شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں0%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف: سید رضا حسینی نسب
زمرہ جات:

صفحے: 296
مشاہدے: 79085
ڈاؤنلوڈ: 2853

تبصرے:

شیعہ جواب دیتے ہیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79085 / ڈاؤنلوڈ: 2853
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

اس سلسلے میں امام صادق ـفرماتے ہیں :

وکل حدیث لایوافق کتاب اللّه فهو زخرف .( ۱ )

ہر وہ کلام جو کتاب خدا سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ باطل ہے.

اسی طرح امام صادق ـنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں نقل کیا ہے:

أیّها الناس ماجائکم عن یوافق کتاب اللّه فأنا قلته وماجاء کم یخالف کتاب اللّه فلم أقله ( ۲ )

اے لوگو! ہر وہ کلام جو میری طرف سے تم تک پہنچے اگر وہ کتاب خدا کے مطابق ہو تو وہ میرا قول ہے لیکن اگر تم تک پہنچنے والا کلام کتاب خدا کا مخالف ہو تو وہ میرا قول نہیں ہے.

ان دو حدیثوں سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ شیعوں کے ائمہ ٪ کی نگاہ میں احکام شرعی کو حاصل کرنے کے لئے کتاب خدا محکم ترین ماخذ شمار ہوتی ہے.

____________________

(۱)اصول کافی، جلد۱ ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب ، حدیث ۳.

(۲) گذشتہ حوالہ حدیث ۵.

۲۰۱

سنت

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تائید کو سنت کہتے ہیں اسے شیعوں کی فقہ کا دوسرا ماخذ شمار کیا جاتا ہے سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نقل کرنے والے ائمہ معصومین٪ ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم کے خزینہ دار ہیں

البتہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند دوسرے طریقوں سے نقل ہونے والے ارشادات کو بھی شیعہ قبول کرتے ہیں .یہاں پرضروری ہے کہ ہم دو چیزوں کے متعلق بحث کریں :

سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کی دلیلیں: شیعوں کے ائمہ ٪ نے اپنی پیروی کرنے والوں کوجس طرح قرآن مجید پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح انہوں نے سنت نبوی کی پیروی کرنے کی بھی تاکید کی ہے اور ہمیشہ اپنے ارشادات میں ان دونوں سے تمسک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے امام صادق ـ فرماتے ہیں :

اِذا ورد علیکم حدیث فوجدتم له شاهدًا من کتاب اللّه أو من قول رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واِلا فالذى جائکم به أولیٰ به .( ۱ )

جب کوئی کلام تم تک پہنچے تو اگر تمہیں کتاب خدا یا سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کی تائید حاصل ہوجائے تو اسے قبول کرلینا ور نہ وہ کلام

بیان کرنے والے ہی کو مبارک ہو

____________________

(۱)اصول کافی جلد۱ کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنہ و شواھد الکتاب حدیث ۲.

۲۰۲

اسی طرح امام محمدباقر ـ نے ایک جامع الشرائط فقیہ کے لئے سنت نبی اکرم سے تمسک کو اہم ترین شرط قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا ہے:

اِنّ الفقیه حق الفقیه الزاهد ف الدنیا والراغب فى الآخرة المتمسک بسنّة النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۱ )

بے شک حقیقی فقیہ وہ ہے جو دنیا سے رغبت نہ رکھتا ہو اور آخرت کا اشتیاق رکھتا ہو ، نیز سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک رکھنے والا ہو.

ائمہ معصومین ٪ نے اس حد تک سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ کتاب خدا اور سنت نبوی کی مخالفت کو کفر کی اساس قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں امام صادق ـ یوں فرماتے ہیں :

مَن خالف کتاب اللّه وسنّة محمّد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقد کفر .( ۲ )

جس شخص نے کتاب خدا اور سنت محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کی وہ کافر ہوگیا

اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے بقیہ فرقوں کی بہ نسبت نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسی طرح بعض لوگوں کایہ نظریہ بھی باطل ہوجاتا ہے کہ شیعہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت سے بیگانہ اور دور ہیں

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ حدیث ۸

(۲) گذشتہ حوالہ حدیث ۶

۲۰۳

احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل

عترت پیغمبرکی احادیث کے سلسلے میں شیعوں کے نظریہ کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذیل کے دو موضوعات پر گفتگو کریں :

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت.

ب:اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل اب ہم یہاں ان دو موضوعات کے سلسلے میں مختصر طور پر تحقیقی گفتگو کریں گے :

عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی حقیقت

شیعوںکے نکتہ نظر سے فقط خداوندحکیم ہی انسانوں کے لئے شریعت قرار دینے اور قانون وضع کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس کی طرف سے یہ شریعت اور قوانین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ لوگوں تک پہنچتے ہیں واضح ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور انسانوں کے درمیان وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی شریعت کے پہنچانے کے لئے واسطے کی ذمہ داری کو نبھاتے ہیں اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے اگر شیعہ اہل بیت ٪ کی احادیث کو اپنی فقہ کے ماخذ میں شمار کرتے ہیں تو ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل بیت ٪ کی احادیث سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلے میں کوئی مستقل حیثیت رکھتی ہیں بلکہ احادیث اہل بیت ٪ اس وجہ سے معتبر ہیں کہ وہ سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بیان کرتی ہیں

۲۰۴

اس اعتبارسے ائمہ معصومین ٪ کبھی بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں فرماتے بلکہ جو کچھ وہ فرماتے ہیں وہ در حقیقت سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کی وضاحت ہوتی ہے یہاں پر ہم اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ائمہ معصومین ٪ کی چند روایات پیش کریں گے :

۱۔امام صادق ـ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں یوں فرمایاہے:

مهما أجبتک فیه بشء فهو عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لسنا نقول برأینا من شئ .( ۱ )

اس سلسلے میں جو جواب میں نے تمہیں دیا ہے وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ہے ہم کبھی بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے :اور ایک مقام پر یوں فرماتے ہیں :

حدیث حدیث أب ، و حدیث أب حدیث جد و حدیث جد حدیث الحسین وحدیث الحسین حدیث الحسن و حدیث الحسن حدیث أمیرالمؤمنین ، و حدیث أمیر المؤمنین حدیث رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حدیث رسول اللّه قول اللّه عزّ وجلّ .( ۲ )

میری حدیث میرے والد (امام باقر ـ)کی حدیث ہے ،

____________________

(۱)جامع الاحادیث الشیعہ جلد۱ ص ۱۲۹

(۲) گذشتہ حوالہ ص ۱۲۷

۲۰۵

اور میرے والد کی حدیث میرے دادا (امام زین العابدین ـ) کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین ـ کی حدیث ہے اور امام حسین ـ کی حدیث امام حسن ـ کی حدیث ہے اور امام حسن ـ کی حدیث امیر المومنین ـ کی حدیث ہے اور امیر المومنین ـکی حدیث رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث خداوندمتعال کا قول ہے

۲۔امام محمد باقر ـنے جابر سے یوں فرمایا تھا :

حدثنى أبى عن جد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عن جبرائیل ـ عن اللّه عزّوجلّ و کلما أحدّثک بهذا الأسناد .( ۱ )

میرے پدربزرگوار نے میرے دادا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اور انہوں نے جبرئیل سے اور انہوں نے خداوندعالم سے روایت کی ہے اور جو کچھ میں تمہارے لئے بیان کرتا ہوں ان سب کا سلسلہ سند یہی ہوتا ہے.

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص۱۲۸

۲۰۶

اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل

شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے محدثین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

نے بھی میراث کے طور پر اپنی امت کے لئے دو قیمتی چیزیں چھوڑی ہیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی پیروی کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہیں یہاں ہم نمونے کے طور پر ان روایات میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔ ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے اور انہوں نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے :

یاأیّها النّاس اِنّ قد ترکت فیکم ما اِن أخذتم به لن تضلّوا : کتاب اللّه و عترتى أهل بیتى .( ۱ )

اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہیں

۲۔اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں یہ حدیث نقل کی ہے :

قال رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِنىّ تارک فیکم ما اِن تمسکتم به لن تضلّوا بعد أحدهما أعظم من الآخر : کتاب اللّه حبل ممدود من السماء اِلیٰ الأرض و عترتى أهل بیتى ولن یفترقا حتیٰ یردا

____________________

(۱)صحیح ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اہل بیت النبی جلد۵ ص ۶۶۲ حدیث ۳۷۸۶ طبع بیروت.

۲۰۷

علّى الحوض فانظروا کیف تخلفون فیهما .( ۱ )

میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان دو چیزوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ، کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آویزاں ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں لہذا یہ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو.

۳۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے:

ألا أیّها النّاس فاِنّما أنا بشر یوشک أن یأت رسول ربّ فأجیب و أنا تارک فیکم ثقلین أولهما کتاب اللّه فیه الهدیٰ والنور فخدوا بکتاب اللّه واستمسکوا به فحثّ علیٰ کتاب اللّه و رغّب فیه ثم قال : أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت. ( ۲ )

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص ۶۶۳ حدیث ۳۷۸۸.

(۲)صحیح مسلم جز ۷ فضائل علی ابن ابی طالب ص ۱۲۲ اور ۱۲۳.

۲۰۸

اے لوگو!بے شک میں ایک بشر ہوںاور قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا نمائندہ آئے اور میں اسکی دعوت قبول کروں اور میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس کی جانب رغبت دلائی اور اس کے بعد یوں فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور میں تمہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں وصیت و تاکید کرتا ہوں اور اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا

۴۔بعض محدثین نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے:

اِنّى تارک فیکم الثقلین کتاب اللّه و أهل بیتى و اِنّهما لن یفترقا حتیٰ یردا علىّ الحوض ( ۱ )

بے شک! میں تمہارے درمیان دووزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں

____________________

(۱)مستدرک حاکم جز ۳ ص ۱۴۸ ، الصواعق المحرقہ باب ۱۱ فصل اول ص ۱۴۹ اس مضمون کے قریب بعض

درج ذیل کتابوں میں بھی روایات موجود ہیں .مسنداحمد جز ۵ ص۱۸۲اور ۱۸۳۔کنز العمال ،جز اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ۴۴.

۲۰۹

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس سلسلے میں اتنی زیادہ حدیثیں موجود ہیں کہ ان سب کا اس مختصر کتاب میں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے.علامہ میرحامد حسین نے اس روایت کے سلسلۂ سند کو اپنی چھ جلدوں والی کتاب (عبقات الانوار) میں جمع کر کے پیش کیا ہے.

گذشتہ احادیث کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک اور ان کی پیروی بھی اسلام کے ضروریات میں سے ہے.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد کون افراد ہیں کہ جن کی پیروی کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے ؟

اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ہم احادیث کی روشنی میں عترت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں تحقیق پیش کرنا چاہیں گے:

اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟

گذشتہ روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب مسلمانوں کو اپنی عترت کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور کتاب خدا کی طرح انہیں بھی لوگوں کا مرجع قرار دیا ہے اور صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ ''قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے'' اس بنیاد پر اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ ہیں کہ جنہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور جو معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ معارف اسلامی سے مکمل طور پر آگاہی رکھتے ہیں .کیونکہ اگر وہ ان صفات کے مالک نہ ہوں تو قرآن مجید سے جدا ہو جائیں گے جبکہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ : قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اہل بیت ٪ اور ان کی اعلی صفات کی صحیح طور پر شناخت ایک ضروری امر ہے اب ہم اس سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان بزرگ سمجھنے جانے والے محدثین سے منقول روایات کی روشنی میں چند واضح دلیلیں پیش کریں گے :

۲۱۰

۱۔ مسلم بن حجاج نے حدیث ثقلین کا ذکر کرنے کے بعد یوں کہا ہے کہ:

''یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے پوچھا اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟ کیا وہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں ہیں ؟'' زید بن ارقم نے جواب دیا :

لا و أیم اللّه اِنّ المرأه تکون مع الرجل العصر من الدهر ثم یطلّقها فترجع اِلیٰ أبیها و قومها أهل بیته أصله و عصبته الذین حرموا الصدقة بعده. ( ۱ )

نہیں خدا کی قسم عورت جب ایک مدت تک کسی مرد کے ساتھ رہتی ہے اور پھر وہ مرد اسے طلاق دے دیتاہے تو وہ عورت اپنے باپ اور رشتے داروں کے پاس واپس چلی جاتی ہے اہل بیت

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۷ باب فضائل علی بن ابی طالب ـ ،ص ۱۳۲طبع مصر.

۲۱۱

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد وہ افراد ہیں جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصلی اور قریبی رشتہ دار ہیں کہ جن پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے.

یہ قول بخوبی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جن سے تمسک قرآن کی پیروی کی طرح واجب ہے ان سے ہرگز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں مراد نہیں ہیں بلکہ اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہ افراد مراد ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جسمانی اور معنوی رشتہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر چندخاص صلاحتیں بھی پائی جاتی ہوں.تبھی تو وہ قرآن مجید کی طرح مسلمانوں کا مرجع قرار پاسکتے ہیں

۲۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف اہل بیت ٪ کے اوصاف بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کی تھی بلکہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی تعداد (جو کہ بارہ ہے)کو بھی صاف لفظوں میں بیان کردیا تھا :

مسلم نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:

سمعت رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول: لایزال الاِسلام عزیزًا اِلیٰ اثن عشر خلیفة ثم قال کلمة لم أفهمها فقلت لأب ماقال ؟ فقال: کلهم من قریش .( ۱ )

میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو بارہ خلفاء کے ذریعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی لفظ

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد ۶ ص۳ طبع مصر.

۲۱۲

کہا جسے میں نہیں سمجھ سکا لہذا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا فرمایا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے

مسلم بن حجاج نے اسی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت بھی نقل کی ہے :

لایزال أمر الناس ماضیًا ماولیهم اثنا عشر رجلاً .( ۱ )

لوگوں کے امور اس وقت تک بہترین انداز میں گزریں گے جب تک ان کے بارہ والی رہیں گے.

یہ دو روایتیں شیعوں کے اس عقیدے کی واضح گواہ ہیں '' کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد عالم اسلام کے بارہ امام ہی لوگوں کے حقیقی پیشوا ہیں '' کیونکہ اسلام میں ایسے بارہ خلفاء جو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بلافاصلہ مسلمانوں کے مرجع اور عزت اسلام کا سبب بنے ہوں ، اہل بیت کے بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے کیونکہ اگر اہل سنت کے درمیان خلفاء راشدین کہے جانے والے چار خلفاء سے صرف نظر کرلیا جائے پھر بھی بنی امیہ اور بنی عباس کے حکمرانوں کی تاریخ اس بات کی بخوبی گواہی دیتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے برے کردار کی وجہ سے اسلام اور مسلمین کی رسوائی کا سبب بنتے رہے ہیں اس اعتبار سے وہ (اہل بیت)کہ جنہیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ اور مسلمانوں کا مرجع

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ.

۲۱۳

قرار دیا ہے وہ عترت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وہی بارہ امام ہیں جو سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محافظ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم کے خزینہ داررہے ہیں

۳۔حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبـ کی نگاہ میں بھی مسلمانوں کے ائمہ کو بنی ہاشم سے ہونا چاہیے یہ بات شیعوں کے اس نظرئیے (کہ اہل بیت کی شناخت حاصل کرنا ضروری ہے) پر ایک اور واضح دلیل ہے حضرت امام علی ـ فرماتے ہیں :

اِنّ الأئمة من قریش غرسوا ف ھذا البطن من بن ہاشم لاتصلح علیٰ مَن سواھم ولا تصلح الولاة من غیرھم۔( ۱ )

یاد رکھو قریش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشت زار میں قرار دئیے گئے ہیں اور یہ امامت نہ ان کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.

نتیجہ:

گزشتہ روایات کی روشنی میں دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

۱۔قرآن مجید کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اہل بیت ٪ سے تمسک اور ان کی پیروی بھی واجب ہے

۲۔پیغمبر اسلام کے اہل بیت جو قرآن مجید کے ہم پلہ اور مسلمانوں کے مرجع ہیں مندرجہ ذیل خصوصیات کے مالک ہیں :

____________________

(۱)نہج البلاغہ (صبحی صالح)خطبہ ۱۴۴.

۲۱۴

الف:وہ سب قبیلۂ قریش اور بنی ہاشم کے خاندان میں سے ہیں

ب:وہ سب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایسے رشتہ دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے

ج:وہ سب عصمت کے درجے پر فائز ہیں ورنہ وہ عملی طور پر کتاب خدا سے جدا ہوجائیں گے جبکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ دونوں(قرآن و عترت) ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں گے

د:ان کی تعداد بارہ ہے جو یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے امام ہوں گے.

ھ:پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ بارہ خلفاء اسلام کی عزت و شوکت کا سبب بنیںگے.

گذشتہ روایات میں موجود اوصاف کو مدنظر رکھنے سے یہ بات آفتاب کی مانند روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہل بیت جن کی پیروی کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا ہے ان سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد وہی بارہ ائمہ٪ ہیں جن کی پیروی کرنے اور احکام فقہ میں ان سے تمسک اختیار کرنے کو شیعہ اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔

۲۱۵

انتیسواں سوال

کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟

جواب:حضرت علی ـ کے والد ماجد، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا جناب ابوطالب بن عبدالمطلب شیعوں کے عقیدے کے مطابق نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر مکمل ایمان رکھتے تھے اور وہ صدر اسلام کی تمام سختیوں اور مشکلات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے بڑے حامی و ناصر تھے.

خاندان جناب ابوطالب

جناب ابوطالب نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جس کی سرپرستی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جد امجد دین ابراہیمی کے پیرو جناب عبدالمطلب کے ہاتھوں میں تھی جزیرۂ عرب کی تاریخ میں معمولی غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جناب عبدالمطلب اپنی زندگی کے سخت ترین حالات اور پر خطر مراحل کے دوران بھی خدا پرستی اور آئین توحید کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے تھے.

جس وقت ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کو ویران کرنے کے قصد سے مکہ کی طرف آرہا تھا تو اس نے راستے میں جناب عبدالمطلب کے اونٹوں کو پکڑلیا

۲۱۶

تھا اور جس وقت جناب عبدالمطلب اپنے اونٹوں کے مطالبے کے لئے ابرھہ کے پاس پہنچے تو اس نے بڑے ہی تعجب کے ساتھ ان سے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا مطالبہ تو کیا لیکن مجھ سے یہاں سے واپس جانے اور خانہ کعبہ کو ویران نہ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ؟ اس وقت جناب عبدالمطلب نے اپنے ایمان و اعتقاد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے یہ جواب دیا تھا :

أنا ربّ الاِبل وللبیت ربّ یمنعه (یحمیه) .( ۱ )

میں اونٹوں کا مالک ہوںاور اس گھر (خانہ کعبہ) کا بھی مالک موجود ہے جو خود اس کی حفاظت و حمایت کرے گا

اس کے بعدجناب عبدالمطلب مکہ کی طرف روانہ ہوگئے پھر مکہ میں خانہ کعبہ کے دروازے کی کنڈی پکڑ کر یوں کہا :

یا ربّ لاأرجو لهم سواکا

یاربّ فامنع منهم حماکا

اِن عدوالبیت مَن عاداکا

امنعهم أن یُخرّبوا فناکا( ۲ )

____________________

(۱)کامل ابن اثیر جلد ۱ ص ۲۶۱ طبع مصر ، ۱۳۴۸ھ.

(۲) گذشتہ حوالہ.

۲۱۷

اے پروردگارمیں تیرے سوا کسی سے امید نہیں رکھتا پروردگارا!تو خود ان دشمنوں کے مقابلے میں اپنے حرم کی حفاظت فرما.

اس گھرکے دشمن تجھ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں انہیں روک دے تاکہ تیرے گھر کو ویران نہ کرسکیں

اس قسم کے بلند پایہ اشعار جناب عبدالمطلب کے مومن اور خدا پرست ہونے کے واضح گواہ ہیں اسی وجہ سے یعقوبی نے اپنی تاریخ کی کتاب میں جناب عبدالمطلب کے متعلق یوں تحریر کیا ہے:

رفض عبادة الأصنام و وحّد اللّه عزّ وجلّ .( ۱ )

عبدالمطلب نے بتوں کی پوجا سے انکار کیا تھا اور آپ خدا کے موحد بندے تھے

آئیے اب یہ دیکھا جائے کہ اس مومن اور خدا پرست شخصیت کی نگاہ میں ان کے بیٹے ابوطالب کی کیا منزلت تھی؟

عبدالمطلب کی نگاہ میں ابوطالب

تاریخ شاہد ہے کہ بعض روشن ضمیر نجومیوں نے جناب عبدالمطلب کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روشن مستقبل اور ان کی نبوت سے باخبر کردیا تھا جس وقت ''سیف بن ذی یزان''

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی جلد۲ ص ۷ طبع مصر.

۲۱۸

نے حکومت حبشہ کی باگ ڈور سنبھالی تو جناب عبدالمطلب ایک وفد کے ہمراہ حبشہ تشریف لے گئے اس وقت ''سیف بن ذی یزان'' نے ایک اہم خطاب کے بعد جناب عبدالمطلب کو یہ خوشخبری دی ''آپ کے خاندان میں ایک عظیم القدر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لاچکے ہیں '' اس کے بعد اس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خصوصیات یوں بیان کئے:

اسمه محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یموت أبوه و أمه و یکفله جدّه و عمّه .( ۱ )

انکا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے انکے ماں باپ کا (جلد ہی) انتقال ہوجائے گااور ان کی سرپرستی ان کے دادا اور چچا کریں گے

اس وقت اس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صفات بیان کرتے ہوئے یہ جملے بھی کہے تھے :

یعبد الرّحمٰن و یدحض الشیطان و یخمدالنیران و یُکسّر الأوثان قوله فصل و حکمه عدل و یأمر بالمعروف و یفعله و ینهیٰ عن المنکر و یبطله .( ۲ )

وہ خدائے رحمن کی عبادت کریں گے، شیطان کے دام میں نہیں آئیں گے، جہنم کی آگ کو بجھائیں گے اور بتوں کو توڑیں

____________________

(۱)سیرہ حلبی جلد۱طبع مصر ص ۱۳۶، ۱۳۷ ،اور طبع بیروت ص ۱۱۴۔۱۱۵.

(۲) گذشتہ حوالہ.

۲۱۹

گے .ان کا قول حق و باطل میں جدائی کا میزان ہوگا وہ دوسروں کو نیکی کا حکم دیں گے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں گے وہ دوسروں کو برائی سے روکیں گے اور اسے باطل قرار دیں گے

اور پھر اس نے جناب عبدالمطلب سے کہا :

اِنک لجده یا عبدالمطلب غیر کذب ( ۱ )

اے عبدالمطلب اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ آپ ان کے دادا ہیں

جناب عبدالمطلب نے جب یہ خوشخبری سنی تو سجدہ شکر بجالائے اور پھر اس بابرکت مولود کے احوال کو یوں بیان کیا:

اِنّه کان لى ابن و کنت به معجبًا وعلیه رقیقاً وا ِنّ زوجته کریمة من کرائم قوم آمنة بنت وهب بن عبدمناف ابن زهره فجاء ت بغلام فسمّیته محمدًا مات أبوه و أمه و کفلته أنا و عمّه (یعنی أباطالب) .( ۲ )

میرا ایک بیٹا تھا جس سے مجھے بہت زیادہ محبت تھی میں نے اس کی شادی اپنے شرافتمند رشتہ داروں میں سے ایک نیک سیرت خاتون ''آمنہ'' بنت وہب بن عبدمناف سے کی تھی اس

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ.

(۲)سیرہ حلبی جلد۱ ص ۱۳۷ طبع مصر.

۲۲۰