شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 80256
ڈاؤنلوڈ: 2981

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80256 / ڈاؤنلوڈ: 2981
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

اسی طرح شرعی مغرب کے وقت نماز مغرب کے بجالانے کے بعد بلا فاصلہ نماز عشا پڑھ سکتے ہیں یا پھر اگر چاہیں تو نماز مغرب کو نماز عشاء کے خاص وقت کے قریب پڑھیں وہ اس طرح کہ نماز مغرب کو نماز عشاء کے خاص وقت کے پہنچنے سے پہلے ختم کردیں اور اس کے بعد نماز عشاء پڑھ لیں اس طرح نماز مغرب و عشاء کو ساتھ میں پڑھا جاسکتا ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ نماز مغرب کو شرعی مغرب کے بعد ادا کیا جائے اور نماز عشاء کو مغرب کی سرخی کے زائل ہوجانے کے بعد بجالایا جائے یہ شیعوں کو نظریہ تھا

لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر یا مغرب و عشاء کو کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت میں ایک ساتھ ادا کرنا صحیح نہیں ہے اس اعتبار سے بحث اس میں ہے کہ کیا ہر جگہ اور ہر وقت میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں ٹھیک اسی طرح جیسے میدان عرفہ اور مزدلفہ میں دو نمازوں کو ایک ساتھ ایک ہی وقت میں پڑھا جاتا ہے

۵۔سارے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھی تھیں لیکن اس روایت کی تفسیر میں دو نظرئیے پائے جاتے ہیں :

الف: شیعہ کہتے ہیں کہ اس روایت سے مراد یہ ہے کہ نماز ظہر کے ابتدائی وقت میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد نماز عصر کو بجالایا جاسکتا ہے اور اسی طرح نماز مغرب کے ابتدائی وقت میں مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد نماز عشا کو پڑھا جاسکتا ہے اور یہ مسئلہ کسی خاص وقت اور کسی خاص جگہ یا خاص حالات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر جگہ اور ہر وقت میں ایک ساتھ دونمازیں ادا کی جاسکتی ہیں

۱۸۱

ب:اہل سنت کہتے ہیں مذکورہ روایت سے مراد یہ ہے کہ نماز ظہر کو اس کے آخری وقت میں اور نماز عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا جائے اور اسی طرح نماز مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور نماز عشاء کو اس کے اول وقت میں پڑھاجائے

اب ہم اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ان روایات کی تحقیق کرکے یہ ثابت کریں گے کہ ان روایات میں دو نمازوں کو جمع کرنے سے وہی مراد ہے جو شیعہ کہتے ہیں یعنی دو نمازوں کو ایک ہی نماز کے وقت میں پڑھا جاسکتا ہے اور یہ مراد نہیں ہے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کواس کے اول وقت میں پڑھا جائے :

روایات میں دو نمازوں کے ایک ہی ساتھ پڑھنے کا تذکرہ

۱۔احمد ابن حنبل نے اپنے کتاب مسند میں جابر بن زید سے روایت کی ہے

أخبرن جابر بن زید أنه سمع ابن عباس یقول: صلّیت مع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثمانیًا جمیعًا، و سبعًا جمیعًا قال قلت له یا أبا الشعثاء أظنّه أخّرالظهر وعجّل العصر و أخّر المغرب وعجّل العشاء قال وأنا أظن ذلک .( ۱ )

____________________

(۱)مسند احمد ابن حنبل ، جلد۱ ص ۲۲۱

۱۸۲

جابر بن زید کا بیان ہے کہ انہوں نے ابن عباس سے سنا ہے کہ وہ کہہ رہے تھے : میں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ آٹھ رکعت نماز (ظہر و عصر) اور سات رکعت نماز (مغرب وعشاء ) کو ایک ساتھ پڑھا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ابوشعثاء سے کہا: میرا یہ گمان ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہر کو تاخیر سے پڑھا ہے اور نماز عصر کو جلد ادا کیا ہے اسی طرح نماز مغرب کو بھی تاخیر سے پڑھا ہے اور نماز عشاء کو جلدی ادا کیا ہے ابوشعثاء نے کہا میرا بھی یہی گمان ہے

اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کوایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے پڑھا تھا

۲۔احمد ابن حنبل نے عبداللہ بن شقیق سے درج ذیل روایت نقل کی ہے :

''خطبنا ابن عباس یومًا بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و علق الناس ینادونه الصلاة و ف القوم رجل من بن تمیم فجعل یقول:الصلاة الصلاة : قال فغضب قال أتعلّمن بالسنة؟شهدت رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمع بین الظهر والعصروالمغرب والعشاء قال عبدالله فوجدت ف نفس من ذلک شیئًا فلقیت أباهریرة فسألته فوافقه''( ۱ )

____________________

(۱)مسند احمد، جلد۱ ص ۲۵۱.

۱۸۳

ایک دن عصر کے بعد ابن عباس نے ہمارے درمیان خطبہ دیا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے اور لوگ نماز کی ندائیں دینے لگے ان میں سے بنی تمیم قبیلے کا ایک شخص''نماز '' ''نماز '' کہنے لگا ابن عباس نے غصے میں کہا کیا تم مجھے سنت پیغمبر کی تعلیم دینا چاہتے ہو؟ میں نے خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھتے دیکھا ہے عبداللہ نے کہا اس مسئلے سے متعلق میرے ذہن میں شک پیدا ہوگیا تو میں ابوہریرہ کے پاس گیا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے ابن عباس کی بات کی تائید کی

اس حدیث میں دو صحابی ''عبداللہ ابن عباس'' اور ''ابوہریرہ'' اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ہے اور ابن عباس نے بھی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کی پیروی کی ہے.

۳۔مالک بن انس کا اپنی کتاب ''موطأ'' میں بیان ہے:

صلّیٰ رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الظهر والعصر جمیعًا والمغرب والعشاء جمیعًا فى غیر خوف ولا سفر ( ۱ )

____________________

(۱)موطأ مالک ، کتاب الصلوة طبع ۳ (بیروت) ص ۱۲۵ حدیث ۱۷۸ صحیح مسلم جلد ۲ ص ۱۵۱ طبع بیروت ، باب

الجمع بین الصلاتین فی الحضر.

۱۸۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھی تھیں جبکہ نہ تو کسی قسم کا خوف تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سفر میں تھے

۴۔مالک بن انس نے معاذبن جبل سے یہ روایت نقل کی ہے :

فکان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یجمع بین الظهر والعصر والمغرب والعشائ ( ۱ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز ظہر عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ بجالاتے تھے

۵۔ مالک بن انس نے نافع سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے یوں روایت نقل کی ہے :

کان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِذا عجّل به السیر یجمع بین المغرب والعشائ .( ۲ )

جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی مسافت جلدی طے کرنی ہوتی تو وہ مغرب و عشاء کی نمازوں کوایک ساتھ بجالاتے تھے

۶۔مالک ابن انس نے ابوہریرہ سے یوں روایت نقل کی ہے :

____________________

(۱)موطا مالک کتاب الصلوة صفحہ ۱۳۴ حدیث ۱۷۶ طبع ۳ بیروت سال طبع ۱۴۰۳ھ. صحیح مسلم طبع مصر جز ۲ صفحہ ۱۵۲.

(۲) موطأ مالک کتاب الصلوة ص ۱۲۵ حدیث ۱۷۷.

۱۸۵

ان رسو ل الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کان یجمع بین الظهر والعصر فى سفره اِلی تبوک ( ۱ )

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تبوک کے راستے میں ظہر و عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں تھیں

۷۔مالک نے اپنی کتاب موطأ میں نافع سے یوں روایت نقل کی ہے :

ان عبداللّه بن عمر کان اِذا جمع الأمراء بین المغرب والعشاء فى المطر جمع معهم ( ۲ )

جب بھی بارش کے دوران حکام مغرب اور عشاء کو اکھٹا پڑھتے تھے تو عبداللہ بن عمر بھی ان کے ساتھ اپنی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرتے تھے.

۸۔مالک ابن انس نے علی بن حسین سے یوں نقل کیا ہے :

کان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِذا أراد أن یسیر یومه جمع بین الظهر والعصر و اِذا أراد أن یسیر لیله جمع بین المغرب والعشاء ( ۳ )

____________________

(۱)موطأ مالک کتاب الصلوة ص ۱۲۴ حدیث ۱۷۵.

(۲) موطأ مالک کتاب الصلوة ص ۱۲۵ حدیث ۱۷۹.

(۳)موطأ مالک، کتاب الصلوة ص ۱۲۵ حدیث ۱۸۱.

۱۸۶

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب دن میں سفر کرنا چاہتے تھے تو ظہر اور عصر کی نمازوں کو اکھٹا ادا کرلیا کرتے تھے اور جب رات میں سفر کرنا ہوتا تھا تو مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھتے تھے

۹۔ محمد زرقانی نے موطأ کی شرح میں ابن شعثا سے یوں روایت نقل کی ہے

اِنّ ابن عباس صلّیٰ بالبصرة الظهر والعصر لیس بینهما شىء والمغرب والعشاء لیس بینهما شء ( ۱ )

بے شک ابن عباس نے بصرہ میں نماز ظہر و عصر کو ایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے پڑھا تھا اور اسی طرح نماز مغرب وعشاء کو بھی اکھٹا اور بغیر فاصلے کے بجالائے تھے

۱۰۔زرقانی نے طبرانی سے اور انھوںنے ابن مسعود سے نقل کیا ہے :

جمع النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بین الظهر والعصر و بین المغرب والعشاء فقیل له فى ذلک فقال : صنعت هذا لئلا تحرج أمت ( ۲ )

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا

____________________

(۱)موطأپرزرقانی کی شرح ، جز اول باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر والسفر ص ۲۹۴طبع مصر.

(۲)گزشتہ حوالہ.

۱۸۷

جواب میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس عمل کو اس لئے انجام دیا ہے تاکہ میری امت مشقت میں نہ پڑ جائے.

۱۱۔مسلم بن حجاج نے ابوزبیر سے اور انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے یوں روایت نقل کی ہے :

صلّیٰ رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بین الظهر والعصرجمیعًا بالمدینة فى غیر خوف ولاسفر ( ۱ )

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ منورہ میں بغیر خوف و سفر کے نماز ظہر و عصر کوایک ساتھ پڑھا تھا

اس کے بعد ابن عباس نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کے بارے میں کہا کہ :

آنحضرت چاہتے تھے کہ ان کی امت میں سے کوئی بھی شخص مشقت میں نہ پڑ نے پائے( ۲ )

۱۲۔مسلم نے اپنی کتاب صحیح میں سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے یوں روایت نقل کی ہے :

جمع رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فى المدینة من غیر خوف

____________________

(۱)صحیح مسلم جزء ۲ ص ۱۵۱ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر ،طبع مصر

(۲)یہ مطلب گزشتہ کتاب میں اسی حدیث کے ذیل میں مذکور ہے.

۱۸۸

ولامطر .( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ منورہ میں بغیر خوف اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا.

اس وقت سعید ابن جبیر نے ابن عباس سے پوچھا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس طرح کیوں کیا؟ تو ابن عباس نے کہا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی امت کو زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے.( ۲ )

۱۳۔ابوعبداللہ بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلے میں ''باب تأخیر الظہراِلی العصر '' کے نام سے ایک مستقل باب قرار دیا ہے.( ۳ )

یہ خود عنوان اس بات کا بہترین گواہ ہے کہ نماز ظہر میں تاخیر کرکے اسے نماز عصر کے وقت میں اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اس کے بعد بخاری نے اسی مذکورہ باب میں درج ذیل روایت نقل کی ہے :

انّ النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلّیٰ بالمدینة سبعًا و ثمانیًا الظهر والعصر والمغرب والعشاء ( ۴ )

____________________

(۱)گزشتہ حوالہ، صفحہ نمبر ۱۵۲

(۲)یہ مطلب گزشتہ کتاب کے صفحہ ص ۱۵۲ میں اسی حدیث کے ذیل میں مذکور ہے

(۳)صحیح بخاری جز اول ص ۱۱۰ کتاب الصلوة باب تاخیر الظہر الی العصر طبع مصر نسخہ امیریہ ۱۳۱۴ھ.

(۴) گزشتہ حوالہ.

۱۸۹

بہ تحقیق پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں سات رکعت (نماز مغرب و عشائ) اور آٹھ رکعت (نماز ظہر وعصر)پڑھی ہیں

اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جس طرح نماز ظہر میں تاخیر کرکے اسے نماز عصر کے وقت میں نماز عصر کے ساتھ بجالایا جاسکتا ہے ،اسی طرح سیاق حدیث میں موجود قرینہ اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے سمجھ میں آتاہے کہ نماز مغرب میں بھی دیر کر کے اسے نماز عشاء کے وقت میں نماز عشاء کے ساتھ بجالایا جاسکتا ہے

۱۴۔بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں ایک اور مقام پر لکھاہے :

قال ابن عمر و أبو أیوب و ابن عباس رض اللّه عنهم صلّیٰ النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المغرب والعشاء ( ۱ )

عبد اللہ بن عمر و ابوایوب انصاری اور عبداللہ بن عباس نے کہا ہے کہ : پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا ہے.

بخاری اس حدیث سے مسلم طور پر یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھا کیونکہ یہ تو یقینی ہے کہ بخاری ہرگز اس حدیث کے ذریعے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نمازی ہونے کو ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے

____________________

(۱)صحیح بخاری جز اول کتاب الصلوة باب ذکر العشاء ص ۱۱۳ طبع مصر ۱۳۱۴ھ.

۱۹۰

۱۵۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں بیان کیا ہے :

قال رجل لابن عباس الصلاة فسکت ثم قال الصلاة فسکت ثم قال الصلاة فسکت ثم قال:لا أم لک أتعلمنا بالصلٰوة و کنّا نجمع بین الصلا تین علیٰ عهد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۱ )

ایک شخص نے ابن عباس سے کہا : ''نماز'' تو ابن عباس نے کچھ نہ کہا اس شخص نے پھر کہا ''نماز'' پھر بھی ابن عباس نے اسے کوئی جواب نہ دیا تو اس شخص نے پھر کہا ''نماز'' لیکن ابن عباس نے پھر کوئی جواب نہیں دیا جب اس شخص نے چوتھی مرتبہ کہا: ''نماز'' تب ابن عباس بولے او بے اصل!تم ہمیں نماز کی تعلیم دینا چاہتے ہو ؟ جبکہ ہم پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالایا کرتے تھے

۱۶۔مسلم نے یوں روایت نقل کی ہے :

اِنّ رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمع بین الصلاة فى سفرة سافرها ف غزوة تبوک فجمع بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء قال سعید فقلت: لابن عباس:

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۲ ص ۱۵۳ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر

۱۹۱

ما حمله علی ذلک ؟ قال أراد أن لایحرج اُمته ( ۱ )

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ تبوک کے سفر میں نمازوں کو جمع کر کے نماز ظہر و عصر اور مغرب عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھا سعید بن جبیر نے کہا کہ میں نے ابن عباس سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا آنحضرت چاہتے تھے کہ ان کی امت مشقت میں نہ پڑ ے

۱۷۔ مسلم ابن حجاج نے معاذ سے اس طرح نقل کیا ہے :

خرجنا مع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فى غزوة تبوک فکان یُصلّ الظهر والعصر جمیعًا والمغرب و العشاء جمیعًا .( ۲ )

ہم پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کی طرف نکلے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا

۱۸۔مالک ابن انس کا اپنی کتاب ''الموطأ'' میں بیان ہے کہ :

عن ابن شهاب أنّه سأل سالم بن عبدالله : هل یجمع بین الظهر والعصر فى السفر؟ فقال نعم

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۲ ص ۱۵۱ طبع مصر

(۲)گزشتہ حوالہ

۱۹۲

لابأس بذلک ، ألم تر الیٰ الصلاة الناس بعرفة ؟ ( ۱ )

ابن شہاب نے سالم بن عبد اللہ سے سوال کیا کہ کیا حالت سفر میں نماز ظہر و عصر کو ایک ساتھ بجالایا جاسکتا تھا ؟ سالم بن عبداللہ نے جواب دیا ہاں اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے کیا تم نے عرفہ کے دن لوگوںکو نماز پڑھتے نہیں دیکھا ہے؟

یہاں پر اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ عرفہ کے دن نماز ظہر و عصر کو نماز ظہر کے وقت میں بجالانے کو سب مسلمان جائز سمجھتے ہیں اس مقام پر سالم بن عبداللہ نے کہا تھا کہ جیسے لوگ عرفہ کے دن دو نمازوں کو اکھٹا پڑھتے ہیں اسی طرح عام دنوں میں بھی دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے

۱۹۔متقی ہندی اپنی کتاب ''کنزالعمال'' میں لکھتے ہیں :

قال عبداللّه: جمع لنا رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقیمًا غیر مسافر بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فقال رجل لابن عمر : لم تری النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فعل ذلک ؟ قال : لِأن لایحرج اُمته ان جمع رجل .( ۲ )

____________________

(۱)موطأ مالک ص ۱۲۵ حدیث ۱۸۰ طبع ۳ ،بیروت.

(۲) کنزالعمال کتاب الصلوة ،باب الرابع فی صلاة المسافر باب جمع جلد ۸ ص ۲۴۶ طبع ۱حلب ۱۳۹۱ھ.

۱۹۳

عبد اللہ ابن عمر نے کہا: کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بغیر سفر کے نماز ظہر

وعصر اور مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا ایک شخص نے ابن عمر سے سوال کیا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسا کیوں کیا ؟ تو ابن عمر نے جواب دیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی امت کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے تاکہ اگر کوئی شخص چاہے تو دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالائے

۲۰۔اسی طرح کنزالعمال میں یہ روایت بھی موجود ہے :

عن جابر أنّ النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمع بین الظهر والعصر بأذان و اِقامتین ( ۱ )

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ظہر وعصر کی نمازوں کو اکھٹا ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ پڑھا تھا

۲۱۔ کنزالعمال میں درج ذیل روایت بھی موجود ہے:

عن جابر أنّ رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غربت له الشمس بمکة فجمع بینهما بسرف ( ۲ )

جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ مکہ میں ایک دفعہ جب آفتاب غروب ہوگیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''سرف''( ۳ ) کے مقام پر نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا.

____________________

(۱)کنزالعمال کتاب الصلوة ، باب الرابع فی صلوة المسافر باب جمع جلد۸ ص ۲۴۷ طبع ۱ حلب.

(۲) گزشتہ حوالہ.

(۳)سرف مکہ سے نومیل کے فاصلے پر واقع مقام کا نام ہے (یہ بات کنزالعمال سے اسی حدیث کے ذیل سے ماخوذ ہے)

۱۹۴

۲۲۔کنزالعمال میں ابن عباس سے یوں منقول ہے :

جمع رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدینة فى غیر سفر ولا مطر قال : قلت لابن عباس : لم تراه فعل ذلک؟ قال: أراد التوسعة علیٰ أمته ( ۱ )

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں بغیر سفر اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا. راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ تو ابن عباس نے جواب دیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی امت کے لئے سہولت اور آسانی قرار دینا چاہتے تھے

نتیجہ:

اب ہم گزشتہ روایات کی روشنی میں دو نمازوں کو جمع کرنے کے سلسلے میں شیعوں کے نظریہ کے صحیح ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے:

۱۔دونمازوں کو ایک وقت میں ایک ساتھ بجالانے کی اجازت نمازیوں کی سہولت اور انہیں مشقت سے بچانے کے لئے دی گئی ہے.

متعدد روایات میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر نماز ظہر و عصر یا مغرب و

____________________

(۱)کنزالعمال ،کتاب الصلوة ، الباب الرابع ، باب جمع جلد ۸.

۱۹۵

عشاء کو ایک وقت میں بجالانا جائز نہ ہوتا تو یہ امر مسلمانوں کے لئے زحمت و مشقت کا باعث بنتا اسی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کی سہولت اور آسانی کے لئے دو نمازوں کو ایک وقت میں بجالانے کو جائز قرار دیا ہے (اس سلسلے میں دسویں ، سولہویں ، انیسویں ، اور بائیسویں حدیث کا مطالعہ فرمائیے)

واضح ہے کہ اگر ان روایات سے یہ مراد ہو کہ نماز ظہر کواسکے آخری وقت( جب ہر چیز کا سایہ اسکے برابر ہوجائے ) تک تاخیر کر کے پڑھا جائے اور نماز عصر کو اسکے اول وقت میں بجالایا جائے اس طرح ہر دو نمازیں ایک ساتھ مگر اپنے اوقات ہی میں پڑھی جائیں( اہل سنت حضرات ان روایات سے یہی مراد لیتے ہیں ) تو ایسے کام میں کسی طرح کی سہولت نہیں ہوگی بلکہ یہ کام مزید مشقت کا باعث بنے گا جبکہ دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالانے کی اجازت کا یہ مقصد تھا کہ نمازیوںکیلئے سہولت ہو.

اس بیان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ گزشتہ روایات سے مراد یہ ہے کہ دو نمازوں کو ان کے مشترک وقت کے ہر حصے میں بجالایا جاسکتا ہے اب نماز گزار کو اختیار ہے کہ وہ مشترک وقت کے ابتدائی حصے میں نماز پڑھے یا اس کے آخری حصے میں اور ان روایات سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری کو اس کے اول وقت میں ادا کیا جائے.

۱۹۶

۲۔روز عرفہ دونمازوں کو اکھٹا پڑھنے کے حکم سے باقی دنوں میں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک عرفہ کے دن ظہر وعصر کی نمازوں کو ایک وقت میں بجالانا جائز ہے( ۱ )

مزیدبراں گزشتہ روایات میں سے بعض اس بات کی گواہ ہیں کہ میدان عرفات کی طرح باقی مقامات پر بھی نمازوں کو اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اب اس اعتبار سے روز عرفہ اور باقی عام دنوں کے درمیان یا عرفات کی سرزمین اور باقی عام جگہوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس سلسلہ میں اٹھارویں حدیث کا مطالعہ فرمائیں

لہذا جس طرح مسلمانوں کے متفقہ نظرئیے کے مطابق عرفہ میں ظہر و عصر کی نمازوں کو ظہر کے وقت پر ایک ساتھ پڑھا جاتا ہے اسی طرح عرفہ کے علاوہ بھی ان نمازوں کو ظہر کے وقت اکھٹا پڑھنا بالکل صحیح ہے

۳۔سفر کی حالت میں دو نمازوں کو اکھٹا پڑھنے کے حکم سے غیر سفر میں بھی نمازوں کے ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے .ایک طرف سے حنبلی، مالکی، اور شافعی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حالت سفرمیں دو نمازوں کو اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اور دوسری طرف گزشتہ روایات صراحت کے ساتھ کہہ رہی ہیں کہ اس اعتبار سے سفر اور غیر سفر میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں حالتوں میں نمازوں کو اکھٹا پڑھا تھا.

(اس سلسلے میں تیسری، گیارہویں، تیرہویں، اور بائیسویں حدیث کا مطالعہ فرمائیں)

اس بنیاد پر (شیعوں کے نظرئیے کے مطابق) جس طرح حالت سفر میں دو

____________________

(۱)الفقہ علی المذاھب الاربعہ ، کتاب الصلوة ،الجمع بین الصلوٰتین تقدیما و تاخیرا

۱۹۷

نمازوں کو اکھٹا بجالانا صحیح ہے اسی طرح عام حالات میں بھی دو نمازوں کو اکھٹا پڑھا جاسکتا ہے

۴۔اضطراری حالت میں دو نمازوں کے اکھٹا پڑھنے کے حکم سے عام حالت میں بھی نمازوں کے اکھٹا پڑھنے کا جواز معلوم ہوجاتا ہے.اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں میں سے بہت سی روایات اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب نے چند اضطراری موقعوں پر جیسے بارش کے وقت یا دشمن کے خوف سے یا بیماری کی حالت میں نمازوں کو ایک ساتھ اور ایک ہی وقت میں (ٹھیک اسی طرح جیسے شیعہ کہتے ہیں ) پڑھا تھا اور اسی وجہ سے مختلف اسلامی فرقوں کے فقہاء نے بعض اضطراری حالات میں دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا جائز قرار دیا ہے جب کہ گزشتہ روایات اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کہ اس سلسلے میں اضطراری اور عام حالت میں کوئی فرق نہیں ہے اور پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں حالتوں میں اپنی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا ہے

اس سلسلے میں تیسری، گیارہویں ، اور بارہویں ، اور بائیسویں روایت کا مطالعہ کیجئے

۱۹۸

۵۔اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش سے دو نمازوں کے ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے.

گزشتہ روایات میں یہ نکتہ موجود ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے اصحاب دو نمازوں کو ایک وقت میں بجالاتے تھے جیسے کہ عبداللہ ابن عباس نے نماز مغرب میں اتنی دیر کردی تھی کہ اندھیرا چھا گیا تھا اور آسمان پر ستارے چمکنے لگے تھے اور لوگوں نے نماز کی صدائیں دینا شروع کردی تھیں مگر ابن عباس نے ان کی طرف توجہ نہیں کی تھی سرانجام جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تب انہوں نے نماز مغرب و عشاء پڑھی تھی.اور اعتراض کرنے والوں کو یہ جواب دیا تھا : میں نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے نیز ابوہریرہ نے بھی ابن عباس کی اس بات کی تائید کی تھی (اس سلسلے میں دوسری، ساتویں، نویں ، اور پندہوریں روایت کا مطالعہ فرمائیں)

گزشتہ روایات کی روشنی میں اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ابن عباس نے شیعوں کی طرح دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھا تھا

۶۔پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے. اکیسویں حدیث کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ نماز مغرب کے وقت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف فرماتھے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز مغرب میں تاخیر کی تھی اور ''سرف'' نامی علاقہ( جو مکہ سے نومیل کے فاصلے پر واقع تھا)میں پہنچ کر نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھاجب کہ یہ واضح ہے کہ اگر آنحضرت مکہ سے مغرب کے اول وقت میں چلے ہوں گے تو اس زمانے کی کم رفتار سواری کے ذریعے سفر کرنے کی وجہ سے یقینا رات کا کافی حصہ گزر جانے کے بعد ہی سرف کے مقام تک پہنچے ہوں گے اسی وجہ سے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا تھا اہل سنت حضرات کی صحیح اور مسند کتابوں سے منقول گزشتہ روایات شیعوں کے نظرئیے( ظہر و عصر یا مغرب و عشاء کی نمازوں کو ہر وقت ، ہر جگہ اور ہر طرح کی صورتحال میں ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے )کے صحیح ہونے کی گواہی دیتی ہیں

۱۹۹

اٹھائیسواں سوال

شیعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہیں ؟

جواب:شیعہ ،قرآن مجید اور سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے احکام شرعی کو درج ذیل چاربنیادی مآخذ سے حاصل کرتے ہیں :

۱۔کتاب خدا

۲۔سنت

۳۔اجماع

۴۔عقل

مذکورہ ماخذو منابع میں سے قرآن مجید اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقہ شیعہ کے بنیادی ترین ماخذ ہیں اب ہم یہاں ان دونوں کے سلسلے میں اختصار کیساتھ گفتگو کریںگے :

کتاب خدا؛ قرآن مجید

مکتب تشیع کے پیرو قرآن مجید کو اپنی فقہ کا محکم ترین منبع اور احکام الہی، کی شناخت کا معیار سمجھتے ہیں کیونکہ شیعوں کے ائمہ ٪ نے فقہی احکام کے حصول کے لئے قرآن مجید کو ایک محکم مرجع قرار دیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ کسی بھی نظرئیے کو قبول کرنے سے پہلے اسے قرآن مجید پر پرکھا جائے اگر وہ نظریہ قرآن سے مطابقت رکھتا ہو تو اسے قبول کرلیا جائے ورنہ اس نظرئیے کو نہ مانا جائے

۲۰۰