شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں20%

شیعہ جواب دیتے ہیں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

شیعہ جواب دیتے ہیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95439 / ڈاؤنلوڈ: 4185
سائز سائز سائز
شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ جواب دیتے ہیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

یہ شواہد جو میں نے عرض کیے کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ اہل سنت کا اہل بیتؑ نبویؐ سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ لوگ ائمہ اہل بیتؑ سے الگ کیوں رہے؟صرف اس لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ ہماری فقہ،ہمارے عقائد،ہماری ثقافت،کچھ بھی تو اہل بیتؑ سے میل نہیں کھاتی سب کچھ اہلبیتؑ سے الگ ہے اس لئے ہم بھی اہل بیتؑ سے الگ ہیں۔

ائمہ اہل بیتؑ نے امت کی ہدایت و ثقافت اور تہذیب اخلاق کو اہمیت دی

لیکن ائمہ اہل بیتؑ چونکہ نبیؐ کے وارث اور آپؑ کے علوم کے حامل تھے اس لئے انہوں نے ہمیشہ نبیؐ کے بعد امت کی ہدایت کا خود کو ذمہ دار سمجھا اور امت کی ثقافت پردھیان دیتے رہے تا کہ اسلامی سماج کو صحیح سمت کی نشان وہی کرتے رہیں یہی وجہ ہے کہ ان حضرات نے سب سے اہم کام یہ سمجھا کہ علم و معرفت کا زیادہ سے زیادہ پرچار کیا جائے اس سلسلہ میں مولائے کائناتؑ کا قول ثبوت کے طور پر حاضر ہے آپؑ فرمایا کرتے تھے مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں(1) حدیث مشہور میں جناب کمیل سے مروی ہے جناب کمیل کہتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنینؑ نے میرا ہاتھ پکڑا اور صحرا کی طرف لے کر چلے جب ہم لوگ صحرا میں بالکل اکیلے ہوگئے تو آپؑ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور فرمایا(اے کمیل دلوں میں ظرفیت ہوتی ہے اور وہ دل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المستدرک علی صحیحین ج:2ص:383،کتاب فتن میں مذکور سنتیں،ج:4ص:838،دلائل،علامات اور اشراط کے باب میں ج:6ص:1196،جس نے کہا صافی بن صیّاد ہی دجّال ہے کہ باب میں اسی کے مانند تفسیر طبری ج:13ص:221میں ہے،المستدرک علی صحیحین ج:2ص:506،معتصر المختصرج:2ص:30،مناقب علی کے بیان میں لیکن(تفقدونی)کی جگہ(لا تسالونی)نیز دیگر مختلف الفاظ میں ہر منتخب احادیث میں ذکر ہوا ہےج:2ص:61،مجمع الزوائدج:4ص:669،کتاب النکاح،المصنف،ابن ابی شیبہ ج:3ص:530،مسند الشاشی ج:2ص:96،مسند البزارج:2ص:192،الفتن،ابن نعیم بن حمادج:1ص:40،فتح الباری ج:11ص:291،تحفۃ الاحوذی ج:7ص:27،فیض القدیرج:4ص:357،حلیۃ الاولیاءج:4ص:366،تہذیب التہذیب ج:7ص:297،تہذیب الکمال ج:20ص:487،الطبقات الکبریٰ ج:2ص:338،علی بن ابی طالب کے حالات میں الاصابۃج:4ص:568،تہذیب الاسماءص:317،تلخیص المتشابۃج:1ص:62،اخبار مکہ،ج:3ص:228 ان اشیاء کے اوائل کے بیان میں جو زمانہ قدیم سے آج تک مکہ میں رونما ہوتی ہیں

۱۴۱

سب سے بہتر ہے جس میں علم کی زیادہ گنجائش ہے میں جو کہہ رہا ہوں اس کی حفاظت کرنا لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:

1۔عالم ربانی.

2۔نجات کے راستے کا طالب علم.

3۔گنوار کمینے لوگ.

ہر آواز دینےوالے کی پیروی کرنےوالے جو ہوا کے رخ پر چل نکلے ہیں انہوں نے نور علم سے روشنی لی نہ قابل اعتبار سہارے پر تکیہ کیا)پھر آپؑ نے علم کی فضیلت میں ایک لمبی گفتگو کی اور تحصیل علم کو فرض ثابت کیا پھر آپؑ نے صدر اقدس پر ہاتھ رکھ فرمایا اے کمیل یہاں بہت علم ہے کاش میں اس علم کو اٹھانےوالا پاتا۔(1)

عمروبن مقدام کہتا ہے جب میں جعفر بن محمدؑ کو دیکھتا تھا تو مجھے یقین ہوجاتا تھا کہ آپ کا لگاؤ شجرہ نبوت سے ہے میں نے آپ کو باب جمرہ پر کھڑے ہوئے دیکھا آپ کہہ رہے تھے مجھ سے پوچھو!مجھ سے پوچھو!(2)

صالح بن ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا جعفر بن محمدؑ کہہ رہے تھے مجھے کھودینے سے پہلے مجھ سے پوچھو!میری طرح میرے بعد تم سے کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرےگا(3) ائمہ اہل بیتؑ سے ایسی بہت سی باتیں ظاہر ہوتی رہی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:4ص:36،نزھۃ الناظر و تنبیہ الخاطرص:57،کنزالعمال ج:10ص:363،حدیث:39391،تاریخ بغدادج:6ص:376،اسحاق بن محمد بن احمد بن ابان کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:5ص:252کمیل بن زیاد کے حالات میں تہذیب الکمال ج:24،ص:220کمیل بن زیاد کے حالات میں،تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:11،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،حلیۃ الاولیاءج:1ص:80،التدوین فی اخبار القزوین ج:3ص:209،صفوۃ الصفوۃ ج:1ص:329۔303۔

(2)سیر اعلام النبلاءج:6ص:257،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں،الکامل فی ضعفاءالرجال ج:2ص:132،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں تہذیب الکمال ج:5ص:79،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں

(3)تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:166حالات جعفر بن محمد صادقؑ،سیر اعلام النبلاءج:6ص:257حالات جعفر بن محمد صادقؑ،تھذیب الکمال ج:5ص:79حالات جعفر بن محمد بن صادقؑ(میں تمہیں جو بتاؤں گا وہ میرے بعد کوئی بھی نہیں بتائے سکےگا)

۱۴۲

جب جمہور نے منھ موڑ لیا تو آپ حضرات نے اپنے شیعوں کو بہت اہمیت دی

ائمہ اہل بیتؑ نے ب یہ دیکھا کہ جمہور ہم سے منحرف ہے اور ہماری باتوں کو قبول نہیں کرتے تو ان حضرات پر یہ بات بہت گراں گذری،اس سلسلہ میں امام زین العابدین علیہ السلام کا قول ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہوں آپؑ فرمایا کرتے تھے ہمیں نہیں معلوم کہ ہم لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کریں جب ہم ان سے وہ حدیثیں بیان کرتے ہیں جو ہم نے نبیؐ سے سنی ہیں تو وہ ہنسنے لگتے ہیں اور ہم چپ رہیں تو ایسا ہم کر نہیں سکتے۔(1)

پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارے سلسلےمیں لوگوں کو بڑی سخت آزمائش کا سامنا ہے اگر ہم انھیں دعوت دیں تو وہ ہماری سنتے نہیں اور انھیں ان کے حال پر چھوڑدیں تو ہمارے بغیر وہ ہدایت پا نہیں سکتے۔(2)

اسی طرح کی شکایت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی کی ہے(3)

مجبور ہو کر ائمہ اہل بیتؑ نے جمہور اہل سنت سے تقیہ اور کتمان کرنا شروع کیا اور اپنےشیعوں کی طرف متوجہ ہوگئے،ان حضرات نے اپنے شیعوں کو اختصاص بخشا،ان سے مطمئن ہوئے،انہیں اپنا رازدار بنایا،انہیں اپنی سیرت کے سانچے میں ڈھالا اور عقیدہ،فقہ،اخلاق،حسن سلوک اور تمام علوم جو انھیں ورثہ میں ہادی برحق سے ملے تھے اپنے شیعوں کو بخش دیئے یہی وجہ ہے کہ شیعیان اہل بیتؑ(محبت اہل بیتؑ اور اپنے اماموں کی خصوصی توجہ کی وجہ سے)تمام عالم اسلام میں ممتاز اور سربلند ہوگئے اور دشمنان اہل بیتؑ سے بےنیاز ہوگئے بلکہ ان سے بچتے رہے اور ان کی طرف سے بالکل ہی روگردانی کردی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکافی ج:3ص:234

(2)الارشادج:2ص:167۔168،اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ ج:1ص:508الخرائج و الجرائح ج:2ص:893،مناقب آل ابی طالب ج:3ص:336،کشف الغمہ ج:2ص:339۔340،بحارالانوارج:26ص:253ج:6ص:288

(3)الامالی للصدوق ص:707،وسائل الشیعہ ج:21ص:142،بحارالانوارج:23ص:99۔

۱۴۳

عالم اسلام میں ائمہ اہل بیتؑ کا بہرحال ایک مقام ہے

عنایات الٰہی کا یہ فیصلہ ہے کہ حجت تمام کرنے کے لئے اہل بیت کے ائمہ اطہارؑ کی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ مقام ان کی اپنے قوت بازو کی کمائی ہے،ان کا علم ان کا جہاد،ان کا تقویٰ،ان کی حکمت،ان کی حسن سیرت،کتاب و سنت کے ارشادات ان کی فضیلت میں ان کی عظمت و بزرگی،ان کے شیعوں کی جد و جہد،مسلسل قربانیاں،یہ تمام باتیں نظرانداز کرنے کے لائق نہیں ہیں اور انھیں صفات حسنہ کی وجہ سے عام عالم اسلام ان کی عزت کرنے پر مجبور ہے اور انہیں ایک مقام دیتا ہے۔

ثبوت یہ ہے کہ جب جمہور اہل سنت نے دیکھا اور محسوس کیا کہ(اہل بیتؑ کو چھوڑ دینے کے بعد)ان کے عقیدے میں کافی خامیاں آگئی ہیں تو کوشش شروع کردی کہ شیعہ اپنے اماموں سے عقیدہ،امامت و خلافت سے جو بات کہتے ہیں اس کا سرے سے انکار کردیا جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ شیعوں نے یہ بات اپنی طرف سے گڑھی ہیں ائمہ اہل بیتؑ اور مولا علی علیہ السلام تو دونوں خلفا(ابوبکر و عمر)کی خلافت کا اقرار کرتے تھے اور ان سے راضی تھے اور یہ کہ اس دلیل کی بنیاد پر ہم اہل بیتؑ کے تابع ہیں نہ کہ شیعہ لوگ،دلیل میں انہوں نے ایسی نادر الوجود اور کمیاب حدیثیں پیش کی ہیں جو یا تحریف شدہ ہیں یا جھوٹی ہیں یا مقام تقیہ میں ہیں بہرحال استدلال سے قاصر ہیں وہ حدیثیں تو خود ہی کمزور ہیں بھلا ان قوی ثقہ اور حسن حدیثوں کا کیا مقابلہ کرسکیں گی جو شیعہ اپنے ائمہ اہل بیتؑ سے خاص طور سے امامت و خلافت کے سلسلے میں وارد کرتے ہیں اور جن کی بنیاد پر شیعوں کے عقیدہ امامت کی عمارت کھڑی ہوئی ہے،جو حدیثیں پکار پکار کے کہتی ہیں کہ اہلبیتؑ کے عقیدہ امامت کی عمارت کھڑی ہوئی ہے،جو حدیثیں پکار پکار کے کہتی ہیں کہ اہلبیتؑ کا حق غصب کیا گیا،ان پر ظلم کیا گیا اور ان کو ہمیشہ ستایا گیا اور جن حدیثوں میں ائمہ اہل بیتؑ ظلم کرنےوالے غاصبوں کا انکار کرتے ہیں وہ حدیثیں اور دلیلیں قائم حقیقتیں ہیں،روشن و ضیا بار حدیثیں ہیں ان میں

۱۴۴

شک کی گنجائش ہے نہ شبہ کی جگہ۔اور اگر کوئی غبی شبہ کرتا بھی ہے تو ہمیں کوئی ایسی حقیقت بتا دیجئے جو چاہے جتنا بھی روشن ہو مگر شبہ سے بری ہو اور شک سے پاک،لیکن یہ دیکھیں کہ شبہ کر کون رہا ہے؟وہی جو اس حقیقت کو مٹانا چاہتا ہے یا ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اس کو ماننا نہیں چاہتا ہے،خاص طور سے یہ حقیقت(عقیدہ امامت)اس پر شبہ تو کیا ہی جائےگا اس لئے کہ یہ ایک بڑےگروہ کے لئے لقمہ تلخ بنی ہوئی ہے،اقتدار غالب کے خلاف ہے اور ایک ایسی بات کو ثابت کر رہی ہے جس کا انکار کرنےوالا فضیحت کا مستحق ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ شکوک و شبہات کی بنیاد پر حق جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے اور شک و شبہ کسی حق کے انکار کی دلیل نہیں بن سکتا کوئی وجہ نہٰں ہے کہ محض شک و شبہ کی وجہ سے ایک واضح حقیقت کا انکار کیا جائے اور اس پر یقین نہ کیا جائے کوئی بھی صاحب عقل اور انصاف پسند انسان اس حقیقت کی وضاحت اور اس کا جلوہ دیکھ کے یہی فیصلہ کرےگا۔

خلافت کے معاملے میں ائمہ اہل بیت(ہدیٰ)علیہم السلام اور ان کے خاص لوگوں کی تصریحات

1۔خود ائمہ ہدیٰ علیہم السلام اور ان حضرات کے خاص افراد(جو ائمہ ھدیٰؑ کی وثاقت و جلالت پر متفق تھے)کی وافر تصریحات موجود ہیں،ان عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان مقدس افراد نے امر خلافت کے بارے میں شکوا کیا ہے،یہ کہا ہے کہ ان پر ظلم ہوا ہے،ان حضرات نے ظالموں کا انکار کیا ہے،ان عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ خلفاء کی خلافت پر بالکل راضی نہیں تھے نہ اسے پسند کرتے تھے اور اس کی شرعیت کے منکر تھے،یہی وجہ ہے کہ شرعی اعتبار سے غاصبان خلافت تجاوز و عدوان کی حدوں میں رہے اور ائمہ ھدیٰ علیہم السلام انہیں ظالم اور غاصب سمجھتے بھی تھے اور کہتے بھی تھے۔

۱۴۵

یہ تصریحات غیر شیعہ کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں،ایسی کتابوں میں جو کافی مشہور ہیں اور ان کا صدور شک سے پرے ہے ان عبارتوں کا صدور اس طرح ہوا ہے کہ اجمالی طور پر یا تفصیل سے علما جمہور انکار نہیں کرسکتے۔

امیرالمومنین علیہ السلام کا امر خلافت کے معاملے میں صریحی بیان

یہ امیرالمومنین علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنے حق کے غاصبوں کی کافی شکایتیں کی ہیں اور صاف لفظوں میں ان کے ظلم کا اظہار کیا ہے اور انہیں ظالم کہا ہے۔

1۔آپ کا مشہور خطبہ ملاحظہ ہو جو خطبہ شقشقیہ کے نام سے مشہور ہے اس مشہور خطبہ میں آپؑ نے ان لوگوں کی بہت مذمت کی ہے جنھوں نے آپ کو الگ کرکے خلافت پر زبردستی قبضہ کرلیا،آپ خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں:

لیکن خدا کی قسم فلاں نے خلافت کی قمیص کو کھینچ تان کر پہنا،حالانکہ وہ جانتا تھا کہ میں خلافت کے لئے ایسا ہی ہوں جیسا چکی کے لئے کھونٹا،مجھ سے(علم و حکمت کے)چشمے نکلتے ہیں اور میری بلندیوں تک طاہر علم و خیال نہیں پہنچ سکتا،تو میں نے خلافت سے اپنے کپڑے کو سمیٹے رکھا اور یہ سونچنے لگا کہ میں اپنے بریدہ ہاتھوں سے حملہ کر بیٹھوں یا اس اندھری رات میں صبر کروں جس میں سن رسیدہ کھوسٹ ہو رہے ہیں اور بچے بوڑھے ہو رہے ہیں اور مومن کچلا جارہا ہے یہاں تک کہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے،تو میں نے طے کیا کہ ان حالات میں صبر کر لینا سب سے مناسب بات ہے۔میں نے اس حال میں صبر کیا کہ میری آنکھ میں تنکا اور حلق میں ہڈی تھی میں اپنی میراث کو لٹتا ہوا دیکھ رہا تھا،یہاں تک کہ پہلے نے اپنا راستہ لیا اور فلاں بن فلاں کو اپنے بعد ذمہ دار بنا گیا اس نے خلافت کی اونٹنی کو بہت شدت سے دوہا اور اسے ایک ایسی کھردری وادی میں لےگیا جہاں بار بار ٹھوکر لگتی تھی اور راستہ اوبڑکھا بڑتھا،اس وادی میں وہ بار بار پھسلتا تھا اور اکثر عذر پیش کرتا تھا خدا کی قسم

۱۴۶

لوگ خبط ہو کے رہ گئے تھے،تلوُّن اور اعتراض کا دور دورہ تھا پھر میں نے مدت کی درازی اور امتحان کی سختیوں پر صبر کیا یہاں تک کہ کدوسرے نے بھی اپنا راستہ لیا اور نصب خلافت کا ذمہ ایک جماعت کو دے کے چلا گیا۔

اس نے مجھے بھی جاعلین خلیفہ میں قرار دیا یہ سونچ کر کہ میں بھی انھیں جیسا ہوں یا اللہ یہ شوریٰ بھی کیا چیز تھی!میرے بارے میں مستحق خلافت ہونے کا شبہ ہی کب تھا کہ مجھے ایسے لوگوں کے برابر قرار دیا گیا،بہرحال اصحاب شوریٰ میں ایک آدمی تو اپنے کینہ پروری کی وجہ سے ایک طرف جھک گیا دوسرے نے سسرال کی طرف داری کی اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا کھڑا ہوا،پہلو اور پیٹ کو پھلائے اور اس کے ساتھ اس کے باپ کے بیٹے بھی آئے پس مال خدا کو یوں کھانے لگے جیسے اونٹ فصل بہار کی سبزی چرتے ہیں یہاں تک کہ اس رسی کے بٹ کھل گئے اور اس کی بدرفتاری سے عوام بھڑک اٹھی اور اس کی شکم پروری نے اسے تباہ کردیا(1) (ابن عباس کا جب کلام پیش کیا جائےگا تو اس خطبہ کی توثیق بھی پیش کی جائےگی)

2۔طلحہ و زبیر کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو جس میں آپ نے فرمایا:خدا کی قسم مجھے ہمیشہ اپنے حق سے دور رکھا گیا اور مجھ پر دوسروں کو ترجیح دی گئی۔یہ سلسلہ اس دن سے جاری ہے جس دن خداوند عالم نے اپنے نبیؐ کو بلا لیا اور آج بھی وہی صورت حال باقی ہے۔(2)

3۔سقیفہ کے ڈرامے کے بعد حضرتؑ نے اس وقت فرمایا جب آپ کا مددگار آپؑ کے اہل بیتؑ کے علاوہ کوئی نہیں تھا تو آپؑ فرماتے ہیں((پس میں نے غور کیا تو پتہ چلا کہ میرا مددگار سوا میرے اہلبیتؑ کے کوئی نہیں ہے تو میں ان کے بارے میں موت سے ڈرا اور آنکھوں میں تنکے برداشت کرنے اور حلق میں پھانس لگنے کے باوجود میں نے غصہ کو ضبط کیا اور تلخ گھونٹ پی لیا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:30۔35

(2)نہج البلاغہ ج:1ص:42

(3)نہج البلاغہ ج:1ص:67وتقویۃ الایمان محمد بن عقیل ص:68

۱۴۷

4۔آپؑ ہی کا ارشاد ہے:ائمہؑ صرف قریش میں وہ بھی شجرہ ہاشم میں قرار دیئے گئے ہیں ان کے علاوہ کسی میں امامت کی صلاحیت نہیں ہے اور حکمرانوں کی اصلاح کرنا بھی ان کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں ہے۔(1)

5۔ایک اور جگہ آپؑ کا ارشاد ہے یہاں تک کہ نبیؐ کی وفات ہوئی اور قوم اپنے پچھلے مذہب پر پلٹ گئی راستے ان کے سامنے بدل گئے،ٹیڑھے ھے میڑھے راستوں پر اعتماد کرنے لگے،غیر رحم میں صلہ رحم کرنے لگے،ان سب کو چھوڑدیا جن کی مؤدت کا حکم دیا گیا اور عمارت کو اس کے سنگ بنیاد سے ہٹادیا اور ایسی جگہ بنایا جو اس کے لئے مناسب نہیں تھی وہ جگہ ہر غلطی کا معدن اور ہر تاریکی کا دروازہ تھی،لوگ حیرت میں گمراہ ہوگئے اور نشہ میں ان کی عقل ضائع ہوگئی،آل فرعون کے طریقہ پر انہوں نے صرف دنیا سے رشتہ جوڑ کے اسی پر بھروسہ کی اور دین سے الگ ہوگئے پھر دین کو چھوڑ ہی دیا۔(2)

6۔کسی نے آپؑ سے پوچھا کہ آخر جب آپ مستحق تھے تو قوم نے آپؑ سے خلافت کیسے چھین لی؟آپ نے فرمایا کچھ آثار ہیں کچھ طریقے ہیں ایک قوم نے ہمیں ہمارا حق دینے میں بخل کیا اور دوسری قوم نے ہمارا حق دوسروں کو دینے میں سخاوت کی فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی طرف پلٹ کے قیامت میں جانا ہے۔(3)

7۔اپنے بھائی عقیل کو ایک خط میں آپ لکھتے ہیں((آپ قریش کو چھوڑ دیں اور انہیں گمراہیوں میں لوٹنے دیں،اختلافات میں جولانیان کرنے دین اور کیچڑ میں بھٹکنے دیں،انہوں نے مجھ سے جنگ پر ٹھیک اسی طرح اتفاق کیا ہے جس طرح پیغمبرؐ سے لڑنے پر جمع ہوئے میں نے قریش کے ساتھ گذارہ کیا اور کئی راستوں سے گذرا ہوں انہوں نے میرے رحم کو قطع کیا اور مجھ سے میری ماں کے بیٹے کی سلطنت چھیں لی))(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:27 (2)نہج البلاغہ ج:2ص:36۔37

(3)نہج البلاغہ ج:2ص:63۔64

(4)نہج البلاغہ ج:4ص:61،امامت و سیاست ج:1ص:51علیؑ کا مدینہ سے خارج ہونا

۱۴۸

8۔آپؑ معاویہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ((کتاب خدا نے بہت سی نادر چیزیں ہمارے لئے جمع کردی ہیں اور خداوند عالم کا یہ قول ہے:(وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ) (1)

ترجمہ آیت:صاحبان رحم ایک دوسرے کے اوپر زیادہ حق رکھتے ہیں۔

اور یہ قول:(إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ) (2)

ترجمہ آیت:ابراہیمؑ کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جو ابراہیمؑ کی پیروی کریں اور یہ نبیؐ اور ایمان دار لوگ ہیں اللہ تو صاحبان ایمان کا سرپرست ہے۔اور اسی بنیاد پر مہاجرین نے انصار سے رسول خداؐ کے حوالے سے احتجاج کیا اور کامیاب ہوگئے تو اگر اسی آیت کے اصول پر انھیں کامیابی ملی تو تمہارے مقابلے میں ہم زیادہ حقدار تھے اگر اس کی طرح کھینچے ہوئے لے جارہے تھے تا کہ میں بیعت کروں!تو اگر اس تحریر سے میری مذمت کا ارادہ کیا ہے تو کامیاب نہیں ہوا بلکہ اس میں تو مدح کا پہلو نکل رہا ہے اور تو نے مجھے ذلیل کرنے کا اردہ کیا تو تو خود فضیحت کا شکار ہوگیا مومن جب تک اپنے دین میں شک نہ کرے اور اس کا یقین بدگمانی میں نہ بدلے اس وقت تک اس کے مظلوم ہونے میں کوئی بےعزتی کی بات نہیں ہے حالانکہ مذکورہ بالا دلیل تیرے غیر کے لئے ہے لیکن میں نے تجھ کو بقدر ضرورت لکھ دیا۔(3)

9۔آپؑ نے فرمایا:((لوگو!مجھے معلوم ہے کہ تم میرا انکار کروگے لیکن میں کہوں گا ضرور۔پس زمین و آسمان کے پروردگار کی قسم نبیؐ امی نے مجھ سے عہد کیا تھا اور فرمایا کہ یہ امت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انفال آیت:75

(2)سورہ آل عمران آیت:68

(3)نہج البلاغہ ج:3ص:30

۱۴۹

میرے بعد تم سے غداری کرےگی))(1)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ اکثر اہل حدیث نے اس خبر کو یا تو انہیں الفاظ میں نقل کیا ہے یا اس کے قریب المعنیٰ الفاظ میں۔(2)

10۔اور حضرتؑ نے فرمایا کہ میں چالیس آدمی بھی اپنی حمایت میں پاتا،تو اس قوم کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہوتا۔

معاویہ کا ایک مشہور خط ہے جو اس نے امیرالمومنینؑ کو بھیجا تھا،خط کے ذیل میں معاویہ لکھتا ہے:(میں آپ کو وہ دن یاد دلا رہا ہوں جب لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی تھی اور آپ اپنی بیوی کو خچر پر بٹھا کے اور اپنے دونوں بیٹوں حسنؑ اور حسینؑ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تاریکی میں نکلا کرتے تھے،آپ نے اہل بدر اور سابقین میں سے کسی گھر کے دروازے کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہاں دستک دی اور اپنی نصرت کے لئے پکارا،آپ بیوی کولے کر ان کے پاس جاتے رہے اور اپنے بچوں کا انھیں واسطہ دیتے رہے اور صحابی پیغمبر کے خلاف ان سے نصرت طلب کرتے رہے تو آپ کا جواب دینےوالے نہیں تھے مگر صرف چار یا پانچ آدمی،میری جان کی قسم آہ،اگر آپ حق پر ہوتے تو لوگ آپ کا جواب ضروری دیتے لیکن آپ کا دعویٰ باطل تھا اور آپ وہ بات کہہ رہے تھے جس سے خود ناواقف تھے اور ایسی جگہ تیرمار رہے تھے جو آپ کی دسترس میں نہیں تھی اور شاید آپ بھول گئے ہیں لیکن میں وہ بات نہیں بھولا ہوں جو آپ نے ابوسفیان سے کہی تھی۔

جب آپ کو ابوسفیان نے حرکت میں لانے کی کوشش کی اور آپ کو جوش دلایا تو آپ نے کہا تھا کہ اگر چالیس آدمی بھی مجھے مل جاتے تو میں اس قوم کے خلاف کھڑا ہوجاتا یعنی آج پہلے دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:3ص:150

(2)شرح نہج البلاغہ ج:4ص:107،اسی طرح کے الفاظ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ کتاب المستدرک،ج:3ص:107،مسند الحارث،ج:2ص:905،تذکرۃ الحفاظ،ج:3ص:995،تاریخ دمشق،ج:42ص:447،البدایۃ و النہایۃ،ج:6ص:218،تاریخ بغداد،ج:11ص:216

۱۵۰

مسلمانوں کے لئے آپ مسئلہ نہیں بنے ہیں اور آپ کی خلفا سے یہ پہلی بغاوت نہیں ہے اور نہ کوئی نئی بات ہے۔(1)

صفین کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اسی طرح کی بات خود امیرالمومنینؑ کی گفتگو میں بھی ملےگی۔(2)

11۔حضرت فرمایا کرتے تھے((میں زمانہ پیغمبرؐ کے ایک جڑ کی طرح تھا لوگ مجھے سراٹھا اٹھا کر یوں دیکھتے تھے جیسے آسمان پر تاروں کو دیکھتے ہیں،پھر دنیا نے مجھ سے آنکھیں موندلیں اور میری برابری میں فلاں،فلاں آگئے،پھر مجھے عثمان جیسے پانچ آدمیوں کے مقارن بنایا گیا تو میں نے کہا وائے ہوذفرپر))(3)

12۔آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی ایّام میں فرمایا،جب اللہ نے اپنے نبیؐ کو اپنے پاس بلالیا تو ہم نے یہ سوچا کہ ہم آپؐ کے اہل،وارث اور اولیا ہیں نہ کہ دوسرے لوگ،ہم سے کوئی بھی اقتدار کے بارے میں نہیں لڑےگا اور لالچ کرنےوالا کم سے کم ہمارے معاملے میں لالچ نہیں کرےگا لیکن قوم نے ہمیں الگ کردیا اور ہمارے نبیؐ کا اقتدار ہم سے لےلیا،پس حکومت ہمارے غیر کے ہاتھوں میں چلی گئی اور ہم رعایا بن گئے،اب تو صورت حال یہ ہے کہ کمزور بھی للچائی ہوئی نظروں سے ہمیں دیکھ رہا ہے اور ذلیل بھی ہم پر حملہ کرنے کی سوچ رہا ہے،اس کی وجہ سے ہماری آنکھیں رو رہی ہیں دل ڈرے ہوئے ہیں اور کراہیں نکل رہی ہیں،خدا کی قسم اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ مسلمان فرقوں میں بٹ جائیں گے اور کفر واپس آجائےگا اور دین برباد ہوجائےگا تو ہم دشمن کو اسی کے ہتھیار سے مارتے۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:2ص:47

(2)واقعہ صفین ص:163

(3)ذفر،عمر کا بدل ہے جسے امامؑ نے بطور تقیہ ملامت استعمال کیا ہے،شرح نہج البلاغہ،ج:2ص:326

(4)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:307

۱۵۱

13۔جس وقت آپ بصرہ جارہے تھے تو آپ نے فرمایا((جب حضور سرور کائناتؐ کی وفات ہوئی تو قریش نے حکومت کے معاملہ میں ہم پر دوسروں کو ترجیح دی اور ہم سے ہمارا وہ حق چھیں لیا جس کے ہم ساری دنیا میں سب سے زیادہ حقدار تھے تو میں نے سمجھ لیا کہ اس معاملے میں صبر کرنا مسلمانوں کو تقسیم کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور ان کے خون بہانے سے زیادہ اچھا ہے صورت حال یہ تھی کہ لوگ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور دین کو تو ابھی متھا جا رہا تھا جو تھوڑی سی کمزوری سے خراب ہوجاتا اور ذراسی بات بھی اس پر فوراً اثر ڈالتی،طلحہ اور زبیر کو کیا ہوا ہے؟یہ لوگ تو اس حکومت کے راستے پر چلنے کے مستحق نہیں ہیں جو اونٹنی دودھ دینا بند کرچکی ہے اس کا دودھ پینا چاہتے ہیں اور جو بدعت مرچکی ہے اس کو زندہ کرنا چاہتے ہیں))(1)

14۔دوسری جگہ حضرت نے فرمایا((لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کرلی حالانکہ میں ابوبکر سے زیادہ امر خلافت کا مستحق تھا پھر بھی میں نے سنا اور خاموشی سے اطاعت کی صرف اس خوف سے کہ لوگ دوبارہ کافر ہوجائیں گے اور ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگیں گے،پھر لوگوں نے عمر کی بیعت کر لی تب بھی میں نے سنا اور چپ چاپ خاموشی سے اطاعت کی حالانکہ میں عمر سے زیادہ مستحق خلافت تھا لیکن مجھے خوف تھا کہ لوگ کفر کی طرف واپس چلے جائیں گے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگیں گے اور اب تم لوگ عثمان کی بیعت کرنا چاہتے ہو تو میں آج بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا،عمر نے مجھے پانچ آدمیوں کے ساتھ چھٹا آدمی قرار دیا ہے وہ ان پر میری فضیلت سے واقف نہیں ہے اور نہ یہ لوگ مجھے پہچانتے ہیں جیسے کہ ہم سب لوگ فضیلت کے معاملے میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں؟خدا کی قسم اگر میں بولنا چاہوں گا تو ان کے عرب و عجم اور ان کے ذمی اور مشرک کوئی بھی میری کسی بات کو جواب نہیں دےسکےگا اور ایسا میں کرسکتا ہوں(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:308

(2)تاریخ دمشق ج:42ص:434،حالات علی ابن ابی طالبؑ،کنزالعمال ج:5ص:724،حدیث14243،میزان الاعتدال ج:2ص:178حالات حارث بن محمد،لسان المیزان ج:2ص:156حالات حارث بن محمد،الضعفاءللعقیلی ج:1ص:211حالات حارث بن محمد

۱۵۲

15۔حضرتؑ نے فرمایا،سرکارؐ نے مجھ سے کہا تھا علیؑ،لوگ تمہارے خلاف اکھٹا ہوں گے تمہیں اس وقت وہی کرنا ہے جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں ورنہ پھر اپنے سینے کو زمین سے متصل کردینا(بے تعلق ہوجانا)تو جب مجھ سے حضورؐ الک ہوگئے تو میں نے مکروہ باتوں کو برداشت کیا اور اپنی آنکھوں میں تنکے کو جھیل گیا اور آنکھیں بند کئے رہا اور اپنے سینے کو زمین سے سٹادیا(اور صبر کیا)۔(1)

16۔روایت ہے کہ معصومہ کونین علیہا السلام آپؑ کے گھر بیٹھے رہنے پر ایک مرتبہ آپ سے گفتگو نے لگیں اور بہت دیر تک آپؑ کو سمجھاتی رہیں کہ آپؑ کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے لیکن موالائے کائناتؑ خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ نماز کا وقت ہوا اور موذن کی آواز آئی جب موذن نے اشھد انَّ محمداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا فقرہ ادا کیا تو آپؑ نے معصومہؑ سے پوچھا کیا آپ چاہتی ہیں کہ یہ فقرہ(جملہ)دنیا سے اٹھ جائے معصومہؑ نے کہا ہرگز نہیں،آپ نے فرمایا یہی بات میں آپ کو اتنی دیر سےسمجھا رہا تھا۔(2)

17۔حضرت نے فرمایا((قریش نے اپنے دلوں میں پیغمبر سے جو کینہ چھپار کھا تھا اس کا اظہار مجھ سے کیا اور میرے بعد میرے بچوں سے یہی کینہ جاری رکھیں گے،میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ قریش ہمارے دشمن کیوں ہوگئے،میں نے انھیں خدا اور خدا کے رسول کے حکم سے قتل کیا اگر وہ لوگ مسلمان ہیں تو خدا را سوچیں کیا خدا اور خدا کے رسولؐ کی اطاعت کرنےالے کا یہی بدلہ ہے))(3)

18۔حضرت فرماتے ہیں کہ((بچپن میں قریش نے مجھے ڈرایا اور بڑے ہونے پر میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ حضورؐ سرور کائنات کی وفات ہوگئی یہ بہت بڑی مصیبت تھی اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:326

(2) شرح نہج البلاغہ ج:20ص:326

(3) شرح نہج البلاغہ ج:20ص: 328 ینابیع المودۃ ج:1ص402

۱۵۳

اللہ کے خلاف بولنےوالوں کی سزا دینے کے لئے اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے))۔(1)

19۔آپؑ نے فرمایا((پالنےوالے میں تجھ سے قریش کے خلاف مدد مانگتا ہوں انھوں نے تیرے رسولؐ کے خلاف اپنے دلوں میں کئی طرح کی غداری اور شر چھپا رکھے ہیں اور یہ بیماریاں بڑھ رہی ہیں تو میں ان کے اور پیغمبرؐ کے درمیان حائل ہوگیا نتیجے میں گاج مجھ پر گری اور مصیبتیں مجھ پر آنے لگیں پالنےوالے تو حسنؑ اور حسینؑ کی حفاظت کرنا جب تک میں زندہ ہوں ان دونوں معصوموں پر قریش کو راستہ نہ دینا اور جب میں مرجاؤں گا تو تو ہی قریش کے خلاف ان کا نگراں ہے اور تو ہر چیز پر گواہ ہے))۔(2)

20۔کسی نے آپؐ سے پوچھا کہ امیرالمومنینؑ اگر حضورؐ کا کائی بیٹا ہوتا اور آپؐ اس کو چھوڑ کے گئے ہوتے اور وہ سن بلوغ اور رشد کی منزل تک پہنچتا تو کیا عرب اس کی حکومت کو قبول کر لیتے آپؑ نے فرمایا نہیں بلکہ انہیں یہ لوگ قتل کردیتے اگر وہ میری طرح نہیں کرتا،سیدھی بات تو یہ ہے کہ عرب محمدؐ کی حکومت کو ناگوار سمجھتے تھے اور اللہ نے جو فضیلت آپ کو دی تھی اس پر حسد کرتے تھے،عرب نے ہمیشہ آپؐ کے ساتھ زیادتی کی کبھی آپؐ کی بیوی پر الزام لگایا اور کبھی آپؐ کے ناقہ کو بھڑکا کے مارنے کی کوشش کی،حالانکہ آنحضرتؐ نے ان پر احسان عظیم اور لطف جسیم کیا تھا لیکن یہ عرب احسان فراموش تھے انھوں نے آپ کی زندگی ہی میں یہ بات جمع ہو کر طے کرلی تھی کہ حکومت اور اقتدار آپ کے مرنے کے بعد آپ کے اہل بیتؑ سے دور کردیں گے۔

اگر قریش نے سرکار دو عالمؑ کے اسم مبارک کو ریاست کا ذریعہ اور حکومت و عزت کا وسیلہ نہ بنایا ہوتا تو لوگ آپؐ کی وفات کے بعد ایک دن بھی خدا کی عبادت نہیں کرتے بلکہ اپنے پچھلے پیروں پلٹ جاتے،پس درخت کے اندر برگ و بار آنے کے بعد سب گرا کے صرف تنارہ جاتا اور اونٹنی کے دانت نکلنے کے بعد پھر وہ سن بکر پر واپس چلی جاتی(بہرحال انھوں نے نام محمدؐ سے فائدہ اٹھایا اس لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:4ص:108

(2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:298

۱۵۴

اذانوں میں ان کا نام شامل ہے اور نمازیں ہورہی ہیں)پھر تو فتوحات کا سلسلہ چل نکلا،فاتے کے بعد ثروت آئی اور جفاکشی کے بعد آرام ملا تو آنکھوں کو اسلام کی ناگوار چیزیں بھی اچھی لگنے لگیں اور جو لوگ دلی اضطراب میں گرفتار تھے وہ بھی ثابت قدم ہوگئے اور کہنے لگے اگر اسلام حق نہ ہوتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔

اس کے بعد(ایک تبدیلی اور آئی کہ)جو لوگ سردار تھے ان سے فتح کو منسوب کردیا گیا اور کہا گیا کہ یہ تو ان کے حسن تدبیر کا نتیجہ تھا جب یہ نظریہ پیدا ہوا تو ایک قوم کی شہرت ہوگئی اور دوسری قوم کی گمنامی،اہم انہیں گمنام لوگوں میں ہیں جن کے شعلے بجھ چلے ہیں،شہرہ ختم ہوچکا ہے یہاں تک کہ زمانہ ہمارے خلاف ہوگیا لوگ ہماری مخالفت ہی پر کھاتے پیتے اور جیتے رہے،وقت گذرتا گیا جو لوگ جانے مانے تھے ان میں سے زیادہ تر لوگ مرگئے اور جو لوگ غیر مشہور تھے پیدا ہوگئے،اگر نبیؐ کع بیٹا ہوتا تو کیا ہوتا؟سنو پیغمبرؐ نسب اور خون کی وجہ سے مجھ کو قریب نہیں رکھتے تھے بلکہ جہاد اور خیرخواہی کی وجہ سے آپؐ نے مجھے تقرب عنایت فرمایا تھا،اچھا اگر آپؐ کے کوئی بیٹا ہوتا تو میں پوچھتا ہوں کہ جتنی خدمت میں نے کی ہے کیا وہ اتنی خدمت کرسکتا تھا؟(جواب ہے نہیں)تو وہ اتنا قریب بھی نہیں ہوتا جتنا میں نبیؐ کے قریب رہا پھر بھی میری نبیؐ سے قربت عرب کی نگاہوں میں میری منزلت اور مرتبہ کا سبب نہیں ہے بلکہ ذلت اور محرومی کا سبب ہے۔

پالنےوالے تو جانتا ہے کہ میں حکومت کا ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ملکیت و ریاست کی بلندی چاہتا ہوں میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ تیری حدیں قائم ہوں تیری شریعت کے مطالبے ادا ہوں،ہر کام اپنی جگہ پر ہو،حقدار کو ان کا حق دیدیا جائے،تیرے نبیؐ کے طریقے پر عمل جاری رہے اور گمراہ کو تیرے نور کی ہدایت کی طرف موڑدیا جائے۔(1)

21۔اپنے اس ابتدائی خطبہ میں جو اپنے دور خلافت میں خطبہ دیا تھا آپ نے فرمایا:اپنے گھروں میں چھپے رہو اور آپس میں صلح و آشتی پیدا کرو اور اس کے بعد توبہ کرو،جس نے حق کے خلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:298۔299

۱۵۵

لب کشائی کی ہلاک ہوا تمہارے امور تھے جن میں ایک امر کی طرف مائل ہوگئے،اس میں کوئی میرے نزدیک قابل تعریف اور راہ حق و صواب پر نہیں ہے لیکن اگر میں چاہتا تو ضرور کہتا خدا گذشتہ کو معاف کرےدو شخص نے سبقت کی اور تیسرا کوّے کی طرح کھڑا رہا جس کا مقصد صرف پیٹ ہےوای ہو اگر اس کے دونوں پر قطع کردیئے جائیں اور سر اڑادیا جائے تو اس کے لئے بہتر ہوگا۔(1)

ابن ابی الحدید نے کہا:یہ خطبہ حضرت کے عظیم خطبوں میں سے ایک ہے نیز مشہور ہے جسے سارے لوگوں نے روایت کی ہے نیز اسے ہمارے استاد ابوعثمان جا خط البیان اور التبین نامی کتاب میں اسی طرح ذکر کیا ہےاور اسے ابوعبیدہ مصمر بن مثنی نے بھی روایت کی ہے۔

ابن قتیبہ نے((عیوں الاخبار))میں اس کا بیشتر حصہ ذکر کیا ہے(2) اور ابن عبدربہ نے العقد الفرید میں(3) متقی ہندی نے کنزالعمال(4) ابن دمشقی نے مناقب علی بن ابی طالبؑ میں ذکر کیا ہے۔(5)

اس کے بعد ابن ابی الحدید نے کہا:ہمارے استاد ابوعثمانؒ نے کہا:اور ابوعبیدہ نے جعفر بن محمدؑ کے آبا و اجداد سے روایت میں اضافہ کرتے ہوئے کہا:آگاہ ہوجاؤ میری عترت کے نیکوکار اور میری ذریت کے پاکیزہ لوگ چھوٹوں کے اعتبار سے زیادہ بردبار اور بڑوں کے اعتبار سے زیادہ جانکار ہیں،لٰہذا اگر(ہمارا)اتباع کروگے ہدایت پاؤگے اور اگر مخالفت کروگے خداوند عالم تمہیں ہمارے ہاتھوں ہلاک کردےگا ہمارے ساتھ پرچم حق ہے جو اس کا اتباع کرے وہ اس سے ملحق ہوگا اور جو پیچھے رہ جائے وہ ڈوب جائےگا آگاہ!ہمارے ہی ذریعہ ہر مومن عزت پاتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:275۔276

(2)المجلد الثانی ج:5ص:236،کتاب العلم و البیان:خطبہ حضرت علیؑ،قتل عثمان کے بعد،

(3)ج:4ص:68خطبہ امیرالمومنین

(4)ج:5ص:749۔750حدیث:14282

( 5 )ج:1ص:323۔324

۱۵۶

ہمارے ہی ذریعہ اسے رسوائی سے نجات ملےگی ہمارے ہی ذریعہ فتح ہے نہ تمہارے،مجھ پر خاتمہ بخری ہے نہ تم پر۔(1)

22۔نیز آپؑ نے فرمایا:معاویہ کے جواب میں تم نے میرے خلفاء کی نسبت حسد کا ذکر کیا ہے،اور ان سے متعلق کوتاہی اور بغاوت کا۔رہا بغاوت کا سوال تو خدا کی پناہ کہ ایسا ہورہا ہے،رہا ان کے امور میں میری سستی اور ان سے ناپسندیدگی کا اظہار،تو میں ان سے متعلق لوگوں کے سامنے عذر کرنےوالا نہیں ہوں اور تمہارا باپ میرے پاس اس وقت آیا تھا جب لوگوں نے ابوبکر کی ولی بنایا تھا ت اس نے مجھ سے کہا کہ تم محمدؐ کی جانشینی کے زیادہ سزاوار ہو جب کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جس نے انکار کیا کیونکہ لوگ کفر سے قریب العہد تھے اہل اسلام کے درمیان تفرقہ کے خوف سے۔(2)

23۔آپؑ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا:بیٹا جب سے آپ کے جد کی وفات ہوئی لوگ میرے خلاف بغاوت ہی کررہے ہیں۔(3)

24۔آپ نے ابوعبیدہ سے فرمایا((اے ابوعبیدہ کیا وقت زیادہ گذرنے کی وجہ سے تم عہد کو بھول گئے یا آرام ملا تو تم نے خود بھلادیا،میں نے تو سنا اور یاد رکھا اور جب یاد رکھا تو پھر اس کی رعایت کیوں نہ کروں))۔(4)

25۔ابوحذیفہ کے غلام سالم کے بارے میں فرمایا((بنوربیعہ کے کمینے گلام پروائے ہو وہ اپنے شرک قدیم کا پسینہ مجھ پر پھینک کر مجھے برابنانا چاہتا ہے اور ولید،عتبہ اور شیبہ کے خون کا ذکر کر رہا ہے(یہ لوگ بدر میں آپؐ کے ہاتھوں مارے گئے تھے)کہ میں ان کے خون کا ذمہ دار ہوں خدا کی قسم مجھے وہ اسی جگہ لارہا ہے جو اس کے لئے بری ہے اور پھر وہ وہاں پر فلاں اور فلاں سے ملاقات نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:276

(2)شرح نہج البلاغہ ج:15ص:77۔78۔انساب الاشراف ج:3ص:69،المناقب،خوارزمی ص:250۔254 العقد الفریدج:4ص:309

(3)امامت و سیاست ج:1ص:45،واقعہ بیعت علی ابن ابی طالبؑ

(4)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:307

۱۵۷

کرےگا(کوئی اس کا مددگار نہ ہوگا)۔(1)

26۔آپ نے فرمایا سب سے پہلے سعد بن عبادہ نے میرے خلاف ہمت کی لیکن دروازہ اس نے کھولا داخل دوسرا ہوا آگ اس نے بھڑکائی جس کے نتیجہ میں شعلے اس کو ملے اور اس کے دشمن اس آگ کی روشنی سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔(2)

27۔عمر جناب ابن عباس سے بات کررہے تھے ابن عباس کہتے ہیں کہ عمر نے مجھ سے پوچھا اپنے بھتیجے کو کس حال میں چھوڑ کے آئے ہو؟وہ کہتے ہیں میں سمجھا عبداللہ بن جعفر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔میں نے کہا اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے تھے عمر کہنے لگے میں ان کے بارے میں تھوڑی پوچھ رہا ہوں میں تو تم سے اہل بیتؑ کے سردار کے بارے میں پوچھ رہا ہوں،میں نے کہا میں نے آپ کو اس حال میں چھوڑٓ کہ فلاں کے کھجوروں کے باغ کی سینچائی کررہے تھے اور قرآن بھی پڑھ رہے تھے کہنے لگے اے عبداللہ اگر آج تم نے مجھ سے کچھ چھپایا تو تم سے مزید ایک بات کہتا ہوں،میں نے اپنے والد سے ان کو دعوے کے بارے میں پوچھا تھا تو انھوں نے علیؑ کی تصدیق کی تھی۔

عمر کہنے لگے پیغمبرؐ کے قول سے کوئی صاف بات ظاہر نہیں ہوتی تھی جس کو حجت تسلیم کیا جائے اور کوئی قطعی عذر بھی نہیں تھا کچھ دنوں تک آپ(رسولؐ)نے ان(علیؑ)کے معاملے میں انتظار کیا لیکن آپ جب بیمار پڑے تو ارادہ کیا کہ علیؑ کے نام کی صراحت کردیں لیکن میں نے انھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:296،یہ سالم ابوحذیفہ بن عتبتہ کا غلام ہے اسے تو عتبہ اور اس کے بیٹے ولید اور اس کے بھائی شیبہ نے روز بدر کے مبارزہ میں قتل کیا ہے امیرالمومنینؑ نے اپنے اس کلام سے اشارہ کیا ہے کہ سالم کا موقف معاندانہ تھا۔امیرالمومنین کی نسبت ایسا صرف بدر کے دن اس کے چاہنےوالوں کے مرنے کے انتقام میں تھا۔

(2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:307۔308

۱۵۸

روک دیا،مقصد اسلام کی خیرخواہی تھی میں نے یہ اقدار خوف اور احتیاط کی وجہ سے کیا تھا،اس کعبہ کے پروردگار کی قسم!قریش ہرگز ان پر متحد اور جمع نہین ہوتے اور اگر انہیں والی خلافت بنا دیا جاتا تو عرب ٹوٹ پھوٹ جاتے،پیغمبرؐ صبھی میرے دل کی بات سمجھ گئے اس لئے آپ نے اپنا ہاتھ روک دیا اور جو بات حتمی تھی وہ ہو کر رہی۔(1)

28۔آپؑ نے فرمایا،مجھے کہنےوالے ہیں کہ اے ابوطالب کے بیٹے تم خلافت کے حریص ہو،میں جواب دیتا ہوں تم مجھ سے زیادہ حریص ہو،میں تو اپنے بھائی کی میراث اور ان کا حق کا طالب ہوں اور تم میرے اور میرے بھائی کے درمیان آکے(بغیر کسی حق کے)میرا منھ موڑنے کی کوشش کررہے ہو،پالنےوالے میں تجھ سے قریش کے خلاف مدد مانگ رہا ہوں،انھوں نے میرا رشتہ توڑدیا،میری بڑی منزلت اور فضیلت کو چھوٹا سمجھا،مجھ سے اس حق کے بارے میں جھگڑا کیا جس کا صرف میں حقدار ہوں،انھوں نے مجھ سے وہ حق چھین لیا پھر مجھ سے کہا کہ تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ صبر کرو اور پچھتاوے کی زندگی جیتے رہو،میں نے چاروں طرف دیکھا تو سمجھ گیا کہ سوائے میرے گھروالوں کے میرا کوئی رفیق اور مددگار نہیں ہے،پس مجھے ان کی ہلاکت کا خوف ہوا تو میں آنکھیں بند کرلیں جب کہ میری آنکھ میں تنکا تھا اور میرے حلق میں پھانس تھی لیکن میں یہ گھونٹ پی گیا میں نے غصّہ کو صبر میں بدلا اور کڑوا لقمہ نگل گیا،میرے دل میں ایسا درد تھا جیسےلوہے سے شگافتہ کردیا گیا ہو۔(2)

امیرالمومنین علیہ السلام کے شکوے کی بہت سی خبریں ہیں

ابن ابی الحدید آپ کے مذکورہ بالا بیان کے بعد نوٹ لگاتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے الفاظ آپ نےسیکڑوں بار فرمائے جیسے آپ کا کہنا ہے کہ وفات پیغمبرؐ سے آج کے دن تک میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:12ص:20۔21

(2)امامت و سیاست ج:1ص:126۔127،امام علیؑ کا خط اہل عراق کے نام نہج البلاغہ ج:2ص:84،85

۱۵۹

مسلسل مظلوم رہا((یا یہ کہنا!اے پالنےوالے قریش کو ذلیل کر انھوں نے میرے حق سے مجھے روکا اور میری خلافت کو غصب کرلیا یا ایک بار آپ نے سنا کوئی پکار رہا تھا((میں مظلوم ہوں))آپ نے فرمایا اے بھائی آؤ،ہم دونوں مل کر فریاد کریں میں تو ہمیشہ مظلوم رہا))یا حضرتؑ کا یہ کہنا کہ لوگو!ان دونوں نے ہمارے ہی برتن میں پانی پیا پھر لوگوں کو ہماری ہی گردن پر لاوگئے اور آپ کا یہ قول لوگوں نے ہمیشہ مجھ پر غیروں کو ترجیح دی مجھے میرے حق اور واجب شئی سے باز رکھا۔(1)

ابن ابی الحدید نے اس موضوع پر علی علیہ السلام کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں لیکن چونکہ میں نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہی میرے دعوے کی تصدیق کے لئے کافی ہے اس لئے میں مزید کچھ نہیں لکھوں گا۔

ابن ابی الحدید نے جوہری کی کتاب السقیفہ اور شعبی کی کتاب مقتل عثمان اور شوریٰ اور دیگر کتابوں کے حوالے سے بھی امیرالمومنین علیہ السلام کے اس کلام کی روایت کی ہے جس میں حضرت نے مقام استدلال میں فرمایا کہ خلافت صرف آپ کا اور آپ کے اہل بیت کا حق تھا لیکن انھیں مظلوم و مقہور بنادیا گیا اور وہ حضرات یا تو خوف جان یا ضیاع اسلام کے خوف سے خاموش رہے جب کہ انھیں ہمیشہ اس کا صدمہ رہا اور غاصبوں کے ہاتھوں وہ ستائے بھی گئے۔(2)

ان واقعات و حادثات کی تاریخ شاہد اور حدیثیں گواہ ہیں۔

امیرالمومنینؑ کے شکوے پر ابن ابی الحدید کا نوٹ

ابن ابی الحدید اپنے سابق کالم پر تعقیبی نوٹ لگاتے ہیں:ہمارے اصحاب(یعنی معتزلی فرقہ کے علما)کا خیال ہے کہ آپ کے یہ دعوے آپ کی افضلیت واحقیت کو ثابت کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حق ہے یعنی آپ افضل صحابہ اور احق بالخلافہ ہیں،لیکن ان سب کے باوجود اگر یہ مان لیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:306۔307

(2)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:185۔194،ج:2ص:21۔60،ج:6ص:5۔52ج:9ص:49۔58،

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس سلسلے میں امام صادق ـفرماتے ہیں :

وکل حدیث لایوافق کتاب اللّه فهو زخرف .( ۱ )

ہر وہ کلام جو کتاب خدا سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ باطل ہے.

اسی طرح امام صادق ـنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں نقل کیا ہے:

أیّها الناس ماجائکم عن یوافق کتاب اللّه فأنا قلته وماجاء کم یخالف کتاب اللّه فلم أقله ( ۲ )

اے لوگو! ہر وہ کلام جو میری طرف سے تم تک پہنچے اگر وہ کتاب خدا کے مطابق ہو تو وہ میرا قول ہے لیکن اگر تم تک پہنچنے والا کلام کتاب خدا کا مخالف ہو تو وہ میرا قول نہیں ہے.

ان دو حدیثوں سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ شیعوں کے ائمہ ٪ کی نگاہ میں احکام شرعی کو حاصل کرنے کے لئے کتاب خدا محکم ترین ماخذ شمار ہوتی ہے.

____________________

(۱)اصول کافی، جلد۱ ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب ، حدیث ۳.

(۲) گذشتہ حوالہ حدیث ۵.

۲۰۱

سنت

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تائید کو سنت کہتے ہیں اسے شیعوں کی فقہ کا دوسرا ماخذ شمار کیا جاتا ہے سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نقل کرنے والے ائمہ معصومین٪ ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم کے خزینہ دار ہیں

البتہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند دوسرے طریقوں سے نقل ہونے والے ارشادات کو بھی شیعہ قبول کرتے ہیں .یہاں پرضروری ہے کہ ہم دو چیزوں کے متعلق بحث کریں :

سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کی دلیلیں: شیعوں کے ائمہ ٪ نے اپنی پیروی کرنے والوں کوجس طرح قرآن مجید پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح انہوں نے سنت نبوی کی پیروی کرنے کی بھی تاکید کی ہے اور ہمیشہ اپنے ارشادات میں ان دونوں سے تمسک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے امام صادق ـ فرماتے ہیں :

اِذا ورد علیکم حدیث فوجدتم له شاهدًا من کتاب اللّه أو من قول رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واِلا فالذى جائکم به أولیٰ به .( ۱ )

جب کوئی کلام تم تک پہنچے تو اگر تمہیں کتاب خدا یا سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کی تائید حاصل ہوجائے تو اسے قبول کرلینا ور نہ وہ کلام

بیان کرنے والے ہی کو مبارک ہو

____________________

(۱)اصول کافی جلد۱ کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنہ و شواھد الکتاب حدیث ۲.

۲۰۲

اسی طرح امام محمدباقر ـ نے ایک جامع الشرائط فقیہ کے لئے سنت نبی اکرم سے تمسک کو اہم ترین شرط قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا ہے:

اِنّ الفقیه حق الفقیه الزاهد ف الدنیا والراغب فى الآخرة المتمسک بسنّة النبّى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۱ )

بے شک حقیقی فقیہ وہ ہے جو دنیا سے رغبت نہ رکھتا ہو اور آخرت کا اشتیاق رکھتا ہو ، نیز سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک رکھنے والا ہو.

ائمہ معصومین ٪ نے اس حد تک سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ کتاب خدا اور سنت نبوی کی مخالفت کو کفر کی اساس قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں امام صادق ـ یوں فرماتے ہیں :

مَن خالف کتاب اللّه وسنّة محمّد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقد کفر .( ۲ )

جس شخص نے کتاب خدا اور سنت محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کی وہ کافر ہوگیا

اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے بقیہ فرقوں کی بہ نسبت نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسی طرح بعض لوگوں کایہ نظریہ بھی باطل ہوجاتا ہے کہ شیعہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت سے بیگانہ اور دور ہیں

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ حدیث ۸

(۲) گذشتہ حوالہ حدیث ۶

۲۰۳

احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل

عترت پیغمبرکی احادیث کے سلسلے میں شیعوں کے نظریہ کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذیل کے دو موضوعات پر گفتگو کریں :

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت.

ب:اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل اب ہم یہاں ان دو موضوعات کے سلسلے میں مختصر طور پر تحقیقی گفتگو کریں گے :

عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی حقیقت

شیعوںکے نکتہ نظر سے فقط خداوندحکیم ہی انسانوں کے لئے شریعت قرار دینے اور قانون وضع کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس کی طرف سے یہ شریعت اور قوانین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ لوگوں تک پہنچتے ہیں واضح ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور انسانوں کے درمیان وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی شریعت کے پہنچانے کے لئے واسطے کی ذمہ داری کو نبھاتے ہیں اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے اگر شیعہ اہل بیت ٪ کی احادیث کو اپنی فقہ کے ماخذ میں شمار کرتے ہیں تو ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل بیت ٪ کی احادیث سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلے میں کوئی مستقل حیثیت رکھتی ہیں بلکہ احادیث اہل بیت ٪ اس وجہ سے معتبر ہیں کہ وہ سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بیان کرتی ہیں

۲۰۴

اس اعتبارسے ائمہ معصومین ٪ کبھی بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں فرماتے بلکہ جو کچھ وہ فرماتے ہیں وہ در حقیقت سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کی وضاحت ہوتی ہے یہاں پر ہم اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ائمہ معصومین ٪ کی چند روایات پیش کریں گے :

۱۔امام صادق ـ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں یوں فرمایاہے:

مهما أجبتک فیه بشء فهو عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لسنا نقول برأینا من شئ .( ۱ )

اس سلسلے میں جو جواب میں نے تمہیں دیا ہے وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ہے ہم کبھی بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے :اور ایک مقام پر یوں فرماتے ہیں :

حدیث حدیث أب ، و حدیث أب حدیث جد و حدیث جد حدیث الحسین وحدیث الحسین حدیث الحسن و حدیث الحسن حدیث أمیرالمؤمنین ، و حدیث أمیر المؤمنین حدیث رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حدیث رسول اللّه قول اللّه عزّ وجلّ .( ۲ )

میری حدیث میرے والد (امام باقر ـ)کی حدیث ہے ،

____________________

(۱)جامع الاحادیث الشیعہ جلد۱ ص ۱۲۹

(۲) گذشتہ حوالہ ص ۱۲۷

۲۰۵

اور میرے والد کی حدیث میرے دادا (امام زین العابدین ـ) کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین ـ کی حدیث ہے اور امام حسین ـ کی حدیث امام حسن ـ کی حدیث ہے اور امام حسن ـ کی حدیث امیر المومنین ـ کی حدیث ہے اور امیر المومنین ـکی حدیث رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث خداوندمتعال کا قول ہے

۲۔امام محمد باقر ـنے جابر سے یوں فرمایا تھا :

حدثنى أبى عن جد رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عن جبرائیل ـ عن اللّه عزّوجلّ و کلما أحدّثک بهذا الأسناد .( ۱ )

میرے پدربزرگوار نے میرے دادا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اور انہوں نے جبرئیل سے اور انہوں نے خداوندعالم سے روایت کی ہے اور جو کچھ میں تمہارے لئے بیان کرتا ہوں ان سب کا سلسلہ سند یہی ہوتا ہے.

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص۱۲۸

۲۰۶

اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل

شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے محدثین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

نے بھی میراث کے طور پر اپنی امت کے لئے دو قیمتی چیزیں چھوڑی ہیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی پیروی کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہیں یہاں ہم نمونے کے طور پر ان روایات میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔ ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے اور انہوں نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے :

یاأیّها النّاس اِنّ قد ترکت فیکم ما اِن أخذتم به لن تضلّوا : کتاب اللّه و عترتى أهل بیتى .( ۱ )

اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہیں

۲۔اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں یہ حدیث نقل کی ہے :

قال رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اِنىّ تارک فیکم ما اِن تمسکتم به لن تضلّوا بعد أحدهما أعظم من الآخر : کتاب اللّه حبل ممدود من السماء اِلیٰ الأرض و عترتى أهل بیتى ولن یفترقا حتیٰ یردا

____________________

(۱)صحیح ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اہل بیت النبی جلد۵ ص ۶۶۲ حدیث ۳۷۸۶ طبع بیروت.

۲۰۷

علّى الحوض فانظروا کیف تخلفون فیهما .( ۱ )

میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان دو چیزوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ، کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آویزاں ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں لہذا یہ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو.

۳۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے:

ألا أیّها النّاس فاِنّما أنا بشر یوشک أن یأت رسول ربّ فأجیب و أنا تارک فیکم ثقلین أولهما کتاب اللّه فیه الهدیٰ والنور فخدوا بکتاب اللّه واستمسکوا به فحثّ علیٰ کتاب اللّه و رغّب فیه ثم قال : أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت أذکرکم اللّه ف أهل بیت. ( ۲ )

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ ص ۶۶۳ حدیث ۳۷۸۸.

(۲)صحیح مسلم جز ۷ فضائل علی ابن ابی طالب ص ۱۲۲ اور ۱۲۳.

۲۰۸

اے لوگو!بے شک میں ایک بشر ہوںاور قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا نمائندہ آئے اور میں اسکی دعوت قبول کروں اور میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس کی جانب رغبت دلائی اور اس کے بعد یوں فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور میں تمہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں وصیت و تاکید کرتا ہوں اور اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا

۴۔بعض محدثین نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے:

اِنّى تارک فیکم الثقلین کتاب اللّه و أهل بیتى و اِنّهما لن یفترقا حتیٰ یردا علىّ الحوض ( ۱ )

بے شک! میں تمہارے درمیان دووزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں

____________________

(۱)مستدرک حاکم جز ۳ ص ۱۴۸ ، الصواعق المحرقہ باب ۱۱ فصل اول ص ۱۴۹ اس مضمون کے قریب بعض

درج ذیل کتابوں میں بھی روایات موجود ہیں .مسنداحمد جز ۵ ص۱۸۲اور ۱۸۳۔کنز العمال ،جز اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ۴۴.

۲۰۹

یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس سلسلے میں اتنی زیادہ حدیثیں موجود ہیں کہ ان سب کا اس مختصر کتاب میں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے.علامہ میرحامد حسین نے اس روایت کے سلسلۂ سند کو اپنی چھ جلدوں والی کتاب (عبقات الانوار) میں جمع کر کے پیش کیا ہے.

گذشتہ احادیث کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک اور ان کی پیروی بھی اسلام کے ضروریات میں سے ہے.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد کون افراد ہیں کہ جن کی پیروی کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے ؟

اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ہم احادیث کی روشنی میں عترت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلے میں تحقیق پیش کرنا چاہیں گے:

اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟

گذشتہ روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب مسلمانوں کو اپنی عترت کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور کتاب خدا کی طرح انہیں بھی لوگوں کا مرجع قرار دیا ہے اور صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ ''قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے'' اس بنیاد پر اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ ہیں کہ جنہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور جو معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ معارف اسلامی سے مکمل طور پر آگاہی رکھتے ہیں .کیونکہ اگر وہ ان صفات کے مالک نہ ہوں تو قرآن مجید سے جدا ہو جائیں گے جبکہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ : قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اہل بیت ٪ اور ان کی اعلی صفات کی صحیح طور پر شناخت ایک ضروری امر ہے اب ہم اس سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان بزرگ سمجھنے جانے والے محدثین سے منقول روایات کی روشنی میں چند واضح دلیلیں پیش کریں گے :

۲۱۰

۱۔ مسلم بن حجاج نے حدیث ثقلین کا ذکر کرنے کے بعد یوں کہا ہے کہ:

''یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے پوچھا اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟ کیا وہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں ہیں ؟'' زید بن ارقم نے جواب دیا :

لا و أیم اللّه اِنّ المرأه تکون مع الرجل العصر من الدهر ثم یطلّقها فترجع اِلیٰ أبیها و قومها أهل بیته أصله و عصبته الذین حرموا الصدقة بعده. ( ۱ )

نہیں خدا کی قسم عورت جب ایک مدت تک کسی مرد کے ساتھ رہتی ہے اور پھر وہ مرد اسے طلاق دے دیتاہے تو وہ عورت اپنے باپ اور رشتے داروں کے پاس واپس چلی جاتی ہے اہل بیت

____________________

(۱)صحیح مسلم جز ۷ باب فضائل علی بن ابی طالب ـ ،ص ۱۳۲طبع مصر.

۲۱۱

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مراد وہ افراد ہیں جو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصلی اور قریبی رشتہ دار ہیں کہ جن پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے.

یہ قول بخوبی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جن سے تمسک قرآن کی پیروی کی طرح واجب ہے ان سے ہرگز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں مراد نہیں ہیں بلکہ اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہ افراد مراد ہیں جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جسمانی اور معنوی رشتہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر چندخاص صلاحتیں بھی پائی جاتی ہوں.تبھی تو وہ قرآن مجید کی طرح مسلمانوں کا مرجع قرار پاسکتے ہیں

۲۔پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف اہل بیت ٪ کے اوصاف بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کی تھی بلکہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی تعداد (جو کہ بارہ ہے)کو بھی صاف لفظوں میں بیان کردیا تھا :

مسلم نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:

سمعت رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول: لایزال الاِسلام عزیزًا اِلیٰ اثن عشر خلیفة ثم قال کلمة لم أفهمها فقلت لأب ماقال ؟ فقال: کلهم من قریش .( ۱ )

میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو بارہ خلفاء کے ذریعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی لفظ

____________________

(۱)صحیح مسلم جلد ۶ ص۳ طبع مصر.

۲۱۲

کہا جسے میں نہیں سمجھ سکا لہذا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا فرمایا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے

مسلم بن حجاج نے اسی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت بھی نقل کی ہے :

لایزال أمر الناس ماضیًا ماولیهم اثنا عشر رجلاً .( ۱ )

لوگوں کے امور اس وقت تک بہترین انداز میں گزریں گے جب تک ان کے بارہ والی رہیں گے.

یہ دو روایتیں شیعوں کے اس عقیدے کی واضح گواہ ہیں '' کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد عالم اسلام کے بارہ امام ہی لوگوں کے حقیقی پیشوا ہیں '' کیونکہ اسلام میں ایسے بارہ خلفاء جو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بلافاصلہ مسلمانوں کے مرجع اور عزت اسلام کا سبب بنے ہوں ، اہل بیت کے بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے کیونکہ اگر اہل سنت کے درمیان خلفاء راشدین کہے جانے والے چار خلفاء سے صرف نظر کرلیا جائے پھر بھی بنی امیہ اور بنی عباس کے حکمرانوں کی تاریخ اس بات کی بخوبی گواہی دیتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے برے کردار کی وجہ سے اسلام اور مسلمین کی رسوائی کا سبب بنتے رہے ہیں اس اعتبار سے وہ (اہل بیت)کہ جنہیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ اور مسلمانوں کا مرجع

____________________

(۱) گذشتہ حوالہ.

۲۱۳

قرار دیا ہے وہ عترت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وہی بارہ امام ہیں جو سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محافظ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علوم کے خزینہ داررہے ہیں

۳۔حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبـ کی نگاہ میں بھی مسلمانوں کے ائمہ کو بنی ہاشم سے ہونا چاہیے یہ بات شیعوں کے اس نظرئیے (کہ اہل بیت کی شناخت حاصل کرنا ضروری ہے) پر ایک اور واضح دلیل ہے حضرت امام علی ـ فرماتے ہیں :

اِنّ الأئمة من قریش غرسوا ف ھذا البطن من بن ہاشم لاتصلح علیٰ مَن سواھم ولا تصلح الولاة من غیرھم۔( ۱ )

یاد رکھو قریش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشت زار میں قرار دئیے گئے ہیں اور یہ امامت نہ ان کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.

نتیجہ:

گزشتہ روایات کی روشنی میں دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :

۱۔قرآن مجید کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اہل بیت ٪ سے تمسک اور ان کی پیروی بھی واجب ہے

۲۔پیغمبر اسلام کے اہل بیت جو قرآن مجید کے ہم پلہ اور مسلمانوں کے مرجع ہیں مندرجہ ذیل خصوصیات کے مالک ہیں :

____________________

(۱)نہج البلاغہ (صبحی صالح)خطبہ ۱۴۴.

۲۱۴

الف:وہ سب قبیلۂ قریش اور بنی ہاشم کے خاندان میں سے ہیں

ب:وہ سب پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایسے رشتہ دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے

ج:وہ سب عصمت کے درجے پر فائز ہیں ورنہ وہ عملی طور پر کتاب خدا سے جدا ہوجائیں گے جبکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ دونوں(قرآن و عترت) ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں گے

د:ان کی تعداد بارہ ہے جو یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے امام ہوں گے.

ھ:پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ بارہ خلفاء اسلام کی عزت و شوکت کا سبب بنیںگے.

گذشتہ روایات میں موجود اوصاف کو مدنظر رکھنے سے یہ بات آفتاب کی مانند روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہل بیت جن کی پیروی کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایا ہے ان سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد وہی بارہ ائمہ٪ ہیں جن کی پیروی کرنے اور احکام فقہ میں ان سے تمسک اختیار کرنے کو شیعہ اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔

۲۱۵

انتیسواں سوال

کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟

جواب:حضرت علی ـ کے والد ماجد، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا جناب ابوطالب بن عبدالمطلب شیعوں کے عقیدے کے مطابق نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر مکمل ایمان رکھتے تھے اور وہ صدر اسلام کی تمام سختیوں اور مشکلات میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سب سے بڑے حامی و ناصر تھے.

خاندان جناب ابوطالب

جناب ابوطالب نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جس کی سرپرستی پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جد امجد دین ابراہیمی کے پیرو جناب عبدالمطلب کے ہاتھوں میں تھی جزیرۂ عرب کی تاریخ میں معمولی غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جناب عبدالمطلب اپنی زندگی کے سخت ترین حالات اور پر خطر مراحل کے دوران بھی خدا پرستی اور آئین توحید کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے تھے.

جس وقت ابرہہ کا لشکر ہاتھیوں پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کو ویران کرنے کے قصد سے مکہ کی طرف آرہا تھا تو اس نے راستے میں جناب عبدالمطلب کے اونٹوں کو پکڑلیا

۲۱۶

تھا اور جس وقت جناب عبدالمطلب اپنے اونٹوں کے مطالبے کے لئے ابرھہ کے پاس پہنچے تو اس نے بڑے ہی تعجب کے ساتھ ان سے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا مطالبہ تو کیا لیکن مجھ سے یہاں سے واپس جانے اور خانہ کعبہ کو ویران نہ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ؟ اس وقت جناب عبدالمطلب نے اپنے ایمان و اعتقاد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے یہ جواب دیا تھا :

أنا ربّ الاِبل وللبیت ربّ یمنعه (یحمیه) .( ۱ )

میں اونٹوں کا مالک ہوںاور اس گھر (خانہ کعبہ) کا بھی مالک موجود ہے جو خود اس کی حفاظت و حمایت کرے گا

اس کے بعدجناب عبدالمطلب مکہ کی طرف روانہ ہوگئے پھر مکہ میں خانہ کعبہ کے دروازے کی کنڈی پکڑ کر یوں کہا :

یا ربّ لاأرجو لهم سواکا

یاربّ فامنع منهم حماکا

اِن عدوالبیت مَن عاداکا

امنعهم أن یُخرّبوا فناکا( ۲ )

____________________

(۱)کامل ابن اثیر جلد ۱ ص ۲۶۱ طبع مصر ، ۱۳۴۸ھ.

(۲) گذشتہ حوالہ.

۲۱۷

اے پروردگارمیں تیرے سوا کسی سے امید نہیں رکھتا پروردگارا!تو خود ان دشمنوں کے مقابلے میں اپنے حرم کی حفاظت فرما.

اس گھرکے دشمن تجھ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں انہیں روک دے تاکہ تیرے گھر کو ویران نہ کرسکیں

اس قسم کے بلند پایہ اشعار جناب عبدالمطلب کے مومن اور خدا پرست ہونے کے واضح گواہ ہیں اسی وجہ سے یعقوبی نے اپنی تاریخ کی کتاب میں جناب عبدالمطلب کے متعلق یوں تحریر کیا ہے:

رفض عبادة الأصنام و وحّد اللّه عزّ وجلّ .( ۱ )

عبدالمطلب نے بتوں کی پوجا سے انکار کیا تھا اور آپ خدا کے موحد بندے تھے

آئیے اب یہ دیکھا جائے کہ اس مومن اور خدا پرست شخصیت کی نگاہ میں ان کے بیٹے ابوطالب کی کیا منزلت تھی؟

عبدالمطلب کی نگاہ میں ابوطالب

تاریخ شاہد ہے کہ بعض روشن ضمیر نجومیوں نے جناب عبدالمطلب کو پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روشن مستقبل اور ان کی نبوت سے باخبر کردیا تھا جس وقت ''سیف بن ذی یزان''

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی جلد۲ ص ۷ طبع مصر.

۲۱۸

نے حکومت حبشہ کی باگ ڈور سنبھالی تو جناب عبدالمطلب ایک وفد کے ہمراہ حبشہ تشریف لے گئے اس وقت ''سیف بن ذی یزان'' نے ایک اہم خطاب کے بعد جناب عبدالمطلب کو یہ خوشخبری دی ''آپ کے خاندان میں ایک عظیم القدر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لاچکے ہیں '' اس کے بعد اس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خصوصیات یوں بیان کئے:

اسمه محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یموت أبوه و أمه و یکفله جدّه و عمّه .( ۱ )

انکا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے انکے ماں باپ کا (جلد ہی) انتقال ہوجائے گااور ان کی سرپرستی ان کے دادا اور چچا کریں گے

اس وقت اس نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صفات بیان کرتے ہوئے یہ جملے بھی کہے تھے :

یعبد الرّحمٰن و یدحض الشیطان و یخمدالنیران و یُکسّر الأوثان قوله فصل و حکمه عدل و یأمر بالمعروف و یفعله و ینهیٰ عن المنکر و یبطله .( ۲ )

وہ خدائے رحمن کی عبادت کریں گے، شیطان کے دام میں نہیں آئیں گے، جہنم کی آگ کو بجھائیں گے اور بتوں کو توڑیں

____________________

(۱)سیرہ حلبی جلد۱طبع مصر ص ۱۳۶، ۱۳۷ ،اور طبع بیروت ص ۱۱۴۔۱۱۵.

(۲) گذشتہ حوالہ.

۲۱۹

گے .ان کا قول حق و باطل میں جدائی کا میزان ہوگا وہ دوسروں کو نیکی کا حکم دیں گے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں گے وہ دوسروں کو برائی سے روکیں گے اور اسے باطل قرار دیں گے

اور پھر اس نے جناب عبدالمطلب سے کہا :

اِنک لجده یا عبدالمطلب غیر کذب ( ۱ )

اے عبدالمطلب اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ آپ ان کے دادا ہیں

جناب عبدالمطلب نے جب یہ خوشخبری سنی تو سجدہ شکر بجالائے اور پھر اس بابرکت مولود کے احوال کو یوں بیان کیا:

اِنّه کان لى ابن و کنت به معجبًا وعلیه رقیقاً وا ِنّ زوجته کریمة من کرائم قوم آمنة بنت وهب بن عبدمناف ابن زهره فجاء ت بغلام فسمّیته محمدًا مات أبوه و أمه و کفلته أنا و عمّه (یعنی أباطالب) .( ۲ )

میرا ایک بیٹا تھا جس سے مجھے بہت زیادہ محبت تھی میں نے اس کی شادی اپنے شرافتمند رشتہ داروں میں سے ایک نیک سیرت خاتون ''آمنہ'' بنت وہب بن عبدمناف سے کی تھی اس

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ.

(۲)سیرہ حلبی جلد۱ ص ۱۳۷ طبع مصر.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296