورکائناتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد کو باقی رکھنا ''وَعَزَّرُوہُ'' کے امر کا امتثال ہے.

۳۔انکی یاد منانے میں خداوندعالم کی پیروی ہے.

خداوندعالم قرآن مجید میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَ رَفَعْنٰا لَکَ ذِکْرَکَ )( ۱ )

اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کردیا.

اس آیت کی روشنی میں معلوم ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم یہ چاہتا ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)سورہ انشراح آیت ۴

۱۷۴

کی عظمت و جلال کو اس دنیا میں پھیلا دے اور خود ذات کردگار نے بھی قرآن مجید میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم کی ہے اس لئے ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ اسوہ کمال و فضیلت ہیں کی یاد منا کر ان کی تعظیم کرتے ہیں .اور اس طرح پروردگار عالم کی پیروی کرتے ہیں

واضح ہے کہ مسلمانوں کا ان محافل کو منعقد کرنے کا مقصد پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذکر کو بلند کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے.

۴۔وحی کا نازل ہونا دسترخوان کے نازل ہونے سے کم نہیں ہے

قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ ـ کی دعا کو یوں بیان کیا ہے:

(قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللهُمَّ رَبَّنَا اَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَائِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِاَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ )( ۱ )

عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے خدا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرما تاکہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عید ہوجائے اور تیری طرف سے نشانی بن جائے

حضرت عیسیٰ ـ نے خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ ان پر آسمان سے ایک

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت : ۱۱۴

۱۷۵

دسترخوان نازل کیا جائے تاکہ اس کے نازل ہونے کادن ان کیلئے عید بن جائے

اب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جب خدا کے ایک نبی کی نگاہ میں دسترخوان (جس سے جسمانی لذت حاصل ہوتی ہے ) کے نازل ہونے کا دن عید ہے تو اب اگر دنیا کے مسلمان وحی کے نازل ہونے اور( پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو انسانوں کی بخشش کا ذریعہ اور حیات ابدی کا سرچشمہ ہیں ) کی ولادت با سعادت کے دن کو عید قرار دیتے ہوئے اس دن جشن منائیں اور محفلیں منعقد کریں تو کیا یہ شرک یا بدعت ہوجائے گا؟!

۵۔ مسلمانوں کی سیرت

دین اسلام کے پیرو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے مدتوں سے اس قسم کی جشن منعقد کرتے آرہے ہیں اس سلسلے میں حسین بن محمد دیاربکری اپنی کتاب ''تاریخ الخمیس'' میں یوں لکھتے ہیں :

''ولایزال أهل الاسلام یحتفلون بشهر مولده علیه السلام و یعملون الولائم و یتصدقون ف لیالیه بأنواع الصدقات و یظهرون السرور و یزیدون فى المبرات و یعتنون بقرائة مولده الکریم و یظهر علیهم من برکاته کل فضل عمیم ''( ۱ )

____________________

(۱) حسین بن محمد بن حسن دیار بکری ، تاریخ الخمیس جلد ۱ ص ۲۲۳ طبع بیروت.

۱۷۶

دنیا کے مسلمان ہمیشہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت کے مہینے میں جشن کی محفلیں منعقد کرتے ہیں اور لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اس مہینے کی راتوں میں طرح طرح کے صدقے دیتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور بہت زیادہ نیکیاں انجام دیتے ہیں وہ لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کی ولادت کی مناسبت سے قصیدے پڑھتے ہیں اور ان کی برکت سے ان پر ہر قسم کے فضل ظاہر ہوتے ہیں

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن اور مسلمانوں کی نگاہ میں اولیائے خدا کی یاد منانا ایک پسندیدہ اور جائز عمل ہے اور ساتھ ہی ساتھ اولیائے خدا کی یاد منانااور اسی طرح یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو اولیائے خدا کی یاد منانے کو شرک سمجھتے ہیں ان کا یہ دعوی بے بنیاد اور بے دلیل ہے اور اسی کے ساتھ اولیاء خدا کی یاد منانے کو بدعت سمجھنے والے لوگوں کا نظریہ بھی باطل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ فعل اس وقت بدعت قرار پاتا جب اس عمل کا جائز ہونا ، خصوصی یا عمومی طور پر قرآن وسنت سے ثابت نہ ہوتا جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کلی طور پر اس مسئلہ کا حکم موجود ہے اور مسلمانوں کی سیرت میں بھی اس کے نقوش ملتے ہیں

اسی طرح یہ محفلیں خدا کے نیک بندوں کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہوئے صرف ان کے احترام کی خاطر منعقد کی جاتی ہیں

اس اعتبار سے یہ عمل توحید سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے. اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو اولیاے خد اکی یاد منانے کو شرک سمجھتے ہیں ان کا یہ دعوی بے بنیاد اور بے دلیل ہے۔

۱۷۷

ستائیسواں سوال

شیعہ پانچ نمازوں کو تین اوقات میں کیوں پڑھتے ہیں ؟

جواب: بہتر ہے کہ اس بحث کی وضاحت کے لئے سب سے پہلے اس بارے میں فقہاء کے نظریات بیان کردئیے جائیں :

۱۔سارے اسلامی فرقے اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ میدان'' عرفات'' میں ظہر کے وقت نماز ظہر اور نماز عصر کو اکھٹا اور بغیر فاصلے کے پڑھا جاسکتا ہے اسی طرح ''مزدلفہ'' میں عشا کے وقت نماز مغرب اور عشا کو ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے

۲۔حنفی فرقہ کا کہنا ہے کہ : نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا ایک وقت میں پڑھنا صرف دو ہی مقامات ''میدان عرفات'' اور ''مزدلفہ'' میں جائز ہے اور باقی جگہوں پر اس طرح ایک ساتھ نمازیں نہ پڑھی جائیں

۱۷۸

۳۔حنبلی، مالکی اور شافعی فرقوں کا کہنا ہے کہ: نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ان گزشتہ دو مقامات کے علاوہ سفر کی حالت میں بھی ایک ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے ان فرقوں میں سے کچھ لوگ بعض اضطراری موقعوں جیسے بارش کے وقت یا نمازی کے بیمار ہونے پر یا پھر دشمن کے ڈر سے ان نمازوں کو ساتھ میں پڑھنا جائز قرار دیتے ہیں( ۱ )

۴۔شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر اور اسی طرح نماز مغرب و عشاء کے لئے ایک ''خاص وقت'' ہے اور ایک ''مشترک وقت'':

الف:نماز ظہر کا خاص وقت شرعی ظہر (زوال آفتاب) سے لیکر اتنی دیر تک ہے جس میں چار رکعت نما زپڑھی جاسکے

ب: نمازعصر کا مخصوص وقت وہ ہے کہ جب غروب آفتاب میں اتنا وقت باقی بچا ہو کہ اس میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکے.

ج:نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت نماز ظہر کے مخصوص وقت کے ختم ہونے اور نماز عصر کے مخصوص وقت کے شروع ہونے تک ہے.

شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان تمام مشترک اوقات میں نماز ظہر و عصر کو اکٹھا اور فاصلے کے بغیر پڑھ سکتے ہیں

لیکن اہل سنت کہتے ہیں : کہ نماز ظہر کا مخصوص وقت، شرعی ظہر (زوال آفتاب) سے لیکر اس وقت تک ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے اس وقت میں نماز عصر نہیں پڑھی جاسکتی اور اس کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک نماز عصر کا مخصوص وقت ہے اس وقت میں نماز ظہر نہیں پڑھی جاسکتی.

د:نماز مغرب کا مخصوص وقت شرعی مغرب کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے

____________________

(۱)''الفقه علی المذاهب الاربعه'' کتاب الصلوة الجمع بین الصلا تین تقدیمًا و تاخیرًا ، سے اقتباس

۱۷۹

کہ جس میں تین رکعت نماز پڑھی جاسکتی ہے .اس وقت میں صرف نماز مغرب ہی پڑھی جاسکتی ہے.

ھ: نماز عشاء کا مخصوص وقت یہ ہے کہ جب آدھی رات میں صرف اتنا وقت رہ جائے کہ اس میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکے تواس کوتاہ وقت میں صرف نماز عشاء ہی پڑھی جائے گی۔

و: مغرب و عشاء کی نمازوں کا مشترک وقت نماز مغرب کے مخصوص وقت کے ختم ہونے سے لے کر نماز عشاء کے مخصوص وقت تک ہے.

شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس مشترک وقت کے اندر مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے ادا کی جاسکتی ہیں لیکن اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ نماز مغرب کا مخصوص وقت غروب آفتاب سے لے کر مغرب کی سرخی زائل ہونے تک ہے اور اس وقت میں نماز عشاء نہیں پڑھی جاسکتی پھر مغرب کی سرخی کے زائل ہونے سے لیکر آدھی رات تک نماز عشاء کا خاص وقت ہے اور اس وقت میں نماز مغرب ادا نہیں کی جاسکتی.

نتیجہ:یہ نکلتا ہے کہ شیعوں کے نظرئیے کے مطابق شرعی ظہر کا وقت آجانے پر نماز ظہر بجالانے کے بعد بلافاصلہ نماز عصر ادا کرسکتے ہیں نماز ظہر کو اس وقت نہ پڑھ کر نماز عصر کے خاص وقت تک پڑھتے ہیں ۔ اس طرح کہ نماز ظہر کو نماز عصر کے خاص وقت کے پہنچنے سے پہلے ختم کردیں اور اس کے بعد نماز عصر پڑھ لیں اس طرح نماز ظہر و عصرکو جمع کیا جاسکتا ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ نماز ظہر کو زوال کے بعد ادا کیا جائے اور نماز عصر کو اس وقت ادا کیا جائے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے.

۱۸۰

اسی طرح شرعی مغرب کے وقت نماز مغرب کے بجالانے کے بعد بلا فاصلہ نماز عشا پڑھ سکتے ہیں یا پھر اگر چاہیں تو نماز مغرب کو نماز عشاء کے خاص وقت کے قریب پڑھیں وہ اس طرح کہ نماز مغرب کو نماز عشاء کے خاص وقت کے پہنچنے سے پہلے ختم کردیں اور اس کے بعد نماز عشاء پڑھ لیں اس طرح نماز مغرب و عشاء کو ساتھ میں پڑھا جاسکتا ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ نماز مغرب کو شرعی مغرب کے بعد ادا کیا جائے اور نماز عشاء کو مغرب کی سرخی کے زائل ہوجانے کے بعد بجالایا جائے یہ شیعوں کو نظریہ تھا

لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر یا مغرب و عشاء کو کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت میں ایک ساتھ ادا کرنا صحیح نہیں ہے اس اعتبار سے بحث اس میں ہے کہ کیا ہر جگہ اور ہر وقت میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں ٹھیک اسی طرح جیسے میدان عرفہ اور مزدلفہ میں دو نمازوں کو ایک ساتھ ایک ہی وقت میں پڑھا جاتا ہے

۵۔سارے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھی تھیں لیکن اس روایت کی تفسیر میں دو نظرئیے پائے جاتے ہیں :

الف: شیعہ کہتے ہیں کہ اس روایت سے مراد یہ ہے کہ نماز ظہر کے ابتدائی وقت میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد نماز عصر کو بجالایا جاسکتا ہے اور اسی طرح نماز مغرب کے ابتدائی وقت میں مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد نماز عشا کو پڑھا جاسکتا ہے اور یہ مسئلہ کسی خاص وقت اور کسی خاص جگہ یا خاص حالات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر جگہ اور ہر وقت میں ایک ساتھ دونمازیں ادا کی جاسکتی ہیں

۱۸۱

ب:اہل سنت کہتے ہیں مذکورہ روایت سے مراد یہ ہے کہ نماز ظہر کو اس کے آخری وقت میں اور نماز عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا جائے اور اسی طرح نماز مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور نماز عشاء کو اس کے اول وقت میں پڑھاجائے

اب ہم اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ان روایات کی تحقیق کرکے یہ ثابت کریں گے کہ ان روایات میں دو نمازوں کو جمع کرنے سے وہی مراد ہے جو شیعہ کہتے ہیں یعنی دو نمازوں کو ایک ہی نماز کے وقت میں پڑھا جاسکتا ہے اور یہ مراد نہیں ہے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کواس کے اول وقت میں پڑھا جائے :

روایات میں دو نمازوں کے ایک ہی ساتھ پڑھنے کا تذکرہ

۱۔احمد ابن حنبل نے اپنے کتاب مسند میں جابر بن زید سے روایت کی ہے

أخبرن جابر بن زید أنه سمع ابن عباس یقول: صلّیت مع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثمانیًا جمیعًا، و سبعًا جمیعًا قال قلت له یا أبا الشعثاء أظنّه أخّرالظهر وعجّل العصر و أخّر المغرب وعجّل العشاء قال وأنا أظن ذلک .( ۱ )

____________________

(۱)مسند احمد ابن حنبل ، جلد۱ ص ۲۲۱

۱۸۲

جابر بن زید کا بیان ہے کہ انہوں نے ابن عباس سے سنا ہے کہ وہ کہہ رہے تھے : میں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ آٹھ رکعت نماز (ظہر و عصر) اور سات رکعت نماز (مغرب وعشاء ) کو ایک ساتھ پڑھا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ابوشعثاء سے کہا: میرا یہ گمان ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہر کو تاخیر سے پڑھا ہے اور نماز عصر کو جلد ادا کیا ہے اسی طرح نماز مغرب کو بھی تاخیر سے پڑھا ہے اور نماز عشاء کو جلدی ادا کیا ہے ابوشعثاء نے کہا میرا بھی یہی گمان ہے

اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کوایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے پڑھا تھا

۲۔احمد ابن حنبل نے عبداللہ بن شقیق سے درج ذیل روایت نقل کی ہے :

''خطبنا ابن عباس یومًا بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و علق الناس ینادونه الصلاة و ف القوم رجل من بن تمیم فجعل یقول:الصلاة الصلاة : قال فغضب قال أتعلّمن بالسنة؟شهدت رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمع بین الظهر والعصروالمغرب والعشاء قال عبدالله فوجدت ف نفس من ذلک شیئًا فلقیت أباهریرة فسألته فوافقه''( ۱ )

____________________

(۱)مسند احمد، جلد۱ ص ۲۵۱.

۱۸۳

ایک دن عصر کے بعد ابن عباس نے ہمارے درمیان خطبہ دیا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے اور لوگ نماز کی ندائیں دینے لگے ان میں سے بنی تمیم قبیلے کا ایک شخص''نماز '' ''نماز '' کہنے لگا ابن عباس نے غصے میں کہا کیا تم مجھے سنت پیغمبر کی تعلیم دینا چاہتے ہو؟ میں نے خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھتے دیکھا ہے عبداللہ نے کہا اس مسئلے سے متعلق میرے ذہن میں شک پیدا ہوگیا تو میں ابوہریرہ کے پاس گیا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے ابن عباس کی بات کی تائید کی

اس حدیث میں دو صحابی ''عبداللہ ابن عباس'' اور ''ابوہریرہ'' اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ہے اور ابن عباس نے بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کی پیروی کی ہے.

۳۔مالک بن انس کا اپنی کتاب ''موطأ'' میں بیان ہے:

صلّیٰ رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الظهر والعصر جمیعًا والمغرب والعشاء جمیعًا فى غیر خوف ولا سفر ( ۱ )

____________________

(۱)موطأ مالک ، کتاب الصلوة طبع ۳ (بیروت) ص ۱۲۵ حدیث ۱۷۸ صحیح مسلم جلد ۲ ص ۱۵۱ طبع بیروت ، باب

الجمع بین الصلاتین فی الحضر.

۱۸۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھی تھیں جبکہ نہ تو کسی قسم کا خوف تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر میں تھے

۴۔مالک بن انس نے معاذبن جبل سے یہ روایت نقل کی ہے :

فکان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یجمع بین الظهر والعصر والمغرب والعشائ ( ۱ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز ظہر عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ بجالاتے تھے

۵۔ مالک بن انس نے نافع سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے یوں روایت نقل کی ہے :

کان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِذا عجّل به السیر یجمع بین المغرب والعشائ .( ۲ )

جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی مسافت جلدی طے کرنی ہوتی تو وہ مغرب و عشاء کی نمازوں کوایک ساتھ بجالاتے تھے

۶۔مالک ابن انس نے ابوہریرہ سے یوں روایت نقل کی ہے :

____________________

(۱)موطا مالک کتاب الصلوة صفحہ ۱۳۴ حدیث ۱۷۶ طبع ۳ بیروت سال طبع ۱۴۰۳ھ. صحیح مسلم طبع مصر جز ۲ صفحہ ۱۵۲.

(۲) موطأ مالک کتاب الصلوة ص ۱۲۵ حدیث ۱۷۷.

۱۸۵

ان رسو ل الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کان یجمع بین الظهر والعصر فى سفره اِلی تبوک ( ۱ )

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تبوک کے راستے میں ظہر و عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں تھیں

۷۔مالک نے اپنی کتاب موطأ میں نافع سے یوں روایت نقل کی ہے :

ان عبداللّه بن عمر کان اِذا جمع الأمراء بین المغرب والعشاء فى المطر جمع معهم ( ۲ )

جب بھی بارش کے دوران حکام مغرب اور عشاء کو اکھٹا پڑھتے تھے تو عبداللہ بن عمر بھی ان کے ساتھ اپنی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرتے تھے.

۸۔مالک ابن انس نے علی بن حسین سے یوں نقل کیا ہے :

کان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِذا أراد أن یسیر یومه جمع بین الظهر والعصر و اِذا أراد أن یسیر لیله جمع بین المغرب والعشاء ( ۳ )

____________________

(۱)موطأ مالک کتاب الصلوة ص ۱۲۴ حدیث ۱۷۵.

(۲) موطأ مالک کتاب الصلوة ص ۱۲۵ حدیث ۱۷۹.

(۳)موطأ مالک، کتاب الصلوة ص ۱۲۵ حدیث ۱۸۱.

۱۸۶

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب دن میں سفر کرنا چاہتے تھے تو ظہر اور عصر کی نمازوں کو اکھٹا ادا کرلیا کرتے تھے اور جب رات میں سفر کرنا ہوتا تھا تو مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھتے تھے

۹۔ محمد زرقانی نے موطأ کی شرح میں ابن شعثا سے یوں روایت نقل کی ہے

اِنّ ابن عباس صلّیٰ بالبصرة الظهر والعصر لیس بینهما شىء والمغرب والعشاء لیس بینهما شء ( ۱ )

بے شک ابن عباس نے بصرہ میں نماز ظہر و عصر کو ایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے پڑھا تھا اور اسی طرح نماز مغرب وعشاء کو بھی اکھٹا اور بغیر فاصلے کے بجالائے تھے

۱۰۔زرقانی نے طبرانی سے اور انھوںنے ابن مسعود سے نقل کیا ہے :

جمع النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بین الظهر والعصر و بین المغرب والعشاء فقیل له فى ذلک فقال : صنعت هذا لئلا تحرج أمت ( ۲ )

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا

____________________

(۱)موطأپرزرقانی کی شرح ، جز اول باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر والسفر ص ۲۹۴طبع مصر.

(۲)گزشتہ حوالہ.

۱۸۷

جواب میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس عمل کو اس لئے انجام دیا ہے تاکہ میری امت مشقت میں نہ پڑ جائے.

۱۱۔مسلم بن حجاج نے ابوزبیر سے اور انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے یوں روایت نقل کی ہے :

صلّیٰ رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بین الظهر والعصرجمیعًا بالمدینة فى غیر خوف ولاسفر ( ۱ )

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ منورہ میں بغیر خوف و سفر کے نماز ظہر و عصر کوایک ساتھ پڑھا تھا

اس کے بعد ابن عباس نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کے بارے میں کہا کہ :

آنحضرت چاہتے تھے کہ ان کی امت میں سے کوئی بھی شخص مشقت میں نہ پڑ نے پائے( ۲ )

۱۲۔مسلم نے اپنی کتاب صحیح میں سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے یوں روایت نقل کی ہے :

جمع رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فى المدینة من غیر خوف

____________________

(۱)صحیح مسلم جزء ۲ ص ۱۵۱ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر ،طبع مصر

(۲)یہ مطلب گزشتہ کتاب میں اسی حدیث کے ذیل میں مذکور ہے.

۱۸۸

ولامطر .( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ منورہ میں بغیر خوف اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا.

اس وقت سعید ابن جبیر نے ابن عباس سے پوچھا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس طرح کیوں کیا؟ تو ابن عباس نے کہا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی امت کو زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے.( ۲ )

۱۳۔ابوعبداللہ بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلے میں ''باب تأخیر الظہراِلی العصر '' کے نام سے ایک مستقل باب قرار دیا ہے.( ۳ )

یہ خود عنوان اس بات کا بہترین گواہ ہے کہ نماز ظہر میں تاخیر کرکے اسے نماز عصر کے وقت میں اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اس کے بعد بخاری نے اسی مذکورہ باب میں درج ذیل روایت نقل کی ہے :

انّ النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلّیٰ بالمدینة سبعًا و ثمانیًا الظهر والعصر والمغرب والعشاء ( ۴ )

____________________

(۱)گزشتہ حوالہ، صفحہ نمبر ۱۵۲

(۲)یہ مطلب گزشتہ کتاب کے صفحہ ص ۱۵۲ میں اسی حدیث کے ذیل میں مذکور ہے

(۳)صحیح بخاری جز اول ص ۱۱۰ کتاب الصلوة باب تاخیر الظہر الی العصر طبع مصر نسخہ امیریہ ۱۳۱۴ھ.

(۴) گزشتہ حوالہ.

۱۸۹

بہ تحقیق پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں سات رکعت (نماز مغرب و عشائ) اور آٹھ رکعت (نماز ظہر وعصر)پڑھی ہیں

اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جس طرح نماز ظہر میں تاخیر کرکے اسے نماز عصر کے وقت میں نماز عصر کے ساتھ بجالایا جاسکتا ہے ،اسی طرح سیاق حدیث میں موجود قرینہ اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے سمجھ میں آتاہے کہ نماز مغرب میں بھی دیر کر کے اسے نماز عشاء کے وقت میں نماز عشاء کے ساتھ بجالایا جاسکتا ہے

۱۴۔بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں ایک اور مقام پر لکھاہے :

قال ابن عمر و أبو أیوب و ابن عباس رض اللّه عنهم صلّیٰ النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المغرب والعشاء ( ۱ )

عبد اللہ بن عمر و ابوایوب انصاری اور عبداللہ بن عباس نے کہا ہے کہ : پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا ہے.

بخاری اس حدیث سے مسلم طور پر یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھا کیونکہ یہ تو یقینی ہے کہ بخاری ہرگز اس حدیث کے ذریعے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نمازی ہونے کو ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے

____________________

(۱)صحیح بخاری جز اول کتاب الصلوة باب ذکر العشاء ص ۱۱۳ طبع مصر ۱۳۱۴ھ.

۱۹۰

۱۵۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں بیان کیا ہے :

قال رجل لابن عباس الصلاة فسکت ثم قال الصلاة فسکت ثم قال الصلاة فسکت ثم قال:لا أم لک أتعلمنا بالصلٰوة و کنّا نجمع بین الصلا تین علیٰ عهد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۱ )

ایک شخص نے ابن عباس سے کہا : ''نماز'' تو ابن عباس نے کچھ نہ کہا اس شخص نے پھر کہا ''نماز'' پھر بھی ابن عباس نے اسے کوئی جواب نہ دیا تو اس شخص نے پھر کہا ''نماز'' لیکن ابن عباس نے پھر کوئی جواب نہیں دیا جب اس شخص نے چوتھی مرتبہ کہا: ''نماز'' تب ابن عباس بولے او بے اصل!تم ہمیں نماز کی تعلیم دینا چاہتے ہو ؟ جبکہ ہم پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالایا کرتے تھے

۱۶۔مسلم نے یوں روایت نقل کی ہے :

اِنّ رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمع بین الصلاة فى سفرة سافرها ف غزوة تبوک فجمع بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء قال سعید فقلت: لابن عباس:

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۲ ص ۱۵۳ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر

۱۹۱

ما حمله علی ذلک ؟ قال أراد أن لایحرج اُمته ( ۱ )

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ تبوک کے سفر میں نمازوں کو جمع کر کے نماز ظہر و عصر اور مغرب عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھا سعید بن جبیر نے کہا کہ میں نے ابن عباس سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا آنحضرت چاہتے تھے کہ ان کی امت مشقت میں نہ پڑ ے

۱۷۔ مسلم ابن حجاج نے معاذ سے اس طرح نقل کیا ہے :

خرجنا مع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فى غزوة تبوک فکان یُصلّ الظهر والعصر جمیعًا والمغرب و العشاء جمیعًا .( ۲ )

ہم پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کی طرف نکلے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا

۱۸۔مالک ابن انس کا اپنی کتاب ''الموطأ'' میں بیان ہے کہ :

عن ابن شهاب أنّه سأل سالم بن عبدالله : هل یجمع بین الظهر والعصر فى السفر؟ فقال نعم

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۲ ص ۱۵۱ طبع مصر

(۲)گزشتہ حوالہ

۱۹۲

لابأس بذلک ، ألم تر الیٰ الصلاة الناس بعرفة ؟ ( ۱ )

ابن شہاب نے سالم بن عبد اللہ سے سوال کیا کہ کیا حالت سفر میں نماز ظہر و عصر کو ایک ساتھ بجالایا جاسکتا تھا ؟ سالم بن عبداللہ نے جواب دیا ہاں اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے کیا تم نے عرفہ کے دن لوگوںکو نماز پڑھتے نہیں دیکھا ہے؟

یہاں پر اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ عرفہ کے دن نماز ظہر و عصر کو نماز ظہر کے وقت میں بجالانے کو سب مسلمان جائز سمجھتے ہیں اس مقام پر سالم بن عبداللہ نے کہا تھا کہ جیسے لوگ عرفہ کے دن دو نمازوں کو اکھٹا پڑھتے ہیں اسی طرح عام دنوں میں بھی دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے

۱۹۔متقی ہندی اپنی کتاب ''کنزالعمال'' میں لکھتے ہیں :

قال عبداللّه: جمع لنا رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقیمًا غیر مسافر بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فقال رجل لابن عمر : لم تری النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فعل ذلک ؟ قال : لِأن لایحرج اُمته ان جمع رجل .( ۲ )

____________________

(۱)موطأ مالک ص ۱۲۵ حدیث ۱۸۰ طبع ۳ ،بیروت.

(۲) کنزالعمال کتاب الصلوة ،باب الرابع فی صلاة المسافر باب جمع جلد ۸ ص ۲۴۶ طبع ۱حلب ۱۳۹۱ھ.

۱۹۳

عبد اللہ ابن عمر نے کہا: کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بغیر سفر کے نماز ظہر

وعصر اور مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا ایک شخص نے ابن عمر سے سوال کیا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا کیوں کیا ؟ تو ابن عمر نے جواب دیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی امت کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے تاکہ اگر کوئی شخص چاہے تو دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالائے

۲۰۔اسی طرح کنزالعمال میں یہ روایت بھی موجود ہے :

عن جابر أنّ النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمع بین الظهر والعصر بأذان و اِقامتین ( ۱ )

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ظہر وعصر کی نمازوں کو اکھٹا ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ پڑھا تھا

۲۱۔ کنزالعمال میں درج ذیل روایت بھی موجود ہے:

عن جابر أنّ رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غربت له الشمس بمکة فجمع بینهما بسرف ( ۲ )

جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ مکہ میں ایک دفعہ جب آفتاب غروب ہوگیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''سرف''( ۳ ) کے مقام پر نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا.

____________________

(۱)کنزالعمال کتاب الصلوة ، باب الرابع فی صلوة المسافر باب جمع جلد۸ ص ۲۴۷ طبع ۱ حلب.

(۲) گزشتہ حوالہ.

(۳)سرف مکہ سے نومیل کے فاصلے پر واقع مقام کا نام ہے (یہ بات کنزالعمال سے اسی حدیث کے ذیل سے ماخوذ ہے)

۱۹۴

۲۲۔کنزالعمال میں ابن عباس سے یوں منقول ہے :

جمع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدینة فى غیر سفر ولا مطر قال : قلت لابن عباس : لم تراه فعل ذلک؟ قال: أراد التوسعة علیٰ أمته ( ۱ )

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں بغیر سفر اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا. راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ تو ابن عباس نے جواب دیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی امت کے لئے سہولت اور آسانی قرار دینا چاہتے تھے

نتیجہ:

اب ہم گزشتہ روایات کی روشنی میں دو نمازوں کو جمع کرنے کے سلسلے میں شیعوں کے نظریہ کے صحیح ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے:

۱۔دونمازوں کو ایک وقت میں ایک ساتھ بجالانے کی اجازت نمازیوں کی سہولت اور انہیں مشقت سے بچانے کے لئے دی گئی ہے.

متعدد روایات میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر نماز ظہر و عصر یا مغرب و

____________________

(۱)کنزالعمال ،کتاب الصلوة ، الباب الرابع ، باب جمع جلد ۸.

۱۹۵

عشاء کو ایک وقت میں بجالانا جائز نہ ہوتا تو یہ امر مسلمانوں کے لئے زحمت و مشقت کا باعث بنتا اسی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کی سہولت اور آسانی کے لئے دو نمازوں کو ایک وقت میں بجالانے کو جائز قرار دیا ہے (اس سلسلے میں دسویں ، سولہویں ، انیسویں ، اور بائیسویں حدیث کا مطالعہ فرمائیے)

واضح ہے کہ اگر ان روایات سے یہ مراد ہو کہ نماز ظہر کواسکے آخری وقت( جب ہر چیز کا سایہ اسکے برابر ہوجائے ) تک تاخیر کر کے پڑھا جائے اور نماز عصر کو اسکے اول وقت میں بجالایا جائے اس طرح ہر دو نمازیں ایک ساتھ مگر اپنے اوقات ہی میں پڑھی جائیں( اہل سنت حضرات ان روایات سے یہی مراد لیتے ہیں ) تو ایسے کام میں کسی طرح کی سہولت نہیں ہوگی بلکہ یہ کام مزید مشقت کا باعث بنے گا جبکہ دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالانے کی اجازت کا یہ مقصد تھا کہ نمازیوںکیلئے سہولت ہو.

اس بیان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ گزشتہ روایات سے مراد یہ ہے کہ دو نمازوں کو ان کے مشترک وقت کے ہر حصے میں بجالایا جاسکتا ہے اب نماز گزار کو اختیار ہے کہ وہ مشترک وقت کے ابتدائی حصے میں نماز پڑھے یا اس کے آخری حصے میں اور ان روایات سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری کو اس کے اول وقت میں ادا کیا جائے.

۱۹۶

۲۔روز عرفہ دونمازوں کو اکھٹا پڑھنے کے حکم سے باقی دنوں میں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک عرفہ کے دن ظہر وعصر کی نمازوں کو ایک وقت میں بجالانا جائز ہے( ۱ )

مزیدبراں گزشتہ روایات میں سے بعض اس بات کی گواہ ہیں کہ میدان عرفات کی طرح باقی مقامات پر بھی نمازوں کو اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اب اس اعتبار سے روز عرفہ اور باقی عام دنوں کے درمیان یا عرفات کی سرزمین اور باقی عام جگہوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس سلسلہ میں اٹھارویں حدیث کا مطالعہ فرمائیں

لہذا جس طرح مسلمانوں کے متفقہ نظرئیے کے مطابق عرفہ میں ظہر و عصر کی نمازوں کو ظہر کے وقت پر ایک ساتھ پڑھا جاتا ہے اسی طرح عرفہ کے علاوہ بھی ان نمازوں کو ظہر کے وقت اکھٹا پڑھنا بالکل صحیح ہے

۳۔سفر کی حالت میں دو نمازوں کو اکھٹا پڑھنے کے حکم سے غیر سفر میں بھی نمازوں کے ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے .ایک طرف سے حنبلی، مالکی، اور شافعی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حالت سفرمیں دو نمازوں کو اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اور دوسری طرف گزشتہ روایات صراحت کے ساتھ کہہ رہی ہیں کہ اس اعتبار سے سفر اور غیر سفر میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں حالتوں میں نمازوں کو اکھٹا پڑھا تھا.

(اس سلسلے میں تیسری، گیارہویں، تیرہویں، اور بائیسویں حدیث کا مطالعہ فرمائیں)

اس بنیاد پر (شیعوں کے نظرئیے کے مطابق) جس طرح حالت سفر میں دو

____________________

(۱)الفقہ علی المذاھب الاربعہ ، کتاب الصلوة ،الجمع بین الصلوٰتین تقدیما و تاخیرا

۱۹۷

نمازوں کو اکھٹا بجالانا صحیح ہے اسی طرح عام حالات میں بھی دو نمازوں کو اکھٹا پڑھا جاسکتا ہے

۴۔اضطراری حالت میں دو نمازوں کے اکھٹا پڑھنے کے حکم سے عام حالت میں بھی نمازوں کے اکھٹا پڑھنے کا جواز معلوم ہوجاتا ہے.اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں میں سے بہت سی روایات اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب نے چند اضطراری موقعوں پر جیسے بارش کے وقت یا دشمن کے خوف سے یا بیماری کی حالت میں نمازوں کو ایک ساتھ اور ایک ہی وقت میں (ٹھیک اسی طرح جیسے شیعہ کہتے ہیں ) پڑھا تھا اور اسی وجہ سے مختلف اسلامی فرقوں کے فقہاء نے بعض اضطراری حالات میں دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا جائز قرار دیا ہے جب کہ گزشتہ روایات اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کہ اس سلسلے میں اضطراری اور عام حالت میں کوئی فرق نہیں ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں حالتوں میں اپنی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا ہے

اس سلسلے میں تیسری، گیارہویں ، اور بارہویں ، اور بائیسویں روایت کا مطالعہ کیجئے

۱۹۸

۵۔اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش سے دو نمازوں کے ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے.

گزشتہ روایات میں یہ نکتہ موجود ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے اصحاب دو نمازوں کو ایک وقت میں بجالاتے تھے جیسے کہ عبداللہ ابن عباس نے نماز مغرب میں اتنی دیر کردی تھی کہ اندھیرا چھا گیا تھا اور آسمان پر ستارے چمکنے لگے تھے اور لوگوں نے نماز کی صدائیں دینا شروع کردی تھیں مگر ابن عباس نے ان کی طرف توجہ نہیں کی تھی سرانجام جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تب انہوں نے نماز مغرب و عشاء پڑھی تھی.اور اعتراض کرنے والوں کو یہ جواب دیا تھا : میں نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے نیز ابوہریرہ نے بھی ابن عباس کی اس بات کی تائید کی تھی (اس سلسلے میں دوسری، ساتویں، نویں ، اور پندہوریں روایت کا مطالعہ فرمائیں)

گزشتہ روایات کی روشنی میں اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ابن عباس نے شیعوں کی طرح دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھا تھا

۶۔پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے. اکیسویں حدیث کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ نماز مغرب کے وقت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف فرماتھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز مغرب میں تاخیر کی تھی اور ''سرف'' نامی علاقہ( جو مکہ سے نومیل کے فاصلے پر واقع تھا)میں پہنچ کر نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھاجب کہ یہ واضح ہے کہ اگر آنحضرت مکہ سے مغرب کے اول وقت میں چلے ہوں گے تو اس زمانے کی کم رفتار سواری کے ذریعے سفر کرنے کی وجہ سے یقینا رات کا کافی حصہ گزر جانے کے بعد ہی سرف کے مقام تک پہنچے ہوں گے اسی وجہ سے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا تھا اہل سنت حضرات کی صحیح اور مسند کتابوں سے منقول گزشتہ روایات شیعوں کے نظرئیے( ظہر و عصر یا مغرب و عشاء کی نمازوں کو ہر وقت ، ہر جگہ اور ہر طرح کی صورتحال میں ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے )کے صحیح ہونے کی گواہی دیتی ہیں

۱۹۹

اٹھائیسواں سوال

شیعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہیں ؟

جواب:شیعہ ،قرآن مجید اور سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے احکام شرعی کو درج ذیل چاربنیادی مآخذ سے حاصل کرتے ہیں :

۱۔کتاب خدا

۲۔سنت

۳۔اجماع

۴۔عقل

مذکورہ ماخذو منابع میں سے قرآن مجید اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقہ شیعہ کے بنیادی ترین ماخذ ہیں اب ہم یہاں ان دونوں کے سلسلے میں اختصار کیساتھ گفتگو کریںگے :

کتاب خدا؛ قرآن مجید

مکتب تشیع کے پیرو قرآن مجید کو اپنی فقہ کا محکم ترین منبع اور احکام الہی، کی شناخت کا معیار سمجھتے ہیں کیونکہ شیعوں کے ائمہ ٪ نے فقہی احکام کے حصول کے لئے قرآن مجید کو ایک محکم مرجع قرار دیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ کسی بھی نظرئیے کو قبول کرنے سے پہلے اسے قرآن مجید پر پرکھا جائے اگر وہ نظریہ قرآن سے مطابقت رکھتا ہو تو اسے قبول کرلیا جائے ورنہ اس نظرئیے کو نہ مانا جائے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296