شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 80237
ڈاؤنلوڈ: 2981

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80237 / ڈاؤنلوڈ: 2981
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

ایک شخص نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کو نسا صدقہ زیادہ اجر رکھتا ہے ؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ کی قسم یقینا تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ( سب سے زیادہ اجر والا صدقہ) یہ ہے کہ تم صحت مندی، آرزوئے حیات ، خوف فقر اور امید بقاء کے ساتھ صدقہ دو .جو لوگ دنیا کے اکثر مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے مشرک سمجھتے ہیں کہ وہ سب غیر خدا کی قسم کھاتے ہیں تو وہ پیغمبر خدا کے اس عمل کی کیا تاویل کریں گے ؟

۳۔کتاب خدا اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انتہائی قریبی اور متعبر اصحاب کی سیرت بھی اس عمل کے جائز ہونے کی بہترین دلیل ہے

عالم اسلام کے عظیم الشأن رہبر حضرت علی بن ابی طالبـ نے اپنے بہت سے گہربار خطبوں اور بیانات میں اپنی جان کی قسم کھائی ہے وہ فرماتے ہیں :

ولعمر لیضعفن لکم التیه من بعد أضعافا ( ۱ )

میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سرگردانی کئی گنا بڑھ جائے گی ۔

ایک جگہ اور فرماتے ہیں :

''ولعمر لأن لم تنزع عن غیک و شقاقک لتعرفنهم عن قلیل یطلبونک'' ( ۲ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ (محمد عبدہ) خطبہ نمبر ۱۶۱.

(۲)نہج البلاغہ (محمد عبدہ) مکتوب نمبر ۹.

۱۶۱

میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اور شقاوت سے دست بردار نہ ہوئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ وہ لوگ تمہیں بھی ڈھونڈ لیں گے.( ۱ )

اب واضح ہے کہ ان سب روایات کے مقابلے میں اجتہاد اور استحسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور کوئی بھی دلیل قرآن مجید کی آیتوں، پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت اور معتبر صحابہ کی سیرت کو غلط قرار نہیں دے سکتی اور نہ ہی ان کی طرف شرک کی نسبت دے سکتی ہے.

نتیجہ:گزشتہ دلائل کے مجموعے سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن و سنت اور مومنین کی سیرت کے اعتبار سے غیر خدا کی قسم کھانا ایک جائز اور مسلم اصل کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی بھی طرح عقیدہ توحید سے نہیں ٹکراتا

لہذا اگر کوئی روایت ظاہری طور پر ان یقینی دلیلیوں کی مخالفت کرے تو اس کی تاویل کرنی چاہیے تاکہ وہ قرآن و روایات کی مسلم اصل کے موافق ہوجائے

بعض اوقات ایک ایسی مبہم سی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جس میں اس عمل کی مخالفت کی گئی ہے یہاں ہم اس روایت کو اسکے جواب کے ساتھ بیان کرتے ہیں :

اِن رسول اللّٰه سمع عمر و هو یقول : وأبى،فقال: اِن اللّٰه ینهاکم أن تحلفوا بآبائکم و من کان حالفاً فلیحلف باللّه أو یسکت ( ۲ )

____________________

(۱)اور زیادہ موارد کی آگاہی کے لئے خطبہ نمبر ۱۶۸،۱۸۲،اور ۱۸۷ اورمکتوب نمبر ۶ اور ۵۴ کی طرف رجوع فرمائیے.

(۲)سنن الکبری ، جلد ۱۰ ص ۲۹ اور سنن نسائی جلد۷ صفحہ نمبر۵ اور ۶.

۱۶۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنامیرے باپ کی قسم (یہ سن کر) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا خداوند کریم نے تم لوگوں کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے اور جسے قسم کھانا ہو وہ خدا کی قسم کھائے یا پھر چپ رہے

اگرچہ یہ حدیث قرآن کی ان آیات اور روایات کے مقابلے میں جو غیر خدا

کی قسم کھانے کو جائز قرار دیتی ہیں ، کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن پھر بھی اس حدیث کو آیات اور روایات کے ہمراہ لانے کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر اور ان جیسے افراد کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے اس لئے روکا تھا کہ ان کے باپ مسلمان نہیں تھے اور غیر مسلموں کی قسمیں نہیں کھائی جاسکتیں۔

۱۶۳

پچیسواں سوال

کیا اولیائے خدا سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے؟

جواب:توسل کے معنی یہ ہیں کہ تقرب الہی کے لئے کسی محترم مخلوق کو اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ قرار دیا جائے

ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں :

''توسّل اِلیه بکذا ، تقرب اِلیه بحرمة آصرة تعطفه علیه'' ( ۱ )

اس نے فلان چیز کے ذریعہ اس شخصیت سے توسل کیا یعنی اس نے اس چیز کی حرمت کے ذریعہ اس ذات سے قربت اختیار کی جب کہ اس کی حرمت سے اپنی قلبی محبت کو اپنے اندر محسوس کیا

قرآن مجید فرماتا ہے:

____________________

(۱)لسان العرب، جلد ۱۱ ص ۷۳۴

۱۶۴

(یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا ﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ وَجَاهِدُوا فِى سَبِیلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ )( ۱ )

ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ

جوہری ''صحاح اللّغة'' میں ''وسیلہ'' کی تعریف کو یوں بیان کرتے ہیں :

''الوسیلة ما یتقرّب به الی الغیر''

وسیلہ ایسی چیز ہے جسکے ذریعہ کسی دوسرے کے قریب ہوا جائے اس اعتبار سے بعض اوقات انسان کے نیک اعمال اور خدا کی خالص عبادت اس کیلئے وسیلہ بنتے ہیں اور کبھی کبھی خدا کے محترم اور مقدس بندے انسان کے لئے وسیلہ قرار پاتے ہیں

توسل کی قسمیں

توسل کی تین قسمیں ہیں :

۱۔نیک اعمال سے توسل؛

جلال الدین سیوطی نے اس آیت (وَابْتَغُوا ِالَیْهِ الْوَسِیلَةَ ) کے ذیل میں اس روایت کا ذکرکیا ہے:

عن قتادة ف قوله تعالیٰ ''وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ'' قال : تقرّبوا اِلی اللّه بطاعته والعمل بما یرضیه ( ۱ )

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت:۳۵.

(۲)تفسیر درالمنثور جلد۲ ص ۲۸۰مطبوعہ بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں

۱۶۵

(وَابْتَغُوا اِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ )اس آیت کے متعلق قتادة کا بیان ہے کہ خدا کی اطاعت اور اس کو خوشنود کرنے والے عمل کے ذریعہ خدا سے قربت اختیار کرو

۲۔خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے توسل !

قرآن مجید نے جناب یوسفـ کے بھائیوں اور جناب یعقوب کی گفتگو کو یوں بیان کیا ہے :

(قَالُوا یَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَاا ِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّى اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ )( ۱ )

ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کیلئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے انہوں نے کہاکہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے

اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب یعقوب ـ کے بیٹوں نے اپنے والد کی دعا اور ان کے استغفار سے توسل کیا تھا حضرت یعقوب ـ نے بھی نہ صرف ان کے توسل پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ان سے وعدہ بھی کیا کہ وہ ان کے حق میں دعا اور استغفار کریںگے

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت نمبر ۹۷ اور ۹۸.

۱۶۶

۳۔قرب الہی کے حصول کیلئے خداوند کریم کے محترم اور مقدس بندوں سے توسل:

اس قسم کے توسل کی مثالیں، اوائل اسلام میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی سیرت میں دکھائی دیتی ہیں اب ہم یہاں اس مسئلے کی دلیلوں کو احادیث اور سیرت

صحابہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں

احمدابن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں عثمان بن حنیف سے یہ روایت نقل کی ہے :

اِن رجلاً ضریر البصر أتی النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال ادع اللّه أن یعافینى قال: اِن شئت دعوت لک و اِن شئت أخرت ذاک فهو خیر فقال ادعه فأمره أن یتوضأ فیحسن وضوئه فیصلى رکعتین و یدعو بهذا الدعائ: اللّهم اِنىّ أسئلک و أتوجه اِلیک بنبیک محمدٍ نبّى الرحمة یا محمد اِنىّ توجّهت بک اِلیٰ ربىّ فى حاجتى هذه ، فتقض لى اللّهم شفّعه فّى .( ۱ )

ایک نابینا شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے شفا بخشے آنحضرت نے فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہارے لئے دعا کرتا

____________________

(۱)مسند احمد بن حنبل ، جلد ۴ ص ۱۳۸ روایات عثمان بن حنیف ،مستدرک حاکم ؛ جلد ۱ کتاب صلوة التطوع

طبع بیروت ۳۱۳،سنن ابن ماجہ جلد ۱ ص ۴۴۱طبع دار احیاء الکتب العربیہ، ''التاج '' جلد ۱ ص ۲۸۶،الجامع الصغیر (سیوطی) ص ۵۹،التوسل و الوسیلہ (ابن تیمیہ) ص ۹۸طبع بیروت.

۱۶۷

ہوں لیکن اگر چاہو تو اس سلسلے میں کچھ تاخیر کردی جائے اور یہی بہتر بھی ہے اس نے عرض کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دعا فرمادیں تو پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس شخص کو حکم دیا کہ وہ وضو کو اچھے طریقے سے انجام دے اور پھر دو رکعت نماز بجا لائے اور یہ دعا پڑھے :اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں تیرے پیغمبر نبی رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وسیلے سے اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آپکے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ آپ میری حاجت کو قبول فرمائیں اے معبود ان کو میرے لئے شفیع قرار دے.

محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک میں اس حدیث کا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ'' یہ ایک صحیح حدیث ہے'' ابن ماجہ نے بھی ابو اسحاق سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ :'' یہ روایت صحیح ہے'' اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب ''ابواب الادعیہ'' میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی تائید کی ہے ''محمد بن نسیب الرفاعی '' نے بھی اپنی کتاب ''التوصل الی حقیقة التوسل'' میں یوں بیان کیا ہے

لاشک اِن هذا الحدیث صحیح و مشهور ...و قد ثبت فیه بلا شک ولاریب ارتداد بصر الأعمی بدعاء رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۱ )

____________________

(۱)التوصل الی حقیقة التوسل ص ۱۵۸ طبع بیروت.

۱۶۸

بے شک یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے...بہ تحقیق اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے نتیجے میں اس اندھے شخص کی بصارت لوٹ آئی تھی اس حدیث سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ حاجات کے لئے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وسیلہ بنا کر ان سے توسل کرنا ایک جائز عمل ہے کیونکہ رسول خدا نے اس نابینا شخص کو حکم دیا تھا کہ وہ اس طرح دعا کرے اور حضور(ص) کو اپنے اور پروردگار کے درمیان وسیلہ قرار دے اس طرح یہ حدیث اولیائے الہی سے توسل کو ثابت کرتی ہے

۲۔ابوعبداللہ بخاری کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے :

اِن عمربن الخطاب رضى اللّه عنه کان اِذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبدالمطلب فقال : اللّهم اِن کنّا نتوسّل اِلیک بنبیّنا فتسقینا و اِنّا نتوسّل اِلیک بعمّ نبیّنا فاسقنا: قال، فیُسقون .( ۱ )

جب قحط پڑتا تھا تو عمر ابن خطاب ہمیشہ عباس ابن عبدالمطلب کے وسیلے سے بارش کیلئے دعا کرتے تھے اور کہتے تھے ''خدایا ! پیغمبر کے زمانے میں ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متوسل ہوتے تھے اور تو ہم پر بارش نازل کرتا تھا اب ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا کے وسیلے سے تجھ

____________________

(۱)صحیح بخاری جز ۲ کتاب الجمعہ باب الاستسقاء ص ۲۷ طبع مصر.

۱۶۹

سے توسل کررہے ہیں تاکہ تو ہمیں سیراب کردے '' چنانچہ اس طرح وہ سیراب کردئیے جاتے تھے.

۳۔صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان اولیائے الہی سے توسل اس حد

تک رائج تھا کہ وہ لوگ اپنے اشعار میں بھی حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وسیلہ ہونے کا تذکرہ کرتے تھے بطور مثال سواد ابن قارب کا یہ قصیدہ ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدح سرائی کی ہے :

واشهد أن لاربّ غیره

وأنک مأمون علیٰ کل غالب

و أنک أدنیٰ المرسلین وسیلة

اِلی اللّه یابن الأکرمین الأطائب( ۱ )

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر پوشیدہ چیز کے لئے امین ہیں اور اے مکرم اور پاک طینت افراد کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام نبیوں کے درمیان پروردگار کا نزدیک ترین وسیلہ ہیں

پیغمبر خدا نے سواد بن قارب سے یہ قصیدہ سنا تھا لیکن اس کے اشعار پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور نہ ہی سواد کے اس کام کو شرک و بدعت قرار دیا تھا

امام شافعی نے بھی اپنے ان اشعار میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے :

آل النبّى ذریعت

هم الیه وسیلت

أرجوبهم أعطی غدًا

بید الیمین صحیفت( ۲ )

____________________

(۱) الدر السنیہ ،مؤلفہ سید احمد بن زینی دحلان ص ۲۹ طبرانی سے نقل کرتے ہوئے.

(۲)الصواعق المحرقہ ،مؤلفہ ابن حجر عسقلانی ص ۱۷۸طبع قاہرہ.

۱۷۰

پروردگار تک پہنچنے کے لئے پیغمبر کی آل میرے لئے وسیلہ ہیں میں ان کی وجہ سے امیدوار ہوں کہ میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا.

اولیائے الہی سے توسل کے جائز ہونے کے سلسلے میں بہت سی روایات آئی ہیں اور انہی روایات کی روشنی میں پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحابہ اور علمائے اسلام کا اس موضوع سے متعلق نظریہ معلوم ہوجاتا ہے اور مزید گفتگو کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ہے ۔ ہمارے اسی بیان سے ان لوگوں کا یہ کلام کہ خدا کے محترم بندوں سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے ، باطل ہوجاتا ہے ۔

۱۷۱

چھبیسواں سوال

کیا اولیائے خدا کی ولادت کے موقع پر جشن منانا بدعت یا شرک ہے؟

جواب:خدا کے نیک بندوں کی یاد منانا اور ان کی ولادت کے موقعے پر جشن منانا ، عقلاء کی نظر میں ایک واضح مسئلہ ہے لیکن پھر بھی ہم اس عمل کے جائز ہونے کی دلیلیں اس لئے پیش کررہے ہیں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہ جائے.

۱۔ان کی یاد منانے میں محبت کا اظہار ہوتا ہے.

قرآن مجید نے مسلمانوں کو پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت٪ سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے:

(قُلْ لاَاسْءَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبَیٰ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ شوریٰ آیت :۲۳

۱۷۲

(اے پیغمبر)آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو

اس میں شک نہیں ہے کہ مسلمان اولیاء خد اکی یاد منا کر ان سے اپنی اس

محبت و الفت کا اظہار کرتے ہیں جس کا حکم قرآن مجید نے دیا ہے.

۲۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد منانا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم کا اظہار ہے

قرآن مجید نے رسول خدا کی نصرت کرنے کے علاوہ آپ کے احترام کو بھی کامیابی اور سعادت کا معیار قرار دیا ہے.

(فَالَّذِینَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى ا ُنزِلَ مَعَهُا ُوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُون )( ۱ )

پس جو لوگ پیغمبر پر ایمان لائے اور ان کا احترام کیا، ان کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کیا جو ان کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں

گزشتہ آیت کی روشنی میں بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام انتہائی پسندیدہ کام ہے اور ان کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنے اور ان کے بلند مقام کی تعظیم کے لئے جشن منانا خداوندعالم کی خوشنودی کا باعث بنتا ہے کیونکہ اس آیت میں

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت: ۱۵۷

۱۷۳

فلاح یافتہ لوگوں کے لئے چار صفات ذکر کی گئی ہیں :

الف:ایمان(الَّذِینَ آمَنُوا بِه ) وہ لوگ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لائے.

ب:ان کے نور کی پیروی (وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى اُنزِلَ مَعَهُ ) اور اس نور کی پیروی کی جو ان کے ساتھ نازل ہوا.

ج:ان کی نصرت کرنا (وَنَصَرُوہ) اورانہوں نے ان کی نصرت کی.

د:پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم(وَعَزَّرُوه ) اور ان کا احترام کیا.

اس اعتبارسے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانے اور ان کی نصرت کرنے اور ان کے دئیے ہوئے احکام کی پیروی کرنے کے علاوہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم بھی ایک ضروری امر ہے اس لحاظ سے حضور سرورکائناتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد کو باقی رکھنا ''وَعَزَّرُوہُ'' کے امر کا امتثال ہے.

۳۔انکی یاد منانے میں خداوندعالم کی پیروی ہے.

خداوندعالم قرآن مجید میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَ رَفَعْنٰا لَکَ ذِکْرَکَ )( ۱ )

اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کردیا.

اس آیت کی روشنی میں معلوم ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم یہ چاہتا ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)سورہ انشراح آیت ۴

۱۷۴

کی عظمت و جلال کو اس دنیا میں پھیلا دے اور خود ذات کردگار نے بھی قرآن مجید میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم کی ہے اس لئے ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ اسوہ کمال و فضیلت ہیں کی یاد منا کر ان کی تعظیم کرتے ہیں .اور اس طرح پروردگار عالم کی پیروی کرتے ہیں

واضح ہے کہ مسلمانوں کا ان محافل کو منعقد کرنے کا مقصد پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذکر کو بلند کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے.

۴۔وحی کا نازل ہونا دسترخوان کے نازل ہونے سے کم نہیں ہے

قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ ـ کی دعا کو یوں بیان کیا ہے:

(قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللهُمَّ رَبَّنَا اَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَائِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِاَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ )( ۱ )

عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے خدا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرما تاکہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عید ہوجائے اور تیری طرف سے نشانی بن جائے

حضرت عیسیٰ ـ نے خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ ان پر آسمان سے ایک

____________________

(۱)سورہ مائدہ آیت : ۱۱۴

۱۷۵

دسترخوان نازل کیا جائے تاکہ اس کے نازل ہونے کادن ان کیلئے عید بن جائے

اب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جب خدا کے ایک نبی کی نگاہ میں دسترخوان (جس سے جسمانی لذت حاصل ہوتی ہے ) کے نازل ہونے کا دن عید ہے تو اب اگر دنیا کے مسلمان وحی کے نازل ہونے اور( پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو انسانوں کی بخشش کا ذریعہ اور حیات ابدی کا سرچشمہ ہیں ) کی ولادت با سعادت کے دن کو عید قرار دیتے ہوئے اس دن جشن منائیں اور محفلیں منعقد کریں تو کیا یہ شرک یا بدعت ہوجائے گا؟!

۵۔ مسلمانوں کی سیرت

دین اسلام کے پیرو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے مدتوں سے اس قسم کی جشن منعقد کرتے آرہے ہیں اس سلسلے میں حسین بن محمد دیاربکری اپنی کتاب ''تاریخ الخمیس'' میں یوں لکھتے ہیں :

''ولایزال أهل الاسلام یحتفلون بشهر مولده علیه السلام و یعملون الولائم و یتصدقون ف لیالیه بأنواع الصدقات و یظهرون السرور و یزیدون فى المبرات و یعتنون بقرائة مولده الکریم و یظهر علیهم من برکاته کل فضل عمیم ''( ۱ )

____________________

(۱) حسین بن محمد بن حسن دیار بکری ، تاریخ الخمیس جلد ۱ ص ۲۲۳ طبع بیروت.

۱۷۶

دنیا کے مسلمان ہمیشہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت کے مہینے میں جشن کی محفلیں منعقد کرتے ہیں اور لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اس مہینے کی راتوں میں طرح طرح کے صدقے دیتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور بہت زیادہ نیکیاں انجام دیتے ہیں وہ لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کی ولادت کی مناسبت سے قصیدے پڑھتے ہیں اور ان کی برکت سے ان پر ہر قسم کے فضل ظاہر ہوتے ہیں

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن اور مسلمانوں کی نگاہ میں اولیائے خدا کی یاد منانا ایک پسندیدہ اور جائز عمل ہے اور ساتھ ہی ساتھ اولیائے خدا کی یاد منانااور اسی طرح یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو اولیائے خدا کی یاد منانے کو شرک سمجھتے ہیں ان کا یہ دعوی بے بنیاد اور بے دلیل ہے اور اسی کے ساتھ اولیاء خدا کی یاد منانے کو بدعت سمجھنے والے لوگوں کا نظریہ بھی باطل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ فعل اس وقت بدعت قرار پاتا جب اس عمل کا جائز ہونا ، خصوصی یا عمومی طور پر قرآن وسنت سے ثابت نہ ہوتا جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کلی طور پر اس مسئلہ کا حکم موجود ہے اور مسلمانوں کی سیرت میں بھی اس کے نقوش ملتے ہیں

اسی طرح یہ محفلیں خدا کے نیک بندوں کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہوئے صرف ان کے احترام کی خاطر منعقد کی جاتی ہیں

اس اعتبار سے یہ عمل توحید سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے. اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو اولیاے خد اکی یاد منانے کو شرک سمجھتے ہیں ان کا یہ دعوی بے بنیاد اور بے دلیل ہے۔

۱۷۷

ستائیسواں سوال

شیعہ پانچ نمازوں کو تین اوقات میں کیوں پڑھتے ہیں ؟

جواب: بہتر ہے کہ اس بحث کی وضاحت کے لئے سب سے پہلے اس بارے میں فقہاء کے نظریات بیان کردئیے جائیں :

۱۔سارے اسلامی فرقے اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ میدان'' عرفات'' میں ظہر کے وقت نماز ظہر اور نماز عصر کو اکھٹا اور بغیر فاصلے کے پڑھا جاسکتا ہے اسی طرح ''مزدلفہ'' میں عشا کے وقت نماز مغرب اور عشا کو ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے

۲۔حنفی فرقہ کا کہنا ہے کہ : نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا ایک وقت میں پڑھنا صرف دو ہی مقامات ''میدان عرفات'' اور ''مزدلفہ'' میں جائز ہے اور باقی جگہوں پر اس طرح ایک ساتھ نمازیں نہ پڑھی جائیں

۱۷۸

۳۔حنبلی، مالکی اور شافعی فرقوں کا کہنا ہے کہ: نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ان گزشتہ دو مقامات کے علاوہ سفر کی حالت میں بھی ایک ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے ان فرقوں میں سے کچھ لوگ بعض اضطراری موقعوں جیسے بارش کے وقت یا نمازی کے بیمار ہونے پر یا پھر دشمن کے ڈر سے ان نمازوں کو ساتھ میں پڑھنا جائز قرار دیتے ہیں( ۱ )

۴۔شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر اور اسی طرح نماز مغرب و عشاء کے لئے ایک ''خاص وقت'' ہے اور ایک ''مشترک وقت'':

الف:نماز ظہر کا خاص وقت شرعی ظہر (زوال آفتاب) سے لیکر اتنی دیر تک ہے جس میں چار رکعت نما زپڑھی جاسکے

ب: نمازعصر کا مخصوص وقت وہ ہے کہ جب غروب آفتاب میں اتنا وقت باقی بچا ہو کہ اس میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکے.

ج:نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت نماز ظہر کے مخصوص وقت کے ختم ہونے اور نماز عصر کے مخصوص وقت کے شروع ہونے تک ہے.

شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان تمام مشترک اوقات میں نماز ظہر و عصر کو اکٹھا اور فاصلے کے بغیر پڑھ سکتے ہیں

لیکن اہل سنت کہتے ہیں : کہ نماز ظہر کا مخصوص وقت، شرعی ظہر (زوال آفتاب) سے لیکر اس وقت تک ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے اس وقت میں نماز عصر نہیں پڑھی جاسکتی اور اس کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک نماز عصر کا مخصوص وقت ہے اس وقت میں نماز ظہر نہیں پڑھی جاسکتی.

د:نماز مغرب کا مخصوص وقت شرعی مغرب کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے

____________________

(۱)''الفقه علی المذاهب الاربعه'' کتاب الصلوة الجمع بین الصلا تین تقدیمًا و تاخیرًا ، سے اقتباس

۱۷۹

کہ جس میں تین رکعت نماز پڑھی جاسکتی ہے .اس وقت میں صرف نماز مغرب ہی پڑھی جاسکتی ہے.

ھ: نماز عشاء کا مخصوص وقت یہ ہے کہ جب آدھی رات میں صرف اتنا وقت رہ جائے کہ اس میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکے تواس کوتاہ وقت میں صرف نماز عشاء ہی پڑھی جائے گی۔

و: مغرب و عشاء کی نمازوں کا مشترک وقت نماز مغرب کے مخصوص وقت کے ختم ہونے سے لے کر نماز عشاء کے مخصوص وقت تک ہے.

شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس مشترک وقت کے اندر مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے ادا کی جاسکتی ہیں لیکن اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ نماز مغرب کا مخصوص وقت غروب آفتاب سے لے کر مغرب کی سرخی زائل ہونے تک ہے اور اس وقت میں نماز عشاء نہیں پڑھی جاسکتی پھر مغرب کی سرخی کے زائل ہونے سے لیکر آدھی رات تک نماز عشاء کا خاص وقت ہے اور اس وقت میں نماز مغرب ادا نہیں کی جاسکتی.

نتیجہ:یہ نکلتا ہے کہ شیعوں کے نظرئیے کے مطابق شرعی ظہر کا وقت آجانے پر نماز ظہر بجالانے کے بعد بلافاصلہ نماز عصر ادا کرسکتے ہیں نماز ظہر کو اس وقت نہ پڑھ کر نماز عصر کے خاص وقت تک پڑھتے ہیں ۔ اس طرح کہ نماز ظہر کو نماز عصر کے خاص وقت کے پہنچنے سے پہلے ختم کردیں اور اس کے بعد نماز عصر پڑھ لیں اس طرح نماز ظہر و عصرکو جمع کیا جاسکتا ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ نماز ظہر کو زوال کے بعد ادا کیا جائے اور نماز عصر کو اس وقت ادا کیا جائے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے.

۱۸۰